Topics

اپنی جنت۔ اپنی دوزخ


                عمر کا گھوڑا پر لگا کر وقت کی راہ پر اڑا چلا جاتا ہے۔ کب ٹھہرے گا کون جانتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے روح کی ساری زندگی کہانی در کہانی ہے۔ ایک کہانی کا اختتام دوسری کہانی کے آغاز کی پیش رفت ہے۔ کاتب تقدیر نے ہر روح کی لوح پر اس کی زندگی کی کہانی لکھ دی ہے۔ روح بھی اس دنیا کے پردے پر اپنی لوح کا عکس دیکھتی ہے اور کبھی غیب کے پردے پر اپنی روح کی تحریر کو متحرک دیکھتی ہے۔ تحریر کیا ہے؟ روح کی حرکات کی لمحہ بہ لمحہ تصاویر ہیں۔ وقت کی ڈور جب ہلتی ہے تو تصویریں متحرک ہو جاتی ہیں۔ روح کی نگاہ ان تصاویر میں اس حد تک غرق ہو جاتی ہے کہ ہر تصویر احساس کا لباس پہن کر محسوساتی دنیا میں جلوہ افروز ہو جاتی ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب حیاتی دبائو کے بوجھ تلے محسوسات کے خول میں لپٹا ہوا انسان کہہ اٹھتا ہے زندگی میں نے تجھے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ عمر کے اس حصے میں دنیا کی بے ثباتی پر بار بار نظر جاتی ہے۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے ساری دنیا کمہار کا آنگن ہے۔ جس نے قسم قسم کی مٹی کے ظروف بنا کر آنگن میں پھیلا دیئے ہیں۔ مٹی کے کھلونوں کی حیثیت ہی کیا ہے۔ ذرا سی چوٹ پر ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ کمہار پھر انہیں ٹکڑوں کو جمع کرتا ہے پھر انہیں کوٹ چھان کر دوبارہ سانچوں میں ڈھالتا ہے۔ پرانی مٹی سے پھر ایک نیا ظرف تیار ہو جاتا ہے۔ یہ نیا ظرف بھی تو پرانی صورت کا عکس ہے پھر نیا پن کیا ہے؟ میں سوچ میں پڑ گئی۔ مٹی بھی پرانی، نقوش بھی پرانے، وہی آدم، وہی جانور، وہی پیڑ پودے۔ جب سے دنیا بنی آدم کو آدم ہی کہا جاتا ہے جو ایک مخصوص صورت کا حامل ہے۔ کبھی شیر آدمی نہیں کہلایا۔ نہ ہی کبھی پیڑ پودے جانور کہلائے۔ پھر قرن با قرن پرانی صورتوں میں نظر نیا پن کہاں دیکھتی ہے۔ مجھے یاد آیا ابھی پرسوں کی ہی تو بات ہے ہم اپنے چھوٹے بیٹے کے گھر گئے۔ گرمی کی وجہ سے کھانا صحن میں لگایا گیا۔ بہو نے بڑا سا پیالہ سامنے رکھا۔ اس میں جوس تھا اور ہر قسم کے پھلوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اس پر تیر رہے تھے۔ بہو نے سب کو اس میں سے پیالے بھر بھر کے دیئے۔ کہنے لگی امی یہ پنچ ہے۔ میں نے پوچھا یہ کون سا پھل کا جوس ہے؟ یہ تو بڑے مزے کا ہے۔ کہنے لگی امی میں نے جتنے بھی پھلوں کے جوس بازار میں سے ملے سب اکٹھے ملا دیئے اور کئی قسم کے پھلوں کے ٹکڑ کاٹ کر ڈال دیئے۔ Punchبن گیا۔

                اس یاد کے ساتھ ہی میرا دل اندر سے مسکرا اٹھا کہ نیا نام نئی مقداریں ہی نیا پن ہے۔ ذہن کھلا ہوا ہو، دل میں وسعت ہو تو نظر ہر شئے میں اللہ کی حکمت کا مشاہدہ کر لیتی ہے۔ میں سوچنے لگی زندگی کے سفر میں کتنے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ کتنوں کے نام یاد رہتے ہیں کتنوں کی صورتیں بھی بھول جاتی ہیں۔ جن کے نام جن کی صورتیں ہمارے حافظے میں نقش ہو جاتی ہیں وہ اگلی زندگی میں بھی تو ملیں گے ضرور۔

                ایک مرتبہ اسی سوال کے جواب میں مرشد کریم نے فرمایا تھا محبت کشتی کا نام ہے جو دو افراد کو ایک دوسرے کے قریب لے آتی ہے۔ اس دنیا میں بھی دوستی کی شرط محبت ہے۔ اور اگلی دنیا میں بھی دوستی کا یہی قانون ہے۔ ملاپ اسی وقت ہوتا ہے جب دونوں کے دلوں میں محبت ہوتی ہے۔ یکطرفہ محبت ملاپ کا باعث نہیں بنتی۔ میں نے پوچھا وہ کس طرح؟ فرمایا جیسے ہمارے پیارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے حامل ہیں۔ آپﷺ کی بے پناہ محبت اور رحمت کے جو لوگ آپﷺ کو سمجھ نہ پائے وہ آپﷺ سے دور رہے اور جن کے دلوں میں آپﷺ کی محبت و عشق رہا وہ آپﷺ سے قریب رہے اور آپﷺ کے فیض سے مستفیض ہوئے۔ فرمانے لگے۔ کشش روشنیوں کا ایک دوسرے میں جذب ہونے کا نام ہے۔ جب ایک فرد کی روشنیاں دوسرے فرد کی روشنیوں میں جذب ہو جاتی ہیں تو ان روشنیوں کے حوالے سے دونوں افراد ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں اور یہی پہچان ان کی دوستی کا باعث بنتی ہے۔ روشنیاں کثیف بھی ہوتی ہیں۔ روشنیاں لطف بھی ہوتی ہیں۔ کثیف روشنی کثیف روشنی میں ہی جذب ہوتی ہے اور لطیف روشنی لطیف میں ہی جذب ہوتی ہے۔ یہی وہ ہے کہ ایک شرابی کا پکا دوست نمازی نہیں ہوتا۔ انسان کی مثال ایک بوتل کی سی ہے۔ اس بوتل میں یا تو وہ لطیف روشنیاں بھر لیتا ہے یا کثیف۔ جو بھی روشنی ہو گی اسی کا مظاہرہ ہو گا اور اپنے ہی ہم جنس کی کشش باہم ایک دوسرے کی قریب کر دے گی جس طرح پانی میں تیل جذب نہیں ہوتا اسی طرح کثافت میں لطافت جذب نہیں ہو سکتی۔

                میں سوچنے لگی زندگی اس قدر قیمتی ہے۔ اس کی قیمت کو پہچاننے کے لئے صحیح رہنمائی بھی ضروری ہے اور پھر اس رہنمائی پر عمل بھی لازمی ہے۔ عمل ہی انسان کی بوتل میں لطیف یا کثیف روشنیاں جمع کرتا ہے۔ آسمانی کتابوں میں واضح طور پر اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیثیں بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ ایک حدیث کے مطابق آپﷺ نے فرمایا ‘‘جب کوئی مومن تیسرا کلمہ پڑھتا ہے تو جنت میں اس کے لئے ایک درخت لگادیا جاتا ہے۔’’ اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بندے کا ہر عمل ایک صورت رکھتا ہے۔ خواہ یہ صورت اسے دنیا میں دکھائی دے یا نہ دے مگر آخرت میں وہ انہیں دیکھے گا اور اپنے اعمال و افعال کے حوالے سے انہیں پہچان بھی لے گا۔ عمل اچھا ہو گا تو جنت کی کوئی نہ کوئی شئے حاصل ہو جائے گی اور اگر عمل برا ہو گا تو دوزخ کی کوئی نہ کوئی شئے حاصل ہو گی۔ انسان اپنی جنت اور اپنی دوزخ ہر وقت ساتھ لئے پھرتا ہے۔ زندگی کا ہر دور نئے تقاضے لے کر آتا ہے ان تقاضوں کی بنیاد بھی علم پر ہے۔ بچپن، جوانی، بڑھاپے میں علم ہی اس دور کا شعور بنتا ہے اور اسی مناسبت سے تقاضے بھی ابھرتے ہیں مگر ہر دور میں مستقبل کا خیال آدمی کو آنے والے وقت کے ساتھ منسلک رکھتا ہے تا کہ آنے والے وقت میں اپنے آپ کو فٹ کرنے کے لئے احتیاطی تدابیر کر لی جائے۔ لڑکپن کے تانے بانے پر جوانی کے نقوش ابھرتے رہے۔ جوانی کے تانے بانے بڑھاپے کے نقش و نگار بنتے رہے اور اب بڑھاپا پھر ایک نئے مستقبل کی نشاندہی کر دہا ہے۔ نیا مستقبل، نیا عالم، نیا دور میرا سارا انہماک اس نئے عالم کی جذب ہو گیا جو موت کی دہلیز کے اس پار ہے۔ مجھے یاد آیا میرے شیخ نے کن خوبصورت الفاظ میں زندگی اور موت کا فلسفہ کس حسن و خوبی کے ساتھ بیان کیا تھا۔ فرمایا۔

                ‘‘زندگی اور موت گویا روح کے دو لباس ہیں۔ زندگی کا لباس پہن کر روح دنیاوی زندگی کا لطف اٹھاتی ہے اور موت کا لباس پہن کر غیب کے عالم میں موجودگی کا لطف اٹھائے گی۔ جس طرح آدمی ایک لبا س اتار کر دوسرا لباس پہنتا ہے۔ روح بھی زندگی کا لباس اتار کر موت کا لباس پہنتی ہے مگر کوئی بھی ذی عقل سربازار کپڑے نہیں بدلتا۔ اس کام کے لئے موزوں جگہ تلاش کی جاتی ہے جو لباس بدلنے کی تیاری ہے اسی طرح موت کی تیاری بھی ضروری ہے۔’’

                میری موٹی عقل میں شیخ کی باریک بات سوئی میں دھاگے کی طرح سما گئی۔ میں نے ایک نئے عزم کے ساتھ پوچھا۔‘‘اس تیاری کے لئے انسان کو کیا کرنا چاہئے۔’’ فرمایا۔ ‘‘اپنی صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ وسیع پیمانے پر استعمال میں لانا چاہئے۔ آدمی اس صلاحیت کو زیادہ وسعت دے سکتا ہے جس سے پہلے ہی واقف ہو۔ مثلاً کوئی شخص اگر آرٹسٹ ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ تصویریں بنا کر اس لائن میں اپنا نام پیدا کر سکتا ہے مگر یاد رکھو جس کام میں اللہ کے لئے کرنے کی نیت کی جائے وسعت اس کو حاصل ہوتی ہے۔ نفسانی اور دنیاوی اغراض سے کیا گیاہر کام محدودیت میں قید ہو جاتا ہے۔ ‘‘شیخ کی اس نصیحت کو حبیب بھی اچھی طرح سمجھ گئے۔ اب ان کا بھی جی چاہتا ہے کہ کوئی ایسا کام کریں جو عمر کی تمام کوتاہیوں کی تلافی کر سکے۔’’

                ایک دن ہم اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ سردی کا موسم تھا برف پڑ رہی تھی۔ کھڑکی کے شفاف شیشوں سے نظر دور دور تک پہنچ رہی تھی۔ پیڑ پودے، مکانات، زمین ہر چیز برف سے ڈھکی ہوئی تھی جیسے کسی نے ہر شئے پر سفید چادر پھیلا دی ہو کچھ دیر تک ہم دونوں برفباری کے اس خوبصورت منظر کو دیکھتے رہے۔ برف کی سفیدی ہمارے اندر کے تقدس کو ابھارتی رہی۔ خیالات بھی برف کی طرح صاف صاف آنے لگے۔ میں نے کہا حبیب دیکھو فطرت کا ہر کام وسعت ہی ہے۔ برفباری، بارش، ہوا، سبزہ، آسمان، زمین غرضیکہ ہر وہ شئے جس میں فطرت کا براہ راست عمل دخل ہے ان کا مظاہرہ اجتماعیت میں ہو رہا ہے۔ چاند سورج کی روشنی بھی سارے جہاں کو منور کرتی ہے اور جو شئے بھی فطرت کے ارادے پر کام کرتی ہے وہ مخلوق کو اجتماعی طور پر فائدہ پہنچاتی ہے۔

                حبیب بولے۔ سوائے انسان کے۔ میں نے کہا۔ جب تک انسان اپنا ذاتی ارادہ استعمال کرتا ہے اس کا عمل کرتا ہے اس کے اعمال و افعال میں وسعت آ جاتی ہے۔ حبیب کہنے لگے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر وہ عمل جس کا فائدہ و اثر اجتماعیت میں ہو رہا ہے وہ اللہ کی رضا کے عین مطابق ہے۔ کہنے لگے۔ شمامہ اب میرا بھی جی چاہتا ہے کہ کوئی ایسا کام کیا جائے جس میں اللہ تعالیٰ ہم سے بہت خوش ہو جائیں۔ میں نے کہا۔ چلو دونوں مل کر اس بات پر سوچتے ہیں کہ ایسا کون سا کام ہم کریں کہ اللہ ہم سے خوش ہو جائے۔

                جانتے ہو حبیب میں بھی دو تین دن سے یہی سوچ رہی تھی کہ ہم نے اپنی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے مگر اس کے باوجود بھی ہم اپنی زندگی سے مطمئن اور خوش ہیں۔ کامیاب زندگی کے تجربوں میں دوسروں کو بھی تو شامل کیا جا سکتا ہے۔ جب ہم نے اپنی ازدواجی زندگی کا تجزیہ کیا تو جو بنیادی بات ہمیں اس میں دکھائی دی وہ یہ تھی کہ ہم نے اپنی گھریلو زندگی میں کسی بھی رشتے دار کے عمل دخل کو اپنے اوپر مسلط نہیں کیا۔ گھر کے ہر معاملے میں فیصلہ ہم دونوں کے ہی مشورے سے ہوتا رہا۔ جو میں نے کہا وہ حبیب نے مان لیا جو حبیب نے کہا وہ میں نے مان لیا۔ اپنی زندگی کے بڑے سے بڑے کام میں بھی ہم نے دوسروں سے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ جیسے حبیب کا انگلینڈ آنے کا پروگرام۔ مکان بنوانے کا ارادہ۔ بچوں کی شادیوں کے فیصلے۔ ان تمام کاموں میں ہم نے کسی رشتہ داروں سے نہیں پوچھا۔ البتہ اگر کسی نے کوئی مشورہ دیا بھی تو وہ اگر ہمارے من کو بھایا اور مارے لئے سود مند ہوا تب ہم نے مانا۔ بچے جب جوان ہوئے تو انہیں بھی اپنے کاموں اور مشوروں میں شامل کرتے رہے۔ تمام بچوں کی شادیاں ان کی مرضی کے مطابق کیں اور شادی کے بعد ان کی زندگی میں دخل انداز نہیں ہوئے۔ البتہ جب بھی انہیں کسی مدد کی ضرورت ہوئی ضروری کر دی۔ ہم نے اپنے بچوں کے اندر شروع سے ہی یہی فکر منتقل کرنے کی کوشش کی کہ گھر کی مثال ایک ملک کی سی ہے۔ اس ملک کا بادشاہ اور رانی میاں بیوی ہوتے ہیں۔ لہٰذا گھریلو معاملات میاں بیوی کے ہی ارادے اور فیصلوں کے مطابق ہونے چاہئیں۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ سب کے اندر قوت ارادی و قوت فیصلہ بڑھ گئی اور سب آزادی کے ساتھ اپنی زندگی میں مگن ہو گئے۔ اس سے ان کے اندر اپنی غلطیوں کو اور اپنی ناکامیوں کو درست کرنے کا حوصلہ بھی پیدا ہو گیا۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس کے ارادوں میں آزاد بنایا ہے۔ ہم نے محسوس کیا کہ بڑوں کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے اندر صحیح قوت فیصلہ پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ صحیح قوت فیصلہ ہمیشہ فرمانبرداری کے ذہن سے پیدا ہوتی ہے۔ جس کے لئے ادب بنیادی ضرورت ہے۔ ہر مذہب اخلاقیات کا درس دیتا ہے۔ اخلاقیات ہی وہ راستہ ہے جس راستے پر چل کر نوع انسانی کی طرز زندگی دوسری انواع سے علیحدہ ہو جاتی ہے۔

                آج کے دور میں نسل انسانی مشکلات و مصائب میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ خواہ وہ انسان یورپ کا باشندہ ہو، ایشیا کا یا افریقہ کا ہر جگہ بے سکونی کا دور دورہ ہے۔ زندگی بھر کا تجربہ یہی کہتا ہے کہ اس کی وجہ اخلاقیات کا فقدان ہے۔ اخلاقی طرز میں بشری فطرت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ہر شئے کو اس کی فطرت پر پیدا کیا ہے اور فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ مذہب میں اخلاقیات کا درس دراصل بشر کو اس کی فطرت اور طبعی حالت سے آگاہ کرنا ہے۔ وہ طبعی فطرت جس پر اللہ تعالیٰ نے بشر کو پیدا کیا ہے ۔ان کی حدود میں رہ کر ہی انسان اپنی شناخت کو قائم و برقرار رکھ سکتا ہے۔ بصورت دیگر جب وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود کی پاسداری نہیں کرتا تو وہ انسانیت کے درجے سے نیچے جا پڑتا ہے۔ نچلا درجہ جانوروں کا درجہ ہے۔ بشر کے اندر حیوانی تقاضے موجود ہیں مگر ان تقاضوں کی تکمیل کے لئے انسان اور حیوان کے راستے جدا جدا ہیں۔ ایک جنسی تقاضے کو ہی لے لیجئے جو آج کل بشری شناخت کے منانے میں اپنا پورا پورا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کی وجہ بھی ہمارے سامنے ہے کہ انسان اپنے جنسی تقاضوں کو انسانی سطح کے بجائے حیوانی سطح پر پورا کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اس تقاضے کی اہمیت اور حکمت سے واقف نہیں ہیں۔ نہ ہی جاننے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ دھیان صرف جسمانی آلودگی کی جانب لگا ہوا ہے جو جانوروں کا تقاضہ اور طرز زندگی ہے۔ انسان کے لئے اللہ نے اپنے اندر موجود ہر تقاضے کو جاننے، سمجھنے اور ان کی تکمیل کی حدیں مقرر کی ہیں۔ انسان کی فضیلت علم میں ہے۔ آج کی دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ جنسی قوت تخلیقی قوت ہے۔ اس قوت کو بیدردی سے پامال کرنے سے آدمی کے اندر دماغی اور جسمانی قوتوں میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کا ذہن تعمیری خیالات و فکر سے خالی ہونے لگتا ہے۔

                 ہم نے سوچا کہ آج کے دور میں جگہ جگہ ایسے اسکول قائم ہونے چاہئیں جہاں نوجوان نسل کو اس کے اندر اٹھنے والے تقاضوں کی نشاندہی کی جائے۔ ان کو حکمتوں سے آگاہ کیا جائے۔ ان تقاضوں کی تکمیل کے لئے اللہ کی مقرر کردہ حدود کی تعلیم دی جائے اور ان پر عمل پیرا ہونے میں ان کی Guidanceاور مدد کی جائے تا کہ انسان کی شخصیت کا تعفن ختم ہو کر اس کی طبعی خوشبو زمین اور آسمانوں میں پھیل جائے۔

 

 


Khushboo

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔

دعا گو:

                                        خواجہ شمس الدین عظیمی