Topics
عاقب اپنے خواب
کی روداد گلبدن کو سنا رہا تھا۔” میں نے اپنی دونوں ہتھیلیاں اپنے سامنے پھیلا
لیں۔ فرمایا۔ اپنے ہاتھوں کی تحریر پر نظر جما لو۔ آہستہ آہستہ تم ان ہاتھوں کی
تحریروں کو پڑھنے لگو گے۔ پہلے چند لمحے
تو مجھے ان تحریروں کا ایک لفظ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ مگر میرے اندر ندائے غیبی
مسلسل مجھے ہدایات دیتی جاتی۔ کچھ دیر
ہاتھ کی تحریروں پر نظر جمانے سے نظر کے سامنے ان لکیروں کے اندر رنگینی
پیدا ہونے لگی۔ ان لکیروں سے شعاعوں کی صورت میں بے شمار رنگ نکلنے لگے اور ہر رنگ
میں ایک ایک عالم دکھائی دیا۔ ہر عالم میں میری روح اپنے رب کے ساتھ
نہایت ہی خوش باش دکھائی
دی۔ ندا آئی۔ ” اے بندے! جان لے کہ ہر روح کے نصیب کی تحریر اللہ تعالیٰ
اپنے قلم سے لکھی ہے اور روح کے نصیب کی تحریر وہی ہے جو تم دیکھ رہے ہو۔ روح
کے نصیب
میں اللہ تعالیٰ نے شادمانی اور خوشیوں کی نوید لکھی ہے۔ رنج و غم کا رُخ
انسانی عقل کی لا علمی و کمزوری کا نتیجہ ہے۔ اس رُخ کی شادمانی کی جانب مورنے کے
لئے اللہ تعالیٰ نے تدبیر کا ہتھیار اختیار کیا ہے۔ تدبیر اللہ تعالیٰ کے قوانین
کے دائرے میں وسائل کا استعمال کرنا ہے۔ خواب میں تمام رات میری نظر اپنے ہاتھوں
کی تحریر پر جمی رہی اور میرے اندر نہایت ہی قریب سے ندائے غیبی مجھے تحریروں کے
متعلق مسلسل ہدایات و علوم عطا کرتی رہی۔ یہاں تک کہ میری آنکھ کھلنے کے قریب ہو
گئی۔ غنودگی کے عالم میں میری آنکھوں کے سامنے نہایت واضح طور پر یہ منظر آگیا کہ
میں نے گویا جاگتے حواس کے ساتھ دیکھ اور سن لیا۔ غنودگی میں کافی دیر تک میری نظر
اپنی ہتھیلیوں پر جمی رہی اور ان تحریروں کے متعلق ندائے غیبی مجھے ہدایات دیتی
رہی۔ جس میں بار بار یہ جملہ دہرایا جاتا کہ ہر نصیب کی تحریر اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی
تحریر میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی تحریر میں بندے کے لئے
خوشیوں کی ضمانت ہے۔ رنج و غم کی حالت میں قانون قدرت کے مطابق اپنے اختیار کو
استعمال کرنے سے خوشیاں دوبارہ بحال ہو جاتی ہیں۔ اپنے اختیار کو استعمال کرنا ہی
تدبیر ہے۔“
کچھ دیر عاقب اور گلبدن دونوں اپنے اپنے
خوابوں کی گہرائی میں ڈوب سے گئے۔اتنے میں فرشتوں نے مژدہ سنایا کہ کچھ
مہمان ناشتے پر حاضر ہونا چاہتے ہیں اس وقت دونوں اُٹھ کر اپنے دوستوں کی
مہمانداری میں مصروف ہوگئے۔ جب مہمان رخصت ہوئے تو گلبدن بولی۔
” پتہ نہیں خضر بابا کب آئیں گے؟ میرا
جی چاہتا ہے میں جلدی سے انہیں اپنا خواب سنا دوں۔“
عاقب تسلی دیتے ہوئے کہنے لگا۔” ذرا
صبر سے کام لو۔ آخر انہیں اور بھی بہت
کام ہوتے ہیں۔ چلو ہم اعراف کی سیر کو نکلتے ہیں۔ ہم شام کو خضر بابا سے ملاقات
کریں گے۔“
دن بھر وہ اعراف کی سیر کرتے رہے ۔ ہر
طرف انسان اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے
دکھائی دیئے۔ اس روز یہ دونوں خضر
بابا کا انتظار کرتے رہے۔
اگلی رات عاقب نے ایک اور خواب دیکھا۔
صبح اُٹھ کر اس نے یہ خواب گلبدن کو سنایا۔ وہ بولا۔
” میں نے خواب میں دیکھا کہ میں حضرت
محمد ﷺ کے متعلق سوچ رہا ہوں۔ تنہائی میں
بیٹھا اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول حضرت محمد
مصطفےٰ ﷺ کی ذاتِ مبارک کے متعلق سوچنے لگا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ
کے اندر کیسی کیسی روشنیاں بھر دی ہیں۔ نہ اس کی ابتدا ہے نہ اس کی انتہا ہے جب
ابتدا کا تصور کریں تو ذہن ایک نامعلوم سفر پر چلنا شروع کر دیتا ہے۔ جس کا تصور ازل کی حیثیت سے ذہن
میں آتا تو ہے مگر اس کی حقیقت کا صحیح اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح ابد کا
خیال بھی صرف تصور ہی کی حد تک محدود رہتا ہے۔ دل میں شدت سے یہ خواہش ابھرنے
لگتی۔ کاش میں ان ساری روشنیوں کو دیکھ
سکوں جن کے علوم علم الاسماء کی شکل میں آدم علیہ السلام کو ودیعت کئے گئے۔
اس خیال کے آتے ہی خضر بابا میرے
سامنے کھڑے دکھائی
دیئے کپڑوں کا عکس چہرے پر پڑنے سے ان کا چہرہ زندگی کی تازگی سے بھر پور دکھائی
دیا۔ مجھے دیکھتے ہی بولے۔” تمہیں اسمائے الہٰیہ کے علوم سیکھنے کا بہت شوق
ہے۔ میں نے زرا افسردگی سے کہا۔ ہاں شوق
تو بے حد ہے۔ مگر کوئی شخص سارے علوم کیسے سیکھ سکتا ہے؟ میرے خیال میں تو تمام
اسمائے الہٰیہ کے علوم جاننے کا خیال بھی دل میں نہ لآنا چاہیئے۔ پتہ نہیں میرے
ذہن میں ایسی بات کیسے آگئی۔ یہ سن کر ان کا گلابی چہرہ اور گلابی ہوگیا۔ وہ ذرا
سختی سے بولے۔ کیوں یہ بات ناممکن کیسے ہے؟ کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں
پڑھا ۔ ترجمہ اور ہم نے آدم علیہ السلام کو اسمائے الہٰیہ کے کل علوم سکھا دیئے۔
حضرت آدم علیہ السلام تمام بنی نوع انسانی کے نمائندے اور تمام بنی آدم کے باپ
ہیں۔ کیا باپ کا ورثہ اس کی اولاد میں تقسیم نہیں ہوتا۔ آدم کا درجہ اسمائے الہٰیہ
کے علوم ہیں اور اللہ تعالی کے قانون وراثت کی روح سے آدم علیہ السلام کی تمام
اولاد اس درجے کی حقدار ہے اور تم دیکھ رہے ہو کہ جس کا جتنا مقدر ہے وہ اس ورثے
سے اپنا حصہ حاصل کر رہا ہے۔ میں نے کہا ۔ آپ ٹھیک کہتے ہیں مگر جب بہت سی اولادیں
ہوں تو ورثہ حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ پھر یہ تقسیم شدہ حصہ کل کیسے ہو سکتا ہے؟
میری روہانسی صورت دیکھ کر وہ ہنس پڑے اور بولے۔ تم اتنی سی بات نہیں سمجھتے کہ
وراثت کا قانون اللہ کا بنایا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وارثوں کے لئے مخصوص حصے
مقرر فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہر قانون
اپنی جگہ مکمل ہے۔ اس کا مقرر کردہ وہ حصہ جو اس نے وارث کے لئے
مقرر کیا ہے
وراثت کا مکمل حصہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قانون کا ہر شعبہ ایک مکمل حیثیت
