Topics

(بارہویں قسط)

اس نے مصلحت سے کام لیتے ہوئے کہا۔” میرے بھائی  مجھے یہاں ہر طرح کی سہولت حاصل ہے ویسے بھی میں تندرست اور جوان ہوں۔ مجھے داسیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اپنا کام خود کرنا جانتا ہوں۔“

          وہ شخص خباثت کے ساتھ مسکراتے ہوئے بولا۔” سرکار داسیوں کی ضرورت تو جوانی میں ہی ہوتی ہے۔“

          عاقب نے کہا۔” میں ان جوانوں سے مختلف ہوں۔“

          اتنے میں چند لوگ آگئے۔ وہ جوان انہیں دیکھتے ہی ان سے مخاطب ہوا۔” بھائیو! مہاراج میں بڑی شکتی ہے انہوں نے مجھے روزانہ داسیاں بھیجنے کا حکم دیا ہے۔“

          عاقب تیز لہجے میں بولا۔” کیا کہا تم نے۔ میں نے انہیں بلایا ہے یا میں انہیں لے جانے کا حکم دے رہا ہوں۔“

          وہ جوان انہی نئے لوگوں کو مخاطب کر کے بولا۔” بھائیوں مہاراج تمہارے سامنے شرما رہے ہیں۔ اب سب کے سامنے تو اپنے راز نہیں کھولے جاتے نا۔“

          عاقب کے ذہن میں ماں کی آواز گونجی۔” بیٹا! لوہے کو لوہا ہی کاٹتا ہے۔ اس نے سامنے کھڑی لڑکیوں پر نظر جما دی اور پھر دو منٹ بعد بولا۔” ٹھیک ہے۔ اگر تم انہیں میری خدمت میں چھوڑنا چاہتے ہو تو چھوڑ جاؤ۔“ وہ جوان تمسخرانہ انداز میں بولا۔

          ” لڑکیو! مہاراج کی اچھی طرح سیوا کرنا۔“ اتنا سننا تھا کہ وہ ساری لڑکیاں اس جوان سے لپٹ گئیں۔ ” مہاراج آپ ہی ہمارے مہاراج ہیں۔ ہم آپ  ہی کی سیوا کرنے آئی  ہیں۔“

          وہ جوان گھبرا کے انہیں ہٹانے لگا۔ مگر وہ تو جیسے ہپنا ٹائز ہو چکی تھیں۔ جوان کے بار بار ہٹانے پر بھی وہ اس کی بات سن نہیں رہی تھیں۔ اب عاقب مسکرا کے ان لوگوں سے بولا۔

          ” بھائیو! اب آپ ہی بتاؤ داسیوں کی ضرورت مجھے ہے یا ان صاحب کو۔“ پھر وہ مسکرا کے اس جوان سے مخاطب ہوا۔” یاد رکھو! اپنی داسیوں کو کسی اور کے حوالے نہیں بھیجتے۔“ یہ معاملہ دیکھ کر دوسرے لوگ اس جوان پر ملامت کرنے لگے۔” جا نکل  باہر۔ یہاں تیرا کیا کام ہے۔ ایسی قبیح  حرکت کر کے مہاراج کو بدنام کرنا چاہتا ہے۔“ وہ جوان شکست خوردہ گیندے کی طرح پھو ں  پھوں کرتا ہوا چلا گیا۔آنے والے لوگوں میں سے ایک شخص نے بتایا کہ وہ اس آدمی کو بس اتنا جانتا ہے کہ یہ شخص ڈیرہ دون کے پہاڑی علاقے دیواپریاگ کے دروں ہی میں کہیں رہتا ہے۔ اس کا نام کلوا ہے۔ یہ کالی ماتا کا پجاری ہے اور اس کے پاس کالی ماتا کی شکتی ہے۔ اسی وجہ سے لڑکیاں اس پر مرتی ہیں۔ کالی ماتا کا نام سن کر عاقب کا ماتھا ٹھنکا۔ وہ جانتا تھا کہ کالی ماتا کی آڑ میں لوگ استدارجی قوتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اب اس کی سمجھ میں آگیا کہ کلوا آخر کیوں اس کے پیچھے پڑا ہے۔ استدراجی قوتوں والے ہمیشہ روحانی لوگوں سے خار کھاتے ہیں۔ اس کے دل  سے آواز آئی۔ اللہ زبردست اور غالب رہنے والا ہے۔ اس نے اپنے دل میں تہیہ کر لیا کہ وہ اپنی ہر ممکن کوشش کرے گا تاکہ معصوم اور نوجوان لڑکیاں اس ظالم کے نرگے سے نکل جائیں رات کو اس نے صفدر علی سے دن کا سارا واقعہ بتایا اور کلوا کے متعلق بھی بتایا کہ وہ پہاڑی دروں میں کہیں رہتا ہے۔ عاقب نے صفدر سے کہا۔” صفدر بھائی  میں اس کے عیاشی کے اڈے کو دیکھنا چاہتا  ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ اس نے وہاں بھی لڑکیوں کو رکھا ہوگا۔“

          صفدر علی کہنے لگا۔” عاقب بھائی  آپ کا اکیلے   جانا تو وہاں ہرگز  بھی مناسب نہیں  ہے۔ میں آپ کے ساتھ پانچ آدمیوں کو بھیج دوں گا۔ جو آپ کو اس کی کھوج بھی کرنے میں پوری پوری مدد کریں گے ان شاء اللہ۔“

          طے یہ پایا کہ اگلے دن صبح سویرے ایک جیپ میں تمام لوگ روانہ ہو جائیں۔

          اگلے دن فجر کے بعد جیپ روانہ ہوئی۔ مغرب کے وقت یہ لوگ دیواپریاگ کے پہاڑی علاقے میں پہنچ گئے۔ وہاں ایک بستی میں رات گزارنے کا بندوبست ہو گیا۔ سب لوگ تھکے ہوئے تھے۔ کھانا کھا کے جلدی ہی سو گئے۔ صبح اُٹھ کر ہوٹل کے مالک سے کلوا کے متعلق دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ ” کلوا جی تو بڑے پہنچے ہوئے ہیں۔ وہ کالی ماتا کے سچے بھگت ہیں۔ وہ پہاڑ کے درّے میں رہتے ہیں۔ وہاں کسی کو جانے کی اجاز ت نہیں ہے۔ البتہ درے سے دو فرلانگ پر کالی ماتا کا مندر ہے۔ کلوا جی وہاں روزانہ صبح کے وقت درشن دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ ان کی داسیاں بھی ہوتی ہیں۔ اماوس کی رات کو سال میں ایک دفعہ کالی ماتا پر بھینٹ چڑھائی  جاتی ہے۔ یہ بھینٹ جوان لڑکی کی ہوتی ہے۔ کلوا جی کا کہنا ہے کہ لڑکی کی بھینٹ سے کالی ماتا خوش ہوتی ہے اور سارا سال بستی والوں پر اس کی مہربانیاں رہتی ہیں۔“

          یہ ساری  باتیں سن کر عاقب نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ کس طرح کلوا کے پاس پہنچا جائے۔ ایک ساتھی کہنے لگا۔” اسے مندر میں ہی ملتے ہیں۔“

          عاقب نے کہا۔” اس دن ڈیرہ دون کی ملاقات کے بعد اب وہ مجھ سے ضرور خائف ہوگا۔ اس سے ملاقات کرنا تو بے کار ہے۔ پہلے ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ وہ پہاڑ کے درے میں چھپ کر کیا کام کرتا ہے۔ اس کے ساتھ اور کون کون لوگ ہیں۔ لڑکیاں کہاں سے لاتا ہے۔ اگر لوکل لڑکیاں ہوتیں تو بستی والے ضرور شور مچاتے اور کلوا کو کالی ماتا کا بھگت نہ کہتے۔“

          ساتھی کہنے لگے۔” عاقب بھائی! آپ خود بتائیں گے پھر کس طرح سے ان تک پہنچا جائے۔“

          عاقب نے ایک منٹ کے لئے   آنکھیں  بند  کر کے سوچا۔ پھر کہنے لگا۔” ایسا کرتے ہیں کہ ہم سب سیر کے بہانے درے کی طرف جاتے ہیں۔ ان لوگوں سے ملاقات ہوئی تو سب لوگ یہی کہیں کہ ہم پہاڑوں کی سیر کرنے یہاں آئے ہیں۔“ ایک ساتھی کہنے لگا۔” کالی ماتا کی پوجا کرنے والوں کو کالی ماتا بڑی شکتی دیتی ہے۔ وہ اپنے اندر کی شکتی سے ہمارے دل کا بھید جان جائے گا۔ کہیں ہمارے خلاف اپنے شیطانی حربے استعمال کرنے لگے تو ہم کیا  کریں۔“

          عاقب نے کہا۔” دیکھو بھائیو! اللہ سے بڑھ کر کسی کی طاقت نہیں ہے۔ ہم تو اللہ کا مشن لے کر یہاں آئے ہیں۔ اللہ والوں کا مشن شیطان سے جنگ کرنا ہے ۔ تم نے دیکھا ۔ جنگل کے جنگل جل کر تباہ ہو جاتے ہیں۔ مگر پھر کچھ ہی دنوں میں پہلے سے بھی زیادہ ہریالی ہو جاتی ہے۔ ہر کام میں مشکل بھی ہے۔ تکلیف بھی اٹھانی پڑتی ہے مگر  ذہن  اپنے مقصد پر قائم رہے تو راستے کی تمام رکاوٹیں بھی آسانی سے دور ہو جاتی ہیں۔“

          سب ساتھیوں نے کہا۔” عاقب بھائی  ! آپ صحیح کہتے ہیں۔ ہمیں ان شیطانوں سے ڈرنے کی کیا ضرورت ہے۔“

          یہ سب لوگ پہاڑی علاقوں میں گھومتے گھماتے ایک ایسی جگہ جا   پہنچے۔ جہاں پہاڑ سے ایک بڑا سا آبشار بہہ رہا تھا اور پہاڑ کے دامن میں یہ آبشار ایک دریا میں گر رہا تھا تھا۔ آبشار کے پیچھے پہاڑی سلسلہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔ عاقب اور اس کے ساتھیوں کو یہ جگہ اتنی خوبصورت لگی کہ وہ سب رک کر اس کا نظارہ کرنے لگے۔

          اتنے میں آبشار کے پیچھے پہاڑ کے اندر سے کچھ لڑکیاں نکلیں۔ ان کے پیچھے کچھ لڑکے تھے۔ جو لڑکیوں کو مستی اور فحاشی پر ابھارنے لگے۔ عاقب اور اس کے ساتھیوں نے اپنے آپ کو پہاڑ کی اوٹ میں چھپا لیا۔ کلوا کے اڈے کا انہیں پتہ لگ چکا تھا۔ مگر ابھی ایک دم سے سامنے آنا مصلحت کے خلاف تھا۔ عاقب نے سوچا کلوا کے عیاشی کے اڈے کو تباہ کرنا ہی صرف اس کا مقصد نہیں ہے بلکہ وہ تو یہ چاہتا ہے کہ کلوا جیسے لوگوں کے ذہنوں سے شیطان کی پرستش کرنے کی خواہش ہی نکل جائے۔ تاکہ ہمیشہ کے لئے یہ آدمی شیطان کا آلہ کار بننے سے محفوظ ہو جائیں۔ اس نے دل ہی دل میں دعا مانگی کہ اللہ پاک اسے اس کے نیک ارادوں میں کامیابی عطا  کرے اور اس کے لئے اسباب مہیا کر دے۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے دیکھا آبشار کے پیچھے پہاڑ پر راستہ بنا ہوا ہے۔ جہاں پر دو بڑی بڑی جیپیں آکر رکی ہیں۔ ان جیپوں سے چند بہت لمبے تڑنگے آدمی نکلے  اور پھر یہ آدمی جیپ  میں سے ہی نوجوان لڑکیوں کو پکڑ کر زبردستی اتارنے لگے۔ وہ لڑکیاں بری طرح خوفزدہ تھیں اور رو رہی تھیں۔ ان کے رونے کی آوازیں دور دور تک پہنچ رہی تھیں۔ عاقب یہ منظر دیکھ کر سُن ہو گیا۔ تمام ساتھی کہنے لگے۔” نہ جانے ان لڑکیوں کو کہاں سے پکڑ کر لائے ہیں۔ یہ لوگ اسی طرح شام تک پہاڑی میں چھپے  بیٹھے رہے۔ رات ہوئی تو چاند نکل آیا۔ یہ چودھویں کا چاند تھا۔ شیطان کے ہاتھوں بکے ہوئے انسان آدمیت کے بت کو ہوائے نفس کی تلوار سے گھائل کرتے رہے۔ اس طرح کہ آدمیت کا چہرہ مسخ ہو کر شیطان کا چہرہ بن گیا۔ وہ معصوم لڑکیاں جنہیں یہ لے کر آئے تھے۔ دریا  کے کنارے انہیں غلیظ شراب پلا کر ان کے کومل جسموں پر جگہ جگہ چاقو سے  نشان لگا کر ان کا خون چوستے رہے اور آدھی رات کو جب چاند اپنے جوبن پر تھا۔ ایک لڑکی کو ذبح کر کے اس کے خون کو اپنے جسموں پر ملنے  لگے۔

          عاقب کے ساتھیوں نے بتایا کہ کالی ماتا کے پجاریوں کا کہنا ہے کہ اس طرح چودھویں کی رات کنواری  لڑکی کے خون سے  نہانے سے استدراجی قوتیں بڑھتی ہیں۔ عاقب سے اور دیکھا نہ گیا۔ وہ وہیں پر مراقبہ میں بیٹھ گیا اور اپنے ساتھیوں میں سے ایک کو نگرانی کا کہہ کر باقیوں کو بھی مراقبہ میں توجہ لگانے کا حکم دیا۔

          عاقب نے مراقبہ میں دیکھا کہ کلوا  لڑکی      کے خون میں نہا رہا ہے۔ جسم کے جس حصے پر خون لگتا ہے وہ حصہ جسم تیزاب کی طرح  جل کر کالا ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی جگہ جگہ سے گل بھی جاتا ہے اور جسم میں بہت بڑے بڑے ناسور بن جاتے ہیں۔ اس کا چہرہ  انتہائی  خوفناک اور ہیبت ناک بن گیا۔ دانت باہر کی طرف نکل آئے۔ اس نے دیکھا کہ خون تیزاب بن کر اس کے جسم کے اندر داخل ہو رہا ہے اور آہستہ آہستہ کلوا آدمی سے شیطان بنتا جا رہا  ہے۔ یہاں تک کہ چند ہی منٹوں میں وہ پورا شیطان بن کر سامنے آگیا۔ اس لمحے مراقبہ میں عاقب کے ذہن میں یہ آیت ابھری۔” واللہ خیر الماکرین“ اللہ سب سے اچھا مکر کرنے والا ہے۔ اس آیت کے ساتھ ہی اس نے دیکھا کہ وہ ایسی جگہ کھڑا ہے ۔ جہاں کلوا شیطان اسے نہیں دیکھ سکتا۔ مگر عاقب کلوا کو دیکھ رہا ہے۔ اب اس کی پشت پر خضر بابا آ کر کھڑے ہو گئے۔ خضر بابا کے ہاتھ میں ایک لبادہ ہے۔ جسے وہ پیچھے سے عاقب کو پہنا دیتے ہیں جس سے عاقب کا پورے کا پورا جسم چھپ جاتا ہے حتٰی کہ چہرہ بھی چھپ جاتا ہے۔ صرف چہرے پر آنکھوں کی جگہ دو سوراخ لبادے میں ہوتے ہیں۔ ان سوراخوں سے عاقب باہر دیکھتا ہے۔ اب خضر بابا پشت پر ہی کھڑے رہ کر عاقب کے کان میں یہ آیت دہراتے ہیں۔ واللہ خیرالماکرین ۔ اس کے بعد خضر بابا غائب ہو جاتے ہیں اور عاقب کے اندر انتہائی  جلالی قوت بیدار ہو جاتی ہے۔ اس کے اندر خضر بابا کی آواز مسلسل یہی آیت دہراتی جاتی ہے۔ واللہ خیر الماکرین۔ ہر مرتبہ کی تکرار اس کے اندر   جلال کی قوت کو بڑھاتی ہے اور قوت کے ساتھ ساتھ اندر کی آواز بھی جلالی صورت میں تیز ہوتی جاتی ہے۔

          یہاں تک کہ عاقب نے دیکھا کہ اس لبادے میں اس کا سراپا ایک انتہائی  خوفناک اور ہیبت ناک ترین صورت میں ہے۔ اب وہ سراپا اللہ تعالیٰ کے جلال کے ساتھ کلوا شیطان پر جھپٹا۔ کلوا شیطان اسے دیکھتے ہی خوف سے منجمد ہو گیا۔ عاقب کے سراپا نے انتہائی  جلال میں اسے حکم دیا۔ کلوا شیطان ان لڑکیوں کو چھوڑ دے۔ کلوا بولا۔ جے ہو کالی ماتا کی۔ جے ہو کالی ماتا کی۔ یہ کہہ کر اس نے عاقب کے سراپا کے قدموں میں اپنا سر جھکا دیا۔

          عاقب نے مراقبے سے  آنکھیں  کھولیں۔ اپنے ساتھیوں سے کہا۔ بھائیو دوستو! واللہ خیر الما کرین۔ اللہ کا مکر شیطان کے مکر و فریب کو کھا جاتا ہے۔ دیکھو اللہ کیا سبب بناتا ہے۔ آج کی رات ہم پر اور ان معصوم لڑکیوں پر بہت بھاری ہے۔  صبح سویرے جیسے ہی یہ تھک کر سو جائیں گے۔ ہم ان لڑکیوں کو جیپ میں ڈال کر یہاں سے لے جائیں گے۔ پھر ان لڑکیوں کو کلوا کے خلاف گواہ بنا کر لوگوں کے سامنے لے کر آئیں گے۔ تاکہ اس شیطان کا بھانڈا پھوٹ جائے اور سب لوگ مل کر اس شیطان کا مقابلہ کریں۔ عاقب اور اس کے ساتھی صبح ہونے تک اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہے کہ اللہ تعالی ان کے اندر ہمت و قوت عطا  کرے۔ صبح کے قریب انہوں نے دیکھا کہ کچھ مرد اور عورتیں پہاڑ کے اندر چلے گئے اور کچھ وہیں دریا کے کنارے بے سدھ ہو کر لیٹ گئے۔

          عاقب اللہ کا نام لے کر اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہاڑ سے نکل پڑا۔ آہستہ آہستہ چھپتے چھپاتے یہ لوگ دریا کے کنارے آبشار کے نیچے پہنچ گئے۔ لڑکیوں کے کانچ جیسے جسموں پر جا بجا کٹ مارک لگے تھے۔ دیکھا نہ جاتا تھا۔ ابھی چند لڑکیوں کو ہی جیپ میں ڈالنے پائے تھے کہ اندر سے کسی کی آواز آئی۔ یہ سب لوگ نہایت تیزی سے جیپ میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے۔ ایک تو تنگ پہاڑی راستہ اور پھر واقفیت بھی نہ تھی۔ بمشکل ایک میل ہی چلے ہوں گے کہ پیچھے سے دوسری جیپ آتی    دکھائی   دی۔ وہ  کافی پیچھے تھی۔ مگر عاقب کے ساتھی ڈرائیور پر گھبراہٹ طاری ہوگئی۔ ایک دم سے موڑ آگیا۔ وہ کنٹرول نہ کر سکا۔ گاڑی پہاڑ سے ٹکرا کے زور سے اچھلی۔ جیپ پیچھے سے کھلی ہوئی تھی۔ عاقب بالکل پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ گاڑی اچھلی تو عاقب نیچے جا پڑا۔ مگر یہ زمین نہ تھی بلکہ وہ پہاڑ کی ایک دراڑ میں پھنس گیا تھا۔ اوپر سے پتھر گرے۔ پھر اسے ہوش نہ رہا۔ کچھ دیر بعد اسے ہوش آیا تو اس نے دیکھا کہ وہ تو ہل بھی نہیں سکتا ہے۔ اس نے اپنی پشت پر پسلی کی جگہ شدید درد محسوس کیا اور اس کے علاوہ جسم پر جگہ جگہ سے خون نکلتے دیکھ کر وہ جان گیا کہ دراڑ میں پھنسنے سے جسم  پر زخم آگئے ہیں۔ اس نے اپنے کپڑے پھاڑ کر ان کی دھجیوں سے خون صاف کرنا شروع کر دیا۔ ایسی پوزیشن میں وہ بس بڑی مشکل سے اپنے ہاتھ کو ہلا سکتا تھا اور ہاتھ اور چہرے کو ہی چھو سکتا تھا۔ باقی نچلا دھڑ تو پہاڑ کی دراڑ میں بری طرح پھنسا ہوا تھا۔

          اس نے ہمت سے کام لیتے ہوئے اپنے رب کو پکارا۔ رحمٰن  بابا سے زہنی طور پر رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی۔ اسی وقت اس کی آنکھوں میں وہ سین گھوم گیا۔ جو وہ پہلے بھی دیکھ چکا تھا کہ وہ پہاڑ میں کہیں ہے اور وہ گلابوں جیسے عارض والی لڑکی اس پر جھکی اس کی تیمار داری کر رہی ہے۔ عاقب نے  آنکھیں  پھاڑ کر اِدھر اُدھر دیکھا۔ کیا وہ سچ مچ یہاں ہے۔ میں کہاں ہوں۔ یہاں تو کسی کی آواز بھی نہیں آرہی ہے۔ میرے ساتھیوں کا کیا ہوا۔ اب عاقب کا ذہن پوری طرح کام کرنے لگا۔ اس نے سوچا مجھے کسی طرح اس دراڑ سے باہر نکلنا چاہیئے۔ اس نے بڑی ہمت کر کے ذرا بدن کو ہلایا تو پسلیوں میں ایسی زبردست ٹیس اُٹھی کہ بے ساختہ آہ نکل گئی۔ وہ اپنے آپ سے بولا ضرور میری پسلی کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ پھر خود ہی بولا کچھ بھی ہو۔ مجھے  یہاں سے ہر صورت میں  باہر نکلنا ہے۔ اس نے زور زور سے سب کو پکارنا شروع کر دیا۔ یا اللہ یا خضر بابا ، یا رحمٰن بابا میری مدد کیجئے۔ اس کو لڑکی کا بھی خیال آیا۔ اس نے سوچا اب میں اسے کیا نام دوں۔ اے لڑکی! تم جہاں  کہیں بھی ہو ۔ آؤ مجھے تمہاری  مدد  کی ضرورت ہے۔ یہ کہہ کر اپنی پوری  ہمت کے ساتھ اس نے اپنی کمر اور پاؤں کو ہلانے کی کوشش کی۔ اسے محسوس ہوا کہ اس  کی کمر کے پاس کئی چھوٹے چھوٹے پتھر اس طرح گرے ہیں کہ اس کا جسم ان پتھروں کی وجہ سے دراڑ میں بالکل فٹ ہو گیا ہے۔ اس نے سوچا اب ایک ہی علاج ہے کہ وہ اپنے جسم کو بار بار ہلانے کی کوشش کرے تاکہ یہ پھنسے ہوئے پتھر ہٹ جائیں اور پھر تھوڑی سی جگہ ہو جائے گی تو وہ یہاں سے نکل سکے گا۔ جسم کو بار بار ہلانے سے چند پتھر ڈھیلے ہو کر گر پڑے۔ پاؤں کے پاس کچھ جگہ بنی تو عاقب نے دیکھا کہ نیچے دریا بہہ رہا ہے۔

          اسے اطمینان ہوا کہ وہ اگر نیچے گرے  پڑے تو پانی میں ہی گرے گا اور جان بچ جائے گی۔ بار بار جسم ہلانے سے اس کی پسلیوں میں درد کی ٹیسیں بُری طرح اٹھنے لگیں۔ مگر اس نے اپنی پوری توجہ اپنے رب کی جانب لگا دی اور ارادہ کر لیا کہ اب یہاں سے نکلنا ہی ہوگا۔ بلاشبہ انسان کے ارادے کے آگے  پہاڑ کی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے۔ عاقب کو نکلنے کی کوشش کرتے کرتے کافی دیر ضرور لگی۔ مگر بالآخر وہ دراڑ سے نکلنے میں کامیاب ہو ہی گیا۔ اوپر سے تو دراڑ پتھروں سے بند ہو چکی تھی۔ صرف نیچے ہی سرکا جا سکتا تھا۔ عاقب نیچے سرکتے ہوئے پانی میں گر پڑا۔ دریا کا تقریباً کنارہ تھا۔ جس کی وجہ سے اس کی پسلیوں پر اور چوٹ پڑی۔ چند لمحوں کو اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ دماغ ماؤف ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد دریا کے پانی نے جب چہرہ بھگویا تو اس نے  آنکھیں  کھولیں۔ درد کی شدت سے اسے سانس لینا بھی دشوار ہو رہا تھا۔ بڑی مشکل سے وہ اپنے آپ کو گھسیٹ  کر پانی کے کنارے پر لے گیا اور قمیض کی دھجیوں سے بہتے خون کو صاف کرنے لگا۔ مگر درد کی شدت نے اس پر اس قدر غلبہ ڈال دیا کہ باوجود کوشش کے غشی طاری ہوگئی اور تھوڑی ہی دیر میں بالکل بے ہوش ہو گیا۔ بے ہوش ہوتے وقت غشی کی حالت میں اس نے قندیل کی روشنی میں پھر اسی لڑکی کا چہرہ دیکھا۔ اس کے دل نے صدا دی ” تم کہاں ہو اور پھر وہ بالکل ہی غافل  ہو گیا۔

          اس جگہ سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر دریا کے کنارے ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ دراصل پانی زندگی کی سب سے بڑی  ضرورت ہے۔ آدم زاد جہاں پانی دیکھتا ہے وہیں ڈیرا جما لیتا ہے۔ دریا کے کنارے تین طرف پہاڑوں میں گھری ہوئی یہ چھوٹی سی بستی بڑی خوبصورت تھی۔ لوگوں نے اپنی ضرورت کے لئے کھیتیاں بو رکھی تھیں۔ جن پر ان کا گزارہ تھا۔ ساتھ میں پہاڑی بکرے پال رکھے تھے۔ گلبدن اس بستی کے سردار کی بیٹی تھی۔ اس کی ماں افغانی نسل کی ایک نیک خاتون تھی۔ باپ شملہ کے بڑے تاجر کا بیٹا تھا۔ جس کا نام قدرت اللہ خان تھا۔ قدرت اللہ اپنے باپ کے  ساتھ مال لے کر اکثر افغانستان جایا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ جب اس کا باپ کسی وجہ سے اس کے ساتھ نہ جا سکا اور اسے مال لے کر اکیلا ہی افغانستان   جانا پڑا تو افغانستان کے ایک شہر  ترمیزی میں جب وہ اپنی تجارت کے مال کے ساتھ ایک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا اچانک اس کی طبیعت  سخت خراب ہو گئی۔ اسے سخت قسم کے بخار نے آ گھیرا۔ جب  صبح ناشتے پر وہ باہر نہ آیا تو ہوٹل کے مالک کو تشویش ہوئی۔ دستک دینے پر بھی جب دروازہ نہ کھلا۔ تو اس نے چابی سے دروازہ کھول کر دیکھا تو قدرت اللہ چار پائی  پر بخار میں بے سدھ پڑا تھا۔ ہوٹل کے مالک کی ایک ہی بیٹی تھی شفقت جان۔ اس نے اسے آواز دی۔ شفقت جان کو اللہ تعالی نے قدرتی طور پر شفا کی قوت عطا کی تھی۔ شفقت جان نے مریض کےسر پر ٹھندے پانی کی پٹیاں رکھیں اور اس کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر اس کی بیماری کو سلب کر لیا۔ تھوڑی ہی دیر میں مریض کا بخار اتر گیا اور اس نے  آنکھیں  کھول دیں۔

