Topics

انتظار


                سکون دل کی بات چلی نکلی تو ایک واقعہ یاد آ گیا۔ حبیب کے ایک کزن تھے جن کا نام سلیم تھا۔ جن دنوں ہم انگلینڈ آئے تھے وہ بھی یہاں آئے تھے۔ شروع میں کچھ عرصہ کالج میں تعلیم حاصل کی پھر اس کے بعد کہیں ملازمت کر لی۔ اس دوران کسی یہودی لڑکی سے ان کا معاشقہ چل پڑا۔ یہ آزاد ملک ہے یہاں روکنے والا کون ہے۔ ویسے بھی سلیم کے ماں باپ بہن بھائی سب پاکستان میں تھے۔ تھوڑے ہی عرصے میں دونوں کافی سیریس ہو گئے۔ انہوں نے اپنے والدین سے شادی کی اجازت طلب کی۔ خاندان کے لئے تو یہ خبر بم کا گولا ثابت ہوئی۔ خالہ نے حبیب کو لکھا کہ ان کے بیٹے کو اس شادی سے روکیں۔ ورنہ میں دودھ نہیں بخشوں گی۔ ہم نے سلیم کو گھر بلایا۔ اسے سمجھایا کہ یہودی لڑکی تمہارے خاندان میں مکس اپ نہیں ہو سکے گی۔ مشکل پڑ جائے گی تم سارے خاندان سے کٹ کر رہ جائوں گے مگر عشق اور وہ بھی جوانی کا عشق بھلا ذات پات کو کب خاطر میں لاتا ہے۔ پڑھے لکھے تھے بولے اہل کتاب سے شادی جائز ہے ہم نے کہا بالکل جائز ہے۔ اللہ کے حکم سے کون انکاری کر سکتا ہے۔ مگر ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں وہاں سب کے ذہن اتنے کھلے ہوئے نہیں ہیں۔ جب اپنے ہی رشتے دار مخالف ہو جائیں تو دل کو سکون نہیں ملتا۔ بہرحال شادی تو انہوں نے کرنی تھی شادی ہو گئی۔ بعد میں سلیم کے ماں باپ اور دوسرے رشتہ دار بھی یہاں آ کر سیٹ ہو گئے مگر مذہبی فرق نے انہیں ایک دوسرے کے ساتھ مکس اپ نہ ہونے دیا اور سلیم کے اپنے خاندان والوں کے ساتھ فاصلے بڑھتے چلے گئے۔ ہمارا بھی ان کے یہاں کچھ اتنا آنا جانا نہ تھا۔ ویسے وہ اپنے گھر میں ٹھیک ٹھاک تھے۔ ان کا یہاں ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہوئی۔ لڑکا بڑا تھا۔ بیٹی چھوٹی تھی۔ جب تک ہمارے بچوں کی پرورش کی ذمہ داریاں ہم پر تھیں ہماری تمام تر توجہ اپنے ہی بچوں پر تھی۔ ہمیں دوسروں کے متعلق جاننے کی فرصت ہی نہ ملی۔ سلیم کے دونوں بچے جوان ہو گئے اور کبھی کبھار کسی موقع پر ان بچوں سے ملاقات ہو جاتی جس کی وجہ سے ہمیں ان کے نظریات کا پتہ چلا۔ لڑکا خوش باش طبیعت کا مالک تھا۔ ایک دن اس سے بات ہوئی تو کہنے لگا میری اسٹڈی میں تو دونوں ہی مذہبی رہے ہیں مگر مجھے اپنی ماں کا مذہب پسند ہے۔ میں نے جیوش مذہب اختیار کر لیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ مجھے یہودی کہیں۔ میں نے مسلمان نہیں ہوں۔ میں اور حبیب اس کی بات سن کر مسکرا دیئے۔ میں نے اس کے مذہبی جوش کو کچھ ٹھنڈا کرنے کے لئے اس کے کندھے پیار سے تھپتھپائے اور بولی۔ بیٹے دین میں جبر نہیں ہے۔ تم یہودی یا مسلمان ہونے سے پہلے ایک انسان ہو۔ اللہ نے تمہیں سب سے پہلے اسی پہچان کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اپنی اس پہچان کو کبھی نہ بھولنا۔ تا کہ اللہ بھی تمہیں اس پہچان کے ساتھ یاد رکھے جو انسان آدم کی حیثیت سے اپنی پہچان بھول جاتا ہے اللہ اس کا شمار جانوروں میں کر دیتا ہے۔ تم کو یاد ہو گا جب یہودیوں کے ایک گروہ نے اللہ تعالیٰ کے احکام سبت کی خلاف ورزی کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بندر بنا دیا۔ جیسا کہ قرآن میں ہے۔ اللہ نے انسان کو اپنا بندہ بنایا ہے جو اللہ تعالیٰ کی بندگی کو بھول کر اپنے نفس کا غلام بن جاتا ہے۔ اللہ اس کا نام آدم کی فہرست سے نکال دیتے ہیں۔ وہ مسکرایا۔ آنٹی آپ کی نصیحت میں ہمیشہ یاد رکھنے کی کوشش کروں گا۔ مجھے خوشی ہوئی میں نے اسے بہت سی دعائیں دی۔

                سلیم کی بیٹی ۶۲ سال کی ہو چکی تھی۔ وہ سخت ناخوش قسم کی لڑکی تھی۔ زیادہ لوگوں سے ملنے جلنے سے کتراتی تھی۔ ہر وقت اپنے ہی خول میں بند رہنے والی لڑکی تھی۔ شدید احساس کمتری کا شکار تھی۔ ہم نے سنا کہ اس نے شادی سے انکار کر دیا ہے۔ ایک مرتبہ اس سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے ڈیڈی تمہارے لئے فکر مند ہیں تم شادی کیوں نہیں کر لیتی۔ کہنے لگی آنٹی مجھے آج تک یہی معلوم نہیں کہ میں کون ہوں۔ یہودی ہوں یا مسلم ہوں۔ میں سخت کنفیوژن میں ہوں۔ وقتاً فوقتاً جب بھی کبھی ملاقات ہوتی میں اسے سمجھاتی مگر وہ بڑی مایوسی کی باتیں کرتی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس نے دو تین جگہ اپنی پسند سے جاب کرنی چاہی جو اسے نہیں ملی۔ میں نے کئی بار اسے سمجھایا کہ دو مذہبوں میں پھنس کر اپنی شخصیت کو یوں مسخ مت کرو۔ اصل مذہب تو توحید ہے جو ہر مذہب کی بنیاد ہے مگر حق تو یہ ہے کہ ہم اپنی مذہبی عقائد کو کلچر میں سمو کر معاشرتی رسم و رواج کو مذہبی درجہ دے دیتے ہیں۔ جن کو اپنائے بغیر ہم اپنی شناخت کا تصور نہیں کرتے۔

                ایک دن اس کی میری ملاقات ہوئی۔ اس کے چہرے پر پہلی بار خوشی کے آثار دیکھ کر میں پوچھے بغیر نہ رہ سکی کہ آج اتنی خوش کیوں ہو۔ مسکرا کر بولی۔ آنٹی بالآخر میں نے شادی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میں نے بھی مسکرا کے کہا یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے کون ہے وہ خوش قسمت۔ کہنے لگی ابھی تو کوئی نہیں ہے بس میں نے سوچ لیا ہے کہ نہ میں یہودی سے شادی کروں گی نہ میں مسلمان سے۔ میں انگریز سے شادی کروں گی۔ انگلینڈ میرا پیدائشی مقام ہے۔ اس اعتبار سے میں انگریز ہوں اور انگریزہی رہنا چاہتی ہوں۔ میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا چلو شکر ہے تم اس کشمکش سے نکلیں تو سہی۔ دو کشتیوں میں ایک ایک پائوں رکھ کر تو کوئی بھی سفر نہیں کر سکتا۔ کچھ عرصہ یوں ہی نکل گیا۔ سننے میں آیا کہ ریگا نے شرط رکھی ہے کہ اسی آدمی سے شادی کروں گی جو بچوں کا خواہاں نہ ہو۔ وہ شادی کے بعد بچے پیدا کرنا نہیں چاہتی۔ کوئی چھ سات ماہ بعد اسے اس کی پسند کا ایک انگریز نوجوان مل گیا۔ دونوں نے منگنی کی اور پھر دونوں رہنے کے لئے مکان وغیرہ سیٹ کرنے لگ گئے۔ جس میں تقریباً چھ سات ماہ اور لگ گئے شادی ہو گئی ہم بھی شریک ہوئے۔ اس کے ماں باپ خوش تھے کہ بیٹی کو اب اپنی پسند کی زندگی گزارنے کا موقع مل جائے گا۔ ابھی ان کی شادی کو تقریباً تین ماہ ہوئے تھے کہ ایک دن خبر ملی کہ اس کا شوہر ہارٹ اٹیک میں مر گیا۔ اللہ کے کھیل نرالے ہیں۔ ہر کام اس کے ارادے سے ہی ہو رہا ہے مگر اس کے ارادے کے سمندر میں انسان بھی اپنے ارادے کا جال ڈالے بیٹھا ہے۔ جال مچھلیاں پکڑنے کے لئے سمندر میں ڈالا جاتا ہے بندہ اللہ کے ارادے کے سمندر میں اپنی خواہشات کا جال بچھا کر اللہ کی رضا تلاش کرتا ہے جو بندے اللہ کی رضا کو فراموش کر دیتے ہیں وہ اپنی خواہشات کے جال میں نادانستگی میں خود اپنے نفس کا شکار کر بیٹھتے ہیں۔ شاید اس نادان لڑکی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور پھر شوہر کی وفات کے بعد وہ دوبارہ مایوسی کے بھنور میں جا پڑی۔یہ ساری دنیا ایک مکتب ہے۔ انسان سیکھنا چاہے تو ہر شئے سے ایک سبق سیکھ سکتا ہے۔

                شادی کے تو یہاں بے شمار مسائل ہیں کہیں لڑکا لڑکی کی برادری نہیں ملتی کہیں لڑکے کی تعلیم کم اور لڑکی زیادہ پڑھی لکھی ہوتی ہے۔ کہیں لڑکا لڑکی کی پسند پر ان کے خاندان مخالف ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پہلے زمانے کی بہ نسبت شادی میں ناکامی بھی بہت ہو رہی ہے۔ ایک دن حبیب آئے کہنے لگے ابھی ابھی اخبار میں ایک سنسنی خیز خبر پڑھ کر آیا ہوں۔ میں نے کہا وہ کیا۔ بولے پاکستان جاتے ہوئے ایک لڑکی ائیرپورٹ سے غائب ہو گئی۔ ماں باپ شادی کرنے کے لئے وطن لے کر جا رہے تھے۔ لڑکی ائیرپورٹ سے غائب ہو گئی۔ یہ سن کر مجھے بڑا افسوس ہوا۔ آخر کو میں ماں ہوں میرے منہ سے ایک دم نکلا لڑکی کے ماں باپ تو بہت پریشان ہونگے۔ نہ جانے ایسی مصیبت میں وہ بے چارے کیونکر پھنسے۔ اس خیال کے ساتھ ہی ذہن میں قرآن کی آیت ابھری ‘‘خدا تم لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔’’

                مجھے یاد آیا۔ ایک فیملی کو ہم کافی عرصے سے جانتے تھے نہایت ہی خوش باش فیملی تھی۔ تین چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ ان کا گھر جنت کا نمونہ تھا۔ مگر نجانے کیا ہوا تند و تیز ہوائوں کے جھکڑ آہستہ آہستہ ان کی بنیادوں کو ہلاتے رہے اور پھر ایک دن باوجود کوشش بسیار کے گھروندے کے تنکے بکھر کر رہ گئے۔ میں نے ان کے تمام حالات شیخ کے گوش گزار کئے کیونکہ مجھے بڑا ہی دکھ تھا کہ آخر ان پر ایسی افتاد کیوں آن پڑی۔ اس وقت شیخ نے فرمایا۔ شمامہ خدا تو لوگوں پر کچھ ظلم نہیں کرتا۔ لیکن لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ یہ اللہ کا کلام ہے اور اللہ کا ہر تفکر اس کا ایک قانون و سنت ہے۔ جس کے دائرے سے باہر مخلوق نہیں جا سکتی۔ اللہ تعالیٰ کے تفکر اور قدرت کے دائرے میں کامیابی کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے فطرت کے اصولوں کو اپنانا ضروری ہے۔ میں نے کہا مگر بعض اوقات نادانستگی میں کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہیں اور آدمی کو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ تو سراسر ظلم ہے۔ شیخ نے مسکرا کر فرمایا۔ یوں سمجھو کہ تمہیں سخت پیاس لگی ہے۔ تمہارے سامنے پانی سے بھرا ہوا گلاس دھرا ہے۔ تم بغیر سوچے سمجھے فوراً پانی پی لیتی ہو۔ پانی زہریلا تھا۔ معدے میں جا کر زہر اپنا کام دکھاتا ہے۔ اب تم ہی بتائو کیا تمہاری لا علمی کی وجہ سے زہریلا پانی بے ضرر ہو سکتا ہے۔ پانی کی جو خاصیت ہے وہ خاصیت تو ضرور رنگ لائے گی۔ قصور تو تمہارا ہے کہ تم نے اپنے تقاضوں کی تکمیل میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا۔ انسان تقاضوں کا مجموعہ ہے۔ ان تقاضوں کی تکمیل کا عرصہ زندگی ہے۔ تقاضوں کی تکمیل فطرت کے بنائے ہوئے اصولوں پر ہے۔ ان اصولوں سے ہٹ کر تقاضے ادھورے رہ جاتے ہیں۔ فطرت کا سب سے پہلا اصول جس پر انسانی زندگی کی بنیاد ہے وہ علم و حکمت ہے۔ اپنی دانست میں انسان کتنا ہی اپنے آپ کو بے قصور جانے مگر قدرت اسے بے قصور نہیں گردانتی۔ قدرت کے فیصلے اس کے قانون و سنت کی روشنی میں ہوتے ہیں۔ جن کے علوم جاننا خالق نے ہر بنی نوع آدم پر لازمی قرار دیا ہے۔

                ان یادوں کے ساتھ ہی دل میں اللہ پاک کے عدل و انصاف پر اور زیادہ یقین محسوس ہوا۔ میں نے وہی آیت دہرائی اور حبیب سے مخاطب ہوئی۔ حبیب! اللہ تو لوگوں پر ظلم نہیں کرتا لیکن لوگ ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ حبیب کہنے لگے مگر شمامہ خود اپنے نفسوں پر آپ ظلم کرنے سے بچانے والا بھی اللہ ہی ہے۔

                زندگی کی ریل گاڑی اپنی پٹری پر رواں دواں تھی۔ اب جب کہ میں نانی دادی بن گئی تو مجھے ہر وقت یہ خیال گھیرے رہتا کہ زندگی بہت مختصر ہے۔ جب میں اپنی گذشتہ زندگی پر نظر ڈالتی تو بچپن سے لے کر اب تک زندگی صرف چند لمحوں سے زیادہ نہ لگتی۔ میں سوچ میں پڑ جاتی کہ عمر کے ساتھ ساتھ ہمارے سوچنے کے انداز بھی کیسے بدل جاتے ہیں۔ جب تک میں ان لمحوں کی گرفت میں رہی۔ میرے احساس نے انہیں طویل جانا۔ میں وقت کے شکنجے سے آزاد ہونے کے لئے پھڑپھڑاتی رہی۔ اسیری کے جان لیوا احساس نے آزادی کے انتظار کا ہر وقفہ طویل کر دیا۔ مجھے یوں لگتا جیسے میں صدیوں سے جئے جا رہی ہوں۔ میرا دل ڈوبنے لگتا۔ کون جانتا ہے وہ دن کب آئے گا جب میں مر کے حقیقت کی دنیا میں داخل ہو جائوں گی۔ میں روح کی پکار سے مجبور ہو کر اپنی بہنوں سے کہہ کر اٹھتی جب میں مر جائوں گی وہ دن میری زندگی کا سب سے زیادہ خوشی کا دن ہو گا۔ تم لوگ مجھے نہلا دھلا کے اچھے سا سنگھار کرنا۔ یرے جنازے کو باجے گانے کے ساتھ قبرستان لے جانا۔ ہنسی خوشی مجھے سپرد خاک کرنا تم نہیں جانتی مجھے اس دن کا کتنا انتظار ہے۔ سب کہتیں تم تو پاگل ہو گئی ہو مگر کچھ عرصے بعد ایک دن ایسی ہی بات جب میں نے کی تو میری چھوٹی بہن تھوڑی دیر چپ چاپ مجھے گھورتی رہی پھر بولی بی آپا! واقعی اب تو میرا بھی یہی خیال ہے۔ اعمال کے نیک و بد کے چکروں سے تو رہائی ملے گی۔

                میں سوچتی۔ عمر کا یہ دور کیسا ہے۔ جس نے مجھے ایک ایسے پلیٹ فارم پر کھڑا کر دیا ہے جس پر کھڑے ہو کر گذشتہ زندگی بھی ایک لمحے سے زیادہ دکھائی نہیں دیتی اور موت تک آنے والی زندگی بھی مستقبل کی ایک ساخت لگتی ہے۔ اس مختصر زندگی میں ڈھیر سارے کام یاد آئے۔ اب جی چاہتا جلدی جلدی سارے کام سمیٹ لوں۔ کون جانتا ہے اگلی سانس آئے نہ آئے۔ جو کچھ کرنا ہے ابھی کر لوں۔ وقت کی کمی کے احساس نے پوری توجہ تخلیقی و تعمیری سمت میں لگا دی۔ ہر دم یوں لگتا جیسے زندگی بڑی ہی قیمتی ہے اگر یونہی گنوا دی تو پھر کف افسوس ملنے کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اس احساس کی شدت ہر وقت یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی کہ اگلی زندگی کے لئے کیا کرنا ہے۔ یوں لگتا جیسے روح کا اگلا قدم ایک محل کے اندر ہے مگر اس محل کی تعمیر روح اس دنیا میں کر رہی ہے۔ ابھی ڈھیروں کام باقی ہیں۔ عمر عزیز کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ سوچیں کس قدر بدل جاتی ہیں۔ ایک وہ وقت تھا جب موت کی دہلیز دور بہت دور دکھائی دیتی تھی۔ روح کے تقاضے دل کو مضطرب کر دیتے۔ زندگی کی وقعت ایک تنکے سے زیادہ نہ لگتی۔ جی چاہتا۔ ایک پھونک میں اس تنکے کو اڑا کے نیست و نابود کر دوں تا کہ روح اپنی مراد پا جائے۔ اب سمجھ میں آتا ہے کہ پہلے منزل کا نشان تو تھا مگر راستے کا تعین نہ تھا۔ مرشد کریم نے میرے آگے ایسا راستہ کھول دیا جو منزل تک پہنچتا ہے۔ میری منزل میرا اللہ۔ میرا رب میرا اجالا، میری شب۔ روح اپنی نگاہ کے ہر اجالے اور اندھیرے میں اپنے رب کو دیکھنا چاہتی ہے۔ روح کی نگاہ کا ہر اندھیرا دنیا ہے۔ میرا جی چاہتا میں روح کی نگاہ کے سامنے سے دنیا کی ایک ایک تصویر ہٹا دوں۔ چیخ چیخ کر لوگوں کو بتا دوں۔ کام کٹھن ہے وقت مختصر ہے۔ وقت کی قدر کرو۔

                ہمارے پڑوس میں ایک نئی فیملی رہنے کو آئی۔ چند مرتبہ کی ملاقات میں ان خاتون سے میری اچھی دوستی ہو گئی۔ ایک دن شام کو میرے گھر آئیں۔ آنکھیں سوجھی ہوئی، بال الجھے ہوئے بغیر میک اپ کے چہرے پر ہوائیاں سی اڑ رہی تھیں۔ چھٹی کا دن تھا۔ انہیں اس حلیے میں اکیلے دیکھ کر میں فکر مند ہو گئی۔ تشویشناک لہجے میں پوچھا۔ اے بہن کیا ہوا۔ کیا افتاد آن پڑی جو ایسی صورت بنا لی۔ اس کے گالوں پر موٹے موٹے آنسوئوں کی دھاریں بہہ نکلیں۔ سسکتی ہوئی بولیں۔ مجھے لگتا ہے میں پاگل ہو رہی ہوں۔ میں نے فوراً کہا۔ بائیں یہ مالیخولیا تمہیں کیسے ہو گیا۔ تم پاگل ہو رہی ہو۔ اماں یار تم تو اچھی بھلی ہو۔ کہنے لگی آج صبح سے میں اپنے میاں سے لڑی جا رہی ہوں۔ میں ہنسی۔ چلو کوئی بات نہیں بیکاری کا کچھ تو مشغلہ چاہئے۔ اس کی سسکیاں اور تیز ہو گئیں۔ آپا تم سمجھ نہیں رہی ہو۔ میں نے کہا۔ اے بہن یہ بھی تمہارے سمجھانے کا قصور ہے۔ تم سمجھائو گی تو سمجھ ہی لیں گے۔ اب ایسے بھی کوڑھ مغز نہیں ہیں۔ یہ سن کر وہ روتے روتے ایک دم مسکرا پڑی۔ میں نے بھی مسکرا کے کہا۔ ہاں اب کہو کیا بات ہے۔ اس نے آنسو پونچھے اور آہستہ آہستہ کہنے لگی۔ تقریباً دو مہینے سے میرا عجیب حال ہے۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ میاں بھی بہت خیال رکھتے ہیں۔ پیسے کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ مگر میرا دل اندر سے بے چین رہتا ہے۔ بات بات پر شوہر سے جھگڑا کرتی ہوں۔ بچے چوں بھی کرتے ہیں تو انہیں دھنک دیتی ہوں۔ میرے اندر غیظ و غضب کا لاوا پکتا رہتا ہے۔ جب یہ اگل دیتی ہوں تو تھوڑا سا چین ملتا ہے۔ پھر اپنے کئے پر شرمسار ہوتی ہوں اور خاوند سے معافی تلافی کرتی ہوں۔ کیا کروں کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ میں نے کہا۔ دیکھو بہن یہ بالکل غلط ہے کہ تم اس کی وجہ نہیں جانتیں اپنے اندر کے تقاضے ہم خود ہی سب سے زیادہ بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا۔ غور کرو کہ تم کیوں بے چین ہو۔ تمہارے اندر کی بے چینی کس چیز کی طلب گار ہے۔ کہنے لگی۔ یوں لگتا ہے جیسے میں بے حد گنہگار ہوں۔ میں نے کہا۔ وہ تو ہم سب ہی ہیں۔ آدم کی مٹی کا خمیر ہی نافرمانی کا گناہ ہے۔ جو ہمارے جسموں کے خلائوں کی تخلیق کر رہا ہے اور انہی خلائوں کو روح اپنی روشنیوں سے پر کرنے کی پیہم سعی کر رہی ہے۔ اپنے اندر کے خلاء کو غور سے دیکھو تم پر تمہاری بے چینی کا راز منکشف ہو جائے گا۔ اس نے بڑے غور سے میری بات سنی۔ کہنے لگی دو تین دن سے میں برابر یہی غور کر رہی ہوں۔ اصل میں مجھے ہر وقت یوں لگتا ہے جیسے میں بہت زیادہ گناہ گار ہوں اور اللہ میاں مجھے نہیں بخشیں گے۔ جب میں اپنی گزشتہ زندگی میں دیکھتی ہوں کہ میں نے اللہ میاں کے لئے کچھ بھی نہیں کیا تو مجھے اللہ تعالیٰ سے بہت ہی خوف آتا ہے اور پھر میں پاگل سی ہونے لگتی ہوں۔ میں نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنے گناہوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کو نعوذ باللہ کمتر سمجھ رہی ہو۔ تم ہی بتائو کیا اللہ پاک کے پاس تمہارے گناہ مٹا دینے کی قدرت نہیں ہے۔ کہنے لگی۔ وہ تو میں جانتی ہوں کہ وہ قدرت رکھتا ہے۔ میں نے کہا پھر تم یقین کیوں نہیں کرتی۔ کہنے لگی میں سارا دن اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتی رہتی ہوں۔ لاحول پڑھتی رہتی ہوں کہ شیطان مجھے بہکا رہا ہے۔ میں نے کہا میری بہن تم تو سارا دن شیطان کو یاد کرتی ہو پھر اللہ سے دوری تو اپنے آپ ہو گی۔ خوف دوری کی علامت ہے وہ چونکی۔ کہنے لگی میں شیطان کو کب یاد کرتی ہوں میں تو ہر وقت لاحول پڑھتی رہتی ہوں۔ میں نے کہا آدمی سب سے زیادہ جس کو یاد کرتا ہے اور جس کا ذکر کرتا ہے وہی تو اس کے دل و دماغ سے قریب ہوتا ہے۔ تم اپنے دل و دماغ میں اللہ کو بسا لو۔ اللہ کا ذکر کرو تو شیطان کا خیال بھی نہیں آئے گا۔ تم رحمٰن کے تصور اور محبت میں مشغول رہو گی تو رحمٰن خود ہی تمہارے دشمن کو تمہارے قریب نہیں آنے دے گا۔ کہنے لگی گزشتہ زندگی کا کیا کروں اس کا افسوس دل میں بیٹھ گیا ہے۔ میں نے کہا سانپ نکل گیا اب لکیر پیٹنے سے فائدہ۔ تم اپنے تلملاہٹ کا بدلہ بال بچوں سے لے رہی ہو۔ ایک چیز کو بنانے کے لئے جو چیز بنی ہوئی ہے اسے بھی بگاڑ رہی ہو کہنے لگی پھر کیا کروں۔ میں نے کہا میری بہن تم انسان ہو آدم کی اولاد ہو اس آدم کی جس کے لئے اللہ پاک نے قرآن میں فرمایا ہے کہ آدم غلطی کا پتلا ہے۔ آدم کمزور ہے آدم جلد باز ہے وغیرہ وغیرہ۔ غرضیکہ قرآن میں آدم کی بے شمار کمزوریاں بیان کی گئی ہیں مگر ان سب کمزوریوں کے ساتھ اللہ پاک نے آدم کو اپنی بارگاہ میں قبول کر کے اسے فرشتوں سے افضل قرار دیا ہے۔ فرشتے نورانی مخلوق ہیں اور ان سے کوئی غلطی نہیں ہوتی۔ اگر اس کے باوجود بھی اللہ نے آدم کو پسند کیا تو تم فرشتہ بن کر اپنے رتبے کو کیوں گھٹانا چاہتی ہو۔ تم اس فکر میں ہر وقت کیوں غلطاں ہو کہ تم اللہ کے سامنے یہ دعویٰ کر سکو کہ تم سے دنیا میں کوئی گناہ سرزد ہی نہیں ہوا۔ اس کی بجائے تم عملی زندگی کیوں نہیں گزارتیں۔ اپنے بال بچوں کی خدمت کرو۔ ان کی ضروریات کا خیال رکھو اور ہر دم ان کے لئے خیر و عافیت اللہ سے چاہتی رہو۔ خدمت میں عاجزی ہے انکساری ہے جو غیظ و غضب کو دور کرتی ہے۔ اس کے علاوہ قرآن کو سمجھ کر پڑھو اور روحانی لٹریچر پڑھو۔ بزرگوں کے واقعات پڑھو جن سے تمہیں سکون و تقویت ملے۔ کہنے لگی بزرگوں کے واقعات پڑھتی ہوں تو اور زیادہ افسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی زندگی ضائع کر دی۔ میں ان جیسے کام کیوں نہیں کر سکتی۔ میں نے کہا تم کو اس لئے افسوس ہوتا ہے کہ تم ان سے اپنا مقابلہ کرتی ہو۔ سیکھنے کے لئے مقابلے کی نہیں بلکہ پیروی کی ضرورت ہے۔ پیروی بندگی سے حاصل ہوتی ہے۔ بندگی تو کولہو کے بیل سے سیکھنی چاہئے کہ جو آنکھوں پر پٹی باندھے اپنے مالک کے حکم پر کولہو کے چکر لگاتا رہتا ہے۔

                میری باتوں سے اس کو بڑی راحت ملی۔ وہ تقریباً روز ہی فرصت کے وقت میرے پاس آ جاتی۔ میرے سامنے اپنے اندر کی آگ اگلتی۔ میں اس پر ٹھنڈا ٹھنڈا پانی ڈالتی رہتی۔ اس طرح دو ہفتے گزر گئے۔ ایک دن وہ بڑی خوش خوش میرے پاس آئی کہنے لگی۔ آپا آج تو میرے میاں کہہ رہے تھے۔ کیا بات ہے خیریت تو ہے۔ دو ہفتوں سے نہ تو تم نے بچوں کی پٹائی کی ہے اور نہ ہی مجھ سے جھگڑا کیا ہے۔ یہ تم پر کس نے جادو کر دیا ہے۔ اس کی بات سن کر میں زور سے ہنسی۔ میں نے کہا اپنے میاں سے کہنا کہو و جادو الٹا کر دیں۔ وہ گھبرا کر بولی۔ نہ نہ نہ نہ ایسا مت کرنا اور ہم دونوں ہنسنے لگیں۔

 


Khushboo

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔

دعا گو:

                                        خواجہ شمس الدین عظیمی