Topics

( چھٹی قسط)

 زمان خان بے ساختہ بولا۔” خوچہ  ابھی تو ام نے تم سے اپنے دل کی بات بھی نہیں کی اور تمہارا جانے کا وقت آگیا۔“ رحمٰن بابا اورعاقب دونوں کھلکھلا کے ہنس پڑے۔رحمٰن بابا  ہنستے ہوئے بولے۔” زمان خان آج تمہارے ہی لئے ہم نے عاقب کو روک لیا ہے۔“ تھوڑی دیر بعد عاقب اور زمان خان بکریوں کے پاس آگئے۔ دونوں نے مل کر پہلے ان کو چارہ دیا پھر دودھ نکالنے کے کاموں میں لگے رہے۔ جب سب کاموں سے فارغ ہوئے تو آرام سے بیٹھ گئے۔ اب عاقب نے زمان خان سے پوچھا۔” ہاں تو زمان خان کیا کہتا ہے دل تمہارا۔ کچھ کہنا ہے یا ابھی اور انتظار کرواؤ گے ؟“

          زمان خان لمبی سانس لیتے  ہوئے بولا۔” عاقب بھائی  سچ  تو یہ ہے کہ ہمارا قصہ بھی کیا قصہ ہے، ہے بھی اور نہیں بھی۔ پتہ نہیں تم کو کیسا لگے؟“

          عاقب نے مسکرا کے کہا۔” زمان خان اتنے دن ہوگئے ساتھ رہتے ہوئے پھر بھی تم ہم کو  غیر سمجھتا ہے۔“

          زمان خان جوش میں بولا۔” خدا کی قسم ہم تم کو بالکل اپنا سمجھتا ہے۔“

          عاقب نے کہا۔” تو پھر ادھر ادھر کی باتیں چھوڑو اور جلدی سے بتاؤ جو کہنا ہے۔“

          زمان خان نے کہا۔” ہم تم کو اپنی پوری زندگی کا حال سنآنا چاہتا ہے۔ مگر مشکل تو یہ ہے کہ ہم کو اپنے شروع کا ہی نہیں پتہ۔جب ہم نے آنکھ کھولی تو اپنے آپ کو ایک ایسے گھر میں پایا جو سردار کا گھر تھا۔ قبیلے کا سردا جس کے پاس گھوڑے، بکریاں، گائیں سب کچھ تھیں۔ بڑی  سی حویلی تھی۔ زمینیں تھیں۔ ہم اس وقت پانچ چھ سال کا تھا۔ سردار کی بیوی اور چار بچے  بھی تھے۔ لڑکی سب سے چھوٹی تھی۔ جو چار سال کی تھی۔ باقی اس سے بڑے تین بیٹے تھے۔ ہم کو سردار نے بکریاں چرانے پر رکھا تھا۔ وہیں کھلی زمین پر ایک چھوٹی سی جھونپڑی تھی۔ جس میں ہماری رہائش تھی۔ حویلی کی نوکرانی ہم کو کھانا دیا کرتی تھی۔ کبھی کبھی سردار کے بچے زمینوں کی سیر کے لئے آ جاتے۔ تو لڑکی میرے ساتھ کھیلتی۔ وہ بکریوں کو چھو کر بہت خوش ہوتی اور میرے ساتھ بانسری بجاتی۔ دو تین سال اسی طرح گزر گئے۔

 ایک دن میں نے نوکرانی سے پوچھا۔ ” میرے ماں باپ کہاں  ہیں؟ میں یہاں کیسے آیا؟ “ وہ  بولی۔” سردار غریب بچوں کو ان ماں باپ سے خرید لیتا ہے۔ اب تو کبھی اپنے ماں باپ  سے نہیں مل سکے گا۔“

