Topics
عاقب نے اپنی کیفیات و واردات قطب صاحب سے بیان کیں تو
انہوں نے فرمایا۔” یہ خزانے روح کی صلاحیتیں ہیں۔ بڑے پیر صاحب تمہاری روح کی
صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ ابھارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انسان مختلف حواسوں کا
مجموعہ ہے انسان کے حواس میں اسمائے الہٰیہ کی روشنیاں داخل ہوتی ہیں اور اس کے
حواس ان روشنیوں کو پہچانتے ہیں حواس کے مختلف درجے ہیں۔ ہر درجے میں کیفیات اور
محسوسات اور محسوسات کا ایک نیا رنگ ہوتا ہے۔ جب تک اسمائے الہٰیہ کی روشنی حواس
کے اندر سفر کرتی رہتی ہے۔ آدمی اپنے آپ کو اس لمحے کی گرفت میں محسوس کرتا ہے۔ جب
تمہاری روح کی سلاحیتیں بیدار ہو جائیں گی تو اس خزانے کے ذریعے اسمائے الہٰیہ کی
روشنی کو محسوس کر سکو گے۔“
باقی غار والے جوانوں کی کیفیات و واردات بھی بہت اچھی
تھیں۔ وہ بہت توجہ اور دلچسپی سے روحانی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ انہیں جو بھی مشق
کرنے کو دی جاتی اس پر پوری یکسوئی سے عمل کرتے۔ کسی کام میں شوق اور دلچسپی شامل
ہو جائے تو وہ آسان ہوتا چلا جاتا ہے یہی کچھ ان جوانوں کے ساتھ بھی تھا۔ تجسس اور
ذوق نے ان کی صلاحیتوں کو کندن کی طرح چمکانہ شروع کر دیا تھا اور وہ روحانی عالم
میں بہت تیزی سے سفر کر رہے تھے۔ جب سے ان کو احساس ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان سے
کوئی کام لینا چاہتے ہیں اس وقت سے انہوں نے اپنی ذات کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں
وقف کر دیا تھا۔
قطب صاحب نے انہیں یکے بعد دیگرے تین چلے کرائے۔ مختلف
اسمائے الہٰیہ کے ساتھ مراقبے کرائے کہ باطن میں اللہ کا امر متحرک ہو گیا ہے اور
کن کی قوت باطن میں گونج رہی ہے اور تمام جوانوں کو ان کے جسمِ مثالی کی ایک صورت
کا تصور دیا گیا کہ وہ عقاب بن کر لوگوں کی مدد کر رہا ہے یا گھوڑا ، ہرن، کبوتر،
شیر بن کر لوگوں کی مدد کر رہا ہے۔ قطب صاحب نے بتایا کہ اللہ کی ہر مخلوق کے اندر
اللہ کی مختلف صفات کام کر رہی ہیں۔ عالم تکوین میں اسمائے الٰہیہ کے دریا
موجود ہیں۔ ہر اسم کی اپنی ایک مخصوص قوت ہے۔ اس قوت کو جب کسی نظام میں فیڈ کیا
جاتا ہے تو نظام اس کی قوت سے مخصوص حرکت کرتا ہے۔ ہر نوع اسمائے الہٰیہ کے انوار
کی متعین مقداروں کا مجموعہ ہے۔ یہ تمام
مجموعے یا انواع کے شعور ، انسان کا شعور جب بیدار کر لیتا ہے تو اس کے
اندر اس نوع کی صفت متحرک ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر شیر کو جنگل کا بادشاہ تسلیم
کیا جاتا ہے۔ اس کے اندر حاکمیت کا وقف کام کر رہا ہے، رعب اور دبدبہ ہے اور قوتِ
ارادی ہے۔ پس جب بندہ اپنے شیر کی صفت متحرک کر لیتا ہے تو اس میں بھی یہی
صلاحیتیں حرکت کرنے لگتی ہیں۔ اپنے اندر تمام نوعی شعور کی بیداری بندے کو کائناتی
شعور یا اجتماعی شعور منتقل کرتی ہے۔
رحمٰن بابا کے انتقال کے تین چار دن بعد تک تو عاقب اور اس
کے ساتھی سوچتے ہی رہے کہ کس جگر سے یہ خبر آگے
پہنچائیں۔ رحمٰن بابا کی جدائی
خود ان لوگوں کے لئے درد و غم کا سبب تھی۔ عاقب نے تو خود کو بہت ہی مشکل
سے سنبھالا تھا۔ رہ رہ کر رحمٰن بابا کا خیال اجاتا تو اس کی آنکھیں
ڈبڈبا جاتیں اور دل بھر آتا۔ اب جبکہ یہ خبر زمان خان کو پہنچانی تھی تو
عاقب الفاظ کا انتخاب نہیں کر پا رہا تھا۔ زمان خان پیر و مرشد کے عشق میں خود کو
ہی بھول چکا ہے۔ نہ جانے یہ خبر اس پر کیا قیامت ڈھائے یہ سوچ کر عاقب بار بار یہی
کہتا۔ زمان خان تو سن کر ہی بہت پریشان ہو
جائے گا۔ مگر بہر حال خبر تو دینا ہی تھی۔ اس نے قدرت اللہ اور گلبدن کو تفصیل سے
خط لکھ دیا کہ یہ خبر سب تک پہنچا دیں۔ اللہ کو ایسا ہی منظور تھا۔ کچھ دنوں بعد
گلبدن کا خط آیا کہ میں نے زمان خان کو خبر کر دی ہے۔ شدتِ غم سے وہ پچھاڑے کھ رہا
تھا اور اس کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی وہ سر پیٹ پیٹ کر یہی کہتا تھا کہ میرے
بابا کی بجائے مجھے موت آجاتی تو اچھا تھا۔ تین چار دن تک اس کی یہی حالت رہی اس
کے بعد اب اس کی حالت کافی حد تک سنبھل چکی ہے۔
قطب صاحب نے پانچ ماہ سب جوانوں کو رکھ کر ان کی روحانی
تربیت کی۔ اس کے بعد فرمایا۔” تم لوگوں کی تعلیم کا ایک حصہ مکمل ہو چکا ہے اس لئے
تمہاری روحانی صلاحیتوں کو سامنے لانے کا موقع آگیا ہے۔ اب تم سب تبت کی پہاڑیوں
میں رحمٰن بابا کے غار میں چلے جاؤ۔ وہ تمہاری پناہ گاہ ہوگی۔ تم جس جس کو وہاں
لے جانا چاہتے ہو لے جانا۔ جس فرد کے لئے تمہارا دل نہ چاہے اسے
ہرگز وہاں مت لے جانا۔ تائید غیبی تمہارے
ساتھ ہے۔ تم جس کی طرف دیکھو گے تمہارا دل
خود ہی تمہیں بتائے گا کہ اس کو وہاں لے
جانا ہے یا نہیں۔ وہاں پر غلہ، اناج ، پانی وغیرہ کا ذخیرہ کر لینا اور پھر
سب وہاں عبادت میں لگے رہنا۔ اللہ سے استغفار کرتے رہنا۔ پھر جو کچھ ظہور میں آنے
والا ہے تم دیکھ لو گے۔ میں تم سے وہیں ملوں گا۔“
اس حکم کی تعمیل میں عاقب تما ساتھیوں کے ساتھ رحمٰن بابا
کے تھکانے پر پہنچ گیا۔ اس نے قدرت اللہ کو پہلے ہی اطلاع دے دی تھی کہ گلبدن اور
بچوں کو لے کر وہاں پہنچ جائیں۔ عاقب اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں پہنچا تو زمان خان
عاقب سے لپٹ لپٹ کر بہت رویا۔ اسی رات سب سے پہلے عاقب نے گلبدن کو وہ ساری باتیں
بتائیں جو قطب صاحب نے کہی تھیں اور جو جو
ہدایات دی تھیں وہ بھی اسے بتا دیں۔ اس نے کہا۔” بہتر یہ ہے کہ
