Topics

(ستائیسویں قسط)

گلبدن اور عاقب نے خوشی اور عقیدت کے مارے خضر بابا کے قدم چوم لئے خضر بابا اور ممی پاپا کے جانے کے بعد گلبدن اور عاقب حضور پاک ﷺ سے ملاقات کرنے کے متعلق باتیں کرتے رہے۔ گلبدن کہنے لگی۔

          ” اگر مجھے حضور پاک ﷺ کو قریب سے سلام کرنے کا موقعہ مل گیا تو میں ضرور آپ ﷺ سے درخواست کروں گی کہ اپنے قدم چومنے کی اجازت دی جائے۔“

          عاقب نے کہا۔ ” حضور پاک ﷺ کے قدم چومنے کی خواہش تو میری بھی ہے اگر حضور پاک ﷺ اس کی اجازات دے دیں تو میرا خواب سچا ہو جائے گا۔ میں نے اپنی دنیا  کی زندگی میں ایک خواب دیکھا تھا۔ شاید میں نے اس کا ذکر بھی تم سے کیا تھا۔ میں نے دیکھا  تھا کہ بڑی سی ایک نہایت ہی روشن قندیل ہے اس کی روشنی انتہائی  شفاف اور لطیف ہے اور قندیل کے اطراف دائرے کی صورت میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس قندیل سے بہت دور تک روشنی ہو رہی ہے اچانک میرے اندر ہی ایک آواز گونجتی ہے۔۔۔ دیدار عطا فرمادیجئے یا رحمت اللعالمینﷺ۔۔۔۔۔ میں اس آواز پر چونک اُٹھتا ہوں اور یہ جاننے کی کوشش  میں کہ  یہ آواز کہاں سے آرہی ہے قندیل کی روشنی کے دائرے سے نظر آہستہ آہستہ قندیل کی طرف سمٹتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ میری نظر قندیل کی بتی کی طرف جاتی ہے۔ پہلی نگاہ میں مجھے جلتی ہوئی بتی اور اس کا شعلہ  دکھائی  دیتا ہے پھر ایک لمحے کے بعد جب نظر اس شعلے پر ٹھہر جاتی ہے تو اس میں سے وہی آواز آتی   ہے۔۔۔ دیدار عطا فرما دیجئے یا رحمت العالمینﷺ۔۔۔ اس آواز پر میری توجہ پوری کی پوری اس جانب ہو جاتی ہے کہ یہ آواز کس کی ہے؟ اب نگاہ دیکھتی ہے کہ اس بتی کے شعلے سے پیدا ہونے والی روشنی انسان کی ایک صورت کی مانند ہے۔اس صورت نے بتی اور شعلے دونوں  کااحاطہ کر رکھا ہے۔ ذہن میں اسی وقت خیال آتا ہے یہ صورت میں ہوں میں آدمی ہوں میں بشر ہوں اور یہ آواز اس بشر کے اندر جلنے والے شعلے سے پیدا ہورہی ہے میری نگاہ بھر پور توجہ کے ساتھ اس شعلے پر مرکوز ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ تیز ہوتی جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ شعلے کی روشنی بھی بڑھتی جاتی ہے اور میرا وجود بھی دائرے کی صورت میں بڑھنے لگتا ہے ساتھ ہی رحمت العالمین ﷺ کے دیدار کا اشتیاق بھی زور پکڑتا جاتا ہے یہاں تک کہ یہ آواز انتہائی  تیز رفتاری پکڑ لیتی ہے۔ میرا وجود پھیلتے پھیلتے قندیل کی روشنی کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے اور بالآخر قندیل کی روشنی کے دائرے کے پھیلاؤ کی آخری سطح کو چھو دیتا ہے اس کے ساتھ ہی دل کا تقاضہ روح کی آواز بن کر زبان پر آجاتا ہے۔ خواب میں ہی میرے منہ پر یہ الفاظ آجاتے ہیں۔” دیدار عطا فرما دیجئے یا رحمت العالمین ﷺ“۔ اور خود اپنی ہی آواز پر میں بیدار ہو جاتا ہوں۔ یہ خواب میں نے شادی سے پہلے دیکھا تھا۔ ممی پاپا سے اس کا ذکر کیا تو پاپا کہنے لگے۔۔۔ بیٹا ! اچھا خواب غیب کی اطلاعات میں سے ہوتا ہے۔ بعض حالات میں یہ اطلاعات دنیا میں ہی عملی طور پر سامنے آجاتی ہے اور بعض وقت مرنے کے بعد اعراف کی زندگی میں لمحات کے یہ نقوش سامنے آتے ہیں۔ جنہیں خواب میں دیکھا جا چکا ہے ۔ پھر دونوں نے مجھے دعا دی کہ اللہ پاک اپنے پیارے رسول ﷺ کی رحمت سے تمہیں رحمت اللعالمینﷺ کا دیدار کرائے۔۔۔“

