Topics
آگے بڑھتے بڑھتے میں اٹلائنٹا سٹی امریکہ میں داخل ہو جاتا
ہوں۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے میری رہنمائی کی۔ چند دنوں میں مجھے کاسا بلانکا سے امریکہ
کے لئے شپ مل گیا۔ اٹلا نٹاسٹی میں میری دوستی ایک ایسے شخص سے ہوئی جو کمپیوٹر
ڈیزائن کرتا تھا۔ اس نے مجھے بھی کمپیوٹر چلانا سکھا دیا اور اپنا ڈیزائن کیا ہوا
ایک کمپیوٹر مجھے بھی دیا۔ میں روزانہ اپنے فالتو وقت میں اس سے کھیلتا رہتا۔ کچھ
عرصے بعد اچانک ایک دن جب میں کمپیوٹر پر بیٹھا تھا۔ میرے ذہن میں کوئی مخصوص
پروگرامنگ اترنے لگی۔ میں نے وہ تمام پروگرامنگ کمپیوٹر پر اتار لی۔ میں خود اسے
دیکھ کر حیران رہ گیا کیونکہ یہ تمام وہی باتیں تھیں جو مجھے موت والے عالم میں
ٹریننگ دی گئی تھی بلکہ یہ مجھ پر اور
زیادہ واضح ہوگئی۔ اس پروگرامنگ کے حساب سے مجھے برمودا جانا تھا۔ میں نے پھر رات کو مراقبہ میں اس کے متعلق گائیڈنس لینے کی کوشش کی۔ مجھ
پر انکشاف ہوا کہ خاص راتوں میں کسی رات کو تکوینی سربراہوں کی میٹنگ ہوتی ہے۔ میں
نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے جو کام لینا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے وسائل و ذرائع
بنا دے۔“
”رحمٰن بابا آپ کی توجہ سے میرا یہ مسئلہ اس طرح حل ہوا کہ
اس روز رات گئے جب میں مراقبہ کر رہا تھا تو اچانک خضر بابا میرے سامنے اگئے۔ ان
کے ہاتھ میں وہی روشن قندیل تھی۔کہنے لگے۔” تیرا انتظار ہو رہا ہے اور تو ابھی تک
یہیں ہے۔ میرے ساتھ آ۔“ یہ کہہ کر خضر بابا نے میری طرف خالی والا ہاتھ بڑھایا۔
میں نے غیر ارادی طور پر اپنا ہاتھ بڑھایا ۔ جیسے ہی میرا ہاتھ خضر بابا کے روشنی
کے ہاتھ سے ٹچ ہوا۔ مجھے بہت زور دار جھٹکا لگا اور میرے حواس ایک دم ہی بدل گئے۔
میں نے اپنے آپ کو روشنی کے جسم میں دیکھا۔
خضر بابا کی طرح میرا جسم بھی بہت ہی روشن اور لطیف تھا۔
میں خضر بابا کا ہاتھ پکڑے قندیل کی روشنی کے راستے پر چلنے لگا۔ مجھے یوں لگا جیسے ہم پانی پر چل رہے ہیں۔ جب ہم بیچ
سمندر میں پہنچے تو آسمان سے ایک روشنی کی
بیم آئی اور اس بیم نے ہم دونوں کو اُٹھا
لیا۔ ہم اس روشنی کی بیم میں تھوڑی دور ہی گئے ہوں گے کہ ایک جگہ جا کر یہ بیم رک
گئی اور ہم دونوں اس روشنی سے باہر نکل
آئے۔ خضر بابا نے پھر میرا ہاتھ پکڑ لیا اور نہایت تیز رفتاری سے داہنی جانب چلنے
لگے۔ ہم جلد ہی ایک ایسی جگہ پہنچ گئے۔ جہاں کوئی بڑی سی میٹنگ یا کانفرنس ہو رہی
تھی۔ اس میٹنگ میں مجھے آئندہ زندگی کے لئے پلان دیا گیا اور بتایا گیا کہ مزید
تربیت کے لئے فلاں بندے کے پاس جانا
ہوگا۔۔ پہلے تمہیں رحمٰن بابا کے پاس پہنچنا ہے۔ پھر وہ تمہیں اس بندے کے پاس
بھیجیں گے۔ اس طرح میں یہاں آگیا۔ اب جو آپ کا حکم ہوگا اس کے مطابق کام ہوگا۔
تکوینی میٹنگ میں جو پلان دیا گیا ہے وہ میں آپ
کو علیحدگی میں بتانا چاہوں گا۔“
سب بڑے انہماک سے مرزوق کی کہانی سن رہے تھے۔ رحمٰن بابا نے
سب کی طرف دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں تفکرانہ گہرائی تھی۔ ان کی آواز سمندر کی گہرائی سے نکلتی سنآئی دی۔
” ارے میرے بچو! اللہ تعالی کے اسمائے الہٰیہ کی صفات روح کا ادراک ہے۔ اسمائے الہٰیہ کے انوار روح کے اندر موجود ہیں۔ جب روح کے ارادے میں