صبح ناشتے سے فارغ ہو کر زمان خان ، ابا جان اور ہم سب بیٹھ کر بات کریں
تاکہ اس سلسلے میں جو ضروریات کی چیزیں ہیں۔ ان کے اکٹھا کرنے کا انتظام بھی کر
لیا جائے۔“
صبح عاقب، گلبدن، قدرت اللہ، زمان خان اور غار والے جوان سب
کے سب اکٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران ان لوگوں سے قطب صاحب نے جو کچھ کہا اور جو ہدایات
اور احکامات دیئے تھے وہ سب کو بتا دیئے۔ سب نے یک زبان ہو کر کہا۔” رحمٰن بابا کے
بعد
عاقب بھائی
آپ ہی ہمارے لئے ان کے جانشین ہیں۔ ہم آپ کی ہر ہدایت پر عمل کرنے کو تیار
ہیں۔ اللہ تعالی ہماری مدد فرمائے۔ آپ جس کے لئے کہیں گے اسی کو ہم یہاں لائیں گے۔“
عاقب کو اندازہ ہو رہا تھا کہ ضرور کوئی بڑی تبدیلی آنے
والی ہے۔ وہ سوچتا ، اے خدایا تیری حکمتیں تو ہی جانے۔ ہماری کوتاہیوں اور خطاؤں
کو معاف فرما۔ ہمیں سیدھے رستے پر چلا۔ سارے ساتھی بھی عاقب کے ساتھ توبہ استغفار
اور عبادت میں لگے رہتے ۔آنے والے وقت کے بارے میں سب کی دعا یہی تھی کہ اللہ
تعالیٰ نے ان کو جس مقصد کے لئے پیدا کیا ہے وہ مقصد پورا ہو جائے اور وہ اللہ
تعالی کے امتحان میں پورے اتر جائیں۔
عاقب نے گلہ اور ضروریات کی چیزیں اکٹھی کرنے کے لئے زمان خان اور قدرت اللہ کو
ہدایت دی اور خود مراقبہ کی کیفیت سے نکل
کر اس نے ناموں کی ایک لسٹ بنائی اور یہ
لسٹ قدرت اللہ کے سامنے رکھ دی۔ یہ تقریباً پچاس لوگ تھے۔ جن ناموں صفدر علی اور
اس کی بیگم و بچے بھی شامل تھے۔ قدرت اللہ جذبیر کو اپنے ساتھ لے کر بستی کی طرف
روانہ ہوئے۔ یہ پچاس لوگ بستی کے پاکیزہ نفس خواتین، مرد اور بچے تھے۔ اتنے بہت سے
لوگوں سے رابطہ کرنے اور عاقب کا پیغام پہنچانے میں چند دن لگے۔ ان لوگوں نے مال و
اسباب گھر ہی چھوڑا اور چند ضروری چیزیں لے کر روانہ ہو گئے۔ صفدر علی کو کسی کے ہاتھ خبر بھجوائی کہ جلد از جلد آ کر مل لیں۔ وہ شام کو
اپنے بال بچوں سمیت آگیا۔ دو تین دن میں
سب لوگ اکٹھے ہو گئے۔ عاقب نے سب کو بتا دیا تھا کہ قطب صاحب کے کہنے کے مطابق کسی
وقت بھی قیامتِ صغریٰ برپا ہو جائے گی۔ بس اب ہر وقت اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں
کی معافی مانگتے رہو اور اللہ کی تمام مخلوق کے لئے مغفرت طلب کرتے رہو کہ اللہ
تعالیٰ اس دن کی ہولناکیوں سے سب کو اپنی حفاظت میں رکھے۔ یہ وقت ہی سب لوگوں پر
بہت صبر آزما تھا۔ اللہ سے معافی مانگتے ہوئے ان کے دل کا گداز بڑھ جاتا اور وہ
خشوع و خضوع سے بار ِ گاہ خداوندی میں دعائیں کرنے لگتے۔ ہرآنے والے دن میں اللہ
کی صفت قدرت کا جلال ان کے دلوں پر غالبآنے لگتا اور انہیں احساس ہوتا کہ امتحان
کا وقت نزدیک سے نزدیک پوتا چلا جا رہا ہے۔ ان سب کو غار میں اکٹھا ہوئے ابھی
