Topics

سکون


                سب بچوں کی شادیوں کے بعد میں نے اور حبیب نے پوری شدت کے ساتھ اس بات کو محسوس کیا کہ جیسے ہم نے ایک بھاری ذمہ داری کو خیر و خوبی کے ساتھ نبھا دیا ہے۔ بچوں کی شادیاں بغیرکسی پرابلم کے اطمینان سے نمٹ جائیں یہ بھی اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ ورنہ تو آج کل کے زمانے میں شادی کے سلسلے میں ایسے ایسے واقعات سننے میں آتے ہیں کہ دل پریشان ہو جاتا ہے۔ معاشرے میں رہتے ہوئے ہر طرح کی خبریں تو ملتی ہی رہتیں ہیں۔ میں نے ہمیشہ نوٹ کیا کہ بچوں کی شادیوں میں سب سے زیادہ مسئلہ تو وہاں بنتا ہے جب ماں باپ دونوں کی رائے میں اختلاف ہو۔ ماں اولاد کی شادی اپنے عزیزوں میں کرنا چاہتی ہے، باپ اپنے عزیزوں میں۔ دونوں کی رسہ کشی میں اولاد کے تانے بانے بکھرتے ہیں۔ انجام کار گھر دوزخ کا نمونہ بن جاتا ہے۔ آپس میں بول چال بند۔ گھر میں کھانا پینا بند اور پھر طرہ یہ کہ اس زبوں حالی کا سارا الزام ایک دوسرے کے رشتے داروں پر ڈالا جاتا ہے کہ جادو اور تعویذ گنڈے کئے گئے ہیں تا کہ گھر تباہ ہو جائے پھر عاملوں کے چکر شروع ہو جاتے ہیں جس سے مزید بربادی مزید رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ عموماً میں نے یہی دیکھا ہے کہ لوگ بھیڑ چال چلتے ہیں۔ اگر ایک نے غلطی کی تو ساری قوم اندھا دھند اسی کی کاپی کئے جا رہی ہے۔ انسان اگر دنیا میں غیر جانبدار رہ کر زندگی بسر کرے تو معاشرے سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔

                ایسے ایسے واقعات سن سن کے ہم نے پہلے ہی ارادہ کر لیا تھا کہ ہم اپنے بچوں کی شادیوں کو مسئلہ نہیں بنائیں گے۔ میں جانتی تھی کہ حبیب کو اپنے بچوں سے بے پناہ محبت ہے۔ حبیب بھی اس بات سے اچھی طرح واقف تھے کہ بچے میری جان سے ہم رشتہ ہیں۔ اس وجہ سے اختلاف رائے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ ہم دونوں کے پیش نظر بچوں کی خوشیاں رہیں۔ جب دو ذہنوں کا ٹارگٹ ایک ہی ہو تو اختلاف نہیں ہو سکتا۔ دنیاوی فکروں کا دبائو انسان کے اعضاء کو اس قدر مضمحل کر دیتا ہے کہ پھر وہ انہی فکروں میں پھنس کر رہ جاتا ہے۔ میری اور حبیب کی ایک سی طبیعت تھی۔ ہم زیادہ دیر کسی بھی فکر کو اپنے اندر ٹھہرا نہیں سکتے۔ جس کی وجہ سے ہر مشکل بادل کی طرح گزر جاتی۔ ذہن جلدی سے دنیاوی فکروں سے خالی ہوکر پھر اللہ پاک کی جانب اور اس کی قدرت کی جانب متوجہ ہو جاتا۔