تحریک ہوتی ہے۔ روح کے ارادے کو یہ تحریک اللہ تعالیٰ کے امر سے مل رہی ہے۔
لامتناہیت کے عالم میں اللہ تعالی کے ارادے کی ڈور میں جنبش ہوتی ہے۔ اللہ کے
ارادے کی ڈور سے روح کا ارادہ منسلک ہے۔
اللہ کے ارادے کی جنبش روح کے ارادے
میں منتقل ہو جاتی ہے۔ روح اللہ تعالیٰ کے
امر کو جان لیتی ہے۔ روح کا ادراک یا روح کا شعور اللہ کے امر کی وسعتوں کو سمندر
کی طرح پھیلا ہوا دیکھتا ہے اور اللہ تعالی کے امر کی گہرائیوں میں اس کی حکمتوں
اور مشیتوں کے انمول خزانوں کا اس پر انکشاف ہوتا ہے۔ اللہ نے شعوری طور پر سمندر
میں داخل کر کے تمہیں امرِ ربی کی وسعتوں
اور اس کی گہرائی میں چھپی ہوئی حکمتوں سے
واقفیت دلآئی ہے۔ جن امور کی ادائیگی کے
لیے تمہیں خصوصی طور پر چنا گیا ہے ۔ اے میرے بچے! کائنات کی ہر شئے روح کے ادراک
کی کوئی نہ کوئی صورت ہے۔ امر الہٰی کی
وسعتوں کے پھیلاؤ اور اس کے اندر کام کرنے والی حکمتوں کو روح کی نظر سمندر اور
سمندر کے اندر کے خزانوں کی صورت میں دیکھتی ہے۔ یہی صورتیں کائنات کے وہ ازلی
نقوش ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی مشئیتوں
اور حکمتوں کے اسرار چھپے ہیں۔ روح کا شعور ان اسرار کی کھوج میں لگا رہتا ہے۔ روح
کی یہی کھوج روح کی نگاہ شعور میں محفوظ ان نقوش کو کائنات کے خلاء میں داخل کر دیتی ہے۔ خلاء کا کا ہر ذرّہ روح کی روشنی کو
قبول کر کے ان نقوش کو تخلیقی ڈآئی مینشن
عطا کرتا ہے۔ یہاں تک کہ نظر کی آخری حد پر روح کے ادراک کا نقش آنکھ کے سامنے
ظاہری صورت میں نمودار ہو جاتا ہے۔ روح کی نظر اس آخری حد سے پھر واپس اپنے مرکز
پر پہنچتی ہے اور شئے کی مادی تصویر سے پھر روحانی ادراک کے نورانی نقش کی طرف
متوجہ ہو جاتی ہے اور نقش اللہ کے امر کی ایک تخلیق ہے۔ جو امرِ ربی یا روح کے
ذریعے سے عمل میں آرہی ہے۔ روح اللہ تعالیٰ کے امر کے تخلیقی امور پر کام کر رہی
ہے۔“
رحمٰن بابا کے فکر کے سمندر کی گہرائی سے نکلتی آواز سب کی سوچ کے تالاب میں کنکریاں
بن کر گرنے لگی۔ ان کے حواس کے تالاب کی سطح پر بننے والے دائروں میں تصور کے نقوش
ابھرنے لگے۔ نازک نازک، کومل کومل، روح کے رنگوں میں رنگین معصوم فطرت ، عشق کے
مدھر سازوں پر دلوں کے آئینے میں بے نقاب ہو گئی۔ جب دل کی نظر کھلتی ہے تو جسم کی
آنکھ بند ہو جاتی ہے۔ جب باطن کی آواز ابھرتی ہے تو لب خاموش ہو جاتے ہیں۔ جب
محبوب جلوہ گر ہوتا ہے تو ہر فکر محبوب کے تصور میں سمٹ جاتی ہے۔ دل ، نگاہ، ذہن ، حواس حتیٰ کہ ساری کائنات
ایک نقطے میں سمٹ آتی ہے۔ اللہ کے نور کے
نقطے میں ھو کی صدا روح بن کر اپنے وجود کے خلاء میں بازکشت کرتی رہتی ہے۔ اللہ۔ اللہ۔اللہ۔اللہ کے سوا اور کسی
کا وجود نہیں ہے۔ کائنات کا ہر وجود ایک خلاء ہے۔ خلاء کچھ نہیں ہے۔ اللہ نور ہے۔
نور سب کچھ ہے۔ خلاء نور سے روشنی کے عکس لے کر اپنے وجود کے انکار کو اس کی ہستی کے
اقرار سے پُر کرتا رہتا ہے اور کائنات کے خلاؤں میں اللہ ھو کی صدائیں ابھرنے لگتی
ہیں۔ اللہ جو حقیقت اولیٰ ہے۔ جو حقیقتِ اعلیٰ ہے۔ حقیقت اولی کا اعتراف کر رہی
ہے۔ مرشد کی روح کا نور مرید کے باطن کے خلاء کو نفی سے اثبات میں تبدیل کر دیتا
ہے۔
آخر میں ثقلین نے اپنی کہانی اس طرح شروع کی۔” رحمٰن بابا !
میں آپ کی دعاؤں کے سہارے گریس پہنچا۔ اپنی گزشتہ زندگی میں مجھے یونانی فلسفے سے
بڑی دلچسپی تھی۔ میں نے پڑھا تھا کہ ان کے دو سو زیادہ دیوتا ہیں اور ہر ایک کے
الگ الگ نام ہیں۔ کیوپڈ۔ اپالو۔ زیورس اور ہندو مت کی طرح ان کے یہاں بھی ہر شعبے
کا ایک الگ دیوتا ہے۔ جنگ کا دیوتا ، محبت کا دیوتا، دولت کا دیوتا، رحم کا دیوتا۔
ان دنوں میں سوچتا تھا کہ پیغمبروں نے تو ہمیشہ ہی ایک خدا کا تعارف لوگوں سے
کروایا پھر فکر توحید نے انسان کے ذہن میں فکر کثرت کا روپ کیسے دھار لیا؟ ایک
دفعہ یہی سوال میں نے اپنے باپ سے کیا۔ وہ کہنے لگے۔ بیٹا! انسان کے اندر دور کرنے
والی زندگی بہت سارے تقاضوں کو جنم دیتی
ہے۔ محبت کا تقاضہ ۔رحم کا تقاضہ۔ جنگ کا تقاضہ۔ دولت کا تقاضہ۔ نیند کا تقاضہ۔
خوشی کا تقاضہ۔ پرستش کا تقاضہ وغیرہ وغیرہ۔ خالقیت کا دوسرا رُخ ربوبیت ہے۔ تخلیق
کرنے والا اپنی تخلیق کو پالتا بھی ہے۔ زندگی جن تقاضوں کو انسان کے اندر جنم دیتی
ہے۔ ان تقاضوں کی تکمیل کے لیے وسائل فراہم کرتی ہے۔ زندگی اللہ کی جانب سے ہے۔
آدمی کی نگاہ جب تقاضوں کی تکمیل کے وسائل کی طرف جاتی ہے تو وہ ان وسائل کو اپنا
خدا مان لیتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ زندگی اور زندگی سے متعلقہ تمام شعبوں کا
خالق اور رب ایک ذاتِ واحد ہے۔ وہ اللہ ہے۔ وہ خالق بھی ہے اور وہ رب بھی ہے۔
کائنات کے تمام امور اللہ ہی کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔
میں گریس میں
ایتھنز میں رہا۔ ایتھنز میں قدیم کھنڈرات
ہیں۔ میں چند دن تک ان کھنڈرات میں گھومتا رہا۔ بڑی دور دور سے لوگ ان کھنڈرات کو
دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ ایک شام ان
کھنڈرات کے بڑے بڑے ستونوں کے درمیان ایک ستون سے ٹیک لگائے میں بیٹھا تھا۔ سورج
ڈوب رہا تھا، دونوں وقت گلے مل رہے تھے، میری نگاہ افق پر لگی ہوئی تھی جہاں دن کا
اجالا گلے ملتے ملتے آہستہ آہستہ رات کے سینے میں اترتا جا رہا تھا۔ میرے ذہن میں
رحمٰن بابا کی آواز گونجی۔” جب دو شعور ذات کے نقطے پر ایک دوسرے سے باہم ملتے ہیں
تو ذات کی کشش دونوں کی روشنیوں کو اپنے اندر کھینچ لیتی ہے یہاں تک کہ دونوں شعور
اپنی انفرادیت کھو دیتے ہیں اور ذات کی روشنیوں میں جذب ہو جاتے ہیں۔ ذات خالق ہے۔
نقطہ ذات سے ایک تیسرا شعور جنم لیتا ہے۔ میں نے دیکھا اجالے اور اندھیرے کے افق
پر ملنے سے رات جنم لے رہی ہے۔ افق ماں کا وہ رحم ہے جہاں دن کے کے دونوں کنارے
باہم ملتے ہیں۔ اس وقت میرا دل اللہ کا کلام دہرانے لگا۔” ہم دکھائیں گے انہیں
اپنی نشانیاں آفاق اور انفس میں۔ ” آج میں جان گیا کہ ہر روز دن طلوع ہوتا ہے اور
ہر روز رات آتی ہے۔ وہی دن وہی رات اسی
طرح اجالا اسی طرح اندھیرا۔ پھر ہر دن ہمارے اندر نئے پن کا احساس کہاں سے لاتا ہے؟
بلا شبہ ہر شئے اللہ کی صفتِ خالقیت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ اندھیرا اجالا باہم مل
کر دن رات کی تخلیق کر رہے ہیں۔۔ اس میں
کوئی شک نہیں کہ اللہ احسن الخالقین ہے۔ میرا دل میری پیشانی کے ساتھ بار گاہ
ایزدی میں سر بسجود ہو گیا۔
اس شام کے بعد میری ہر شام ان کھنڈرات میں گزرنے لگی۔ میں
سوچتا ماضی کی نشانیوں کو محفوظ رکھنے میں اللہ تعالیٰ کی زبردست حکمت ہے تاکہ
موجودہ شعور اپنے آپ کو اپنے آباؤ اجداد کے شعور سے الگ نہ سمجھے بلکہ جان لے کہ
ہر زمانے کا موجودہ شعور اپنے آباؤ اجداد کے شعور کی ایک نئی تصویر ہے۔ روز رات کو
