Topics
اب سردار نے اسے
کچھ کہا جس کا مطلب تو وہ نہیں سمجھا مگر اس نے بس اپنے متعلق ہی اسے بتایا کہ میں
یہاں چند دنوں کے لئے آیا ہوں۔ سیر کر کے واپس لوٹ جاؤں گا۔ کچھ ہی دیر بعد بستی
کی عورتیں اور بچے بھی اپنی اپنی جھونپڑیوں سے نکل آئے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت
سی کھانے پینے کی چیزیں اکٹھی کی گئیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے یہاں ایک
تقریب ہے۔ شام ہو چکی تھی۔ جنگل کی آوازوں
نے فضا میں ایک شور برپا کر دیا۔ پرندوں اور جانوروں کی مِلی جلی آوازیں کانوں کو بھلی لگنے لگیں۔
اندھیرا پھیلنے لگا تو انہوں نے گھاس
پھونس اکٹھا کر کے الاؤ جلا لیا اور اس کے ارد گرد قحشیانہ ڈانس کرنے لگے سردار نے
عاقب کا ہاتھ پکڑ کر اسے بھی ڈانس کے لئے کھڑا کر دیا۔ ان کے ڈانس میں بندروں کی
طرح اچھل کود تھی۔ چند منٹ اس اچھل کود کے بعد عاقب کو یاد آیا کہ اس کے تھیلے میں
بانسری ہے۔ زمان خان کا چہرہ اس کی نظروں میں گھوم گیا۔ اس نے تھیلے سے بانسری
نکالی اور سُر چھیڑ دیئے۔ سب کے سب ڈانس کرتے کرتے ایک دم رک گئے اور پھر آ کر
عاقب کے ارد گرد بیٹھ کر حیرانی سے اسے دیکھنے لگے۔تھوڑی ہی دیر میں بانسری کی آواز
نے انہیں مسحور کر دیا۔ جب عاقب نے لے کر اسے اچھی طرح سے اِدھر اُدھر
سے دیکھا۔ عاقب بولا میں تمہیں ایسی ہی
بانسری بنا دوں گا۔ پھر اسے خیال خیال
آیا کہ یہاں زبان نہیں بلکہ اشاروں سے
باتیں ہوتی ہیں۔ اس نے اشارے سے بتایا کہ وہ ان کے لئے ایسی ہی ایک اور بانسری بنا
دے گا۔
اب ان کے درمیان اجنبیت کی دیوار گر چکی تھی۔ سردار نے ایک آدمی سے کچھ کہا اور وہ عاقب کو ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں
لے گیا۔ اس پر گھاس پھونس کا نرم بستر
پھیلا ہوا تھا۔ اس نے اشارے سے اسے اس پر سونے کو کہا اور خود چلا گیا۔ ابھی عاقب
سونے کی تیاری کر رہا تھا کہ ایک نوجوان
لڑکی آئی۔ اس نے عاقب کو اشارے سے بتایا کہ
ہمارے یہاں کا رواج ہے کہ جب
سردار اپنے کسی مہمان سے خوش ہوتا ہے تو اس کی خدمت میں ایک لڑکی پیش کرتا ہے۔
عاقب نے اسے اشاروں سے سمجھایا کہ اسے اب
نیند آرہی ہے۔ وہ سونا چاہتا ہے وہ واپس چلی جائے۔ بڑی مشکل سے وہ لڑکی تھوڑی سی اس کی بات سمجھی اور جھونپڑی سے باہر نکل گئی۔ عاقب نے اطمینان کا سانس لیا
اور بستر پر دراز ہو گیا۔ ابھی اس نے بمشکل
آنکھیں بند ہی کی تھیں کہ کسی کی
آہٹ سنائی دی کیا دیکھتا ہے کہ دروازے پر
ایک کی بجائے دو جوان لڑکیاں کھڑی ہیں۔ الہٰی خیر۔ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ یہ
دونوں لڑکیاں پہلی والی سے زیادہ جوان اور بنی سنوری تھیں۔ عاقب کو یہ بات سمجھنے
میں دیر نہیں لگی کہ پہلی لڑکی کو قبول نہ کرنے پر ان لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ میں
نے اس لڑکی کو پسند نہیں۔ اس لئے اب یہ دو
لڑکیاں بھیجی گئی ہیں۔ وہ اُٹھ بیٹھا۔ اس نے پہلے کچھ دیر تو انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اسے لڑکیوں کی
خدمت کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر جب لڑکیاں ٹس سے مس نہ ہوئیں تو وہ سوچنے لگا کہ وحشی
قبائل ہیں۔ اگر ان کے رسم و رواج کو ایک
دم ہی ٹھکرا دیا تو نہ جانے یہ لوگ کیا سمجھیں گے اور کیا کریں گے یہ سوچ کر اس نے ایک لڑکی کو واپس جانے کا
اشارہ کیا وہ مسکرا کے واپس چلی گئی۔ دوسری لڑکی کو اس نے کہا کہ وہ اس کونے میں سو جائے۔ وہ لڑکی حیران نظروں سے اس کی طرف
کچھ دیر دیکھتی رہی اور پھر چپ چاپ کونے
میں لیٹ گئی۔ عاقب بھی اپنی جگہ پر لیٹ گیا جلد ہی اسے نیند آگئی۔
صبح صبح پرندوں کی آواز نے اسے جگا دیا۔ اسے رات
کا قصہ یاد آگیا۔ وہ ہڑ بڑا کے اُٹھا دیکھا تو کونے میں وہ لڑکی اب بھی سورہی
ہے۔ ایک لمحے کو اس کے دماغ میں روشنی کا جھماکہ ہوا گلابوں جیسی رنگت والی نرم و
نازک لڑکی آگئی۔ جس کے رخسار پر سیاہ تل نے
بھٹکی ہوئی نگاہ کو پوری طرح اپنے سحر میں جکڑ لیا۔ ذہن کی یہ تصویر ایک
لمحے میں گزر گئی۔ وہ اُٹھ کر باہر آگیا۔ صبح صبح ان لوگوں کی ایک ٹیم جنگل میں
شکار کو نکل گئی۔ عاقب بھی ان کے ساتھ چلا گیا۔ اس نے دیکھا کہ ان لوگوں کو شکار
کرنے میں مہارت حاصل ہے۔ یہ اپنے منہ سے ہر طرح کے جانوروں کی آوازیں نکال لیتے
ہیں۔ ان آوازوں پر جانور ٹھہر کر متوجہ ہو جاتے ہیں اور یہ فوراً اسے شکار کر لیتے
ہیں۔ ان لوگوں نے بہت سے پرندے اور دو جنگلی ہرن شکار کئے۔ واپسی پر جنگل سے
بانسری کے لئے بید کی شاخیں بھی توڑ لائے۔ شکار لے کر جیسے ہی یہ سب بستی میں داخل
ہوئے۔ عورتیں اور بچے سارے کے سارے خوشی سے اچھلنے لگے۔ آگ کے الاؤ پہلے سے ہی جل
رہے تھے۔ عورتوں اور مردوں نے مل کر جلدی جلدی جانوروں کی کھال اتاری اور انہیں
صاف کر کے بڑے بڑے پتوں میں لپیٹ کر الاؤ کی گرم گرم راکھ اور کوئلوں میں رکھ دیا۔
آج ان کے یہاں جشن تھا۔ سب لوگ آگ کے ارد گرد جمع ہو گئے اور اپنی زبان میں گآنا
گانے لگے پھر ایک پندرہ سولہ سال کا نوجوان لڑکا لایا گیا۔ سب لوگوں کی طرح اس کا
جسم ننگا تھا۔ صرف ستر پوتوں سے ڈھانپی ہوئی تھی۔ اسے ننگی زمین پر چت لٹا دیا
گیا۔ اب ایک وِچ ڈاکٹر آیا۔ جو بستی میں بزرگ اور معزز سمجھا جاتا تھا۔ اس نے عجیب
و غریب آوازیں نکال کر پہلے تو اس لڑکے کے گرد ایک دو چکر لگائے۔ پھر اس کے بدن پر
کوئی چیز ملی جو سیاہ تھی۔ مگر شہد کی طرح چپکنے والی تھی۔ پھر اس نے ایک بڑا
تھیلا کھولا اور اس کو لڑکے کے جسم پر اندیل دیا۔ عاقب کے منہ سے بے ساختہ چیخ نکل
گئی۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔
الہٰی یہ کیا ہے؟ اس تھیلے میں سیاہ چیونٹے بھرے تھے۔ یہ چیونٹے لڑکے کےسارےجسم پر
پھیل گئے۔ جیسے جیسے چیونٹے لڑکے کے جسم پر پھیلتے جاتے خوف سے اس کی آنکھیں
پھیلتی جاتیں۔ لڑکے کا پورا جسم سیاہ چیونٹوں میں چھپ گیا۔ اس کے جسم پر ہر
طرف سیاہ چیونٹے کاٹ رہے تھے اور اس کے
جسم کی اینٹھن بتا رہی تھی کہ وہ تکلیف میں ہے مگر سب لوگ وحشیانہ ڈانس کر رہے تھے
اور الاؤ کے گرد چکر کاٹ رہے تھے۔ سب کے چہروں پر خوشی کے آثار تھے۔
عاقب سخت پریشان ہو گیا کہ یہ لوگ اس
کمسن بچے کو کیوں اس بیدردی سے مار ڈالنا چاہتے ہیں۔ آخر پندرہ سولہ سال کے بچے سے
ایسا کون سا جرم سر زد ہو گیا جس کی اتنی
سنگین سزا دی جارہی ہے۔ اس نے سردار کو بازو سے پکڑ کے ہلا کے اشارے میں پوچھا کہ
اسے کیوں ایسی سزا دی جا رہی ہے؟ سردار سن کر ہنسنے لگا۔ اس نے کہا کہ یہ سزا نہیں
ہے۔ یہ اس قبیلے کا رواج ہے کہ جب کوئی لڑکا جوان ہوتا ہے تو شادی سے پہلے اسے اس
مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ اس کی بلوغت ، مردانہ پن اور جوانمردی کا امتحان ہے۔
اس امتحان میں پاس ہونے کے بعد اسے مردوں کی سف میں گنا جاتا ہے اور شادہ و شکار
کے لئے اسے پوری طرح اہل سمجھا جاتا ہے۔
عاقب کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ ان
وحشیوں کو اس قبیح رسم سے کس طرح روکے۔ ان کے ذہن و فکر میں ذرا بھی گہرائی نہ تھی۔ وہ چپ چاپ بیٹھا اس لڑکے کی زندگی کی
دعا کرتا رہا۔ جو وقتاً وقتاً ہل جل کے اپنی تکلیف کا اعلان کر رہا تھا۔ مگر کمال
ہے کہ اُٹھ کر بھاگنا یا چیخ پکار کر کے احتجاج بالکل نہیں کرتا تھا۔ عاقب ایک
سولہ سال کے لڑے کی اس قدر قوتِ برداشت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ سوچنے لگا۔ انسان
کے ارادے میں بڑی قوت ہے۔ وہ جس کام کے لئے اسے استعمال کرتا ہے اس میں اللہ اسے کامیاب
کرتا ہے۔ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد اس وچ ڈاکٹر نے اپنا ہاتھ بلند کیا ۔ اس پر
تمام لوگوں نے خوشی کا زور دار نعرہ لگایا۔ اسی دم وہ لڑکا اُٹھ کر بھاگا اور قریب ہی بہتی ہوئی ایک ندی میں چھلانگ لگا دی۔ وہاں سے نہا کر باہر نکلا۔
اب اسے تمام مردوں نے اُٹھا لیا۔ اسے لے کر الاؤ کے قریب آئے۔ اسے بڑی عزت سے اپنے
پاس بٹھایا اور اسے شراب پینے کو دی۔ سب نے اسے اپنے برابر ایک بالغ مرد تسلیم کر
لیا تھا اور بستی میں ایک اور جواں مرد کے اضافے پر بھر پور طریقے سے اپنی خوشی کا
اظہار کرنے لگے۔
سب نے خوب دیر تک ڈانس کئے۔ اتنی دیر میں کھانا
بھی پک کر تیار ہو چکا تھا۔ سب نے کھانا کھایا۔ اس تمام جشن میں رات بھیگ گئی۔ اب
لڑکے کے چہرے پر طرح طرح سے پینٹ کیا گیا اور اس کے سینے پر بھی کئی رنگوں کے نشان
بنائے گئے۔ جھونپڑی کے اندر عورتوں کے گانوں کی آوازیںآنے لگیں۔ انہوں نے ایک لڑکی
کا ہار سنگھار کیا اور اسے جھونپڑی میں بٹھا کر باہر آئیں۔ اب مردوں نے لڑکے کو
ہنستے کھیلتے اور چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے اس جھونپڑی میں داخل کر دیا۔ لڑکا شرما رہا
تھا مگر خوش تھا۔ اسے اپنی جوانمردی پر پورا بھروسہ ہو چکا تھا۔ رات گئے تک یہ سب
لوگ شراب پیتے رہے اور خوشی میں اچھلتے کودتے رہے۔ عاقب کا ذہن سخت بوجھل ہو رہا
تھا۔ وہ ان سب سے نظر بچا کر اپنی جھونپڑی میں چلا آیا اور آتے ہی سو گیا۔
دوسرے دن جنگل سے لائی
ہوئی بانس کی لکڑیوں سے اس نے سب
کو بانسری بنآنا سکھائی اور دن بھر سب لوگ
بانسری بجانے کی مشق کرتے رہے۔ اگلے دن اس نے یہاں سے آگے جانے کا ارادہ کر لیا۔ اس نے سردار سے پوچھا کہ
تم اس جنگل میں کیوں پڑے ہو؟ شہر میں کیوں نہیں جاتے۔ وہ شہر کے نام سے خائف ہوا۔ اس کی آنکھوں سے خوف اور نفرت جھلکنے لگا۔
اس نے زور سے اپنی گردن نفی میں ہلائی۔ ثاقب سب سے رخصت ہو کر آگے بڑھ گیا۔ جاتے وقت سردار نے کچھ قیمتی پتھر اور
نگینے اسے دیئے۔ جو انہیں زمین کے اندر سے ملتے تھے۔
عاقب کا اگلا قدم تنزانیہ کی جانب تھا۔ راستے بھر وہ سوچتا رہا۔ سب ایک
ہی آدم کی اولاد ہیں ۔ مگر سوچنے کے انداز ایک دوسرے سے کتنے مختلف ہیں۔ سب اپنی
اپنی فکر کے دائرے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اپنی ہی فکر کے دائرے کو اپنی شناخت
قرار دے دیا ہے۔ اپنی فکر کی محدودیت سے باہر قدم نکالنے میں ان کے لئے اندیشہ ہے
کہ کہیں وہ اپنی شناخت نہ کھو دیں۔ اس کے دل نے کہا۔ آدم کی اصل شناخت تو انسانیت
کا وہ پیٹرن ہے جو خالق کا بنایا ہوا ہے۔ جس کا ہر جُو آدم کے کردار کے کسی نہ کسی
پہلو کی نشاندہی کرتا ہے۔
وہ سفر کرتا ہوا تنزانیہ کے ایک گاؤں
میں پہنچا۔ اس سفر میں اسے کئی دن لگ گئے۔ وہ گاؤں گاؤں اور شہر شہر گھومتا ہوا
تنزانیہ میں آیا۔ یہ چھوٹا سا گاؤں تھا جہاں گھاس پھونس کی جھونپڑیوں کے علاوہ کچے
پکے مکان بھی تھے۔ اس نے ایک راہ گیر سے پوچھا کہ یہاں رات گزارنے کے لئے کسی ہوٹل
کا انتظام ہے۔ وہ اسے لے کر ایک چھوٹے سے پکے بنے ہوئے مکان میں لے آیا۔ دروازہ
کھٹکھٹایا تو ادھیڑ عمر کی ایک افریقی عورت نے دروازہ کھولا۔ راہ گیر نے تعارف
کرایا۔” یہ ماما نیرہ ہے۔“
ماما نیرہ نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ عاقب
کو گلے سے لگایا اور اس کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے بولی۔ ” آؤ بیٹھو مسافر۔ میں
تمہاری کیا مدد کر سکتی ہوں؟“
وہ بہت موٹی اور جسمانی طور پر بہت
مضبوط عورت تھی۔ مگر ساتھ ہی بہت ہنس مکھ بھی تھی۔ عاقب کے ساتھ وہ جلد ہی گھل مل
گئی۔ اس نے بتایا کہ وہ اسی گاؤں میں پیدا ہوئی۔ اس کے ماں باپ مر چکے ہیں اور
اپنی ماں کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے اس کے کوئی بہن بھائی بھی نہیں ہیں۔ نوجوانی میں شادی ہوئی۔ مگر کوئی
اولاد نہ ہو سکی تو خاوند نے اسے چھوڑ دیا اور اب وہ تنہا اس گھر میں رہتی ہے۔ یہ
گھر اسے اپنی ماں کی طرف سے ملا ہے۔ گاؤں میں کوئی ہوٹل نہیں ہے۔ اگر بھولے بھٹکے کوئی مسافر کبھی آ جاتا ہے تو
وہ اسے اپنے یہاں ٹھہرا لیتی ہے۔ ماما نیرہ نے بتایا کہ” گاؤں کے لوگوں کا اس بات
پر اعتقاد ہے کہ ہمارے ارد گرد فضا میں بہت سی ان دیکھی مخلوق رہتی ہے۔ جنہیں وہ
روحیں کہتے ہیں۔ ہماری زندگی میں ان روحوں
کا اور ماورائی ہستیوں کا بہت
زیادہ عمل دخل ہے۔ ہم اپنے تمام کاموں میں ان روحوں کو شامل رکھتے ہیں۔ مثال کے
طور پر جب ہم کھانا کھانے بیٹھتے ہیں تو ہم کھانا شروع کرنے سے پہلے اپنی پشت پر
ذرا سا نمک پھینک دیتے ہیں تو یہ کھانا ان کو مل جاتا ہے۔ اگر ہم نے اس طرح نہیں
کیا تو روحوں کو کھانا نہیں ملے گا اور وہ ہم سے ناراض ہو جائیں گی۔ ایسی صورت میں
اس کھانے سے ہمارے پیٹ میں درد ہو جاتا ہے اور ہم بیمار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح جب
ہم گھر سے باہر جاتے ہیں تو جاتے وقت ان
روحوں کو کہہ جاتے ہیں کہ وہ ہمارے پیچھے ہمارے گھر کی دیکھ بھال رکھیں۔ اگر ہم
اسیا نہیں کرتے تو روحیں ہمارے گھر کو تباہ بھی کر دیتی ہیں۔ گھر کو آگ لگ جاتی ہے
یا گھر کی چھت گر جاتی ہے۔“
عاقب نے ماما نیرہ کو سمجھانے کی کوشش
کی کہ۔” بے شک روحوں اور ماورائی ہستیوں
کا وجود ضرور ہے۔ مگر سب اپنی اپنی دنیا میں اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہیں جس طرح
تم اپنی دنیا میں مشغول ہیں۔ کسی کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ ہمارے کاموں میں دخل
دے۔ یہ سب تخیل کی کرشمہ سازیاں ہیں۔ آدمی جیسا سوچتا ہے ذہن اسی صورت میں خیال کی
روشنیوں کو ڈھال دیتا ہے۔ مگر ماما نیرہ ایسی کوئی بات سننے کو تیار نہ تھی۔ وہ
بستی والوں کے مختلف واقعات بتاتی رہی۔ فلاں نے کھاتے وقت پیچھے نمک نہیں پھینکا
اسی وقت اس کے کھانے میں زہر مل گیا۔ جس کے کھاتے ہی وہ شخص مر گیا۔ عاقب کا
سمجھآنا اس کے سر کے اوپر سے گزرتا رہا۔ وہ کہنے لگی۔” تم شہر کے لوگ ہو۔ تم لوگ
اس چیز کو نہیں سمجھتے۔ حالانکہ روحیں وہاں بھی ناراض ہو کر لوگوں کو نقصان
پہنچاتی ہیں۔ مگر لوگ بجائے روحوں کو خوش کرنے کے میڈیکل ڈاکٹروں کے پاس علاج
کراتے ہیں۔“
عاقب کہنے لگا۔” مگر وہ ٹھیک
بھی تو ہو جاتے ہیں۔“
ماما نیرہ بولیں۔” یہاں بھی ان عملوں سے
لوگ ٹھیک رہتے ہیں۔“
عاقب نے کہا۔” مگر یہاں لوگوں کا اعتقاد
اللہ کی بجائے روحوں اور ماوارئی قوتوں پر زیادہ ہے۔ وہ اللہ کی خوشی کی بجائے
روحوں کو خوش رکھنے کی ترکیبیں ڈھونڈتے
رہتے ہیں۔“
ماما نیرہ بولی۔” ہمارا اعتقاد ہے کہ روحوں اور
ان ماورائی قوتوں کو خوش رکھنے سے ہمارا
رب بھی ہم سے راضی رہے گا۔“
عاقب نے سوچا نہ جانے کتنی نسلوں سے ان
کے ذہن اس نظرئیے پر سیٹ ہیں۔ اب ایک منٹ میں تو یہ نظریئے بدل نہیں سکتے۔ وہ کئی
دن ان کے ساتھ رہا۔ گاؤں کے لوگوں کو روحوں کی اصل حقیقت کے رُخ دکھلاتا رہا۔ مگر