                پر سکون زندگی کی میرے نزدیک ہمیشہ سے بہت اہمیت رہی۔ یہی کوشش رہتی کہ ہر کام اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ انجام پائے تا کہ دل مطمئن ہو اور دل کا مطمئن ہونا ہی خوشی ہے۔ جو لوگ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو خاطر میں نہیں لاتے، بڑی بڑی خوشیاں ان سے روٹھ جاتی ہیں۔ کسی صوفی کا یہ قول ہمیشہ میرے دل میں رہا کہ ‘‘اگر تو نے گھاس کی ایک پتی کو بھی حقارت کی نظر سے دیکھا تو گویا ساری خدائی کو ٹھکرا دیا۔’’ ایک دفعہ شیخ نے فرمایا ‘‘خوشی ہی جنت ہے۔’’ رات کو میں نے حبیب کے سامنے یہی بات دہرائی کہ خوشی جنت ہے۔ کہنے لگے پھر تو ہم جنت میں ہیں۔ اس لئے کہ ہم خوش ہیں۔ میں نے کہا وہ ٹھیک ہے مگر آئو اس بات پر غور کریں کہ ہمیں سب سے زیادہ خوشی دنیا کی کس چیز سے مل رہی ہے اور سب سے زیادہ غم دنیا میں کس چیز سے مل رہا ہے۔ فوراً بولے میری زندگی کی خوشی تجھ ہی سے ہے۔ زندگی کا غم بھی تیری جدائی کا سب سے زیادہ ہو گا۔ پہلے تو ہم دونوں اس بات پر خوب ہنسے پھر جب سنجیدگی سے غور کیا تو معلوم ہوا کہ واقعی اس دنیا میں سب سے زیادہ خوشی بھی انسان ہی سے حاصل ہوتی ہے اور سب سے زیادہ دکھ بھی انسان ہی سے ملتے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ دنیاوی خوشیوں کا مرکز خود انسان ہے تو انسان نے اپنی توجہ چاندی سونے کے ڈھیرمیں کیوں لگا رکھی ہے۔

                ہمارے ایک بڑے اچھے جاننے والے تھے۔ شروع شروع میں تو انگلینڈ جو بھی آیا پہننے کے لئے چند جوڑے اور خرچ کے لئے پانچ پونڈ لے کر آیا۔ یہاں محنت مزدوری کر کے سب نے اپنے قدم جمائے۔ ان دنوں سب کی ہی توجہ معاش کی طرف تھی اور ضرورت بھی تھی۔ جن صاحب کا میں ذکر کر رہی ہوں ہمارے ان کے ساتھ ٹھیک ٹھاک مراسم تھے۔ آہستہ آہستہ انہوں نے اپنے آپ کو کام میں اس قدر مصروف کر لیا کہ میل جول کا اور سوشل لائف کا ٹائم ہی نہ رہا۔ فیملی بزنس تھا۔ سارا گھر مصروف۔ کئی سالوں بعد ان کی بیماری کی خبر سن کر ہم ملنے گئے تو وہ پہچانے نہ جاتے تھے۔ ان کی بیوی نے رو رو کے قصہ سنایا کہ دن رات کام کر کے ہم نے پیسہ کمایا۔ دیس میں رشتے داروں کو بجھواتے رہے کہ وہاں پراپرٹی اور دکانیں خریدیں تو ہم کچھ عرصے میں وہیں آ جائیں گے۔ اب تک اندازاً لاکھوں روپیہ بھجوا چکے ہیں۔ اب ان کو آنے کا لکھا تو کہتے ہیں کہ یہاں آ کے کیا کرو گے وہ پیسہ تو بھائی بہنوں کی شادی میں ہی ختم ہو چکا ہے۔ اب انہیں اس بات کا شدید صدمہ تھا کہ سالوں سال ہم سب کولہو کے بیل کی طرح جتے رہے اور ہمیں صلہ کیا ملا؟ رشتے داریاں بھی خراب ہوئیں۔

                اس واقعہ سے ہمیں بڑی عبرت حاصل ہوئی۔ ہم نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شئے کا اپنے ارادے میں ایک مقام رکھا ہے اور بندے کو اپنے ارادے سے آگاہی عطا کی ہے اگر بندہ اللہ تعالیٰ کے ارادے کے مطابق زندگی میں اس شئے کو وہ مقام نہیں دیتا تو اسے نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ حبیب کو اپنے دوست کی حالت دیکھ کر بڑا ہی افسوس ہوا۔ راستے میں اس کے رشتے داروں کو برا بھلا کہتے رہے کہ کیسے خراب ہیں۔ میں نے کہا وہ تو سو ہیں مگر اصل غلطی انہی کی ہے۔ اللہ نے کہا ہے کہ مال میں فتنہ ہے۔ اب انہوں نے اس فتنے کو اپنے پیاروں کے گھر میں منتقل کر دیا تو اس فتنے کا فتنہ تو انہی کو دیکھنا پڑے گا۔ دنیا تو ایک درس گاہ ہے جہاں ہر سبق ہم عملی اور مظاہراتی طرزوں میں سیکھ رہے ہیں۔ اصل علم قرآن ہے۔

                اس سلسلے میں ایک اور واقعہ یاد آیا۔ میرا بیٹا اور بہو سیر و تفریح کو کہیں گے وہاں سے آ کر انہوں نے اپنی سیر کا حال سنایا۔ کہنے لگے امی سب سے زیادہ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ ہم نے سمندر میں گرم پانی کی رو دیکھی۔ ایک طرف کھولتا ہوا پانی بہہ رہا ہے دوسری طرف اس کے برابر میں ہی سمندر کا پانی ٹھنڈا ہے۔ دونوں میں لہریں اٹھ رہی ہیں مگر پھر بھی کھولتا ہوا پانی ٹھنڈے پانی میں مل کر ٹھنڈا نہیں ہوتا بلکہ اپنی اپنی حدود میں بہتا جاتا ہے۔ میں نے کہا بیٹے اسی بات کو تو قرآن میں اللہ پاک نے بیان کی اہے کہ ‘‘اسی نے رواں کیا ہے دو دریائوں کو جو آپس میں مل رہے ہیں ان کے درمیان آڑ ہے، پس وہ اک دوسرے میں گڈ مڈ نہیں ہوتے۔’’ (سورہ رحمٰن) اللہ کا ارادہ ہی ان کے درمیان آڑ یا برزخ بنا ہوا ہے۔ جب اللہ نہیں چاہتا تو نہیں ہوتا۔

                اس وقت مجھے اور زیادہ محسوس ہوا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا ذکر کیا ہے وہ دنیا میں کہیں نہ کہیں ہمیں ضرور مل جاتی ہے۔ مجھے یوں لگا جیسے ساری دنیا قرآن کی آیات کا مظاہرہ ہے۔ سارا دن میں اس بات پر غور کرتی رہی کہ جب اللہ کا علم ہمارے سامنے مظاہراتی صورت میں موجود ہے تو پھر ہمیں اس کے سیکھنے میں اتنی دقت کیوں پیش آتی ہے۔ رات کو جب میں شیخ کے دیئے ہوئے اسباق کرنے بیٹھی تو مجھے اپنے ذہن کی گرہیں کھلتی نظر آئیں کہ علم قرآن ہے اور اس علم کا مظاہرہ کائنات ہے۔ اللہ پاک کے علم کی طرح کائنات بھی بہت وسیع ہے۔ جب تک ہمارے اندر وسعت نہ ہو گی ہم کیسے دیکھ سکتے ہیں۔ کوئی آدمی اپنی زندگی میں دنیا کے چپے چپے کو نہیں دیکھ سکتا۔ کوئی نہ کوئی کونہ باقی رہ ہی جاتا ہے۔ پھر ساری کائنات میں جو مظاہرہ ہو رہا ہے وہ ہم کیسے دیکھ سکتے ہیں۔ جواب وہی ہے کہ روحانی حواس کے بغیر کائنات کو نہیں دیکھ سکتے۔ ہر چیز زمین سے اگ رہی ہے یعنی زمین پر ہی مظاہرہ ہو رہا ہے۔ ہماری نگاہ ان مظاہرات کے درمیان بہت سے برزخ یا آڑ کھڑی کر دیتی ہے اگر ان کو گرا دیا جائے تو نظر میں وسعت پیدا ہو جائے گی۔

                میں نے محسوس کیا کہ ذہن ایک ہی خیال کو وقت کے مختلف لمحات میں بار بار دہراتا ہے مگر ہر بار دل کی نگاہ اسے ایک نئے زاویئے سے دیکھتی ہے۔ قرآن میں بھی ایک ہی بات کو ئی جگہ دہرایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر جگہ اس بات کو نئے زاویئے سے معنی پہنانا چاہئے تا کہ مختلف پہلو سامنے آئیں۔ یعنی ایک ہی چیز کو نگاہ اور ذہن کا ٹارگٹ بنا کر بار بار نئے نئے زاویوں سے دیکھنے سے اس کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل ہو جاتی ہیں۔ علم حاصل کرنے کے لئے ذہن کی مرکزیت ضروری ہے۔ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے بھی اللہ کی مرکزیت ضروری ہے۔ اگر ہمیں اللہ تک پہنچنے میں دشواری پیش آتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے اور اللہ کے درمیان برزخ کھڑی کر دیتے ہیں۔ اس وقت میرے ذہن میں یہ آیت گونج اٹھی۔

                انا للہ و انا الیہ راجعون

                ہر چیز اللہ کی طرف سے آ رہی ہے اور اللہ کی طرف جا رہی ہے۔

                اس سے پہلے کتنی بار یہ آیت سنی، پڑھی، زبان سے دہرائی مگر اس وقت نہ جانے کیا بات تھی اس آیت سے میرے سارے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ میرا دل بار بار یہ کہنے لگا کہ اللہ نے اپنے راستے میں تو بندے کے لئے کوئی رکاوٹ رکھی ہی نہیں ہے۔ بندہ خود ان رکاوٹوں کو کھڑی کرتا ہے اور اسے احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ چیز اسے اللہ تک پہنچنے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ اب مجھے دنیا کی ہر چیز اپنے اور اللہ کے درمیان ایک پردہ نظر آنے لگی۔ دل نے کہا حبیب بھی ایک پردہ ہے۔ اس کے ساتھ مرنے جینے کے وعدے بھی اللہ کے ساتھ دوغلا پن ہے کہ ادھر تو اللہ کو جاننے اور پہچاننے کی اور اس کے قریب رہنے کی دعا کرتے ہیں اور ادھر اگلی زندگی کے تخیل کی ہر تصویر میں حبیب کی شبیہہ ہے۔ دل نے کہا۔ یہ درست نہیں ہے۔ اب اس پردے کو ہٹانا ہی ہو گا تا کہ اصل محبوب کا دیدار ہو۔

                کہنا تو بہت آسان ہے مگر کرنا بڑا مشکل ہے۔ بھلا ساری زندگی کا بنا ہوا ایک پیٹرن آخری وقت میں کیا بدل سکتا ہے۔ میری زندگی کے تو ہر ورق پر اس کی چھاپ لگی ہوئی تھی۔ کبھی دل دھک سے رہ جاتا اگر زندگی اکیلی گزارنی پڑ جائے تو پھر کیا ہوگا۔ کتنے دنوں تک مجھے اندیشے گھیرے رہے۔ زندگی کے ہر قدم پر ساتھ چلتے چلتے ہم ایک دوسرے کی ضرورت بن چکے تھے۔ وہ جذباتی دور تو اب ختم ہو چکا تھا۔ زندگی کے فیصلوں میں اب دل کے ساتھ ساتھ عقل بھی اپنے قدم ملانے لگی تھی۔

                ایک دن میں نے خواب دیکھا کہ ایک تخت پر شیخ بیٹھے ہیں۔ میں نیچے زمین پر بیٹھی ہوں۔ شیخ نے ہاتھ کے اشارے سے فرمایا۔ شمامہ ادھر دیکھو۔ میں دیکھنے لگی تو میرے سامنے زمین اور آسمان کے درمیان ایک اسکرین آ گیا۔ یہ بالکل سیاہ پردہ تھا۔ میں شیخ کے کہنے پر نہایت ہی محویت سے اس پردے کو دیکھنے لگی۔ چند لمحوں کے بعد اس پردے پر ایک روشنی پھیل گئی۔ شیخ نے فرمایا۔ شمامہ یہ روشنی کس نے بنائی؟ میری نظر اس پردے پر ٹکی ہوئی تھی۔ میں نے اسی طرح کہا۔ اللہ نے۔ اب اس روشنی میں سورج، چاند، ستارے بن گئے۔ شیخ نے کہا۔ یہ اجرام فلکی کس نے بنائے؟ میں نے کہا اللہ نے۔ اب میرے دیکھتے ہی دیکھتے ان تمام سیاروں پر بارش برسنے لگے۔ فرمایا بارش کس نے برسائی؟ میں نے کہا، اللہ نے۔ اب میں نے دیکھا کہ زمین سے سبزہ پھوٹنے لگا اور شگوفے نکل آئے۔ کہا کھیتی کس نے اگائی؟ میں نے کہا، اللہ نے۔ میں نے دیکھا کہ ہوا کے جھونکوں سے کھیتیاں لہرا رہی ہوں۔ کہا ہوائیں کس نے بھیجیں؟ میں نے کہا اللہ نے۔ اب میں نے دیکھا کہ زمین پر انسان اور تمام جاندار موجود ہیں۔ فرمایا انسان کو کس نے بنایا؟ میں نے کہا اللہ نے۔ فرمایا جب سارا کام اللہ کا ہے پھر تم کیا ہو؟ ان کے یہ کہتے ہی پھر میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا ہو گیا اور اسی وقت آنکھ کھل گئی۔

                میرے اندر ایک سنسنی سی دوڑ گئی۔ اس خواب نے میرے سارے ہی اندیشے نکال دیئے تھے۔ میرے اندر کی آواز کہنے لگی شمامہ سب کچھ اللہ ہی کے ارادے سے ہے۔ پھر اپنی خواہش رکھنا کیا معنی۔ میں نے اپنی عادت کے مطابق حبیب کو خواب سنا کر کہا کہ تکنے دنوں سے میں یہی سوچ رہی تھی کہ آخرت میں اللہ پاک کے قرب کی دعا کرتی ہوں اور ساتھ ساتھ آپ کے بھی خواب دیکھتی ہوں۔ یہ تو دوغلا پن ہوا۔ انسان کو ایک ہی کا ہی رہنا چاہئے۔ فوراً بولے یہی تو میں بھی کہہ رہا تھا۔ تم میری چنداں فکر نہ کرو۔ آخرت میں تو اللہ نے ستر حوروں کا وعدہ ہم سے کیا ہے۔ میری ہنسی چھوٹ گئی۔ میں نے کہا میاں لگتا ہے اب ہماری محبت رنگ لا رہی ہے۔ آپ بھی آخرت کی باتیں کرنے لگے ہو۔ بولے کیا کریں خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ آدمی تو اشرف المخلوقات ہے۔ اس کے اندر رنگ پکڑنے کی صلاحیت خربوزے سے زیادہ تو ہونی چاہئے۔ میرا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا۔ میں نے کہا صحیح ہے میاں آپ نے بالاخر اپنے آپ کو خربوزے سے زیادہ افضل ثابت کر ہی دیا۔

                اب میرا دل میرا دماغ پورے طور پر روحانی علوم کی طرف لگ گیا۔ میں نے اپنی ساری توجہ شیخ کی طرف لگا دی۔ میں اچھی طرح سمجھ چکی تھی کہ شیخ باطنی طور پر اپنے مرید کا پورا پورا دھیان رکھتے ہیں اور جہاں کہیں اس کا ذہن اللہ سے ہٹ کر دنیا کی طرف لپکتا ہے وہ کسی نہ کسی طرح سالک کے ذہن کو وہاں سے نکال لیتا ہے۔ ایسے ہی موقع کے لئے شیخ نے ایک دفعہ فرمایا تھا کہ شمامہ روحانیت کے راستے پر سالک کو کئی نازک مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ یاد رکھو سالک مسافر ہے مقیم نہیں ہے۔مسافر کا کام چلنا ہے۔ خواہ راستے میں درختوں کی ٹھنڈی چھائوں ملے یا صحرا کی تپتی ریت۔ مسافر کا کام چلنا ہے۔ میں نے اپنے شیخ کی یہ نصیحت پلو سے باندھ لی۔ میں نے سوچا کہ خواہشات کو ترک ہی کرنے میں اللہ کی رضا ہے۔ خواہش خواہ دنیا کی ہو یا عقباء کی۔ اللہ کے ارادے کے سامنے اپنے نفس کی ارادے کی بات کرنا سوائے جہالت کے اور کچھ نہیں ہے۔ میں نے دنیا کی ہر شئے جو بھی سامنے آئی اس میں علم و حکمت تلاش کرنے کی کوشش کی۔ جب مجھے پتہ چلا کہ شیخ نے سالک کو مسافر کیوں کہا تھا کیونکہ سالک کا راستہ روحانی علوم کا ہے اور روحانی علوم کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ یہ اللہ پاک کی صفات اور ذات کے علوم ہیں۔ سالک کا سفر اللہ پاک کے لامتناہی علوم میں ہے۔ سالک کی منزل نہیں ہے البتہ مرکز ضرور ہے۔ جس کے گرد وہ طواف کر رہا ہے۔ یہ مرکز اللہ کی ذات ہے۔ علم وہ راستہ ہے جس پر ابد تک چلتے رہنے سے بھی یہ راستہ ختم نہیں ہو سکتا۔ جب ذہن میں یہ بات آ گئی کہ میں مسافر ہوں اور مریا سفر نہ ختم ہونے والے راستے پر ہے۔ ایسی خوشی مجھے اس سے پہلے کبھی نہ ملی تھی۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے اندر کی شمامہ ایک روشنی والے راستے پر خوشی خوشی دوڑی چلی جا رہی ہے۔ میں جان گئی روح ہوا کی طرح ہے۔ جس کی فطرت چلنا ہے۔ مجھے حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا وہ قول یاد آیا جس میں آپﷺ نے فرمایا کہ علم سیکھنے کے لئے ہمیں اگر چین بھی جانا پڑے تو ضرور جائو۔ ہمارے رسول پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی بات فطرت کے عین مطابق ہے۔ جو لوگ اپنے آپ کو علم سے دور رکھتے ہیں وہ اپنی روح کی فطرت پر کتنا جبر کرتے ہیں۔ علم میں ذہن لگانے سے عقل میں وسعت پیدا ہوتی ہے اور شئے کے اندر کی حکمتوں پر نظر پڑنے لگتی ہے۔

                ایک دفعہ میں پھولوں سے بھری کیاریوں کے پاس بیٹھی تھی۔ میں نے رنگ برنگے پھولوں کی طرف دیکھا۔ خوبصورت پھولوں پر نظر ٹک گئی۔ اتنے میں ایک شہد کی مکھی کبھی اس پھول کبھی اس پھول پر منڈلانے لگی۔ ذہن میں ایک دم ٹک سا ہوا۔ خیال آیا مکھی ہر پھول سے رس چوستی ہے جس سے شہد بنتا ہے جو ہر بیماری کی دوا ہے۔ اس کا مطلب ہر پھول میں کسی نہ کسی بیماری کی شفا ہے۔ میرا دل چاہا میں ہر پھول سے پوچھوں تماہرے اندر کس بیماری کی شفا ہے۔ مجھے یاد آیا بچپن میں میری ماں جڑی بوٹیوں اور پتھروں سے علاج کرتی تھی۔ ان کے پاس بہت سے مختلف پتھر تھے۔ میں اور مجھ سے چھوٹی بہنیں تھیں۔ جب سخت گرمی پڑتی اور لو چلتی تو صندل کی لکڑی پانی کے ساتھ پتھر پر گھس کر اس کا لیپ ہماری پیشانیوں پر لگا دیتیں۔ اس سے ٹھنڈک رہتی۔ مجھے تو اب صرف چند پتھروں کے نام یاد ہیں۔ گاروڑی، زہر مہرہ، کھوپر چٹہ اس کے علاوہ کوڑیاں بھی تھیں۔ کبھی کسی پتھر کو چولہے کی بھوبل میں گرم کر کے پانی میں بجھا کر اس کا پانی پلاتیں، کبھی کوئی پتھر گھس کر اس کا لیپ سا چٹا دیتیں۔ بخار، زکام، کھانسی، پھوڑے پھنسیاں غرض یہ کہ زیادہ تر امراض میں وہ پتھروں سے ہی ہمارا علاج کیا کرتی تھیں۔ ہم ایسے نکمے نکلے کہ جب ہم بڑے ہوئے تو ہم نے کہا ‘‘اماں کیا پرانے زمانے کی باتیں کرتی ہیں۔ یہ پتھر و تھر چھوڑیں۔ ڈاکٹر سے دوائی لے آتے ہیں۔’’اب آج افسوس ہوتا ہے۔ پتھروں کے نام ہی یاد کر لیتی۔ چلو خیر۔ اماں کی روح تو خوش ہو ہی جائے گی اس تذکرے سے۔ آج یہ احساس ہوتا ہے کہ پرانے زمانے میں اکثر لوگ چیزوں کی حکمت سے واقف تھے۔ وہ ہر شئے کے خواص جانتے تھے ماڈرن زمانہ ایسا آیا کہ فطرت کی ہر چیز کو بس ظاہر میں ہی دیکھ دیکھ کر خوش ہو لیتے ہیں۔ اگر ریسرچ کرتے بھی ہیں تو ایسی کہ اس کے اندر کی تمام توانائیوں کا استعمال غلط ہی ہو جاتا ہے ورنہ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ نوع انسانی کو سکون نہ ملے۔

 

 


Khushboo

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔

دعا گو:

                                        خواجہ شمس الدین عظیمی