میں ان کھنڈرات کے اونچے اونچے ستونوں کے درمیان بیٹھ کر یہ سوچتا کہ جانے ماضی کا
شعور موجودہ نسل کو کیا کہہ رہا ہے۔ وہ جو موت کے پردے میں داخل ہو کر غیب کی
راہوں کے سنگِ میل بن گئے۔ کیا ہمارے لئے ان راستوں پر رہنمائی کر رہے ہیں؟ اس رات میں اپنے ٹھکانے پر جانے کے
بجائے وہیں پڑ کر سو گیا۔ علی الصبح آنکھ کھلی۔ نماز و مراقبہ سے فارغ ہوا تو سورج
طلوع ہو رہا تھا۔ سورج ایک ایک شعاع کی صورت میں اپنی روشنیوں کو باہر نکال رہا
تھا۔ روشنی کی چکا چوند نے میری
آنکھیں بند کر دیں۔ غروپ آفتاب کا
منظر نظروں کے سامنے آگیا۔ اب انہیں شعاعوں کو سورج ہر طرف سے اپنے اندر سمیٹ رہا
تھا۔ سورج کا گولا سورج کی ذات ہے۔ میرے اندر کی آواز نے مجھے اطلاع دی۔ روشنی ذات
کی صفت ہے۔ جب سورج کی روشنی شعاعوں کی صورت میں پھیل جاتی ہے تو ذات اپنی ہی
روشنی میں چھپ جاتی ہے۔ اسی طرح صفات
الہٰیہ ذاتِ باری تعالیٰ کا حصہ ہیں۔ جب صفات الہٰیہ کا ظہور ہوتا ہے تو ذات پردے میں چلی جاتی ہے۔ صفات ذات کی پہچان ہیں۔ میرے دل میں ذات کا نقطہ
سورج کی طرح روشن ہو گیا اس کے اندر سے روشنی کی شعاعیں پھیلنے لگیں۔ میرا سل
اسمائے الہٰیہ کا ورد کرنے لگا۔ میں نے دیکھا کہ نقطہ ذات کی روشنی کے پھیلاؤ کے
ہر دائرے میں ایک عالم آباد ہے۔ نگاہ ان
عالمین کی چکا چوند میں گم ہونے لگی اس وقت دل سے صدا بلند ہوئی۔ اللہ ھو اور نقطہ
ذات کی ساری شعاعیں اپنے پھیلاؤ سے ذات کے نقطے میں سمٹنے لگیں۔ ذات کے رخ سے آہستہ آہستہ نقاب ہٹنے لگا۔ دل کی ہر
دھڑکن پر اللہ کا نام تھا۔ پھر میرے دل میں تیزی سے خیالاتآنے لگے۔ پیغمبرانِ علیہ
السلام اللہ کی صفات کا نمونہ بن کر دنیا
میں آئے۔ انہوں نے دنیا والوں کو اللہ سے متعارف کرایا۔ دنیا مظاہرات کی چکا چوند میں ذات کو بھول گئی اور
ذاتِ خالق کی صفات کو بتوں کی صورت میں
ڈھال دیا اور ہر بت کے ساتھ پرستش کے تصور کو وابستہ کر دیا۔ میں سوچنے لگا بھلا
پوری پوری قوم اپنے ذہن کو اتنا کنفیوز کیسے کر لیتی ہے کہ پھر اس میں سے نکلنا اس
کے لئے مشکل ہو جاتا ہے۔ بھلا ذات کو چھوڑ کر صفات کا تذکرہ کیسے ممکن ہے؟
اس کے بعد میرا زیادہ وقت لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے اور
نظریہ توحید کو پھیلانے کی کوشش میں گزرا۔ میں نے محسوس کیا کہ آج کل کے لوگ نظریہ توحید کو مان لیتے ہیں اور دل ہی دل میں اس پر یقین بھی کرتے
ہیں۔ مگر وہ اپنی معاشرتی زنجیر سے علیحدہ ہونا پسند نہیں کرتے۔ میں ان سے یہی
کہتا ہوں کہ فطرتاً ہر نوع اپنے گروپ میں رہ کر ہی خوش رہتی ہے۔ مگر اپنے گروپ میں
رہتے ہوئے بھی آدمی اپنی انفرادیت کو دوسروں سے جدا گانہ طرز پر قائم رکھ سکتا ہے۔
معاشرے کی صرف ان برائیوں کو چھوڑنا پڑتا
ہے جنہیں اللہ نے چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ بہرحال ان تین سالوں میں وہاں کے لوگوں کے
اندر کافی حد تک روحانی بیداری اگئی اور اب وہ حقیقت کی تلاش میں ہیں۔“
تین چار دن بعد رحمٰن بابا نے سب جوانوں کو بلایا اور انہیں
ہدایت دی کہ وہ سفر کے لئے تیاری کر لیں۔ اس مرتبہ سب لوگ رحمٰن بابا کے ساتھ عمرہ
کریں گے۔ سب کے چہرے کھل گئے کہ رحمٰن بابا کے ساتھ عمرہ کرنے میں اور بھی مزہ آئے
گا۔ گلبدن کے چہرے پر بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ رحمٰن بابا نے عاقب کی طرف دیکھ
کر کہا۔ ”عاقب بیٹے! دلہن اور بچوں کو ان کے باپ کے پاس بستی میں چھوڑنا ہوگا۔
ابھی یہ ننھے منے بچے لمبی سیر و سیاحت کے لئے موزوں نہیں ہیں۔“
ایک لمحے کو عاقب کا چہرہ اتر گیا اور گلبدن فوراً بول
پڑی۔” یہ سعادت تو کسی کسی کو ملتی ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ قدرت نے عاقب کے دامن میں
اپنی بہت سی سوغات ڈال دی ہے۔“ عاقب کا اترا ہوا چہرہ پھر سے شاداب ہو گیا۔ اس نے
تشکرانہ نگاہ سے گلبدن کو دیکھا اور رحمٰن بابا کی طرف متوجہ ہوا۔” ہمیں یہاں سے
کب چلنا ہوگا؟“ رحمٰن بابا بولے۔” بس تین دن میں ہمارا سفر شروع ہو جائے گا۔ تم آج
شام ہی دلہن اور بچوں کو لے کر بستی میں چلے جاؤ۔ سب سے مل کر بھی آنا۔ کیونکہ
ہمارا سفر لمبا ہوگا؟“ عاقب گلبدن اور بچوں کو لے کر سہ پہر کو ہی روانہ ہو گیا۔ قدرت
اللہ اور بستی کے لوگ گلبدن اور بچوں کو دیکھ کر بڑے خوش ہوئے اور عاقب کو اس
بابرکت سفر کی مبارکباد دی۔ گلبدن کے ساتھ نہ جانے کا انہیں افسوس بھی تھا مگر سب
جانتے تھے کہ اللہ کے کاموں میں چوں چرا ں
کی گنجائش نہیں ہوتی۔ دوسرے دن عاقب اپنے بال بچوں سے رخصت ہو کر رحمٰن بابا کے
پاس چلا آیا۔
چلنے سے پہلے رحمٰن بابا نے زمان خان کو تقریباً دو گھنٹے
اپنے پاس بٹھا کے ضروری ہدایات دیں۔ پھر چلتے وقت اس سے اس طرح گلے ملے جیسے یہ الوداعی رخصت ہے۔ اس
دن ہر ایک سے نہایت ہی محبت و شفقت کے ساتھ رحمٰن بابا ملے۔ ہر چھوٹے بڑے کو گلے
لگایا، چوما، خوش رہنے کی تلقین کی اور پھر عاقب اور غار والے جوانوں کے ساتھ رختِ
سفر باندھ لیا۔ سب سے پہلے مکہ شریف پہنچے عمرہ ادا کیا۔ پھر مدینہ شریف میں حاضری
دی۔
مدینہ شریف میں حاضری کے تیسرے دن مغرب کی نماز کے بعد ابھی رحمٰن بابا اور سب جوان
بیٹھے تھے کہ ایک شخص نہایت پُروقار چال
میں چلتے ہوئے رحمٰن بابا کے پاس آئے اور انہیں ” السلام علیکم رحمٰن بابا“ کہہ کر
جھک کر سلام کیا۔ پھر ایک پرچہ ان کے ہاتھ میں تھما دیا اور نہایت ادب کے ساتھ سر جھکا کر آہستہ سے فرمایا۔” میرے
لائق کوئی خدمت ہو تو میں حاضر ہوں۔“
رحمٰن بابا نے مسکرا کر ہاتھ کے اشارے سے ان کا شکریہ ادا
کیا اور اسی وقت رقعہ کھول کر ایک نظر اس پر ڈالی ۔ پھر فرمایا” تم جا سکتے ہو“
وہ صاحب چلے گئے تو رحمٰن بابا نے جوانوں سے کہا۔” ہمیں صبح
فجر کے بعد بغداد کے لئے روانہ ہونا ہے۔ عاقب اتابک کو لے کر ایئر ٹریول ایجنسی کے
پاس آیا تاکہ صبح کی ٹکٹیں بک کرالے۔ ان
دنوں یہاں لوگوں کا اتنا رش نہیں تھا۔ عاقب نے اتابک سے کہا۔” رحمٰن بابا نے فجر
کے بعد سفر کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ ان کے ارادے میں ضرور
کامیابی دے گا۔“ ٹریول ایجنسی کے پا س آئے تو نہایت ہی آسانی کے ساتھ اسی وقت
انہیں بغداد کی ڈائریکٹ سیٹیں مل گئیں۔ صبح نو بجے کی فلائٹ تھی۔ جب وہ واپس مسجد
ِ نبوی ﷺ میں آئے کہ رحمٰن بابا کو سیٹیں بک ہونے کی خوشخبری سنا دیں۔ تو وہاں صرف
ثقلین بیٹھا ہوا تھا۔ کہنے لگا باقی ساتھی رحمٰن بابا کے ساتھ گئے ہوئے ہیں۔ تھوڑی
دیر میں رحمٰن بابا آگئے۔ ان کے ہاتھ میں دو نئی احرام کی چادریں تھیں۔ رات کو
انہوں نے پرانی چادریں اتار کر نئی چادریں پہنیں اور پرانی چادریں عاقب کو دے دیں۔
عاقب نے انہیں عقیدت سے سینے سے لگایا اور چوما۔ عشا ء کے بعد روضئہ مبارک پر جا کر نہایت ہی عاجزی کے
ساتھ رخصت طلب کی۔ بہت دیر روضئۃ مبارک کے قریب کھڑے ہو کر عجز و عاجزی کرتے رہے، پلکوں پر سارا وقت آنسوؤں کی جھڑی
لگی رہی، یہاں تک کہ مسجد ِ نبوی ﷺ کے دروازے بند ہونے کا وقت آگیا۔ اس رات تمام
وقت رحمٰن بابا مسجد کے صحن میں گنبد خضرا کے ساتھ سامنے بیٹھے رہے۔ ایک منٹ کمر
سیدھی نہیں کی۔ حا لانکہ عاقب نے انہیں
ایک دو مرتبہ کہا بھی کہ ” حضور صبح سفر بھی کرنا ہے کچھ یہیں آرام کر
لیں۔“ آبدیدہ سے ہو کر فرمایا۔
” بس اب آرام ہی آرام ہے۔ ارام ہی آرام ہے۔“ پھر کسی نے
انہیں کہنا مناسب نہ سمجھا کہ اللہ اپنے بندوں پر اپنے اسرار نازل کرتا ہے۔ کون
جانتا ہے اس وقت اللہ اور اس کے بندے کے درمیان کیا معاملہ چل رہا ہے۔ فجر کی نماز
پڑھ کر ناشتہ کیا اور
حضور
پاکﷺ سے رخصت ہو کر سفر کے لئے روانہ ہو گئے۔ جاتے وقت احرام کی نئی چادروں
کو اُتار کر بڑے اہتمام سے خود تہہ کر کے اپنے سامان میں رکھیں۔ راستے بھر خلافِ
معمول رحمٰن بابا بالکل خاموش تھے۔ ان کے نورانی چہرے میں سرخی کی بجائے سفیدی
جھلکنے لگی۔ عاقب اور اس کے ساتھی بھی چپ چاپ رحمٰن بابا کی اس بدلی بدلی حالت کو
دیکھتے رہے اور سوچتے رہے کہ ہر تبدیلی ضرور کسیآنے والے واقعہ کا پیشِ خیمہ ہوتی
ہے۔ شام تک وہ بغداد پہنچ چکے تھے۔
عاقب نے کہا۔” رحمٰن بابا کیا یہاں ہوٹل بک کر لیا جائے۔“
رحمٰن بابا نے فرمایا۔” نہیں ابھی اسی وقت غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک
پر چلو۔“
وہاں ابھی سلام کر کے بیٹھے ہی تھے کہ وہی شخص جو مسجد نبوی
ﷺ میں رحمٰن بابا کے پاس رقعہ لے کر آیا تھا، دوبارہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو اور
ایک اور رقعہ آپ کے ہاتھ میں تھما دیا۔ رحمٰن بابا نے پڑھا اور ہاتھ کے اشارے سے
جانے کو کہا۔ وہ فوراً چلا گیا۔ اس شخص کو یہاں دیکھ کر سارے چونک گئے۔
عاقب نے رحمٰن بابا سے پوچھا۔” حضور یہ کون ہیں؟“
رحمٰن بابا نے کہا۔” یہ صاحب خدمت میں سے ہیں۔“ اور اس سے
آگے کچھ نہیں بتایا۔
ابھی پانچ منٹ ہی گزرے تھے کہ ایک بزرگ تشریف لائے یہ پچاس
پچپن کے لگ بھگ ہوں گے۔ آتے ہی انہوں نے رحمٰن بابا سے معانقہ کیا اور کچھ کان میں
کہا۔ جس کے جواب میں رحمٰن بابا نے ان کے کان میں آہستہ سے سرگوشی کی۔ پھر وہ حضرت
غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ کے روضے کے ایک کونے میں بیٹھ گئے اور سب جوانوں کو
قریبآنے کا اشارہ کیا۔ جب سب لوگ قریب آگئے تو رحمٰن بابا نے سب سے پہلے ان بزرگ
کا تعارف کرایا۔” یہ قطب وقت ہیں۔ میرا سفر تمہارے ساتھ بس یہیں تک تھا۔ اب یہ
تمہاری رہنمائی فرمائیں گے۔“ عاقب کو اپنے
کانوں پر یقین نہ آیا۔
وہ فوراً بول پڑا۔” حضور کیا فرما رہے ہیں۔ کیا آپ ہمارے
ساتھ نہیں چلیں گے؟“ باقی سارے جوان بھی حیرت سے رحمٰن بابا کو تکنے لگے۔
رحمٰن بابا کے چہرے پر انتہائی سنجیدگی تھی۔ وہ گہری آواز میں دھیمے لہجے میں
بولے۔” سنو اے میرے پیارے بچو! تم مجھے دل و جان سے زیادہ عزیز ہو۔ اللہ تعالیٰ نے
ہر فرد کو اپنے امور کی ادائیگی کے لئے پیدا کیا ۔ دنیا میں ان امور کی ادائیگی کے
لئے ایک وقت معین ہے۔ جب وہ وقت پورا ہو جاتا ہے تو امرِ ربی یا روح واپس اللہ کی
جانب رجوع کرتی ہے۔ اب میرے پاس دنیا کی زندگی کے صرف چند لمحے رہ گئے ہیں۔ میری
بات غور سے سنو۔ میرے سامان میں دو احرام کی چادریں ہیں۔ جب میں مر جاؤں تو ان
چادروں کو بطورِ کفن استعمال کرنا۔ ابھی تمہیں کچھ اور کام کرنے ہیں۔ پوری دل جمعی
کے ساتھ اللہ کے کام کرنا۔ میں تمہیں وہاں ملوں گا۔“
عاقب سمیت سارے جوان سخت حیرت زدہ اور رنجیدہ تھے۔ ان کی
سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ایسے روح فرسا صدمے کو وہ کس طرح برداشت کر پائیں گے۔
سب کی آنکھیں ڈبدبانے لگیں۔ عاقب نے روتے ہوئے رحمٰن بابا کے
پاؤں پکڑ لیے۔” حضور ابھی تو ہم نے آپ کی کوئی خدمت بھی نہیں کی۔ حضور آپ کے بغیر
ہم کیسے جئیں گے۔“
رحمٰن بابا نے نہایت اطمینان کے ساتھ سب کو دیکھا اور
فرمانے لگے۔” اللہ تم سب سے بہت محبت کرتا ہے۔ میں تم سے اسی لئے محبت کرتا ہوں کہ
اللہ چاہتا ہے ۔ بس اب رخصت ہونے کا وقت آگیا ہے۔“
یہ کہہ کر وہیں زمین پر دراز ہو گئے اور خود ہی بالکل سیدھا
لیٹ گئے۔ سب کی جانب نظر کی، قطب صاحب کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور پھر آہستہ
آہستہ آنکھیں بند کر لیں۔ آپ کے لب بالکل خاموش تھے۔ مگر دل
سے اللہ ۔ اللہ کی دھیمی دھیمی سی آوازآنے لگی۔ سارے جوان زار و قطار رونے لگے۔ سب
ان کے پاؤں کے پاس جھکے ہوئے تھے۔ قطب صاحب چپ چاپ بیٹھے سب کو دیکھتے رہے۔ دو تین
منٹ بعد اللہ ھو کی صدا انی بند ہو گئی۔ عاقب نے ان کے سینے پر ہاتھ رکھا، پھر نبض
ٹٹولی اور گھبرا کے بولا۔ قطب صاحب، قظب صاحب۔ رحمٰن بابا۔ رحمٰن بابا کہتے کہتے
اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ سب سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ انًا فاناً یہ سارا معاملہ
اس طرح ہو جائے گا۔ اسی رات ان کی تجہیز و تکفین کر دی گئی۔ قطب صاحب تمام جوانوں
کو لے کر اپنے حجرے میں آئے جوحضرت غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک کے
بالکل پاس ہی تھا۔ قطب صاحب نے نہایت پیار سے ان کی دل جوئی کی۔ انہیں کچھ کھلایا
پلایا اور آرام کرنے کو کہا کہ صبح آرام سے باتیں کریں گے۔ ابھی سب تھکے ہوئے ہیں۔
سفر کی تھکان اور اچانک اس روح فرساصدمے نے سب کے اعصاب مضمحل
کر دیئے تھے۔ سب لیٹتے ہی سو گئے۔ صبح اُٹھے تو فجر کی اذان ہو رہی تھی ۔ نماز سے
فارغ ہوئے۔ قطب صاحب نے سب کو حجرے میں طلب کیا۔ ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد سب سے
مخاطب ہوئے۔
” اللہ اپنے کچھ
بندوں کو اپنے مخصوص کاموں کے لئے چن لیتا ہے۔ آپ سب اس بات سے واقف ہو چکے
ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے وہ منتخب بندے ہیں۔ جن سے اللہ میاں کوئی خاص کام لینا
چاہتے ہیں۔ اے اللہ کے عزیز بندو! وہ خاص کام یہ ہے کہ تمہیں اللہ کی جانب سے یہ
اطلاع دی جاتی ہے کہ دنیا اب اپنے اگلے
مراحل میں داخل ہونے والی ہے۔ یہ مرحلہ نسلِ انسانی کے لئے سب سے کٹھن مر حلہ ہے۔
اس سانحہ کو قیامت کا نام دیا گیا ہے اور جب سے آدم و حوا اس دنیا پر آباد کئے گئے
اس وقت سے مسلسل پیغمبروں ۔ آسمانی کتابوں ، صحیفوں اور روحانی لوگوں کے ذریعے
اللہ تعالیٰ نے یہ اطلاع ہر دور میں اپنے بندوں تک پہنچآئی ہے۔ عاقب بیٹے! جو سیلاب تم نے دیکھا وہ سیلاب
قیامت کا ایک معمولی سا جھٹکا تھا تا کہ اس عظیم سانحہ کے لئے لوگوں کے ذہن تیار
ہو جائیں۔ سنو بہت جلد وہ عظیم سانحہ واقع ہونے والا ہے۔ اس کے وقت کا تعین اللہ
ہی جانتا ہے میں اتنا بتا سکتا ہوں کہ شعوری ارتقا کے تمام اسباب و وسائل تباہ کر
دیئے جائیں گے اور اس کے ساتھ ہی خدائے واحد کی بجائے اسباب و وسائل پر بھروسہ اور
ایمان رکھنے والے تباہ کر دیئے جائیں گے۔ صرف وہ لوگ بچیں گے جن کا ایمان اللہ
تعالی پر ہے۔ یاد رکھو! ایمان کے بھی درجات ہوا کرتے ہیں۔ جس کے دل میں تھوڑا سا
بھی ایمان ہوا وہ بچا لیا جائے گا۔ اس وقت نسلِ انسانی کے تحفظ کے لئے خدائے بزرگ
و برتر کی جانب سے خصوصی انتظام کیا جائے گا۔ یہ انتظام ان لوگوں کے سپرد ہوگا۔ جو
روحانی شعور کے اعلیٰ مدارج پر ہوں گے تاکہ قیامت کے سانحہ میں بچ جانے والوں کی
نشونما روحانی طرز ِ فکر پر کی جائے
اورآنے والی نسلیں ایک طویل مدت تک دنیا میں سکون اور امن و امان کے ساتھ
زندگی بسر کر سکیں۔ تم سب جوانوں کی روحانی تربیت اسی مقصد کے لئے کی جا رہی ہے۔