آٹھ نو سال کی عمر میں  ذہن  بار بار یہ سوال کرتا کہ میں اپنے ماں باپ سے کیوں نہیں مل سکتا۔مگر ملنے کے لئے کوئی تدبیر ذہن میں نہ آئی۔ سردار سے تو کبھی بات نہیں ہوتی تھی۔ وہ زمینوں پر کبھی آتا بھی تو اس کے ساتھ دوسرے لوگ ہوتے۔ اس کے حلیئے سے ہی  رعب محسوس ہوتا۔ دو چار دفعہ نوکرانی سے کہا بھی ۔ مگر وہ کہتی۔” تُو پاگل ہوا ہے۔ یہاں پیٹ بھر روٹی ملتی ہے۔ پھر ماں باپ کو لے کر کیا کرے گا؟ جو تجھے دو وقت کی روٹی بھی نہیں دے سکتے۔ ایک دن عید تھی۔ اس روز سردار کی بیگم نے سب نوکروں کو اپنی حویلی پر بلایا۔ سب لوگ جمع ہوئے۔ باہر صحن میں کھانا کھلایا اور سب کو کپڑے دیئے گئے۔ اس وقت سردار کہیں باہر تھا۔ میں نے ہمت کر کے سردارنی سے پوچھا۔ بیگم صاحب! میرے ماں باپ کدھر ہیں؟ میں عید پر ان سے ملنا چاہتا ہوں۔ اس نے غور سے کچھ دیر تک میری طرف دیکھا کچھ سوچ میں  پڑ گئی۔ کیونکہ اور بھی نوکر وہاں موجود تھے۔ پھر بولی۔” تمہارے ماں باپ مر چکے ہیں۔ اب تم ان سے کبھی بھی نہیں مل سکو گے۔ سردار جی کی لڑکی بھی پاس کھڑی تھی۔ وہ بولی۔ ” کیا سچ مچ ماں باپ مر چکے ہیں؟ بیگم صاحبی نے کہا۔ تمہارے ابا نے مجھے یہی بتایا تھا۔ چھ سال کی عمر میں جب یہ ہمارے پاس آیا تو تمہارے ابا نے اسے کریم دادا کے پاس چھوڑ دیا تھا۔ جو زمینوں پر سویا کرتے تھے اور بھیڑ بکریوں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ یہ ان ہی کے پاس رہا۔ مگر تین سال بعد ان کا انتقال ہوگیا۔ تب سے یہ اکیلا ہی بھیڑ بکریوں کی دیکھ بھال کر لیتا ہے۔ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہوئی اور بولی ۔” اب تم دودھ نکال لیتے ہو ۔“میں نے کہا ۔”نہیں۔ بیگم صاحب صرف چارہ دینا ہی میرا کام ہے باقی دودھ نکالنے کے لئے ایک اور آدمی آتا ہے۔ بیگم صاحب نے شفقت سے میرے سر پہ ہاتھ پھیرتے  ہوئے کہا۔” زمان خان آج سے تم دودھ دوہنا بھی سیکھ لو۔اب تم کافی بڑے ہو گئے ہو۔ میں نے اس دن سے دودھ نکالنا بھی شروع کر دیا۔ کبھی کبھی سردار کی بیٹی زمینوں پر آجاتی اور وہ بھی کھیل ہی کھیل میں دودھ  نکالنے بیٹھ جاتی۔ دن گزرتے رہے۔ پھر کبھی  میں نے کسی سے اپنے ماں باپ کے متعلق نہیں پوچھا۔ مجھے یقن تھا کہ وہ مر چکے ہیں۔ اگر زندہ ہوتے تو کبھی تو مجھ سے ملنے آتے۔ اسی طرح ہم جوان ہو گیا۔ سردار کی بیٹی بھی جوان ہو چکی تھی۔ سوتے جاگتے ہر وقت وہی میرے خیالوں پر چھائی  رہتی۔ شاید وہ بھی میرے لئے ایسا سوچتی تھی۔ کیونکہ اکثر بانسری سننے کے بہانے زمینوں پر ا جاتی اور جب میں اس کے لئے بانسری بجاتا تو نہ جانے کہاں سے سُر آ کر بانسری میں سما جاتے۔ کبھی کبھی تو وہ ایسی مدہوش ہو جاتی کہ اس کا سر میرے شانوں سے ٹکرا جاتا۔ مجھے یوں لگتا جیسے بھرا ہوا ساغر کسی نے میرے اندر انڈیل دیا ہے۔ مگر کچھ ہی دنوں بعد اس کی شادی دوسرے قبیلے کے سردار کے بیٹے سے ہو گئی۔ مجھے یوں لگا جیسے میرے اندر سے جان کھینچ لی گئی ہے۔ بے جان لاش کا بوجھ مجھ سے  اُٹھایا نہ گیا۔ میں وہاں سے بھاگ نکلا۔ مگر کس طرح بھاگ نکلا یہی تو اصل قصہ ہے۔“

عاقب نے کہا۔” زمان خان مجھے تو سارا قصہ ہی اصل لگ رہا ہے۔ کہتے جاؤ۔“

زمان خان نے پھر اپنی بات شروع کی ۔” عاقب بھائی! جس دن اس کی شادی ہوئی میں بی ' دوسرے نوکروں کے ساتھ مل کر حویلی کے کاموں میں لگا تھا۔ رات کو جب اپنے حجرے میں آیا تو آدھی رات تک نیند نہ آئی۔ پھر روز ہی ایسا ہونے لگا کہ رات کو نیند نہ آتی   اور دن کو بھی کام میں دل نہ لگتا۔ دن بہ دن بیزاری بڑھتی  چلی گئی۔ نہ بانسری کو ہاتھ لگانے کو جی چاہتا ۔ نہ بکریوں کو چھونے کو دل کرتا۔ میں اپنی زندگی سے بیزار ہو گیا۔ ہر وقت بھاگ جانے کو جی چاہتا۔ کچھ سمجھ نہ آتا۔ ایک رات بڑی مشکل سے آنکھ لگی۔ تو خواب میں دیکھا کہ ایک بزرگ پہاڑ پر کھڑے مجھے زور زور سے آوازیں دے رہے ہیں۔ زمان خان۔ زمان خان۔ میری آنکھ کھل گئی۔ تو جاگنے پر بھی ان کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔ دوسری رات پھر میں نے ایسا ہی خواب دیکھا کہ پہاڑ پر ایک بزرگ کھڑے ہیں اور میری طرف ہاتھ بڑھا کر مجھے پہاڑ پر چڑھنے کا اشارہ کر رہے ہیں۔ وہ   سارا دن میں سوچتا  رہا کہ یہ کون بزرگ ہیں؟ اس خواب نے جیسے میرے مردہ جسم میں نئی روح پھونک دی۔ میرے اندر نئی لگن اور نئی جستجو پیدا ہوگئی۔ تیسری رات میں دعائیں مانگ کر سویا کہ آپ کون ہیں ؟ اور کس پہاڑ پر رہتے ہیں؟ مجھے ایک ٹھکانہ بتائیں۔ اسی رات خواب دیکھا کہ زمینوں کے باہر جو سڑک پہاڑ کی طرف جا رہی ہے۔ اس سڑک پر میں جا رہا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ مجھے کہاں   جانا ہے۔ میں بڑے اطمینان سے سڑک پر  تیز تیز قدم اُٹھاتا  ہوا جا رہا ہوں۔ یہاں تک کہ سڑک ختم ہو گئی اور پتھریلا میدان آگیا۔ کچھ  دیر اس پتھریلے میدان میں سڑک کی سمت ہی چلتا گیا۔ سامنے ایک اونچا ٹیلہ آگیا۔ اس ٹیلے کے اوپر چڑھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے پار ایک قبیلہ ہے۔ میں اس قبیلے میں جیسے سب کو جانتا ہوں  جیسے ہی میں وہاں  جاتا ہوں۔ ایک عورت میرے پاس آتی   ہے۔ میری پیشانی کو بوسہ دیتی ہے۔ کہتی ہے۔ زمان خان تجھے تو میرا بیٹا ہونا چہیئے تھا۔ پھر اسی طرح بہت سے لوگ آ کر مجھے بہت محبت کے ساتھ ملتے ہیں۔ جیسے  میں   ان کے قبیلے کا فرد ہوں۔ پھر میں اس قبیلے کے درماین سے گزرتا ہوا سیدھی سڑک پر آگے  بڑھتا جاتا ہوں۔ کئی ٹیلوں کو پار کرنے کے بعد ایک پہاڑ کے دامن میں پہنچتا ہوں۔ جیسے ہی دامن میں پہنچتا ہوں۔ پہاڑ پر وہی بزرگ  دکھائی  دیئے۔ انہوں نے پہاڑ پر کھڑے ہوئے میری جانب اپنا داہنا ہاتھ بڑھایا اور مجھے بازو سے پکڑ کر پہاڑ پر اُٹھا لیا۔ مجھے گلے سے لگاتے ہوئے بولے۔” زمان خان تو کہاں تھا اور پھر میں جاگ گیا۔ اس وقت ابھی صبح کا  اجالا نمو دار نہیں ہوا تھا۔ صبح ہونے میں ابھی ایک ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ وہ بزرگ مجھے اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔ میں نے جلدی سے اپنی بانسری اُٹھائی۔ کپڑے گٹھری میں باندھے۔ رات کی بچی ہوئی روٹی اور دودھ پیا اور نکل کھڑا ہوا۔ مجھے ڈر تھا کہ اجالے میں مجھے کوئی روک نہ لے۔ میں جوان اور تندرست تھا۔“

عاقب نے مسکراتے ہوئے کہا۔” وہ تو تم اب بھی ہو۔“

زمان خان نے بھی مسکرا کے اپنا قصہ جاری رکھتے ہوئے کہا۔ ” میں بہت ہی تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے اپنے سفر پر چل پڑا ۔ خواب کے خاکے میرے دماغ میں تھے۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میں خواب میں داخل ہو چکا ہوں۔ پو پھٹنے تک میں ٹیلے کے پار والے قبیلے تک پہنچ چکا تھا۔ جیسے ہی میں اس قبیلے میں داخل ہوا۔ خواب والی عورت میرے پاس ائی۔ میری پیشانی  کو بوسہ دیا۔ اور کہنے لگی۔ زمان خان تجھے تو میرا بیٹا ہونا چاہیئے تھا۔ کمال کی بات یہ ہے کہ اس وقت یہ سب میرے انتظار میں تھے۔ میں کہیں گیا ہوا تھا۔ یہ سب میرےآنے کا انتظار کر رہے تھے ۔ مجھے یہ سب باتیں بالکل عجیب نہیں لگیں۔ وہ عورت کہنے لگی۔ تم اسے دفنا آئے ۔ میں نے کہا۔ ہاں اماں میں اسے دفنا آیا۔ سب لوگوں کے ساتھ میں نے ناشتہ کیا۔ بہت سے لوگوں نے مجھے راستے کے لئے توشہ دیا اور مجھے پھر رخصت کر دیا۔ بولے۔ رحمٰن بابا تمہارے انتظار میں ہیں۔ ہم تم کو زیادہ دیر نہیں روکیں گے۔ میرے اندر کوئی تعجب نہ تھا۔ بلکہ یہ سب کچھ اسی طرح ہے  لگتا ہے۔ میں سب کی دعائیں اور محبتیں لے کر آگے  بڑھ گیا اور دو ڈھائی  گھنٹے میں پہاڑ کے دامن میں پہنچ گیا۔ رحمٰن بابا نے اوپر سے آواز دی۔ امان خان اوپر آجاؤ اور میں چند ہی منٹوں میں پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ آیا۔ رحمٰن باب نے مجھے گلے سے لگایا اور بولے۔” زمان خان تو کہاں تھا۔ تب سے میں اس در کا غلام ہوں اور اس قبیلے کا ایک فرد ہوں۔ اس عورت نے مجھے بعد میں بتایا کہ وہ میری ماں کو جانتی تھی۔ میری پیدائش سے پہلے میرا باپ مر گیا تھا۔ میری ماں بھی تین برس بعد فوت ہوگئی۔ چھ برس کا ہوا تو سردار نے مجھے خرید لیا۔

جس دن صبح میں اس قبیلے میں داخل ہوا۔ اس رات رحمٰن بابا اس قبیلے میں آئے اور لوگوں کو بتا گئے کہ” زمان خان جو اب جوان ہو چکا ہے۔ علی الصبح یہاں پہنچنے والا ہے۔ انہوں نے یہ بھی قبیلے والوں کو بتایا کہ زما ن خان وہاں کے سردار کی بیٹی پر فریفتہ تھا۔ اس کی شادی کے بعد سے اپنی زندگی سے دلبرداشتہ ہو چکا ہے۔ اسی لئے اب یہاں اسے بلایا جا رہا ہے۔ وہ اپنی  پرانی یادوں کو وہیں پر دفنا کر آرہا ہے۔ اسے قبیلے والوں کی محبت ملنی چاہیئے۔“

قبیلے والے رحمٰن بابا سے واقف تھے۔ کئی بار وہ اُن کی روحانی صلاحیتوں کا مظاہرہ دیکھ چکے تھے مثلاً ایک مرتبہ جب کہ ان کی فصلیں کاٹنے کے لئے پوری طرح تیار تھیں۔ شمال کی جانب سے ایک بہت بڑا ٹڈی دل آتا ہوا  دکھائی  دیا۔ وادی کی حفاظت کے لئے ٹیلے پر مورچہ بنا ہوا ہے۔ جہاں سے وقتاً وقتاً وادی کی جانبآنے والے کی خبر قبیلے والوں کو پیشگی دے دی جاتی ہے ۔ مورچے پر بیٹھے ہوئے آدمی نے  ٹڈی دل کا بادل وادی پر آتے دیکھا تو فوراً قبیلے والوں کو خبر دی۔سارے کے سارے اسی وقت گھروں سے نکل آئے اور سب لوگوں نے اکٹھےمل کر اللہ تعالی سے غیبی امداد کی درخواست کی۔ اسی وقت سب نے دیکھا کہ ایک بزرگ ہیں جن کا سراپا زمین سے لے کر آسمان تک پھیلا ہوا ہے اور یہ سراپا روشنی کے ہیولے کی صورت میں ہے ان بزرگ نے اپنے دونوں ہاتھوں میں ٹڈی دل کو لے کر اس کا رخ جنوب کی  طرف کر دیا۔ جنوب میں بہت بڑے بڑے اونچے پہاڑ ہیں اور  آبادی نہیں ہے۔ پھر روشنی کا یہ ہیولا اپنی صورت سے گٹھتا ہوا رحمٰن بابا  کی صورت میں ظاہر ہوا۔ رحمٰن بابا ان کے سامنے کھڑے تھے۔ فرمانے لگے۔ اب یہ ٹڈی دل یہاں نہیں آئے گا اور پھر وہ غائب ہو گئے۔ پہلی مرتبہ اُس قبیلے نے رحمٰن بابا کو دیکھا تھا۔ اس کے بعد جب بھی  کوئی مشکل آتی۔ قبیلے والے رحمٰن بابا کو یاد کرتے اور ان کی پریشانیاں دو ر ہو جاتیں۔ سب جان گئے تھے کہ رحمٰن بابا اللہ پاک کی خصوصی نظر ہے۔“

عاقب نے زمان خان کی کہانی سن کر پوچھا۔” پھر تم نے شادی نہیں کی۔ اپنے قبیلے کی کسی لڑکی سے کر لیتے۔“

وہ ہنس کر بولا۔” تم تو ہمارا یار ہے۔ سچی بات دل کی یہ ہے کہ اس خانہ خراب کے بعد پھر کوئی اس دل کے خانے میں سما نہ  سکی۔“

عاقب نے کہا ۔”زمان خان! کچھ بھی ہو۔ اس نے تم دیوانہ ضرور بنا دیا ۔“

دونوں ہنسنے لگے۔ زمان خان بولا۔” اب تو رحمٰن بابا ہی ہمارا محبوب ہے۔ وہ ہمارا سب کچھ ہے۔ “ پھر دونوں نے بانسری پر نغمے چھیڑ دیئے۔ آج بانسری کے سُروں میں کیف آور ماحول کے ساتھ ساتھ روح کی کیفیات بھی شامل تھیں۔ دونوں کی بے خودی ماحول پر چھا گئی۔ بانسری بجتی رہی۔ سُروں نے بھیڑ بکریوں تک کو مسحور کر دیا تھا۔ سب اپنی جگہ ساکت ہو گئی تھیں۔ ماحول پر سکوت چھا گیا' ہوا شاید چلنا بھول گئی جانے کتنی دیر بعد بے خودی کا غلبہ کم ہوا۔ لبوں سے بانسری ہٹائی  تو دیکھا رحمٰن بابا سامنے کھڑے ہیں۔ نظریں ملتے ہی  مرشد کی روشنی کا دریا ان کے اندر بہنے لگا۔ دونوں رحمٰن بابا کہہ کر ان کے قدموں میں جھک گئے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ جذبات  کا دباؤ آنسو بن کر نکل گیا۔ رحمٰن بابا بولے۔” بھئی میں نے تو آج تمہاری بانسری سنی ہے۔ تم لوگوں نے تو ماحول کی ہر شئے کو مد ہوش کر دیا۔ بھیڑ ، بکریاں، ہوا، چرند پرند، درخت ہر شئے نغمہ میں ڈھل گئی حتیٰ کہ تمہارے سُروں کی کشش مجھے بھی غار سے یہاں کھینچ لائی۔”   سبحان اللہ،   سبحان اللہ“ پھر رحمٰن نے اپنی بات کو آگے  بڑھاتے ہوئے کہا۔” اللہ کی آواز ِ کن کی  کشش نے کُل کائنات کے سکوت کو اپنے اندر کھینچ لیا۔ کائنات کے سکوت پر صوتِ سرمدی غالب آگئی۔ صوتِ سرمدی اللہ کی آواز ہے۔ جس نے خواب ِ عدم سے جگا کر کائنات کو زندہ کر دیا۔ اللہ تمہارے سُروں میں صوتِ سرمدی کو سمو دے۔“ رحمٰن بابا نے دونوں کو شفقت بھری دعا دی۔ دن جلد ہی  گزر گیا۔ عاقب نے ایک تھیلے میں اپنے کپڑے اور کمبل رکھے۔ ایک تھیلے میں زمان خان نے کھجوریں، شہد اور میوہ  باندھ دیا۔ عاقب نے رحمٰن بابا سے پوچھا۔” رحمٰن بابا سفر کس سمت سے شروع کروں۔“

رحمٰن بابا نے کہا۔” جہاں سمندگان لے جائے۔ سمندگان کوئی معمولی گھوڑا نہیں ہے۔ یہ عالمِ جنات سے ہمارے دوست فرغام نے ہمیں تحفہ میں دیا  ہے۔ تم جب چاہو گے یہ غائب ہو جائے گا۔ جب بلاؤ گے حاضر ہو جائے گا۔ جتنے دن میں چاہو گے منزل پر پہنچا دے گا اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ  یہ پانی پر بھی خشکی کی طرح چل سکتا ہے۔ سفر شروع کرنے سے پہلے تم اس کی پیٹھ پر بیٹھ کر پیار سے اس گردن کو تین مرتبہ تھپتھپا کے یہ کہنا سمندگان میں تمہارا نیا ماسٹر عاقب ہوں۔ پھر تمہارے اور سمندگان کے درمیان ذہنی  رابطہ قائم ہو جائے گا۔ وہ تمہارے ارادے کو آسانی سے پہچان لے گا۔“ عاقب نے سر جھکاتے ہوئے عرض کی۔” حضور آپ کے احسانوں سے تو میری گردن جھکی ہوئی ہے۔ مجھے اپنی نظروں سے کبھی اوجھل نہ رکھنا۔“

رحمٰن بابا اسے اپنے پہلو میں سمیٹتے ہوئے بولے۔” تم ہمیشہ ہماری نظر میں رہو گے۔ اللہ ہر قدم پر  تمہارا حامی و مددگار ہے۔“

اس رات زمان خان بھی اپنے قبیلے میں نہیں گیا۔ تینوں غار میں ہی سوئے۔ بستر پر لیٹتے وقت عاقب نے سوچا۔ آج رات تو شاید مجھے نیند نہ آئے۔ پتہ نہیں آگے  کیا ہونے والا ہے۔ حالانکہ رحمٰن بابا اور خضر بابا کی رہنمائی  ہے۔ پھر بھی لوگوں کے جنگل میں تنہا جاتے تو خوف تو آتا ہی ہے۔ اس کے ذہن میں تین سال پہلے کی فلم چل پڑی۔ جب رحمٰن بابا نے اسے جنگل سے نکالا تھا۔ مگر جس طرح یہ خیال ذہن میں آیا ویسے ہی جلدی سے چلا بھی گیا۔ اس نے اپنی پیشانی اور آنکھوں پر رحمٰن بابا کا نرم گرم ہاتھ محسوس کیا اور اگلے ہی لمحے وہ گہری نیند میں تھا۔ ساری رات وہ خواب دیکھتا  رہا کہ وہ سمندگان پر بیٹھا سفر کر رہا تھا۔ کبھی ہوا میں اڑ رہا ہے کبھی سمندر پر چل رہا ہے ۔ کبھی کسی پہاڑی کی چوٹی پر چڑھا ہوا ہے۔ کہیں کہیں اپنے سفر میں اس نے دیکھا  گھوڑے کی پشت پر اس کے پیچھے کوئی اور بھی بیٹھا ہوا ہے۔ مگریہ   بس ایک  سایہ تھا۔ جسے وہ کوئی نام نہ دے سکا جیسے ایک مبہم خیال ۔ جیسے تخیل کا ایک روپ۔ جیسے پیکرِ خواب شریں، جس کی لطافت دل کو چھوتی ہے بدن کو نہیں۔ آنکھ کھلی تو رحمٰن بابا اور زمان خان دونوں جاگ رہے تھے۔ رحمٰن بابا نے مسکراتے ہوئے کہا تم تو خواب کی دنیا میں کھوئے ہوئے تھے۔ ہم نے جگآنا مناسب نہ سمجھا۔ نماز سے فارغ ہو کر تینوں نے ناشتہ کیا۔ رحمٰن بابا بولے۔ پَو پھٹ چکی ہے۔ سفر کے آغاز کا یہی مناسب وقت ہے۔ عاقب نے اپنا سامانِ سفر اُٹھایا۔ تینوں سمندگان کے تھان پر آئے۔ زمان خان اور رحمٰن بابا نے گلے سے لگا کر اسے رخصت کیا۔ بھیگی آنکھوں نے دل کے تمام مفہوم ادا کر دیئے۔عاقب سمندگان کی پشت پر بیٹھ کر گردن کو تین مرتبہ تھپتھپایا اور سمندگان اپنے نئے مالک کی تابعداری میں چل پڑا۔

سمندگان صبح کے ملگجے اجالے میں پہاڑی راستوں پر نپے تلے قدم رکھتا ہوا اس طرح دوڑ رہا تھا۔ جیسے وہ راستے کے ہر نشیب و فراز سے آگاہ ہے۔ اسے یاد آیا اس کی ماں کہا کرتی تھی۔” بیٹا! صبح کا وقت نور پینے کا وقت ہے۔“

اس کے ذہن کے پردے پر ماں کا نورانی تصور اُبرا۔ جس کا نور اللہ ھو کی صدا میں دھل کر فضا میں بکھرنے لگا۔ لبوں سے نکلی ہوئی لہریں سانس کے ساتھ اندر جانے لگیں۔ اس کے اندر امرت رس گھلنے لگا۔ مٹیالی فضا میں چھایا ہوا ماں کا نورانی ہیولا ہاتھوں میں امرت کا پیالہ لئے قطرہ قطرہ اس کے حلق میں ٹپکا رہا  تھا۔ اس کے حلق کی بانسری نور کے سُروں پر اپنے نغمے بکھیرنے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اجالا پھیل گیا۔ اسے دور پہاڑی پر آبادی کے نشان  دکھائی  دیئے۔ اس نے سمندگان کی گردن پر تھپکی دی اور کہا بھائی  گھوڑے و پہاڑی  کی بستی میں لے چلو۔دیکھیں کون سا شہر ہے۔ گھوڑے نے ہنہنا کے گردن ہلائی  تو عاقب نے خوش ہو کر نعرہ مارا۔ رحمٰن بابا زندہ باد۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد عاقب دار جیلنگ میں داخل ہو گیا۔ سورج پورا پورا  نکل آیا تھا۔ ہر طرف سنہری دھوپ کھلی ہوئی تھی۔ پہاڑی پر ہری بھری فصلیں کھڑی تھیں۔ دار جیلنگ کا نام سنتے ہی وہ جان گیا کہ یہ چائے کے باغات ہیں۔ گرم گرم چائے کے تصور نے اس کے سردی کے احساس کو جگا دیا۔ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے ایک کیفے کے سامنے اس نے اپنا گھوڑا ٹھہرایا۔ اتنے میں ایک دس بارہ سال کے لڑکے نے آکر گھوڑے کی باگ تھام لی۔” بابو جی۔ مسافر ہو؟۔۔ دور سے آئے ہو۔ گھوڑے کو چارہ پانی پلا دوں۔ اتنے میں آپ چائے پی لیں۔“

رحمٰن بابا نے جاتے وقت اس کی جیب میں کچھ پیسے ڈالے تھے کہ تمہیں اس کی ضرورت پڑے گی۔ اس نے ناشتہ کیا۔ اتنی دیر میں  سمندگان بھی کھا پی کے فارغ ہو چکا تھا۔ اس نے کیفے والے سے اگلے پڑاؤ کے متعلق معلومات حاصل کیں اور گھوڑے کو ایک سڑک پر ڈال دیا۔ ہر طرف چائے کے باغات لہرارہے تھے۔ تمام عورتیں چائے کی پتیاں توڑنے میں مصروف تھیں۔ یہاں کی بڑی صنعت چائے ہے یہ تو وہ پہلے بھی جانتا تھا۔ اب دیکھ کر اندازہ ہوا کہ قدرت نے اس شہر کے رہنے والوں کے لئے چائے کو وسائل ِ روزگار بنا دیا ہے جگہ جگہ چائے کو سکھا کر ڈبوں میں بند کرنے کی فیکٹریاں دیکھ کر اس نے سوچا قدرت کا کام وسائل کی تخلیق کرنا ہے۔ ان وسائل کو معاشرتی ضروریات کے مطابق استعمال کرنے کے لئے کوشش و تدبیر کرنا انسان کا اختیار وہ کام ہے۔ تدبیر وسائل میں کارگر ہوتی ہے۔ ارادے میں جتنی وسعت ہوگی۔ وسائل کا پھیلاؤ بھی اسی مناسبت سے ہوتا ہے۔ ایک شخص وسائل کو استعمال کر کے لکھ پتی بن جاتا ہے۔ ایک شخص انہی وسائل کو استعمال کرنے کے باوجود بھی غریب رہتا ہے۔ آج اسے اپنے ابو کی بات اچھی طرح سمجھ میں آئی۔ وہ کہتے تھے کہ۔ ” بیٹا اللہ پاک اس سے بے نیاز ہے کہ کوئی غریب ہو یا کوئی امیر ہو۔ امیری غریبی کا تعلق تو وسائل کے ساتھ ہے۔ جو بندہ اللہ کے عطا کردہ وسائل کا بھر پور استعمال اس کی فطرت و سنت کے مطابق کرتا ہے۔ اسے اس کے بھر پور نتائج بھی حاصل ہوتے ہیں۔“ اس نے دیکھا کہ اس  بستی کے تقریباً تمام لوگ وسائل کے استعمال میں اپنی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔ خواہ وہ عورتیں ہوں یا مرد ہوں  یا بچے ہوں۔ اللہ ان کی کوششوں کا انہیں صلہ دے رہا ہے۔ ان کی دماغی و جسمانی تندرستی بھی ان کے لئے اللہ کا انعام ہے۔ سردی میں عورتوں اور بچوں کو کام کرتے دیکھ کر اس کے دل میں گداز پیدا ہونے لگا۔ دل سے دعا نکلی۔ یا اللہ اس بستی والوں کے ارادوں میں وسعت اور وسائل میں فراخی عطا فرما۔

اس کی اگلی منزل پٹنہ تھی۔ پٹنہ سے وہ کانپور آیا۔ فضا میں پھیلی ہوئی چمڑے کی بُو سے اسے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ یہاں چمڑے کی صنعت کاری ہے۔ شام کا وقت تھا۔ اسے رات گزارنے کے لئے جگہ بھی چاہیئے۔ شہر کا ایک چکر لگا کر اس نے رہنے کے لئے شہر باہر درخت کے نیچے ایک جگہ تجویز کی۔ درخت سے گھوڑا باندھا۔ گھوڑے کو خودردو گھاس چرنے کا اشارہ کر کے خود  کچھ کھا پی کے سو رہا۔ تھکا ہوا تھا۔ فوراً ہی نیند آگئی۔ رات کا پچھلا پہر تھا کہ سمندگان کے زور سے ہنہنانے کی آواز نے اسے سوتے سے جگا دیا۔ ابھی اس نے آنکھ کھولی ہی تھی کہ کچھ لوگوں کی خوف میں دبی ہوئی چیخوں کی آواز آئی  ۔ کون ہے کہہ کر وہ ہڑ بڑا کے اُٹھ بیٹھا۔ تین آدمی بھوت بھوت کہتے ہوئے بھاگ  نکلے۔ اس نے دیکھا کہ گھوڑا غائب ہے۔ اب اس کی سمجھ میں آیا کہ ان لوگوں نے گھوڑا چُرانے کی کوشش کی تو گھوڑا غائب ہو گیا۔ شاید انہوں نے مجھے بھی بھوت سمجھ لیا۔ اسی خوف سے بھاگ لئے۔ اس  سمندگان کو آواز دی۔ اسی وقت گھوڑا درخت سے بندھا ہوا پایا۔اس نے پیار سے اس کی پشت تھپتھپائی  اور پاس ہی تالاب کے پانی وضو کر کے اپنے اورا دووظائب اور عبات میں لگ گیا۔ جلد ہی صبح کا اجالا پھیل گیا۔ دور سے کچھ لوگ آتے  دکھائی  دیئے۔ قریبآنے پر شکلیں تو وہ پہچان نہ سکا مگر اتنا ضرور ہو گیا کہ یہ رات والے لوگ ہیں۔ یہ لوگ ڈرتے ڈرتے قریب آئے۔ ان میں سے ایک آدمی نے پوچھا۔” اے صاحب۔ تم کون ہو؟“

” میں مسافر ہوں۔ جلد ہی یہاں سے چلا جاؤں گا۔“

” یہ تین آدمی کہتے ہیں۔ تم آدمی نہیں بھوت ہو اور یہ تمہارا گھوڑا بھی بھوت ہے۔“ عاقب نے کہا۔ ” اُن سے پوچھو کہ تم نے کیسے اندازہ لگایا کہ ہم دونوں بھوت  ہیں؟“

اس آدمی نے کہا۔” رات کو ان تینوں نے گھوڑا چُرانے کے لئے ابھی رسی کو ہاتھ  لگایا ہی تھا کہ گھوڑا بمعہ رسی کے غائب ہو گیا۔“ عاقب نے کہا۔” ان سے پوچھو۔ کیا مسافر کے ساتھ یہی سلوک کیا جاتا ہے۔ اگر اللہ ہماری حفاظت نہ کرتا تو تم لوگوں نے تو ہم پرظلم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔“

” مگر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جیتا جاگتا گھوڑا دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو جائے۔“

عاقب نے بات کو ختم کرنے میں مصلحت جانی اور مسکرا کے بولا۔” بھائیو! تم اس گھوڑے کو دیکھ رہے ہو؟“

سب بولے۔” ہاں دیکھ رہے ہیں۔“

اب عاقب نے گھوڑے کی  پشت پر اپنے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔” آؤ قریب آؤ اور اس گھوڑے کو ہاتھ لگاؤ۔ کیا  یہ تمہیں  کوئی بھوت  دکھائی  دیتا ہے۔“  وہ آدمی آہستہ آہستہ آگے  بڑھا۔ گھوڑے کو چھوا اور سب آدمیوں کو مخاطب کر کے کہنے لگا۔” ارے بھئی۔ یہ تو جیتا جاگتا گھوڑا۔ عاقب نے اس کی بات پکڑ لی۔ کہنے لگا۔” یہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں کہ رات کے اندھیرے میں انہیں گھوڑا شاید ایک دفعہ دیکھنے کے بعد دوبارہ  دکھائی  نہیں دیا۔ تو یہ ڈر گئے، ان میں سے ایک ہنسنے لگا تو سب ہی ہنس دیئے اور فضا بدل گئی۔ اس شخص نے پوچھا۔” کیا نام ہے تمہارا اور کہاں سے آئے ہو؟۔

ہمارے ساتھ آؤ۔ ناشتہ کرتے ہیں۔“ باقی تو چل دیئے۔ یہ دونوں ایک کیفے میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔ عاقب نے بتایا کہ ” وہ انقرہ کا رہنے والا ہے۔ چند مہینوں پہلے یورپ میں ہولناک طوفان آیا تھا۔ جو قیامت سے کسی طرح کم نہ تھا۔ اس طوفان نے مغرب کو تباہ  و برباد کر دیا۔ ان کی ساری ٹیکنالوجی طوفان کی نذر ہو گئی۔ مادی عروج کے زینے پر کھڑا ہوا آدمی زمانے کی پستی میں جا پڑا۔ جو لوگ طوفانوں سے بچ گئے۔ وہ انسانیت کی تباہی ہی پر تُل گئے۔ مجھے اوپر والے نے بچا کر اس طرح بھیج دیا۔ اب دیکھو گھوڑا کدھر جاتا ہے؟“

 اس شخص کا نام آنند کمار تھا۔ وہ کہنے لگا۔” تم اگر یہاں ٹھہرنا چاہتے ہو تو میں تم کو آشرم لئے چلتا ہوں۔ اس کے علاوہ اس شہر میں مسجدیں بھی ہیں۔ تم چاہو تو وہاں تمہارے ٹھہرنے کا انتظام ہو سکتا ہے۔“

عاقب نے کہا۔” رات تو میں مسجد میں ہی گزار لوں گا۔ مگر ابھی میں شہر کی سیر کرنا چاہتا ہوں۔“ آنند  کہنے لگا۔” پھر چلو میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ مگر بہتر یہ ہے کہ پہلے تم گھوڑے کو مسجد میں کسی کی نگرانی میں چھوڑدو۔“

دونوں قریب کی مسجد پہنچے۔ عاقب نے اپنا مختصر سا تعارف مسجد کے امام سے کرایا اور رات ٹھہرنے کی اجازت چاہی جب وہ رضا مند ہوا تو گھوڑا مسجد کے باہر ایک درخت سے باندھ کر خود آنند کمار کے ساتھ چل دیا۔ دونوں پیدل ہی بازار کی طرف نکل گئے۔ چھوٹی بڑی دکانوں میں لوگوں کا ہجوم دیکھ کر عاقب سوچنے لگا کہ مغرب کے مقابلے میں مشرق مادی ترقی کے لحاظ سے بہت پیچھے ہے۔

