Topics
ڈیرہ دون پہنچتے ہی صفدر نے گلبدن کے
ابا کو خبر بھجوائی کہ عاقب اور گلبدن جس
کام کے لئے گئے تھے اس کام سے فارغ ہو کر کامیابی کے ساتھ واپس لوٹے ہیں۔ دوسرے دن
شام تک قدرت اللہ بستی کے چند آدمیوں کے ساتھ آگئے۔ رات کو سب لوگ غار والے جوانوں
کو گھیر کر بیٹھ گئے۔ ان جوانوں کے ساتھ ساتھ
سننے والے بھی کچھ کم حیرت زدہ نہ تھے۔ ایک مدت بعد دوبارہ دنیا میں آنا قدرت کی نشانیوں
میں سے تھا۔ قدرت اللہ سر ہلا ہلا کر بار بار کہنے لگا۔” صفدر بھائی! آج تو مجھے
یقین ہو گیا ہے کہ قدرت ہمیں بھی اسی طرح قیامت میں قبروں سے اُٹھا کر کھڑا کر دے
گی۔ اللہ کے لئے کوئی کام مشکل نہیں ہے۔“
عاقب نے کہا۔” بلاشبہ ہم اللہ تعالی کی ان مہربانیوں کا شکر
ادا کرنے سے عاجز ہیں جو اللہ نے ہم پر کی ہیں۔ رحمٰن بابا ہمارے منتظر ہوں گے۔ اب
ہم ایک دو دنوں میں ہی رحمٰن بابا کے پاس
جانا چاہیئں گے۔“
شاہدہ بیگم کہنے لگیں۔” عاقب بھائی! اب تو ہم بھی رحمٰن
بابا کے درشن کرنا چاہتے ہیں۔“
صفدر نے کہا۔” ہم تو اب پوری برات کے ساتھ ہی جائیں گے۔ ان
شاء اللہ۔“
قدر اللہ بھی کہنے لگے۔” ہمیں چار پانچ دن کی مہلت دیں تاکہ
ہم جانے کی تیاری کر لیں۔ آپ جب تک یہاں ان جوانوں کو شہر کی سیر کرائیں۔ ہم صبح
واپس بستی میں جا کر گلبدن کے بیاہ کی خوشخبری دیتے ہیں۔ گلبدن صرف میری ہی نہیں
ساری بستی کی بیٹی اور بہن ہے۔“
صبح سویرے قدرت اللہ اپنی بیٹی گلبدن کو گھر لے گئے۔ اللہ
پاک نے انہیں زندگی کی سب سے بڑی خوشی دیکھنے کا موقع فراہم کیا تھا۔ ان کے پاؤں زمین پر ٹکتے نہ
تھے۔ جاتے وقت انہوں نے خوب بھینچ بھینچ کر عاقب کو سینے سے لگایا اور پانچویں
دن یہاںآنے کا وعدہ کر کے رخصت ہوئے۔ رخصت
ہوتے وقت گلبدن حیا کے رنگوں میں دوبی ہوئی حسن کی دیوی لگ رہی تھی ۔ جیسے نیلے
رنگ آسمانوں سے قوس و قزح کی کمان پر چلتے ہوئے دھنک کے رنگوں میں رنگی ہوئی کوہ
قاف کی پری۔ عاقب کی نگاہیں اس کے چہرے پر جیسے اٹک کر رہ گئیں۔
پا نچویں دن سردار قدرت اللہ اپنی بیٹی اور چند دوستوں کے
ساتھ صفدر کے یہاں آگئے۔ دوسرے دن عاقب اُن پانچوں جوانوں کے ساتھ سفر پر روانہ
ہوئے۔ بستی کے سردار قدرت اللہ اس کی بیٹی گلبدن اور چار بزرگ تھے۔ تمام لوگوں کو
جہاں عاقب اور گلبدن کی شادی کی خوشی تھی وہاں رحمٰن بابا سے ملنے کا اشتیاق بھی
تھا۔ قدرت اللہ نے صفدر سے بھی چلنے کو کہا تو وہ افسوس کرتے ہوئے بولے۔
” کیا کروں زندگی میں پہلی
مرتبہ باپ بننے کا رہا ہوں۔ بیگم کو نہ ساتھ لے کر جا سکتا ہوں نہ چھوڑ کر
جا سکتا ہوں۔ دیکھیے اب کب ملاقات ہوتی ہے؟“
عاقب کو رخصت کرتے ہوئے شاہدہ بیگم تو بہت روئیں۔ کہنے
لگیں۔” مجھے دلی ارمان ہے کہ جب میرا بچہ اس دنیا میں آئے تو اس کا ماموں بھی اسے
دیکھ لے۔ جس کی دعاؤں سے پندرہ برس بعد ہمیں یہ خوشی نصیب ہو رہی ہے۔“
عاقب نے شاہدہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔” شاہدہ آپا
اللہ کی مہربانی اور رحمٰن بابا کی دعائیں شاملِ حال رہیں تو ان شاء اللہ میں اپنے بھانجھے کو ملنے ضرور
آؤں گا۔“
گلبدن نے تسلی دیتے
ہوئے کہا۔” بھابھی میں بھی تو اپنی بستی میں آتی
رہوں گی۔ ایک زمین پر بستے ہوں تو ملاقات ضرور ہوتی ہے۔ دلوں کے رشتے
فاصلوں کو گھٹا دیتے ہیں۔“