ساتواں دن تھا کہ شام مغرب کی نماز پڑھتے وقت عاقب کو اشارہ ہوا۔ اس نے نماز کے
دوران دیکھا کہ خضر بابا کے ہاتھ میں روشن قندیل ہے۔ وہ بہت جلدی میں ہیں اور
گھبرائے ہوئے لگتے ہیں۔ انہوں نے قندیل کو عاقب کے چہرے کے قریب لاتے ہوئے کہا۔”
جلدی کر۔ قندیل بھجنے مت دینا۔“
اس کے بعد وہ غائب ہوگئے۔ اس کے بعد فوراً رحمٰن بابا سامنے
اگئے۔ عجیب بات ہوئی کہ جیسے ہی عاقب نے انہیں دیکھا۔ رحمٰن بابا نے گھبرائے ہوئے
لہجے میں زور سے کہا۔” وقت آگیا۔ سنبھال
سب کو سنبھال۔“ یہ آواز پورے غار میں گونج گئی۔
جلدی سے سلام پھیر کر عاقب نے زور سے سب کو آواز دی۔” اب
حوصلے کا وقت آگیا ہے سب لوگ تیار ہو جاؤ۔“ یہ سنتے ہی سب لوگوں کے دلوں کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ قدرت الہٰی کا جلال غالب
آنے لگا۔ دل خشک پتے کی طرح لرزنے لگا اور سب نے بلند اواز سے اسم الہٰی کا ورد
اور استغفار کرنا شروع کر دیا۔ گلبدن دونوں بچوں کو سینے سے چمٹئے عاقب کے پہلو سے
لگ کر بیٹھ گئی۔ سب ایک دوسرے کے قریب تر آگئے۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ کیا ہونے
والا ہے۔ غار والے جوانوں نے اللہ ھو کا ذکر شروع کر دیا۔ سب زور زور سے روتے ہوئے ذکر کرنے لگے۔ ابھی دو تین منٹ ہی
ہوئے ہوں گے کہ ایک زور دار دھماکہ ہوا۔ دھمکاکہ اس قدر زور دار تھا کہ پورا پہاڑ
لرز گیا اور سارے اوندھے منہ گر پڑے کسی
کو ہوش نہ رہا۔ غار میں ہر طرف پتھر اور چٹانیں ٹوٹ ٹوٹ کر بکھرنے لگیں۔ ہر طرف
خاک اور دھول کا غبار پھیلا ہوا تھا۔ کان پڑی آواز سنآئی نہ دیتی تھی نہ ہی اندھیرے کے سوا کچھ دکھائی
دیتا تھا۔ نہ جانے کب تک زمین ابال کی کیفیت سے لرزتی رہی، پتھر برستے رہے
اور غبار سے سانس لینا بھی دشوار ہونے لگا۔ یہ لوگ نہ جانے کتنی دیر بے ہوش رہے۔
پھر سب سے پہلے عاقب کو ہوش آیا۔ اس نے آنکھ کھولی تو دیکھا غار اوپر سے کھل چکا
ہے۔ سب لوگ فرش پر ادھر ادھر بکھرے پڑے ہیں۔ اس نے لیتے ہی لیٹے ہاتھ پاؤں کو ہلا
کر دیکھا تو اللہ کا شکر ادا کیا کہ سب
کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ اب وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ اسی وقت غار والے جوان بھی سارے اُٹھ
کر بیٹھ گئے۔ عاقب نے گھبرا کے پکارا۔” گلبدن، نجیب ، سنبل۔“
غار والے ساتھیوں نے آواز دی۔” عاقب بھائی آپ فکر نہ کریں۔ ہم ابھی انہیں تلاش کرتے ہیں۔
سب یہیں ہیں۔“
عاقب اُٹھ کھڑا ہوا۔ اسے یاد آیا۔ گلبدن اور بچے تو اس کے
بالکل ہی قریب تھے۔ اس نے آس پاس دیکھا تو پہاڑ کے پتھر پڑے تھے۔ کہیں گلبدن اور
بچے ان پتھروں میں تو نہیں دب گئے۔ یہ سوچ کر عاقب کا دل بھر آیا اور اس نے جلدی
جلدی پتھر ہٹانے شروع کر دیئے۔ کچھ پتھر ہٹا کر دیکھا مگر اس کے نیچے کچھ نہ تھا۔