ان کے نقوش بڑے گہرے تھے۔ اس نے کینیا جانے کی ٹھان لی۔ اس نے سوچا کیپٹن کے بال
بچوں سے بھی ملاقات کر لوں۔ کیپٹن نے ضرور
انہیں میرے متعلق خبر دی ہوگی۔ وہ سیدھا کیپٹن کے گھر پہنچا۔ کیپٹن کی بیوی اپنے
بال بچوں کے ساتھ تھی۔ کیپٹن کی ماں بھی ان کے ساتھ تھی۔ عاقب نے کیپٹن کا خط
انہیں دیا۔ جسے پا کر وہ بہت ہی خوش ہوئے۔ کیپٹن کا لڑکا تقریباً بائیس تئیس سال
کا تھا۔ وہ جلد ہی عاقب سے گھل مل گیا۔ اس نے عاقب کو کینیا کی سیر کروائی۔ سیر
کرتے ہوئے دونوں ویسٹ افریقہ جا پہنچے۔
وہ ایک گاؤں پہنچے۔ اس گاؤں میں ایک بات
عجیب دیکھی۔ یہاں سینکڑوں بیوہ عورتیں اپنی سسرالوں میں نظر بند تھیں۔ ان لوگوں کے
یہاں رواج تھا کہ جب کوئی عورت بیوہ ہو جاتی تو خواہ وہ چاہے یا نہ چاہے۔ اس کو
اپنا سر بالکل منڈوآنا پڑتا ہے۔ سرکو شیو کر کے ان بیوہ عورتوں کو برہنہ کر کے کسی
گندی جگہ میں گندے فرش پر رکھا جاتا ہے۔ جوان کے سسرال کے گھر کی کوئی کوٹھڑی ہوتی
ہے۔ اس کوٹھڑی میں انہیں ایک سال کے لئے بند کر دیا جاتا ہے۔ جہاں نہ وہ نہا سکتی
ہیں، نہ انہیں کپڑے پہننے کی اجازت ہوتی
ہے ، نہ وہ باہر نکل سکتی ہیں اور نہ ہی
کسی سے بات کر سکتی ہیں۔ ان کے ساتھ سسرال والے انتہائی ہتک امیز سلوک کرتے ہیں۔ روزانہ ان عورتوں کو
زور زور سے رو رو کر کھانے کے لئے التجا ئیں کرنی پڑتی ہیں۔ تب کہیں جا کر انہیں
یہ کھانا نصیب ہوتا۔ یہ ایک سال کا پیریڈ ان بیواؤں کی عدت
کا پیریڈ ہے۔ جس میں وہ اپنے سسرال والوں کے ہاتھوں انتہائی ستائی
جاتی ہیں۔ ہر بیوہ عورت کو اس دور سے گزرنا ہی پڑتا ہے۔
گاؤں کی ایک معمر عورت نے بتایا کہ ” میں نے ایک عورت کو
دیکھا ۔ جس کے شوہر کا انتقال ہو گیا۔ اس عورت کو چار دن تک کھڑا رکھا گیا اور بیٹھنے نہ دیا جب اس کے شوہر کی لاش گاؤں
میں لائی گئی تو اسے ساری رات کمرے میں
بند کر دیا گیا تاکہ اُن کے خیال میں اس طرح اس کے اور شوہر کے ساتھ جو روحانی تعلق ہے وہ ٹوٹ
جائے گا۔ اس کے بعد جب اسے دفن کر دیا گیا تو پسی ہوئی مرچوں کو ایک پٹی میں رکھ
کر عورت کی ٹانگوں کے درماین باندھ کر اسے زمین پر کئی دنوں تک لئے لٹایا گیا تاکہ وہ اپنے شوہر کو خواب میں بھی نہ دیکھ
سکے۔“
عاقب نے پوچھا ۔” اگر کسی آدمی کی بیوی
مر جاتی ہے تو کیا آدمی کو بھی ان ہی تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟“
وہ عورت بولی۔” نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ جب
آدمی کی بیوی مر جاتی ہے ۔ تو آدمی اس بیوی کو دفن کر کے اسی رات دوسری عورت لے
آتا ہے تاکہ اس کی پہلی بیوی کے ساتھ روحانی رابطہ ٹوٹ جائے۔“
اس نے مزید بتایا ۔” کئی خاندانوں میں یہ بھی
رواج ہے کہ جب شوہر کی لاش کو نہلایا جاتا ہے تو اس پانی کو اسکی بیوہ کو پلایا
جاتا ہے۔ اگر یہ زہریلا پانی پی کر بیوہ بییمار ہو جائے یا مر جائے تو بیوہ پر یہ
الزام ثابت ہو جاتا ہے کہ اس نے اپنے شوہر
کو مروایا اور وہ گناہ گار تھی جب ہی بیمار ہو گئی یا مر گئی۔ ایسی بیوہ ماؤں کے
بچے تک چھین لئے جاتے ہیں اور جی بھر کو انہیں ان کے سسرال والوں کے ہاتھوں ستایا
جاتا ہے۔ ان کی ساری زندگی جادو ٹونوں اور
واہیات رسم و رواج میں گزر جاتی ہے۔ اپنی ہر سفلی فکر کو انہوں نے اسپرٹ یا روح کا
نام دیا ہوا ہے۔“
عاقب یہ سن کر سناٹے میں آگیا۔ وہ حیران تھا کہ ایک ہی زمین پر لوگ کن
کن طریقوں سے زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر حیرانی تو اس بات کی تھی کہ ایسے طور طریقے
جو اذیت ناک حد تک تکلیف دہ ہیں۔ ان کو نسلیں کس طرح اپنا لیتی ہیں کیوں نہیں ان
فضول رسموں کو توڑ دیا جاتا۔ وہ سوچنے لگا ۔ اذیت دینے والا اور اذیت قبول کرنے
والا دونوں ہی قصور وار ہیں۔ اسے اپنی ماں کی بات یاد آئی۔ وہ کہتی تھی کسی بھی
غلط کام کو کرنے والا ہی گناہ گار نہیں ہے بلکہ اس کی بد عادت کو قبول کر کے خاموش
ہو جانا بھی کسی گناہ سے کم نہیں۔ اس طرح
اسے اپنی خرابی کا احساس تک نہ ہوگا اور چپ رہنے والے کے اندر سے حق بات کو
پہچاننے اور تسلیم کرنے کی صلاحیت ہی ختم ہو جائے گی۔ اپنے اندر کے آدمی کو مار کے
انسان صرف مٹی کا پتلا رہ جاتا ہے۔ جسے زمانے کے ہاتھ جہاں چاہیں اچھال دیتے ہیں۔
وہ سوچنے لگا مٹی کا پتلا آدمی کیسے بن جاتا ہے۔ کیا اس کے ذہن کے سوچنے سمجھنے کی
صلاحتیں ساری کی ساری چھین لی جاتی ہیں۔ وہ عورت جسے سنفِ نازک کہا جاتا ہے۔ وہ
اتنی اذیتیں کیسے برداشت کر لیتی ہے اور کیوں کرتی ہیں ۔ اس کیوں کا جواب خود اس
کے پاس نہ تھا۔
کیپٹن کے بیٹے منڈا کن کے ساتھ عاقب
تقریباً سارے ہی افریقہ کی سیر کر لی۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ انسان کے اندر ہر
نوع کی صفات کام کر رہی ہیں۔ وہ جنگل میں
جانوروں کے ساتھ رہتا ہے تو اس کے اندر جانوروں کی خصلتیں اُبھر آتی ہیں۔ پہاڑوں اور غاروں میں زندگی بسر کرتا ہے
تو پتھروں کو اپنے اوپر حاوی کر لیتا ہے۔
یہاں تک کہ انہیں خدا کا درجہ دے دیتا ہے۔ مگر اصل انسان تو ان سب سے بہت افضل ہے
کہ جس سے اللہ تعالیٰ اپنے راز و نیاز بیان کر دیتا ہے اور اسے کائنات کی حدود سے
بلند کر کے اپنی لامحدود وسعتوں میں پہنچا
دیتا ہے۔ حواس کی انتہائی پستی اور حواس
کی انتہائی بلندی دونوں رُخوں میں انسان
زندگی گزار رہا ہے۔ حواس کی پستیوں میں اس کا اظہار سفلی قوتوں کے ساتھ ہے اور
حواس کی بلندیوں پر بشری کردار کا اظہار علوی قوتوں کے ساتھ ہے۔ سفلی قوتیں رحمانی
خصلتوں کے خلاف کام کرتی ہیں۔ انسان رحمانی اور سفلی دونوں خصلتوں کو اپنا لیتا
ہے۔ جس کا بھی وہ ہے۔ مگر جب نسل در نسل ایک ہی طرزِ فکر آدمی کا ذہن بن جاتی ہے۔
تو یہ طرزِ فکر پوری قوم کی طرزِ فکر بن جاتی ہے۔ جس کو ختم کرنا اتنا آسان نہیں
ہے۔ جتنی گہرائی میں جریں ہوتی ہیں۔ اتنی
ہی گہرائی میں زمین کھودنی پڑتی ہے۔ تب
کہیں جا کر جڑیں زمین سے نکالی جاتی ہیں۔
عاقب تین ماہ تک افریقہ کے گاؤں گاؤں پھر کر انہیں حقیقت سے روشناس کرنے کی کوشش
کرتا رہا۔ مگر اسے محسوس ہو کہ ان کے دلوں سے اپنے حالات کے بدلنے کی خواہش بھی
نکل چکی ہے۔ معاشرہ جس ڈگر پر چل رہا ہے۔ وہ اسی ڈگر سے مطمئن ہیں۔
ابھی وہ نائیجیریا کے شہر لاگوسں میں
تھے کہ منڈا کن کو اس کے باپ کیپٹن کی جانب سے پیغام ملا کہ آئیوری کوسٹ میں ایک
شپ برازیل کو جا رہا ہے۔ اس کا کیپٹن عاقب کو برازیل تک لے جائے گا۔ منڈاکن کے
ساتھ وہ آئیوری کوسٹ تک آیا اور پھر یہاں سے دونوں اپنے اپنے سفر پر روانہ ہو ئے۔ ایک مدت ساتھ سفر کرنے پر
دونوں میں اچھی خاصی دوستی ہو گئی تھی۔ بچھڑنے کے خیال نے دونوں کو ملول کر دیا۔
ائندہ ملنے کے وعدوں پر دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔
شپ میں تنہا بیٹھا ہوا عاقب سمندر کی
سطح پر موجوں کو گلے مل مل کر جدا ہوتے دیکھ کر سوچنے لگا۔ ساری کائنات میں ملنے
اور بچھڑنے کا کھیل اسی طرح جاری ہے۔ ہر خیال دل کے تقاضے سے گلے ملتا ہے اور پھر
جدا ہو جاتا ہے۔ جہاں سے آتا ہے وہیں لوٹ جاتا ہے۔ نظر اس کے تعاقب میں یہاں سے
وہاں تک بھٹکتی پھرتی ہے ۔ کبھی حاصل مراد
کو دیکھ کر ٹھنڈک حاصل کر لیتی ہے اور کبھی اسے نہ پاکر کھوج میں سرگرداں ہو جاتی
ہے۔ اس کی نگاہ سمندر کی موجوں پر جم گئی۔ تفکر کے خاکے نگاہ کا سہارا لے کر موجوں
کے آئینے میں اپنا عکس دکھانے لگے۔ کبھی یہ عکس ماں بن جاتا جو اس سے گلے مل کر
رخصت ہو جاتا۔ کہیں یہ عکس باپ بن جاتا کہیں خضر بابا بن جاتے کہیں رحمٰن بابا بن
جاتے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دل کا بند دریچہ کھل گیا۔ کوئی چپکے سے نگاہ سے بچ
کر عشق کی چادر اوڑھ کر دبے پاؤں لہروں پر ان کھڑا ہوا۔ ارمانوں کی ہلچل نے اس کے
رُخ سے انچل سرکا دیا۔ عارضِ تاباں پر سیاہ تل جھلملانے لگا۔ چنچل ہوا کے جھونکے
نے بدن سے گلابون کی خوشبو چرالی۔ سمندر کی ہر موج نے اس عکسِ دلبراں کو اپنے
آئینے میں سمونے کے لئے اپنی بانہیں پھیلا دیں۔ عاقب کے ارمان موجوں کی
گہرائی میں ڈوبنے لگے۔ سمندر کی ٹھنڈی ہوا
نے اسے تھپک کر سلا دیا۔
جہاز کا کیپٹن سیاہ فام برازیل کا
باشندہ تھا۔ جہاز کے روانہ ہونے کے تقریباً ایک گھنٹے بعد اس نے اپنے اسسٹنٹ کو بھیج کر عاقب کو اپنی کیبن میں
بلایا اور کہنے لگا۔” میرا نام ڈیوڈ ہے۔ کیپٹن سورنگا نے مجھے تمہارے متعلق بتایا
ہے کہ تم کچھ غیر معمولی قوت رکھتے ہو۔“
عاقب مسکرا کر بولا۔” جناب سچ تو یہ ہے
کہ انسان تو ہے ہی غیر معمولی قوتوں کا مجموعہ۔ بات صرف ان کے جاننے اور پہچاننے
کی ہے۔ ان قوتوں کی جان پہچان ہوگی تو ان سے کام
بھی لیا جا سکے گا۔ میرے شیخ نے
مجھے پردے میں چھپی خود میری اپنی ذات سے جان پہچان کرنا سکھایا ہے۔“
ڈیوڈ زور سے ہنسا۔ کہنے لگا۔” تمہیں
یہاں برازیل میں بھی بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جو اپنے اندر چھپی ہوئی قوتوں سے کام
لیتے ہیں۔“ اس کے لہجے میں مسخرہ پن تھا۔
عاقب بھی ہنستے ہوئے بولا۔” جناب ایسے
ہی لوگوں کی تلاش میں تو میں نکلا ہوں۔“
دونوں ہنسنے لگے اور اجنبیت کی وہ دیوار جو ان
دونوں کے درمیان تھی ایک دم سے گر پڑی۔ کیپٹن نے چائے منگوائی اور پھر کافی دیر تک وہ اپنے سفر کے حالات
ایکدوسرے کو سناتے رہے۔ جہاز کا سفر نہایت ہی آرام سے کٹ گیا۔ وہ تقریباً پندرہ دن
میں برازیل پہنچ گئے۔ کیپٹن ڈیوڈ نے یہاں کی کچھ معلومات دے دی تھیں کہ کہاں
ٹھہرنا ہے کہاں سے مدد لی جا سکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ عاقب نے جہاز سے اترتے ہوئے اس
کا بھر پور شکریہ ادا کیا اور اپنے سفر پر روانہ ہوا۔
برازیل کے مختلف شہروں میں گھومتے ہوئے
ایک بات اس نے عجیب دیکھی کہ یہ لوگ اپنے
مُردوں کو عجیب عجیب طریقوں سے دفن کرتے ہیں۔ برازیل کے ایک بہت خوبصورت شہر میں اس کا گزر ہوا یہ ایک چھوٹی سی
وادی تھی۔ اونچے اونچے شاداب درختوں نے وادی کو جنت نظیر بنا دیا تھا۔ وہ وادی کے
ایک خوبصورت راستے سے گزر رہا تھا کہ ڈھول ، باجے، گانے اور لوگوں کے ناچ گانے کے
شور نے فضا میں خوشگوار لہریں پیدا کر دیں۔ عاقب نے دل میں سوچا کہ ضرور کسی کی
شادی کا جلوس ہے۔ اتنے میں سامنے سے بہت سارے مرد عورتیں بچے سب لوگ اچھے اچھے
کپڑے پہنے میک آپ کیئے ہوئے بنے سنورے ناچتے گاتے خوشی سے اٹھلیاں کرتے آتے
دکھائی دیئے۔ لوگوں کے درمیان ایک
لکڑی کا بہت ہی خوبصورت جہاز کی صورت میں تابوت تھا۔ جسے لوگ کندھوں پر اُٹھائے
ہوئے تھے۔ پہلے تو عاقب کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ ہوائی جہاز نما تابوت ہے کیا کیونکہ لوگوں کی خوشیوں
کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ یہ ماتم کا جلوس ہے۔ اس نے سوچا
ضرور یہ لوگ اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس نے بھر پور نظر تابوت پر ڈالی۔
واقعی یہ لکڑی کا بہت ہی خوبصورت بنایا ہوا جہاز تھا۔ وہ بھی جلوس میں شامل ہو گیا۔ ساتھ چلتے ہوئے اس
نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کس نے بنایا ہے بہت خوبصورت ہے تب اسے پتہ چلا کہ یہ
تابوت ہے اور ان کے مردوں کو بہت خوبصورت تابوتوں میں بند کر کے دفن کیا جاتا ہے۔
ان کے یہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ مرنے کے بعد آدمی دنیا کی قید و بند سے آزاد ہو
جاتا ہے اور روح آزاد ہو کر بہت خوش ہوتی
ہے۔ پس یہ سب لوگ مرنے والے کی خوشی میں شریک ہو کر اپنی خوشی کا بھر پور مظاہرہ
کرتے ہیں۔ اکثر لوگ مرنے سے پہلے اپنے
تابوت کی صورت بتا جاتے ہیں۔ پھر اسی شکل میں تابوت بنایا جاتا ہے۔ کہیں بہت ہی
خوبصورت پرندے کی صورت میں کہیں بحری جہاز
کی صورت میں اور اکثر لوگ اپنی زندگی میں ہی تابوت اپنی پسند کے مطابق بنوا لیتے ہیں۔
عاقب نے وہاں
بیسیوں قسم کے تابوت دیکھے اور کئی جنازوں کے جلوس دیکھے۔ وہ سوچنے لگا اللہ
تعالیٰ نے انسان کو ہنر عطا کئے ہیں۔ ہر قوم اپنے اپنے رسم و رواج کے دائرے میں
اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ان کی یہ بات بہت اچھی لگی کہ یہ اس بات سے
واقف ہیں کہ دنیا کی قید سے رہائی پا کر
روح کتنی خوش ہوتی ہے۔ موت کا لمحہ وقت کی گرفت سے آزادی کا لمحہ ہے۔ وقت کے شکنجے
میں پھنس کر روح اپنی صلاحیتوں کا فطرت کے مطابق لامحدود وسعتوں میں پھیلاؤ نہیں
دیکھتی۔ وقت کا شکنجہ مادی جسم ہے۔ مادی جسم اور مادی روشنیوں کا بوجھ روح کو مضمحل کر دیتا ہے۔ روح جب اس
شکنجے سے نکلتی ہے تو کتنی خوش ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ عاقب کو تھا اس کی ماں نے
ایک دفعہ کہا تھا۔ ” بیٹے جب روح عالمِ بالا کی جانب سفر کرتی ہے تو وہ پرندے کی
صورت ہوتی ہے۔ جیسے پرندہ ہوا میں آسانی سے اُڑتا پھرتا ہے۔ اسی طرح روح بھی نور
کی فضاؤں میں اِدھر اُدھر اُڑتی پھرتی ہے۔ بیٹا روح آزاد پنچھی ہے۔ مادی نفس کی
قید میں رکھ کر آدمی اپنی روح پر ظلم کرتا ہے۔ نفاسانی خواہشات روح کے گرد آہنی
جال بُن دیتی ہے۔ جس میں روح کا پرندہ پھڑپھڑاتا
رہ جاتا ہے۔
برازیل کے گھنے جنگلات سے اس کا گزر ہوا۔
یہاں مردوں کو دفنانے یا جلانے کی بجائے جنگل کے کچھ حصے کو انہوں نے قبرستان بنا
لیا تھا مگر یہ قبرستان اپنی نوعیت کا انوکھا قبرستان تھا۔ یہاں درختوں پر لکڑیوں
اور شاخوں سے مچانیں بنا رکھی تھیں۔ جب کوئی مرتا تو یہ لوگ اس شخص کو اس مچان پر
بٹھا دیتے جگہ جگہ مچانوں پر لوگوں کےڈھانچے بیٹھے ہوئے تھے کہیں کوئی ادھ
کھائی ہوئی لاش تھی جسے جانوروں نے لقمہ
تر سمجھ کر کھایا ہوا تھا۔ کہیں دھوپ کی تمازت سے گوشت سوکھ کر ہڈیوں سے چپک چکا
تھا۔ عجیب بھیانک منظر تھا۔ ان خوف ناک ڈھانچوں کو دیکھ کر یقین کرنا مشکل تھا کہ
کبھی یہ اپنی خوبصورت شکل و صورت میں دھرتی پر دندناتے پھرتے تھے۔ عاقب کو رحمٰن
بابا یاد آگئے۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا تھا۔” بچے دنیا میں ایک ہی کام کو لوگ اگر
ہزاروں طریقے سے انجام دے رہے ہیں ۔ تو یہ تمام طریقے اس کام کے نئے نئے زاویے
ہیں۔ مقصد ایک ہی ہوتا ہے۔ مگر اس مقصد کو حاصل کرنے کے راستے مختلف ہوتے ہیں۔
جیسے منزل ایک ہوتی ہے۔ اس منزل کو پہنچنے کے راستے بہت سے ہوتے ہیں۔ جس راستے سے
چلا جائے۔ ایک ہی منزل پر پہنچتے ہیں۔ اگر منزل پر نگاہ ہو تو راستے کی اونچ نیچ
سے آدمی جل ہی گزر جاتا ہے۔ راہ کی نا
ہمواریاں اس کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔
٭٭٭