          آنکھیں کھولتے ہی نظر شفقت  جان کے باغ وبہار مکھڑے سے  ٹکرائیں۔ ایک لمحے کو اسے خیال آیا کہ وہ جنت میں کسی حور کو دیکھ رہا ہے۔ شفقت جان  نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے شرماتے ہوئے بولی۔ اب کیسی طبیعت ہے آپ کی؟ اتنے میں شفقت جان کے والد بھی آگئے۔ بولے۔” وہ تو اچھا ہوا کہ ہم نے تمہارا کمرہ کھول کے دیکھ لیا ۔ ورنہ نہ جانے تم کب تک بے سدھ پڑے    رہتے۔ پھر ہنس کر بولے۔ اسل حکیم تو ہماری بیٹی ہے۔ جس نے تم کو اچھا کر دیا۔ شفقت جان کی ماں بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھی۔ باپ نے اسے بڑی  محبت سے پالا تھا۔ دو تین دن میں ہی قدرت اللہ کو محسوس ہو گیا کہ شفقت جان اس کی روح میں سما چکی ہے۔ اس نے رخصت ہونے سے پہلے شفقت جان کے والد سے شفقت کا ہاتھ مانگ لیا۔ اس  نے اسے صاف کہہ دیا کہ وہ اس وقت  یہاں سے نہیں جائے گا جب تک کہ شفقت کو اس کے ساتھ نہ کر دیں۔ عشق  میں بڑی طاقت ہے۔ شفقت کا والد قدرت اللہ کی محبت، شرافت اور محنت دیکھ  کر اپنی بیٹی کا رشتہ دینے پر آمادہ ہو گیا۔ وہیں سادہ طریقے سے شادی ہو گئی اور تیسرے دن قدرت اللہ  اپنی بیوی کو لے کر اپنے وطن شملہ میں آگیا۔ مگر قدرت اللہ کا باپ بڑا ہی سخت تھا۔ اس نے بہو کو کسی طرح قبول نہ کیا۔ آئے دن کے طعنوں سے گھبرا کے قدرت اللہ اپنی بیوی کو لے کر اس پہاڑی علاقے میں آگیا اور اس نے یہاں کھیتی باڑی شروع کر دی۔ بھیڑ بکریاں پال لیں۔ ایک سال  کے اندر اندر پہاڑوں پر رہنے والے نیچے اتر آئے اور پوری بستی بس گئی۔ سب نے قدرت اللہ کو قبیلے کا سردار مان لیا۔ گلبدن اسی بستی میں پیدا ہوئی۔ ماں کی جانب سے شفاء اسے قدرتی طور پر ورثے میں ملی تھی۔ اس کی چھٹی حس بیدار تھی۔ بڑی ہوئی تو ماں سخت بیمار ہوگئی۔ گلبدن نے دل و جان سے ماں کی خدمت کی۔ اپنی قدرتی صلاحیتوں کو بھی اس کے علاج کے لئے خوب استعمال کیا۔ مگر موت کا کوئی علاج نہیں ہے۔ وہ بچ نہ سکی۔ اب چار سال سے گلبدن پورے بستی والوں کا خیال رکھتی تھی۔ ذرا کسی کی طبیعت خراب ہونے کی خبر ملی۔ وہ فوراً اسے دیکھنے جاتی۔ اللہ نے اس کے ہاتھ میں شفا دی تھی۔ وہ اپنی پوری بستی کی جان تھی۔

          دوپہر ہونے کو تھی۔ گلبدن گھر میں بیٹھی کسی کام میں مشغول تھی کہ اچانک اس کے دماغ میں کسی کی آواز آئی۔ تم کہاں ہو۔ یہ آواز اس قدر صاف تھی کہ وہ چونک  کر چاروں طرف دیکھنے لگی کہ اسے کس نے پکارا ہے۔ مگر اس کے ساتھ وہ یہ بھی جان رہی تھی کہ یہ آواز اس کے اندر کی تھی۔

          چند منٹ سوچنے کے بعد وہ اُٹھ کھڑی ہوگئی اور بے اختیاری میں دریا کی طرف چلنے لگی۔ دریا کے کنارے پر چلتے وقت پھر دوبارہ اس کے دماغ میں آواز آئی  تم کہا ں ہو؟ اس دوسری آواز نے اس کے اندر یقین کو اور بڑھا دیا اور وہ تیز قدم اُٹھاتی دریا کے کنارے چلتی رہی۔ تھوڑی دور جا کے اس نے دیکھا کہ پانی میں کچھ کپڑے کی دھجیاں بہتی چلی آرہی ہیں۔ ان دھجیوں میں سُرخ دھبے ہیں۔ وہ جان گئی  کہ ضرور کسی نے ان دھجیوں سے خون صاف کر کے دریا میں پھینکا ہے۔ گلبدن کے دل نے کہا وہ جو بھی ہے زخمی ہے۔ اسے علاج کی ضرورت ہے۔ کچھ اور آگے    جا کر اسے پانی میں   خون کی سرخی  دکھائی  دی۔ تھوڑے فاصلے پر اسے کوئی شخص اوندھے منہ زمین پر لیٹا ہوا  دکھائی  دیا۔ اس کی قمیض جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی   تھی اور اس میں سے بدن کے زخم جھانک رہے تھے۔ وہ دوڑتی ہوئی اس کی طرف بڑھی۔ ڈرتے ڈرتے اس کے بدن کو ہاتھ لگایا کہ زندہ ہے یا مر گیا۔