تاکہ تم دنیاوی و مادی وسائل کی غیر موجودگی میں لوگوں کو ان کی اپنی روحانی
صلاحیتوں کی بیداری کی طرف توجہ دلاؤ اور اس میں ان کی مدد بھی کرو۔ روحانی
صلاحیتوں کی بیداری انسان کے ارادے کو تقویت بخشتی ہے اور وہ اپنے ارادے سے
روحانی صلاھیتوں کو استعمال کر کے مادی
ذرائع و اسباب کی کمی کو دور کر سکتا ہے اور اپنی کمت ِ عملی سے نئے اسباب و ذرائع
پیدا کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ اے طالبِ حق کے متلاشی جوانو! وقت بہت تھوڑا ہے اور
کام بہت زیادہ ہے۔ ابھی تمہاری کچھ اور تربیت باقی ہے۔ بڑے پیر صاحب تم پر خصوصی
توجہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لئے تمہیں چالیس
راتوں کا چلہ کرنا ہوگا۔“
قطب صاحب نے ہر ایک کو الگ الگ اسمائے الہٰیہ کا ورد بتایا۔
اس کے پڑھنے کی ترکیب یہ بتآئی کہ ” ہر
رات دو بجے بڑے پیر صاحب کے روضے کے سامنے انہوں نے ایک مخصوص جگہ بتآئی وہاں بیٹھ کر اس اسم کو تین ہزار ایک سو پچس مرتبہ پڑھیں ۔ پھر سانس اوپر
کھینچ کر دماغ کے اندر روشنی کو ذخیرہ کریں اور دماغ کے سیلز کو روشن کریں اور جو
بھی کیفیات و مشاہدات ہوں وہ مجھے بتائیں۔ یہ چالیس راتوں کا چلہ ہے۔ ان چالیس
دنوں میں غذا میں صرف دودھ اور چاول کا استعمال
رکھیں اور کوئی چیز نہ کھائیں۔ ہر نماز کے بعد پانچ منٹ بیٹھ کر حضرت غوث
پاک رحمتہ اللہ علیہ کا تصور کریں کہ وہ سامنے موجود ہیں ااور ان کے قلب سے روشنی
نکل کر آپ کے اندر جذب ہو رہی ہے۔“ قطب صاحب نے کہا۔” آپ سب کا قیام اسی حجرے میں
رہے گا تاکہ مزار پرآنے جانے میں آسانی ہو۔“
پہلی رات جب عاقب
نے حضرت بڑے پیر صاحب کے مزار پر بیٹھ کر ورد کرنے کے بعد سانس کی مشقیں کیں اور
روشنی کو دماغ میں ذخیرہ کرنے کا تصور کیا تو اس نے دیکھا کہ جیسے ہی اس نے سانس
اوپر کھینچ کر دماغ میں روکی۔ دماغ کے سارے سیلز ننھے منے بلب کی طرح روشن ہو گئے۔ ان کی روشنی آہستہ
آہستہ بڑھنے لگی۔ چند دنوں بعد دماغ کے
تمام سیلز میں روشنی کا اس قدر ذخیرہ ہو گیا کہ سارے دماغ کی روشنی مل کر
روشنی کی ایک بڑی اور تیز بیم بن گئی۔ یہ بیم دماغ سے نکل کر سیدھی آسمان کی جانب انتہائی
تیزی سے سفر کرنے لگی۔ یوں لگا جیسے میں
اس روشنی کے اندر سفر کر رہا ہوں۔ میں اس روشنی میں ایک ایک کر کے سات آسمانوں کی
سرحدوں سے باہر نکل آیا۔ حواس میں ایک دم سے ٹھہراؤ آگیا۔ اس روشنی نے مجھے ایک
ایسی زمین پر اتار دیا جہاں نور ہی نور تھا۔ یہ نور انتہائی شفاف تھا۔ جیسے ٹرانسپیرنٹ شیشہ جس میں سے نظر
گزر جاتی ہے۔ ساری زمین پر اسی ٹرانسپیرنٹ شفاف نور کا فرش تھا۔ اس فرش کے نیچے
بیش قیمت ہیرے جواہرات کے چکاچوند کرنے والے خزانے موجود تھے۔ جن کی گہرائیاں
مختلف تھیں مگر فرش شفاف نور کا ہونے کی وجہ سے زمین کی انتہائی گہرائی
میں بھی خزانے دیکھے جا سکتے تھے۔ عاقب سارا وقت ان خزانوں کو دیکھتا رہا۔
چلے کے دوران وہ ہر روز یہی دیکھتا کہ اس کے دماغ سے روشنی
کی بیم نکل کر اسی مقام پر پہنچ رہی ہے۔ جہاں شفاف نور کی زمین کی تہوں میں انتہائی
قیمتی ہیرے جواہرات اور خزانے رکھے ہوئے
ہیں۔ ایک دن اس نے دیکھا کہ حضرت غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ اس کے ساتھ ہیں اور کہتے
ہیں کہ ” آؤ ان خزانوں کو نکالو یہ تمہارے لئے ہیں۔“ وہ عاقب کی زمین سے خزانے
نکالنے میں مدد کر رہے ہیں۔ عاقب کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ وہ خوشی خوشی خزانوں
کو اپنے دامن میں بھرتا جاتا ہے۔
٭٭٭