تھوڑی دور گلبدن اور اپنے دونوں بچوں کو سینے سے
چمٹائے دکھائی دی۔ وہ اور بچے تینوں بے ہوش تھے۔ عاقب زار زار
روتا ہوا گلبدن اور بچوں پر جھک گیا اور والہانہ طور پر پیار کرنے لگا۔
” گلبدن اُٹھو ۔ بچو
اُٹھو۔“ وہ بار بار کہنے لگا۔ اتنے میں مقسطین قریب آگیا۔ اس نے عاقب کو
پرے ہٹایا اور عاقب کو تسلی دی کہ ابھی انہیں ہوش اجائے گا فکر نہ کریں۔ اللہ کو
انہیں بچآنا مقصود تھا۔ ورنہ یہاں اکٹھا نہ کئے جاتے۔ اتنے میں دوسرے جوان ساتھی
بھی آگئے۔ کہنے لگے۔
” باقی سب لوگ بھی بے ہوش پڑے ہیں۔ دھمکاکے نے ان پر برا اثر
ڈالا ہے۔ مگر ایک بات اللہ کی کرم نوازی کی یہ دیکھیئے کہ پہاڑ اوپر سے اچھا خاصا
ٹوٹ گیا ۔ مگر اس کے تمام پتھر غار میں اس
طرح گرے کہ ان کے نیچے کوئی بھی نہیں دبا۔“
مگر یہ تشویش ناک بات تھی کہ ابھی تک
سارے ہی بے ہوش تھے۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی ہوش نہیں آیا تھا۔ عاقب نے یہ سن کر
سب ساتھیوں سے کہا۔
” آؤ
سب مل کر اجتماعی مراقبہ کریں۔ اور قطب صاحب نے جو اسمائے الہٰی ہمیں بتائے
ہیں اور جس طرح ان کے پڑھنے کا طریقہ بتایا ہے اسی طرح پڑھیں۔ مجھے یقین ہے
کہ اللہ تعالی ٰ ضرور اپنا فضل دکھائیں گے
اور ان سب لوگوں کو ہوش آجائے گا۔“
اب سارے ساتھی ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر
دائرے میں بیٹھ گئے اور آنکھیں بند کر کے اسمِ الہٰی کا ورد کرنے لگے ۔ کافی
دیر تک یہ لوگ مراقب رہے اور غار میں مکمل خاموشی رہی پھر آہستہ آہستہ لوگوں کی
آوازیں بلند ہونے لگیں۔ تقریباً دس منٹ کے بعد سنبل کے رونے کی آواز آئی ۔ وہ روتے
ہوئے” اماں اماں“ پکار رہی تھی۔ عاقب کے ساتھی نے عاقب کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑ
کر اشارہ کیا کہ ابھی مت چھوڑیں۔ وہ پھر ذکر میں لگ گئے۔ سب کی آنکھیں
بند تھیں۔ مگر سب ایک ایک کر کے لوگوں کی آوازیں انہیںآنے لگیں۔ گلبدن کی
آواز آئی ۔” نجیب ، سنبل میرے بچے“ پھر اس نے زور سے آواز دی۔” عاقب ہم بال
کل ٹھیک
ہیں“ جیسے جیسے لوگ اُٹھتے جاتے وہ
عاقب کو پکارتے کہ ہم ٹھیک ہیں۔ جب سب کی خبر اگئی تو ان لوگوں نے ذکر بند
کیا اور سب لوگوں سے کہا کہ جہاں پر ہو
اسی طرح اللہ پاک کو سجدہ کرو ۔ سب نے سجدہ کیا۔ شکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں
نئی زندگی دی۔ گلبدن بچوں کو لے کر عاقب کے پاس آگئی سارے ایک دوسرے سے لپٹ لپٹ کر
رونے لگے۔ ابھی کسی کو پتہ نہ تھا کہ باہر کیا حالت ہے۔ ابھی تو اندر کی بھی حالت
کا انہیں اندازہ نہیں تھا۔ نہ ہی پتہ تھا کہ دھمکا کہ ہوا کیوں تھا اور دھماکے کے بعد وہ کتنی دیر تک بے ہوش
رہے۔ عاقب اور زمان خان اُٹھ کھڑے ہوئے کہ باہر دیکھ کر آتے ہیں ۔ وہ جیسے ہی غار
کے دہانے پر آئے ان کی چیخ نکل گئی۔ غار تو زمین کی تہہ سے لگا ہوا تھا۔ زمان خان
حیرت زدہ ہو کر بولا۔
” پہاڑ کے نیچے کا حصہ کہاں گیا؟ چیخ سن
کر سارے ہی اُٹھ کر آگئے۔ کسی کو اپنی
آنکھوں پر یقین نہیں آیا کہ پہاڑ اپنی چوٹی تک زمین میں اس طرح دھنس جائے گا اور
اللہ میاں اس طرح سب کو بچا لیں گے۔ باہر نگاہ ڈالی۔ تو سوائے رتیلے میدان کے کچھ
نہ تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی وسیع و عریض صحرا ہے۔ جہاں سوائے ریت اور مٹی کے
کچھ نہیں۔
اسی وقت بچے بھوک بھوک کرنے لگے تو عاقب پریشان ہو گیا کہ
خاک اور دھول میں کھانے پینے کی چیزیں کہاں بچی ہوں گی۔ تو گلبدن بولی۔” میں نے
اپنے کپڑوں میں بچوں کے لئے کچھ بسکٹ اور
کھانے کے لئے بھنے ہوئے چنے کپڑے کی تھیلی بنا کر قمیض کے اندر سی لئے تھے کہ اگر
بچوں کے ساتھ کہیں بچھڑ جاؤں تو انہیں کھلا سکوں۔“
وہاں سب بچوں کو اکٹھا کر کے کچھ کھانے کو دیا۔ اس کے بعد
عاقب نے قطب صاحب کی طرف دھیان لگایا۔ اس نے ان سے مراقبہ میں رابطہ کرنے کی کوشش
کی کہ وہ اب کون سا قدم اُٹھائیں کیونکہ قطب صاحب نے ان سے یہاں پر ملنے کو کہا
تھا۔ ابھی اس نے تھوڑ ی ہی دیر دھیان لگایا تھا کہ اسے کندھے پر کسی کے ہاتھ کے
دباؤ محسوس ہوا۔ اس نے آنکھیں کھو ل دیں۔ دیکھا تو قطب صاحب کھڑے تھے۔ وہ ادب
سے سلام کر کے کھڑا ہو گیا۔ باقی جوان بھی پاس آگئے اور ادب سے کھڑے ہوگئے۔ باقی
سب انہیں دیکھنے لگے۔ قطب صاحب نے سب کو سلام کیا اور ان سے مخاطب ہوئے۔ کہنے لگے۔
اس وقت جو دنیا کی حالت ہے وہ میں آپ کو بتا دوں۔ ساری دنیا
ریت کا میدان بن چکی ہے۔ ساری دنیا میں
صرف تین جگہوں پر لوگوں کو بچایا گیا ہے۔ ایک ان میں سے آپ لوگ ہیں۔ باقی دو جگہ
بھی جو لوگ بچائے گئے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے خاص تربیت یافتہ بندے ہیں۔ یہ تینوں
جگہیں دنیا کے الگ الگ کونوں میں ہیں۔ یہ بھی اللہ کی حکمت ہے تا کہ دنیا کے تین
کونوں سے آبا دیاں بڑھیں اور دنیا پھر سے بس جائے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ آپ کے پاس
یہ چھ جوان خصوصی تربیت یافتہ ہیں۔ جو اپنی روحانی قوتوں سے زمین میں دوبارہ بستی
بسانے میں پوری پوری مدد کرنے والے ہیں۔
آپ سب کو اللہ کی تائید اور مدد حاصل ہے۔ آپ کے پاس جو بچے کچے وسائل ہیں۔ انہیں
استمعال کریں۔ جب نوعِ انسانی قانون خداوندی سے انحراف و گریز کرتی ہے اور خیر و
شر کی تفریق کو نظر انداز کر کے قانون شکنی کا ارتکاب کرنے لگتی ہے تو افراد کے
یقن کی قوتوں میں اضمحلال شروع ہو جاتا ہے۔ آخر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یقین کی قوت بالکل معدوم ہو جاتی