          مگر اس کا بدن اس قدر ٹھنڈا تھا کہ کچھ اندازہ ہی نہ ہوا۔ اس نے جلدی سے اس کے اوندھے  منہ کے نیچے سے مٹی ہٹائی  تاکہ اس کی سانس کا پتہ چلے۔ گلبدن کے ہاتھ نے سانس کی گرمی محسوس کی تو اسے یقین ہوا کہ یہ شخص ابھی زندہ ہے۔ اس نے اس کے منہ کے نیچے سے اچھی طرح مٹی ہٹا دی تاکہ وہ آرام سے سانس لے سکے۔ عاقب بالکل بے ہوش تھا۔ گلبدن کا ذہن تیزی سے کام کرنے لگا

 اس نے سوچا سب سے پہلے اس کے زخموں کے بہتے خون کو روکنا ضروری ہے ورنہ یہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکے گا۔ اس نے عاقب کی پشت سے قمیض پھاڑ کر جدا کر دی۔ پشت پر ایک بڑا زخم تھا۔ جس میں سے خون تیزی سے نکل رہا تھا۔ گلبدن جلدی سے اپنا ڈوپٹہ پھاڑا اور کئی تہہ بنا کر زخم پر رکھ کر پٹی باندھنے کی کوشش کرنے لگی۔ بڑی مشکل سے اس نے آہستہ آہستہ پٹی کو اوندھے لیٹے ہوئے عاقب کے بدن کے نیچے سے نکالا تاکہ زخم پر   پٹی کس کر باندھ سکے اور خون رک جائے۔ وہ زخمی بدن کو زیادہ ہلآنا جلآنا بھی نہیں چاہتی تھی کہ کہیں کوئی اور مشکل نہ پڑ جائے۔ پوری پشت پر اور بھی بہت سے زخم تھے۔ مگر یہ اتنے گہرے نہیں تھے گلبدن نے دریا کے پانی میں دوپٹے کی دھجیاں بھگو کر ان زخموں کو صاف کر کے ان پر دوپٹے کی کترنیں چپکا دیں۔ زخم صاف کرتے ہوئے عاقب کے داہنے شولڈر کی ہڈی کے  نیچے ایک نشان سا  دکھائی  دیا۔ اس نے جلدی سے گیلے کپڑے سے اسے اچھی طرح صاف کیا۔ اس نے دیکھا کہ گہرے بھورے بالوں سے وی (V)     کا نشان بنا ہوا ہے۔ گلبدن نے پھر غور سے اس نشان کو دیکھا ۔ آہستہ اہستہ اسے چھوا۔ حیرت اور گھبراہٹ کے ملے جُلے جذبے سے ایک سنسنی سی اس کے اندر دوڑ گئی۔

          اس کا حافظہ بچپن کی طرف اسے کھینچنے لگا۔ وہ تقریباً چھ سال کی تھی۔ وہ اور اس کی ماں دریا پر اسی جگہ موجود تھے۔ ماں نے اِدھر اُدھر دیکھا کوئی بھی نہ تھا۔ اس نے گلبدن کی فراک اتار دی اور کہا کہ ا میں تجھے نہلا  دیتی ہوں۔ گرمی ہو رہی ہے۔ ماں اسے پانی میں ڈبکیاں دے کر نہلا رہی تھی کہ بستی کے ایک بزرگ وہاں آ نکلے۔ انہوں نے غور سے گلبدن کو دیکھا۔ اس وقت گلبدن کی پشت ان کے سامنے تھی۔ وہ اسے دیکھتے ہوئے بولے۔” گلبدن کی ماں اس بچی کی پشت پر جو یہ بھورے بالوں کا نشان ہے نا۔ یہی نشان اس کے شوہر کی پشت پر بھی ہوگا۔“

          گلبدن کی ماں نے غور سے اس کی پشت پر دیکھا۔۔۔ بولی” دادا یہ نشان تو اس کا پیدائشی ہے۔“

           بزرگ نے کہا۔” اس کا بھی یہ نشان پیدائشی ہی ہوگا۔ یہ قدرت کی پہچان ہے۔“ اور یہ کہتے ہوئے وہ بزرگ بستی کی جانب واپس چلے گئے۔

          ان یادوں کے ساتھ اس کے دل کی دھڑکن بڑھنے لگی۔ اس کے ہاتھ رک گئے ۔ مگر پھر دوسرے ہی لمحے اسے خیال آیا۔ اتنے بچپن کی بات ہے۔ ضروری نہیں کہ درست ہو۔ مگر دل کے کسی کونے میں یقین کی شمع  بھی جلتی  دکھائی  دی۔ اسی تذبذب کی کیفیت میں وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔ عاقب ابھی تک بے ہوش تھا۔ اس نے سوچا اب اس کے زخموں سے خون بہنا بند ہو گیا ہے۔ اب مجھے بستی والوں کو خبر دینا چاہیئے تاکہ وہ اس شخص کو یہاں سے اُٹھا کر بستی میں لے آئیں اور اس کی صحیح تیمار داری ہو سکے۔

          گلبدن نہایت تیز رفتاری سے بستی کی طرف روانہ ہوئی۔ راستے بھر اس کے دل  و دماغ  ایک دوسرے سے سوال و جواب میں مشغول رہے۔ دماغ نے حیرت  سے سوال کیا۔”کیا وہ بزرگ صحیح تھے؟ دل نے اس کی بے یقینی پر تازیانہ لگایا۔ تم نے بھورے بالوں کا وی نشان نہیں دیکھا۔ دماغ دل کے تحکمانہ انداز سے مرعوب ہوتے ہوئے بولا۔” دیکھا تو ہے مگر۔۔۔ مگر کیا؟ دل نے جز بز ہوتے ہوئے کہا۔ دل کا خفا  ہونا بھی درست تھا۔ کیونکہ دل کی بات میں اگر مگر تو ہے ہی نہیں۔ دل تو فیصلے کا مقام ہے۔ ایسا ہے یا ایسا نہیں ہے۔ اب کے سے دماغ دل کی فکر سے سوچنے لگا ۔  ٹھیک   ہی تو ہے۔ وہ آواز جو مجھے آئی  تھی ۔ تم کہاں ہو؟ جس آواز کو سن کر میں گھر سے نکلنے پر مجبور ہوگئی۔ یہ آواز کسی اور نے کیوں نہیں سنی۔ دماغ کی اس فکر پر دل بھی متفق ہو گیا۔ قدرت کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے۔ وقت کا ہر گزرتا لمحہ اللہ تعالیٰ کی حکمتوں کو بے نقاب کرتا رہتا ہے۔ گلبدن نے بستی میں قدم رکھتے ہی زور زور سے چلانا شروع کر دیا۔” ابا۔ چاچا۔ شبو دادا۔ جلدی آؤ۔ جلدی باہر آؤ۔“

          وہ اتنی زور زور سے سب کو آوازیں دے رہی تھی کہ سب گھر سے باہر اگئے۔ سب نے بیک وقت کہا۔” گلبدن کیا ہوا؟“

          گلبدن نے جوشیلی آواز میں کہا۔” ابا ۔ دادا۔۔۔وہ وہاں ساحل پر ایک آدمی زخمی پڑا ہوا ہے۔۔۔ وہ بے ہوش ہے۔۔۔ جلدی کرو اسے یہاں لآنا ہوگا۔

          پانچ چھ آدمی ایک دم سے بولے۔” ہم دیکھتے ہیں۔“

          ابا نے کہا۔” بیٹی تم گھر سے چادر وغیرہ لے کر فوراً  آجاؤ۔ ہم چلتے ہیں۔“

           تھوڑی ہی دیر میں سب لوگ وہاں پہنچ گئے اور بہت احتیاط سے عاقب کو اُٹھا کر بستی میں لے آئے۔ گلبدن نے ایک کمرے میں اس کے رہنے کا انتظام کر دیا اور اسے ہوش میں لانے کی ترکیبیں کرنے لگی۔ کچھ  جڑی بوتیوں بھی سنگھائیں۔ مگر شاید کمزوری کی وجہ سے عاقب کو ہوش نہ آیا۔ گلبدن کے ساتھ کئی اور لوگ بھی عاقب کی تیمار داری میں لگ گئے ۔ تیمار داری کرتے ہوئے گلبدن کو معلوم ہوا کہ عاقب کی پسلی کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے۔ اس نے جری بوٹیوں کو پیس کر ان کا لیپ لگا کر پٹی باندھ دی۔ تمام زخم صاف کئے اور اسے صبح شام دم کرنے لگی۔

          دو دن بعد جب وہ اسے دم کر رہی تھی تو عاقب کو ہوش آگیا۔ اس نے  آنکھیں  کھول کر اپنے اوپر جھکی ہوئی لڑکی دیکھی تو سمجھا شاید میں ابھی تک خواب میں ہوں اس نے آہستہ سے کہا۔” میں کہاں ہوں؟“

          گلبدن کا ہاتھ اس کی پیشانی پر تھا اور اس کی  آنکھیں  بند تھیں جیسے ہی عاقب کی آواز اس کے کانوں میں  آئی۔ اس نے چونک کر اپنا ہاتھ اس کی پیشانی سے کھینچ لیا۔ دم کرنا چھوڑ کر اپنی  آنکھیں  کھول دیں۔ دیکھا تو عاقب حیران حیران نظروں سے اسے دیکھ رہا ہے۔ اس کے ہونٹ ہلے۔” میں کہاں ہوں؟“ خوشی کے مارے گلبدن کا دل اس کے حلق میں آگیا۔ وہ خوشی سے بھری آواز میں بولی۔” تم۔ تم کیسے ہو؟“۔۔۔ میں ابا کو بلاتی ہوں۔

          اور وہ دوڑتی ہوئی کمرے سے نکل گئی۔

           ” ابا ۔ ابا وہ ہوش میں آگیا ہے۔۔۔ وہ ہوش میں آگیا ہے۔۔“

          قدرت اللہ نے سامنے کمرے سے نکلتے ہوئے کہا۔” کیا اسے ہوش آگیا ہے۔“ اس کے لہجے میں  بھی خوشی کا جوش تھا۔

          گلبدن ہنستے ہوئے بولی۔” ہاں ابا۔ اس نے دو تین دفعہ پوچھا۔ میں کہاں ہوں؟“

          دونوں باپ بیٹی پھر تیزی سے عاقب کے کمرے میں داخل ہوئے۔ دونوں عاقب کی چارپائی  کے پاس آ کر کو خوشی سے دیکھنے لگے۔ قدرت اللہ نے پیار سے اس کی پیشانی کو چھوا اور بولا۔” اب کیسی طبیعت ہے بیٹے تمہاری؟ تم دریا کے کنارے بے ہوش پڑے تھے تو ہم تمہیں یہاں لے آئے تھے۔“

٭٭٭


Qandeel

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی