Topics

محافظ


                چار پانچ ماہ بعد حبیب نے مجھے اتنے پیسے بھجوا دیئے کہ مکان کے دو کمرے بن سکیں۔میں نے بہنوئی کی مدد سے مکان کی تعمیر شروع کر دی۔ مجھے شروع ہی سے ہر کام خود کرنے کا شوق رہا۔ ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ دوسروں کا احسان کم سے کم اٹھایا جائے اور نہ ہی میں نے کسی سے توقعات قائم کیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی تھوڑا سا بھی میرے لئے کرتا تو اپنے اوپر اس کے احسانوں کا بوجھ محسوس ہوتا اور میں جلد سے جلد اتارنے کی کوشش میں لگ جاتی اور اب میں سمجھتی ہوں کہ یہ عادت بہت اچھی ہے۔ اس طرح ایک تو یہ فائدہ ہے کہ آدمی عملی زندگی گزارنے کا عادی ہو جاتا ہے اور زندگی کے بہت سے شعبوں میں اسے عملی تجربہ حاصل ہو جاتا ہے۔ جس سے ذہنی صلاحیتیں بڑھ جاتی ہیں اور عقل میں وسعت آ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے سے توقعات نہ ہونے کی وجہ سے کبھی مدد نہ ملنے پر قطعی کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ جس سے آپس کے تعلقات بھی دوستانہ رہتے ہیں۔

                بچپن ہی سے ہمارے ماں باپ نے ہماری اس طرح تربیت کی تھی کہ ہر کام خود کرنا چاہئے اور زندگی کے کٹھن سے کٹھن لمحات میں بھی ہمت و استقلال سے کام لینا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سب بہن بھائیوں نے مصائب و آلام کو بھی زندگی کا ایک جز سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی پریشانیوں کا تذکرہ کبھی آپس میں نہ کیا۔ نہ کبھی کسی بہن بھائی نے ماں باپ سے اپنے دکھوں کی کوئی بات کی۔ اصل میں ہمارے نزدیک تو زندگی کا نام ہی غم اور خوشی دونوں کا ہے۔ اسی وجہ سے کبھی اپنے دکھوں کا بوجھ دوسرے پر لادنے کی کوشش نہ کی۔ خصوصاً مجھے تو ہر وقت یہی احساس رہتا کہ سب لوگ مجھ سے اس قدر محبت رکھتے ہیں۔ میری ہر پریشانی سے وہ بھی پریشان ہوں گے یہی احساس ذاتی پریشانیوں کو کسی پر بھی ظاہر نہ ہونے دیتا مگر ہمیں بھی معلوم تھا کہ صبر و ضبط ہی آدمی کی قوت و سکت کو بڑھا سکتا ہے اور آدمی کے اندر جتنی زیادہ سکت ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ سے اتنا ہی زیادہ قریب ہوتا ہے۔ میری ماں اکثر کہا کرتی تھیں کہ بیٹے اللہ کی محبت کو برداشت کرنے کے لئے بھی بندے میں بے پناہ قوت ہونی چاہئے اور یہ قوت زندگی کی مصیبتوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ سہنے سے پیدا ہوتی ہے۔

                مجھے اپنے مکان کی تعمیر کی بے حد خوشی تھی کیونکہ مجھے یقین تھا کہ جیسے ہی دو تین کمرے رہنے کے لئے بن جائیں گے تو حبیب واپس آ جائیں گے۔ میں نے بڑی خوشی خوشی کام شروع کیا۔ مزدوروں کے ساتھ جا کر سیمنٹ لاتی اور بھی جو کام ہوتا حتی الوسع کرنے کی کوشش کرتی۔ برابر میں بہن بہنوئی کی وجہ سے بہت آرام تھا۔ وہ سب مجھ سے بچوں سے حد درجے محبت کرتے تھے۔ دو کمرے، برآمدہ، باورچی خانہ، غسل خانہ وغیرہ بن کر تیار ہو گئے۔ زمین بہت بڑی تھی ارادہ یہی تھا کہ حبیب یہاں آ کر باقی مکان آرام سے بنوا لیں گے۔ کمروں میں دروازے لگنے باقی تھے۔ مجھے مزید پیسوں کا انتظار تھا۔ حبیب نے لکھا کہ ابھی کچھ دن لگیں گے۔ مجھے بہن کے یہاں رہتے ہوئے تقریباً نو ماہ ہو چکے تھے۔ ماں باپ کا گھر دور ہونے کی وجہ سے ان کے یہاں نہیں رہ سکتی تھی کیونکہ میری بیٹی اسکول جاتی تھی جو قریب ہی تھا۔ پلاٹ پر چار دیواری اور لوہے کے گیٹ تو لگے ہی ہوئے تھے۔ میں نے سوچا اللہ سے بڑھ کر اور کون اپنے بندوں کی حفاظت کر سکتا ہے۔ دروازے کھڑکیوں پر پردے لٹکا کر اپنے گھر میں منتقل ہو گئی۔ بہن بہنوئی نے بڑی مشکل سے اس کی اجازت دی کہ سخت غیر محفوظ ہے۔ تم چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ اکیلی کیسے اس طرح رہو گی۔ کوئی بھی بائونڈری وال پھلانگ کر اندر آ سکتا ہے۔ یہ ہے وہ ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ میں ان کے مزید احسانات اٹھانا نہیں چاہتی تھی۔ میں نے انہیں یہی کہا کہ مجھے اللہ پر بھروسہ ہے۔ پھر آپ لوگ بھی تو برابر میں ہیں۔ بہرحال بڑی مشکل سے میں نے انہیں اس بات کا یقین دلایا کہ اللہ کی نظر آپ سب سے زیادہ مجھے دیکھ رہی ہے اور وہ یقیناً میری اور بچوں کی حفاظت کرے گا سب چپ ہو گئے۔ وہ بھی جانتے تھے کہ جب میں کسی کام کا ارادہ کر لیتی ہوں تو کوئی بھی مجھے نہیں روک سکتا۔ میں نے تھوڑا سا ضروری سامان لیا اور منتقل ہو گئی۔ اپنے گھر آ کر مجھے بڑا ہی سکون اور خوشی ہوئی۔ دونوں کمروں کے آگے لمبا سا برآمدہ تھا۔ میں نے پلاٹ کی پچھلی جانب کے دو کمرے بنوا لئے تھے۔ برآمدے کے تھوڑا سا نیچے صحن تھا۔ مجھے جھولے کا شوق بچپن ہی سے رہا ہے اس لئے میں نے برآمدے میں چھت میں جھولے کے لئے دو لوہے کی کڑیاں چھت بنتے وقت ہی لگوائی تھیں اور اس میں جھولا ڈال دیا تھا۔ بڑا ہی مزہ آتا۔ صبح فجر کی نماز برآمدے میں ہی پڑھ کر میں جھولا جھولنے لگ جاتی اور خوب گانے گاتی۔ اس وقت حبیب کی بہت یاد آتی۔ ہر گانا فراقیہ راگ بن جاتا۔ پیسے ختم ہو گئے تھے اس لئے تعمیر بھی روک دی تھی۔ میں نے ایک بڑی سی دری رکھی تھی نماز کے لئے۔ میں نماز پڑھتی اور چھوٹے بچے کو ایک جانب دری پر بٹھا دیتی۔ وہ وہیں سو جاتا۔ مجھے رات کو کبھی ڈر نہیں لگا اب چاندنی راتیں ختم ہو گئیں اور اندھیری راتیں ہونے لگیں۔ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے سارے پلاٹ پر اندھیرا ہوتا۔ میں بس ایک لالٹین کمرے میں روشن رکھتی تھی۔ ان دنوں آبادی بھی نہ تھی گھر بھی دور دور تھے۔ ایک رات عشاء کی نماز پڑھ کر لیٹی بچے ابھی جاگ رہے تھے کمرے میں لالٹین کی روشنی میں کھیل رہے تھے۔ چاند نہ ہونے کی وجہ سے باہر گھپ اندھیرا تھا۔ میں جھولے پر جا بیٹھی اور خوب زور زور سے پینگیں بڑھانے لگی اور حسب عادت گانے بھی لگی۔ تھوڑی دیر بعد میرے پائوں پر ایک کنکری سی لگی۔ میں نے چونک کر گانا بند کر دیا اور جھولا ذرا سا روک کر ایک لمحے کو اندھیرے میں گھور گھور کر دیکھا۔ کوئی نہ تھا۔ میں نے وہم سمجھ کر دوبارہ جھولے کی پینگ بڑھا دی اور اسی ترنگ میں گانے لگی۔ اب کے سے پہلے کی نسبت زیادہ زور سے کنکری پیٹھ پر لگی۔ میں چونک گئی۔ جلدی سے جھولا روکا۔ خیال آیا کہ کوئی اکیلی عورت جان کر تنگ کر رہا ہے۔ میں نے فوراً زور سے آواز لگائی۔ مُنّے کے ابا ذرا بندوق لانا۔ میں بار بار زور زور سے یہی جملہ دہرائے جاتی۔ اندر سے میں سخت خوف زدہ تھی۔ ہر طرف گھپ اندھیرا تھا۔ کچھ نظر تو آتا نہ تھا۔ بس یہی ذہن میں تھا کہ جو بھی ہے اسے یہ پتہ چل جائے کہ میں اکیلی گھر میں نہیں ہوں۔ بندوق لئے منے کے ابا میں گھر میں موجود ہیں۔ باہر میں نے قطعی خوف کا مظاہرہ نہیں کیا کیونکہ میں جان گئی تھی کہ جو بھی ہے وہ مجھے دیکھ رہا ہے اگر میں ذرا بھی ڈری تو میرا اکیلے رہنا مشکل ہو جائے گا۔ میں زور دار اکڑکتی ہوئی آواز میں تھوڑی دیر بعد کہتی رہی۔ منے کے ابا ذرا دیکھنا تو کس نے کنکری ماری ہے۔ ذرا بندوق تو لانا۔ ساتھ ساتھ کمرے میں سب بچوں کو اٹھنے کا اشارہ کیا۔ چھوٹے کو گود میں لیا دوسرے کے ہاتھ پکڑے اور آہستہ آہستہ انہیں خاموش رہنے کو کہا کہ چلو برابر میں آنٹی کے یہاں چلتے ہیں۔ پھر میں سب کو لے کر بہن کے یہاں آ گئی۔ دن رات میں دس دفعہ آنا جانا تو لگا ہی رہتا تھا۔ میں نے بچوں کو اتارا اور چپ چاپ بیٹھ گئی۔ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ میں نے سوچا اگر میں نے انہیں بتایا تو پھر میں اکیلی گھر میں نہیں رہ سکوں گی۔ چند منٹ بعد بہنوئی اپنے کمرے سے باہر نکلے اور نکلتے ہی بالکل میرے لہجے میں اسی طرح میرے الفاظ دہرائے۔ منے کے ابا ذرا اپنی بندوق تو لانا اور پھر جو ہنسی کے فوارے چھوٹے ہیں، بس کیا بتائوں میں نے کہا، اچھا تو یہ آپ تھے۔ کہنے لگے میں تو سمجھ رہا تھا کہ تم چیختی چلاتی فوراً بے ہوش ہو جائو گی تم تو بہت بہادر نکلیں۔ میں نے کہا تو آپ کیا سمجھ رہے تھے کہ فوراً گھر چھوڑ دوں گی۔ ویسے بعد میں بہنوئی نے میرا خوب ریکارڈ لگایا۔ مدتوں تک جو آتا اس کے سامنے اس قصے کو دہراتے۔ سارا خاندان مجھے منے کے ابا اور بندوق کے نام سے چھیڑتا۔ زندگی بڑے مزے کی تھی مگر دل میں جو پھانس گزری تھی اس کی چبھن تنہائی میں خون کے آنسو رلاتی۔ میرا کوئی لمحہ حبیب کی یاد سے خالی نہیں تھا۔ کبھی کبھی تو ہر شئے میں اس کی صورت دکھائی دیتی۔ میں گھبرا گھبرا کر اور زیادہ عبادت کی طرف اپنے آپ کو مشغول رکھنے کی کوشش کرتی۔

                ایک ڈیڑھ ماہ تک دروازے کھڑکیاں اور بجلی بھی لگ گئی۔ مجھے امید تھی کہ حبیب جلد ہی لوٹ آئیں گے۔ بچے بھی اپنے پاپا کو بہت یاد کرتے تھے۔ مجھے آئے تقریباً ایک سال ہو گیا تھا۔ ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے گھر کو دیمک لگ گئی ہے اس کی ساری دیواریں کھوکھلی ہو کر گر گئی ہیں۔ صرف ایک چھت باقی رہ گئی ہے۔ میں سخت پریشانی میں گھر کو دیکھ رہی ہوں اور اللہ سے دعا کر رہی ہوں۔ صبح اٹھی تو پہلے تو خواب دیکھ کر تھوڑی سی فکر لگی کہ کیا ہونے والا ہے۔ پھر خود ہی دل اندر سے کہنے لگا میں حبیب کو جانتی ہوں۔ اسے مجھ سے میرے بچوں سے انتہائی محبت ہے۔ یقیناً یہ شیطانی وسوسہ ہے۔ یہ کہہ کر فوراً ہی میرے ذہن سے خواب مٹ گیا۔ کچھ دنوں بعد خواب دیکھتی ہوں کہ میرا گھر ہے۔ یہ بہت بڑا کمرہ ہے۔ دروازہ بند ہے۔ میرے چاروں بچے اور میں اندر ہیں۔ دروازے کے باہر کچھ لوگ ہیں جن کے ہاتھ میں برتنوں میں آگ کے دہکتے انگارے ہیں۔ وہ میرے بڑے لڑکے کو آواز دیتے ہیں کہ دروازہ کھولو اور یہ آگ لے کر گھر کے اندر ڈال دو۔ بڑا لڑکا دروازہ نہیں کھولتا۔ پھر دوسرے سے کہتے ہیں وہ بھی پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ میں کمرے کے وسط میں بیٹھی ہوں اور فکر مندانہ نظروں سے یہ تماشہ دیکھ رہی ہوں۔ آوازیں سن کر چھوٹا لڑکا جو بہت ہی چھوٹا ہے گھٹنوں چل کر دروازے کے قریب جاتا ہے جیسے بچے آواز سن کر لپکتے ہیں تو وہ لوگ دروازے کی دراڑ میں سے جھانکتے ہوئے اسے بلاتے ہیں۔ میں اٹھ کر بچے کو گود میں اٹھا لیتی ہوں اور بچے کو پیار کرتی ہوں کہ بیٹا تم کو نہیں معلوم کہ یہ کیا چاہتے ہیں۔ پھر میں دروازے کے قریب ہی کھڑے ہو کر کمرے کے اندر کی جانب دیکھتی ہوں جہاں سب بچے بیٹھے ہیں۔ میں زور سے کہتی ہوں۔ اے میرے رب یہ ظالم لوگ میرے گھر کو جلانا چاہتے ہیں تیرے سوا اور کون ہمیں بچا سکتا ہے۔ اس لمحے میں دیکھتی ہوں کہ فرش کی چھت تک نور کا ایک تار بندھا ہے جو دروازے سے لے کر کمرے کے بیچوں بیچ تک ہے۔ کمرے کے وسط والا سرا چھت سے ملحق ہے اور دروازے والا سرا میرے پائوں کے قریب ہے۔ میں نیچے سے اوپر نگاہ ڈالتی ہوں۔ چھت پر تار سے ایک مہر لڑکی ہے یہ مہر سرخ چمڑے کی اس صورت کی ہے ‘‘ن’’ اس مہر پر سنہری نور سے اوپر سے نیچے کی جانب اللہ محمد نقش ہے۔ میں بہت غور سے اس مہر کو دیکھتی ہوں۔ مجھے اس سے بڑا ہی سکون ملتا ہے اور اس وقت ذہن سے یہ بھی مٹ جاتا ہے کہ لوگ باہر کھڑے ہیں۔ تھوڑی دیر دیکھنے کے بعد آواز سنائی دیتی ہے۔ شمامہ تمہارے گھر پر مہر لگی ہوئی ہے تم ذرا بھی مت ڈرو۔ کوئی تمہارا گھر تباہ نہیں کر سکتا۔ اس ندائے غیبی نے جیسے میرے اندر ایک قوت بھر دی۔ میں نے اس وقت گھر کا دروازہ کھول دیا۔ بے بی میری گود میں تھی۔ باقی تینوں بچے میری ٹانگوں کے ساتھ چمٹے تھے۔ میں نے باہر کھڑے لوگوں کو للکار کر کہا لو آئو اور پھینکو میرے گھر میں آگ۔ آگے بڑھو۔ تم معصوم بچوں کو کیا پھسلاتے ہو لو میں دروازہ کھولتی ہوں آگے بڑھو، دیکھتی ہوں تم کیا کر سکتے ہو۔ تم کیا تمہاری ساری قوم بھی مل کر میرا گھر نہیں جلا سکتی۔ ان سب نے میرے جلال کو دیکھا۔ سارے جیسے دم بخود رہ گئے۔ پھر ایک دم بھاگ کھڑے ہوئے۔

                خواب سے جاگی تو حبیب کا خیال آیا کہ جانے کن آزمائشوں میں پڑا ہو گا۔ میں ہر وقت اس کے لئے دعا کرتی کہ اللہ پاک اسے بری صحبت سے بچا کر رکھنا۔ میں جانتی تھی کہ اسے اپنے بال بچوں سے حد درجے محبت ہے مگر کبھی کبھی یہ محرومی بھی آدمی کو کمزور بنا دیتی ہے۔ ڈیڑھ سال ہو گیا میں اسے آنے کا لکھتی تو وہ لکھتا کہ وہاں آکر کیا کروں گا۔ تم آ جائو۔ آخر میں نے جانے کا ارادہ کیا تو مجھے روک دیا کہ ابھی نہ آئو۔ میرے اندر اس کا عشق دن بدن بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ میں پریشان ہو جاتی کہ مجھے توشروع ہی سے اللہ سے ملنے کا شوق ہے پھر درمیان میں ایک آدمی کا اس قدر عشق کیوں ڈالا گیا ہے۔ مجھے کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ایسا کیوں ہے۔

                میں سوچتی مجھے اللہ کے سوا کسی سے ایسے محبت نہیں کرنی چاہئے۔ شاید یہ بات اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے۔ اسی لئے دور کر دیا ہے۔ پھر میں اندر ہی اندر اللہ میاں کو کہتی کہ میں آپ سے محبت کرتی ہوں مگر شوہر سے محبت کرنا کوئی بری بات تو نہیں ہے۔ میں شوہر سے جس روحانی بندھن کی خواہش رکھتی ہوں اس میں اس کی سکت نہیں ہے۔ جب بھی مجھے حبیب کے متعلق کوئی ایسا ویسا خیال آتا مجھے محسوس ہوتا کہ مجھے اس کی محبت سے ہٹایا جا رہا ہے۔ میں اندر اندر خوب شکوہ کرتی کہ شیطان مجھے ورغلا رہا ہے۔ یہ حالت چند لمحوں بعد ختم ہو جاتی۔ مجھے حبیب سے اس قدر عشق تھا کہ ہر وقت اس عشق کی کیفیت مجھ پر چھائی رہتی۔ ایک عجیب جانگسل کیفیت جیسے میں شمع کی مانند آہستہ آہستہ جلتی جا رہی ہوں۔ جیسے میرے اندر سے کوئی دھیرے دھیرے جان نکال رہا ہے۔ جیسے میری رگوں سے خون نچوڑا جا رہا ہے۔ میرا جی چاہتا میں ساری دنیا سے پردہ کر لوں کوئی مجھے نہ دیکھے۔ میرا دل کہتا جو عشق مجھے اللہ سے کرنا چاہئے وہ ایک بندے سے کر رہی ہوں۔ پھر مجھے وہ لمحہ یاد آتا جب اس کا عشق میرے سینے میں انڈیلا گیا تھا۔

                کچھ عرصہ سے میرے رشتہ داروں کو بھی خاصی تشویش ہونے لگی تھی کہ حبیب واپس کیوں نہیں آتا۔ اس کے خطوں میں وہ پہلی سی بات نہ تھی۔ ہر بار جب خط آتا میرے اندر حبیب کے ساتھ بندھا ہوا ایک تار ٹوٹ جاتا۔ فطرت نے میرے دل کے سارے تار حبیب کے ساتھ باندھ رکھے تھے۔ میں اسے اپنی زندگی سمجھتی تھی۔ میں ہر وقت ڈرتی رہتی تھی کہ اس سے رشتہ ٹوٹنے پرمیں مر جائوں گی۔ میں اس رشتہ کو اپنی خوشیوں کی بنیاد سمجھتی تھی۔ میری اب بھی راحتوں کا انحصار اس بندھن پر تھا۔ مجھے ہر وقت ایسا محسوس ہوتا کہ عشق میری روح ہے اور روح میری زندگی ہے۔ اس زندگی کے دو رخ ہیں۔ اس ظاہر باطن کا مجموعہ میری ذات ہے۔ کسی ایک رخ سے تار ٹوٹنے پر میری ذات کی تکمیل نہ ہو سکے گی۔ عشق کا مرکز ذات باری تعالیٰ ہے۔ عاشق کے دل اس محور کے گرد طواف کرتے ہیں مگر میرے ذہن میں یہ بات بھی آتی کہ میرے عشق کو ہدایت اس وقت نصیب ہوتی جب حبیب کا محور بھی ذات خداوندی ہوتا لیکن وہ ان روحانی گلی کوچوں سے واقف نہ تھا جس پر میں سرگرداں تھی۔ میرے پاس دعا کے سوا اور کوئی راستہ نہ تھا لیکن جوں جوں دن گزرتے جا رہے تھے آہستہ آہستہ میرے ذہن میں یہ بات آتی جا رہی تھی کہ روح کی ابدی زندگی کا انحصار صرف اور صرف ذات خداوندی پر ہے۔

                بالآخر دو سال دو ماہ کے بعد حبیب نے مجھے اس شرط پر واپس انگلینڈ بلا لیا کہ ایک بیٹے اور بیٹی کو پاکستان میں چھوڑ دوں اور دو بچوں کو ساتھ لے آئوں۔ باقی دو کو بعد میں بلا لیں گے۔ حبیب کے اس فیصلے پر مجھے یوں محسوس ہوا کہ قدرت میری محبت کو مزید آزمانا چاہتی ہے۔ ساڑھے چار سال کے بیٹے اور نو سالہ بیٹی کو چھوڑتے وقت مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی میرے دل سے بندھے ہوئے تاروں کو کاٹ رہا ہے۔ اس اذیت ناک لمحے میں، میں بار بار اللہ سے دعا کرتی کہ دل کے ٹوٹے تاروں کو روح کے ساتھ جوڑے رکھنا۔ تو ہی جوڑنے والا ہے۔

                سفر کے دوران میں یہی سوچتی رہی کہ بندے کو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنی چاہئے۔ اللہ کی محبت میں دنیا کو شریک کر لینا نفس کے لئے سخت اذیت ناک ہے۔ گھر جا کر مجھے پتہ چلا کہ اتنے عرصے کی دوری نے ہمارے ذہنوں کو اور زیادہ ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے۔ میرے دل میں ایک خوف سا پیدا ہو گیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آخرت میں حبیب کے ساتھ سے محروم ہو جائوں۔ اس اندیشے نے میرے دل پر گہرے گھائو ڈال دیئے۔ میں اسے جتنا نکالنے کی کوشش کرتی وہ اتنا ہی بڑھتا چلا جاتا۔ اب میں اسے اپنی کیفیات بتاتے ہوئے بھی ڈرتی تھی کیونکہ مجھے اس بات کا احساس تھا کہ عام طور سے لوگ اگلی زندگی کے لئے ایسا نہیں سوچتے جس طرح میں سوچتی ہوں۔ میری ماں نے مجھے مرنے کے بعد کی زندگی کے متعلق یہی بتایا تھا کہ مرنے کے بعد کی زندگی دائمی زندگی اور وہاں بھی لوگ یہاں کی طرح رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ میں وہاں کی زندگی میں حبیب کا ساتھ چاہتی تھی مگر مشکل تو یہ تھی کہ یہ خواہش میری روح کا تقاضہ بن گئی تھی۔ وہ دور میری روحانی تربیت کا دور تھا۔ روح کا تعلق تو اللہ سے ہے اور اللہ کے سوا غیرکا تقاضہ نفس کی کمزوری ہے۔

                روحانی تربیتی سلسلہ میں بھی مجھے اس کمزوری کا مشاہدہ کرایا گیا۔ میری روح مطمئن تھی وہ اللہ کی محبت میں سچی تھی۔ جب ایسی حالت مجھ پر طاری ہوتی کہ دل پر تیز چھری سے زخم لگائے جاتے تو مجھے یوں محسوس ہوتا کہ حبیب کی محبت میرے قلب سے کھرچ کھرچ کے نکالی جا رہی ہے۔ روح اس صورت حال سے مطمئن رہتی مگر نفس سے تکلیف برداشت نہ ہوتی اور اللہ تعالیٰ سے شکوہ کی بات ذہن میں آنے لگتی۔ میں رو رو کے اللہ تعالیٰ سے کہتی کہ میری روح تجھ سے ہی عشق کرتی ہے یہ سب کچھ تو نفس کی ضرورت ہے۔

                حبیب کے ساتھ روحانی تعلق قطعی طور پر ٹوٹ چکا تھا۔ اب وہ بس میرا شوہر تھا۔ میری زندگی نہ تھا۔ ایک دن اسی حالت میں، میں نے دل کی جانب دیکھا اس پر قدر گھائو تھے کہ اب کہ لکیر کے برابر بھی جگہ نہ تھی۔ دل نے عاجز ہو کر کہا اب کہاں چھری چلائو گے۔ زخم تو پہلے ہی بہت ہیں۔ گھائو پر گھائو لگانا کون سی جوان مردی ہے اور درد تو درد ہی ہے خواہ وہ ایک پھانس چھبنے کا ہو یا سارے بدن کا ہو۔ تب میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اب مجھ میں مزید سکت نہیں ہے۔ اب میں نئے سرے سے زندگی کا آغاز چاہتی ہوں۔ اس سلسلے میں میری راہنمائی فرمایئے۔ کیا اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کیلئے مجھے حبیب کو چھوڑنا ہو گا۔ اگر آپ یہ ضروری سمجھتے ہیں تو میں اس کیلئے تیار ہوں۔ حواس کی گہرائی کے اس لمحے میں مجھے ندائے غیبی دل کے اندر سنائی دی۔ نہیں ہرگز نہیں۔ تمہیں حبیب سے جدا نہیں ہونا ہے۔ میں نے کہا۔ اگر میری زندگی حبیب کے ساتھ ہی گزرنی ہے تو پھر میں اس طرح زندگی نہیں گزار سکتی۔ صدا آئی تم کیا چاہتی ہو؟ میں نے کہا سب سے پہلے تو یہ کہ ان اذیت ناک لمحات کے اور میرے درمیان ایک پردہ ڈال دیا جائے اور مجھے اس اذیت سے ہمیشہ کیلئے رہائی دلائی جائے۔ دوم یہ کہ محبت میری زندگی ہے میرے دل میں حبیب کی محبت پہلے کی طرح ڈال دی جائے اور میرے لئے روحانی راستوں پر چلنے میں آسانی عطا کی جائے۔ ندا آئی تمہاری گزارشات منظور کر لی گئی ہیں اب ایسا ہی ہو گا۔ اسی وقت ان لمحات کے اور میری نگاہ کے درمیان ایک پردہ ڈال دیا گیا۔ اسی وقت میں اپنے پورے شعور میں آ گئی۔ مجھے یوں لگا جیسے میں بالکل پہلے کی طرح خوش باش ہوں۔ میرے اندر پہلے کی طرح زندگی کی لہریں دوڑنے لگیں۔ سب سے پہلے یہ خیال آیا کہ اللہ میاں کتنے اچھے کتنے مہربان ہیں۔ اپنے بندوں سے کتنی محبت کرتے ہیں ورنہ پہلے تو یہ حال تھا کہ ہزار کوشش کے باوجود بھی ذہن سے شکایت نہیں جاتی تھی۔ نفس کو اللہ تعالیٰ کی رحیمی و کریمی سے شکوہ ہونے لگا تھا کہ باوجود قادر مطلق ہونے کے وہ لوگوں کے تقاضوں کو کیوں پورا نہیں کرتے۔ اللہ کے کس چیز کی کمی ہے۔ سب کچھ موجود ہونے کے باوجود حاجت مند کو خالی ہاتھ لوٹانا کون سی سخاوت ہے۔ جب بھی نفس میں ایسی الٹی سیدھی باتیں آتیں تب ہی میں اللہ میاں سے زمین پر ماتھا ٹیک کر دعا کرتی تھی کہ نفس اپنی کمزور فطرت کی وجہ سے مجبور ہے اس طرف سے نظر ہٹا لے۔

                اسی دن سے میں بالکل ہی بدل گئی۔ وہی پہلے کی سی خوشیاں اور شوخیاں واپس لوٹ آئیں۔ حبیب کے کاموں میں اس کی اور بچوں کی خدمت میں میرا خوب دل لگنے لگا۔ پھر پہلے کی طرح میں قرآن ترجمہ کے ساتھ پڑھتی اور حبیب کو بتاتی رہتی۔ حبیب کو بھی قرآنی علوم میں آہستہ آہستہ دلچسپی ہونے لگی۔ اس کے ساتھ ہی مجھے اس بات کا احساس ہونے لگا کہ انسان کس قدر خود غرض ہے اور کس قدر اپنی خواہشات میں بے بس و مجبور ہے۔ اسے تو اللہ کا غلام ہونا چاہئے نہ کہ اپنی خواہشات کا غلام۔ اب میرا ذہن اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کی جانب متوجہ ہونے لگا۔

                میں بار بار سوچتی اور غور کرتی کہ آخر اللہ تعالیٰ نے مجھے کس کام کے لئے پیدا کیا ہے۔ میرے ساتھ جو غیر معمولی واقعات بچپن سے رونما ہو رہے ہیں تو اس کی کیا حکمت ہے۔ میں نے اپنے دل میں اللہ میاں سے عہد کیا کہ اے میرے رب تو ہی ہر شئے کا مالک و مختار ہے۔ میرے دل و دماغ کو ہر طرف سے ہٹا کر بس اپنی جانب ہی لگا دے تا کہ تو راضی رہے۔

                اب میرا دل اور ذہن اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ سے زیادہ یکسو ہونے لگا۔ جس طرح چوبیس گھنٹے ہر وقت میرے حواس پر حبیب چھایا رہتا تھا اس میں کمی آ گئی۔ مجھے بچوں کا خیال بھی رہتا جنہیں میں بہن کے یہاں چھوڑ آئی تھی۔ وہ وہاں خوش تھے۔ مگر میں اس بات سے اکثر پریشان ہو جاتی کہ اتنے عرصے دور رہنے کی وجہ سے ان کے دل میں یہ بات نہ آ جائے کہ ان کے ماں باپ ان سے محبت نہیں کرتے۔ میں اپنی ہر پریشانی اللہ کے سامنے رکھ دیتی اور دعا کرتی کہ اپنی مرضی کے مطابق کوئی راستہ نکال دے۔

                میرا جی چاہتا زندگی کے دن پر لگا کر اڑ جائیں۔ میں اپنے رب کے پاس پہنچ جائوں اس کی آغوش میں سر چھپا کر دنیا سے ہمیشہ کے لئے پردہ کر لوں۔ نہ حبیب ہو نہ بچے ہوں۔ کوئی بھی نہ ہو۔ بس میں ہوں اور میرا رب۔ قرآن پڑھتی تو ان کیفیات میں گہرائی آ جاتی۔ دل چاہتا کہ میں ہر شئے سے اپنے دل کو ہٹا کر بس اللہ سے محبت کروں۔ پہلے میں سوچتی تھی کہ بندہ جو چاہتا ہے اسے مل جاتا ہے۔ مگر اب میں اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ سب کچھ اللہ کے ہی ہاتھ میں ہے بندہ قدرت کے ہاتھوں میں ایک کھلونا ہے۔ ہر بندے کے لئے اللہ نے زندگی کا ایک خاص پروگرام رکھا ہے اب میری سوچوں میں مزید گہرائی آ گئی۔ اب اور زیادہ مجھے یہ خیال رہنے لگا کہ اللہ پاک مجھ سے کیا چاہتا ہے۔

                میری زندگی کے معاملات پہلے کی طرح تھے۔ گھر کے کام کاج اور فرصت کے اوقات میں قرآن کا باترجمہ مطالعہ اور اس کی آیات میں غور و فکر کرنا۔ ایک دن تو میرے اوپر الہامی کیفیت طاری ہو گئی۔ اس کیفیت میں مجھے کہا گیا کہ ہم تمہیں روحانی علوم دینا چاہتے ہیں۔ تم انہیں لکھ کر اپنی بہن کو پاکستان میں بھیج دیا کرو۔ اس کیفیت میں مجھے غیب کے مشاہدات ہوتے۔ میں انہیں لکھ لیتی۔ مجھے کہا جاتا کہ اللہ تعالیٰ کے لئے اچھے اچھے الفاظ استعمال کرو۔ اب جب میں مشاہداتی واردات کو تحریر کرتی یوں لگتا جیسے یہ الفاظ ذہن میں اوپر سے اتر رہے ہیں۔ یہ سلسلہ مسلسل چلتا رہا تقریباً ڈیڑھ دو سال تک۔ میں جو کچھ تحریر کرتی حبیب کو ضرور پڑھاتی۔ حبیب کا رجحان بھی اب آہستہ آہستہ اس طرف ہونے لگا۔ اس عرصے میں ہم نے اپنی بیٹی کو واپس بلا لیا تھا۔ بیٹا ابھی وہیں تھا۔ وہ سب میرے لڑکے سے حد درجے محبت کرتے تھے۔ پھر چند ماہ بعد ہم نے اپنے بیٹے کو بھی بلا لیا۔

                حبیب کی کسی کے ساتھ ریسٹورنٹ میں پارٹنر شپ تھی۔ ایک دن کام سے آئے تو بتایا کہ پارٹنر نے مجھ سے کہا ہے کہ یا تو تم لے لو یا میں لے لوں۔ پارٹنر شپ ختم کرنا ہے۔ وہ کہہ آئے کہ ٹھیک ہے تم ہی لے لو مگر ساتھ ہی ساتھ فکر مند بھی تھے کہ آئندہ کیا کریں گے۔ ہم نے کہا فکر نہ کرو۔ مجھے سلائی آتی ہے تم کٹائی کرنا میں سلائی کروں گی۔ ہم لیڈیز ٹرائوزر بنائیں گے۔ ہم نے سلائی مشین خریدی اور بہت بڑا سا تھان خرید لیا۔ کپڑا خریدنے سے پہلے ہم نے عورتوں کو چلتے پھرتے دیکھا۔ اتفاق سے زیادہ تر عورتیں برائون ٹرائوزر پہنے نظر آئیں۔ ہم اس کام میں بالکل نئے تو تھے ہی ہم نے سوچا کہ بس انگریز عورتیں صرف برائون ٹرائوزر ہی پہنتی ہیں۔ یہ سوچ کر ہم نے صرف برائون رنگ کا ہی ڈھیر سارا کپڑا خرید لیا۔ چند دن میں اس کی خوب ساری ٹرائوزر سی لیں اور مارکیٹ میں جا کر اسٹال لگا لیا۔ مارکیٹ اوپن تھی سردی بے تحاشا تھی۔ حبیب اور میں دونوں اسٹال پر تھے اب جو عورت بھی اسٹال پر آئے وہ برائون کے علاوہ دوسرا رنگ مانگے۔ جب ہم کہیں کہ ہمارے پاس تو صرف برائون رنگ ہی ہے تو ہنس کر چلی جائیں۔ دو چار گاہکوں کے آنے پر ہی اندازہ ہو گیا کہ ہم سے کیسی حماقت ہوئی ہے۔ ہنسی بھی بڑی آئی کہ یہ کیا ہوا ایک رنگ کے علاوہ دوسرے رنگ کا تصور ہی نہ آیا۔ دوپہر تک سخت سردی میں کھڑے ہم واپس چلے آئے۔ اس مضحکہ خیز تجربے کو ہم یاد کر کے بہت دن ہنستے رہے مگر اس احمقانہ تجربہ نے ہمیں بازار کی صحیح عقل سمجھا دی۔ بعد میں ہم نے بڑی محنت سے بڑا صحیح صحیح کام کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہم سب کی محنتوں میں برکت بھی خوب ڈالی ماشاء اللہ۔

                 میرے اندر تو شروع ہی سے یہ ذہن میں تھا کہ اللہ پاک ہمیں ہماری اولاد کی صحیح تربیت و پرورش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس بات میں حبیب کی بھی یہی خواہش اور کوشش شروع ہی سے تھی کہ اولاد نیک اور فرمانبردار ہو اسے حلال کی کمائی اور محنت کی روزی کا بہت خیال تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بچوں کے معاملے میں کبھی اس کی نیت میں کوئی فتور نہ آیا۔ اس نے بچوں کو بھی شروع ہی سے محنت اور ایمانداری کی پریکٹس کرائی۔ سلائی کا کام چونکہ گھر کا تھا لہٰذا ہم سب ہی اسے مل جل کر کرتے تھے۔

                بچے اسکول سے آتے تو میں انہیں کھانا دیتی اور پھر وہ ہمارا ہاتھ بٹاتے۔ لڑکی بڑی تھی وہ استری کرتی لڑکے چھوٹے تھے وہ دھاگہ کاٹتے غرضیکہ ہم نے کبھی بچوں پر ترس نہیں کھایا کہ ابھی بچے ہیں ان سے کام نہ لیں بلکہ ہم یہ سوچتے کہ بچپن ہی سے ان کی ایسی ٹریننگ ہونی چاہئے کہ وہ زندگی میں اپنی ضرورت کے مطابق سب کام کر سکیں۔ کام کے دوران جب ہم سب اکٹھے ہوتے تو کبھی ہم انہیں اپنے دین و مذہب اور اپنے پیغمبروں اور اپنے اسلاف کی اچھی اچھی باتیں سناتے۔ کبھی کہانی سناتی کبھی سب مل کر گانا گاتے۔ زیادہ تر انگلش کی وہی Poemہوتی تھیں جو بچوں کو اسکول میں سکھائی جاتی۔ ہم ان سے کہتے گائو۔ جب وہ گاتے تو ہم بھی ان کے ساتھ آواز ملا دیتے۔

                حبیب کو بچوں کی پڑھائی کا بھی بے حد خیال تھا۔ تعلیم کا شوق تو مجھے بھی اپنے والدین سے ملا تھا۔ میری امی تو اس معاملہ میں ایسی سخت تھیں کہ کبھی اسکول سے ناغہ نہ کرنے دیتیں۔ جب تک کوئی بہت سیریس شکایت نہ ہو۔ ہمیں بھی اسکول جانے میں بڑا ہی مزہ آتا۔ اکثر بچوں کی ہر سال 100%حاضریاں ہوتیں اور انہیں اس پر میرٹ ملتے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں قرآن پڑھانے کے لئے مولوی صاحب کے پاس بھجواتے۔ غرضیکہ ہم سے جتنی بھی ہو سکتی تھی بچوں کی تربیت میں توجہ دیتے۔ اللہ کا کرم ہے کہ تعلیم کے دوران بچوں کی کبھی کوئی شکایت نہ آئی۔

                حبیب اور میں ہمیشہ Parents Eveningمیں ضرور جاتے اور بچوں کی ٹیچر سے ملتے اور ان کی رپورٹ دیکھتے۔ اس سلسلے میں ٹیچر بھی ہمارے ساتھ پورا تعاون کرتے اور اس بات پر خوش ہوتے کہ ہمیں ہماری اولاد کی صحیح تربیت کا پورا پورا خیال ہے۔ تعلیمی دور میں چاروں بچوں میں سے صرف ایک واقعہ ہماری نظر سے گزرا۔ ہوا یوں کہ میرا ایک بیٹا ان دنوں پرائمری اسکول میں تھا۔ اس کی عمر تقریباً دس گیارہ سال کی ہو گی۔ ایک دن اسکول سے ہیڈ مسٹریس کا فون آیا کہ مسز حبیب میں آپ سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ اگر آپ یہاں آ جائیں تو بہتر ہو گا۔ میں فوراً پہنچی۔ مسز حبیب آپ کو پتہ ہے کہ بچوں کو اسکول میں صرف دس پینس لانے کی اجازت ہے۔ میں نے کہا کہ میڈم ہم نے آج تک اپنے بچوں کو دس پینس سے زیادہ نہیں دیا۔ ہمیں اسکول کے اصولوں کا بہت خیال ہے۔ وہ فوراً بولی میرا بھی یہی خیال تھا کہ آپ اور مسٹر حبیب اسکول کے اصولوں کی سختی سے پابندی کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ میں نے فوراً آپ کو بلا لیا۔ بات یہ ہے کہ آج جب ہاف ٹائم ہوا جس میں بچے سامنے کی دکان سے جا کر سپ یا چاکلیٹ لاتے ہیں تو میں نے دیکھا کہ آپ کے بیٹے نے دس پینس کے بجائے پچاس پینس کی چاکلیٹ خریدیں۔ میں نے اس کے ہاتھ میں دیکھیں۔ وہ دوسرے لڑکوں کو دے رہا تھا۔ میں نے سوچا پہلے میں اس سے پوچھنے کی بجائے آپ سے معلوم کروں کہ کیا آپ نے اسے پچاس پینس نہیں دیتے تھے جو کہ مجھے یقین تھا کہ آپ نے نہیں دیئے ہونگے۔ کبھی کبھی بڑے لڑکے چھوٹے لڑکوں پر دبائو ڈال کر ایسی حرکتیں ان سے کرا لیتے ہیں۔ اب آپ گھر تشریف لے جائیں۔ میں اسے بلا کر خود پوچھ لوں گی اور جو بھی اسے تنگ کر رہا ہے اس کی خبر لوں گی۔ اس نے میرے جانے کے بعد لڑکے کو بلایا اور بعد میں مجھے فون پر بتا دیا کہ ایک بڑے لڑکے نے اسے ڈرایا دھمکایا تھا کہ کل پچاس پینس لے کر آنا تو اس نے اپنے پاپا کی جیب سے بغیر بتائے لے لئے تھے۔ کیونک ہبتا کر تو وہ نہیں لے سکتا تھا۔ اب ہیڈ مسٹریس نے اس پر سختی سے نوٹس لیا کہ کوئی بھی چھوٹے بچوں کو اس طرح ڈرائے دھمکائے نہیں جب لڑکا گھر آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے بغیر بتائے کیوں لئے تھے۔ ہم سے کیوں نہیں کہا تھا۔ وہ اپنے اس فعل پر سخت شرمندہ ہوا کہ وہ بار بار رو کر کہتا امی میرا یہ ہاتھ کاٹ دیں تا کہ میں آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کروں۔ میں نے اسے پیار کیا اور بہت تسلی دی کہ بیٹے غلطی انسان ہی سے ہوتی ہے مگر آئندہ اس کا خیال رکھنا اور جو بھی شکایت ہو فوراً مجھے یا اپنی ٹیچر کو بتانا تا کہ تم ہر پریشانی سے حفاظت میں رہو۔ پھر اللہ پاک کا حد درجے فضل و کرم ہمارے اوپر رہا کہ بچوں کی شادیاں ہونے تک کسی بچے کی کوئی شکایت نہ آئی بلا شبہ اللہ اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے۔

               



Khushboo

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔

دعا گو:

                                        خواجہ شمس الدین عظیمی