ہے اور عقائد میں شک اور وسواس در
آتے ہیں۔ اس تشکیک اور بے یقینی کی بنا پر قوم توہمات میں مبتلا ہو جاتی
ہے۔ توہماتی قوتوں کے گلبے سے انسان کے اندر طرح طرح کے اندیشے اور وسوسے پیدا
ہونے لگتے ہیں جس کا منطقی نتیجہ حرص و
ہوس پر منتج ہوتا ہے۔ یہ حرس و ہوس انسان کو اس مقام پر لے جاتی ہے جہاں بے یقینی
اور توہماتی قوتویں مکمل طور پر اس کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیتی ہیں۔ یہی وہ مقام
ہے جہاں انسان زندگی کی حقیقی مسرتوں سے محروم ہو جاتا ہے اور اس کی ھیات کا محور
اللہ تعالیٰ کی بجائے ظاہری اور مادی وسائل بن جاتے ہیں اور جب نوعِ انسانی کا
انحصار درو بست مادی وسائل پر ہو جاتا ہے تو افات ِ ارضی و سماوی کا لامتناہی
سلسلہ عمل میںآنے لگتا ہے اور بالآخر وہ صفحہ ہستی سے مٹا دی جاتی ہے۔ اس سے پہلے
بھی ہوتا رہا ہے کہ اولادِ آدم فنا اور بقا کے فارمولوں سے ناآشنا ہو گئی تھی تو
زمین سے اُٹھا لی گئی اور آج ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا۔ جب بھی نوعِ
انسانی کا رشتہ دنیا سے مستحکم اور اپنی روح سے کمزور ہو گیا تو وہ گرفتار بلا ہو
گئی۔ یہ صورتحال ہو جائے تو قومیں تباہ و برباد کر دی جاتی ہیں یا پھر ان کے چہرے
مسخ ہو جاتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ دنیا اس لئے تباہ ہوئی کہ لوگوں کی توجہ اللہ کے
بجائے اسباب و وسائل کی جانب تھی۔ ان کا بھروسہ اپنی ہاتھ کی بنائی ہوئی چیزوں پر تھا یا زندگی کو سہولتیں مہیا
کرنے والے اسباب و ذرائع پر تھا۔ ہر ایک کے ذہن
کے ذہن میں توکل الی اللہ کی بجائے خود اپنی کوششوں اور محنتوں پر بھروسہ
تھا۔ توجہ اور دھیان ذہن کی ایسی قوت ہے کہ جس چیز کی طرف توجہ کی جائے وہ شئے غیب
سے نکل کر دنیا میں ظاہر ہو جاتی ہے یا اس کے اور انسانی ذہن کا
درمیانی فاسلہ ختم ہو جاتا ہے۔ اسی اصول کے تحت جب انسان نے دنیاوی تقاضوں اور
دنیاوی زندگی کی سہلتوں کی طرف توجہ دی تو اس توجہ سے دنیاوی علوم نہایت تیزی سے
سامنے آگئے اور انسان کا شعور اتنی ہی تیز رفتاری سے ان کی طرف متوجہ ہوگیا۔ جب
شعور اور ذہن کا رابطہ دنیا سے قائم ہو گیا تو ان کا رابطہ اللہ سے ٹوٹ گیا۔ مادّی
شعور و عقل میں اتنی قوت نہیں ہے کہ وہ ابد تک اپنی دنیاوی زندگی کے لئے
انرجی فراہم کر سکے۔ پس ایک وقت ایسا آتا ہے کہ جب ساری قوم کا ذہن اللہ سے ہٹ کر
دنیاوی وسائل میں لگ جاتا ہے تو عقل انسانی کا بنایا ہوا مادی ڈھانچہ پرزے پرزے ہو
جاتا ہے۔ پھر صرف ان لوگوں کو بچا لیا جاتا ہے جوآنے والی نسلوں کے زہنوں کی تعمیر
روحانی خطوط پر کر سکیں۔ اللہ تعالی نے ان چھ جوانوں کو اسی وقت کے لئے تیار کیا
ہے تاکہ یہ آپ سب کی روحانی تربیت کریں اور اس تنگی اور مصیبت کے لمحات میں آپ سب
کے دلوں کو سکون پہنچانے کا اہتمام کریں۔ اللہ سب کا حامی و مددگار ہے۔ “
یہ کہہ کر قطب صاحب چند قدم چلے اور ایک دم نظروں سےاوجھل
ہو گئے۔
اس قیامت صغریٰ کے صدمے سے ابھی تک سب کے ذہن جیسے آدھے
سوئے ہوئے تھے۔ ان کے اوپر کچھ خوف و ہراس ، کچھ صدمہ رنج و غم کی ملی جلی کیفیت
تھی۔
عاقب نے گلبدن کو نہایت پیار سے سمجھایا کہ دیکھو ” غم مت
کرو اور اللہ کی رضا پر راضی رہو۔ اب ہمیں ایک دوسرے کے لئے جینا ہے۔ یہ سب لوگ
ہمارا خاندان ہیں ہماری فیملی ہیں۔ تم عورتوں کی ضروریات اور مسائل کا خیال
رکھنا۔“
پھر اس نے زمان خان کو بلایا اور کہنے لگا۔” امان خان تم
اپنے کچھ ساتھی چن لو۔ تمہارا یہ کام ہے کہ
جتنی بھی کھانے پینے کی اور ضروریاتِ زندگی کی چیزیں ہم نے دھماکے سے پہلے جمع کی تھیں۔ انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر
اکٹھی کرو۔“ پھر وہ کہنے لگا۔” تمہیں پتہ ہے کہ ہم لوگ دھماکے کے کتنی دیر بعد
جاگے ہیں؟“
زمان خان نے کہا۔” عاقب بھائی یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔“
عاقب نے کہا۔” ہم لوگ اس دھماکے کے پورے چالیس دن بعد ہوش
میں آئے تھے۔“ یہ سن کر سب کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں۔ ” چالیس دن بعد؟؟“ مگر اتنی
دیر میں تو ہم مر چکے ہوں گے۔ پھر دوبارہ کیسے زندہ ہوگئے۔؟“
عاقب نے کہا۔” قطب صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ جن لوگوں کو بچآنا
مقصود تھا۔ ان کے لئے اوپر والوں کی جانب سے اتنی مدت کے لئے گہری نیند سلانے کا
حکم تھا کہ جس مدت میں زمین کی فضا سے مہلک تابکاری کے اثرات کو زیادہ سے زیادہ
ختم کیا جا سکے تاکہ باقی لوگ محفوظ رہیں۔ ان چالیس دنوں میں زمین کی حالت درست
کرنے کے لئے ملائکہ ارضی کی زبردست ٹیم نے اس زمین پر کام کیا ہے۔ اس ٹیم کو گائیڈ
کرنے والے قطب اور ابدال وقت تھے۔ جنہوں
نے لاکھوں کی تعداد میں ملائکہ کو اس زمین پر پھیلا دیا تاکہ زمین کی حالت دوبارہ
بحال کر دی جائے۔ اس وقت جو ریگستان تم دیکھ رہے ہو۔ یہ زمین فرشتوں کی ہموار کردہ
ہے۔ تمہیں زمین پر اب کوئی لاش
دکھائی نہیں دے گی۔ کیونکہ فرشتوں
نے تمام لاشوں کو اپنے تصرفات سے مٹی کے ذرات میں تبدیل کر دیا۔ یعنی لاش کا گل سڑ
کر مٹی میں تبدیل ہونے کی جو نارمل مدت ہے فرشتوں نے اپنے تصرف سے اس وقت کی رفتار کو اتنا تیز کر دیا کہ یہ کام صرف
چالیس دنوں میں پورا ہو گیا۔ زمان خان خیال رکھنا۔ اس وقت ایک جَو کا دانہ بھی
ہمارے لئے اناج کا درجہ رکھتا ہے۔“
زمان خان کی
آنکھیں بھر آئیں ۔ وہ بھرآئی ہوئی آواز میں ہاتھ جوڑ کر بولا۔” میرے سرکار
مجھے اس بات کا بخوبی اندازہ ہے۔“
٭٭٭