          گلبدن کہنے لگی۔” ماں باپ کی دعائیں کبھی رائیگاں نہیں جاتیں۔ اللہ ہماری روح کے تقاضے پورے کرنے والا ہے۔“

          پھر وہ خلاء میں دیکھتے ہوئے سوچنے کے انداز میں بولی۔” عاقب مجھے بھی یاد آرہا ہے دنیا کی زندگی میں میں نے بھی نوجوانی میں ایک خواب دیکھا تھا۔ میں نے دیکھا کہ میں سخت پیاسی ہوں۔ پیاس کے بارے میری زبان حلق تک سوکھ رہی ہے۔ میں آسمان پر دیکھ کر کہتی ہوں ۔ یا اللہ! مجھے پانی چاہیئے۔ اسی وقت بارش کی بوندیں برسنے لگتی ہیں اور میں اپنے ہاتھوں میں چلو بھر بھر کے پانی پینے لگی، جب سیراب ہوگئی تو میں نے کہا۔ یا اللہ آپ کا شکریہ اور پھر سے اپنی راہ پر چل  پری۔ میں اپنے کاموں میں اس قدر مگن ہو گئی کہ میرے ذہن سے بھی نکل گیا کہ میں کبھی اس قدر پیاس سے بے تاب تھی۔ اسی دوران میں اپنے اوپر وقتاً وقتاً دیکھتی کہ میرے اوپر پانی کی بوندیں چمٹی ہوئی ہیں۔ یہ دیکھ کر ایک لمحے کو خیال آتا۔ یہ اللہ کی رحمت ہے۔ پھر دوسرے لمحے میں اپنے کام میں مگن ہو جاتی۔ اور اس طرف سے ذہن ہٹ جاتا۔ تھوری دیر بعد ہی پھر مجھے پیاس لگی۔ پیاس بڑھتے بڑھتے اس قدر تیز ہو گئی کہ پھر پہلے کی طرح میری زبان حلق تک خشک ہوگئی اب میری ساری توجہ اپنی پیاس کی طرف چلی گئی۔ میں بے قراری میں اِدھر سے اُدھر پانی تلاش کرنے لگی۔ اتنے میں مجھے خیال آیا کہ میرے بدن پر پانی کی بوندیں چپکی ہوئی ہیں۔ ان سے ہی اپنا حلق تر کر لوں مگر جب بدن پر ہاتھ پھیرتی ہوں تو بدن بھی سوکھا ہے۔ میں پہلے کی طرح آسمان کی طرف دیکھ کر ہاتھ اُٹھا کر پانی کی دعا کرتی ہوں تو وہاں سے بھی خاموشی ہے۔ تشنگی کے عالم میں پیاس کی تکلیف مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ اس بار میری دعا قبول ہونے میں کیوں دیر لگ رہی ہے؟ تب میرا دل مجھے یاد دلاتا ہے کہ پانی کی ہر بوند اللہ کی رحمت ہے۔ اسی وقت میں تپتی زمین پر سجدے میں گر جاتی ہوں اور کہتی ہوں یا رحمت اللعالمین ﷺ میری پیاس بجھا دیجئے۔ ابھی میں سجدے  سے سر اُٹھا  رہی ہوتی ہوں کہ زور دار بجلی چمکتی ہے اور موسلا دھار بارش ہونے لگتی ہے۔ میرے اندر باہر سیرابی کا احساس ہونے لگتا ہے اور میری زبان سے بار بار یہ الفاظ نکلنے لگتے ہیں۔ یا رحمت اللعالمینﷺ۔ یا رحمت اللعالمینﷺ۔ یا رحمت اللعالمینﷺ ۔۔۔ اور اسی آواز پر میں بیدار ہو جاتی ہوں۔“

          عاقب ہر روز خضر بابا کی ہدایات کے مطابق وادی نوم میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتا۔ گلبدن کے ذمہ خضر بابا نے یہ کام لگایا کہ

