Topics

ایثار


                میں نے دیکھا کہ میں ایک سڑک پر جا رہا ہوں۔ اس سڑک پر پانی بہہ رہا ہے اور سڑک گیلی ہے۔ مگر بڑا اچھا موسم ہے کہ سڑک کے کنارے بلڈنگ کی بالکونی سے خوبصورت عورتیں مجھے اشارے کنایوں سے اپنی طرف بلا رہی ہیں۔ یہ خواب سنتے ہی میرے دل میں مبہم سا خیال آیا موت بلا رہی ہے۔ مگر فوراً ہی میں نے اسے جھٹک دیا اور مسکرا کر بھائی سے بولی۔ آپ خواہ مخواہ اتنے فکر مند ہو رہے ہیں۔ خواب تو بہت اچھا ہے۔ میں تعبیر نامے میں اس کی تعبیر دیکھ کر آپ کو بتاتی ہوں۔ میں نے چپکے سے تعبیر نامے میں تعبیر دیکھی۔ وہاں لکھا تھا۔ خوبصورت عورت دیکھنے کو مطلب ہے دولت ملے گی۔ میں نے بھائی کو بتایا مگر وہ میری بات سننے کے بعد بھی اسی طرح فکر مند رہے۔ ان کی حالت ذرا بھی نہ بدلی جیسے انہیں اس پر قطعی یقین نہیں آیا ہو۔ بس آہستہ سے کہنے لگے تو کسی سے کہنا مت۔ امی کو بالکل نہ بتانا۔ میں نے کہا میں کسی کو نہیں بتائوں گی۔ بھائی جان کی بیماری سے سارا گھر پریشان تھا۔ ابھی تو ان کے دو چھوٹے چھوٹے بیٹے تھے۔ ایک ڈھائی تین سال کا اور ایک سوا سال کا۔ کچھ ہی دنوں میں بھائی ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئے۔

                دو تین ہفتوں میں ان کی حالت بدل گئی۔ صحن میں کیلوں کا درخت تھا۔ جس میں کیلے لگے تھے مگر بالکل کچے تھے۔ یہ گھر کا پہلا پہلا پھل تھا۔ ایک دن امی نے تسلے میں بھائی کے پائوں دھلا کر انہیں کرسی پر صحن میں اسی درخت کے نیچے بٹھا دیا۔ بھائی جان نے حسرت سے کیلوں کی طرف دیکھا کہنے لگے اماں یہ پہلا پھل میں کھائوں گا۔ اماں پیار سے بولیں پک جائے تو سب سے پہلے میں اپنے بیٹے کو دوں گی یہ پھل۔ وہ چپ چاپ بیٹھے کرسی کی پشت پر سر ٹکائے کیلے کے درخت کو گھورتے رہے۔ ان کی آنکھوں سے حسرت ٹپک رہی تھی۔ میری ماں کی آنکھوں میں اس سے بھی زیادہ حسرت تھی۔ ممتا کا بس نہیں چلتا تھا کہ ابھی کیلے پک جائیں تو توڑ کر اپنے بچے کو کھلا دے۔

                دوسرے ہی دن بھائی کوما میں چلے گئے۔ ڈاکٹر نے برین ہیمرج بتایا اور تیسرے دن وہ چل بسے۔ جس وقت ان کا جنازہ لے جا رہے تھے میں بالکل صاف کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی کہ چار فرشتے ہیں یہ کافی لمبے قد کے آدمی نما ہیں۔ ان چاروں نے بھائی کو اٹھایا ہوا ہے اور لے جا رہے ہیں۔ یہ منظر اس قدر واضح تھا کہ بھائی کا اصل میں جنازہ کون لے جا رہا ہے سب کچھ میری آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ بس صرف فرشتے ہی انہیں لے جاتے ہوئے دکھائی دیئے۔ بھائی کسی چادر میں لپٹے ہوئے تھے۔ میں چیخ چیخ کر انہیں کہنے لگی۔ خدا کے لئے میرے بھائی کو مت لے جائو۔ پوری قوت سے میں سب سے التجا کرتی رہی کہ میرے بھائی کو روکو۔ وہ اسے لے جا رہے ہیں۔ پکڑو انہیں مت لے جانے دو۔ میں چلا رہی تھی اور فرشتوں سے التجا کر رہی تھی۔ چھوڑ دو اسے۔ میرے بھائی کو مت لے جائو۔ پھر میں ان سے لڑنے لگی میں تمہیں ہرگز بھی نہیں لے جانے دوں گی۔ میں ان کے بالکل قریب تھی مگر وہ میری بات پر دھیان نہیں دے رہے تھے اور بس اپنا کام کئے جا رہے تھے۔ اس وقت مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں ابھی بچی ہوں اور یہ تمام فرشتے خوب جوان اور مضبوط آدمی ہیں مگر اس کے باوجود بھی میں چیخ چیخ کر ان سے اپنے بھائی کے لئے جھگڑ رہی تھی۔ چھوٹی بھابی نے میری پشت پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگیں شمامہ صبر کرو۔ میں چیخ پڑی بھابھی وہ میرے بھائی کو لے جا رہے ہیں۔ انہیں روک لو۔ وہ میری نہیں سنتے۔ وہ سمجھیں میں جلوس جنازے میں شامل لوگوں کی بات کر رہی ہوں۔ میں ان کے خیال سے واقف ہو گئی۔ میں پھر چیخ کر بولی۔ وہ لمبے قد والے میرے بھائی کو لے جا رہے ہیں۔ بھابھی پاس کھڑے کسی سے بولیں۔ ہسٹیرک ہو گئی ہے۔ جلدی سے گولی دینا۔ ایک گولی زبردستی مجھے کھلا دی۔ نہ اس وقت میں ہسٹیرک تھی نہ میرا دل کمزور تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ شعوری طور پر میں اس وقت اپنے آپ کو بے حد توانا محسوس کر رہی تھی۔ بس جو کچھ میں حقیقت میں دیکھ رہی تھی اسے روکنا چاہتی تھی اور اس پر میرا کچھ بس نہیں چل رہا تھا۔ میرے مسلسل چلانے اور جھگڑنے کے باوجود بھی وہ فرشتے میری بات سننے کو تیار ہی نہ تھے۔ ان کے اندر تو جیسے بس اپنے کام کے سوا اور کوئی خیال ہی نہ تھا۔ اس لمحے مجھے وہ بالکل پتھر دل لگے۔ وہ میرے درد کو کیا سمجھ سکتے تھے۔

                جب بھابھی نے مجھے اعصاب کو سکون دینے والی گولی کھلائی تو مجھ پر رنج کا ایک اور پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ آہ! یہ بھی مجھے غلط سمجھ رہے ہیں۔ یہ سب لوگ سمجھ رہے ہیں جیسے میرا دل میرا ذہن اتنا کمزور ہے کہ اس کی کمزوری نے میرے اعصاب پر اثر ڈال دیا ہے۔ کاش! یہ بھی دیکھ سکتے جو میں دیکھ رہی ہوں۔ پھر ان سے صبر کی بات کرتی۔ میں رو کر پھر چیخ پڑی تم لوگ دیکھتے کیوں نہیں۔ وہ میرے بھائی کو لے جا رہے ہیں۔ انہیں روکتے کیوں نہیں۔ خدا کے لئے انہیں روکو۔ مجھے اس وقت گھر میں بھی تمام لوگ بیک وقت دکھائی دے رہے تھے۔ میں دیکھ رہی تھی کہ سب افسوس کر رہے تھے کہ بہن کو بھائی کی موت کا گہرا صدمہ ہو گیا ہے۔ دماغ پر اثر ہو گیا ہے۔ مجھے اس وقت یہ سب لوگ زہر لگ رہے تھے۔ اس لئے کہ کوئی بھی صورت حال کو صحیح نہیں سمجھ رہا تھا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا کہ انہیں دیکھنا چاہئے جو میں دیکھ رہی ہوں۔ مجھے شدید جھنجھلاہٹ ہو رہی تھی۔ یہ سب مجھے اپنے دشمن لگ رہے تھے۔ اگر یہ واقعی میرے غم سے رنجیدہ تھے تو ایک بار تو ان فرشتوں کو روکتے۔ یہ تو ان کے قریب جاتے ہی نہیں تھے۔ ان کے لئے انہوں نے سارا راستہ خالی کر دیا تھا۔ بس میں ایک ناتواں ان کے راستے پر کھڑی تھی۔ وہ چار ہٹے کٹے بھلا میری کیا سنتے۔ میرے اندر کا درد ایک طوفان تھا جو ہر خس و خاشاک کو بہانے کو تیار تھا۔ چند گھنٹوں بعد مجھے نیند آ گئی۔

                صبح اٹھ کر صحن میں قدم رکھا تو ایک دم کیلوں کے درخت کی جانب نظر گئی۔ درخت کے اوپر بھائی کا چہرہ دکھائی دیا۔ میں ٹھٹک کر رہ گئی۔ یہ ان کی حسرت ہے۔ وہ گھر کا پہلا پھل کھانا چاہتے تھے۔ میں نے کسی سے ذکر نہ کیا مگر دل ہی دل میں عہد کر لیا کہ میں یہ نہیں کھائوں گی۔ کھانے کی حسرت لے کر میرا بھائی جس کے لئے دنیا سے چلا گیا۔ میں صحن سے لوٹ آئی۔ اس درخت سے جیسے خوف سا آنے لگا مگر یہ صرف میں ہی گھر میں اکیلی ایسی نہیں تھی۔ تین دن کے اندر سارے گھر والوں کی یہ حالت ہو گئی کہ سب ہی نے کیلوں کے درخت پر بھائی جان کی صورت دیکھی۔ سب کھلی آنکھوں سے دیکھتے تھے۔ یہاں تک کہ ابا بھی اس درخت سے سخت خائف ہو گئے۔ شام کو تو کوئی بھی صحن میں نہ جاتا۔ درخت کے پاس جانا دشوار ہو گیا۔ ہر ایک کی زبان پر یہی بات تھی کہ اس درخت کو کٹوا دو۔ چھوٹے بھائی جان اور امی ابا اصلاح کرنے لگے کہ پھلدار درخت کاٹنا گناہ ہے۔ ابھی پھل بالکل ہی کچا ہے مگر سارا گھر ایسا خوفزدہ ہو رہا تھا کہ جیسے درخت اب یہاں نہیں ہونا چاہئے۔ اس کو کیا کریں میرے کانوں میں بھائی جان کی آواز گونجتی۔ پہلا پھل میں ہی کھائوں گا اماں۔ ان کی گردن ہر دم درخت پر دکھائی دیتی۔ یہ بات صرف میری ہوتی تو کچھ نہ تھا مگر اب تو سارا گھر دیکھ رہا تھا اور سب خوفزدہ تھے۔ بھائی جان نے مولوی صاحبان سے اور چند لوگوں سے بات کی۔ باقاعدہ فتویٰ لیا انہوں نے فتویٰ دیا کہ اگر ایسی بات ہے کہ سارا گھر اس درخت کو کٹوانے پر آمادہ ہے تو کٹوا دیں۔ بھائی کی خواہش غالب آ گئی۔ تیسرے دن درخت کو پوری طرح جڑ سے کٹوا دیا گیا۔ کسی کا جی تک نہ چاہا کہ اس پھل کو ہاتھ بھی لگائے۔ عجیب وحشت تھی سب کے دلوں پر۔ وہ کیلے ایک غریب عورت لے گئی۔ اس وقت سے گھر کی وحشت دور ہو گئی پھر کسی کو نظر نہ آئے۔

                میں روزانہ باہر کے برآمدے میں جا کھڑی ہوتی جس وقت وہ صبح دفتر جانے کے لئے آتے تھے، جلدی جلدی آتے اماں کے پاس جاتے۔ سلام کرتے اور کہتے اچھا اماں میں آتا ہوں۔ ہر روز میری آنکھوں کے سامنے یہی منظر دہرایا جاتا۔ میں کھلی آنکھوں سے انہیں اس طرح آتا دیکھتی۔ ان کی آواز سنتی۔ یہ سب کچھ اتنا واضح ہوتا کہ میں باقاعدہ ان سے آتے جاتے باتیں کرتی۔ ان سب سے ان کا حال پوچھتی۔ گھر کی باتیں بتاتی۔ اپنا دکھ بتاتی۔ میں جانتی تھی کہ ان کی روح ہر روز اس طرح آتی ہے۔ وہ اماں کو سلام کرنے آتے ہیں۔ انہیں اماں سے بے حد محبت ہے اور ان کی فکر بھی ہے۔ اماں ممتا کے دکھ میں انہیں بے وفا کہنے لگتی تھیں۔ اب انہیں کون بتاتا۔ ان کا بیٹا تو اب بھی اپنی وفائیں نبھا رہا ہے۔ میری زبان بند تھی۔ میں جان گئی تھی کہ لوگ میری طرح سب کچھ نہیں دیکھ سکتے۔ وہ مجھے پاگل سمجھیں گے یا پھر سمجھیں گے کہ اعصابی کمزوری کی وجہ سے میں صدمے کا شکار ہوں۔ نہ میرا دل کمزور ہے نہ میرے اعصاب کمزور ہیں۔ بس اللہ کے سوا مجھے اور کوئی نہیں جان سکتا۔

                پورے چالیس دن تک بھائی جان روزانہ آ کر اماں کو سلام کرتے اور مجھ سے ایک دو باتیں کر کے جلدی جلدی رخصت ہو جاتے۔ میں جب بھی ان سے پوچھتی آپ ٹھیک ہیں، کہتے ہاں ٹھیک ہوں اور کوئی بات وہاں کی نہیں بتاتے۔ چالیسویں کے بعد ایک دن اسی وقت آنے اور کہنے لگے۔ شمامہ اب میں روز روز نہیں آ سکوں گا مگر کبھی کبھی تم لوگوں کو دیکھنے آ سکوں گا۔ اس دن مجھے بڑی ہی تکلیف ہوئی۔ اس دن مجھے سچ مچ بھائی جان کے مرنے کا احساس ہوا کہ واقعی اب میرا بھائی اس دنیا میں نہیں ہے اور میں اسے نہیں دیکھ سکتی۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ قدرت کا قانون ہے۔ جان سے زیادہ عزیز ہستیاں کیسے پل بھر میں آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہیں۔

                اس کے بعد پھر بھائی جان نہیں آئے۔ میں نے دو تین دن ان کا انتظار کیا۔ پھر صبر کر لیا کہ نہ جانے وہاں ان کی کیا مجبوریاں ہوں گی۔ اس عرصے میں ایک بار میری حبیب سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم مرنے کے بعد روح کے دنیا میں آنے پر یقین رکھتے ہو۔ وہ کہنے لگا نہیں۔ اگر روحیں دنیا میں آئیں بھی تو ان کون دیکھ سکتا ہے۔ میں یہ سن کر چپ ہو گئی۔ پھر میں نے بھائی جان سے متعلق کوئی بات اسے نہیں بتائی۔ کہیں ایسا نہ ہو وہ مجھے پاگل سمجھے اور مجھ سے ملنا بند کر دے۔

                ان چند دنوں میں مجھے یوں لگا جیسے میں ایک دم بڑی ہو گئی ہوں۔ میرے اندر گھر کی ذمہ داریوں کا احساس جاگ اٹھا۔ بڑے بھائی زیادہ تر گھر کو سپورٹ کرتے تھے۔ ابا ریٹائرڈ تھے۔ دونوں بھائی مل کر گھر چلاتے تھے۔ ہمیں امی نے یہی تربیت دی تھی کہ ضرورت پڑنے پر خود کمانا کھانا۔ کسی کی محتاجی اچھی نہیں ہے۔ میں نے گھر کی طرف دیکھا۔ ہم چھ بہنیں اور ماں باپ گھر میں تھے۔ بڑی بہن نرسنگ کا کورس کر رہی تھی۔ سکینہ اور میں نے میٹرک کا امتحان دیا تھا۔ ابھی اس کا رزلٹ بھی نہیں آیا تھا۔ سکینہ فیشن ایمبرائڈری بھی سیکھتی تھی اور ساتھ میں چند لڑکیوں کے گھر جا کر سکھاتی بھی تھی۔ اسے مشینی ایمبرائڈری کا بے حد شوق تھا۔ سلائی بھی وہ بڑی عمدہ کرتی تھی۔ مجھ سے چھوٹی تینوں بہنیں اسکول میں پڑھتی تھیں۔ سب سے چھوٹی آٹھ نو سال کی تھی۔ اس سے بڑی دس سال کی تھی۔ اس سے بڑی تقریباً چودہ سال کی تھی۔ میں نے گھر کا جائزہ لیا۔ ابھی ان چھوٹی بہنوں کی تعلیم باقی ہے۔ ساری بہنوں کی شادی کرنی ہے۔ ایک بھائی ہے اس کی اپنی فیملی ہے۔ وہ اپنی فیملی کو سپورٹ کرے گا کہ ہمیں کرے گا۔ ذمہ داری کا یہی احساس ہم تینوں بڑی بہنوں کے اندر جاگ اٹھا۔ کوئی بھی ایک بھائی کے اوپر بوجھ ڈالنا پسند نہیں کرتا تھا۔ سکینہ نے مشین ایمبرائڈری سکھانے کے لئے کئی لڑکیوں کے ٹیوشن اور لے لئے۔ بڑی بہن نرس بن چکی تھی اور ہسپتال میں کام کرنے لگی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کروں۔ ابھی تو میرا میٹرک کا رزلٹ بھی نہیں آیا تھا۔ کسی سے ٹیلی فون آپریٹر کا پتہ لگا کہ وہ میٹرک پاس کو لیتے ہیں۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ بس یہی کام کرنا ہے۔ مجھے پوری امید تھی کہ میں پاس ہو جائوں گی۔ امی نے تو اجازت دے دی تھی۔ اب مسئلہ بھائی کا تھا۔بڑی ہمت کر کے میں نے ان سے پوچھا اور کہا کہ میں گوارا نہیں کر سکتی کہ آپ پر اس قدر بوجھ پڑے۔ انہوں نے مجھے اپنے پاس چارپائی پر بٹھا لیا۔ نہایت محبت کے ساتھ کہنے لگے۔

                شمامہ تمہاری عمر ابھی مشکل سے سولہ سال ہے۔ تم نے ابھی دنیا میں باہر نکل کر دیکھا ہی کیا ہے۔ دنیا اچھی نہیں ہے۔ جوان لڑکیوں کو آفس میں کام کرنے پر دنیا اچھی نظر سے نہیں دیکھتی۔ کئی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم کالج میں داخلہ لے لو۔ تم پڑھائی میں اچھی ہو۔ کم از کم بی اے کر لو۔ پھر شادی کر دیں گے۔ مگر میرے اندر یہ احساس اس قدر شدید تھا کہ میرا ضمیر کسی قیمت پر یہ گوارا نہ کر سکا کہ ایک بھائی پر گھر کا سارا بوجھ پڑ جائے مجھے اندر سے پورا حوصلہ بھی تھا کہ میں آرام سے یہ جاب کر لوں گی۔ ادھر ادھر میرے خراب ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ حبیب میرے لئے مجازی خدا کا درجہ رکھتا تھا۔ میں اس سے پرستش کی حد تک عشق کرتی تھی۔ بھائی نصیحت کر رہے تھے اور میرا دل انہیں جواب دے رہا تھا۔ جب میں کسی طرح نہ مانی تو بھائی نے کہا۔ اچھا میری ایک نصیحت پلے سے باندھ لو۔ وہ یہ ہے کہ سننا سب کی کرنا اپنی۔ تم جب باہر نکلو گی تو تمہیں بے شمار لوگ ملیں گے جو تمہارے برے وقت پر دل جوئی بھی کریں گے اور تمہیں طرح طرح کے مشورے بھی دیں گے۔ ایک آدمی اتنی باتوں پر عمل نہیں کر سکتا۔ ایسے وقت تم سب کی باتیں سب کے مشورے غور سے سننا اور پھر ان میں سے جو بھی تم کو پسند آئے اپنی مرضی سے اپنے ارادے کے ساتھ اس پر عمل کرنا۔ کسی کی ناراضگی کی فکر نہ کرنا۔ کوئی شخص بھی دنیا کو خوش نہیں رکھ سکتا۔ میری بات ہمیشہ یاد رکھنا۔ سننا سب کی کرنا اپنی۔ میرے لئے بھائی کی نصیحت حضرت لقمانؑ کی نصیحت سے کم نہ تھی۔ جو زندگی کے ہر موڑ پر میرے لئے مشعل راہ بنی رہی۔

                میں ٹیلی فون ایکسچینج گئی۔ وہاں انٹرویو میں جب میں نے بتایا کہ ابھی میرا رزلٹ آنے والا ہے تو پہلے تو انہوں نے کہا کہ بعد میں آتا۔ میں نے کہا آپ مجھے رکھ لیں۔ ایک دو ہفتے میں میرا رزلٹ آ ہی جائے گا۔ کیا فرق پڑتا ہے۔ کہنے لگے ہم میٹرک پاس سے نیچے لیتے ہی نہیں۔ میں نے کہا میں انشاء اللہ ضرور پاس جائوں گی۔ وہ میری طرف سے غور سے دیکھنے لگے۔ کہنے لگا آپ کو یقین ہے۔ میں نے کہا مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ میں سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہو جائوں گی۔ وہ افسر کہنے لگا چلئے رکھ لیتے ہیں مگر اس شرط پر کہ اگر فیل ہو گئیں تو ہم نہیں رکھ سکتے۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور دوسرے دن کام سے لگ گئی۔ پندرہ دن بعد میرا رزلٹ آ گیا۔ میں سیکنڈ ڈویژن سے میٹرک میں کامیاب ہو گئی تھی۔ گھر والوں کے ساتھ ساتھ اس افسر نے بھی اپنی خوشی کا اظہار کیا اور حبیب تو اس قدر خوش ہوا کہ جیسے میں نے پی ایچ ڈی کر لی ہے۔

                ایکسچینج میں لڑکے لڑکیاں سب اکھٹے کام کرتے تھے۔ خصوصاً جہاں میں کام کر رہی تھی۔ وہاں سب لوگ بہت اچھے تھے۔ اصل میں شروع شروع میں تو میں چپ چاپ اپنا کام کرتی رہی۔ کم ہی کسی سے بولتی تھی۔ ویسے بھی مجھے زیادہ بولنے کی عادت نہ تھی۔

                ان دنوں میرے سر پر اس قدر گھر کی ذمہ داری کا بوجھ تھا۔ حالانکہ گھر کی مالی حالت اتنی بری نہیں تھی۔ اللہ کا فضل تھا مگر بس ہر وقت میرے سر پر سوار رہتا کہ مجھے کسی پر بوجھ نہیں بننا ہے۔ بڑے بھائی کے جانے سے مالی وسائل میں جو کمی ہو گئی تھی اس کو دور کرنے کے لئے گھر والوں کی مدد کرنی ہے۔ مجھے تین چھوٹی بہنوں کا اس قدر خیال آتا جیسے وہ میری بہنیں نہیں میرے بچے ہیں۔ اور ان کی کفالت میرے ذمہ ہے۔ مجھے اس میں بڑی ہی خوشی ملتی کہ میں کسی کے کام آ رہی ہوں۔ ساڑھے سات گھنٹے ڈیوٹی ہوتی تھی اور ایک گھنٹہ جانے اور ایک گھنٹہ بس میں آنے میں خرچ ہوتا تھا۔ اس دوران میں ایک آنے کے پکوڑے اور ایک آنے کا بن لیتی اور پانی پی کر اپنا پیٹ بھرتی۔ باقی سارے پیسے امی کو دیتی تھی۔ پہلی کو جب تنخواہ ملتی تو خوشی خوشی پاس مارکیٹ سے ایک ڈیڑھ روپے کے پھل خریدتی۔ سستا زمانہ تھا۔ تھیلہ بھر جاتا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی چھوٹی بہنوں کو خوشی سے پکارتی کہ دیکھو میں تمہارے لئے کیا لائی ہوں۔ پھر اسی وقت تینوں کو ایک ایک روپیہ جیب خرچ دیتی۔ باقی پیسے امی کو دیتی۔ سارا گھر خوش ہو جاتا۔ ہم ہنستی گاتیں۔ بڑا ہی خوشگوارماحول ہوتا۔ ساری بہنیں سہیلیوں کی طرح تھیں۔

                سکینہ سے بڑی بہن جو نرسنگ کی جاب کر رہی تھی وہ اسپتال کے اسٹاف ہائوس میں ہی رہتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ان کی ڈیوٹی اکثر ٹی بی وارڈ میں لگایا کرتے تھے کیونکہ وہاں اور نرسیں جانا پسند نہیں کرتی تھیں اور عام طور سے نائٹ ڈیوٹی ہوتی تھی۔ صبح ناشتہ میں انہیں دو انڈے ملتے تھے۔ یہ کچے ہوتے تھے کہ جیسا مرضی اپنی پسند سے پکوا لیں۔ ان کے اندر محبت اور ایثار اس قدر تھا کہ پورے پندرہ دن انڈے جمع کرتیں۔ فرج میں رکھوا دیتی اور پندرہ دن بعد جب گھر لوٹتیں تو سب کے ساتھ ہی پکا کر کھاتیں۔ امی کا دل بہت دکھتا۔ وہ بار بار کہتیں کہ نائٹ ڈیوٹی کے بعد تجھے انرجی کی ضرورت ہے وہیں کھا لیا کرو مگر وہ ہمیشہ یہی کہتیں۔ امی سب کے ساتھ مل کر کھانے میں مزہ آتا ہے۔ سب بہنیں خوش ہو جاتی ہیں۔ دراصل ہمیں شروع ہی سے ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی عادت سی پڑ گئی تھی۔ ہم کبھی اپنی ذات کے لئے کچھ بھی نہ سوچتے تھے۔ ہمیشہ یہی ذہن میں رہتا کہ ہماری ذات سے کس طرح دوسروں کو فائدہ اور خوشی پہنچے۔

                سکینہ تو ہر وقت دوسروں کی مدد میں سرگرداں رہتی۔ محلے پڑوس کی لڑکیوں کو جس کو بھی ضرورت پڑتی سلائی، ایمبرائڈری میں اس کی مدد کرتی۔ غرض یہ کہ پورے گھر میں خدمت خلق میں سکینہ سب سے آگے تھی۔ اس وجہ سے اس کے بہت سے ملنے جلنے والے تھے وہ گھر جا کے جو بھی کام کر دیتی تھی لوگ اس سے بے حد خوش تھے۔ بڑی تعریف کرتے تھے۔ میں بہت ہی کم کسی کے گھر جاتی تھی۔ آفس میں ہی دن بھر لگ جاتا۔ گھر آ کے کچھ گھر کے کام کرتی۔ کھانا وغیرہ بھی اپنی باری پر پکاتی۔ باقی کام کرتے کرتے گانا گانا میری عادت تھی۔ اصل میں گانا میرے موڈ کی ترجمانی کرتا۔ جب دل افسردہ ہوتا کسی وجہ سے تو غمگین گانے لب پر آتے اور جب خوش ہوتی تو خوشی کے گانے۔ گانا میری فطرت تھی اور ہے۔

                حبیب کے اور میرے درمیان خطوں کا سلسلہ کبھی بند نہیں ہوا تھا۔ تقریباً ہر پندرہ بیس دن میں ایک خط حبیب کو ضرور لکھ دیتی۔ جب ملتے تو یہ خط دے دیتے۔ ان خطوں میں کوئی دنیاوی بات نہ ہوتی۔ بس بندگی کے اس عشق کا اظہار ہوتا جو بچپن سے میرے دل میں پل رہا تھا۔ عشق کی اس شدت کا بیان ہوتا جس کی تصویر ہر لمحے میرے تصور کے پردے پر رہتی تھی۔ حبیب کو لکھا ہوا ہر خط میرے اس تقاضے کی تسکین تھا۔ میں شروع ہی سے اپنے اندر اٹھنے والے تقاضوں کا رخ جانتی تھی میں جانتی تھی کہ میرے اندر اللہ کے عشق کا ایک دریا بہہ رہا ہے۔ اس دریا کا بہائو کبھی ماں کی جانب ہوتا، کبھی سہیلی کی جانب، کبھی بہن بھائیوں کی جانب اور اب عشق کے تقاضے کا بہائو حبیب کی جانب تھا۔ میں اکثر تنہائیوں میں اپنے اندر اٹھنے والے ان تقاضوں پر سنجیدگی سے غور کرتی تو مجھے یہی پتہ چلتا کہ ہر تقاضہ اللہ ہی کی جانب سے میرے اندر آ رہا ہے۔ وہ میرے اندر لوگوں کی محبت ڈالتا ہے۔ جیسے جیسے میرے اندر کے تقاضوں کا رخ بدلتا جاتا ہے۔ میرا اللہ ان کی تکمیل کے لئے وسائل بھی پیدا کرتا جاتا ہے۔

                میں بچپن سے ہی بہت زیادہ عبادت گزار تو نہیں رہی۔ میرا عشق ہی میری عبادت ہے جو اللہ کے تصور کو ظاہر اور باطن دونوں میں جانتا ہے مگر نماز میں مجھے لطف و سرور بہت آتا۔ قرآن سے تو مجھے انتہائی لگائو تھا۔ میں ہمیشہ قرآن با ترجمہ پڑھتی۔ میں سوچتی حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے سب سے زیادہ محبوب بندے ہیں۔ وہ اللہ میاں سے کیسے ملتے ہوں گے۔ کیسے باتیں کرتے ہوں گے۔ کاش مجھے بھی وہ راستہ مل جائے تو میں اس راستے پر چلوں۔ میں اکثر اللہ میاں سے تکرار کرتی کہ یہ کیا راز ہے کہ آپ نے مخلوق کو پیدا کر دیا اور خود پردے میں چھپ کر بیٹھ گئے۔ میں تو آپ کو جس طرح بغیر دیکھے پیار کرتی ہوں اس طرح آپ کو دیکھ کر بھی پیار کرنا چاہتی ہوں۔ میرے دل نے کبھی اللہ کو خود سے دور نہیں جانا۔ وہ ہمیشہ مجھے اپنے اندر ہی نظر آیا۔ میں اس سے اپنے دل کی ہر بات کر لیتی۔ اپنے مسائل میں کبھی کسی سے نہ کہتی۔ اللہ پاک خود اس کا بندوبست کسی نہ کسی طرح کر دیتے تھے۔ میں جانتی تھی اللہ اتنے قریب سے مجھے دیکھ رہا ہے۔ پھر خواہ مخواہ کسی سے کہنے سننے کی مجھے کیا ضرورت ہے۔

                سردیوں کی رات میں جب رات آٹھ بجے کام سے چھوٹتی تو گھر پہنچتے پہنچتے رات کے نو بج جاتے۔ ان دنوں ہمارے گھر کا علاقہ بڑا سنسان تھا۔ بہت سے لوگ چائے کے کھلے ہوٹل کے اطراف بیٹھے رہتے جو بس اڈوں پر ہوتے تھے۔ بس اڈے سے ہمارے گھر تک بھی ذرا چلنا پڑتا تھا۔ سردی میں راستہ بالکل سنسان ہو جاتا تھا۔ میں اتنی ڈرپوک نہ تھی مگر امی کو بہت فکر رہتی۔ ایک دو دفعہ ابا اسٹاپ پر بھی آئے۔ ایک دفعہ جب میں بس سے اتری تو امی اسٹاپ پر کھڑی ہوئی تھیں۔ مجھے بڑی تکلیف اور شرمندگی ہوئی۔ میں نے امی سے کہا۔ آپ آئندہ مجھے لینے نہ آئیں۔ میں خود آ جائوں گی۔ کہنے لگیں روز روز تمہارے ابا نہیں آتے۔ کہتے کہ سمجھدار ہے خود آ جائے گی۔ میں نے کہا امی بس آپ نہیں آئیں گی۔ میں واقعی بچی نہیں ہوں۔ اللہ میری حفاظت کرنے والا ہے۔ امی نے دعا دی اور کہا کہ بیٹی اللہ ہی سب کا محافظ ہے۔ میں نے اللہ سے کہا اے میرے رب! میں اپنے ماں باپ خصوصاً ماں کو اپنی ذات کے لئے تکلیف نہیں دینا چاہتی تو ہی میری حفاظت رکھنا۔

                دوسرے دن دفتر سے نکلی تو حبیب کھڑے تھے۔ میرے ذہن میں انہیں دیکھتے ہی خیال آیا انہیں اللہ نے میرے لئے بھیجا ہے۔ خوشی کے مارے دل کھل گیا۔ حبیب نے چھوٹتے ہی پوچھا۔ اتنی رات کو تم اکیلے جاتی ہو۔ میں نے کہا یہاں تو آفس والے بھی اسٹاپ پر ہوتے ہیں۔ وہاں ابا یا امی لینے آ جاتی ہیں مگر میں یہ نہیں چاہتی کہ سردی میں انہیں انتظار کی تکلیف دوں۔ حبیب فوراً بولا میں تمہیں گھر تک چھوڑ آیاکروں گا۔ میں نے کہا تمہیں تکلیف تو نہیں ہو گی۔ کہنے لگا بلکہ کچھ دیر تمہارا ساتھ ہو جائے گا۔ ہم نے فوراً ہی بس پکڑ لی۔ اسٹاپ پر اتر کر اس نے مجھے گھر چھوڑا اور خود رخصت ہو گیا۔ وہ روزانہ اسی طرح کرتا۔ ہم کبھی بھی زیادہ باتیں نہیں کرتے تھے۔ بس اسٹاپ سے گھر کے راستے تک تھوڑی سی بات ہو جاتی اور بس۔

                میں اللہ کی مہربانیوں پر ہر وقت اس کا شکر ادا کرتی۔ ان دنوں مجھے اس بات کا کبھی احساس نہ ہوا مگر اب سوچتی ہوں کہ کیسی عجیب بات تھی۔ ہم سالوں اس طرح راستے میں ملتے رہے۔ تقریباً چار سال سڑک پر اکھٹے چلتے رہے۔ جیسے کسی نے ہمیں دیکھا ہی نہیں۔ نہ کسی نے ہمارے والدین سے ذکر کیا۔ نہ کسی نے ہمیں راہ میں ٹوکا۔

                ہمیں ملتے ہوئے تین سال ہو چکے تھے۔ حبیب کے والدین اپنی برادری میں حبیب کا رشتہ طے کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے مجھے دیکھا بھی نہ تھا۔ حبیب نے انکار کر دیا اور کہہ دیا کہ میں اپنی پسند سے شادی کروں گا۔ اس پر وہ کسی طرح نہ مانے اور مجھے دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ حبیب اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ عجیب سچویشن تھی۔ حبیب نے مجھے ساری بات بتائی۔ میں نے بڑے ٹھنڈے دل سے یہ ساری بات سنی اور حبیب سے بولی کہ ماں باپ کا حق اپنی اولاد پر زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے نہ جانے تم سے کیا کیا امیدیں لگا رکھی ہوں گی۔ تم اپنے ماں باپ کا دل میری وجہ سے نہ توڑو۔ ماں باپ کو ناراض کر کے نہ تم خوش رہ سکو گے نہ میں خوش رہ سکوں گی۔ خون کے رشتے کبھی چھوٹتے نہیں ہیں۔ میری وجہ سے اگر ان میں دراڑ پڑ گئی تو میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔ اب تم مجھ سے ملنا چھوڑ دو اور اپنی نئی زندگی کا آغاز کر دو۔ حبیب یہ بات سن کر بہت ناراض ہوا۔ اس نے مجھ سے صاف صاف کہا میں اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتا۔ ابھی تو میں نے تعلیم ختم کر کے کام شروع کیا ہے اور وہ میری شادی کا سوچ رہے ہیں لیکن ابھی کچھ دن تو میں کسی طرح ٹال سکتا ہوں۔ میں نے کہا دیکھو جب کسی طرح تمہارے ماں باپ آمادہ نہیں ہیں تو اب کیا اور جب کیا۔ رہا سوال محبت کا تو محبت تو دلوں میں بستی ہے۔ محبت کو دل سے کوئی نہیں نکال سکتا۔ حبیب نے کہا تم تو پاگل ہو گئی ہو۔ میں نے خواہ مخواہ تمہیں بتا دیا۔ کل میں پھر آئوں گا۔ میں نے کہا کل بھی میرا یہی فیصلہ ہو گا کہ تم مجھ سے ملنا چھوڑ دو اور اپنے ماں باپ کی بات مان لو۔ دوسرے دن وہ پھر آیا۔ میں نے سختی کے ساتھ اسے ملنے سے منع کر دیا۔ وہ چلا گیا یہ کہتے ہوئے کہ میں یہ شہر ہی چھوڑ دوں گا۔ اس کے بعد وہ مجھے نظر نہیں آیا۔

                زندگی اپنی راہ چلتی رہی مگر اس طرح جیسے اپاہج ہو۔ دو مہینے مشکل سے ہوئے تھے مجھے ہلکی ہلکی کھانسی رہنے لگی۔ میرے ہونٹ مسکرانا بھول گئے۔ میرے لب گانا بھول گئے۔ میں اندر ہی اندر گھلتی جا رہی تھی۔ ہزار اپنے آپ کو سمجھاتی مگر سب بے سود تھا۔ تین ماہ میں کافی کمزور ہو گئی اور ہلکی ہلکی کھانسی میں ہی کام پر جاتی رہی۔ میں اللہ پاک سے کہتی کہ مجھے اس کٹھن دور سے گزار دے۔ امی میری گرتی ہوئی صحت سے پریشان ہوئیں۔ اب مجھے پہننے اوڑھنے میں دلچسپی تھی نہ کسی کام میں۔ امی ڈاکٹر کے پاس لے گئیں۔ اس نے کہا ٹی بی کا اثر ہے۔ ابھی بالکل شروع ہے۔ یہ شروع ہی کی علامتیں ہیں۔ انجکشن کے کورس لگیں گے ٹھیک ہو جائے گی۔ مجھے صبح شام انجکشن لگتے۔ ہر وقت امی میری صحت کے پیچھے پڑی رہتیں۔ آہستہ آہستہ میری کھانسی ختم ہو گئی مگر دل کا حال وہی تھا۔ میرے اندر زندہ رہنے کی ہر امنگ ختم ہو گئی تھی۔ میں نے حبیب کو دیکھا تھا نہ اس کے متعلق خبر سنی تھی۔ سنتی بھی کس سے ۔ کوئی ہمارے درمیان رشتے کو جانتا بھی تو نہ تھا۔

                اس دن دفتر میں بیٹھی بیٹھی سوچنے لگی کہ اللہ میاں نے میرے دل میں اس کی محبت ڈالی ہے۔ ان چھ مہینوں میں، میں نے بھی دیکھ لیا ہے کہ میں اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی، نہ ہی کسی اور کا خیال کر سکتی ہوں۔ اپنا حال تو میں خود جانتی ہوں یا میرا اللہ جانتا ہے۔ حبیب کے ماں باپ کو ہمارے حال کا کیا پتہ ہے۔ میں نے اللہ پاک سے بڑی عاجزی کے ساتھ التجا کی کہ یا اللہ میں ابھی بالکل نوجوان ہوں۔ آگے چل کر میری بھی شادی کا مسئلہ کھڑا ہو گا اور میں کسی اور کا خیال بھی اب نہیں کر سکتی۔ کوئی ایسی تدبیر ہو کہ ایک بار پھر حبیب اور میں مل جائیں۔ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو کم از کم میں ایک نظر دیکھ ہی لوں۔ میرے ذہن میں خیال آیا جب میں خود اس سے ملنے کو منع کر چکی ہوں تو اب وہ کیوں مجھے ملنے آئے گا۔ میں نے سوچا ایک ہی ترکیب ہے۔ دفتر کے کسی لڑکے کے ساتھ اس کے گھر کے قریب والے اسٹاپ پر اتر جائوں، وہاں سے گزرے گا مجھے اجنبی لڑکے کے ساتھ دیکھ کر ضرور میری طرف آئے گا۔

                میں نے ایک لڑکے سے کہا کہ تم میرے ساتھ چلو۔ میں فلاں اسٹاپ پر اتروں گی۔ تم بھی میرے ساتھ اتر جانا پھر وہاں سے پھر وہاں سے مجھے جہاں جانا ہے وہاں کی بس لے لوں گی تم مجھے بس میں بٹھا کر واپس چلے آنا۔ وہ کہنے لگا کہ یہاں سے تو ہر طرف کی بسیں ملتی ہیں آپ کو کہاں جانا ہے۔ میں نے کہا بس مجھ سے زیادہ سوال مت کرو۔ اگر تم میرے ساتھ جا سکتے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ میں کسی اور کو ساتھ لے لوں گی۔ وہ جلدی سے بولا۔ ارے نہیں مس شمامہ میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔

                رات آٹھ بجے کام ختم کر کے میں اس لڑکے کے ساتھ حبیب کے گھر کے پاس والے اسٹاپ پر اتر گئی مجھے یقین تھا کہ وہ ضرور یہاں کہیں ہو گا اور مجھے دیکھ لے گا۔ میں اس لڑکے کے ساتھ اسٹاپ پر کھڑی رہی۔ ہر بس آنے پر وہ کہتا مس شمامہ آپ کی بس آ گئی۔ میں کہتی ابھی نہیں۔ پندرہ بیس منٹ بعد مجھے حبیب نظر آ گیا۔ اب میں نے اس لڑکے سے کہا کہ اب تم جا سکتے ہو۔ میری بس بھی آ گئی ہے۔ میں اپنے گھر کی بس میں سوار ہو گئی۔ مجھے پوری امید تھی کہ حبیب ضرور اسی بس میں میرے پیچھے آئے گا۔ جب میں اپنے گھر کے اسٹاپ پر اتری تو وہ بھی بس سے اتر گیا۔ سلام کے بعد کہنے لگا۔ کیا حال ہے تمہارا؟ میں نے کہا ٹھیک ہوں۔ کہنے لگا وہ لڑکا کون تھا؟ میں نے کہا وہ میرے ساتھ کام کرتا ہے۔ کہنے لگا اس کے ساتھ یہاں کیوں آئی تھیں؟ میں نے سادگی سے کہا آپ کو دیکھنے آئی تھی۔ پھر ہماری فوراً صلح وہ گئی۔ لڑائی تھی ہی کب؟ حبیب نے بتایا کہ اس کے بعد وہ ماں باپ سے ناراض ہو کر دوسرے شہر اپنے رشتہ داروں کے پاس چلا گیا تھا۔ ایک ماہ بعد ماں باپ نے بلوا لیا۔ اس شرط پر کہ اب شادی کی بات نہیں کریں گے۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب عمر بھر شادی نہیں کروں گا۔ میں نے بھی بتایا کہ میں بہت بیمار رہی ، میرا تو پہلے ہی یہ فیصلہ تھا کہ کسی اور کا خیال بھی نہیں کروں گی۔ اس نے مجھے سمجھایا، کہنے لگا جب وقت آئے گا تو میں تم سے ماں باپ کے بغیر شادی کر لوں گا۔ جب ہم دونوں جانتے ہیں کہ ہم کہیں اور شادی کا خیال بھی نہیں کر سکتے تو پھر ہمیں کسی کی ناراضگی اور رضامندی کا سوچنا فضول ہے۔ ہم پھر پہلے کی طرح ملنے لگے۔

                مجھے سروس کرنے کو تین سال ہونے کو آئے تھے۔ ہم نے سوچا اب ہمیں شادی کرنا چاہئے۔ مجھے اپنے گھر والوں کی طرف سے کوئی ڈر نہ تھا۔ میں جانتی تھی کہ وہ ایسے تنگ نظر نہیں ہیں۔ میں کہوں گی تو مان جائیں گے۔ حبیب نے پھر اپنے والدین سے کہا۔ اس کی ماں اور بہن مجھے دیکھنے آئیں۔ دونوں نے مجھے ناپسند کر دیا۔ میں نے اس وقت تک اپنے گھر میں نہیں بتایا تھا۔ میں نے سوچا تھا کہ اگر پسند آ گئی تو پھر ہی بات کروں گی۔ حبیب کو پتہ چلا تو پھر انہیں ضد آ گئی۔ گھر میں ماں باپ کے ساتھ پھر تلخ کلامی ہوئی۔ مجھے اس نے کہا میرے ماں باپ تو مانیں گے نہیں۔ بہتر ہے کہ ہم شادی کر لیں۔ بعد میں وہ خود راضی ہو جائیں گے۔ ہم دونوں بالغ ہیں۔ شریعت میں ہمیں اپنی مرضی کی شادی کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے میں تیار ہوں۔ میں اپنی امی سے بات کروں گی۔

                چند دن بعد میں نے حوصلہ کر کے امی سے کہا کہ امی ایک لڑکا ہے جو مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ امی کہنے لگی ٹھیک ہے تمہارے بھائی کو بلائوں گی اس کے سامنے اسے بلوا لینا۔ بھائی جان کا مجھ پربہت رعب تھا۔ ویسے وہ بے حد نیک اور رحم دل تھے۔ میرے بھائی اور ایک کزن کے ساتھ حبیب کا انٹرویو ہوا۔ ابھی وہ ڈرائنگ روم میں تھے۔ میں دوسرے کمرے میں تھی کہ میری بہن جسے صورت حال کا پتہ لگ گیا تھا میرے پاس آئی کہنے لگی۔ بھائی جان کی صورت بڑی سنجیدہ لگ رہی ہے سب ہی بہت چپ چاپ بیٹھے ہیں، لگتا ہے بھائی جان نے انکار کر دیا۔ اتنا سنتے ہی میری ناک سے ایک دم نکسیر پھوٹ گئی۔ حالانکہ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ میں نے جلدی سے دوپٹہ ناک پر رکھا۔ سارا دوپٹہ خون سے تر ہو گیا۔ بہن گھبرا کر بھائی کو اندر بلا لائی۔ بھائی نے مجھے تسلی دی۔ فوراً لٹا دیا۔ کہنے لگے گھبرائو نہیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ پھر دوبارہ حبیب کے پاس واپس چلے گئے۔ حبیب چلا گیا تو بھائی جان امی سے کہہ رہے تھے۔ لڑکا نہایت شریف ہے ہمیں پسند آیا۔

                دوسرے دن رات گیارہ بجے میرے بڑے بہنوئی نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہنے لگے ایک راز کی بات کرنی ہے۔ میں ہنس دی کہ راز کی بات اور وہ بھی مجھ سے؟ میں سمجھی یونہی مجھ سے مذاق کر رہے ہیں۔ وہ بولے، اپنا کان قریب لا، پھر آہستہ سے میرے کان میں بولے کل تیری شادی ہو رہی ہے۔ مہندی لگا لے۔ میں ایک دم اچھل پڑی۔ کل میری شادی ہو رہی ہے؟ کہنے لگے ارے ہاں۔ کل تیرا دولہا سہرا باندھے آئے گا تجھے لینے۔ اب میرے سمجھ میں آیا کہ میری نکسیر کا خون دیکھ کر بھائی جان بہت پریشان ہو گئے، انہوں نے میری محبت کا اندازہ لگا لیا اور فوراً ہی شادی طے کر دی۔ دوسرے دن میرے تو تمام گھر والے اور رشتہ دار تھے مگر حبیب صرف اپنے ایک دوست کے ساتھ آیا تھا۔ ہماری شادی ہو گئی۔ حیب کو سب ہی نے پسند کیا۔ رخصت ہو کر ہم بھائی جان کے ساتھ رہے۔ وہ جس بلڈنگ میں رہتے تھے وہیں ایک فلیٹ خالی تھا اس میں مجھے لے گئے۔

                حبیب نے پہلی رات مجھے بڑے افسوس سے کہا۔ اب میں تیرے ان خطوں سے محروم ہو جائوں گا۔ میں سوچنے لگی زندگی کتنے خوشگوار موڑ پر آ گئی ہے۔ تیسرے دن بھائی جان نے ہمیں گھر سیٹ کرنے میں پوری مدد کی۔ کچن کے لئے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ۔

                ہمیں اپنے گھر کی انتہائی خوشی تھی۔ تیسرے دن بڑا مزہ آیا۔ حبیب کام پر سے واپس آئے تو انہیں بھوک لگی ہوئی تھی۔ میں نے کہا چلو اب اپنے کچن میں پکانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے پہلے بھائی جان کے ہاں ہی کھانا کھا رہے تھے۔ ابھی تیسرا دن ہی تھا۔ میں نے جلدی جلدی آٹا گوندھا۔ بھائی جان بھابھی کہیں گئے ہوئے تھے۔ آٹا ذرا پتلا ہو گیا۔ میں ویسے ہی حبیب کے سامنے روٹی ڈالتے ہوئے گھبرا رہی تھی۔ ادھر آٹا پتلا ہو گیا تو ادھر توا بھی بالکل اوندھا تھا۔ مجھے امی کے گھر کی عادت تھی سیدھے توے پر روٹی پکانے کی۔ اب جو روٹی بیل کر توے پر ڈالی تو آدھے تورے پر اور آدمی زمین پر۔ حبیب کہنے لگے ہٹ تیرے کی۔ اب تو مجھے روٹی پکانا بھی سکھانی پڑے گی۔ ہم خوب ہنسے۔ پھر حبیب نے روٹی پکائی، میں نے بھابھی کے کچن سے سالن لیا۔ دونوں نے مل کر کھایا۔ حبیب بعد میں جب بھی موقع ملتا کہنے سے نہ چوکتے روٹی پکانی تو تجھے میں نے سکھائی ہے۔ میں ایک پتی ورتا استری کی طرح فوراً ان کی استادی تسلیم کر لیتی۔

                چار پانچ دن بعد حبیب نے اپنے گھر والوں کو خط بھجوا دیا کہ ہم نے شادی کر لی ہے بعد میں وہ تقریباً ہر ہفتے جاتے۔ میں نہیں جاتی۔ میں نے شادی کے بعد سروس بھی چھوڑ دی تھی۔

 


Khushboo

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔

دعا گو:

                                        خواجہ شمس الدین عظیمی