تب ہی اللہ نے اس علاقے کو طوفان سے بچا لیا ہے۔ اس کے ذہن میں اپنے ابو کی آواز گونجی۔” بیٹے! االلہ انسان کو مادی ترقی سے نہیں روکتا۔ مادی ترقی تو آدمی کی صلاحیتوں کے استعمال کا نتیجہ ہے۔ مگر خرابی اس وقت آتی   ہے۔ جب انسان اپنی ہنر مندی اور ایجادات کو اللہ کے اصولوں کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ تب ایک وقت ایسا آتا ہے۔ کہ یہ ترقی نسلِ انسانی کی تباہی کا باعث بن جاتی ہے۔ انسان اپنے بنائے ہوئے شکنجوں میں خود کو گرفتار کر لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اللہ اسے عذاب دے رہا ہے۔ حالانکہ اللہ تو بار بار ڈھیل دے کر اسے عذاب سے بچاتا رہتا ہے۔“ عاقب دل ہی دل میں اپنے ابو سے مخاطب ہوا۔” ابو آج آپ کی بات میرے مشاہدے میں آگئی ہے۔ آنند اسے سارا دن شہر کی سیر کراتا رہا۔ وہ مندروں میں گئے۔ جہاں مختلف صورتوں کے بت تھے۔ جنہیں مختلف نام دیئے گئے تھے۔ ہنومان جی،گنیش، لکشمی دیوی وغیرہ وغیرہ۔ شام کو آنند عاقب کو مسجد  میں چھوڑتے ہوئے بولا۔” آج رات تم آرام سے مسجد میں سوؤ۔ کل صبح نو بجے میں آؤں گا اور تمہیں ایک خاص جگہ لے چلوں گا۔“

مسجد کے مولوی نصیر اللہ شفیق آدمی تھے۔ عاقب نے سلام کرتے ہی سمندگان کی خیریت پوچھی۔ مولوی صاحب مسکرائے بولے۔ ہم جانتے ہیں ۔ مسافر کے لئے اس کی سواری بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ آپ بے فکر رہیں۔ اس کے دانہ پانی کا پورا پورا انتظام کیا جا چکا ہے۔ عاقب گھوڑے کے پاس آیا۔ اس کی گردن اور پشت پر تھپکیاں دیں۔ اس سے پوچھا۔” تم نے کھانا کھایا۔ پانی پیا؟“ گھوڑے نے ہنہنا کے گردن ہلائی۔

مولوی صاحب خوش ہو کے بولے۔” بھئی انسان کی صحبت میں جانور بھی انسان بن جاتا ہے۔“ رات کی نماز اور اسباق سے فارغ ہو کر عاقب سونے چلا گیا۔ آنند کے ساتھ دن بھر کی سیر کے خاکے اس کے ذہن میں گھومتے رہے۔ اس کے ذہن نے کہا۔ اپنی آنکھوں سے چھپی ہوئی حقیقت کو انسان نے مخلوق کی صورت کیسے دے دی۔ پھر اپنی بنائی  ہوئی صورتوں کو خدا  بھی مان  لیا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے مکئی کاشت کر کے فصل سے گندم حاصل کرنا چاہیں۔ یہی سوچتے سوچتے اسے نیند آگئی۔ صبح ناشتے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ آنند کمار آگیا۔ دونوں پھر بستی کی سیر کو چل پڑے۔ آنند کہنے لگا۔ آج یہاں ایک جلوس نکلنے والا ہے۔ اس جلوس میں روحانی قوتوں کے مالک سادھو لوگ اپنی قوتوں کا مظاہرہ کریں گے۔ میں تمہیں وہاں لے   جانا چاہتا ہوں۔ دونوں کانپور کی شاہراہ پر آئے۔ جو لوگوں کے ہجوم سے بھری پڑی تھی۔ لوگوں کے شور اور زور زور سے ڈھول کلی آواز کے باعث کچھ  دکھائی  دیا نہ سنائی  دیا۔ آنند عاقب کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑے ہجوم کو چیرتا ہوا آگے  بڑھتا رہا۔ دونوں ایک جگہ جا کر رک گئے۔ آنند نے اشارہ کیا۔” وہ دیکھو۔ یہ سادھو مہاراج اتما کی شکتی کے بڑے مہان آدمی ہیں۔“ عاقب نے دیکھا ایک ٹھیلے کے چاروں کونوں پر  موٹے بانس فٹ کئے ہوئے ہیں سور ان  بانسوں میں چاروں طرف رسی باندھ دی ہے۔ جیسے کپڑے سکھانے کے لئے باندھتے ہیں اور ایک رسی درمیان میں بھی باندھی ہوئی ہے۔ ایک آدمی جو صرف دھوتی پہنے ہوئے ہے۔ لوگ نہایت ہی عقیدت سے اس پر پھول نچھاور کر رہے ہیں  اور اس کی جانب ہاتھ اُٹھا ٹھا کر اس سے اپنے لئے دعا اور برکت طلب کر رہے ہیں۔ ٹھیلے کے پاس جو اس کے ساتھی ہیں وہ ٹھیلے پر رکھے مرتبان سے راکھ کی چٹکیاں لوگوں پر پھینکتے جاتے ہیں۔ لوگ عقیدت سے تبرک کے طور پر اسے اپنے سر اور چہرے پر ملتے جلتے ہیں۔ چند اور  بھی لوگ اس سادھو کے چیلے تھے۔ جنہوں نے زبان میں سلاخ ڈالی ہوئی تھی۔

٭٭٭

 


Qandeel

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی