Topics

غیب


                سردیوں میں انگلینڈ کے دن بہت ہی مختصر ہوتے مگر گرمیوں میں دن اٹھارہ گھنٹے کا بن جاتا ہے۔ گرمیوں میں حبیب مارکیٹ سے واپس آتے تو پانچ بجے کے بعد بھی تقریباً چار پانچ گھنٹے خوب روشنی رہتی۔ وہ ہمیں پہلے ہی کہہ دیتے کہ تیار رہنا۔ کھانا وغیرہ ساتھ رکھ لینا ہم باہر کہیں پکنک پر چلیں گے اور کھانا بھی وہیں جا کر کھائیں گے۔ بڑا ہی مزہ آتا۔ راستے بھر ہم سب مل کر گاتے جاتے۔ بچوں کو اردو گانے تو قطعی آتے نہ تھے بس اسکول کی انگلش پوئم گاتے گاتے راستہ گزر جاتا۔ ہم سب کو ایک پوئم بہت پسند تھی جو ہم کورس میں گاتے اور خوب قہقہے لگاتے وہ یہ تھی:

                One Green Bottle Hanging on the Wall

                اب میں اس کا دوسرا مصرعہ بھول گئی ہوں مگر دن سے ٹو اور تھری ہو کر ہر مصرعے میں بوتلوں کی تعداد بڑھتی جاتی تھی۔ جب Bottleکا لفظ آتا تو حبیب زور سے آواز نکالتے۔ ہم سب بے تحاشہ ہنس پڑتے۔ ساری گرمیاں اسی طرح گزرتیں۔ ہفتے میں تین چار دن تو ہم ضرورہی باہر جاتے۔ بہت ہی مزا آتا۔ ذرا سی بھی تنہائی ملتی تو میں اپنے رب سے اس بات کا شکر ادا کرتی اور ساتھ ساتھ دعا بھی کرتی رہتی اور دل ہی دل میں اللہ میاں کے سامنے اپنی صفائی بھی پیش کرتی جاتی کہ اللہ میاں بے شک آپ کی محبت سب سے اول ہے مگر رشتے بھی آپ نے ہی بنائے ہیں۔ اگر میاں بیوی میں محنت نہ ہو تو بچوں میں بھی نہیں رہتی۔ گھر کا ماحول درست رکھنے کے لئے میاں بیوی میں محبت ہونی لازمی ہے۔ غرضیکہ اب میں ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتی کہ حبیب کی محبت میں کسی بھی طرح پرستش کا رنگ نہ آنے پائے۔

                مغرب کے وقت چونکہ سب گھر میں ہوتے تھے تو حبیب ہمیشہ مغرب کی نماز با جماعت پڑھاتے۔ وہ بڑی خوبصورت قرأت کرتے۔ سب بچے بڑے شوق سے نماز پڑھتے۔ رمضان میں حبیب اور میں پورے روزے رکھتے اس وجہ سے بچوں کو بھی شروع سے ہی روزے رکھنے کی عادت ہو گئی۔ بچے سحری میں اٹھ کر قرآن پڑھتے۔ غرضیکہ اللہ کے فضل و کرم سے گھر کا ماحول نہایت ہی پرسکون تھا۔ پھر میں بچوں کو آہستہ آہستہ ان کی سمجھ کے مطابق بتاتی رہتی کہ جسم کے ساتھ ساتھ روح بھی کام کر رہی ہے اور روح غیب میں دیکھ سکتی ہے۔ روح کی آنکھ سے ہم فرشتے اور اللہ تعالیٰ کا وہ نور جو غیب میں پھیلا ہوا ہے دیکھ سکتے ہیں۔ میرے بچوں کو احساس تھا کہ ان کی ماں کو غیب سے کچھ نہ کچھ واقفیت ضرور ہے۔

                پاکستان سے واپس آ کر بھی ہمارا یہی ارادہ رہا کہ وہاں جس مکان کی تعمیر شروع کی تھی اسے مکمل کرا لیں اور جیسے ہی حالات بہتر ہوں واپس مستقل چلے جائیں۔ وہاں سے آنے کے تین سال بعد ہمارا مکان مکمل ہو گیا چونکہ برابر میں بہن بہنوئی رہتے تھے انہوں نے اس میں ساری محنت کی۔ مکان تیار ہو گیا تو انہوں نے کرائے پر چڑھا دیا۔ چند ماہ بعد گرمیوں میں ہم نے بہن کی بڑی بیٹی کو یہاں سیر و تفریح کے لئے بلایا۔ اس نے اسی سال بی اے کیا تھا۔ دراصل ہم کسی نہ کسی طرح بہن بہنوئی کے حسن سلوک کا شکریہ ادا کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے سوچا اور تو ہم کچھ نہیں کر سکتے ان کی بیٹی کو بلا کر انگلینڈ کی سیر ہی کرا دیں۔ وہ یاد بھی بہت آتی تھی۔ میری بھانجی صرف چھ ہفتوں کے لئے آئی تھی گرمیوں کے لمبے لمبے دن، جولائی اگست میں یہاں چوبیس میں سے کم از کم بیس گھنٹے تو روشنی رہتی ہی ہے۔ سیر و تفریح کے لئے یہ دن نہایت موزوں ہوتے ہیں۔ روزانہ شام کو کنٹری سائڈ گھومنے نکل جاتے اور اتوار کو جب حبیب کی سارے دن کی چھٹی ہوتی تو کہیں دور نکل جاتے۔

                ایک دن گھومتے گھماتے پہاڑی علاقے میں پہنچ گئے وہاں ہمیں ایک بورڈ پر Blue Johu Mineلکھا ہوا دکھائی دیا۔ یہ قیمتی پتھر کی کان ہے۔ یہ اسٹون زیورات میں استعمال ہوتا ہے۔ ہم میں سے کسی نے بھی کبھی کان نہیں دیکھی تھی۔ طے یہ پایا کہ بس آج کا دن یہیں گزارا جائے۔ ہم سب کو کان کے اندر جانے کا اشتیاق ہوا۔ پہاڑ کے اندر نیچے ہی نیچے تقریباً تین سو گیارہ یا تین سو تیرہ سیڑھیاں اتر کر کان آتی تھی۔ اندر پہنچے تو جگہ گیلی اور بہت ہی پھسلن والی تھی۔ گائیڈ ہمارے ساتھ ساتھ ہمیں بتاتا جاتا اور دکھاتا جاتا تھا۔ پھسلن کی وجہ سے ہم سب ساتھ میں لگی ہوئی رسی کو پکڑ پکڑ کر سنبھل سنبھل کے چل رہے تھے۔ اچانک میرے ذہن میں خیال آیا کہ کہیں کوئی گر نہ جائے۔ اسی وقت میں نے زور سے سب کو کہا۔ بچو ذرا سنبھل کے چلو۔ ابھی جملہ ختم ہی ہوا تھا کہ اگلے ہی لمحے میں خود زمین پر چاروں شانے چت پڑی تھی۔ گائیڈ اور حبیب نے فوراً اٹھایا تکلیف کا تو قطعی احساس نہ ہوا البتہ ہنسی ضبط نہ ہو سکی۔ سارے بچے بھی کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ بھانجی بولی آنٹی آپ نے اپنے آپ کو سنبھل کر چلنے کی نصیحت نہیں کی تھی۔ غرض یہ کہ بہت مزا آیا۔ میرے سارے کپڑے چکنی مٹی میں لتھڑ پتھڑ ہو گئے۔ ہم اسی طرح گھومتے رہے اور ہنستے رہے۔ کان سے باہر نکلے تو ہماری ٹانگیں اتنی ساری سیڑھیاں چڑھنے پر بل بل کر احتجاج کرنے لگیں۔ ہم وہیں بیٹھ گئے۔ ہرے بھرے پہاڑوں پر صاف ستھری ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اور سنہری دھوپ نے جہاں ہماری تھکن کو دس پندرہ منٹ کے اندر مٹا دیا وہیں میرے کپڑوں کو بھی سکھا دیا۔ بس اب صرف کپڑوں پر چکنی مٹی کے دھبے رہ گئے تھے جو رنگین کپڑوں پر بہت ہی نمایاں تھے۔ دن ابھی بہت باقی تھا۔ گھر بہت دور تھا۔ برطانوی معاشرے کا ایک وصف یہ ہے کہ کوئی کیسے بھی حلیے میں باہر نکل آئے کوئی ذرا بھی مذاق نہیں اڑاتا۔ یہی سوچ کر میں نے کہا چلو اب کہیں اور چلتے ہیں۔ چنانچہ ہم کسی اور جگہ نکل آئے۔ شام تک اسی طرح گھومتے پھرتے رہے۔ حبیب زیادہ تر ایسے مقامات پر لے جاتے جہاں تفریح کے ساتھ ساتھ معلومات بھی حاصل ہوں جیسے میوزیم، آرٹ گیلری، پرانی عمارتیں اور محلات۔ اس کے علاوہ خوبصورت پارک ہمارے پسندیدہ تفریحی مقام تھے۔ فطرت کے خوبصورت مناظر، جھیلوں اور پہاڑوں پر جانے کے لئے تو سب ہی ہر وقت تیار رہتے۔ پہاڑوں پر چڑھنے میں بڑا مزا آتا۔

                یہ چھ ہفتے اس طرح گزرے جیسے چھ دن۔ بھانجی کے بہانے ہم نے بھی انگلینڈ کا چپہ چپہ چھان مارا۔ چھٹیاں ختم ہو گئیں۔ بھانجی کو بی ایڈ کرنا تھا۔ اس لئے وہ اور نہ رک سکی۔ ہمارے ذہن مطمئن تھے کہ رشتہ داروں کے نیک سلوک پر ہم نے بھی اپنی جانب سے حتی الامکان انہیں خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ دنیا میں ایک دوسرے سے تعلقات تو اسی طرح درست رہ سکتے ہیں کہ دونوں جانب سے ایک دوسرے کا خیال رکھا جائے۔ اس لحاظ سے حبیب بھی میرے ساتھ پورا تعاون کرتے تھے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے رشتے داروں کی عزت کرتے اور نہ ہی حبیب نے اپنے رشتہ داروں کا ضرورت سے زیادہ خیال کیا نہ ہی میں نے۔ آج بھی میرا یہی نظریہ ہے کہ انسان کو تمام رشتہ داروں کے ساتھ ایک بیلنس کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے چاہئیں۔ اس طرح سب کے ساتھ دوستی قائم رہتی ہے اور کسی کو شکایت نہیں رہتی۔

                بھانجی کے جانے کے ایک ڈیڑھ ماہ بعد رمضان کا مہینہ شروع ہو گیا۔ حبیب کا معمول تھا کہ وہ سب سے پہلے سحری میں اٹھتے۔ پھر مجھے جگاتے اور پھر ہم بچوں کو اٹھاتے۔ ان دنوں میری بیٹی چودہ سال کی تھی۔ رمضان سے کوئی چھ ماہ پیشتر اس نے خواب دیکھا کہ کچھ لوگ ہیں جن کے چہرے کرخت ہیں وہ بہت ہی حاسدانہ نظروں سے ان کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ بیٹی کو کچھ خبر نہیں ہے وہ بیٹھی اپنا کام کر رہی ہے۔ اتنے میں ایک نور آ کر بیٹی کو اپنے احاطے میں لے لیتا ہے۔ یہ نور آسمان سے اترتا ہے اور جیسے ہی یہ نور میری بیٹی کے اطراف میں پھیل جاتا ہے تو بیٹی کی توجہ اس طرف ہوتی ہے اس نور سے آواز آتی ہے کہ دعائے جمیلہ کا نور تمہاری حفاظت کر رہا ہے۔ تم ہر روز دعائے جمیلہ پڑھا کرو۔ اس دن سے میری بیٹی ہر روز دعائے جمیلہ پڑھنے لگی۔ اسے اس پر بڑا اعتقاد ہے۔

                ہاں تو اس رمضان میں یوں ہوا کہ ایک رات سحری میں حبیب جاگے۔ بیٹی کا کمرہ باتھ روم کے برابر تھا۔ باتھ روم سے واپس آئے تو مجھے جگایا۔ میں نے کہا بیٹی کو اٹھایا کہنے لگے دروازے کے نیچے روشنی دکھائی دے رہی ہے وہ اٹھی ہوئی ہے اس نے کہا اچھا۔ اب میں باتھ روم گئی میں نے بھی دیکھا کہ بیٹی کے کمرے کے دروازے کے نیچے سے ٹیوب لائٹ کی طرح خوب روشن لائٹ نظر آ رہی ہے۔ مجھے بھی یہی خیال آیا کہ جاگ گئی ہے۔ میں نے اور حبیب نے وضو کر کے پہلے تہجد کے نفل پڑھے پھر نیچے کچن میں جانے لگی تو حبیب نے کہاکہ آواز نہیں آ رہی۔ ذرا دیکھو تو کہیں لائٹ جلا کے دوبارہ تو نہیں سو گئی۔ ہم دونوں اپنے کمرے سے باہر نکلے سامنے چند قدم پر ہی اس کا کمرہ تھا۔ ہم دونوں اس کے کمرے کی جانب دیکھنے لگے۔ دروازے کے نیچے سے مرکری جیسی لائٹ نکل رہی تھی۔ ایک لمحے کو ہم نے غور سے دیکھا۔ حبیب چونک کر بولے شمامہ یہ کیسی لائٹ ہے میں بھی ایک دم سن ہو گئی پھر مجھے خیال آیا کہ ہمارے یاہں تو کسی کمرے میں بھی ٹیوب لائٹ نہیں ہے۔ حبیب نہایت تیزی سے آگے بڑھے میں چپ چاپ اپنی جگہ کھڑی رہی۔ انہوں نے آہستہ سے دروازہ کھولا کمرے میں گھپ اندھیرا تھا۔ بیٹی کے گہری نیند میں زور زور سے سانس لینے کی آوازیں آنے لگیں۔ انہوں نے آہستہ آہستہ سے دوبارہ دروازہ بند کر دیا۔ میرے پاس آئے، کہنے لگے وہ تو گہری نیند میں ہے۔ کمرے میں بالکل اندھیرا ہے میرے اندر سے آواز آئی یہ دعائے جمیلہ کا نور تھا۔ میں نے حبیب سے کہا کہ دعائے جمیلہ کا نور اس کی حفاظت کر رہا ہے۔

                بعد میں، میں نے سب بچوں کو بتایا کہ جب ہم اللہ کا کلام پڑھتے ہیں تو اس کا نور ہمارے اندر داخل ہو جاتا ہے اور یہ نور ہر وقت ہماری حفاظت سوتے اور جاگتے میں کرتا ہے۔ حبیب اس مشاہدہ پر بہت خوش ہوئے اور بعد میں بیٹی سے اکثر پوچھتے رہتے کہ تم نے دعائے جمیلہ پڑھی وہ کہتی پاپا وہ تو میں نے کب کی یاد کر لی ہے۔ اسے تو میں کبھی نہیں بھولتی۔ حبیب خود بھی اس دعا کو اب اکثر پڑھنے لگے۔ اب دھیرے دھیرے ان کی سمجھ میں آنے لگا کہ ہر انسان کے اندر روحانی صلاحیتیں موجود ہیں اور اگر کوشش کی جائے تو ان صلاحیتوں سے کام بھی لیا جا سکتا ہے۔ باطنی صلاحیت کو پہچاننا اور ان کا استعمال محض مخصوص لوگوں یا صرف اولیاء اللہ تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اولیاء کرام ہمارے رہبر اور گائیڈ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے روحانی تجربات ہمارے لئے مشعل راہ بن جاتے ہیں۔

                اس سال رمضان کے بعد مسلسل مجھ پر الہامی کیفیات طاری رہنے لگیں۔ ان کیفیات کو میں قلمبند کر لیتی اور پاکستان میں بہن کو بھی بھجوا دیتی۔ غیبی مشاہدات کو اب میری عقل پہلے کی نسبت زیادہ بہتر سمجھنے لگی۔ مجھے اب اپنی زندگی بامقصد دکھائی دینے لگی۔ دل کو یقین آ گیا کہ غیب کو جاننے اور روح کو پہچاننے کا تقاضا ایک نہ ایک دن ضرور پورا ہو گا۔ قرآن کے مفہوم اور زیادہ سمجھ میں آنے لگے۔ میری تمام تر توجہ بال بچوں کی نگہداشت اور روحانی علوم سیکھنے کی جانب ہوتی۔ لوگوں سے ملنے ملانے میں میرا قطعی دل نہ لگتا۔ حبیب کا وقت بھی کام کے علاوہ گھر میں ہی گزرتا تھا۔

                 ہم دونوں کو بچوں کی صحیح تربیت کا بے حد خیال رہتا۔ اس سلسلے میں مجھے اپنی ماں کا یہ قول کبھی نہیں بھولا کہ اولاد اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔ اولاد کی صحیح تربیت کرنا اس طرح ہے جیسے امانت کو احسن طور پر اس کے مالک تک پہنچا دیتا۔ اس کے علاوہ اولاد کی تربیت کے سلسلے میں روحانی طرز فکر کا بھی ہمیشہ دخل رہا۔ اس سے متعلق ایک واقعہ یاد آیا ہے وہ بھی آپ کو سناتی چلوں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں انگلینڈ نئی نئی آئی تھی۔ یہاں آتے ہی جلدی جلدی بچے ہو گئے۔ اس وقت اپنے لوگ بھی بہت کم تھے۔ خصوصاًفیملی والے بہت ہی کم تھے۔ چند ایک گھر تھے بھی تو میں ان سے کم ہی ملتی تھی کیونکہ بال بچوں اور گھرکے کاموں سے جو وقت ملتا وہ قرآن پڑھنے اور نماز میں گزار دیتی۔ اس لئے میں خود کسی کے گھر نہ جاتی تھی۔ پھر سردیوں میں بچوں کو لے کر نکلنا بھی مشکل لگتا تھا۔ گاڑی میں بھی نہیں تھی۔ ان دنوں زندگی کی اتنی سہولتیں نہیں تھیں۔ کوئی بچہ سنبھالنے والا نہ تھا۔ اس لئے ہم اکٹھے کم ہی باہر جاتے تھے۔ ان دنوں ایک مرتبہ حبیب کے ساتھ مجھے باہر جانا پڑا۔ بچوں کو تنہا گھر میں چھوڑنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔ اس زمانے میں گھروں کو گرم رکھنے کے لئے کوئلے جلائے جاتے تھے۔ فائر پلیس کے سامنے لوہے کی جالی کی گارڈ بچوں کی حفاظت کے لئے لگا دی جاتی تھی۔ مجبوراً میں نے کمرے میں بچوں کو اس طرح چھوڑا کہ چھوٹی بے بی کو پرام میں بٹھایا۔ دو لڑکوں کو بڑے سے ڈائننگ ٹیبل پر بٹھا کر انہیں کہہ دیا کہ یہیں بیٹھے رہنا۔ لڑکی کو ان کے سامنے کرسی پر بٹھا دیا۔ یہ ذرا بڑی تھی تقریباً چھ سال کی۔ اسے ہدایت کر دی کہ بچوں کو ٹیبل سے اترنے نہ دیتا۔ دو تین گھنٹے جب تک ہم باہر رہیں سارا وقت مجھے یوں لگا جیسے میں کمرے میں بچوں کو دیکھ رہی ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ کمرے میں آگ جل رہی تھی۔ آگ بجھا بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ شدید سردی تھی۔ ان مجبوریوں کے تحت انہیں اللہ کے سپرد کر کے چلے گئے۔ بلاشبہ اللہ سے بڑھ کر اور کوئی اپنے بندوں کی حفاظت کرنے والا نہیں ہے۔ گھر واپس آئے تو سب اسی طرح بیٹھے تھے جیسے چھوڑ گئی تھی۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اس کے بعد ایک دو مرتبہ اور اس قسم کا واقعہ ہوا مگر اللہ کا شکر ہے کہ اللہ نے ہمیشہ حفاظت کی۔ مجھے یوں لگتا جیسے اپنی غیر موجودگی میں، میں بچوں کو دیکھ رہی ہوں۔ اب میں سوچتی ہوں کہ بندے کا یقین ہی نظر بن کر غیب کا مشاہدہ کرتا ہے۔ انسان نظر کے دونوں رخوں کو بیک وقت استعمال کر سکتا ہے۔ اگر اس کے اندر یقین کا پیٹرن بن جائے۔ زندگی کا اصل لطف اسی وقت آتا ہے جب زندگی کا ادراک ظاہر اور باطن دونوں رخوں میں ہوتا ہے۔ اب چاروں بچے اسکول جانے لگے تھے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ مکان تو بن ہی چکا ہے۔ چند سالوں میں کچھ اور پیسے جمع کر کے مستقل طور پر پاکستان چلے جائیں گے۔ اس نظریے کے تحت میں گھر کے علاوہ باہر کے کاموں میں بھی پورا حصہ لیتی۔ اس کے ساتھ ساتھ میرا روحانی واردات و کیفیات کا سلسلہ کچھ عرصہ چلتا تھا۔ پھرکچھ دنوں کے لئے بند ہو جاتا تھا پھر خود بخود شروع ہو جاتا تھا۔ یہ سلسلہ جب شروع ہوتا تو میری روح اس قدر خوش ہوتی کہ جی چاہتا کہ کبھی بھی بند نہ ہو۔ مگر جب رک جاتا تو مجھے سخت تکلیف ہوتی۔ ایسا لگتا جیسے میرے اور اللہ کے درمیان ایک پردہ آ گیا ہے۔ میں نماز اور قرآن پڑھتی مگر وہ مزہ نہ آتا۔ ایک مرتبہ مسلسل کئی دنوں تک لاشعوری حواس مجھ پر غالب رہے۔ ان دنوں اچھے یہ محسوس ہوا جیسے مجھ سے حساب کتاب لیا جا رہا ہے۔ تین دنوں تک میں اپنی روح کو حساب کتاب میں دیکھتی رہی۔ اس سے اب تک زندگی کا حساب کتاب لیا جا رہاتھا۔ خاص خاص باتیں خاص واقعات جو زندگی کے لئے اہم تھے ان اہم امور میں ارادے کے فیصلوں کی پوچھ گچھ کی گئی۔ میں جانتی تھی کہ یہ سب میری روحانی تربیت کا ایک دور ہے۔ اس دور میں مجھے آئندہ زندگی میں پیش آنے والے مراحل سے گزارا جا رہا ہے تا کہ شعور ان مراحل کو پہچان لے۔ اس وقت ان روحانی واردات کا میں نے یہ مفہوم لیا کہ روح کی نظر لوح محفوظ کی تحریر کو پڑھتی ہے اور لوح محفوظ کے احکامات پر عمل کرتی ہے تین دن بعد جب یہ مرحلہ ختم ہوا تو مجھ پر سے لاشعوری حواس کا غلبہ بھی کم ہو گیا۔

                ان دنوں میں جتنی سنجیدہ تھی اب اتنی ہی خوشی محسوس کرتی۔ مجھے اس بات کی بے حد خوشی تھی کہ غیب کو جاننے کی خواہش اب آہستہ آہستہ پوری ہو رہی ہے۔ جو کچھ مجھے معلوم ہوتا سب سے پہلے حبیب کو بتاتی اور پھر پاکستان بہن کو خط میں لکھ دیتی۔ ان واردات و مشاہدات سے متعلق قرآن میں آیات تلاش کر لیتی کیونکہ قرآن کے حوالے سے بہت جلد عقل میں بات آ جاتی ہے اور سمجھائی بھی جا سکتی ہے۔ اب اکثر دن میں جب کوئی بھی گھر میں نہ ہوتا میرے سوائے تو ان روحانی مشاہدات و واردات میں تیزی آ جاتی۔ کبھی شعور پر تجلیات و انوار کا نزول اس طرح ہوتا کہ ایک لمحے کو شعوری حواس اپنی سکت کھو بیٹھتے۔ کبھی سارے گھر میں فرشتے دکھائی دیتے۔ کبھی کچھ اور کبھی کچھ۔ میں جانتی تھی کہ غیب کے علوم جاننے کے لئے شعوری سکت کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ بس میری ہر وقت دعا یہی تھی کہ حبیب اور بچوں کے سامنے بالکل نارمل رہوں۔ اس کے لئے میں پوری پوری کوشش کرتی تھی اور کسی کو پتہ بھی نہ چلتا تھا کہ میرے اندر کیا قیامت برپا ہے۔

                عام طور سے یہ ہوتا کہ جیسے ہی مجھ سے کوئی بات کرتا فوراً ہی میرے دل کے اندر سے روح کی آواز آتی جو اس بات کا جواب دیتی پھر میں زبان سے وہ بات کہتی جو لوگوں کے ذہن اور شعور و مزاج کے مطابق ہوتی۔ مجھے اس بات کا بے انتہا خیال رہتا کہ کوئی میری بات سے رنجیدہ نہ ہو جائے۔ اس طرح بہت سی وہ باتیں جو حقیقت تھیں میں چھپا جاتی۔ مجھے اس وقت یہ احساس ہو جاتا کہ اس وقت اس بات کا افشا دوسرے کے لئے فائدہ مند نہ ہو گا۔ اس کے بعد یہ بات بھی ذہن میں آتی کہ روح کی یہ صلاحیت اور یہ شعور ہر کسی کو حاصل نہیں ہے۔ اس لئے مجھے وہی بات کرنی چاہئے جو لوگوں کے ذہن کے مطابق ہے۔ مگر جب آپ کو یہ معلوم ہو جائے کہ کوئی آپ کی زبان نہیں سمجھ رہا ہے تو آپ اپنے آپ کو دوسرے کی موجودگی میں بھی تنہا محسوس کرتے ہیں۔ تنہائی کا یہی خیال ہر وقت اللہ تعالیٰ سے منسلک رہنے پر اکساتا ہے۔ کیونکہ انسان تنہا رہ ہی نہیں سکتا۔ پھر تصور میں جس کا خیال ہو گا اس کی انس و محبت ہی دل میں جاگزیں ہو گی۔

                حبیب جب سے انگلینڈ آئے تھے پاکستان نہیں گئے تھے۔ انہیں پندرہ سال ہو چکے تھے ہم نے ارادہ کیا کہ اب مستقل طور پر وہاں جا کر رہتے ہیں۔ اس کے لئے تمام انتظامات کر لئے اور یہاں کا مکان کرائے پردے کر واپس روانہ ہوئے۔ ہم نے سوچا کہ ایک دفعہ کوشش کر کے دیکھیں اپنے وطن اپنے رشتہ داروں میں رہنے کی تمنا تو سب کو ہی ہوتی ہے۔ ہمیں پوری امید تھی کہ ہم وہاں جا کر سیٹ ہو جائیں گے۔ پھر بھی ہم ذہنی طور پر ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کو تیار تھے۔ لہٰذا ابتداء یہ ہوئی کہ ہمارے مکان کا آدھا پورشن کرائے وار خالی نہ کرتے تھے اس کے لئے حبیب نے بڑی حکمت عملی سے کام لیا اور بالآخر چند ماہ میں مکان خالی کرا لیا۔ گو اس میں ہماری عزت نفس پر خاصی ضربیں لگیں مگر ہمیں پتہ چل گیا کہ زمانہ کتنا آگے نکل چکا ہے اور ابھی تک ہم پندرہ سال پہلے کے پلیٹ فارم پر کھڑے ہوئے ہیں۔

                مکان خالی کرانے کی بھی ایک دلچسپ اسٹوری ہے جو ہماری زندگی کا ایک کٹھن تجربہ تھا۔ قصہ یوں ہے کہ کرایہ دار نہایت اچھے عہدے پر معمور بااثر و رسوخ آدمی تھے۔ انہیں تقریباً ایک سال پہلے سے بتا دیا گیا تھا کہ مکان خالی کرنا ہے۔ ہر ماہ انہیں یاد دہانی کرائی جاتی کہ فلاں ماہ میں مکان خالی چاہئے کیونکہ مالک مکان کا اب مستقل رہنے کا ارادہ ہے وہ بہت فراخ دلی کے ساتھ اقرار کرتے رہے کہ ہم بروقت مکان خالی کر دیں گے۔ جب ہم یہاں سے سمیٹ سماٹ کر وہاں گئے تو انہوں نے قطعی انکار کر دیا بلکہ دھمکی دی کہ کر لو جو کچھ کرنا ہے۔ مکان تم ہم سے خالی نہیں کرا سکتے۔ عجیب صورت حال تھی۔ ہم کچھ دن برابر میں بہن کے یہاں ٹھہرے۔ پھر چند دن بعد پیچھے کے دو کمروں می نہایت شریف لوگ تھے۔ جنہوں نے وعدہ کے مطابق مکان خالی کر دیا۔ ہم اس دن آن بیٹھے۔ مگر ان لوگوں کو یہ بھی گوارہ نہ تھا۔ ان کی بیگم صاحبہ نہایت ہی تیز طرار خاتون تھیں۔ وہ ٹھیک صبح دس بجے سے شروع ہو جاتیں اور نہایت ہی نستعلیق زبان میں گالیاں دینی شروع کر دیتیں۔ ان کی آواز ماشاء اللہ خود لائوڈ اسپیکر تھی۔ پہلے دن جب ہم نے لب لعلین سے یہ گلہائے رنگین جھڑتے سنے تو ذہن نے قبول ہی نہ کیا کہ یہ خاطر و مدارات ہم جیسے خاک نشینوں کے لئے ہے مگر پھر دوسرے دن تیسرے دن جب ٹھیک دس بجے ان کا رنگا رنگ پروگرام شروع ہو جاتا اور محلے کی کھڑکیوں سے لوگ جھانکتے دکھائی دیتے تو پتہ چلا کہ یہ ساری عنایات ہمارے اعزاز میں ہیں۔

                زندگی کا پہلا پہلا تجربہ تھا۔ پتہ چلا کہ پندرہ سال انگلینڈ میں رہ کر ہم اردو زبان کے بہت بڑے ذخیرے کو بھلا چکے ہیں۔ ادھر ان کی دشنام طرازیاں شروع ہوتیں ادھر ہمیں یوں لگتا جیسے ایک ایک کر کے ہماری سننے والی حسیں بند ہوتی جا رہی ہیں۔ ہم چپ چاپ کمرے میں بند ہو کر بیٹھ جاتے۔ ہمارے تمام حواس جیسے سن ہو جاتے۔ میری بہن اور کئی پڑوسیوں نے مشورہ دیا کہ آپ کیوں اس قدر ڈرتے ہیں۔ گالیوں کا جواب گالیوں سے کیوں نہیں دیتے۔ میں اور حبیب مسکرا دیتے اور یہی کہتے کہ اگر ہم نے بھی وہی الفاظ دہرا دیئے جو الفاظ ہمارے شیشہ دل پر تازیانہ بن کر برستے ہیں تو پھر ہم میں اور ان میں کیا فرق رہ جائے گا۔ کبھی نہ کبھی تو ان کی بھڑاس نکل ہی جائے گی۔

                تقریباً چار پانچ ماہ اسی طرح گزر گئے۔ میرا تو اب یہ عالم تھا کہ جب ان کی گالیوں کی آواز کان میں آتی تو دل کہہ اٹھتا اے حوا کی بیٹی! اے میری مائی جائی! یہ آزمائش صرف میری ہی نہیں تیری بھی ہے۔ قدرت تو دونوں کے زور بازو آزما رہی ہے۔ رب کی نگاہ سب پر یکساں ہے۔ ان چار پانچ ماہ میں حبیب نے پورے محلہ والوں سے دوستانہ تعلقات بڑھا لئے۔ شریف طبع تو وہ شروع سے ہی تھے۔ اس معاملہ میں انہوں نے نہایت ہی عقل مندی اور ٹھنڈ مزاجی کا ثبوت دیا۔ سارے محلہ والے جان گئے کہ یہ بالکل بے ضرر سے لوگ ہیں۔ اب تمام محلہ والوں نے ان کو کہنا شروع کر دیا کہ ایسے شریف لوگوں کو گالیوں سے نوازنا کہاں کی شرافت ہے۔ اب خود وہ بھی اس یک طرفہ کارروائی سے اکتا چکی تھیں۔ اب ان کے اس روٹین پروگرام میں کچھ کچھ بے قاعدگیاں ہونے لگیں۔ کالی گفتار کچھ کم ہو گئی۔

                ایک دن بروز جمعرات صبح صبح چاروں بچے اسکول گئے۔ میں ابھی بیٹھی ہی تھی۔ حبیب بھی باہر چلے گئے تھے کہ اچانک میرے اوپر الہامی کیفیات طاری ہو گئیں۔ مجھے حکم ہوا کہ اسی وقت اٹھو اور دو رکعت نماز پڑھو۔ پہلی رکعت میں ۰۰۱ دفعہ سورہ اخلاص اور دوسری رکعت میں ۰۰۱ دفعہ سورہ کوثر پڑھو۔ میں نے اسی وقت وضو کیا اور نفل پڑھنے کھڑی ہو گئی۔ نماز میں سارا وقت مجھے حضوری کی سی کیفیت رہی۔ جیسے اللہ پاک نہایت ہی قریب سے مجھے دیکھ رہے ہیں۔ نماز کے فوراً ہی بعد مجھے حکم ہوا کہ بی بی فاطمہؓ کے نام کی نیاز آج ہی بانٹ دو۔ اس کے بعد مجھے گھر میں ہر طرف نور دکھائی دیا۔ کھلی آنکھوں سے روح کی نگاہ ہر طرف نور کو دیکھ رہی تھی۔ میں نے چاروں طرف گھوم کر اس نور کا زبان سے اقرار کیا۔ اس کے فوراً بعد میری زبان جیسے بند ہو گئی۔ حکم ہوا بس اب تم تین دن تک کسی سے بات نہیں کرو گی اور مسلسل تین دن روزہ رکھو گی۔ ان تین دنوں میں ضرورت کے تحت اشاروں میں بات کر سکتی ہو یا لکھ کر۔ یہ تین دن تمہارے اعتکاف کے ہیں۔ میں نے اسی وقت ایک پرچہ پر لکھا تا کہ برابر سے جب بہن آئے تو انہیں یہ پرچہ تھما دوں اور وہ میرے بال بچوں کی ضرورت کا انتظام کر دیں اور مجھے کوئی ڈسٹرب نہ کرے۔ پردے کے لئے چادر تان لی اور اعتکاف میں بیٹھ گئی۔ تھوڑی دیر میں بہن ملنے آئیں۔ برابر میں گھر ہونے کی وجہ سے آنا جانا لگا رہتا تھا۔ وہ آئیں تو میں نے پرچہ انہیں تھما دیا۔ اس میں لکھ دیا کہ بال بچوں کے لئے کھانے پینے کا انتظام ان تین دنوں میں کر لینا۔ وہ بہت خوش ہوئیں اور اللہ کا شکر ادا کیا اور تسلی دی کہ تم فکر نہ کرو۔ سب کام ہو جائے گا۔ میں بچوں کو ان تین دنوں میں اپنے گھر رکھوں گی تا کہ تم اطمینان سے عبادت کر سکو۔ اسی دوران میں نور کا مشاہدہ کرتی رہی۔

                آخری دن روزے کی افطاری میں بہن نے کافی اہتمام کیا۔ سب لوگ بے حد خوش تھے۔ بہن کھانا پکا کر میرے گھر ہی لے آئی۔ ان کے خاندان اور میرے بال بچوں نے سب نے مل کر کھایا، سب بہت خوش تھے۔ مجھ سے تو کچھ کھایا نہ گیا۔ بس ذرا سی پتلی کھچڑی اور جوس پی سکی۔ اس وقت میری بیٹی نے بتایا کہ امی جس دن آپ نے روزہ شروع کیا اس رات میں نے خواب میں حضرت بی بی فاطمہؓ کی زیارت کی۔ میں نے بہن کو اسی دن لکھ دیا تھا کہ بی بی فاطمہؓ کے نام کی نیاز بانٹ دیں۔ انہوں نے فوراً بانٹ دی۔ اب میں نے بھی اعتکاف سے فارغ ہو کر ان کے نام کی نیاز بانٹی اور اللہ پاک کی نظر کرم کے لئے شکر ادا کیا۔

                دوسرے دن حبیب کہنے لگے کہ میں آج پھر ان کرایہ دار کے پاس جاتا ہوں اب وہ کیا کہتے ہیں۔ حبیب ان کے پاس گئے تو اس مرتبہ وہ صاحب خاصی نرمی سے پیش آئے۔ بولے ہمارا مکان بن رہا ہے مکمل ہو جائے تو چلے جائیں گے۔ اگلے تین ماہ حبیب نے ان کے مکان کو بنوانے میں لگا دیئے۔ اس طرح وہ جو جو بہانہ کرتے کہ یہ نہیں ہے وہ نہیں ملتا، فرصت نہیں، حبیب اور میرا بھانجا مل کر ان کے لئے دوڑ دھوپ کر کے وہ کام کر دیتے۔ میرے بہن بہنوئی اور ملنے جلنے والے سخت حیران تھے کہ انگلینڈ سے آکر بیچارے کن دھندوں میں پڑ گئے۔ مگر حبیب کہتے کہ میں نے وکیل سے بھی بات کر لی ہے وہ یہی کہتا ہے کہ کورٹ کے ذریعے مکان بیس سال میں بھی خالی نہ ہو سکے گا۔ وہ شخص قانون کی تمام موشگافیوں سے واقف ہے اور پھر اثر و رسوخ والے بندے کے لئے تو اکثر ناجائز کام بھی جائز ہو سکتا ہے۔ اس لئے سوائے دوستانہ ماحول کے اور کسی حالت میں مکان خالی کرانا ممکن نہیں ہے۔

                ہم سب کو پورا یقین تھا کہ اللہ پاک اپنا فضل کرنے والے ہیں۔ ان کا مکان بن گیا تو کہا کہ پنکھے لگیں گے تو جائیں گے۔ خیر حبیب نے زور لگوا کر خود اپنے ساتھ لے جا کر پنکھے دلوائے تو اب انہیں فکس کرنے والا الیکٹریشن نہیں ملتا تھا۔ حبیب نے اور میرے بھانجے نے مل کر خود ہی پنکھے لگائے۔ کچھ نہ پوچھیں کیا کیا نہ کرنا پڑا۔ روز روز جانے اور ملنے سے حبیب کی دوستی ان لوگوں سے ہو گئی۔ دوستی بھی مجبوری تھی۔ حبیب اس قدر محبت اور نرمی سے پیش آئے کہ وہ لوگ بھی مجبور ہو گئے اپنی زبان بند رکھنے کے لئے۔ سارے محلے میں خبریں پھیل گئیں۔ بہرحال حبیب نے انہیں مکان چھوڑنے پر آمادہ کر ہی لیا۔ ہر شخص اب یہی کہتا کہ نو مہینے میں مکان خالی کرا لینا واقعی آپ کا کمال ہے۔ حتیٰ کہ وکیل نے بھی یہی کہا کہ اس کیس کو میں پندرہ سال تک بڑی آسانی سے کھینچ سکتا تھا مگر سچ تو یہ ہے کہ اللہ حق ہے اور حق کی پاسداری کرنا اس کا کام ہے۔

 

 

 

 


Khushboo

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔

دعا گو:

                                        خواجہ شمس الدین عظیمی