Topics

(پچیسویں قسط)

عاقب کو یوں لگا جیسے کسی نے ستاروں سے بھری چادر پہنا دی ہو۔ جس سے لگتے ہی اسے اللہ تعالیٰ کی شانِ ربوبیت پر بہت پیارآنے لگا۔ وہ سوچنے لگا ۔ اللہ تعالیٰ کی ذات بھی کس قدر رحیم ہے کہ کائنات کی محتاجی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہر آن او ہر لمحے اسے رزق فراہم کر رہی ہے۔ بلا شبہ تجلی کی روشنی ہی کائنات کا رزق ہے۔ جس کے بغیر کائنات کا وجود  ممکن نہیں ہے۔ اس کی روحانی نظر دوبارہ اُفق اعلیٰ پر پہنچی۔ جہاں سے تجلیات کا نزول ہو رہا تھا۔ اس سطح پر نظر پڑتے ہی اس کے اندر ” لا“ کا تصور اُبھرا۔ جیسے یہاں کچھ نہیں ہے۔ خیال آیا۔ یہ نفی اللہ کی نفی نہیں ہے۔ بلکہ خود بھی اپنی ذات کی نفی ہے کہ اس مقام پر آنا ذات کے پردے میں مستور ہے۔ آنا کے بغیر ذات کا ظہور نہیں ہے۔ آنا ذات کی پہچان ہے۔ اسی لمحے تجلی  دکھائی  دی اور ذہن میں اللہ کی موجودگی کا تصور اُبھرا۔ دل سے آواز آئی  ۔ الا اللہ ۔ اللہ ہے۔ دل نے دہرایا دل کے اقرار پر ذہن نے چونک کر یہی الفاظ سوالیہ انداز میں دہرائے۔ اللہ ہے؟ سوال کی توسیع ہوئی۔ اللہ کا اقرار کس نے کیا؟ دل نے کہا۔ ذات کی انا نے۔ ذہن نے کہا۔ انا کہاں ہے؟  اسی لمحے تجلی سے نور نکلا اور منتقل ہو گیا۔ اسی منتقل تجلی کو دیکھ کر دل نے کہا۔ یہ تجلی کا جمال ہے، یہ ذات کی آنا ہے ، جو ذات کی تجلی کو پہچاننے کا کردار ادا کر رہی ہے۔ ذات کی ہر تجلی اسمائے الہٰیہ ہیں۔ اب اس کے  ذہن  میں خیال آیا۔ آنا جو ذات کو پہچاننے کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس آنا کی خود اپنی پہچان کیا ہے؟  ذہن  کے اس سوال پر دل نے مشورہ دیا۔ معراج کے لمحے میں جھانک کر دیکھو۔ اُسے یوں لگا ۔ جیسے اُس کی پیشانی سے نور کی ایک روشن دھار نکل رہی ہے اور یہ نور آہستہ اہستہ فضا میں میں بڑھتا چلا  جا رہا  ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اس نور کے اندر مناظر ابھرنے لگے۔ زمین و آسمان عرش و کرسی سب کچھ  دکھائی  دیئے۔ یوں لگا جیسے یہ نور پوری کائنات کا محیط ہو گیا ہے۔ اُس کے ذہن میں خیال آیا یہ حقیقت محمدی ﷺ کا دراک ہے۔ جو روح اعظم کا شعور ہے۔ اسے ستاروں بھری چادر سے رحمت اللعالمین ﷺ کی رحمت کا احساس ہوا۔ اس نے اسے اپنے چاروں طرف لپیٹ لیا اور ستاروں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ جوں جوں ستاروں پر ہاتھ پھیرتا جاتا۔ توں توں حضور پاک ﷺ کی محبت دل میں زیادہ ہوتی جاتی۔ دل نے کہا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی تجلیات ساری کائنات پر محیط ہیں۔ اسی طرح رحمت العالمی ﷺ کی رحمت کی تجلیات بھی ساری کائنات پت محیط ہیں۔ ربوبیت کی تجلیات میں ذات  کی انا تجلی کی صورت میں اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے اور رحمت کے انوار میں ذات  کی انا تجلی سے ہٹ کر اپنے جمال کو تجلی کی نگاہ کے سامنے ظاہر کرتی ہے۔ اس طرح رب العالمین اور رب العالمین کو پہچاننے والی حقیقت رحمت العالمین ﷺ کے نام سے مخلوق میں پہچانی جاتی ہے۔