رکھتا ہے اس شعبے سے باہر اس قانون کی حد نہیں ہے۔ جیسے وارث کے لئے مقرر کردہ حصے
سے زیادہ لینا جائز نہیں ہے۔ یہ مقرر کردہ حصہ اس کی مکمل حدود وراثت ہے۔ اس حد سے
باہر اللہ تعالیٰ کی منع کردہ حدود ہیں۔ لہذا وارث کے لئے اس کا جائز حق ہی کل
جائیداد ہے۔ وارث کے لئے یہ بات درست نہیں ہے کہ وہ اپنے باپ کے کل کو اپنا کل سمجھ لے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ
السلام کو اسمائے الہٰیہ کے کل علوم سکھادیئے۔ کل سے مراد آدم علیہ السلام کا کل
ہے۔ اللہ کا کل نہیں ہے۔ آدم علیہ السلام کے اندر اسمائے الہٰیہ کے علوم سیکھنے کی
جس قدر صلاحیت تھی۔ اس قدر علوم اللہ نے انہیں سکھا دیئے اور آدم علیہ السلام کے
ذہن میں علم الہٰی کی روشنیوں کو جذب کرنے کی جس قدر استعداد تھی ۔ اتنی روشنیاں
ان کے اندر بھر دیں۔ اس سے زیادہ روشنیاں ان
کے مقدور سے زیادہ تھیں۔ جیسے گلاس میں پانی بھرنے کے بعد اگر مزید ڈالا
جائے تو وہ ضائع ہو جاتا ہے جب گلاس پورا بھرا ہوا ہو تو تم کہو گے کہ مکمل بھرا
ہوا ہے۔ اس کے اندر اور گنجائش نہیں ہے۔ اس طرح "کلھا" سے مراد یہ ہرگز
نہیں ہے۔ سمندر سے جب بالٹی بھری جاتی ہے تو سمندر اسی طرح بھرا کا بھرا رہتا ہے۔
ہر انسان اپنی ذات میں ایک مکمل کائنات ہے۔ ہر انسان کی ذات کا نقطہ اللہ تعالیٰ
کی تجلی ذات کا نقطہ ہے۔ اس نقطہ کے اندر اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی روشنیاں کام کر
رہی ہیں۔ ان کے علوم اسمائے الہٰہیہ کی شکل میں انسان کو دیئے گئے
ہیں۔ اگر کوئی فرد اپنے نقطہ ذات کے اندر کام کرنے والی کل روشنیوں کے علوم حاصل
کر لے تو اسے کل اسمائے الٰہیہ کے علوم حاصل ہو جاتے ہیں۔ مگر یاد رکھو! کہ تمہاری
ذات کا یہ نقطہ اللہ تعالیٰ کی تجلی ذات کا نقطہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی وسعتوں میں
لامحدود ہے۔لامحدودیت کا ہر ذرہ اپنی حدود میں لامحدود ہی کہلائے گا۔ جیسے سمندر
کے پانی کا ہر قطرہ پانی ہی کہلاتا ہے۔ سمندر سے ہر قطرہ کو ذات کا تصور پانی کی
شکل میں ملا ہے۔ اسی طرح وحدانیت کا تصور کائنات کے ذرّہ ذرّہ میں کام کر رہا ہے
وحدانیت لامحدودیت ہے۔ لامحدودیت کسی شکل
و صورت اور قانون میں نہیں آسکتی۔ جب روح کے اندر لا محدودیت سے روشنیاں
آتی ہیں تو روح کی نظر ان روشنیوں کو
اپنے تفکر کے سانچے (dye) میں ڈھال کر دیکھتی ہے۔ روح کے اندر اللہ کا
تفکر کام کر رہا ہے۔ اللہ کا تفکر لامحدود اور لامتناہی ہے۔ چناچہ روح کا تفکر
بھی لامحدود ہے۔ اور لامحدودیت کے علوم
بھی لامحدود ہیں۔ ہر شئے کے نقطہ ذات اندر اللہ کا تفکر کام کررہا ہے۔ اللہ اپنی
ہر صفت میں یکتا اور واحد ہے۔ ہر فرد کے اندر اللہ کا تفکر بھی وحدانیت کی اسی صفت
سے آراستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فرد کا ایک اپنا ہی ذہن ہے کسی کا ذہن مکمل طور پر
کسی دوسرے سے نہیں ملتا اور آپس میں نظریات کے اختلاف اور مختلف الذہنی کی بنیادی
وجہ یہ ہے۔“
مجھے ایسا لگا جیسے
میرا ذہن آہستہ آہستہ کھلتا چلا جا
رہا ہے۔ میں نے خضر بابا سے پوچھا ۔
”آپ ہر سوال کا جواب بھی بالکل صحیح دیتے ہیں کیا یہ طریقہ
تعلیم بھی دنیا کی طرح ہے؟“
انہوں نے گہری نظر سے میری طرف دیکھا اور بولے۔” اللہ
تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ۔ ” اللہ کی سنت میں ابد تک کوئی تبدیلی نہیں
ہے“ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو قانون ِ فطرت مادی دنیا میں رائج ہیں وہی قانونِ فطرت
روشنی اور نور کے عالمین میں بھی جاری و ساری ہیں جسے اللہ تعالی نے غیب کی دنیا
کہاہے۔ مادّی دنیا کی ہر شئے مادی خدوخال اور ظاہری شکل و صورت میں ہے اور روشنی یا نور کی ہر شئے روشنی اور نور کی شکل و
صورت میں موجود ہے کیونکہ مادی جسم کی نظر مادے ہی میں دیکھ سکتی ہے اور روشنی یا
نور کے جسم کی نظر روشنی اور نور میں ہی کام کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسمائے
الہٰیہ کے کل علوم اور قانون ِ فطرت کے کل نکات قرآن مجید کے اندر محفوظ ہیں۔ یہ
اُم الکتاب ہے۔ جس کے اندر کائنات کے مکمل علوم ہیں۔ مادّی دنیا میں اسی کے علوم
تمہاری نظر کے سامنے کتاب کی صورت میں تحریر کی شکل میں موجود ہیں۔ تم اسے پڑھ کر
اپنے شعور اور مادی دنیا میں کام کرنے والے قانون کے مطابق معنی اخذ کرتے ہو اس کے
رموز اور اللہ تعالیٰ کی حکمتیں سمجھنے کے لئے تمہیں کسی استاد کا سہارا لینا پڑتا
ہے تاکہ وہ تمہارے ذہن کے مطابق تمہیں معرفتِ الہٰی کی باریکیاں سکھا سکے۔ روشنی
یا غیب کی دنیا میں ہر شئے روشنی کے خدو خال اور صورت میں موجود ہے۔ کلامِ الہٰی
کی تحریر بھی نور اور تجلیوں کی صورت میں موجود
ہے جو لوحِ محفوظ کہلاتی ہے۔ لوحِ محفوظ کے تیس شعبے ہیں۔ ہر شعبہ اللہ
تعالیٰ کے علم و قوانین کا ایک شعبہ ہے جس کے اندر اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے کام
کرتے ہیں۔ جب روح کی نظر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اور اس کے فضل کے ساتھ لوحِ
محفوظ کے اندر کام کرتی ہے تو روح کی آنکھ نور اور تجلیوں کے اندر اللہ تعالیٰ کے
کلام کی تحریر کو دیکھتی ہے اور روح کا شعور اس کے اندر کام کرتا ہے۔ جیسے تمہارا
ذہن کلام پاک کی عبارت پڑھ کر اس کے معنی اخذ کرتا ہے ، جب روح کا شعور کسی نکتے
کو سمجھ نہ سکے تو اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے جن کو کتاب کا علم دیا گیا ہے او ر جو
غیب کی دنیا میں اللہ تعالی کے اذن پر خدمتِ خلق میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے
حکم پر اپنا فرض سمجھتے ہوئے روح کے
ذہن پر اپنا تصرف کرتے ہیں۔ جس سے روح کے شعور کو جلا ملتی ہے
اور وہ کلام ِ الہٰی کی حقیقتوں سے واقف ہو جاتی ہے۔“
یہ کہہ کر انہوں نے
میری آنکھوں میں بہت گھور کر دیکھا ۔ اسی وقت ان کی آنکھوں سے روشنی کی دو لکیریں
نکل کر میری آنکھوں کے اندر داخل ہوگئیں جس کے ادراک سے میری پلک جھپک گئی۔ دوسرے
لمحے آنکھ کھولی تو نظر دور نورانی فضا
میں جاپہنچی مجھے اپنی روح وہاں کھڑی نظر آئی۔ سبز رنگ کے سر سراتے ہوئے ریشم کے
لباس میں وہ جنت کی حور دکھائی دیتی تھی۔ ایک لمحے کو میری نظر اس کے جمال سے
مبہوت ہو کر رہ گئی۔ دوسرے ہی لمحہ ذہن میں
خالق ِ کونین اللہ رب ذولجلال والاکرام کا خیال
آیا۔
فکرِ و جدانی عرش
کے حجابات طے کرتی ہوئی الوہیت کی فضاؤں میں
جا پہنچی۔ مجھے ایسا لگا جیسے میرے محبوب میرے رب کے ضیائے حسن کی ایک ایک
کرن نے رنگین لبادہ اوڑھ لیا اور نظر ان رنگین لبادوں کو اس جمال سمجھ کر اس کے
رعب حسن سے مرعوب ہوئی جاتی ہے۔ میرے محبوب ، میرے رب، میرے آقا کے حقیقی حسن و
جمال تک تو تصور کی بھی رسائی نہیں ہو
سکتی۔ نظر سے دیکھنا تو بڑی بات ہے۔ مجھے ایسا لگا جیسے تمام کائنات کے اندر پھیلی
ہوئی تجلیات ربانی الوہیت کی فضاؤں کی گہرائی
میں سمٹتی جا رہی ہیں۔ اب نظر کے
سامنے اندھیرے کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔ اس اندھیرے نے کائنات کے وجود کو اپنی
تاریکیوں میں گم کر دیا۔ میرے دل سے ایک گہری آہ نکلی۔ سب کچھ میرا رب ہی ہے۔ میرے
رب کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ کسی شئے کا وجود نہیں ہے۔ اسی لمحے نظر کے سامنے
پہلے سے بھی زیادہ روشنی ہو گئی۔ روح کے چاروں طرف روشنیوں کا ہجوم تھا۔ انہی روشنیوں
میں خضر بابا چلتے ہوئے دکھائی دیئے۔ وہ روح کے قریب آئے۔ روح نے نہایت ہی ادب
کے ساتھ انہیں سلام کیا۔ خضر بابا بہت خوش
ہوئے گلے سے لگا کر بولے۔
” آپ تو ہماری بہت پیاری بیٹی ہیں“۔ پھر روح کے سر پر بڑی
محبت و شفقت کے ساتھ اپنا ہاتھ رکھا۔ اور
کچھ پڑھ کر سر پر پھونک ماری اور مسکرا کر بولے۔
” اب آپ کی سمجھ میں
اچھی طرح آجائے گا۔“ روح نے خوشی اور عقیدت کے مارے ان کے ہاتھ چوم لئے اور
محبت سے مسرور ہو کر بولی۔
” خضر بابا! آپ
مجھے بہت ہی اچھے لگتے ہیں ۔“ انہوں نے خوش ہو کر پیشانی چوم لی اور رخصت ہوگئے۔
مجھے روح کی تقدیر پر رشکآنے لگا۔ میں نے کہا۔
”اچھی روح تم کس قدر خوش نصیب ہو کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے
برگزیدہ بندوں کی محبت حاصل ہے۔“
وہ خوشی سے چہکتی
ہوئی بولی۔” سچ مچ میں بہت خوش نصیب ہوں اور اس کے لئے ہر لمحہ اپنے پیارے رب اور
اپنے پیارے رسول ﷺ کا شکر ادا کرتی ہوں اور پیارے رسولِ پاک ﷺ کے پیاروں کا شکر
ادا کرتی ہوں۔ “ پھر وہ دور خلاؤں میں دیکھتے ہوئے بولی۔” سچ پوچھو تو یہ سب کچھ
کبھی کسی رنگ میں اور کبھی کسی رنگ میں نظر کے سامنے آجاتے۔“
اس کے بدن سے نور
کی شعاعیں پھوٹنے لگیں۔ اور وہ آ ن کی آ ن میں میری نگاہ سے اوجھل ہو گئی۔“
گلبدن نے عاقب کا طویل خواب پورا سنا۔ اس کے چہرے پر مسرت
اور تشکر نظر آتا تھا۔ وہ عاقب سے بولی۔
” یہ سب اللہ کا فضل اور رحمت ہے۔ ہمیں اس نعمت پر اللہ کا
بہت بہت شکر ادا کرنا چاہیئے۔ یہ نعمت ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتی۔“
گلبدن کچھ بے چینی سے بولی۔” میں نے بھی ایک خواب دیکھا تھا
میری خواہش ہے کہ وہ خضر بابا کو بھی سنا دوں۔ مگر وہ شاید اپنی تکوینی ذمہ داریوں
میں مصروف ہیں۔ اللہ کرے وہ جلد ہمیں یاد کریں اور میں انہیں اپنا خواب سناؤں۔“
عاقب نے اس کی بات کا جواب ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ دیا۔ عاقب
اور گلبدن اعراف میں بہت ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے لئے ہر دن علم کا
نیا روزن کھولتا تھا ایک روز سیر کےدوران یہ لوگ ایسی آبادی میں پہنچ گئے جہاں ترقی اپنے کمال کو
پہنچی نظر آتی تھی۔ اس بستی میں ایسے
بلند و بالا فلیٹ بنے تھے کہ نظر اُٹھی کی اُٹھی رہ جاتی تھی۔ یہ لوگ ایسی کاریں
اور گاڑیاں استعمال کرتے تھےجن میں اسٹیرنگ نہیں ہوتا تھا اور جسے ذہنی ارداے سے
چلایا جاتا تھا۔ یہاں عاقب کو بتایا گیا کہ ارادہ میں بہت طاقت ہے۔ انسان اللہ کا
نائب ہے۔ اللہ تعالیٰ کا امر ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے ہو
جا اور وہ چیز ہو جاتی ہے۔ مشیت ایزدی کے تحت اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر بھی
ارادہ کی یہی روح پھونک دی۔ دنیا میں
انسانی ارتقاء کی اصل بھی ارادہ ہے۔ جب بندہ کسی کام کی طرف تن من سے لگ جاتا ہے
تو اس کے ارادہ میں یقین کی بدولت نتائج سامنے
آتے ہیں۔ سائنسی ایجادات اور اختر اعات کا فارمولا بھی یہی ارادہ کی قوت
ہے۔
عاقب نے اس بستی میں ایسے لوگوں کو دیکھا جنہوں نے دنیا میں
اس کے ترقی یافتہ زمانے سے بھی زیادہ طاقتور ہوائی جہاز اور میزائل بنا لئے تھے۔ امتداد زمانہ نے
جن کا نام اڑن کھٹولے رکھ دیا۔ اس شہر میں ایسی دانشور قوم آباد تھی جس نے ایسے فار مولے ایجاد کر لئے
تھے جس سے کششِ ثقل ختم ہو جاتی اور ہزار ٹن وزنی
چٹان کا وزن پروں سے بھرے ہوئے تکیہ سے کم ہو جاتا یہ لوگ تعمیرات کے ایسے ایسے
علوم اور ٹیکنا لوجیز سے واقف تھے جو عاقب کی دنیاوی زندگی کی ترقی سے کہیں زیادہ
تھی۔ یہ لوگ انتہائی وزنی چٹانوں کو
ماہرانہ انداز میں نسب کرنے میں اتنے ماہر تھے کہ ان میں ایک سینتی میٹر کا بھی
فرق نہیں آتا تھا۔ دنیا میں اہرام کے موجد یہی لوگ تھے جو عرصہ دراز سے نئے لوگوں
کے لئے معمہ بنے ہوئے ہیں۔ اس لاکھوں سال پرانے شہر میں عاقب نے ایسی قوتیں بھی
دیکھیں جنہوں نے ٹائم اسپیس ختم کر دیا
تھا اور زمین پر رہتے ہوئے اس بات سے واقف ہو گئے تھے کہ آسمان پر فرشتے کیا کام
کر رہے ہیں اور زمین پر کیا ہونے والا ہے؟ وہ اپنی ایجادات کی مدد سے ہواؤں کا رُخ
پھیر دیتے تھے اور طوفان کے جوش کو جھاگ میں تبدیل کر دیتے۔