ڈیرہ دون سے کھٹمنڈو تقریباً سات سو کلو میٹر کا سفر تھا۔ تین دن میں یہ لوگ
کھٹمنڈو پہنچ گئے۔ ایک رات ارام کرنے کے بعد یہاں سے تبت کی پہاڑیوں میں رحمٰن
بابا کے پاس جانے کا قصد کیا۔ کھٹمنڈو پہنچ کر عاقب کو سمندگان یاد آگیا۔ اس کا بس
نہیں چلتا تھا کہ اڑ کر رحمٰن بابا کے قدموں میں پہنچ جائے۔ رحمٰن بابا کی کشش اسے
اپنی جانب کھینچتی ہوئی محسوس ہوئی۔ دو دن پہاڑی علاقوں میں گھومتے پھرتے بالآخر
یہ قافلہ اپنے ٹھکانے پر پہنچ ہی گیا۔
ابھی یہ لوگ پہاڑ کے دامن میں نیچے ہی تھے کہ عاقب نے وہاں زمان خان کو کھڑا پایا۔
دونوں پُر تپاک طریقے سے ایک دوسے سے بغل گیر ہوئے۔
زمان خان نے بتایا۔” رحمٰن بابا کل سے تمہاری راہ دیکھ رہے
ہیں۔ مجھے صبح سے یہاں کھڑا کر دیا کہ دیکھو یہ لوگ ابآنے والے ہیں۔“
زمان خان نے عاقب کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔” اور
پتہ ہے رحمٰن بابا نے کیا کہا؟“
عاقب جلدی سے بولا۔” کیا کہا؟“
کہا تھا کہ ” عاقم اس مرتبہ اپنی قندیل کی روشنی بھی ساتھ لا رہا ہے۔“ زمان خان ترنگ میں ہنستے
ہوئے بولا۔
” خوچہ عاقب بھائی۔ روشنی تو آپ کی قندیل سے بھی اچھی ہے۔“
وہ گلبدن کی طرف دیکھ کر کہنے لگا تو گلبدن نے شرما کے اپنی نظریں جھکالیں۔
سب پہاڑ پر چڑھ رہے تھے۔ عاقب سب سے آگے آگے
تھا۔ غار کے دروازے پر رحمٰن بابا کھڑے تھے۔ انہوں نے اپنے دونوں بازو
پھیلا دیئے۔ عاقب کو دیکھ کر خوشی سے ہنستے ہوئے بولے۔” آگئے میرے بیٹے تم آگئے۔“
عاقب ” رحمٰن بابا “ سے ” میرے بابا“ کہتے ہوئے لپٹ کر خوشی
سے رو پڑا۔ اتنے میں گلبدن بھی پاس اگئی۔ رحمٰن بابا نے ایک بازو اس کی جانب بڑھا
دیا۔ بولے۔
”آؤ بیٹ، ہم تو کل سے آپ کے انتظار میں تھے۔“
رحمٰن بابا نے اپنے کشادہ سینے سے دونوں کو لگایا۔ گلبدن کو
یوں لگا جیسے کوئی ٹھنڈا ٹھنڈا نور اس کے قلب میں اندیل رہا ہے۔ رحمٰن بابا غار
والے جوانوں سے بڑی محبت کے ساتھ ملے۔
زمان خان نے دستر خوان پر کئی قسم کے کھانے چن دیئے۔ وہ کہنے لگا۔
” عاقب بھائی آپ کے
جانے کے بعد بانسری میں وہ سُر نہیں رہے تھے۔اب دونوں مل کر بانسری بجائیں گے اور
ہونے والی بھابھی کو سنائیں۔“ کھانا کھا کر سب لوگ کچھ دیر کے لئے لیٹ گئے۔ اُٹھے
تو شام ہو چکی تھی۔ سب لوگ غار والے جوانوں کو گھیر کر بیٹھ گئے۔ زمان خان نے
پوچھا۔” بھائیو! یہ بتاؤ کہ غار میں سونے
سے پہلے تم لوگ شادی شدہ تھے یا نہیں؟“
پتہ چلا ان میں سے کوئی بھی شادی شدہ نہ تھا۔ زمان خان کہنے
لگا۔” خدا قسم ۔ یہ تو بہت اچھا ہوا۔ ورنہ سار ی زنانیاں انتظار کرتے کرتے مر
جاتیں۔“
یہ سن کر سب ہی ہنس پڑے۔ قدرت اللہ نے موقع غنیمت جان کر ” رحمٰن بابا سے گلبدن کی شادی کی بات کی۔“
رحمٰن بابا بولے۔” نیک
کام میں دیر نہیں کرنی چاہیئے۔ کل شام کو نکاح پڑھا دیتے ہیں۔ زمان خان آج ہی بستی کے کچھ
لوگوں کو کل کی دعوت کے لئے انتظام کرنے کا کہہ آئے گا۔“
قدرت اللہ بولے۔” رحمین بابا بیٹی کی شادی ہے۔ میں چاہتا
ہوں کہ بستی سے بھی لوگوں کو مدعو کروں۔ اگر آپ اجازت دیں تو زمان خان کے ساتھ میں
بھی بستی ہو آؤں۔“
رحمٰن بابا خوش ہو کر بولے۔” آپ کو جانا ہی چاہیئے بستی کے لوگ خوش ہو جائیں
گے۔“
اسی وقت زمان خان اور قدرت اللہ بستی کو روانہ ہو گئے۔ دو
گھنٹے بعد زمان خان کے ساتھ بستی کی چند سیانی عورتیں آئیں اور رحمٰن بابا سے کہنے
لگیں۔” عاقب آپ کا بیٹا ہے تو گلبدن ہماری
بیٹی ہے۔ بیٹی کی برات بستی میں آئے گی۔“
رحمٰن بابا بہت خوش ہوئے۔ گلبدن کے ساتھ سب لوگ بستی میں
چلے گئے۔ صرف عاقب ،غار والے جوانوں کے ساتھ
رحمٰن بابا کے پاس رہا۔ اِدھر آدھی رات تک بستی کے لوگ جشن مناتے رہے۔ عورتیں
گاتی بجاتی رہیں۔ گل بدن کی مہندی کی رات تھی۔ عورتوں اور لڑکیوں کی محبت و خلوص
اور اُمنگ بھری خوشیوں کو دیکھ کر گلبدن سوچنے لگی۔ اس بستی کے رہنے والے ابھی
بالکل ہماری بستی کی طرح ہیں۔ وہی خلوص، وہی محبت ، وہی ارمان، وہی اُمنگیں۔ اللہ
کی کی کس قدر مہربانیاں ہم پر ہیں۔ اِدھر آدھی رات تک رحمٰن بابا عاقب اور غار
والے جوانوں کو ان کا آئندہ پلان سمجھا رہے تھے۔ اسی دوران رحمٰن بابا نے
عاقب مخاطب کر کے فرمایا۔
” عاقب بیٹے! جس قیقمت سے گزر کر تم یہاں آئے ہو۔ زمین پر
ایسی قیامتیں جانے کتنی بار گزر چکی ہیں اور اللہ ہی جانتا ہے کہ اور کتنی بار
آنےوالی ہے۔“ پھر وہ سب جوانوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگے۔
” یاد رکھنا میرے بچو! کائنات کی تمام حرکات قدرت کے نظام
کے تحت ہیں۔ جو اللہ کی سنت کے نظام ہیں۔ ان کی اطلاع کتاب و سنت کے ذریعے سے ہم
تک پہنچی ہے۔ جن کا وسیلہ پیغمبران علیہ السلام ہیں۔ ہمارے نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں
کہ ”صفائی نصف ایمان ہے۔“ بچو! کائنات کی
ہر شئے قدرت کے قوانین کی پاسداری کرنے پر مجبور
و پابند ہے۔ تم نے کبھی غور کیا۔” جب سمندر پر کوڑا کرکٹ اور خس وخاشاک جمع
ہو جاتے ہیں تو سمندر کے اندر کام کرنے والی اپنے نفس کی صفائی
کی فکر کے اوپر یہ غلاف بوجھ بن جاتی ہے اور سمندر کی موجیں اپنے نفس کثافت
کو دور کرنے کے لئے نہایت ہی تندہی کے ساتھ کام کرنے لگتی ہیں۔ یہاں تک کہ موجیں
سطح سمندر کی تمام کثافتوں کو ساحل پر پھینک دیتی ہیں اور سمندر اپنے نفس کو اس سے
پاک کر لیتا ہے۔“
” سمندر کی طرح پوری
زمین کا بھی ایک شعور ہے۔ زمین پر جب حد سے زیادہ بدعنوانیاں بڑھ جاتی ہیں۔
جس کی وجہ سے زمین کے اندر موجودہ صلاحیتیں متاثر ہونے لگتی ہیں۔ جیسے زرخیزی کا
نظام، معدنیات کا نظام، ہواؤں کا نظام، بارش کا نظام، زمینی
مخلوق کے خوش باش زندگی بسر کرنے کا نظام ، جب ان نظاموں میں گڑ بڑ پیدا ہو جاتی ہے اور گڑ بڑ اس لئے
ہوتی ہے کہ نوع انسانی کو اللہ تعالیٰ نے ایجادات کرنے کی صلا حیتیں اور ذہن عطا
کیا ہے وہ زمین پر رہتے ہوئے اپنی ضروریات و تقاضوں کے مطابق زندگی کے ارام و
آسائش کے لئے مختلف ایجادات کرتا رہتا ہے۔ جب تک زمین پر کام کرنے والے نظاموں کے
ساتھ انسانی ذہن کی حرکات ہم آہنگ رہتی ہیں تو زمین پر کام کرنے والے تمام نظام قدرت کی منشاء و رضا کے مطابق کام
کرتے رہتے ہیں۔ مگر جب نوع انسانی کی ذہنی
حرکات قدرت کے نظاموں کو بگاڑنے اور مسخ کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہیں تو انسان کی یہ غلط فکر زمین پر بوجھ بن جاتی
ہے۔ زمین کا شعور اپنی تخریب اور بربادی کو نفس
کی کثافت کے روپ میں دیکھتا ہے اور قدرت کے صفائی کے قانون کے مطابق اپنے نفس کی آلائش کو ختم