” ایسے بچے جو دنیا میں پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں یا بالکل کم سنی کی عمر میں فوت ہو جاتے ہیں۔ ان کا شعور دنیا کی بجائے اعراف کے لیول سے شروع ہوتا ہے۔ دنیا میں آدمی اچھے اور بُرے کی تمیز کرنا سیکھتا ہے۔ گلبدن کو یہ ڈیوٹی دی گئی کہ وہ اعراف کے ان بچوں کو اچھائی  اور برائی  کی حقیقت سے آگاہ کرے۔ خضر بابا نے ہدایت دی کہ ” ان بچوں کو بتایا جائے کہ اچھائی  اور بُرائی  روشنیوں کی متعین مقداریں ہیں۔ روشنیوں کی وہ مقداریں جن کو جذب کرنے سے عقل کی روشنی بڑھتی ہے اچھائی  ہیں اور وہ مقداریں جن کے جذب کرنے سے عقل میں روشنی کی بجائے تاریکی پھیل جاتی ہے برائی  ہیں۔ دونوں قسم کی مقداریں آدمی کے حواس میں جذب ہو کر ادراک اور احساس کی سطح پر اپنے اپنے نقوش بناتی ہیں۔ ہر فرد اپنے حواس کے ذریعے ان نقوش کے ساتھ منسلک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اعمال کی اچھائی  اور خرابی سے نفع نقصان اُٹھاتا ہے۔ با لکل اسی طرح جیسے صحت بخش اور سڑا گلا کھاناآدمی کو فائدہ یا نقصان پہنچاتا ہے۔ اعراف کے بچوں کو بھی زندگی کے لئے رہنمائی  کی ضرورت ہے۔“

خضر بابا نے مزید بتایا۔” دنیا کی زندگی میں آدمی انفرادی حیثیت سے آشنا ہوتا ہے۔ وہ پہلے خود کو دنیا کے ایک فرد کی  حیثیت سے پہچانتا ہے اور پھر ہر شئے کی انفرادی نوعیت اور تقاضوں کو جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اعراف کا شعور نوعی شعور ہے۔ جس میں رہتے ہوئے آدمی اپنے نوعی تقاضوں کے ساتھ ساتھ تمام انواع کے نوعی تقاضوں کو پہچاننے کی صلاحیت ابھارتا ہے۔ جو بچے دنیا میں پیدا ہوتے ہی مر جاتے ہیں۔ ان کے شعور کی ابتدا انفرادی شعور کی بجائے نوعی شعور سے شروع ہوتی ہے مگر ماں کے رحم میں حمل کا قرار پآنا انفرادی شعور کی نشانی ہے۔ پس اعراف میں ایسے بچوں کو نوعی اور کائناتی شعور کے  اندر رہتے ہوئے اپنی انفرادیت کو برقرار رکھنا سکھایا جاتا ہے۔“

گلبدن خضر بابا کی لگائی  ہوئی ڈیوٹی سے بہت خوش ہوئی۔ اسے بچوں سےبہت لگاؤ تھا۔ دنیا میں وہ اپنے بچوں کے لئے بہت اچھی ماں ثابت ہوئی تھی۔ یہاں بھی اپنا من پسند کام ملنے پر اس کی روح جھوم اُٹھی۔ وہ بچوں کو ماحول کی مثالیں دے کر سمجھاتی۔ ایک دن وہ سب باغ میں موجود تھے۔ گلشن پر بہار آئی  ہوئی تھی۔ ڈالی ڈالی رنگ برنگے پھول کھلے ہوئے تھے لہلہاتی بہار نے پرندوں میں زندگی کا ولولہ ابھار دیا۔ فضا  سُر اور راگینوں سے سرشار ہوگئی۔ ہوا کے لطیف جھونکے بچوں کے کومل بدن کو گدگدانے لگے۔ سب کے چہروں پر بہار کے رنگ بکھر گئے۔ معصوم بچے جیسے نازک نازک کلیاں۔ گلبدن کے سینے میں ممتا کا طوفان جوش مارنے لگا۔ وہ