ایک روز جب اُس کے گھر میں سب لوگ اکٹھا تھے، خضر بابا نے کہا۔” تہجد کے وقت ہم تمہیں لینے  آئیں گے۔

 ان شاء اللہ ۔“ خضر بابا اور رحمٰن بابا رخصت ہوئے۔ عاقب کے ممی پاپا بھی اپنے گھر چلے گئے۔ عاقب گلبدن کو اس عالم کے متعلق باتیں بتاتا رہا۔ گلبدن کے قہقہے ہوا کی جھنکار بن گئے۔ فضاء میں ہر طرف خوشیوں کے رنگ بکھرنے لگے۔ زندگی کا خواب ایک حسین حقیقت بن کر نظر کے صامنے آگیا۔

آدھی رات گزرنے کے بعد خضر  بابا عاقب اور گلبدن کو لینے آئے۔ آج ان کا جسم غیر معمولی طور پر روشن تھا۔ ان کے گھر میں قدم رکھتے ہی سارا گھر منور ہو گیا۔ عاقب اور گلبدن ان کے منتظر تھے۔ خضر بابا نے دونوں کے سروں پر ہاتھ رکھ کر منہ ہی منہ میں کچھ آیتیں اور اسمِ الہٰی دہرائے۔ اُسی وقت عاقب اور گلبدن کے جسم بھی خضر بابا کی طرح خوب روشن ہو گئے۔ خضر بابا دروازے سے باہر نکلے اور ہاتھ کے اشارے سے دونوں کو اپنے پیچھےآنے کا حکم دیا سب باہر نکلے تو دروازے کے پاس ہی صاف شفاف روشنیوں سے جگمگ کرتے تین  سفید گھوڑے  کھڑے تھے۔ تینوں اپنے اپنے گھوڑوں کو پہچان گئے۔ ان پر سوار ہوتے ہی گھوڑے ہوا سے باتیں کرنے لگے۔ تینوں کو مظبوط جم کر ان پر بیٹھنا پڑا۔ یوں محسوس ہوا جیسے کوئی ابردست قوت کی کشش ہے جو انہیں اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔ گھوڑے انہیں وقت کی گہرائی  میں انتہائی  تیز رفتای کے ساتھ لئے جا رہے تھے۔ تیز رفتاری کی وجہ سے عاقب ائر گلبدن نے اپنی  آنکھیں  بند کر لیں۔ خضر بابا نے ان کا ڈر دور کرنے کے لئے انہیں  پکارا۔

” ارے بھئی، عاقب گلبدن ذرا اپنی  آنکھیں  تو کھولو۔ ذرا دیکھو تو ہم کہاں جا رہے ہیں۔“

خضر بابا کی آواز نے ان کی قوت کو بحال کیا۔ انہوں نے  آنکھیں  کھولیں تو خضر بابا کو اپنی طرف متوجہ پایا۔ وہ مسکرا  کر بڑے پیار سے انہیں دیکھ رہے تھے۔

 کہنے لگے۔” جب میں  بھی پہلی دفعہ اس تیز رفتار گھوڑے پر بیٹھا تو خوف سے میں نے بھی اپنی  آنکھیں  بند کر لی تھیں۔ یہ خوف حرکت کی لہروں کے ٹکرانے سے پیدا ہوتا ہے مگر پھر  جیسے  ہی یہ لہریں حواس میں منتقل ہو جاتی ہیں حواس ان لہروں کو پہچان لیتے ہیں۔ پھر خوف زائل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ تیز رفتار لہریں حواس و شعور کو بھی تیز رفتار بنا دیتی ہیں۔ عاقب اور گلبدن نے دیکھا کہ وہ روشنیوں کی فضاء میں اڑ رہے ہیں۔ اس فضا میں بہت سے ستارے و سیارے بھی گردش کر رہے ہیں۔ ابھی وہ اتنا ہی دیکھ پائے تھے کہ روشنیوں کی فضا ء اور زیادہ لطیف و شفاف روشنیاں میں تبدیل ہو گئی۔ اس فضاء میں بھی ستارے گردش کررہے تھے ابھی وہ اتنا ہی دیکھ پائے تھے کہ روشنیوں کی فضاء اور زیادہ لطیف و شفاف روشنیوں میں تبدیل ہو گئی۔ اس فضا میں بھی ستارے گردش کر رہے تھے اور شفاف ہونے کی وجہ سے ان کے اوپر آبادیاں بھی  دکھائی  دیتی تھی۔

خضر بابا کہنے لاگے۔” تم نے دیکھا کہ روشنیوں کے زون بدلتے جا رہے ہیں۔ جیسے جیسے ہم وقت کی گہرائی  میں جاتے ہیں روشنیاں لطیف سے لطیف تر ہوتی جاتی ہیں۔ روشنیوں کے یہ زون آسمان ہیں۔ جن مخصوص روشنیوں کے دائروں میں نظام شمسی گردش کر رہے ہیں ۔ روشنیوں کے دائرے ان نظام شمسی کو اپنے حصار میں لئے ہوئے ہیں۔ آن حصار کو آسمان کہا گیا ہے۔ آسمان اپنے دائرے کے اندر موجود تمام نظامِ شمسی کو توانائی  بہم پہنچاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیع سماوات یعنی توانائی  کے ساتھ زون بنائے ہیں۔ جس میں روح اپنی قوتوں اور صلاحیتوں کا عملی مظاہرہ کر رہی ہے۔“

ایک آسمان سے دورے آسمان میں داخل ہونے کے لئے باقاعدہ راستے بنے ہوئے تھے۔ ان راستوں پر دروازے تھے۔ خضر بابا نے بتایا کہ:

”یہ بروج ہیں۔“

 ان بروج سے روشنیاں نہایت تیز رفتاری سے نیچے آتی    دکھائی  دیں اور ان  روشنیوں میں بے شمار نظام شمسی تیرتے  دکھائی  دیئے۔ یہ روشنیاں اس آسمان کے دائرے میں چکر کاٹتی ہوئی پھر واپس انہی بروج سے اوپر لوٹ رہی تھیں۔ اس طرح ان بروج کشش کی ایک زبردست قوت موجود تھی۔ جب  یہ لوگ ان بروج کے قریب آئے تو دروازہ کھلا اور روشنی کے زبردست دھارے نے انہیں اپنے اندر کھینچ لیا۔ اس طرح ہر آسمان سے گزرتے ہوئے یہ سب ساتویں آسمان پر پہنچ گئے۔ برج کے پاس پہنچ کر خضر بابا بولے۔

” یہ نور کا دھارا ہے جس میں سے ہم ابھی گزرنے والے ہیں۔ اس نور کی قوت کو اللہ تعالیٰ نے ”سلطان“ کہا ہے۔ جس کی مدد کے بغیر آسمان کی سرحد سے باہر نہیں نکلا جا سکتا۔“

گلبدن نے کہا۔” بالکل درست ہے۔“

خضر بابا بولے۔” اگر یہ نور ہمیں نہ کھینچے تو ہم میں اتنی قوت نہیں ہے کہ اتنی اونچی اڑان اُڑ سکیں۔؛

برج کے دروازے پر آ کر تینوں گھوڑے کھڑے ہو گئے۔ جیسے ہی گھوڑے رُکے۔ دروازہ کھلا۔ ایک  انتہائی  پُرجلال نور کی آبشار نما موج آئی  اور تینوں اپنے اندر کھینچ لیا۔ گھوڑے وہیں کھڑے کے کھڑے رہ گئے۔ یہ نور کی شعاع تینوں  کو اڑائے لئے جا رہی تھی۔ اس نور نے ان کا اس طرح احاطہ کر رکھا تھا کہ ان کے چاروں طرف سوائے نور کے اور کچھ   دکھائی  نہ دیا۔ کچھ دیر بعد ان کے پاؤں نور کی زمین پر رُکے تو نور کی یہ چادر بھی ان کے اطراف سے ہٹ گئی۔ اب ان کے سامنے ایک نہایت ہی لطیف چادر بھی ان کے اطراف سے ہٹ گئی۔ اب ان کے سامنے ایک نہایت ہی لطیف و شفاف فضاء تھی۔ خضر بابا نے فرمایا” ہم سلطان کی مدد سے ساتوں آسمان سے گزر کر سدرۃالنتہیٰ پر پہنچ  چکے ہیں۔“

پھر انہوں نے عاقب اور گلبدن کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔” اے بچو! تم جانتے ہو۔ سدرۃ المنتیٰ  پر کیا ہے؟“

عاقب اور گلبدن نے بیک زبان عرض کی

”خضر بابا جو آپ جانتے ہیں۔ وہ ہم نہیں جانتے۔“

خضر بابا نے فرمایا ۔”یہاں آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کے اسرار ہیں۔ جیسا کہ اللہ پاک قرآن میں فرامتے ہیں کہ” ہم نے دکھا دی اور ابراہیم علیہ السلام کو ساری بادشاہی آسمانؤ اور زمین کی۔“ تم نے دنیا میں حج کے دوران مقامِ ابراہیم پر جو نماز پڑھی تھی اس مقام کی حقیقت  کا مشاہدہ تمہیں یہاں ہوگا۔ یاد رکھو! مرنے کے بعد یہ مشاہدہ صرف وہی کر سکتا ہے۔ جس کی مقام ابراہیم پر ادا کی گئی نماز دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں قبول ہو چکی ہو۔ یقینا! یہ بات تم دونوں  کے مشاہدے میں اب ا چکی ہے کہ انسان کے اعمال بار گاہِ الہٰی میں قبول ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کام  کے حکم میں امر ِ الہٰی کے انوار آدمی کے اندر منتقل ہو گئے۔ ہر کام کا حکم اللہ کی جانب سے ہے۔۔ امر الہٰی کی ہر روشنی اللہ تعالی اللہ تعالیٰ کے کسی نہ کسی علم کی نشاندہی کرتی ہے۔ روح کے جسم مثالی میں منتقل ہونے والے انوارِ جسم مثالی کو اس قدر لطیف بنا دیتے کہ مرنے  کے بعد جب آدمی اپنے جسم مثالی کے ساتھ اعراف میں زندہ ہو جاتا ہے تو یہ انوار اس کے حواس بن جاتے ہیں جن کے ذریعے وہ غیب کی حقیقتوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔“

خضر بابا کی بات ختم ہوئی تو بیت المعمور سامنے آگیا۔ نور  کے اس  کعبہ پر نظر پڑتے ہی خضر بابا بولے۔” اے بچو! یہ مقام ابراہیم علیہ السلام ہے۔ جس کا مادی دنیا میں مظاہرہ حضر ت ابراہیم علیہ السلام کا مکہ شریف میں کعبہ تعمیر کرنا ہے۔“

جیسے ہی خضر بابا نے یہ بات کہی۔ عاقب اور گلبدن کی نگاہ نے مکہ شریف کے کعبہ مبارک کو چشم زون میں دیکھ لیا اور پھر فوراً ہی ان کی نظر بیت المعور پر لوٹ آئی۔

اسی وقت خضر بابا بولے۔” مکہ شریف میں کعبہ شریف کی تعمیر کے دوران حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نظر اسی طرح چشم زدن میں زمین سے آ سمان پر بیت المعمور کو دیکھتی تھی۔ آؤ اس اللہ کو سجدہ کرو۔ جس نے تم تمہاری نظر کو یہ صلاحیت عطا کی۔“

تینوں اسی وقت بیت المعمور کے سامنے سجدے میں گر گئے۔ عاقب اور گلبدن کو یوں محسوس ہوا۔ جیسے ان کے وجود کا ایک

ایک ذرّہ کلی کی مانند کھلتا چلا جا رہا ہے۔ تینوں نے اکٹھا سجدے سے سر اُٹھایا اور خضر بابا کے ساتھ بیت المعمور میں داخل ہوئے۔ طوافِ حرم کے بعد خضر بابا نے دونوں کو حضرت ابراہیم  علیہ السلام سے ملوایا۔ آپ علیہ السلام نے دونوں کے سروں پر اپنا دست مبارک رکھ کر دعا دی اور بیت المعمور کے ایک گوشے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔

          ” یہ رکن یمانی ہے۔ اس مقام پر مراقب ہو جاؤ اللہ پاک سے محبت رکھنے والوں کو اللہ  اپنی نشانیاں ضرور دکھاتا ہے۔“

          تینوں نے رکوع کے بل جھک کر نہایت ہی تعظیم کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آداب کیا اور آپ علیہ السلام کے حکم کے مطابق رکن یمانی کے گوشے میں پہنچے یہاں بیت المعمور  کی طرح کی تیز روشنیاں و انوار نہ تھے بلکہ یہ مقام نسبتاً تاریک تھا۔ یہاں چاندنی رات کا سماں تھا۔ یہاں داخل ہوتے ہی نور کی ٹھنڈی تھنڈی روشنی اور بھینی بھینی خوشبو نے تینوں کے حواس کو ایک لطیف سحر میں جکڑ لیا۔ انہیں یوں محسوس ہوا جیسے ان کے وجود کے ذرّے ذرّے سے سرور  و مستی کا خمار داخل ہوتا جا رہا ہے۔ ان کے تمام حواس سرور میں ڈوب گئے۔

          خضر بابا نے فرش پر بیٹھتے ہوئے دھیمی آواز میں فرمایا۔” یہ وقت تہجد ہے۔ بار گاہ ایزدی میں مراقب ہو جاؤ۔ تینوں  آنکھیں  بند کر کے کیف  و سرور کی حالت میں اپنے ربّ کی بارگاہ میں مراقب ہوگئے۔ تجلیات و انوار الہٰیہ نے تینوں  کے وجود کو ہر طرف سے ڈھانپ لیا۔ روح مراقبہ کی حالت میں اپنے ادراک کی معراج کو چُھونے لگی اور مقامِ محمود پر بحر تجلیات میں حقیقت محمدی اپنے جلوے دکھانے لگی۔

          مراقبہ ختم ہوا تو خضر بابا نے فرمایا۔” اللہ تعالی نے حجور پاک ﷺ کے لئے تہجد میں خصوصی طور پر عبادت کا حکم فرمایا اور اس کے صلے میں آپ ﷺ کو مقام ِ محمود پر فائز کرنے کا وعدہ فرمایا۔ یعنی تہجد کی عبادت حقیقت محمدی ﷺ کے شعور کو بیدار کرتی ہے۔ یہ مقام قرب خصوصی طور پر اللہ پاک کے محبوب ﷺ کے لئے مخصوص ہے۔ اس مقامِ مھمود پر اللہ تعالیٰ کی تجلیات و انوار کے قرب کی کیفیت و سرور کو آپ ﷺ کے سوا کوئی نہیں محسوس کر سکتا۔ مگر تہجد کی عبادت سے اللہ کے بندوں پر حقیقت محمدی ﷺ کا انکشاف ہوتا ہے۔

          مرنے کے بعد اللہ اپنے بندے کو تہجد کی گھڑی میں داخل کر دیتا ہے۔ جس میں داخل ہو کر بندہ حضور پاک ﷺ کی معراج کے ادراک کی کیفیات سے قرب خدا وندی کا سرور حاصل کرتا ہے۔ اے بچو! یاد رکھو تہجد کی گھڑی ازل کا وہ لمحہ ہے۔ جس لمحے میں حقیقت محمدی ﷺ نے ذات خدا واندی کو مقامِ قرب میں دیکھا۔ باقی تمام نسلِ ادم اللہ تعالیٰ کے قرب کو حضور پاکﷺ کے ادراک کے ذریعے اور وسیلے سے پہنچانتی ہے۔ ہر شخص اپنے اپنے ظرف اور ہمت و سکت کے مطابق اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے۔“

          اس کے بعد خضر بابا نے اُٹھتے ہوئے فرمایا۔

          فجر کا وقت قریب ہے آؤ پہلے طواف بیت المعمور کریں اور اللہ کے قرب کی کیفیات کو اس کے انوار کے اندر محسوس کریں اور مراقبہ کے سرور کو ظاہری خوشیوں سے محسوس کریں۔“

          تینوں نے انتہائی  خوشی کے عالم میں بیت المعمور کا طواف کیا۔ خضر بابا نے دونوں کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:

          ”اللہ تعالیٰ نے فجر میں قرآن پڑھنے کا حکم دیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ بلا شبہ فجر میں قرآن پڑھنے سے مشاہدہ ہوتا ہے۔ قرآن اللہ کا علم ہے۔ فجر وہ گھڑی ہے جس گھڑی روح اللہ تعالیٰ کے علوم کو کُن کے بعد ہونے والے مظاہرات کی صورت میں دیکھتی ہے۔“

 خضر بابا نے بیت المعمور کے ایک کونے کی جانب اشارہ کیا اور کہنے لگے:

”یہ حجر اسود ہے۔“ عاقب اور گلبدن نے دیکھا  کہ حد ِ نگاہ سے نور کی ایک شعاع آرہی ہے۔ جو بیت ولمعمور کے اس کونے کو چھو رہی ہے۔ جس مقام پر یہ شعاع  نزول کرتی ہے اس مقام پر نور نہایت روشن ایک بہت بڑے ہیرے کی طرح جگمگا رہا ہے۔  گلبدن ایک دم سے کہہ اُٹھی۔

”   سبحان اللہ ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر پر نور کا ظاہر کر دیا ہے۔“

عاقب بولا : ” بے شک اللہ تعالیٰ  کا نور ہی اس کا وہ چھپا ہوا خزانہ ہے ۔ جس کو اللہ نے کن کہہ کر اپنے بندوں پر ظاہر کر دیا ہے۔“

خضر بابا بولے ۔” ازل سے ابد تک زمانے کے ہر دور میں اللہ کے نور کی کار فرمائیاں ہیں۔ آؤ اور اس نور کو چھوؤ جس کو اللہ تعالی نے حجراسود کا نام دیا ہے۔“

دونوں حجراسود کے قریب آگئے۔ جیسے ہی دونوں نے حجراسود کو چھوا۔ نہایت تیز روشنی حجراسود سے نکلنے لگی اور ارد گرد کی فضاء اس قدر روشن ہوگئی کہ فجر کی بجائے طہر کا گمان ہونے لگا۔

خضر بابا بولے: ” اس نور کے اور قریب آؤ یہاں تک کہ تمہارے لب اسے چھو لیں۔ لبوں سے چھونا قربت کی نشانی ہے۔“

جیسے ہی دونوں نے حجراسود کو بوسہ دیا۔ انہیں محسوس ہوا کی ان کے اور حجراسود کے درمیان ایک رابطہ قائم ہو گیا۔

خضر بابا بولے۔” اے بچو! اللہ تعالی فرماتے ہیں۔ صلوٰاۃ الوسطیٰ کی حفاظت کرو۔ صلوٰاۃ الوسطیٰ اللہ تعالی سے قلبی رابطہ ہے۔ جسے عصر کا وقت کہا گیا ہے۔ اس وقت اللہ کے نور سے تمہارا قلبی رابطہ قائم ہوا ہے۔ جس نور میں اللہ تعالیٰ نے حجرا سود کا علم رکھا ہے۔ جیسے جیسے تمہارے حواس اس فریکوئنسی پر آگے  بڑھتے جائیں گے تمہیں اس نور کا علم زیادہ سے زہادہ ہوتا چلا جائے گا۔ یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ تمہارا دل کہہ اُٹھے گا کہ حجراسود کے سوا کچھ نہیں ہے۔ تمہارے دل کی نگاہ روح کی نظر ہے اور روح کی نظر شئے سے گزر کر خالق تک پہنچ جاتی ہے۔ مغرب اور عشا ء وقت  کی وہ گھڑیاں ہے جب روح کے حواس کائناتی ڈائی  مینشن کو چھوڑ دیتے  ہیں۔ یعنی روح کی نظر کائنات کی حدود سے باہر دیکھنے لگتی ہے۔“

جیسے ہی خضر بابا نے فرمایا عاقب اور گلبدن کی آنکھوں کے سامنے ایک لمحے کو رات کا اندھیرا آگیا۔ او سب کچھ اس تاریکی میں غائب ہوگیا۔ دوسرے ہی لمحے ایک زور دار جھمکاکہ ہوا اور انتہائی  تیزتجلی نے ان کی آنکھوں کو خیرہ کر دیا۔ دونوں بے ساختہ سجدے میں گر پڑے۔ ان کے لبوں پر اللہ ھو کا ورد  تھا۔ وہ جان چکے تھے کہ وقت کی ہر گھڑی میں ازل سے ابد تک ہر لمحے میں روح کی نظر اللہ کے سوا اور کچھ نہیں دیکھتی ۔ ہر شئے اپنی بقا کے لئے اللہ کی محتاج ہے۔

عاقب خضر بابا کے حکم کے مطابق وادی نوم میںآنے والوں کو ان کے کاموں میں رہبری کرتا۔ اس کے ساتھ ہی روزانہ وہ اور گلبدن اعراف کی سیر کو نکل جاتے۔ اعراف کی ہر چیز دنیا سے سینکڑوں گنا زیادہ ایڈوانس تھی۔ کئی چیزوں کو وہ خود ہی سمجھ جاتے اور کئی چیزوں میں انہیں فرشتوں کی اور خضر ببابا کی مدد لینی پڑتی۔ ایک دن دونوں سیر کرتے  کرتے اعراف کے دور دراز پہاڑی علاقے میں نکل آئے۔ یہ علاقہ بالکل سنسان تھا اور پہاڑوں میں جا بجا درے اور غار  دکھائی  دیئے۔ لیکن  آبادی کے آثار نہ تھے۔

گلبدن بولی۔” عاب! ان غاروں میں یقناً آبادیاں ہوں گی۔ چلو چل کر دیکھتے ہیں۔“

دونوں سامنے پہاڑ کے ایک غار میں داخل ہوگئے۔اندر سخت اندھیرا تھا۔ عاقب نے گلبدن کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس اندھیرے میں ایک رعب دار آواز گونجی۔

” اے اندھیرے میں قدم رکھنے والے! شہشاہ انیب کی جانب سے آپ کو سلام پیش کیا جاتا ہے۔“

اور اس آواز کے ساتھ ہی غار میں تیز روشنی پھیل گئی۔ عاقب اور گلبدن نے بیک  زبان سلام کا جواب دیا۔ اب ایک روشنی کی شعاع ان کے سامنے آ کر ٹھہر گئی۔ ساتھ ہی آواز آئی  :

”اس روشنی کے ساتھ اندر چلے آؤ۔“

دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے روشنی کی شعاع کے پیچھے پیچھے چلنے لگے۔ غار میں اندر ہی اندر  بہت دور تک چلنے کے بعد پتھر کے تراشے ہوئے بہت ہی بڑے دروازے نے غار کو آگے  سے بند کر رکھا تھا۔ روشنی کی شعاع دروازے پر قفل کی جگہ ایک لمحے کو رک گئی۔ اسی وقت دروازہ کھل گیا اور ایک مضبوط جسم کے نوجوان نے آگے  بڑھ کر دونوں کا استقبال مسکرا کر کیا۔ وہ نہایت خندہ رُؤئی کے ساتھ بو۔

”شہنشاہ انیب کے مملکت میں داخلے کے لئے آپ کو خوش امدید کہا جاتا ہے۔“

٭٭٭

 

 

 

 

 

 


Qandeel

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی