Topics

شکر


                اپنا مکان خالی کرانے کے سلسلے میں نو ماہ مسلسل ذہنی دبائو سے نجات پا کر ہم نے سکون کا سانس لیا۔ ہم دونوں اس بات پر بہت مطمئن تھے کہ ہم نے کبھی ان سے ترش کلامی کا جواباً ارادہ نہیں کیا۔ میں سوچتی کارخانہ قدرت میں سب اپنا اپنا کردار نبھا رہے ہیں۔ سب پر اللہ کی نظر ہے۔ کوئی اللہ کی نظر سے نور کی لطافت و ٹھنڈک جذب کرتا ہے۔ کوئی اللہ کی نظر سے اس کے جلال و عظمت کی تپش جذب کر لیتا ہے۔ نور کی لطافت بندے کے اندر سکت پیدا کرتی ہے اور جلال کی روشنی بندے کے حواس پر دبائو ڈالتی ہے۔

                میں سوچتی ہم حقیقت کو جانتے ہوئے بھی حقیقت سے کس قدر دور ہیں۔ ہر مسلمان یہ جانتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور اس کے ظاہر و باطن دونوں پر اس کی نظر یکساں طور پر کام کر رہی ہے۔ پھر اس کی موجودگی کو ہم کیسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ہمارے دلوں کو اس کی موجودگی کا پختہ یقین ہوتا تو اس کی رضا کے خلاف اعمال پر کیوں قائم رہتے۔ ہمارے لئے یہ واقعہ قدرت کی جانب سے یقین اور بے یقینی کا عملی اور تجرباتی درس تھا۔ قدرت ہمیں مزید آزمائشوں سے گزارنا چاہتی تھی۔

                گھر تو سیٹ ہو گیا تھا مگر ملک کے ناگفتہ حالات نے کاروبار سیٹ نہ ہونے دیا۔ ڈیڑھ سال کے اندر تمام سرمایہ ختم ہو گیا۔ تو ہم دونوں نے فیصلہ کیا کہ ہمیں اب یہاں سیٹ ہونے کا خیال دل سے نکال دینا چاہئے۔ ہمارے لئے انگلینڈ بہتر رہے گا۔ طے یہ پایا کہ پہلے حبیب اور بڑا لڑکا جائیں گے۔ پھر میں اور تینوں بچے آ جائیں گے۔ انگلینڈ کا مکان کرایہ پر دیا تھا۔ جو چند ماہ میں خالی ہونے والا تھا۔ پہلے دونوں باپ بیٹے گئے۔ یہاں پر مکان کا دو سال کا کرایہ جمع تھا اس سے ایک چھوٹا مکان خریدا اور پہلے والا مکان مزید ایک سال کے لئے کرائے پر دے دیا اور حبیب نے ہم سب کو بلا لیا۔ تین چار ماہ بعد ہم سب ہی واپس آئے۔ یہ مکان بہت چھوٹا تھا۔ اس میں فرنیچر بھی نہیں تھا۔ کارپٹ بھی نہیں تھے۔ آتے ہی سارے بچے خود ہی بغیر بتائے سارے سچویشن کو سمجھ گئے۔ سب نے اسکول سے آ کر شام کے وقت پارٹ ٹائم جاب کر لی۔ میں نے بھی ایک جگہ نوکری ڈھونڈ لی۔ اس طرح ہم سب یہاں دوبارہ سیٹ ہونے کے لئے مل کر کوششیں کرنے لگے۔

                ابھی آئے ہوئے تین چار ہفتے ہی ہوئے تھے۔ ایک دن ایک بیٹا بڑی حسرت سے کہنے لگا امی وہاں ہمارا کتنا بڑاگھر تھا۔ کتنے اچھے صوفے تھے۔ یہاں تو بیٹھنے کو ایک کرسی بھی نہیں ہے۔ بیٹے کی بات سن کر میں ایک انجانے خوف سے لرز اٹھی۔ میں نے چاروں بچوں کو پاس بلایا۔ پھر میں نے انہیں کہا بیٹے جب ہم پہلے دن وہاں گئے تو وہاں بھی سامان نہ تھا۔ فرنیچر کارپٹ وغیرہ نہیں تھے۔ پھر ہم نے خریدے۔ گھر سیٹ ہو گیا۔ اب یہاں آئے ہیں تو پھر وہی حال ہے ہم محنت سے کام کریں گے۔ جمع کر کے ضرورت کا سامان خرید لیں گے۔ زندگی تو ایسے ہی چلتی رہتی ہے۔ لیکن اگر تم لوگ گذشتہ چھوڑے ہوئے ساز و سامان کو یاد کرتے رہو گے تو موجودہ زندگی میں ملنے والی نعمتوں کو حقیر سمجھنے لگو گے۔ ذرا سوچو۔ اگر ہمیں فوراً یہ مکان اللہ نہ دیتا تو ہم اس سے بھی زیادہ پریشان ہوتے۔ خبردار آج کے بعد وہاں کا ذکر نہ کرنا۔ جو چھوٹ گیا۔ چھوٹ گیا۔ جو پاس ہے وہی سب کچھ ہے۔ ان نعمتوں کے لئے اللہ کا شکر کرتے رہو۔ اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے اس دن کے بعد پھر کبھی بچوں نے اس گھر کا ذکر بھی نہ کیا۔ جیسے سب کچھ ان کے ذہن سے نکل گیا تھا۔ ہم سب نے مل جل کر بہت جلد یہاں بھی گھر سیٹ کر لیا۔

                ال بعد اپنا پرانا گھر خالی ہو گیا۔ بچے اپنی اپنی پڑھائی میں لگ گئے۔ حبیب نے اپنی دکان سنبھال لی۔ زندگی پھر اپنے ٹریک پر چلنے لگی۔ میں اکثر سوچتی کہ گھر میں سکون کی فضا ہو تو زندگی کتنی آسان ہو جاتی ہے۔ اس بار پاکستان سے آ کر ہم سب نے یہ بات محسوس کی کہ انسان ہر جگہ اور ہر حال میں پرسکون رہ سکتا ہے۔ حبیب کا بھی یہی کہنا تھا کہ ہمارے بچے ایسٹ اور ویسٹ دونوں ماحول سے مانوس ہو چکے ہیں۔ دونوں کے فرق سے آگاہ ہو چکے ہیں۔ یہ اچھی بات ہے۔ اب بجائے اس کے کہ بچوں کی طرز فکر صرف مغربی ہو جائے اور وہ مغربی ماحول میں پوری طرح گم ہو جائیں ان کی طرز زندگی میں مشرقیت بھی گھل مل گئی ہے۔ اس طرح وہ اپنے نسلی افتخار اور مذہبی وقار کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ ہمیں گذشتہ ناکامیوں کا ذرا بھی افسوس نہ تھا۔ ہمارے لئے زندگی کی ہر حرکت ایک عملی تجربہ تھی اور ہماری نگاہ اس تجربے سے حاصل ہونے والے نتیجے کی جانب رہتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہم سب ہر حال میں خوش باش رہتے تھے۔            

                پاکستان سے واپس آ کر تقریباً ایک سو سال تو ہم سب کی توجہ زیادہ تر دنیاوی ضروریات کی جانب لگی رہی جو اس وقت کے تقاضے کے عین مطابق تھا۔ رمضان کا مہینہ آیا تو عملی طور پر ذہن زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی جانب لگ گیا۔ اس دوران پھر وہی کشف واردات ہونے لگیں مگر یہ مستقل نہ تھیں۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ میں ہفتے میں چھ دن صبح سے شام تک Jobپر ہوتی تھی۔ ارادے میں یہی تھا کہ پھر پہلے کی طرح سیٹ ہو جائیں تو دھیان بھی اسی طرف رہتا تھا۔ مگر اب میرے دل کو پکا یقین تھا کہ اللہ پاک مجھے جو خصوصی علوم عطا کرنا چاہتے ہیں اس میں زیادہ دیر نہیں لگے گی اور اب سے دس بارہ سال پہلے جو پیشگوئیاں کی گئی تھیں ان کے پورے ہونے کا وقت قریب آ گیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے بال بچوں سمیت پوری توجہ گھر بار سیٹ کرنے میں لگا دی تھی تا کہ بعد میں اطمینان سے سارا دھیان اور وقت ان علوم کے سیکھنے میں صرف کر دوں۔ میرا جی ہر وقت یہی چاہتا کہ جلدی سے یہ کام ختم ہوں اور میں پوری توجہ پھر روحانی علوم کی جانب لگا دوں۔ رمضان بھی گزر گیا بقر عید بھی گئی اور محرم آ گیا۔ یہ ماہ میرے لئے نہایت ہی مبارک ظابت ہوا۔ ویسے بھی اب حالات معمول پر تھے اور چھ دن کام کرنے کے باوجود میرا ذہن مطمئن تھا۔ اب میں نے دوبارہ قرآن با ترجمہ پڑھنے اور اس میں غور و فکر کرنے کا روٹین بنا لیا۔ ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو روحانی صلاحیتوں کے بارے میں بتاتی رہی کہ ہر انسان کے اندر یہ صلاحیتیں موجود ہیں۔ اللہ نے انسان کو اسی لئے دنیا میں بھیجا ہے کہ وہ ان پوشیدہ صلاحیتوں کو بیدار کرے۔ یہ صلاحیتیں اسی وقت بیدار ہوتی ہیں جب ذہن و قلب شفاف آئینے کی طرح صاف اور پاک ہو۔ قرآن پڑھ کر مفہوم بھی ذہن میں آتے وہ تو میں ہمیشہ ہی حبیب کو بتاتی تھی۔

                اب روزانہ کا پھر دوبارہ یہی معمول بن گیا۔ دل کو تسلی ہوئی یوں محسوس ہوا جیسے روح کے کندھوں سے دنیا کا بوجھ کم ہو گیا ہے اور وہ اپنے آپ کو ہلکا محسوس کر رہی ہے۔

                محرم کے مہینے میں ایک دن قرآن کی آیات میں غور کر رہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن میں بار بار خیال آ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک حضور پاکﷺ کا رتبہ کیا ہے۔ یہ تو مجھے معلوم تھا کہ حضور پاکﷺ اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں مگر میرا جی چاہتا تھا کہ میں آپﷺ کے اندر موجود انوار و تجلیات کا مشاہدہ کروں۔ میرے اندر شدت سے یہ بات جاننے کا تقاضہ پیدا ہوا کہ اللہ نے جو ایک بندے کو اپنا محبوب کہا ہے تو محبوبیت کی عظمت کیا ہے۔ میرا جی چاہتا کاش میں اس عظمت کو جان لوں۔ مجھے اب بھی وہ لمحہ واضح طور پر یاد ہے جب رات کے وقت میں قرآن پڑھ رہی تھی۔ سورہ نجم میں حضور پاکﷺ کے معراج کا ذکر آیا۔ اس کے اندر حضور پاکﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنے سے قریب کر لیا تھا اور آپﷺ کے ساتھ راز و نیاز کی باتیں کی تھیں۔ میں نے بچپن ہی سے اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کے عشق کی ڈور سے بندھا پایا تھا۔ میں قلبی طور پر اس بات سے واقف تھی کہ یہی ڈور میری زندگی کا وہ راستہ ہے جس پر چڑھ کر مجھے اپنے رب کے پاس پہنچنا ہے۔ عشق کی تکمیل وصال محبوب ہے اور جب تک وصال نصیب نہیں ہوتا۔ عاشق کا گزر آگ کے شعلوں کے درمیان سے ہے۔

                قرآن میں محبوبﷺ سے راز و نیاز کا ذکر پڑھ کر عشق کی سلگتی آگ ایک جولا مکھی کی طرح پھٹ پڑی۔ دل بار گاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہو گیا۔ روح نے عظمت حبیبﷺ کے آگے اپنے گھٹنے ٹیک دیئے اور ادب کے مقام پر سوال کیا۔ اے میرے رب محبوبیت کی شان دکھلا۔ یہ ایک عجیب تقاضہ تھا۔ شاید میری روح رحمت اللعالمینﷺ کے انوار سے اپنے عشق کی آگ بجھانا چاہتی تھی۔ وہ محبوبیت کے آداب اپنے پیغمبر سے سیکھنا چاہتی تھی۔ روح کا ہادی تو پیغمبر ہی ہے اس لمحے حقیقت رسول اکرمﷺ دل پر ظاہر ہوئی۔ آپﷺ کی نگاہ شوق ذات باری تعالیٰ کے نور کی بلندیوں کو چھوتی دکھائی دی۔ میری روح اور میرے دل نے اعتراف کیا کہ آپﷺ کی شان عظمت درحقیقت سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں جان سکتا۔

                اس کے بعد مسلسل مشاہداتی تعلیم کا ایک سلسلہ چل نکلا۔ ماں کے رحم کے اندر بچے کی تخلیق اور اس کے حواس کے مختلف مراحل دکھائے گئے۔ قرآن میں غور کرنے سے جو جو سوالات میرے ذہن میں اٹھتے ان کا جواب مجھے میری عقل کی سکت کے مطابق مل جاتا۔ میں جان گئی کہ مجھ پر اللہ پاک کے محبوبﷺ کی رحمت نے احاطہ کر لیا ہے۔ تیسرے دن مجھے روزانہ تہجد کے وقت عبادت کرنے کا حکم دیا گیا اور روزے رکھنے، زیادہ دیر تک جاگنے کا حکم دیا گیا۔ اس مرتبہ حبیب پہلے سے کہیں زیادہ میری ان روحانی کیفیات میں دلچسپی لینے لگے۔ انہوں نے میرے ساتھ پورا تعاون کیا۔

                ان دنوں میں مسلسل لاشعوری حواس میں رہتی۔ رات کے بارہ بجے میں نیچے ایک مخصوص کمرے میں آ جاتی اور تیسرے دن سے مجھے مشاہدہ کرایا گیا۔ ہر روز رات کو صبح فجر تک یہی سلسلہ چلتا۔ مجھ پر روزن ایک ایک کر کے کھولے جاتے اور ان روزن سے انوار شعور میں منتقل اور جذب کئے جاتے اور ان انوار و تجلیات کی صفات اور شناخت سے آگاہی کرائی جاتی۔ اس لمحے مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے میں مردہ ہوں۔ میرے شعور میں کوئی خیال نہ آتا۔ ذہن قطعی طور پر خالی رہتا۔ بس لاشعوری طور پر یہ تعلیمی سلسلہ جاری رہتا۔ اس دوران مجھے یہ بات بتائی گئی کہ تمہاری ماں کو نور کی حقیقت جاننے کا بہت اشتیاق تھا۔ اسی لگن میں وہ نور نامہ بہت شوق سے پڑھا کرتی تھیں۔ ان ہی کی دعا سے تمہیں یہ علوم دیئے جا رہے ہیں۔ ان علوم کے دوران کئی مرتبہ مجھے یہی بات بتائی گئی جس سے مجھے معلوم ہوا کہ ماں باپ اولاد کے اندر اپنی فکر کے بیج بوتے ہیں۔ اگر بیج اچھا اور زمین زرخیز ہو تو تخلیق کا عمل اپنے مراحل طے کرتا ہوا تناور درخت بن جاتا ہے۔ وگرنہ نشوونما راستے میں ہی رک جاتی ہے۔ ماں کے رتبے کا تو مجھے پہلے ہی اندازہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ماں کو بہت بڑا درجہ دیا ہے مگر اب یہ حکمت معلوم ہوئی کہ ماں کا رتبہ کیوں بڑا ہے۔ اس لئے کہ ماں بچے کے اندر اپنی فکر اور ارادہ منتقل کرتی ہے۔ پھر یہی فکر تکمیلی مراحل کو پہنچ کر بچے کے ذریعے ظہور میں آ جاتی ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر پھر ایک بار میرے دل نے عہد کیا۔ اے ماں! میں انشاء اللہ تیری خوشبو سے سارے جہاں کو مہکا دوں گی۔ میں ہی وہ خوشبو دان ہوں جو تیری خوشبو سے بھرا ہوا ہے۔ میرا دل ماں کے احسانوں کے آگے جھک گیا۔

                میں نے حبیب کو اوربچوں کو ماں کے رتبے اور درجات کے متعلق بتایا کہ ماں باپ کو خوش رکھنے سے ماں باپ اولاد کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ یہ دعائیں اللہ کے یہاں مقبول ہو کر اولاد کے لئے نجات کا باعث بنتی ہیں۔ حبیب یہ سن کر فوراً بول اٹھے۔ ضرور میری ماں نے مجھ سے خوش ہو کر کبھی مجھے اچھی سی دعا دی ہو گی۔ جس کے نتیجہ میں مجھے تم ملیں۔ میں خوشی سے ہنس پڑی۔ سارے بچے خوش ہو گئے۔ مجھے یوں لگا جیسے ہماری مائیں بھی ہماری خوشی میں شامل ہیں۔

                اس نور کے علوم کے ساتھ ساتھ مجھے سانس کی مشقیں بھی کرائی جاتیں۔ رات کے بارہ بجے سے میں نیچے کمرے میں آ جاتی۔ پھر جس طرح عبادت کرائی جاتی اسی طرح کرتی۔ یوں لگتا جیسے میری عقل یا ارادہ بالکل سلب ہو چکا ہے۔ بس جو کچھ انفارمیشن دماغ میں آتی اس پر عمل ہوتا۔ بلکہ میری تو اس طرح سمجھ میں آتا تھا کہ میری عقل یا شعور سلب کر لیا گیا ہے اور دل کے اندر کوئی حکم دیتا جا رہا ہے اور اس حکم کے مطابق میرے تمام اعضاء عمل کر رہے ہیں۔ یہ حکم اللہ کی جانب سے ہے۔ نفل نماز تو زیادہ تر صرف دو رکعت ہی پڑھتی مگر پھر مصلے پر بیٹھ کر مراقبہ میں چلی جاتی یا پھر کھڑے ہو کر اللہ پاک کی بارگاہ میں قیام ہوتا جس میں دھیان مسلسل لاشعور کی جانب لگ جاتا اور کیفیات و واردات مشاہدے میں آتے۔ یہاں تک کہ جب جسمانی حواس کا تذکرہ آتا تو جسمانی حصوں کے ذریعے بھی مشاہدہ کرایا جاتا۔ مثلاً خوشبو، رنگ، ذائقہ، لمس وغیرہ۔

                انوار کی منتقلی اور مشاہدے سے پہلے مجھے سانس لینے کے لئے کہا جاتا۔ مجھے حکم ہوتا کہ میں لیٹ جائوں۔ میں کمرے میں بچھے ہوئے بڑے صوفے پر چت لیٹ جاتی۔ یہ سانسیں بھی عجیب و غریب تھیں۔ ایسا ہوتا کہ اندر سانس لیتی تو جیسے سانس باہر نکالنا ہی بھول جاتی۔ میں بالکل ہی ٹرانس میں چلی جاتی تھی۔ کئی کئی منٹ بعد اس طرح ہچکی نما سانس ہلکا ہلکا ساباہر آتا جیسے کسی کا سانس بند ہونے کے بعد دوبارہ جاری ہوتا ہے۔ چند بار تو سانس اتنی گہری تھی کہ میں جان گئی کہ میں مر چکی ہوں۔ جب پہلی مرتبہ ایسا تجربہ ہوا کہ میری سانس ایک دم سے منقطع ہوئی تو میرے دل سے آواز آئی میں مر چکی ہوں۔ میرے اندر ایک سیکنڈ کے چوتھائی حصے سے بھی کم خیال گزرا۔ میرے بچوں کا کیا ہو گا۔ اسی لمحے میں نے دیکھا کہ میری روح کو ایک روشنی نے ڈھانپ لیا جیسے چادر اوڑھا دی۔ اس میں مجھے اللہ پاک کی بے پناہ محبت کا احساس ہوا۔ اسی وقت دل سے خطرہ ٹل گیا۔ میں اپنے جسم سے بالکل غافل ہو کر کسی اور جہاں میں موجود تھی۔ تقریباً پندرہ بیس منٹ یہ کیفیت جاری رہی۔ اس طرح تین چارمرتبہ ہوا۔ جب بھی میرے ذہن میں موت کا خطرہ آتا فوراً ہی دل کہہ اٹھتا۔ اللہ پاک کبھی اپنے سے محبت کرنے والوں کو ضائع نہیں کرتا۔ البتہ میں نے حبیب سے کبھی سانسوں کی مشقوں کا ذکر نہیں کیا۔ وہ ڈر جاتے اور مجھے رات بھر اکیلے کمرے میں نہ رہنے دیتے۔ میں جانتی تھی کہ ریاضتوں کے بغیر مشاہدات نہیں ہوتے۔

                اب میرا یہ معمول بن گیا کہ رات بھر تنہائی میں مجھ سے ریاضتیں کرائی جاتیں۔ غیبی مشاہدات کے ذریعے علوم عطا ہوتے۔ صبح صبح فجر کی نماز پڑھ کر میں واپس کمرے میں آ کر ایک ڈیڑھ گھنٹہ سو جاتی۔ پھر اٹھ کر جاب پر چلی جاتی۔ ان دنوں میں حبیب کی جگہ دکان پر کام کرتی تھی اور حبیب کہیں اور کام کر رہے تھے۔ اب تمام بچے اپنی پڑھائی سے لگے تھے۔ میں روز صبح دکان پر بیٹھتے ہی رات بھر کی واردات قلمبند کر لیتی۔ لکھتے لکھتے احساس میں گہرائی آ جاتی مگر بازار میں بیٹھے ہوئے تمام کیفیات کو دل کے اندر چھپانا پڑتا۔ بعض وقت عشق الٰہی کا ایسا غلبہ ہوتا کہ آنکھ میں آنسو آ جاتے۔ میں بار بار آنکھیں ملتی کہ بازار میں چلنے پھرنے والے میری بھیگی پلکوں کے اسرار سے واقف نہ ہو جائیں۔

                میں جانتی تھی کہ یہ سب میرے مشاہدے میں شامل ہے مگر اہل درد خوب جانتے ہیں کہ لاشعوری حواس کے غلبے میں بھرپور شعوری زندگی گزارنا کیسی مشکل بات ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی دنیا دار تن تنہا جنگل پھنسے۔ جب دل کا تقاضہ کچھ اور ہو اور حالات کا تقاضہ اس کے برعکس ہو تو ایسے میں دونوں تقاضوں کو برقرار رکھنا ہی مجاہدہ نفس ہے۔ اس بھرپور عملی و مجاہداتی دور میں رگ گلو سے قریب بسنے والی ہستی کو اپنا سب سے زیادہ دوست اور ہمدرد پایا۔ میں صبح جب دکان میں قدم رکھتی تو اللہ تعالیٰ سے کہتی۔ اے میرے رب تجھ سے بڑھ کر نہ مجھے کوئی جان سکتا ہے نہ دیکھ سکتا ہے۔ میں تیرے حکم پر اپنی واردات و کیفیات کو قلمبند کر رہی ہوں۔ جب تک میرا کام پورا نہ ہو، میری دکان پر کسی گاہک کو نہ بھیجنا۔ روزانہ صبح نو بجے میں یہ کہہ کر لکھنے بیٹھ جاتی اور تقریباً بارہ بجے تک لکھتی رہتی۔ جب لکھ چکتی تو کام کے لئے کھڑی ہو جاتی اور اللہ میاں سے کہتی۔ اے میرے رب اب میرے پاس گاہک بھیج تا کہ میری دنیاوی ضرورت پوری ہو۔

                عام طور پر یہ ہوتا کہ صبح جاتے وقت حبیب کہتے شمامہ آج فلاں بل دینا ہے۔ اتنے پیسوں کی ضرورت ہے۔ ان کے چہرے پر فکر مندی کے آثار نمایاں ہو جاتے۔ میں بھانپ لیتی کیونکہ میں خوب جانتی تھی کہ کسی کے چار پیسے بھی دینے ہوں گے تو حبیب بہت ہی فکر مند ہو جاتے ہیں۔ بلوں کی ادائیگی تو وہ ہمیشہ ہی وقت سے پہلے کر دیا کرتے کیونکہ جب تک ادا نہیں کرتے انہیں چین نہیں آتا تھا۔ یہ کہہ کر حبیب مجھ پر اپنی فکروں کا بوجھ ڈال دیتے۔ میں اپنی فکریں اپنے رب کے سامنے پیش کر دیتی۔ اللہ میاں سے کہتی۔ اللہ میاں آج مجھے اتنے پیسے چاہئیں میں اپنے شوہر کو پریشان نہیں دیکھ سکتی۔ شام کو اتنے ہی پیسے میرے پاس ہوتے۔ اکثر دو چار پونڈ زیادہ ہی ہوتے۔ میں سوچتی اللہ اور بندے میں جو قربت ہے کوئی بندہ اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ اللہ سے بڑھ کر کوئی کسی سے محبت نہیں کر سکتا۔ وہ دلوں کی سرگوشیاں سننے والا ہے۔ دن بدن میرا جی چاہتا میں کسی طرح اللہ تعالیٰ کو جان لو، پہچان لوں۔ اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں۔ اسمائے الٰہیہ کے انوار کے مشاہدات کے بعد ہر وقت میرا ذہن اسی سوچ میں رہتا کہ ہر اسم الٰہی اس کی صفات کا ایک رنگ ہے۔ اپنے جمال کے ان بے شمار رنگوں کے ساتھ وہ رنگا رنگ ہستی کیسی دلفریب ہو گی۔ کاش میں اسے ایک بار ہی دیکھ لوں۔

                ان ہی دنوں دو دن تک مجھے ایسا محسوس ہوتا رہا جیسے میرے دماغ میں سبز نور ڈالا جا رہا ہے۔ کبھی محسوس ہوتا جیسے سبز نور کی بالٹیاں بھر بھر کر میرے سر میں انڈیلی جا رہی ہیں اور کبھی ایسا لگتا جیسے مجھے سبز چادر میں لپیٹا جا رہا ہے اور یہ سبز چادر اللہ تعالیٰ کی حکمت کے نور کی ہے۔ مجھے میرے لاشعور کی بہت سی باتیں یاد آنے لگیں۔ بچپن کی باتیں، بچپن سے پہلے کی باتیں۔ یوں لگا جیسے میری روح آزاد ہے اور وہ ہر وقت کھلی فضائوں میں پرندے کی طرح اڑ رہی ہے۔ وہ جہاں جہاں کی سیر کرتی مجھے اپنی سیر کا حال سناتی۔ وہ مجھے شمامہ کہہ کر مخاطب کرتی۔ جیسے میں اور میری روح دو الگ الگ فرد ہیں۔ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ جتنا وہ خوش ہوتی اتنا ہی مجھ پر سنجیدگی اور حسرت سی طاری رہتی۔ میرا جی چاہتا کسی طرح وہ غیب میں دیکھ اور محسوس کر رہی ہے میں بھی اس کی خوشی میں شامل ہو جائوں۔ ہر لمحے مجھے یوں لگتا جیسے میرا جسمانی وجود ہی میرے اور اللہ کے درمیان ایک دیوار ہے۔ میں سوچتی اس دیوار کو پیغمبروں نے اور ان کی تعلیمات سمجھنے والوں نے جیتے جی گرا دیا۔ انہوں نے زندگی میں ہی اللہ کو پا لیا۔ وہ کس طرح وہ کیسے؟ کون مجھے سمجھائے گا۔ کاش میں کسی پیغمبر کے عہد میں پیدا ہوئی ہوتی۔ دو تین دن تک مسلسل مجھے یوں ہی محسوس ہوتا رہا جیسے میری روح ٹائم میں سفر کر رہی ہے۔ اتنی پرانی باتیں جو کبھی میں نے گھر والوں سے سنی تھیں میری پیدائش سے بھی پہلے کی وہ سارے مناظر میرے سامنے آ جاتے۔

                چوتھے دن صبح ہی سے میرے سامنے عہد الست کی فلم چلنے لگی۔ مجھے یوں لگا جیسے میں حافظہ کی گہرائی میں داخل ہو گئی ہوں۔ ایک فلم کی طرح سارا منظر ذہن کے سامنے آ گیا۔ جیسے ایک بہت بڑی بہت وسیع نور کی فضا ہے۔ اس فضا میں ہر طرف سبز نور چھایا ہوا ہے۔ فرش بھی سبز نور کا ہے۔ میں سارا دن شاپ میں بیٹھی یہ منظر دیکھ کر اندر ہی اندر حسرت سے سوچتی رہی۔ روح کیسی خوش نصیب ہے۔ جس نے ازل میں اللہ پاک کا دیدار کیا۔ اللہ تعالیٰ کی آواز سنی۔ پھر وہ دن کب آئے گا زندگی کب گزرے گی سارا دن حافظے کے اوپر یہ منظر چھایا رہا اور سارا دن دل حسرت و یاس کی تصویر بنا یہ سوچتا رہا۔ مجھے روح کی ہمراہی کب نصیب ہو گی۔ اس وقت مجھے یوں محسوس ہوا یہ سب میرا ایک راز ہے۔ میں یادوں کے قلعے میں بند اس حقیقت کو تلاش کرتی رہی۔ رات آئی تو تھک کر اس کی راہداری میں سو گئی۔

                صبح اٹھی تو یوں لگا جیسے روح پر سخت افسردگی چھائی ہوئی ہے۔ نہ وہ اڑ رہی ہے نہ وہ فضائوں میں سیر کر رہی ہے۔ ایسا لگا جیسے ہر شئے پر ایک سکوت طاری ہے، نہ ہوائوں کی سرسراہٹ کی آواز آتی ہے نہ پرندوں کے نغموں کی۔ بہتے جھرنے خاموش ہیں۔ پوری فضا ایک سوگوار سناتے میں بدل چکی ہے۔ میں حیران تھی کہ روح کو کیا غم ہے؟ جس نے ساری کائنات سے خوشی کی لہر چھین لی ہے۔ روح اب بھی مجھے ایک الگ فرد کی حیثیت سے محسوس ہوئی۔ میں نے روح سے پوچھا۔ آج تیری یہ اداسی کیسی ہے؟ تیری اداسی نے میرے دل کو بالکل ہی مضمحل کر دیا ہے۔ تیرا غم میرے حواس پر پہاڑ بن کر معلق ہے۔ اے روح مجھے بتا تیرا غم کیا ہے۔ روح نے درد بھری آواز میں کہا آج وہ لمحہ میرے روبرو ہے جس لمحے اللہ اور روح کے درمیان خلق کا حجاب آیا تھا اور پھر میری نگاہ حجاب میں الجھ کر رہ گئی۔ نگاہ کا ہر ٹھہرائو میری موت ہے۔ روح بولی اے دل دنیا کی ہر شئے اللہ اور میرے درمیان ایک حجاب ہے۔ وہ دن میرے اندوہ کا پہلا دن تھا۔ جب مجھے حواس و ادراک کے حجابات میں لپیٹ دیا گیا تھا۔

                روح یہ کہہ کر بالکل خاموش ہو گئی۔ اس کی لمحہ بہ لمحہ خاموشی میرے دل پر پتھر کی سلوں کے بوجھ لادتی رہی۔ دکان پر بیٹھی مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میں نہیں بلکہ میری لاش بیٹھی ہوئی ہے۔ جس کے اندر نہ کوئی تقاضہ ہے نہ زندگی کی حرکت ہے نہ خوشی ہے نہ غم ہے۔ بس نظر ہے جو غیب میں جانے کہاں اٹکی ہوئی ہے مگر دور گہرائی میں فکر ازلی اس بات سے واقف تھی کہ روح کی نگاہ حقیقت پر ہے۔

                وہ سردیوں کے دن تھے۔ یہاں چار بجے سے اندھیرا ہو جاتا ہے۔ ساڑھے پانچ بجے دکان بند کر کے نکلی تو آدھی رات کا سا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ بس اسٹاپ تھوڑی دور تھا۔ اس وقت مجھے کچھ پتہ نہیں تھا کہ میرے آس پاس کیا ہے۔ یوں لگ رہا تھا جیسے میں نیند میں چل رہی ہوں۔ میں پوری طرح ٹرانس میں تھی جیسے ہی اسٹاپ پر پہنچی سامنے ہی بس رکی۔ ایک نظر میں نے اس کا نمبر دیکھا اور بس میں چڑھ گئی۔ پیسے دیئے ڈرائیور نے ٹکٹ دی اتنے میں میرے پیچھے ایک انگریز خاتون کی زور زور سے بولنے کی آواز آئی جو برا بھلا کہہ رہی تھی۔ بس میں ذرا جگہ نہ تھی۔ آگے ہی پانچ سات لوگ کھڑے تھے۔ شام کا وقت رش کا تھا۔ یہاں بس میں صرف آٹھ آدمی کھڑے رہنے کی اجازت ہے۔ اس سے زیادہ نہیں لیتے۔ وہ عورت جب زور زور سے چیخی تب مجھے پتہ چلا کہ میں لائن میں لگنے کی بجائے یوں ہی گھس آئی ہوں مگر یہ خیال صرف ایک سیکنڈ کے لئے میرے ذہن میں آیا۔ فوراً ہی میرے منہ سے نکلا سوری۔ مجھے معلوم نہ تھا اور پھر میں اسی طرح ٹرانس میں چلی گئی۔ وہ عورت چلاتی رہی۔ ڈرائیور نے صرف ایک آدمی کو لیا اور دروازہ بند کر دیا۔ وہ عورت نیچے ہی رہ گئی۔ وہ مسلسل بولے جا رہی تھی۔ میں نے لوگوں کی جانب دیکھا۔ سب کے چہروں پر ناگواری کے اثرات تھے۔ وہ سارے کے سارے اس عورت کی جانب دیکھ رہے تھے اتنے میں ایک نوجوان لڑکا اپنی سیٹ سے اٹھا اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی سیٹ پر بٹھا دیا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ بس آگے بڑھی۔ اب تمام لوگوں کے چہروں پر سکون کے اثرات تھے۔ اس لمحے مجھے یوں لگا جیسے میں اللہ کے سہارے پر ہوں۔ میری ہر حرکت اسی سے وابستہ ہے۔ مجھے اپنے ارد گرد اس کے تحفظ کا مضبوط حصار دکھائی دیا۔ میرا دل اس کی مہربانیوں کے آگے سرنگوں ہو گیا۔

                اس مشاہدے کے بعد شدت سے مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ ازل میں روح بہت سے لمحات سے گزر چکی ہے۔ روح کا ہر لمحہ ہمارے حافظے میں بند ہے۔ ان لمحات کو کس طرح کھولا جائے اب دل یہ چاہتا تھا کہ کوئی اس راہ کا واقف مل جائے جو مجھے ان حجابات سے نکال کر ذات تک پہنچا دے۔ مگر میں اپنے مشاہدات کی روشنی میں یہ بھی جانتی تھی کہ عام عالموں سے مجھے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ مجھے کسی ایسے روحانی عالم کی ضرورت ہے جو روح کے علوم سے پوری طرح واقف ہو۔ منزل رسیدہ ہو اور راہ عشق کی اونچ نیچ کو پہچانتا ہو۔ میں نے اللہ سے دعا کی کہ آج تک میرا معاملہ تیرے ہی ساتھ رہا ہے تو نے ہی دل میں اٹھنے والے ہر تقاضے کو اپنے طور پر پورا کیا ہے۔ اب اس تقاضے کا رخ بھی تیری ہی جانب ہے میرے لئے ایسا مرشد تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ بس میرے کام میں آسانی پیدا کر دے۔

                چند دن بعدہی مجھے الہامی طور پر حکم دیا گیا کہ اس سال حج کرو۔ میں نے حبیب سے کہا وہ فوراً ہی مان گئے۔ کہنے لگے تینوں لڑکوں کو یہیں چھوڑ دیں گے اور بیٹی کو ساتھ لے جائیں گے۔ میں نے ان سے پکا وعدہ لیا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے یہ اللہ کا حکم ہے۔ اللہ کے حکم کی تعمیل میں دنیا کی کوئی شئے رکاوٹ نہیں بننی چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی ہمیں انتہائی خوشی بھی تھی کہ اللہ نے ہمیں اپنے گھر بلایا ہے۔ جاتے جاتے کچھ ایسے حالات بھی پیش آئے جو ہمارے جانے میں رکاوٹ پیدا کرتے تھے مگر ہم نے اللہ کے حکم سے تہیہ کر لیا تھا کہ کسی بھی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لائیں گے۔ غرضیکہ ہم میاں بیوی اپنی بیٹی کے ساتھ پہلی بار حج پر روانہ ہوئے۔ سب سے پہلے جدہ پہنچے۔ ایک جاننے والے مل گئے جو وہیں مقیم تھے۔ ان کے ساتھ عمرہ کیا اور پھر مدینے شریف چلے گئے کیونکہ حج میں ابھی کافی دن تھے۔ مدینے شریف ہم نو دن رہے۔ ہمیں روضہ مبارک سے چند بلڈنگ چھوڑکر کمرہ مل گیا تھا۔ ہمارا زیادہ وقت روضے پر ہی گزرتا تھا یا پھر مدینہ شریف کی زیارتوں میں۔ ہمیں یہاں آئے تین چار دن گزر چکے تھے میں ہمیشہ عصر سے مغرب تک روضے کی جالیوں کے بالکل سامنے بیٹھی رہتی تھی اور روضے کو دیکھتی رہتی۔ بیٹی بھی میرے ساتھ ہوتی۔ حبیب مردانے میں ہوتے۔ ایک دن اسی طرح بیٹھی روضے کو دیکھ رہی تھی کہ خیال آیا کہ اتنے دن ہو گئے ہیں ایک بار بھی حضور پاکﷺ کی زیارت نہیں ہوئی ہے میں نے دل ہی دل میں حضور پاکﷺ کو پکارا۔ حضور پاکﷺ سب کہتے ہیں کہ اپنے روضے پر آنے والوں پر آپﷺ کی نگاہ ہے۔ کون جانتا ہے میں دوبارہ پھر یہاں آسکوں یا نہ آسکوں۔ اللہ نے یہاں بلایا ہے۔ اللہ کا بلانا آپﷺ کا بلانا ہے۔ اب اگر آپﷺ پردے میں رہے تو ہمارے یہاں آنے کا مقصد پورا نہیں ہو گا۔ میں تو یہاں صرف آپﷺ کے دیدار کے لئے آئی ہوں۔ میری آنکھیں روضے پر لگی تھیں اور دل بار بار یہی بات دہرا رہا تھا کہ میں تو آپﷺ کے دیدار کے لئے آئی ہوں اتنے میں روضہ مبارک سے ایک دم آواز آئی ہم یہاں ہیں۔ میں نے دیکھا حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم روضہ مبارک کے داہنی جانب کھڑے ہیں۔ میری آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ میں گھبرا کر کھڑی ہو گئی۔ بیٹی سے کہاکھڑی ہو جائو۔ حضور پاکﷺ سامنے ہیں۔ دعا کرو۔ میں رو رو کر یا رسول اللہ یا رسول اللہﷺ کہتی جاتی۔

                رحمت اللعالمینﷺ نے مجھ جیسے ادنیٰ اور فانی بندی کو اپنی بقا کا مشاہدہ کرادیا۔ بلاشبہ آپﷺ اللہ کی صفت حی قیوم کے ساتھ زندہ اور باقی ہیں اور اللہ پاک کی صفت سمیع و بصیر کے ساتھ سننے والے اور دیکھنے والے ہیں۔ درود اور سلام ہو اس عظیم و بزرگ ہستی پر جو اللہ کی صفات کا آئینہ بن گئی۔

                نویں رات ہماری مدینہ شریف کی آخری رات تھی۔ اس رات ہم سب کا دل بھرا ہوا تھا۔ پتہ نہیں اب ان قدموں میں دوبارہ حاضری کا موقعہ ملے گا یا نہیں۔ عشاء کے بعد جب کافی لوگ چلے گئے تو پھر ہم روضے کے پاس آ گئے۔ موقعہ دیکھ کر جالیوں سے سر لگا کر جالیاں پکڑ کر خوب روئے۔ پتہ نہیں دل اتنا کیوں بھر رہا تھا۔ ہماری ہچکیاں بندھ گئیں۔ میں حبیب اور بیٹی ہم تینوں ہی زور زور سے رو رہے تھے۔ روضہ مبارک کا سپاہی ایک اسٹول پر کھڑا تھا۔ وہ بڑی پر رحم نگاہوں سے ہمیں دیکھنے لگا۔ جانے وہ کیا سمجھا ہو گا کہ بیچارے کتنے دکھی ہیں اس نیک بندے نے ہمیں کچھ نہ کہا۔ ہم کتنی ہی دیر جالیاں پکڑ کر روتے رہے۔ جب دس پندرہ منٹ بعد طبیعت ہلکی ہوئی تو خاموشی سے اس نیک بندے کا شکریہ ادا کر کے چل دیئے۔ اللہ اسے اپنی امان میں رکھے۔ آمین۔

                صبح صبح ہماری فلائٹ تھی۔ ہم جدہ اپنے عزیز کے پاس آئے۔ وہاں سے ان کے ساتھ حج پر مکہ شریف آئے۔ حج ادا کیا اور ادائیگی حج کے بعد بھی گیارہ دن تک مکہ شریف میں مقیم رہے۔ اللہ پاک کی مہربانیوں سے ہمیں سڑک کے پار کعبہ شریف کے بالکل سامنے ہی ایک کمرہ مل گیا تھا۔ جس میں سے ہر وقت حرم شریف کا نظارہ رہتا۔ حج کے دوران حبیب نے چند مرتبہ حجر اسود کو بوسہ لینے کی کشش کی مگر ناکام رہے۔ اتنے جوم میں واقعی مشکل تھا۔ مجھے بھی حجر اسود کا بوسہ لینے کا بڑا ہی شوق تھا۔ دراصل ہمیں یہ احساس تھا کہ جانے پھر کب یہ موقعہ ملے۔ اس لئے سب کچھ دیکھ لینا ہے۔ سوچا بعد میں رکیں گے تو پھر کوشش کریں گے بعد میں بھی روزانہ کوشش کرتے مگر ہجوم اسی طرح تھا۔ کسی لمحے کم نہ ہوتا تھا۔ ادھر ہمارا شوق بڑھتا جاتا تھا۔ حج کے شاید تیسرے دن میری بیٹی نے خواب دیکھا۔ صبح سو کر اٹھی تو خوشی خوشی بولی۔ پاپا میں نے خواب دیکھا ہے کہ اسی طرح کعبہ کے گرد طواف کرنے والوں کا بے پناہ ہجوم ہے ہم تینوں ہاتھ میں ہاتھ ڈالے حجر اسود کا بوسہ لینے کے عزم کے ساتھ کعبہ کی جانب قدم بڑھاتے ہیں کہ ہمارے قدموں کے ساتھ ساتھ ہی لوگ ارد گرد سمٹتے جاتے ہیں اور درمیان میں راستہ بنتا جاتا ہے۔ ہم اطمینان سے بوسہ دے کر اسی راستے سے واپس پلٹ آتے ہیں۔ یہ خواب سنتے ہی حبیب بے حد خوش ہوئے۔ اسی وقت بیٹی کی پیشانی چوم لی اور فوراً کہا۔ بس اب جلدی چلو۔ مجھے یقین ہے کہ آج ہم بوسہ لینے میں انشاء اللہ ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔ مجھے بھی خوشی کے ساتھ ساتھ پورا یقین تھاکہ آج ضرور بوسہ لے سکیں گے۔

                ہم سوچتے تھے کہ یہ دنیا کا وہ خوش نصیب پتھر ہے کہ جس کے اوپر جانے کیسی عظیم بزرگ و برتر ہستیوں کے لبوں کے نشان ہیں۔ ہم چند ہی منٹوں میں کعبہ شریف پہنچ گئے۔ حبیب نے مجھے اپنی عینک اور بیگ دے کر ایک جانب کھڑا کر دیا کہ تم یہاں ٹھہرو۔ پہلے میں بیٹی کو لے کر جاتا ہوں پھر تمہیں لے جائوں گا۔ کچھ دیر بعد دونوں ہنستے ہوئے آئے اور کہنے لگے ہم نے حجر اسود کو چوم لیا۔ اب تم چلو۔ ہجوم تو بے تحاشہ تھا سر کا دوپٹہ بھی اتر گیا۔ پائوں زخمی ہو گئے مگر ہم بوسہ لینے میں کامیاب ہو گئے۔ اللہ پاک کا شکر ادا کیا جس نے ہماری خواہش پوری کی۔ ہم روزانہ ایک یا دو عمرے کرتے۔ زیارتیں کرتے اور غار حرا پر بھی گئے۔ اب میں روزانہ یہی سوچتی کہ اللہ تعالیٰ نے کعبہ شریف کو جو مرکزیت بخشی ہے اور حج کا حکم فرض کیا ہے تو اس کی حکمت کیا ہے۔ میں زیادہ تر نمازوں کے بعد بس کعبہ شریف کو بیٹھی تکتی رہتی اور اللہ تعالیٰ سے کہتی کہ آپ نے بلایا ہے تو کچھ مشاہدہ بھی کرایئے تا کہ میں حج کی حکمت سے واقف ہو جائوں۔

                ایک رات میں نے خواب دیکھا کہ نور کی فضا میں ایک عظیم الشان عمارت ہے۔ حرم شریف کی طرح اس کے بھی چار ستون ہیں اور سیڑھیاں ہیں۔ عمارت کے کونوں پر بہت اونچائی پر لائٹیں لگی ہیں۔ جن کی تیز نورانی لائٹ عمارت کے وسط میں پڑ رہی ہے اور بیچوں بیچ اس نور میں کعبہ جگمگا رہا ہے۔ میں اس کعبہ کو دیکھتی ہوں اور دل میں یہی خیال ہوتا ہے کہ یہ بیت المعمور ہے۔ میں عمارت کے ہر طرف جا کر اور گھوم کر بیت المعمور پر پڑنے والی تجلیات کا مشاہدہ کرتی ہوں۔ میرے دل میں یہی خیال آتا ہے کہ یہ تجلیات ہیں۔ میں ان تجلیات کے نزول کے سسٹم کو دیکھتی ہوں کہ کس طرح آسمان سے نازل ہو کر لائٹوں کے ذریعے کعبہ پر ڈالی جا رہی ہیں۔ میں یہ بھی دیکھتی ہوں کہ بے شمار حاجت مند اپنی اپنی حاجتیں لے کر بیت المعمور کے طواف کے لئے آ رہے ہیں اور خوش ہو کر جا رہے ہیں۔ بیت المعمور کی تجلیات و انوار ان میں جذب ہو کر ان کی تمام پریشانیاں دور کر دیتی ہیں۔ تجلیات و انوار کا یہ سسٹم دیکھ کر جب میں خواب سے جاگی تو مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ دنیا میں کعبہ شریف کے اوپر نزول ہونے والی تجلیات کا بھی یہی نظام ہے۔ اس مقام پر لوگوں کو آنے کی دعوت دینے میں شاید یہ حکمت بھی ہے کہ مرکز تجلیات و انوار سے لوگ زیادہ سے زیادہ مستفیض ہوں۔ یہ انوار کا ایک آبشار ہے جس کے نزول کا مرکز کعبہ شریف ہے۔ میں نے یہ خواب اور اس کی تشریح حبیب کو اور بیٹی کو سمجھائی اور یہ بھی کہا کہ چونکہ یہ مرکز ہے اس وجہ سے یہاں تھوڑے سے وقت میں زیادہ انوار کی فیڈنگFeedingانسان کو مل جاتی ہے۔ اس حکمت سے باخبر ہونے کے بعد مجھے بے حد خوشی ہوئی۔

                جو لوگ حج پر جانے کی بجائے اس بات پر ترجیح دیتے ہیں کہ حج کے پیسوں سے کسی غریب کی حاجت روا ہو سکتی ہے اور اس میں زیادہ ثواب ہے تو ثواب کا مطلب تو روحانی فیڈنگ ہے جو روحانی فیڈنگ براہ راست انوار کی منتقلی و انجذاب سے ہو سکتی ہے وہ کسی اور ذریعے سے کیسے ہو سکتی ہے۔ اس توجیہہ کے بعد حبیب کے بھی نظریات بدل گئے۔ وہ یہی کہتے کہ واقعی حج ضروری ہے۔ اس سے اتنی فیڈنگ ہو جاتی ہے کہ جو اور کسی نیکی سے نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ےہ کہ اللہ نے حج فرض کیا ہے۔

 

 

 

 


Khushboo

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔

دعا گو:

                                        خواجہ شمس الدین عظیمی