بچوں کی طرف پیار سے دیکھتے ہوئے بولی۔” دیکھو بچو! فطرت نے ہر شئے کو کس طرح  اپنی آغوش میں سمیٹ رکھا ہے کہ ہر شئے اس کی آغوش کے گداز سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔ فطرت اپنا  لطف و کرم ہر شئے میں تقسیم کر رہی ہے۔ پھول، پودے، ہوا، پرندے ، انسان ساری مخلوق اپنے اپنے طور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا اظہار کر رہی ہے۔ مخلوق کے ذریعے اپنی نعمتوں کے اظہار کو دیکھ کر اللہ اور زیادہ خوش ہوتا ہے۔۔۔ اور زیادہ کرم و فضل کرتا ہے۔ پھر وہ کرم کے اس رشتے میں خالق اور مخلوق دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ قدرت اس تعلق کو برقرار رکھنے کا پورا پورا اہتمام کرتی ہے وہ اپنی تمام مخلوق کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔ مخلوق پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی ضروریات کے ساتھ ساتھ دوسروں کی ضروریات کا احترام کرے۔ اب اس باغ کو دیکھو، اس کی رونق ان پھولوں سے ہے اگر ہوا کے جھونکے ان پھولوں کو ڈالیوں سے جدا کر دیں تو گلشن ویران ہو جائے گا۔ پرندے اُڑ جائیں گے۔ ہم لوگ اس باغ میں سیر کرنے  نہیں آئینگے۔ اگر آئے بھی تو اس کو دیکھ کر ہمیں خوشی نہیں ہوگی۔ کائنات میں ہر خوشی دوسرے کی خوشی کے ساتھ وابستہ ہے دوسروں کی خوشی کو سمجھنے کے لئے اپنی خوشی کی طرف دھیان دو۔ جس سے تم خوش ہوتے ہو اس سے سب خوش ہوتے ہیں۔ ایک ہی شعور سب کے اندر کام کر رہا ہے۔“

          پھر وہ بچوں کے اندر جذبہ شوق کو اُبھارنے کی نیت سے بولی۔”  بچو! کیوں نہ ہم اس وقت سب تتلی بن جائیں۔ وہ دیکھو وہ جو تتلی تم دیکھ رہے ہو نا۔“ وہ ایک جانب انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے بولی۔ ” اس تتلی کو غور سے دیکھو کس طرح ایک پھول سے دوسرے پھول پر بیٹھتی ہے۔ اس کے قریب جا کر نہ جانے کیا کہتی ہے۔ ہم بھی تتلی بن کر پھولوں کے قریب جاتے ہیں۔ پھر دیکھتے ہیں کہ پھول اور تتلی میں کیا باتیں ہوتی ہیں؟“

          ساے  بچوں کا ذوق شوق ان کی آنکھوں سے چھلکنے لگا۔ وہ سب خوشی سے چلا اُٹھے۔” اے شفیق ماں! ہمیں تتلی بنا دو۔“

          گلبدن نے اپنے  داہنے ہاتھ کو اوپر اُٹھا کر فضاء میں اشارہ کیا۔ اسی وقت اوپر سے ایک سنہری پروں والا جگمگاتا فرشتہ اُڑتا ہوا نیچے آیا۔ اور گلبدن کے قریب ادب سے کھڑے ہو کر سر جھکا کر سلام کرنے کے بعد بولا۔

          ” اے ماہ منیر! میں آپ کے حکم کا منتظر ہوں۔“ گلبدن مسکرا کر بولی۔” سلامتی ہو تم پر اے فرشتے۔ ہم سب کے لئے تتلی والا لباس مہیا کرو۔“

          فرشتہ حکم سنتے ہی اُڑا اور اگلے ہی لمحے وہ پھر فضاء سے اترتا  دکھائی  دیا۔ جیسے ہی اس کے قدم فرش سے لگے۔ اس نے ہاتھوں میں پکڑا خوان گلبدن کی طرف بڑھا دیا۔ گلبدن نے خوان پوش ہٹایا۔ تو اس کے اندر بہت سارے تتلی کے لباس رکھے ہوئے تھے۔ سب نے اپنے اپنے لبا س لے لئے۔ یہ لباس ان کے جسم پر کھال کی طرح منڈھ گئے۔ ان کے لطیف اجسام تتلی کے گلاف میں سمٹ گئے۔ ننھی منی تتلیوں نے گلبدن کو چاروں طرف گھیر لیا۔ ملکہ تتلی اپنی جگہ سے اُڑی اور اس کے پیچھے پیچھے تتلیوں کا پورا غول اُڑنے لگا۔ پہلے انہوں نے پورے باغ کا ایک چکر لگایا۔ فضاء میں اڑنے کا ان کا یہ پہلا تجربہ تھا ۔ ویسے تو وہ اپنے جسموں کے ساتھ ادھر  سے اُدھر آسانی کے ساتھ  اڑتے جاتے تھے۔ مگر انسانی صورت کے علاوہ دوسری صورت میں فضا میں اڑنے کا یہ پہلا موقع تھا۔  تھوڑی سی اڑان کے بعد ہی گلبدن نے یہ جان لیا کہ پروں سے فضا میں پاؤں کا کام لیا جاتا ہے۔ جس طرح زمین پر چلتے ہوئے پاؤں کی حرکات کے ذریعے جسم کو زمین پر کھڑا رکھنے ، دوڑنے اور چلنے کا کام لیا جاتا ہے اسی طرح پروں کے ذریعے فضا میں سفر کیا جاتا ہے۔ اس نے تمام بچوں کو پکار کر کہا۔” اے بچو! تتلیوں کے پر ان کے فضائی  پاؤں ہیں۔ جن کے ذریعے وہ فضا میں اپنے جسم کی حرکات کو کنٹرول کرتی ہے۔ جاؤ اور پھولوں سے دوستی کرو۔ ہر تتلی گلبدن کی آواز پر فضا میں لہراتی ہوئی آ کر کسی نہ کسی ڈال پر بیٹھ گئی۔ گلبدن ایک اونچی سے شاخ پر بیٹھی تتلیوں اور پھولوں کا تماشا دیکھتی رہی۔ اس نے دیکھا کہیں کسی تتلی کے پروں تلے پھول سمٹ رہا ہے اور کہیں کسی پھولوں کی آگوش میں تتلی بیٹھی ہوئی پھول سے رنگ چرا رہی ہے ۔ قدرت کی مضبوط پناہوں میں فطرت کی اٹھکیلیاں جاری  تھیں۔ ملکہ تتلی نے بھی اس اونچی شاخ پر کھلے ہوئے بڑے سے پھول پر اپنے پَر پھیلا دیئے۔” اے گل داؤدی ! کیا تم مجھ سے دوستی کرنا پسند کرو گے۔“

           پھول نے پروں کے نیچے اپنی پتیوں کو جنبش دیتے ہوئے کہا۔” اے گلبدن! نام میں تو ہم دونوں گل ہیں۔ مگر تم میں اور مجھ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آج تم تتلی کے بہروپ میں   میرے قریب ہو کل کسی اور روپ میں میں مجھ سے دور چلی جاؤ گی۔ پھر ہماری دوستی کیسے نبھے گی؟“

          گلبدن کو ایک پھول سے ایسی حکیمانہ باتیں سننے کی توقع نہیں تھی۔ وہ چونک گئی۔ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔” اللہ کی شان ہے۔ ہر ذرّہ اس کی نشانی ہے۔“

          ملکہ تتلی نے اپنے پروں سے پھول کو تھپتھپاتے ہوئے کہا۔” اے گل داؤدی! اس وقت کا ہمارا ملنا ہمارے اختیار میں کب تھا۔ نہ تم مجھے جانتے تھے نہ میں تمہیں پہچانتی تھی۔ وقت نے ہمیں ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کر دیا۔ اللہ کے ارادے کی یہ ڈور جس میں ہم تم بندھے ہیں۔ پھر دوبارہ جب بھی ہلے گی۔ ہم پھر ایک دوسرے کو قریب پائیں گے۔ اللہ بہت بڑا ہے۔“

          خشیئت الہٰی نے پھول کے روئیں روئیں میں ارتعاش پیدا کر دیا۔ وہ عظمت خداوندی کے دبدبے  سےکانپتے ہوئے بولا۔” اے ملکہ تتلی! میری یہ خواہش ہوگی کہ میرا راب بار بار وقت کی اس ڈور کو جنبش دے تاکہ ہم بار بار ایک دوسرے سے ملیں۔“

          وقت تو ستاروں کی گردش کا عمل ہے۔ جب تک ستارے گردش میں رہیں گے۔ ان کی حرکت ان کے عمل کی صورت میں ان کے ساتھ لپٹی رہے گی اور وقت کی اس ڈور میں ستاروں پر بسنے والی تمام مخلوق موتی کے دانوں کی طرح پروئی ہوئی ہے۔ ڈور لپٹتی جاتی ہے۔ وقت گزر جاتا ہے۔ مخلوق کے تقاضے بھوک کی طرح بڑھے چلے جاتے ہیں۔

          عاقب اور گلبدن کے اندر بھی حضور پاک ﷺ سے ملنے کی تمنا بڑھتی چلی گئی۔ وہ روز جب بھی اکٹھے ہوتے کتنی کتنی دیر تک حضور پاک ﷺ کی باتیں ہی کرتے رہتے۔ غیب کے بہت سارے اسرار مرنے کے بعد ان پر کھل چکے تھے۔ مگر فکر ِ تجسس تو لامحدودیت میں غوطہ خور ہے عقل کے اندر سولات کا ایک لامتناہی سلسلہ گزر رہا ہے۔ ایک دن گلبدن عاقب سے کہنے لگی۔

          ” عاقب! حضور پاک ﷺ کے وجود کی نوعیت کس پر ہوگی؟ آخر اس عالم کی رعایا اپنے بادشاہ کو دیکھتی ہی ہے۔ جیسے دنیا میں حضور پاک ﷺ کو لوگوں نے دیکھا۔“

          عاقب کہنے لگا۔” اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر عالم میں حضور پاک ﷺ کا ایک نقش حکمرانی کر رہا ہے۔“

          گلبدن بولی۔” کیوں نہ ہم خضر بابا سے بات کریں۔ وہ ہمیں صحیح جواب دے سکتے ہیں۔“

          عاقب نے فرشتے کے ذریعے خضر بابا کو ملنے کا پیغام بھجوایا۔ خضر بابا نے شام کے وقت دریا کنارے ملنے کا وقت دیا۔ گلبدن خضر بابا کے لئے اپنے باغ سے کچھ پھول لے گئی۔ خضر بابا دریا کے کنارے ایک پتھر پر بیٹھے لہروں کے زیرو بم سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ انہوں نے پیار سے دونوں کو گلے لگایا پھول لے کر بہت خوش ہوئے ۔ پھر دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولے۔

          ”ہاں بھئی اب بتاؤ۔ کیسے یاد کیا؟“

          گلبدن بولی۔” خضر بابا ! حضور پاک ﷺ ساری کائنات کے بادشاہ ہیں۔ تمام عالمین کے لئے رحمت ہیں۔ تو پھر تمام عالمین میں آپ کی موجودگی بھی  یقینی بات ہے ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ مختلف عالمین میں حضور پاک ﷺ کی موجودگی ایک ہی وقت میں کس طرح ظہور میں آرہی ہے۔ قدرت کے تمام مظاہرات کے پس پردہ اللہ تعالیٰ کی سنت کے کچھ قوانین کام کر رہے ہیں۔ ہم ان قوانین کو سمجھنا چاہتے ہیں۔“

          خضر بابا چند لمحے دونوں کی طرف دیکھتے رہے۔ پھر فرمایا۔” اللہ تعالیٰ کی ذات بے شمار صفات   کا مجموعہ ہے۔ صفات   نور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر صفت کی پہچان ایک اسم کے ساتھ کرآئی  ہے۔ اسم بصیر کے نور کے بغیر کائنات اندھی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ہر اسم کائنات کے کسی نہ کسی نظام کا سورس ہے۔ ان نظاموں کا سمجھنے والے شعور و عقل کا نام حقیقت محمدی ہے۔ جو نور کو دیکھنے والی نظر ہے۔ اور نور کو اللہ کے ارادے کے مطابق سمجھنے والی عقل ہے۔ یہ عقل اللہ کے نور کے ساتھ وابستہ ہے۔ جس طرح  تمام عالمین میں اللہ کا نور پھیلا ہوا ہے۔ اسی طرح تمام عالمین میں اللہ کے نور کو دیکھنے والی نظر اور اس کے تخلیقی علوم و ماور اءکو سمجھنے والی عقل کا پھیلاؤ ہے۔ اس شعور کو باعث کائنات فخر موجودات حضرت احمد مجتبیٰ محمد الرسول اللہ ﷺ کا نام دیا گیا ہے۔ ہر عالم میں اللہ تعالیٰ کے مخصوص انوار الہٰیہ موجود ہیں اس عالم میں ان کے انوار کو سمجھنے والی عقل بھی موجود ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ شعور و عقل کے مطابق اسمائے الہٰہیہ کی تخلیقی صفات  کا مشاہدہ کرتی ہے۔ مشاہدہ حق کرنے والی یہ نظر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس ہے اللہ تعالی نے اس حوالے سے اپنے کلام میں مومنین کو حضور پاک ﷺ کے لئے ” انظرنا “ کہہ کر پکارنے کا حکم فرمایا ہے۔ اللہ پاک  کی نظر مشاہدہ حق میں مشغول روح محمدی ﷺ پر ہے۔ پوری کائنات کو اللہ تعالیٰ کے حکم کن سے وجود میں آچکی ہے یہ پوری کائنات ایک ایسی اسکرین ہے جس پر اسمائے الہٰیہ کی صفات  کا مظاہرہ ہے۔ اللہ تعالی کا نائب ہونے کی حیثیت سے اس روح اعظم کی حکمرانی کائنات کے دائرے پر ہے۔“

          خضر بابا نے اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا!

          ” اے میرے بچو! یاد رہے کہ اللہ پاک کا نائب حق کا مشاہدہ کرنے والی نظر ہے۔ تمام نسل انسانی اس نظر کا کوئی نہ کوئی جز ضرور ہے۔ مگر جب تک جز کل کو پہچان  نہیں لیتا۔ اسے کل تک رسائی  نہیں ہوتی۔ اس کی  حیثیت ایک نوزائیدہ بچے کی سی ہے۔ جو ابھی  اپنی ماں کو نہیں پہچانتا۔ کائنات کی روح اعظم اور اپنے رب کا مشاہدہ کرنے والی اس نظر کو اللہ تعالی نے بہت سے نام عطا کئے ہیں۔  یہ تمام  مقدس نام اس روح اعظم کے ادراک کے دائرے ہیں۔ جنہیں اللہ پاک نے عالمین کا نام دیا ہے۔ ہر عالم اللہ پاک کے نور کا ایک  عالم ہے۔ اس عالم میں روح اعظم نور کو جن حواس کے ساتھ پہچان رہی ہے ادراک و شعور اس عالم کا حکمران ہے۔ یہ حکمران ہستی باعثِ کائنات ، شہنشاہ دو جہاں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ عالم ناسوت روح اعظم کے ادارک کا ایک دائرہ ہے۔ اس عالم کے ادراک کل کا نام حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ یعنی عالم ناسوت میں بسنے والی ہر شئے حضور پاک کو حضرت محمد ﷺ کے نام سے اپنے حکمران و بادشاہ کی  حیثیت سے پہچانتی ہے۔  انسان ، پیڑ، پودے، جانور غرضیکہ ہر شئے حضور پاک ﷺ کو اس  نام سے پہچانتی ہے۔ عالم اعراف روح کے ادراک کا دوسرا عالم ہے۔ اس عالم میں نور کا پھیلاؤ اللہ پاک کی مختلف صفات   کے ساتھ ہے ان صفات    کا ادراک کرنے والی ہستی کا نام ” یٰسین“ ہے جو عالم اعراف کی حکمران ہستی ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات   میں کوئی تبدیلی نہیں ہے اسی طرح حضور پاک ﷺ کی ذات  و ادراک میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ آپ ﷺ کی ذات اقدس کا پھیلاؤ  رحمت اللعالمین ﷺ کے نام سے ساری کائنات کے دائرے میں ہے۔ اس دائرے میں آپ ﷺ کی روح اور اس کے دائرے  نور کے عالم ہیں۔ نور اللہ تعالیٰ کی صفات  ہیں اور ادراک روح کا اس نور کو جذب کرنا ہے۔ عالم ناسوت کے دائرے میں کام کرنے والے اسمائے الہٰیہ کے انوار کو اللہ تعالیٰ کے ارادے کے مطابق پورے کا پورا جذب کرنے والی ہستی حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔ اللہ پاک نے آپ ﷺ کے لئے فرمایا ہے کہ ” اللہ تعالی نے آپ ﷺ پر اپنے دین کی تکمیل کر دی۔“ دین سے مراد اس عالم میں کام کرنے والے نور کی صفات   ہیں۔ کائنات کے دائرے میں جہاں جہاں عالم نا سوت کا وجود ہے۔ آپ ﷺ حضرت محمد رسول اللہ ﷺکے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ اسی طرح جہاں جہاں اعراف کا وجود ہے اعراف کے تمام عالمین میں آپ ﷺ ” یٰسین “ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔“

٭٭٭


Qandeel

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی