Topics

خوف


                جب میں قرآن پڑھتی تو گہرائی میں اس کے معنی سمجھ میں آتے۔ میں اپنی روح کو چلتا پھرتا دیکھتی اور اس سے باتیں کرتی۔ اس کے ساتھ ساتھ سال میں کم از کم ایک بار ضرور ریحانہ کے لئے دل میں محبت کی تڑپ اٹھتی۔ میں جانتی تھی کہ میری روح اسے کتنا یاد کرتی ہے۔ یہ کیفیات ایسی ہوتیں کہ ان پر میرا کچھ بس نہ چلتا۔ میں کاموں میں مصروف رہتی مگر دل مسلسل اسے یاد کرتا رہتا حالانکہ شعوری طور پر میں پورے کنٹرول میں رہتی بس دل اس کے لئے دعائیں مانگتا رہتا کہ وہ جیسے بھی ہے جہاں بھی ہے خوش رہے۔ مجھے ایسا لگتا کہ ریحانہ ایک پردے کے پیچھے ہے اور روح کا بس نہیں چلتا کہ یہ پردہ پھاڑ دے۔ کئی کئی گھنٹے یہ حالت رہتی۔ جب یہ کیفیات گزر جاتیں تو میں ایسی نارمل ہو جاتی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ یوں لگتا تھا جیسے کوئی اٹکی ہوئی سوئی پھر سے چل پڑی ہو۔ بعد میں، میں اس پر غور بھی کرتی رہی کہ آخر کیوں ایسی حالت ہو جاتی ہے۔ پھر مجھے یوں لگتا کہ اللہ چاہتا ہے کہ میں اس کے لئے دعا کروں۔ جب بھی ایسی حالت ہوتی مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے ریحانہ پر کوئی پریشانی آئی ہوئی ہے۔ میں اس کے لئے دعا کرتی اس کی دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لئے دعا کرتی۔ سچ تو یہ ہے کہ ریحانہ کے بعد مجھے کبھی سہیلی کی خواہش ہی نہیں ہوئی۔ میں اللہ سے اسی ایک سہیلی کا ساتھ آخرت میں بھی مانگا کرتی۔ اسی طرح حبیب کے ساتھ ابدی زندگی کی دعا کرتی۔ میں نے کبھی حبیب کو نہیں بتایا کہ ریحانہ کے لئے ابھی میری روح تڑپتی ہے۔ مجھے اپنی کیفیات کا علم تھا کہ یہ میری شعوری کیفیات نہیں ہیں مگر میں جانتی تھی کہ میں حبیب کو یہ سب نہیں بتا سکتی۔ ویسے میں عام طور سے جو دوسری روحانی باتیں تھیں وہ سب بتا دیتی کیونکہ انہیں تو مجھے لکھنے کا حکم ہوتا تھا۔ میں عموماً فجر کی نماز کے فوراً بعد خط میں واردات لکھنے بیٹھ جاتی کہ بچے سو رہے ہیں تو جلدی جلدی لکھ ڈالوں۔

                ایک مختصر سا دور ایسا بھی آیا کہ میرے دل میں اس اندیشے کے تحت شدید خوف رہنے لگا کہ میری کسی غلطی یا کوتاہی پر اللہ تعالیٰ مجھ سے ناراض نہ ہو جائیں۔

                مجھے یوں لگا میں بالکل ہی نادان اور کم عقل ہوں۔ مجھے کچھ نہیں پتہ کچھ نہیں آتا۔ میں اللہ میاں کو کیسے خوش رکھوں۔ مجھے اپنا ذہن بالکل کورا لگنے لگا۔ میں سوچنے لگی مجھے تو گھر گرہستی کی بھی کوئی بات نہیں آتی۔ گھر سے باہر میرا کسی سے میل جول نہیں ہے۔ میں کیسے بچے پالوں۔ کس طرح ان کی پرورش کروں۔ کیسے شوہر کو خوش رکھوں مجھے تو کچھ بھی نہیں آتا۔ میں سب کام اللہ کی خوشی کے لئے کرنا چاہتی ہوں۔ مجھے کچھ نہیں پتہ کہ میں کس طرح کروں۔ اس دوران اگر مجھ سے غلطی ہو گئی تو اللہ مجھ سے ناراض ہو جائے گا۔ وہ روٹھ گیا تو میں کہاں جائوں گی۔ کیا کروں گی۔

                ایک رات یہ سوچتے سوچتے میری آنکھ لگ گئی۔ خواب میں بھی میں نے اپنے آپ کو اسی سوچ میں غرق پایا۔ میں نے دیکھا کہ میں اسی مشکل میں ہوں کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی تو اللہ مجھ سے ناراض ہو جائے گا۔ وہ روٹھ گیا تو میں کہاں جائوں گی۔ کیا کروں گی۔

                ایک رات یہ سوچتے سوچتے میری آنکھ لگ گئی۔ خواب میں بھی میں نے اپنے آپ کو اسی سوچ میں غرق پایا۔ میں نے دیکھا کہ میں اسی مشکل میں ہوں کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی تو اللہ مجھ سے ناراض نہ ہو جائے پھر میں نے دیکھا کہ میں جائے نماز پر بیٹھی دعا کر رہی ہوں کہ پیارے اللہ میاں میرے اوپر فرشتوں کے پہرے بٹھا دیجئے تا کہ وہ ہر کام مجھ سے لیتے رہیں۔ میری ہر حرکت کے لئے وہ مجھے حکم دیتے رہیں اور میں ان کے حکم کے مطابق کرتی جائوں تا کہ مجھ سے غلطیاں سرزد نہ ہوں اور تو مجھ سے راضی رہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ جیسے تھوڑی ہی دیر بعد مجھ پر فرشتے مقرر کر دیئے گئے ہوں۔ وہ دو فرشتے تھے میں دیکھتی ہوں کہ وہ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ اب آپ کو ہمارے حکم کے مطابق کام کرنا ہو گا۔ میرا دل خوش ہو گیا اور میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اب وہ ہر کام کے لئے مجھے کہتے یوں کرو۔ مجھے یوں لگا جیسے میں ایک روبوٹ ہوں۔ میرا خواب طویل ہوتا گیا، میں نے دیکھا کہ مجھے اپنے بچوں کا کام کرتے ہوئے جو مزا آتا تھا حبیب کے لئے جو جذبات تھے وہ سب کچھ ختم ہو گئے۔ اس وجہ سے کہ وہ کہتے اب بچے کا دودھ بنائو۔ اب بچے کو گود میں اٹھائو اب اسے کھانا کھلائو۔ اب حبیب کے پاس جائو۔ میں بچوں کو پیار کروں تو فرشتوں کے حکم سے حبیب کی خدمت کروں تو فرشتوں کے حکم سے۔ پھر میں انسان تو نہیں رہی میں تو ایک چلتی پھرتی مشین بن گئی کہ جس کے کل پرزے دوسرے کے بٹن دبانے پر حرکت کرتے تھے۔ میرے تو ہونٹوں کی مسکراہٹ بھی چھن گئی۔ وہ چمک لہک کر گانا بھی بند ہو گیا۔ میں سخت سنجیدہ ہو گئی۔ حبیب الگ پریشان کہ اس کو کیا ہو گیا۔ مجھے خود اپنی سنجیدگی ایک آنکھ نہ بھائی۔

                خواب میں مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ میں نے اللہ میاں سے یہ پہرے اٹھانے والی بات صحیح نہیں کی۔ میں نے نماز پڑھی اور خوب عاجزی کے ساتھ دعا کی کہ اللہ میاں یہ تو بڑی مشکل ہے ہر دم فرشتے مجھے دیکھتے رہتے ہیں اور اس قدر تحکمانہ لہجے میں مجھے حکم دیتے رہتے ہیں۔ میں تو ذرا بھی آزادی محسوس نہیں کرتی۔ نہ مجھ سے ہنسا جاتا ہے نہ کوئی Feelingمحسوس ہوتی ہے۔ میں ماں ہوں میں اپنے بچوں سے خود پیار کرنا چاہتی ہوں۔ حبیب میری جان ہے میں اس سے اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہتی ہوں۔ ساری زندگی ایسے کیسے بسر ہو گی۔ میں اپنی آزادی چاہتی ہوں۔ آپ مہربانی فرما کے یہ فرشتے ہٹا لیجئے اور مجھے توفیق دیجئے کہ میں سب کام ٹھیک ٹھاک کر سکوں۔ ابھی میں نے دعا کے ہاتھ نیچے بھی نہیں کئے تھے کہ وہ دونوں فرشتے میرے پاس سے اڑے اور کہنے لگے اچھا اب ہم جاتے ہیں آپ پر سلامتی ہو۔ اللہ حافظ۔ میں نے بھی انہیں خدا حافظ کہا اور کھڑکی کے شیشے سے انہیں آسمان پر حد نگاہ تک جاتا دیکھتی رہی۔ میں نے شکر کے سجدے کئے۔ میرا خواب یہاں پر ختم نہیں ہوا بلکہ جاری رہا۔ میں نے دیکھا کہ حبیب اوپر کے کمرے میں ہیں میں دوڑی دوڑی اوپر گئی اور حبیب کو خوشخبری سنائی۔ حبیب فرشتے چلے گئے۔ میں خوب زور سے ہنسی۔ بچوں کو خوب بھینچ بھینچ کر پیار کیا۔ یوں لگ رہا تھا کہ جانے کب سے میں نے اپنے بچوں کو پیار نہیں کیا ہے۔ حبیب خوب ہنسے۔ خواب ختم ہو گیا میری آنکھ کھل گئی مگر اس خواب سے مجھے اس بات پر اور زیادہ یقین ہو گیا کہ اللہ پاک کا ہر کام ایک خاص مصلحت کی بناء پر ہے۔ یہ خاص مصلحت اس شئے کے اندر کام کرنے والی فطرت کا تقاضہ ہے۔ فطرت بدلی نہیں جا سکتی۔ اس لئے کہ یہ اسمائے الٰہیہ کی صفات ہیں۔ ہر فرد کے اندر رونما ہونے والی ہر حرکت کو نظام قدرت نے اس کی فطرت کے مطابق رکھا ہے۔ جب اس میں تبدیلی لائی جاتی ہے تو نظام چل نہیں سکتا۔

                میں نے حبیب سے کہا کہ اللہ کتنا مہربان ہے اس نے ہمارے اعمال کو ریکارڈ کرنے کے لئے فرشتے رکھے ہیں مگر وہ خفیہ کام کر رہے ہیں۔ اگر اعلانیہ کرتے تو ہر شخص خوفزدہ رہتا اور یہ خوف اسے بزدل بنا دیتا۔ وہ فرشتوں کو اپنے سے افضل سمجھ لیتا اور خود کو ان کا غلام سمجھتا۔ اگر ایسا ہوتا تو اس کے اندر کی صلاحیتیں ابھرتی نہیں بلکہ اور زیادہ دب جاتیں اور آدمی مٹی کے بت کے علاوہ اور کچھ نہ ہوتا۔ اپنے اعمال پر نظر رہتی تو اگر وہ انہیں خراب دیکھتا تو اللہ سے ناامید ہو جاتا جب کہ نا امیدی کفر ہے اور اگر درست دیکھتا تو اپنے ہی اعمال پر نظر ہوتی۔ اللہ کی رحمت اور قدرت پر نہیں۔ بلاشبہ اللہ کا ہر کام بے نقص ہے۔

                اس کے بعد میرا ذہن اور زیادہ روحانی علوم سیکھنے کی جانب لگ گیا۔ میں اور زیادہ قرآن کا مطالعہ کرنے لگی اور اس کی آیات میں چلتے پھرتے ہر وقت غور کرنے لگی۔ خصوصاً حروف مقطعات کے اسرار جاننے کا بڑا ہی شوق تھا۔ غیب میں سفر کا بڑا شوق تھا۔ دل کا تقاضہ بڑھتا ہی جاتا تھا۔ میں اللہ سے کہتی کہ اللہ میاں سوائے آپ کے اور قرآن کے اور کوئی میرا رہبر نہیں ہے۔ آپ ہی مجھے سکھا سکتے ہیں۔ مجھے وہ علوم سکھا دیں جو آپ نے اپنے خاص بندوں کو عطا کئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی میری زندگی چار بچوں کے ساتھ بڑی ہی مصروف تھی۔ پھر حبیب کا سارا کام میں خود کرتی تھی اور اس طرح کرتی تھی کہ کبھی انہیں کسی کام کے لئے کہنے کی بھی ضرورت نہ پڑی۔ پھر بچوں کو اسکول لانا لے جانا، گھر کا سودا لانا سب کام میرے ذمہ تھا۔ مجھے کبھی محسوس ہی نہیں ہوا کہ میں اتنی مصروف ہوں کیونکہ ہر دم میرا ذہن اللہ سے لگا رہتا۔ ذہن قرآن کی کوئی نہ کوئی آیت دہراتا رہتا اور میں اس پر غور کرتی رہتی۔ باقی گھر کے سارے کام بڑے آرام سے ہوجاتے۔ نماز میں بڑا جی لگتا۔ پانچوں وقت کے علاوہ جب بھی تھوڑا سا بھی ٹائم ملتا میں نفل پڑھ لیا کرتی تھی۔ بس یہی میری زندگی تھی اور میں اس میں اس قدر خوش تھی کہ جیسے جنت میں ہوں۔

                اکثر سسر کے خط آتے، جس میں حبیب کو زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی ترغیب ہوتی کہ پیسے سے ہی آدمی کی عزت ہے۔ پیسے کے بغیر دنیا میں کوئی نہیں پوچھتا۔ ساری محبت اور عزت پیسے سے ہے۔ بس تم صرف پیسہ کمانے کی طرف دھیان دو۔ یہ طرز فکر اس طرز فکر سے بالکل ہی الٹ تھی جس میں، میں پیدا ہوئی اور جوان ہوئی تھی۔ میرے ماں باپ نے تو ہمیشہ یہی کہا تھا کہ بیٹا تقدیر کا رزق تو مل کر ہی رہتا ہے۔ یہ تو اللہ کا وعدہ ہے اور دنیاوی دولت تو دنیا تک ہی ہے۔ آدمی اپنے ہی سوچنے کے انداز کو دنیا سے منسوب کر دیتا ہے حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو ایسا نہیں ہے۔ ہمارا تجربہ یہی کہتا ہے کہ دنیا آدمی کو اس کے اعمال اور اس کی سیرت کے حوالے سے ہی یاد رکھتی ہے۔ ابا کہا کرتے بیٹا ذرا سوچو تو آج بھی دنیا فرعون کا نام لیتی ہے مگر کیا تم نے کبھی کسی ایک آدمی کے منہ سے بھی فرعون کے لئے حضرت، مولانا یا ایسا ہی کوئی عزت کا لفظ اس کے نام کے ساتھ سنا ہے۔ ہر شخص سینکڑوں ہزاروں سال سے اسے برا ہی کہہ رہا ہے۔ بیٹا دنیا ہمیشہ اچھے کو اچھا اور برے کو برا ہی کہتی ہے۔ اگر کوئی برے کو اچھا کہتا ہے اس کی زندگی میں تو ضرور اس میں کوئی دنیاوی مصلحت ہوتی ہے کہ اس کے شہر سے بچنے کے لئے دنیا اس کے راستے سے کترا کے چلنا چاہتی ہے۔ اپنے اندر اللہ کی لگن پیدا کرنی چاہئے۔ دنیا کی نہیں۔ اللہ خود ہی جو کچھ تقدیر میں ہوتا ہے دے دیتا ہے۔

                میں سوچتی کتنے ناعاقبت اندیش ہیں وہ ماں باپ جو اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ دنیا میں مشغول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ضرورت سے زیادہ عیش و آرام انہیں دنیا سے تو قریب کر دے گا مگر اپنے رب دے دور لے جائے گا۔ میں ہمیشہ حبیب کو سمجھاتی کہ مجھے پیسے کی کوئی خواہش نہیں ہے بس گھر میں محبت اور سکون ہی میرے لئے سب سے بڑی دولت ہے۔ میں نے کبھی حبیب سے کوئی فرمانش نہیں کی۔ حتیٰ کہ کبھی بچوں کی ضروریات کے لئے بھی خود سے نہیں کہا۔ بس جو کچھ ہوا اسی میں خوشی خوشی گزارہ کر لیتی۔ میرا ذہن اس طرف جاتا ہی نہیں تھا بلکہ میں تو ہر وقت یہی دعا کرتی رہتی تھی کہ یا اللہ زیادہ پیسہ مت دینا۔ بس اتنا دینا کہ کسی کی محتاجی نہ رہے۔ مجھے معلوم تھا کہ اگر بہت زیادہ پیسہ آ گیا تو کئی معاشرتی خرابیاں میرے گھر میں آ جائیں گی۔ میرے بچے تباہ ہو جائیں گے۔ اللہ کا کرم ہے کہ رب نے میری کوئی بات نہیں ٹالی۔

                مجھے ہر روز خواب میں مختلف مقامات کی سیریں کرائی جاتیں۔ ایک خاص بات یہ تھی کہ ہر خواب میں، میں اپنے آپ کو بالکل معصوم دیکھتی۔ اکثر ندائے غیبی بھی مجھے خواب میں یہ کہتی کہ تم معصوم ہو۔ میں ہر خواب آنکھ کھلتے ہی حبیب کو سنا دیتی تھی۔ مجھے اس بات کی حیرانی ہوتی کہ میرے چار بچے ہو چکے ہیں۔ اب میری عمر بھی تقریباً چھبیس سال کی تھی۔ میں معصوم کیسے ہوئی؟ معصوم تو بچے ہوتے ہیں۔ میں حبیب سے بھی یہی پوچھتی کہ روز روز مجھ سے یہ کہا جاتا ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ ان کی بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ پھر میں سوچتی کہ شاید مجھے یہ بتایا جا رہا ہے کہ ابھی تمہارا ذہن غیب کے علوم سیکھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ یہ معنی پہنا کے اور بھی زیادہ میری لگن بڑھ گئی۔ میں تو ہر وقت یہی دعا کرنے لگی کہ میں اتنی بڑی تو ہو گئی ہوں۔ میرے چار بچے ہو گئے ہیں۔ میں گھر کا ہر کام ٹھیک ٹھاک کرتی ہوں۔ بال بچوں کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ میں اب بچی کہاں ہوں۔ مجھے قرآن کے اسرار و رموز جاننے کا بڑا ہی شوق ہے۔ میں ضرور جلدی سے سیکھ جائوں گی، انشاء اللہ۔ آپ سکھا تو دیں ۔ پھر میں سب کو بتائوں گی آخر یہ علوم انسان کو سیکھنے ہی چاہئیں۔ آپ نے انہیں بھیجنے کا اتنا اہتمام کیا ہے تو لوگوں پر بھی تو یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انہیں سیکھیں۔ سچ سچ بتائوں مجھے یہ ڈر تھا کہ کہیں مجھے معصوم سمجھ کے اور احساس دلا کے مجھے ان علوم سے نہ محروم رکھا جائے۔ میری تو زندگی کا مقصد ہی یہ علوم سیکھنا تھا۔ میں ہر دم اپنے ذہن میں غیب کے متعلق سوچتی رہتی اور سب سے زیادہ جنون کی حد تک جو مجھ کو شوق تھا وہ اللہ کی قربت کا تھا۔ یہ خواب کا سلسلہ تھا جو مہینوں چلتا رہا۔

                کچھ عرصے بعد پہلے مجھے محسوس ہوا پھر یقین ہو گیا کہ مجھے روحانی علوم کے لئے چن لیا گیا ہے۔ میں اللہ سے دعا مانگتی کہ میرے گھر کا سکون اسی طرح برقرار رکھنا اور مجھے نیک کام کی توفیق دینا۔ ادھر میں ہر روز کے خواب اور کیفیات حبیب کو سناتی رہتی۔ مجھے روح کی زندگی پر بہت رشک آتا وہ پرندے کی طرح جہاں چاہتی اڑ کر چلی جاتی۔ جس سے چاہتی اس سے مل لیتی اور میں اس مٹی کی دیواروں میں کیسی بے بس ہوں۔ ہزار چاہوں تب بھی انہیں توڑ نہیں سکتی۔ میرا احساس عجیب دوراہے پر کھڑا تھا۔ اس کا ایک پائوں خوشیوں سے لہلہاتی پھلواری میں تھا اور ایک پائوں حسرتوں کے دلدل میں تھا۔ دونوں احساس اپنی انتہا پر تھے۔ روح کی خوشیاں اس کے قہقہے، اس کے عیش و طرب سامنے تھے اور روح کے سراپا میں سما جانے کی حسرتیں بھی دل میں پوری شد و مد کے ساتھ تھیں۔ میں چپ چاپ گھر کے کام کاج کرتی رہی۔ اپنے آپ کو تسلی دے کر بہلاتی رہی۔ کبھی تو یہ زندگی گزرے گی ہی۔ تین دن تک مسلسل یہی حالت رہی۔ حبیب کو میں نے بتایا کہ آج کل یہ ہو رہا ہے۔ وہ بیچارے اندر اندر کافی فکر مند ہوئے کہ شاید تنہا بچوں کے ساتھ پردیس میں رہتے ہوئے اس کا دماغ کچھ چل گیا ہے۔ بات بھی درست تھی۔ ایسی بڑی بڑی اور عجیب عجیب باتیں ان دنوں کس نے سنی تھیں۔ مجھ سے تو انہوں ن ے کچھ نہ کہا مگر میری بڑی بہن کو فکر مندانہ خط لکھا کہ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور میں رات کو کام پر ہوتا ہوں۔ شمامہ کی حالت عجیب ہے سب کام تو ٹھیک ہے مگر باتیں عجیب عجیب کرتی ہے۔ اسے یہاں آئے ہوئے تقریباً پانچ سال ہو رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اسے واپس بھیج دوں۔ کچھ عرصے بعد میں بھی آ جائوں گا۔ مجھے گمان بھی نہ تھا کہ حبیب ایسا سوچیں گے اور پھر خط میں لکھ دیں گے۔ تین دن کی ان کیفیات کے بعد میں نارمل ہو گئی۔ اصل میں بہت جلدی جلدی ایسے الہامی پیریڈ مجھ پر آنے لگے تھے جو کئی کئی دن تک رہتے۔ ان کی کیفیات میں حبیب کو بتا دیتی تھی۔ جس کی وجہ سے وہ گھبرا گئے۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ میں یہ سمجھتی تھی کہ وہ مجھ پر یقین رکھتے ہیں مگر دراصل ایسی باتیں کبھی سنی نہ ہوں تو آدمی پریشان ہو ہی جاتا ہے۔ خط آیا کہ شمامہ کو بھجوا دو۔ اس وقت مجھے پتہ چلا کہ حبیب نے اس طرح خط لکھ دیا ہے۔ میری بہن تو میری روحانی حالت جانتی تھی مگر بہنوئی کے لئے یہ باتیں نئی تھیں۔ جس کی وجہ سے میں ذرا پریشان ہوئی۔ میں نے سوچا چار بچوں کے ساتھ میں اکیلے کیسے جائوں گی۔ پھر وہاں کہاں رہوں گی۔ ابھی یہ سب کچھ سوچ ہی رہی تھی کہ مجھے الہامی کیفیات میں حکم دیا گیا کہ تم پاکستان چلی جائو۔ میں تقدیر کے اس فیصلے پر دم بخود رہ گئی۔


 


Khushboo

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔

دعا گو:

                                        خواجہ شمس الدین عظیمی