Topics

پیش لفظ ۔ عشق حقیقی


                رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے:

                ‘‘ہر بچہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ والدین اور متعلقین اسے عیسائی، یہودی بنا دیتے ہیں۔’’

                دنیا کا ہر باسی جانتا ہے کہ پیدائش کے بعد سب سے پہلا شعوری نقش بچہ کے اوپر صفائی اور ستر پوشی کا قائم ہوتا ہے۔ بچہ کو نہلا دھلا کر اسے صاف ستھرے کپڑے پہنائے جاتے ہیں۔ بچہ کے شعور پر دوسرا نقش یہ رقم ہوتا ہے کہ اس کے کان میں بھجن گایا جاتا ہے۔ گھنٹی اور مزمور کی آواز سنائی جاتی ہے اور بپتسمہ دیا جاتا ہے۔ اسلام میں بچہ کے دونوں کانوں میں اذان اور تکبیر پڑھی جاتی ہے۔ شعور پر تیسرا نقش جو گہرا ہوتا ہے وہ ماں، باپ، دادا، دادی، نانا اور نانی کا ذہن ہے۔ ذہن کا مطلب ہے طرز فکر اور کردار۔ پھر بتدریج والدین، خاندان، کنبہ، برادری اور ماحول کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یہ ساری کارروائی بارہ سال کی عمر تک تقریباً پوری ہوتی ہے۔ اس کے بعد بچے کو انفرادی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور وہ خاندان، ماحول اور والدین کی افتاد طبیعت کے امتزاج کے ساتھ اپنے لئے ایک راستہ اور منزل متعین کرنے کے لئے پیش قدمی کرتا ہے۔ اگر بچہ کو ماحول اچھا ملتا ہے تو بچہ اچھے کردار کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس مظاہرے میں یہ بھی ہوتا ہے کہ ماحول کے اثرات کبھی والدین کے اوصاف سے متصادم ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ بچہ آخری عمر میں خاندان اور والدین کی روایات کا امین بن جاتا ہے۔

                زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔

                یہ بات بڑی مضحکہ خیز ہے کہ ہم انتقال کر کے امریکہ جانے سے تو خوش ہوتے ہیں مگر مالک حقیقی، اپنے محبوب اللہ کے پاس جانے سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں عالم ناسوت اور ناسوت کے بعد کے عالم کا صحیح ادراک نہیں ہے۔ اس دنیا کی طرح مرنے کے بعد کے عالم میں کھانا پینا، سونا جاگنا، رہائش کے لئے گھر اور عمدہ آرام دہ کمرے ہوتے ہیں۔ وہاں سوشل سیکیورٹی کا پورا ایک نظام ہے۔ اس دنیا میں کسی پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ہر شخص آزاد ہے۔ عالم اعراف کا قانون غیر فطری پابندیوں سے آزاد قانون ہے۔

                ‘‘خوشبو’’ کی کہانی روحانی ڈائجسٹ پاکستان اور روحانی ڈائجسٹ انٹرنیشنل برطانیہ میں قسط وار شائع ہو چکی ہے۔ سعیدہ خاتون عظیمی کے شوہر جناب عبدالحفیظ عظیمی نے نہایت عرق ریزی کے ساتھ اس کو مدون کیا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ حیات و ممات کا فلسفہ اور روحانی و جسمانی زندگی کے کردار ایک جگہ جمع ہو گئے ہیں۔ ہم ریڈیو یا ٹی وی پر قسط وار ڈرامے دیکھتے ہیں۔ اس میں انتظار و تجسس کی کیفیت رہتی ہے، اتنی مصروف زندگی میں کئی مرتبہ ہم الگ الگ قسطیں دیکھ بھی نہیں پاتے اور اس صورت میں ڈرامہ کا پوری طرح تاثر قائم نہیں ہوتا۔ کتابی صورت میں یا فلم میں تاثر زیادہ ہوتا ہے اور نقوش گہرے ہوتے ہیں۔

                ‘‘خوشبو’’ کہانی نہیں لگتی۔ الفاظ کے جس جامہ میں اس کہانی کو ملبوس کیا گیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کہانی نویس نے خود اپنی کہانی ‘‘آپ بیتی’’ قلمبند کی ہے۔ روحانی واردات و کیفیات اور عشق مجازی سے گزر کر عشق حقیقی کے سمندر کی طغیانی نے کتاب ‘‘خوشبو’’ کو مردوں اور خواتین کے لئے مشعل راہ بنا دیا ہے۔

                روح مرد یا عورت نہیں ہوتی…………روح کے لباس کا نام مرد یا عورت ہے۔ لباس اگر تعفن ہے تو روح خوشبو ہے…………خوشبو روشنی ہے تو روح نور ہے…………روح نور ہے تو تجلی اس کا مخزن ہے…………اور تجلی اللہ کا پرتو ہے…………ہر شئے کو اللہ نے احاطہ کیا ہوا ہے۔

 

 

                                                                                                                       دعا گو:

                                        خواجہ شمس الدین عظیمی

                                        مرکزی مراقبہ ہال

                                        سرجانی ٹائون، کراچی

 


Khushboo

سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی


زیر نظر کتاب ‘‘خوشبو’’ میں سعیدہ خاتون عظیمی نے کہانی کے مرکزی کردار شمامہ کی زندگی کے حوالے سے وہ تمام کردار بیان کئے ہیں جو اچھے خاندان، بہترین اوصاف کے حامل والدین میں ہوتے ہیں۔ بات نہایت خوبصورتی سے آگے بڑھتے بڑھتے ظاہر و باطن زندگی پر پہنچ گئی اور اس لڑکی کے کردار میں نور جھلملانے لگا۔ حیات و ممات کا فلسفہ اس انداز سے بیان ہوا کہ قاری پڑھ کر خوش ہوتا ہے اور اس کے ذہن پر کسی قسم کا بار بھی نہیں پڑتا۔

دعا گو:

                                        خواجہ شمس الدین عظیمی