کرنے پر مستعد ہو جاتا ہے اور قیامت اجاتی ہے، سمندری طوفان آتے ہیں، تند تیز ہوائیں چلتی ہیں، بارشیں بند
ہو جاتی ہیں، شدید ژالہ باری ہوتی ہے۔ زلزلے آتے ہیں، غرض کہ زمینی سطح پر ایسی
غیر معمولی حرکات ہوتی ہیں جس سے سارا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ زمین اتھل پتھل
ہو جاتی ہے۔ جب تمام تخریبی عناصر زمین کی سطح سے ختم ہو جاتا ہے تو پھر زمین نئے
سرے سے تعمیر کے لئے تیار ہو جاتی ہے اور ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے کلہ قیامت خیز
تباہی و بربادی سے زیادہ تر تخریبی عناصر و ذہن تباہ ہوئے ہیں اور باقی بچنے والوں
میں تعمیری ذہن اور عناصر باقی رہے۔ جن سے دوبارہ دنیا نئے سرے سے تعمیر ہوئی۔“
رحمٰن بابا نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔” میرے بچو! یہ بات
کبھی نہ بھولنا کہ زمینی مخلوق کے اندر زمین کا شعور کام کر رہا ہے۔“
مادی یا جسمانی شعور کے لئے زمین کی مثال ایک ماں کی ہے۔ جس
طرح ماں اپنے بچوں کو ارام و چین اور آسودگی میں دیکھنا پسند کرتی ہے۔ زمین بھی
اپنے اوپر بسنے والوں کو پُر سکون اور خوش دیکھنا پسند کرتی ہے۔ قیقمت یا قیقمت
خیز تباہی و بربادی صرف اسی وقت آتی ہے
جب زمین پر بسنے والی مخلوق نا خوش و بے چین و بے سکون ہو جاتی ہے۔ زمین پر آنے
والی قدرتی آفات و بلیات زمین کی حفاظتی تدابیر ہیں۔ جن کے ذریعے زمین زپنے اوپر
سے ناخوش لوگوں کے بوجھ کو اُتار پھینکتی ہے۔انسان زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ
ہے۔ زمین پر جب آفات و بلیات نازل ہوتی ہیں تو جان لینا چاہیئے کہ زمین پر قدرت کے
مقرر کردہ پروگرام کے تحت کام نہیں کیا جا
رہا ۔ اللہ کے خلیفہ ہونے کے ناطے انسان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کے
اسباب و تدارک کو تلاش کر لے اور زمین پر بسنے والی مخلوق کی حفاظت و خوشی کا
اہتمام کرے۔“
رات کافی جا چکی تھی۔ رحمٰن بابا نے فرمایا۔ ” بہتر ہے کہ
تم لوگ اب تھوڑی دیر کے لئے ارام کر لو۔” پھر وہ اپنی جگہ سے
اُٹھتے ہوئے کہنے لگے۔” عاقب میاں ہمارے پاس آپ کی ایک
امانت ہے۔“ یہ کہہ کر رحمٰن بابا غار کے
ایک کونے کی جانب بڑھے وہاں پر بھیڑ کی کھال سے ڈھکا ہوا ایک لوہے کا بکس رکھا تھا۔ انہوں نے اس پر سے کھال ہٹائی یہ بکس بہت ہی پرانے زمانے کا ۔ اس پر پرانے
زمانے کی طرز کا قفل لگا ہوا تھا۔ رحمٰن بابا نے عاقب کو اشارہ کیا۔ عاقب ان کے
پاس آگیا تو بولے۔
” اس بکس کو جہاں ہم بیٹھے تھے وہاں لے چلو۔“ عاقب نے بکس
کو وہاں رکھ دیا اور سوچنے لگا نہ جانے اس بکس میں میرے لئے کیا رکھا ہے رحمٰن
بابا نے؟ رحمٰن بابا نے اس کا قفل کھولا اور اندر سے ایک جوڑا نکال کر عاقب کی گود
میں رکھتے ہوئے بولے۔” بیٹے یہ تمہاری دلہن کا جوڑا ہے اور یہ دولہا کا جوڑا
تمہارا ہے۔“ وہ دوسرا جوڑا اس کو دیتے ہوئے بولے۔ عاقب کے ذہن میں نہایت تیزی سے
مراقبہ کی کیفیات و مشاہدات گزر گئے۔ اس کی
آنکھیں بھر آئیں۔ رحمٰن بابا نے
اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے فرمایا۔” عاقب بیٹے! یہ جوڑے بڑے بھاگوان ہیں۔ تم خوش
نصیب ہو۔ یہ جوڑے ہمارے رسول پاک ﷺ کے حکم پر تمہارے لئے خریدے گئے ہیں اور انہیں
خریدے ہوئے تین سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ تم دونوں پر حضور پاک ﷺ کی رحمت کا سایہ
ہے۔ اللہ تعالی تمہیں سدا خوش رکھے۔“ عاقب کا شدت جذبات سے گلا رندھ گیا وہ کچھ نہ بول سکا بس اپنا سر رحمٰن
بابا کے قدموں میں جھکا دیا اور موتی کے دو قطرے اس کی آنکھوں سے چھلک پڑے۔
دوسرے دن خواب میں
امی ! امی پکارتے ہوئے اپنی ہی آواز پر اس
کی آنکھ کھل گئی۔ اس آواز پر سب جاگ اُٹھے۔رحمٰن بابا بولے۔” کیا خواب دیکھا ہے
عاقب بیٹے؟“
عاقب بولا۔” رحمٰن بابا ! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اور
گلبدن شادی کے لئے وہی جوڑے پہنے ہوئے ہیں
جو آپ نے دیئے۔ اتنے میں امی اور ابو آتے ہیں اور ہم دونوں کی پیشانی چومتے ہیں
اور ہمارے گلے میں بہت سے خوبصورت پھولوں کے ہار پہناتے ہیں۔ ان پھولوں کی خوشبو انتہائی
لطیف ہے۔ میں اور گلبدن سانس کے
ذریعے ان پھولوں کی خوشبو کو آہستہ آہستہ
اپنے اندر جذب کرتے جاتے ہیں ' ہمارے اندر یہ خوشبو خوشیاں بن کر پھوٹنے لگتی
ہیں۔' امی ابو ہمیں خوش دیکھ کر مسکراتے ہیں اور بغیر کچھ کہے سنے چپ چاپ لوٹ جاتے
ہیں اچانک میری نظر ان کو جاتے ہوئے دیکھ لیتی اور میں امی امی کہہ کر انہیں زور
زور سے پکارتا ہوں۔“
خواب سن کے رحمٰن بابا نے کہا۔” بیٹے اولاد کا رشتہ رحم کا
رشتہ ہے۔ کائنات کی ہر شئے میں عقل و شعور موجود ہے۔ رحم بھی اپنی ذات کا شعور رکھتا ہے۔ ماں کے رحم میں پرورش پانے والے تمام
بچوں کا ریکارڈ رحم کے حافظے میں نقش ہو جاتا ہے۔ اس طرح ماں کے رحم کے ساتھ بچوں
کا ایک خسوصی تعلق یا رابطہ قائم ہو جاتا ہے۔ بچہ ماں کے رحم سے جدا ہو کر خواہ جس
جگہ بھی رہتا ہے۔ رحم کا
یہ رابطہ اسے ماں کے رحم کے ساتھ منسلک رکھتا ہے اور اسی
تعلق کے ذریعے ماں کو بچے کے حال سے آگاہی رہتی ہے۔
ماں کی حیثیت اپنی اولاد کے لئے خالق کی سی ہے۔ خالق اپنی
مخلوق سے بے غرج محبت رکھتا ہے اور مخلوق کی ضروریات کی کفالت کا ذمہ دار ہے۔ ماں
بھی ذیلی خالق ہونے کے ناطے اپنی اولاد سے بے غرض محبت رکھتی ہے اور اس کی ضروریات
کے لئے ایثار و قربانی اور دعا سے اپنے بچوں کی کفالت کرتی ہے۔ ماں باپ کی روح کا
نور ہے جو ماں باپ اپنے بچوں کے اندر منتقل کرتے ہیں۔ اس نور کی انرجی سے اولاد کے
بگڑے کام سنور جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو قطع رھمی سے منع کیا اور ماں باپ کے ساتھ محبت و خدمت کا
سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔“
رحمٰن بابا کی باتیں سن کر عاقب بولا۔” رحمٰن بابا میرے امی
ابو ہمیں خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہیں ہمارا کتنا خیال ہے۔“
یہ کہتے کہتے اس کی آواز بھرا گئی۔ کبھی کبھی ماضی کی خوش
کن یادیں بھی کیسی پُر سوز بن جاتی ہیں۔ اس بات کا تجربہ اسے آج ہو رہا تھا۔ دوپہر
کو زمان خان آگیا۔ اس کے ساتھ اس کے چند ساتھی بھی تھے۔ سہہ پہر کو عاقب تیار ہو
گیا۔ سفید پٹھانی جوڑے میں اس کا روپ خوب کھل رہا تھا۔ سنہری حاشیے جوڑے میں چار چاند لگا رہے تھے۔ رحمٰن بابا نے بڑے پیار
سے اس کے سر پر کُلا ہ رکھا اور گلے سے لگایا۔ زمان خان کی خوشی کی انتہا نہ تھی
پہاڑ سے اُترتے ہی اس نے اپنی بانسری سنبھال لی اور اس کے ساتھیوں نے بھی اپنی
اپنی بانسریاں نکال لیں۔ فضا میں خوشیوں کے سُر بکھرنے لگے۔ رحمٰن بابا نے نکاح
پڑھایا۔ گلبدن آسمان سے اُتری ہوئی کوئی حور
دکھائی دے رہی تھی۔ رات گئے جشن
ہوتا رہا۔ ساری بستی میں خوشی کی لہریں
دوڑ رہی تھیں۔ رات کو برات دُلہن کو لے کر
واپس رحمٰن بابا کے ہاں آگئی۔ غار کا دوسرا چیمبر دلہن کا حجلئہ عروسی بنا۔
آج زمین پر دو چاند کا ملن تھا۔ رحمت کے غلاف میں لپٹے ہوئے دو چاند ۔ جن کا ملاپ
فطرت کی آغوش میں تھا۔ اس نے اسے سینے سے لگا لیا۔ کان میں سرگوشی کی۔” تو پھر رکھ
دیں قدم؟“ وہ گرم سانسوں کے درمیان پیار
سے بولی۔” تم پاگل ہو۔“ اسے یوں لگا جیسے وہ چاندی کا چمکتا ہوا بلوریں
ساغر ہے ۔ جس میں ساقی میخانہ شراب اندیل رہا ہے۔ رندِ تشنہ لبی کچھ اور بڑھ گئی۔
دل دیوانہ جوانی کے مدھر ساز پر کھنکتی آواز کے لئے مچل پڑا۔” کیا کہا؟“ ۔۔۔ گرم
سانسوں میں دھڑکنوں کے ساز ملنے لگے۔ ”تم پاگل ہو“ اب کے سے اسے یوں لگا اس کی جان
کی خلاؤں میں کوئی روح پھونک رہا ہے۔ محبوب کی آواز کی لہریں اس کی جان کی گہرائی میں دور تک اترتی چلی گئیں۔ آتی دور کہ اسے ایک بار پھر کہنا پڑا۔” کیا کہا تم
نے؟“ عشق کی لہریں گہرائی سے سطح پر لوٹنے
لگیں۔” تم پاگل ہو۔“ اس نے اس کا سر اپنے سینے سے لگا لیا۔ جیسے دل کی کھڑکی کھل
گئی۔ سرِ دلبراں کو اپنے عالمِ حقیقت میں راہ مل گئی۔ اس نے سُر ور میں اپنی آنکھیں
بند کر لیں۔ اس نے دیکھا کہ آسمان پر ایک کھڑکی کھلی ۔ وہ اپسرا کے روپ میں
لہراتی بل کھاتی آسمان پر اُڑی چلی جا رہی
ہے۔ اس کی نگاہ کھڑکی پر ٹکی ہوئی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ کھڑکی اسی کے لئے کھولی گئی
ہے۔ وہ محبوب جو آسمانوں میں چھپ کر بیٹھا ہے۔ آج اس نے اپنے دل کا دروازہ اس کے
لئے کھول دیا ہے۔ وہ اپنے الھڑ روپ کا آنچل ڈھلکاتی، ساغر الست کی مے چھلکاتی،
محوبو دلنواز کا عکس ، پاکیزگی عشق کا پر تو تخیل ہستی کی اپسرا ، جمال ِ روح بن
کر عالمِ دل میں داخل ہو گئی۔ دل کا دروازہ بند ہو گیا۔
تین دن بعد قدرت اللہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ رحمٰن بابا کی
اجازت لے کر اپنی بستی میں واپس لوٹ گیا۔ رحمٰن بابا نے عاقب اور گلبدن کو اپنے
پاس روک لیا اور سچ پوچھو تو دونوں کو رحمٰن بابا کے پاس سے کہیں اور جانا پسند ہی نہیں تھا۔غار والے جوانوں کے
ساتھ دونوں خوب گھل مل گئے تھے۔ زمان خان بھی اب زیادہ تر اُدھ ہی رہتا ، دنیا بھر
کی باتیں ہوتیں، بانسری پر طرح طرح کی دھنیں بجائی جاتیں اور پھر رحمٰن بابا کے دیئے ہوئے اسباق
وریاضتیں کی جاتیں۔ تین مہینے اسی معمول
میں گزر گئے۔ سب کی روحانی صلاحیتیں اپنی اپنی جگہ بیدار ہوگئیں۔ ایک دن
صبح صبح اُٹھتے ہی رحمٰن بابا کہنے لگے۔
” بچو! اب وقت آگیا ہے کہ تم سے کام لیا جائے تم سب کو دنیا
میں الگ الگ رہ کر کام کرنا ہوگا۔“
گلبدن گھبرا کے بولی۔” الگ الگ رہنا ہوگا۔“
رحمٰن بابا مسکرا کر تسلی دیتے ہوئے بولے۔” تم عاقب کے ساتھ
رہو گی۔“
گلبدن کی جان میں جان آگئی۔ رحمٰن بابا نے سب کی طرف دیکھتے
ہوئے کہا۔ ” جاؤ اور دنیا میں پھیل جاؤ۔
اللہ تمہارا حامی اور مدد گار ہے۔“
گلبدن سوچنے لگی۔” پانچ سو سال میں زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ
چکا ہے۔ غار والوں کے لئے نئی نئی جگہوں
پر نئے نئے لوگوں میں کام کرنا مشکل نہ ہو جائے۔“ اس نے اپنا اندیشہ غار
والوں پر ظاہر کیا۔ ان سب نے ایک ہی جواب دیا۔
” جب ہم غار میں جاگے تو ہمیں محسوس ہوا تھا کہ جیسے کسی نے
ہمیں گہری نیند سے جگا دیا۔ مگر نیند کی حالت کا کوئی خواب یا کوئی واقعہ ہمیں یاد
نہ تھا۔ دنیا کی ہر شئے بدلی بدلی لگتی تھی۔ مگر رحمٰن بابا کے زیر سایہ رہتے
ہوئے ہم سب اپنے اندر ایک بڑی تبدیلی محسوس کرتے ہیں۔ اب ایسا لگتا ہے جیسے دنیا
کی ہر شئے ہماری جانی پہچانی ہے۔ ہر چیز دیکھی بھالی سی لگتی ہے۔ ہر واقعہ اور ہر
بات جو آپ لوگ سناتے ہیں۔ ایک لمحے کو ایسا لگتا ہے جیسے ہم اس سے پہلے دیکھ اور سن چکے ہیں۔ ہمیں یوں لگتا ہے جیسے پانچ سو سال کی طویل نیند
میں دیکھے ہوئے خوابوں نے حقیقت کا روپ دھار لیا ہے۔“
ضرور یہ ہمارے
رحمٰن بابا کا روحانی تصرف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ” گزشتہ پانچ سو برس تم سب
نے اپنے عالم برزخ میں گزارے ۔ عالمِ برزخ
کا تصویری رخ دنیا ہے۔ جو کچھ تم برزخ میں وقت کی بساط پر دیکھ آئے ہو۔ اسی کا
ظہور دنیا کے لمحات میں یکے بعد دیگرے ایک ایک کر کے دیکھتے رہوگے۔ یہ دنیا اس کے
لئے نئی نہیں ہے جو اپنے عالم برزخ سے گزر کر یہاں آیا ہے۔ دنیا کی ہر شئے برزخ کی روشنیوں کا مظاہرہ ہے۔ جب نظر
عالم برزخ میں کسی شئے میں روشنیوں کی
ترتیب کو دیکھ لیتی ہے تو اسے دنیا میں اس شئے کا پہچاننا آسان ہو جاتا ہے۔ عالمِ
برزخ ہمارے حافظے کا تصویر خانہ ہے۔ روح کا ارادہ ان تصویروں کو دنیا کی اسپیس میں
چھاپتا رہتا ہے۔“
رحمٰن بابا کہتے ہیں کہ” ایک طویل مدت کے بعد دوبارہ دنیاوی
حواس میں زندگی گزارنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ تم وقت کی بساط پر رونما ہونے
والے مظاہرات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہو۔ جیسے جیسے تمہارے یقین میں پختگی
آتی جائے گی۔ ویسے ویسے لمحات کا درمیانی
وقفہ سمٹتا جائے گا اور دنیا میں رونما
ہونے والے واقعات کی رفتار تیز ہو جائے گی۔ دنیاوی عقل و شعور لمحات میں رونما ہونے والے واقعات کی ہر تصویر الگ
الگ دیکھنے کا عادی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر لمحے کو علیحدہ علیحدہ جانتا ہے۔ بندے
کے اندر یقین کا نور جب ذخیرہ بن جاتا ہے تو عقل کی نگاہ اس نور میں لمحات کے
تسلسل کو دیکھتی ہے اور وقت کے اندر دور تک اس کی نگاہ دیکھ لیتی ہے۔ جہاں تک نظر
کام کرتی ہے ایک ہی لمحہ کا ادراک ہوتا ہے نور کی روشنی میں لمحات کے درمیانی وقفے
معدوم ہو جاتے ہیں۔ درمیانی وقفہ ناسوتی روشنی کا ایک پردہ ہے جو وقت کی شعاع کو
بے شمار لہروں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ یقین کا نور ٹائم کی شعاع کے درمیانی وقفوں
سے ناسوتی روشنی کے پردوں کو نگل جاتا ہے۔
جیسے اجالا اندھیرے کو کھا جاتا ہے تب وقت کے تمام لمحات ایک لمحے میں سمٹ
جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک لمحے کو قرآن نے قیامت کا نام دیا ہے۔ کہ قیامت کا لمحہ ایک
ساعت میں رونما ہونے والے واقعات ہیں۔ جس میں شعوری حواس اپنی روٹین سے ہٹ کر ایک
لمحے یا ایک ساعت میں کام کریں گے۔ قیامت کی حشر سامانیاں اور پریشانیاں و تکالیف
شعوری حواس کی روٹین کا ٹوٹنا ہے۔ پھر اس کے بعد نئے سرے سے حواس کی نئی ترتیب کے
ساتھ تعمیر ہوگی۔ جسے حشر کے بعد دوبارہ زندہ ہونا کہا گیا ہے۔“
پورے ایک ہفتے تک رحمٰن بابا سب جوانوں کو اللہ تعالیٰ کے
مشن میں کام کرنے کی تربیت دیتے رہے اور بالآخر وہ دن آ ہی گیا جب سب اپنے مرشد کی
نشاندہی پر رختِ سفر باندھ کر چلنے کے لئے تیار ہوگئے۔ عاقب اور گلبدن کے لئے
رحمٰن بابا کا حکم تھا کہ وہ انقرہ لوٹ جائیں۔ انقرہ کا نام سنتے ہی عاقب کو ایک
جھٹکا سا لگا، اس کا دل فریاد کرنے لگا، انقرہ میں اب کیا رکھا ہے؟ تین سال پہلے
کا ہولناک سیلاب پھر تند و تیز موجوں کے ساتھ اس کے دل سے گزرنے لگا۔ اس کی بھپرتی
موجوں کی ہر لہر میں اس کے ماں باپ کا چہرہ ابھرنے لگا۔ وہ رحمٰن بابا کے سینے سے
لپٹ کر بچوں کی طرح بلک بلک کے رونے لگا۔
رحمٰن بابا نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
” بچے! بننا اور بگڑنا دنیا کا نصیب ہے۔ ایک رخ کے پیچھے
دوسرا رخ چلا آتا ہے۔ ایک رخ سے تم گزر کر
یہاں آئے ہو اب دوسرے رخ میں داخل ہونے کی تیاری کرو۔“
عاقب اور گلبدن جہاز سے استنبول پہنچے۔ تین سال پہلے کے
استنبول اور آج کے استنبول میں زمین آسمان کا فرق تھا، نہ اونچی اونچی بلڈنگیں
تھیں، نہ وہ ہنستی بستی آبادیاں تھیں بلکہ دور دور چند گھروں پر مشتمل محلے داریاں تھیں۔، جگہ جگہ سیلاب اپنے نشانات
کھنڈرات کی صورت میں چھوڑ گیا تھا۔ عاقب اور گلبدن تین دن یہاں ٹھہرے۔ یہاں کے
رہنے والوں نے بتایا کہ انقرہ میں ابھی تک حالات معمول پر نہیں آئے ہیں۔ سرکار کی
جانب سے برابر امداد دی جا رہی ہے مگر اب بھی لوگ کچے پکے مکانوں میں رہتے ہیں۔
عاقب انقرہ پہنچا تو دنیا ہی بدلی ہوئی تھی۔ سارا شہر چٹیل میدان بنا ہوا تھا۔ جس
میں جگہ جگہ کچے پکے مکانات تھے۔ وہ گلبدن کو لے کر سارے شہر کا چکر کاٹ آیا مگر
یہ نشاندہی نہ ہو سکی کہ اس کا گھر کہاں تھا؟ اس نے مکانوں کے قریب ہی ایک جگہ
منتخب کر کے خیمہ لگا لیا۔ تھکے ہوئے تھے، جلد ہی سو گئے۔ صبح اُٹھ کر اس نے گلبدن
کو ساتھ لیا اور ایک ایک گھر پر دستک دی کہ شاید کوئی پچھلا جان پہچان کا بندہ مل
جائے جو اسے یا اس کے والدین سے واقف ہو۔ مگر جتنے بھی لوگ ملے سب انجان تھے۔ چند
ہی دنوں میں سب ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل
گئے۔ آبادی کم ہونے کی وجہ سے زمین کافی
خالی تھی۔ عاقب نے لوگوں کو ترغیب دلائی
کہ وہ اپنی اپنی زمینوں پر کھیتی باڑی شروع کر دیں۔ اس طرح مصروفیت بھی رہے
گی اور رزق کی طرف سے بے فکری بھی رہے گی۔
ساتھ میں اگر بھیڑ بکریاں بھی پال لی جائیں تو رزق میں مزید فراوانی ہوگی۔ اس نے
خود بھی بھیڑ بکریاں پال لیں۔ عاقب اور گلبدن لوگوں کو زندگی کی اسی طرز کو اپنانے
کی تلقین کرتے۔ وہ لوگوں کو بتاتے کہ حضرت آدم علیہ السلام کھیتی باڑی کیا کرتے
تھے اور بھیڑ بکریاں پالنا پیغمبروں کا طریق رہ چکا ہے۔ اس طرز معاشرت میں آدمی
اپنے آپ کو فطرت سے قریب رکھتا ہے۔ فطرت سے قریب زندگی پریشانیوں اور ذہنی دباؤ سے
آزاد زندگی ہے۔ جو خوشیوں سے بھر پور ہے۔ خوش باش آدمی کی ذہنی صلاحیتیں ابھرتی
ہیں اور وہ اپنے لئے اور دوسروں کے لئے سود مند ثابت ہوتا ہے۔ دو سال کے عرصے میں
ہر طرف کھیتیاں لہلہانے لگیں۔ انقرہ کا چٹیل میدان ایک خوبصورت چمن بن گیا۔
٭٭٭