Topics

ضمیر


                میں تو اس دہری زندگی کی اب عادی ہو چلی تھی۔ کتنی بار مجھ سے ایسی ہی حرکتیں سرزد ہوئیں۔ میں بار بار گیلری میں آن کھڑی ہوتی۔ آسمان کی جانب دیکھتی رہتی۔ کبھی نیچے گھورتی اور اگلے ہی لمحے میرے حواس بدل جاتے۔ میں گہرائیوں میں کھو جاتی۔ اس حقیقت کو پانے کے لئے میری روح مچلتی رہتی۔ اکثر و بیشتر مجھ پر استغراق طاری ہو جاتا۔ میں تصوراتی عالم میں گم رہتی مگر میں نے اللہ تعالیٰ سے کہہ دیا تھا کہ میں تماشا بننا نہیں چاہتی۔ نہ ہی اپنی امی کو کوئی دکھ دینا چاہتی ہوں۔ اس لئے میری اس قسم کی کیفیات کو پردے میں رکھنا۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ میں ہر وقت اپنے مرنے کی دعا کرتی رہتی تھی کیونکہ میرے اندر یہ یقین بیٹھ گیا تھا کہ مرنے سے پہلے میں اپنے اللہ سے نہیں مل سکتی۔ میں اکثر و بیشتر مشاہدہ کرتی کہ وہ مجھ سے ماں سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے۔ میرا دل میری روح اس کی طرف کھینچتی ہوئی محسوس ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ مرنے کا شوق کسی طرح دل سے کم نہ ہوتا اور کبھی کبھی یہی غلبہ مجھے اس عالم میں پہنچا دیتا۔ ویسے میں بے حد خوش باش لڑکی تھی۔ جس کے لبوں پر ہر دم خوشی کے نغمے ہوتے اور جو ہر وقت ہنستی کھیلتی رہتی۔ میں اور سکینہ اکثر اسکول سے آتے ہوئے فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے کہانیوں کی کتابیں بیچنے والے کے پاس سے ایک نظر دیکھتے ہوئے آتے۔ ایک دن اس کے پاس ڈھیر ساری فلمی گانوں کی کتابیں رکھی تھیں۔ ہم دونوں کو گانوں سے بڑی دلچسپی تھی۔ ان دنوں فلیٹ میں رہتے ہوئے کبھی ہمیں ریڈیو کی کمی محسوس نہ ہوئی۔ دن بھر ہر طرف سے گانوں کی آوازیں آتی رہتیں اور میں اور سکینہ اس کے ساتھ ساتھ گنگناتے رہتے۔ فوراً ہی ہمیں گانے یاد ہو جاتے مگر اب جو گانوں کی کتابیں دیکھیں تو اتنی پسند آئیں کہ اب ہم نے گانے کی کتابیں خریدنی شروع کر دیں۔ ہم کیا کرتے کہ جب کوئی کام کرتے مثلاً سکینہ کی جب باری ہوتی روٹی پکانے کی تو میں بھی اس کے ساتھ چھوٹے سے کچن میں گھس جاتی اور پیڑے بناتی جاتی وہ بیل کر روٹی بناتی۔ ہم دونوں مل کر بڑی خوشی خوشی کام کرتیں۔ ساتھ ہی ساتھ گانے کی کتاب رکھ لیتے۔ اس میں سے دو گانے تلاش کرتے اور میں لتا یا شمشاد بنتی اور وہ مکیش یا رفیع بن جاتی۔ ہم دونوں خوب مزے سے گاتے ہوئے کام کرتے۔ اس طرح ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا۔ امی ہنستیں سارا ماحول بڑا خوشگوار تھا۔ ابا جب بھی کوئی بات کہتے اس سے متعلق اشعار ضرور کہتے۔ وہ اکثر امیر خسرو کے شعر پڑھتے اور ان کا مطلب بھی بتاتے۔ امی کے ہر جملے میں ایک محاورہ اور ضرب المثل ہوتی۔ میرا ذہن گانوں میں بھی شاعری کی طرف جاتا اور مجھے کبھی بھی پھکڑ قسم کے گانے پسند نہیں آتے بلکہ وہی پسند آتے جن میں الفاظ اچھے ہوں اور معنی بھی۔ یہی وجہ ہے کہ امی ابا نے ہمیں کبھی منع نہیں کیا۔

                ہمارے یہاں فاتحہ کا خاصا رواج تھا۔ اکثر ہفتے میں ایک دفعہ ضرور کچھ نہ کچھ کھانا پکا کر ابا اس پر فاتحہ دیتے اور پھر اس کو بانٹ دیا جاتا اور گھر میں بھی کھا لیتے۔ فاتحہ کا کھانا بڑے اہتمام سے پکاتے۔ بادام وغیرہ چھیلنے ہوں تو ہم بچوں کو خاص تاکید کی جاتی کہ خبردار منہ میں ڈالا۔ بغیر فاتحہ کے ذرا بھی نہ چکھنا۔ فاتحہ مغرب کے وقت دی جاتی۔ فاتحہ کے کھانے کے ساتھ دودھ کا گلاس ضرور ہوتا۔ فاتحہ کے بعد ہم سارے گھر والے اس دودھ میں سے گھونٹ گھونٹ پی لیا کرتے۔ امی مغرب کے وقت کچھ نہ کچھ پڑھتی رہتی اور کہتیں کہ کوئی دروازہ بند نہ کرو۔ مغرب کے وقت روحیں زمین پر اترتی ہیں اور اپنے رشتہ داروں کو دیکھ کر خوش ہوتی ہیں۔ ہم سب مغرب کے وقت ایک ساتھ نماز پڑتے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد بھی چپ چاپ رہ کر اللہ کی جانب دھیان رکھتے۔ اس وقت کوئی اور کام نہ کرتے۔ مغرب کے بعد ہم سب اکھٹے مل کر کھانا کھاتے اگر کسی کو ذرا بھی دیر ہو جاتی تو اس کا انتظار کیا جاتا۔ اگر بھائی کی ڈیوٹی ہوتی تو پہلے ان کے لئے الگ برتن میں سالن نکال کر رکھ دیا جاتا۔ پھر سارے گھر والے کھاتے۔ دونوں بھائیوں کی شفٹ ڈیوٹی ہوا کرتی تھی۔ ہم سب ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے تھے کہ خود اپنے کو بھول جاتے تھے۔ بہنیں ایک دوسرے کے کپڑے پہنتیں۔ ایک دوسرے کو گھر کے کام کاج سکھاتیں۔ پڑھاتیں۔ بڑا خوبصورت زمانہ تھا۔ جہاں محبت اور خوشی کے سوا کچھ نہ تھا۔ کراچی آنے کے تین سال بعد بڑی بہن کی شادی ہو گئی۔

                بچپن ہی سے مجھے جھولا جھولنے کا بڑا شوق تھا۔ اکثر عید کے موقع پر گلیوں میں جھولا لگتا۔ میں ضرور جھولنے جاتی۔ ہر روز رسی بھی ضرور کودا کرتی۔ ہائی اسکول میں پانچویں سے پڑھائی شروع ہوتی تھی۔ میں اور میری سہیلی ہم دونوں اکٹھے جاتے تھے۔ اسکول دو تین اسٹاپ دور تھا مگر ہم پیدل ہی جاتے تھے۔ ہماری باتیں ختم نہ ہوتی تھیں۔ اکثر ہم بڑی سڑک پر پڑی کسی ماچس کی ڈبیہ کو پائوں سے ٹھوکریں مارتے مارتے اسکول پہنچ جاتے تھے۔

                میرا اور میری سہیلی ریحانہ کا اسکول کا ساتھ چار سال کا رہا۔ آٹھویں جماعت پاس کر کے اس کے والد نے اس کی شادی کروا دی۔ میں نے اسی اسکول سے گیارہ جماعتیں پاس کیں۔ اسکول کے زمانے کا ایک معصوم واقعہ یاد آیا ہے۔ میں ان دنوں ساتویں میں تھی۔ ہم دونوں اسکول گئے۔ کسی لڑکی نے ایک بہت لمبا کاغذ دیا جو بہت ساری تہہ میں تھا۔ سب سے اوپر چھپا ہوا تھا ‘‘اسے مت کھولنا’’ تجسس نے کہا اسے ضرور کھولو۔ دوسری تہہ میں لکھا تھا۔ ‘‘ میں نے کہا تھا اسے مت کھولئے’’ تجسس اور چوکنا ہو کر بولا فوراً کھولو۔ تیسری تہہ میں لکھا تھا، ‘‘آپ باز نہیں آئیں گے۔’’ تجسس بھی اڑ گیا۔ ہم ڈرنے والے نہیں تھے۔ چوتھی تہہ میں لکھا تھا۔ ‘‘خبردار جو اسے کھولا۔’’ تجسس نے کہا کر لو جو کرنا ہے ہم تو اسے کھول کر دم لیں گے۔ لکھا تھا ‘‘آپ بات نہیں مانتے’’ تجسس بولا تمہاری بات تو ہرگز نہیں مانیں گے۔ لکھا تھا، ‘‘آپ کی مرضی ہم کون ہوتے ہیں منع کرنے والے۔’’ تجسس نے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ اب آئے نہ ٹھکانے پر۔ لکھا تھا، ‘‘مگر اس سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا۔’’ تجسس پھر بھڑک اٹھا۔ تم کون ہوتے ہو فائدہ نقصان بتانے والے۔ اگلی تہہ میں لکھا تھا۔

                ‘‘ارے بابا آپ سے کون جیت سکتا ہے مگر حاصل کچھ نہ ہو گا۔’’ تجسس نے کہا دیکھتے ہیں۔ اگلی تہہ میں لکھا تھا، ‘‘برائے مہربانی اب مجھے ایسے ہی تہہ کر دیجئے۔’’

                ‘‘ارے بابا آپ سے کون جیت سکتا ہے مگر حاصل کچھ نہ ہو گا۔’’ تجسس نے کہا دیکھتے ہیں۔ اگلی تہہ میں لکھا تھا۔ ‘‘برائے مہربانی اب مجھے ایسے ہی تہہ کر دیجئے۔’’

                یہ پڑھ کر ہم دونوں خوب ہنسے۔ ہم نے صلاح کی کہ راستے میں جو لڑکا بنیان بیچتا ہے اس کو دیں گے۔ وہ کوئی سولہ سترہ سال کا لڑکا تھا۔ ہم راستے میں جاتی تھیں تو روز ہی کہتا تھا کہ بنیان لے لو۔ ہم کہتے بھائی کیا تم کو ہم لڑکا نظر آتے ہیں۔ لڑکوں کی بنیان لے کر ہم کیا کریں گے اور وہ بھی اسکول کے وقت میں۔ ہم نے بڑی سنجیدگی سے اس کے ہاتھوں میں یہ پیپر دیتے ہوئے کہا کیا اس پر تمہاری بنیانوں کے متعلق لکھا ہوا ہے تم کو فائدہ ہو گا۔ یہ کہہ کر ہم وہاں سے تیز تیز چل دیں۔ تھوڑے آگے چلے تو پتہ چلا وہ چیختا ہوا ہماری طرف آ رہا ہے۔ اے لڑکیو! تم نے مجھے بدھو بنایا۔ بس کچھ نہ پوچھئے ہم دونوں بچیاں تو تھیں۔ ایسی ڈریں کہ یہ اب ہمیں پکڑ کر مارے گا۔ دونوں سر پر پائوں رکھ کر بھاگ لیں۔ گلی میں آ کر وہ کسی اور بلڈنگ میں گھس گئی اور میں کسی اور میں۔ وہاں سے پچھلی سائیڈ سے نکل کر اپنے گھر آ گئی۔ ہنسی نہ رکتی تھی۔ دوسرے دن پہلے تو ریحانہ ناراض ہوئی کہ بدتمیز مجھے چھوڑ کر بھاگ گئی۔ وہ مجھے پکڑ کر مار دیتا تو کیا کرتی۔ پھر ہم دونوں بڑا ہنسیں اور ہم نے کہا کہ آئندہ ایسا مذاق کسی لڑکے سے نہیں کریں گے۔ بری بات ہے اب ہم بڑی ہو رہی ہیں۔ ہم دونوں اس بات پر بڑی حیران ہوئیں کہ ہم اس قدر کیوں ڈریں اور یہ خیال کیوں آیا کہ وہ مارے گا۔ ہمیں اس طرح لوگوں سے ڈرنا نہیں چاہئے۔ کافی دیر تک ہم دونوں اسی واقعہ پر باتیں کرتے رہے کہ ہم تو بالکل بدھو ہیں۔ ہمیں ذرا ذرا اسی بات پر ڈرنا نہیں چاہئے اور ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اب ہم بڑی ہو رہی ہیں، ہمیں لڑکوں سے بھی واسطہ پڑے گا۔ ہمیں لڑکوں سے بھی ڈیل کرنا آنا چاہئے اور لڑکیوں میں تو شرارت ٹھیک ہے مگر لڑکوں میں درست نہیں ہے۔ گویا کہ یہ واقعہ ہمارے لئے ایک تجرباتی نصیحت تھی۔ ویسے میں طبعتاً شرارتی ذرا بھی نہیں تھی بلکہ بہت ہی سنجیدہ ار بہت ہی خوش باش لڑکی تھی۔

                چھٹی ساتویں جماعت کا ایک اور واقعہ ہے۔ ہمارا فری پیریڈ تھا۔ میں اور ریحانہ کلاس روم سے باہر آئے۔ اسکول کے گرائونڈ میں بہت بڑا درخت تھا۔ کچھ کرنے کو تھا نہیں۔ ہم کھیل کود بھی نہیں کر سکتے تھے۔ زیادہ گھومتے پھرتے تو نظر نہیں آ جاتے۔ پھر کلاس روم میں بھیج دیئے جاتے۔ ہم نے سوچا کیا کریں۔ ریحانہ کہنے لگی کہ چلو اسی درخت پر چڑھ جاتے ہیں۔ پیریڈ فری تھا۔ ہمیں درخت پر چڑھتے ہوئے کلاس کی اور لڑکیوں نے بھی دیکھا۔ سب خوش ہو کر شور مچانے لگیں اور ہنس ہنس کر آپس میں باتیں کرنے لگیں۔ اتنے میں شور سن کر ہیڈ مسٹریس آ گئیں۔ ہم دونوں درخت پر ٹنگی بیٹھی تھیں۔ چپ چاپ دم سادھے وہیں بیٹھی رہیں۔ ہیڈ مسٹریس نے لڑکیوں کو ڈانٹا اور اندر جانے کو کہا۔ کچھ لڑکیاں بار بار درخت کی جانب دیکھنے لگیں۔ شاید وہ اس ڈانٹ میں ہمیں بھی شریک کرنا چاہتی تھیں۔ ہیڈ مسٹریس نے درخت کی جانب دیکھا۔ بھلا دو پلی پلائی لڑکیاں کہیں درخت کے پتوں میں چھپ سکتی تھیں۔ فوراً بولیں بیگمات نیچے تشریف لے آیئے۔ ہمارے تو اوسان خطا ہو گئے کہ اب مارے گئے۔ کہیں یہ ہمیں ساری کلاس کے سامنے بینچ پر کھڑا نہ کر دیں۔ بہرحال جلدی سے نیچے اترے۔ ہیڈ مسٹریس کہتی ہوئی چل دیں کہ آفس میں آ جائیں۔ ہم دونوں قتل کے مجرم کی طرح سر جھکائے ان کے پیچھے پیچھے چل دیئے۔ میں نے اندر ہی اندر اللہ میاں سے کہا کہ اللہ میاں آپ کو تو پتہ ہے کہ میں شرارت کتنا کم کرتی ہوں۔ ریحانہ بھی نہیں کرتی۔ بس غلطی ہو گئی معاف کر دینا اور ہمیں سب کے سامنے شرمندگی سے بچا لینا ورنہ ساری کلاس ہمارا مذاق اڑائے گی۔ آفس پہنچے تو ہم دونوں سر نیچا کئے چپ چاپ کھڑے ہوگئے۔ ہیڈ مسٹریس بولیں۔ آپ انسان ہیں آپ کو لنگوروں کی طرح درختوں پر چڑھنا اچھا لگتا ہے۔ ہم نے فوراً ایک زبان ہو کر کہا میڈم غلطی ہو گئی آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ کہنے لگیں۔ فری پیریڈ ہے تو ہوم ورک لے کر بیٹھ جایا کریں یاکتاب پڑھ لیا کریں۔ آئندہ میں آپ کو باہر نہ دیکھوں۔ ہم نے اچھے بچوں کی طرح سر ہلایا۔ میڈم ایسا ہی ہو گا۔ انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا۔ ہم کلاس روم میں آئے تو ساری لڑکیاں پوچھنے لگیں کیا ہوا ہیڈ مسٹریس نے کیا سزا دی۔ خوب ڈانٹ پڑی ہو گی۔ ہم نے کہا ہم نے سوری کہہ دیا۔ انہوں نے مان لیا۔ لڑکیوں کو یقین نہیں آیا۔ ریحانہ بولی۔ ارے ہیڈ مسٹریس نے تو ہمیں بیگمات کا خطاب دیا ہے۔ آج سے ہم دونوں بیگمات ہیں۔ ہماری عزت کیا کرو۔ ویسے ہم نے لڑکیوں سے لنگور والا خطاب چھپا لیا تھا۔ اب میں سوچتی ہوں یہی چھوٹے چھوٹے واقعات اور شرارتانہ تجربات زندگی کی کہانیوں کو رنگین بناتے ہیں۔ ورنہ روکھی پھیکی زندگی کی اپنی کتاب کو خود ہی پڑھنے کو جی نہ چاہے۔

                ریحانہ کے سوا میری اور کسی سے دوستی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ میری اس قدر ذہنی ہم آہنگی تھی کہ جو بات اس کے دل میں ہوتی وہ میری زبان سے ادا ہو جاتی۔ وہ اکثر چونک پڑتی مگر میں اندر ہی اندر اس سے مخاطب ہوتی کہ پگلی یہ سب محبت کے کھیل ہیں۔ محبت کی روشنی دل تک پہنچتی ہے۔ اسی روشنی میں دلوں کی تحریر پڑھی جاتی ہے مگر میں زبان سے اسے کچھ نہ کہتی۔ مجھے یوں لگتا جیسے وہ میری بات سمجھ نہ سکے گی۔ ویسے بھی ان دنوں مجھے اپنے اندر کے جذبات کا اظہار کرنا نہیں آتا تھا۔ مجھے جو کچھ اندر ہی اندر معلوم ہوتا تھا وہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے بیان کر دیتی تھی اور میرا ضمیر اور میری عقل بالکل مطمئن ہو جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے میں ظاہری طور پر اظہار کرنا ضروری نہیں سمجھتی تھی۔ بلکہ زیادہ تر خاموش رہتی۔ ان دنوں ہم نے ساتویں جماعت کا امتحان دیا تھا۔ ان دنوں گیارہ کلاس کی میٹرک تھی۔ میٹرک میں ایک لڑکی تھی جو بہت ہونہار تھی۔ اسکول کی اسمبلی، اسپورٹس اور جانے کن کن چیزوں میں حصہ لیتی رہتی تھی۔ سب اسے پسند کرتے تھے۔ میرے ساتھ بچپن سے ایک عجیب بات تھی۔ مرا دل عام طور پر کسی کی جانب مائل نہیں ہوتا تھا۔ بس سرسری طور پر مجھے سب اچھے لگتے تھے مگر شروع ہی سے کسی ایک شخص کے ساتھ قلبی لگائو ہو جاتا اور وہ میرے حواس پر چھا جاتا۔ جیسے پرائمری چوتھی جماعت ہی میں میری کلاس ٹیچر مجھے بہت چاہتی تھیں کیونکہ میں فرسٹ آتی تھی اور پڑھائی لکھائی میں لگی رہتی تھی۔ وہ بھی مجھے بہت اچھی لگتی تھیں۔ ایک دفعہ وہ بیمار ہو گئیں اور دو ہفتے تک نہ آئیں۔ ایک دن مجھے بہت یاد آئیں میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ انہیں جلدی بھیج دے۔ ہماری پڑھائی کا حرج ہو رہا ہے اور میں انہیں دیکھنا بھی چاہتی ہوں۔ مجھے ان کی بہت یاد بھی آتی ہے۔ اس رات خواب میں دیکھا کہ وہ سڑک پر جا رہی ہیں۔ بارش ہو رہی ہے۔ چھتری لگائے ہوئے ہیں۔ میں سڑک کے کنارے کھڑی ہوں جیسے ہی ان پر میری نظر پڑی میں بھی ان کے ساتھ ساتھ اسی رفتار سے دوڑتی ہوں۔ اور پوچھتی ہوں کہ آپ کب اسکول آئیں گی وہ دوڑتی دوڑتی کہتی ہیں کل آئوں گی۔

                صبح اٹھتے ہی مجھے یقین تھا کہ مس آج ضرور اسکول آ جائیں گی۔ اسکول پہنچی تو وہ وہاں موجود تھیں۔ اسی طرح امی کے ساتھ میری بہت محبت اور قلبی لگائو تھا۔ میں ان کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ ہر وقت ان کو خوش رکھنے کی ترکیبیں سوچتی رہتی۔ ہائی اسکول میں ریحانہ کے ساتھ قلبی اور ذہنی لگائو تھا۔ دنیاوی طور پر نگاہ کی مرکزیت ہمیشہ سے کوئی ایک فرد رہا۔ نگاہ کی مرکزیتیں بدلتی رہیں مگر جب بھی بدلی بہت دنوں تک میں سخت بے چینی کا شکار رہی۔ پرائمری اسکول چھوڑنے پر بہت دنوں تک میری آنکھیں میری مس کو تلاش کرتی رہیں۔ پھر ریحانہ نے ان کی جگہ لینے لگی مگر ذہن و دل کی مرکزیت ہمیشہ سے ایک رہی۔

                اللہ کی ہستی جو میرے ذہن کے پردے کے پیچھے بیٹھی تھی۔ جب بھی کبھی میری نگاہ اپنی من پسند ہستی کو باہر دیکھنے سے محروم رہتی میں اپنے دل کا درد اپنے رب سے بیان کر دیتی۔ وہ میری محرومیوں پر مسکراتا، مجھے تسلی دیتا، میری لگن نگاہ کے اس عکس کو دل کی تختی پر اتار کر اندر ہی اندر اسے دیکھتی رہتی اور اپنی آگ بجھاتی رہتی۔ میں ہمیشہ اللہ کے ساتھ پوری طرح Honestرہی۔ ایسی صورت میں جب مجھے اپنی ٹیچر بہت یاد آتی ان کی محبت جوش مارتی تو میں اللہ سے یہی کہتی کہ آپ ذرا بھی خیال نہ کریں۔ مجھے آپ سے سب سے زیادہ محبت ہے۔ میں آپ ہی کے پاس جانا چاہتی ہوں مگر دنیا میں رہتے ہوئے کسی کی طرف تو نگاہ پڑتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کی محبت میں کمی ہو گئی ہے۔

                مجھے ہر وقت یوں لگتا جیسے اللہ مجھ سے بے پناہ پیار کرتا ہے۔ اگر میں نے اس کی محبت کا جواب محبت سے نہ دیا تو وہ مجھ سے روٹھ جائے گا۔ پھر میں اسے دیکھ نہ سکوں گی اور میں کسی بھی قیمت پر ایسا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ہر وقت مجھے یہی خیال رہتا کہ اللہ کیا چیز پسند کرتا ہے۔ مجھے کیسا نظر آنا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔ ماں کی خوشی، باپ کی خوشی، بھائی بہنوں کی خوشی کا خیال بھی مجھے اسی لئے رہتا کہ اس سے اللہ خوش ہوتا ہے۔ زندگی کے ہر دور میں دنیا ہی سے مجھے کوئی ایک فرد بہت زیادہ اچھا لگتا۔ مگر میں نے کبھی اپنی دلی کیفیات کا ڈھنڈورا پیٹنا پسند نہیں کیا۔ بس خود ہی اپنے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کرتی اور اللہ سے کہتی اور اس کی باتوں پر عمل کرتی۔

                ہاں تو میں بتا رہی تھی کہ میٹرک کا امتحان ہو چکا تھا اور اب وہ لڑکیاں اسکول چھوڑ رہی تھیں۔ ریحانہ میرے پاس آئی۔ شمامہ صفیہ باجی آج اسکول چھوڑ رہی ہیں۔ اس کا چہرہ دلی کرب سے سفید ہو رہا تھا میں نے ایک نظر اس کے چہرے پر ڈالی اور اس کے دل کے رنج کو دیکھ لیا۔ میرے دل نے فوراً ہی کہا۔ ریحانہ کو اس لڑکی سے بے حد محبت ہے۔ اس کے اسکول چھوڑنے کا اسے بہت رنج ہے مجھے اپنی سہیلی کے رنج میں شریک ہونا چاہئے۔ ریحانہ بولی۔ چلو ان سے ملتے ہیں۔ ان کو خدا حافظ کہہ کر آتے ہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے چلو چلتے ہیں۔

                سچ تو یہ ہے کہ میں نے اس سے پہلے کبھی صفیہ باجی کی طرف نظر بھر کے دیکھا بھی نہ تھا۔ مجھے ان میں کسی قسم کی ذرا بھی دلچسپی نہ تھی مگر اس وقت ذہن میں یہی بات گھوم رہی تھی۔ ریحانہ کو ان کے جانے کا رنج ہے۔ مجھے بھی رنج کا اظہار کرنا ہو گا تا کہ ریحانہ مجھے دوست سمجھے۔ کیونکہ دوستی کا تقاضہ یہی ہے کہ دوست کے غم اور خوشی میں برابر کا شریک رہے۔ ہم دونوں ایک روم میں پہنچے۔ ریحانہ صفیہ باجی کو دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میں تو ویسے بھی رونے دھونے کی قائل نہیں تھی میرا تو یہ نظریہ تھا کہ کسی کے مرنے پر ہی رونا چاہئے۔ وہی اصلی غم ہے ورنہ باقی موقعوں پر رونا آ ہی نہیں سکتا اور واقعی مجھے تو رونا آتا ہی نہیں تھا۔ اب کیا کروں۔ یہ میرے لئے بہت ہی مشکل وقت تھا۔ دل اندر اندر زور زور سے قہقہے لگا رہا تھا کہ اللہ کے سوا ایسی محبت بھی کسی بندے سے ہو سکتی ہے کہ جس کی محبت میں رونا آ جائے۔

                دراصل اس وقت تک مجھے کسی فرد سے ایسی محبت تھی ہی نہیں کہ میں اس کی جدائی میں آپے سے باہر ہو جائوں اور رو کر اپنی کمزوری دنیا کو دکھائوں۔ میں نے حیرانی سے ایک نظر ریحانہ کو دیکھا جو صفیہ باجی صفیہ باجی کر کے خوب رو رہی تھی۔ میں نے اندر اندر اللہ میاں سے کہا کہ اللہ میاں اب کیا کروں۔ میرے اندر تو دور دور تک غم کا نام و نشان اس وقت نہیں ہے بلکہ میرے اندر تو اس بات کی خوشی کی لہریں اٹھ رہی ہیں کہ اچھا ہوا میں اس مصیبت میں گرفتار نہ ہوئی ورنہ آج میرا بھی یہی حشر ہو گا۔ مگر دوستی کا تقاضہ تو یہی ہے کہ میں بھی دوست جیسی بن جائوں۔ مجھے تھوڑی دیر کے لئے سنجیدہ اور رنجیدہ کر دیجئے۔ میرے ذہن میں ترکیب آئی۔ میں زمین پر بیٹھ گئی اور اپنا منہ گھٹنوں میں چھپا لیا تا کہ کوئی چہرہ نہ دیکھے اور لوگ یہ سمجھیں کہ میں رو رہی ہوں۔ وہاں صفیہ باجی کی تین چار سہیلیاں اور تھیں وہ صفیہ سے کہنے لگیں بے چاری بچیاں آپ سے کتنی عقیدت رکھتی ہیں۔ میرا دل ان کے جواب میں کہہ رہا تھا کہ میں بچی نہیں ہوں۔ مجھے ان سے قطعی عقیدت و محبت نہیں ہے ، میں تو انہیں جانتی بھی نہیں۔ یہ سارا ناٹک تو میں اپنی سہیلی کو خوش کرنے کے لئے کھیل رہی ہوں۔ اصل میں اس وقت ان لڑکیوں کی بات سن کر مجھے ایسا لگا جیسے مجھ پر الزام لگا دیا گیا ہے کہ جس میں میری توقیر نہیں بلکہ بے عزتی ہے۔ تقریباً دس منٹ تک جب تک ریحانہ صفیہ باجی کے ساتھ مشغول رہی میں اسی طرح گھٹنوں میں سر دیئے رہی اور وقتاً فوقتاً آنکھیں اور زور سے ملتی رہی کہ لال ہو جائیں۔ تا کہ رونی صورت بن جائے اور سہیلی کو گلہ نہ رہے۔ جیسے ہی ہم اس کمرے سے باہر آئے میں نے اطمینان کا سانس لیا۔

                ان دنوں مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے اللہ میاں مجھے بڑے غور سے دیکھ رہے ہیں۔ میرے ہر فعل پر ان کی نظر ہے۔ مجھے یوں لگتا جیسے اللہ میاں کے اور میرے درمیان ایک پردہ ہے۔ میں اپنے ہر فعل کے بعد اللہ میاں کو اس کی وجہ بتاتی اور کام شروع کرنے سے پہلے اپنے ارادے سے آگاہ کرتی۔ مجھے لگتا کہ اس پردے کے پیچھے سے اللہ میاں مجھے شاید اچھی طرح نہ دیکھ سکیں۔ میرے دل کا حال نہ جان سکیں۔ کہیں وہ مجھے بری لڑکی نہ سمجھ لیں۔ آج مجھے اپنے اس خیال پر سخت ہنسی آتی ہے۔ شعور ہر بات کو الٹا ہی سمجھتا ہے۔ اس لمحے جس بات کو میں نے اللہ پاک سے منسوب کر دیا وہ تو دراصل میری اپنی کمزوری تھی۔ میری نظر دل کے آئینہ میں خود اپنے ہی نفس پر تھی۔ میں نے اپنے نفس کو لامحدودیت کا جز سمجھ کر اس کی کمزوری کو بھی لامحدودیت سے وابستہ کر دیا اور جتنی دیر تک میں اسکول میں رہی اندر ہی اندر اللہ پاک کو تفصیل سے بتاتی رہی کہ میں نے صفیہ باجی سے جھوٹ موٹ کی محبت کا ڈھونگ کیوں رچایا۔ میں نے صفیہ باجی سے زبان سے کچھ بھی نہ کہا تھا۔ ان دنوں میں ہر کسی سے بات کرتی بھی نہیں تھی۔ بہت خاموش رہتی تھی۔ میں بار بار اللہ میاں سے کہتی کہ میں نے زبان سے تو محبت کا اقرار نہیں کیا تھا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ میں جھوٹی محبت کا اظہار کر رہی ہوں۔ اسی لئے میں نے زبان سے کچھ نہ کہا۔ بس سہیلی کا دل رکھنے کے لئے ایکٹنگ کر لی ۔ اگر اسے یہ پتہ چلتا کہ میں اس لڑکی سے محبت نہیں کرتی جس سے میری سہیلی کرتی ہے تو یہ جان کر اسے کتنا دکھ ہوتا۔ پھر وہ میری محبت کا بھی اعتبار نہ کرتی۔ میں بار بار اللہ میاں سے کہتی دل توڑنا تو اچھی بات نہیں ہے نا اللہ میاں۔ بس اس کے لئے مجھے اگر تھوڑی سی بھی جھوٹ موٹ ایکٹنگ کرنی پڑتی تو کیا برائی ہے۔ میں اتنی دیر تک یہ باتیں اپنے دل میں دہراتی رہی۔ جب تک کہ پردے کے پیچھے سے مجھے حق کی رضا کا احساس نہیں ہو گیا۔ اپنے ہر عمل پر میرے نزدیک اللہ میاں کو اپنے دل کی کیفیات اور نیت و ارادے کی تفصیل بتانا اس لئے ضروری تھا تا کہ اللہ میاں مجھے اچھی طرح جان جائیں کہ میں کیسی لڑکی ہوں اور یہ میں اس لئے ضروری سمجھتی تھی کیونکہ میرے اور اللہ میاں کے درمیان محبت کا رشتہ تھا۔

                میں اس بات پر یقین رکھتی تھی کہ محبت کرنے والوں کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہونا چاہئے۔ میں اسے بتاتی جاتی میں ایسی ہوں میں ویسی ہوں۔ میں یہ کر سکتی ہوں میں یہ نہیں کر سکتی وغیرہ وغیرہ۔ میں اندر ہی اندر اپنی پسند اور اپنی ناپسندیدگی کا اظہار اس سے کرتی رہتی۔ مجھے معلوم تھا کہ اللہ مجھ سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ وہ میری پسند اور ناپسند کا ضرور خیال رکھے گا۔ میں ہر وقت گنگناتی جھومتی رہتی۔ خوشیاں میرے اندر سے چشمے کی مانند ابلتی رہتی۔ صفیہ باجی والے واقعہ کے بعد خود مجھے پتہ چل گیا کہ میرے دل میں ریحانہ کی کتنی محبت ہے۔ میرا جی چاہتا ہم زیادہ سے زیادہ وقت ساتھ رہیں۔ ذہن میں زیادہ سے زیادہ اس کا خیال آتا۔ اس کی غیر موجودگی کے لمحات میرے لئے اذیت ناک بننے لگے۔ مگر میں نے کبھی نہ ریحانہ سے نہ ہی کسی اور کے سامنے اس کا ذکر کیا۔ میں اس قدر نارمل طریقے سے ظاہر میں رہتی تھی کہ کسی کو پتہ بھی نہ چلا کہ اندر ہی اندر میرا کیا حال ہے۔ بس میں اللہ میاں سے کہتی رہتی کہ یہ محبت میرے بس سے باہر ہے مگر آپ یہ نہ سمجھنا کہ میں سہیلی کی محبت میں آپ کو بھول جائوں گی۔ میں اللہ میاں کو اندر ہی اندر وضاحت کرتی رہتی۔ اب میں بڑی ہو گئی ہوں۔ دنیا میں آپ نے مجھے رکھا ہے تو مجھے اس دنیا میں ماں کی بھی ضرورت ہے، بہن بھائیوں کی بھی ضرورت ہے، ان سب کی محبت کے ساتھ ساتھ اب سہیلی کی محبت کی بھی ضرورت ہے۔ یہ تو میری دنیاوی ضرورتیں ہیں۔ اصل محبت تو میں آپ ہی سے کرتی ہوں۔ مجھے ہر وقت اس بات کا احساس رہتا ہے کہ اللہ پاک یہ نہ سمجھ لیں کہ میں اللہ کے بجائے دنیا کی محبت میں مشغول ہو گئی ہوں۔ اس لئے کوئی بھی فرد مجھے اچھا لگتا ہے تو میں ہر وقت دل میں اللہ کی محبت کا اظہار کرتی اور اس فرد سے محبت کرنے کی وجہ بتاتی۔ اپنے اندر اٹھنے والے بشری تقاضوں کو اللہ کے سامنے بیان کرتی اور اس کے حوالے سے اس فرد کی یا شئے کی محبت کا کوئی نہ کوئی مثبت پہلو ڈھونڈ لیتی پھر مجھے لگتا کہ اللہ کی طرف سے مجھے اس کی اجازت مل گئی ہے اور وہ مجھ سے راضی ہے۔

 

 

 

 


 


Khushboo

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔

دعا گو:

                                        خواجہ شمس الدین عظیمی