Topics

(تیسری قسط)

اس خواب کے بعد جیسے تینوں کا دل دنیا سے کچھ اکھڑ سا گیا۔ تینوں کا زیادہ وقت عبادت میں گزرتا۔ گھر میں کاموں سے فراغت کے بعد زرینہ آیت کریمہ کے ورد میں لگ جاتی اور پورے ایک گھنٹے تک آیت کریمہ کا ورد کرتی رہتی۔ وہ سوچتی کہ انسان کا  اپنے  پورے ہوش و حواس کے ساتھ مچھلی کے پیٹ میں زندہ مقید ہو   جانا اس کے لئے قیامت ہی تو ہے۔ پس اللہ پاک نے حضرت یونس علیہ السلام کو اس قیامت سے نجات کا راستہ دکھایا اور آیت کریمہ کا ورد انہیں بتایا۔ ا س  آیت میں ضرور قیامت کی ہولناکیوں سے نجات کا راستہ ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کے وسیلے سے اللہ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسانی کو اس ورد سے نوازا ہے۔ قاسم صوم و صلوۃ کی پابندی تو پہلے سے ہی کرتا تھا لیکن اب اس کی توجہ زیادہ ہو گئی تھی۔ عاقب کا زیادہ وقت قرآن کو سمجھ کر پڑھنے اور اس کی آیتوں پر غورو فکر میں گزرتا۔ تینوں اپنی      جگہ پر سکون تھے کہ وعدے کا ایک دن تو آنا ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لکھے کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ مگر اس پُر آشوب دور میں ہمیں  اپنے  آپ کو اس یوم عظیم کے لئے تیار رکھنا ہے۔ یہ یوم عظیم زمین پر بسنے والی کسی ایک قوم یا ایک نوع کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ تو پوری زمین کے حواس کی تبدیلی کا دن ہے۔ زمین کی سطح پر اور زمین کے اندر بسنے والی ہر شئے زمین کی اس تبدیلی کو محسوس کرنے والی ہے۔ یقیناً زمین کے حواس کی تبدیلی کا یہ دن سب سے بڑا ہوگا۔

          قاسم ہمیشہ زرینہ اور عاقب کو علم کی اہمیت کا احساس دلاتا رہتا۔ وہ کہتا۔” دیکھو اگر کوئی چلتے چلتے اچانک پھسل کر گر  پڑتا ہے تو اس کی ہڈی ٹوٹ جاتی ہے۔ اس کو خاصی چوٹ لگتی ہے مگر جب کوئی اراداً پھسلنے کی نقل کرتا ہے تو اس کو چوٹ نہیں آتی   کیونکہ اسے  اپنے  پھسلنے اور گرنے کا علم  ہے۔ پس علم کے ساتھ عمل ایک ایسی حرکت ہے جو مکمل ہے۔ اس لئے روح اور عقل دونوں پر بوجھ نہیں بنتی مگر علم کے بغیر حرکت ادھوری ہونے کی بنا پر ایک رُخ میں خلاء رہ جاتا ہے اور علم کا رُخ روحانی شعور کی طرف  ہے۔ پس روحانی شعور میں یہ حرکت ریکارڈ نہیں بنتی۔ روحانی شعور میں ریکارڈ نہ ہو وہ عمل ابدی صورت اختیار نہیں کرتا۔ جس کی وجہ سے اس زمین میں وہ داخل نہیں ہو سکتا ۔ انفرادی ارادہ اور عقل حرکت کی لہریں ہیں جو روحانی شعور میں جذب ہو کر روح کی حرکات کا مشاہدہ کرتی ہے۔“

          کچھ دنوں بعد خبر آئی  کہ فضا میں بھیجے جانے والا ایک راکٹ زمین پر گر کر تباہ ہو گیا ۔ جس جگہ راکٹ گرا وہ زرعی زمین تھی۔ فسلیں بوئی ہوئی تھین۔ راکٹ گرنے سے وسیع و عریض زمین تو بالکل تباہ ہو گئی مگر باقی زمین میں کھیتی اسی طرح تھی۔ ایک ماہ بعد کھیتی تیار ہو گئی اور وہ بازار میں آگئی۔ اس کے دو دن بعد ہی اس طرف سے ایک مخصوص بیماری کی  خبریں ملنے لگیں۔ لوگوں کے جسم پر بڑے برے چھالے نکل آئے۔ ان چھالوں سے زہریلا مادہ رسنے لگتا جو ساری جلد پر آگ کی طرح جلن پیدا کردیتا۔ یہ وبا اتنی تیزی سے پھیلی کہ کسی کی سمجھ  میں ہی نہ آیا کہ کیا ہو رہا ہے؟ کوئی گھر ایسا نہ تھا جہاں کوئی بیمار نہ ہو اور بیماری بھی ایسی کہ نہ لیٹا جائے نہ بیٹھا جائے۔ سارا شہر اس موذی مرض میں گرفتار ہو گیا۔ دراصل اس زمین پر مختلف قسم کی سبزیوں کی کاشت کی گئی تھی۔ راکٹ کے تابکاری مادے کے اثرات ان سبزیوں میں شامل ہوگئے جسے کھانے سے سارے ہی بیمار پڑ گئے۔ اللہ جب  اپنے  بندوں کو بچآنا چاہتا ہے تو وہ کسی نہ کسی بہانے سے بچا ہی لیتا ہے۔ گزشتہ دو تین سال قبل قاسم کو کھیتی باڑی کا بہت شوق پیدا ہوا۔ صحن اچھا خاصا بڑا تھا۔ اس نے شوق شوق میں ہر قسم کی سبزیاں بو دیں اور اب تو زرینہ اور عاقب بھی اس میں دلچسپی لینے لگے تھے۔ کیونکہ گھر کی سبزیاں اور پھل کا مزا انہیں بازار سے زیادہ اچھا لگتا تھا۔ اب جو اس موذی مرض میں مبتلا لوگوں کو دیکھا تو اور بھی زیادہ اللہ کی مہربانی پر شکر کرنے لگے کہ اللہ نے انہیں اس اذیت محفوظ رکھا۔ دو تین ہفتوں تک کسی کو پتہ نہ لگا کہ اس کا سبب کیا ہے مگر پھر ھکومتی سطح پر ریسرچ ہوئی تو پتہ لگا کہ راکٹ گرنے سے زمین  میں زہریلا مادہ جذب  ہو گیا۔ پانی کے ساتھ ساتھ یہ مادہ زرعی زمین میں دور دور تک پھیل گیا اور اوپر اُگنے والی کھیتی کو بھی زہریلا بنا دیا۔ اس بیماری نے سارے شہر کی حرکت روک دی۔ پورے ایک ماہ بعد لوگوں کی حالت سنبھلی مگر ساری زرعی زمین کو اب ناکارہ قرار دے دیا گیا۔ سبزیوں  کی قلت ہو گئی ویسے بھی لوگ سبزیاں کھانے سے ڈرنے لگے۔ دو چار ہفتے اسی  طرح کی صورت حال کا سارے شہر کو سامنا کرنا پڑا۔ بے سکونی اور بدمزگی کی زندگی سے سب ہی گھبرا گئے اور لوگوں میں اشتعال پھیل گیا، ہنگامے ہونے لگے کہ جب صاحب اختیار لوگوں کو معلوم تھا کہ یہاں راکٹ گرا ہے اور کھیتی خراب ہو  چکی ہے تو پھر اسے بازار میں کیوں لایا گیا۔ ان ہنگاموں نے سنگین صورت اختیار کر لی۔ ویسے بھی کئی ہفتوں سے وباء کی وجہ سے کاروباری حالات خراب تھے۔ لوگ زیادہ بے چین تھے۔ ہنگامے زیادہ بڑھے تو گرفتاریاں عمل میں آئین اور پھر ان ہنگاموں نے سول وار کی صورت اختیار کر لی۔ دوسری بڑی طاقتوں کے لئے تو یہ زریں موقع تھا۔ اقتدار کے عفریت کے دستر خوان پر یہ تو لقمہ تھا۔ اس نے جنگ چھیڑ دی۔ ابھی دوسرا ہی دن تھا کہ خبر  ملی دشمن ملک نے تباہ کرنے کے لئے راکٹ چھوڑ دیا ہے۔ قاسم ، زرینہ اور عاقب تینوں کے تینوں اس خبر کے سنتے ہی سجدے میں گر گئے کہ اے باری الہٰی! اس راکٹ کا منہ پھیر دے۔ ملک کو تباہی سے بچا۔ تھوڑی دیر بعد خبر آئی  کہ راکٹ نارتھ پول (قطب شمالی) میں کہیں گرا ہے۔ اس خبر نے لوگوں کو کچھ دیر سوچنے کا موقع دیا کہ جنگ بُری چیز ہے جس سے تباہی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا مگر اب جنگ تو چھڑ ہی چکی تھی ایک دوسرے کے جواب میں وار تو کرنا ہی تھا۔ اس دن ساری رات جنگ زوروں پر رہی۔ چھوٹے برے راکٹوں سے بمباری ہوتی رہی۔ کرفیو اور بلیک آؤٹ کی وجہ سے کسی کو بھی صحیح حالات کا پتہ نہ تھا۔ ساری رات قاسم، زرینہ اور عاقب تینوں ہی ایک کمرے میں بیٹھے اللہ کو یاد کرتے رہے۔ یہ جنگ کیا موڑ لیتی ہے کسی کو پتہ نہ تھا۔

          اچانک صبح صادق کے وقت عجیب سی آواز نے تینوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا۔ یہ آواز زمین کے اندر کی تھی۔ بہت دھیمی سی جو سننے سے زیادہ محسوس کی جاتی ہے۔ ایسے لگتا تھا جیسے زمین اندر سے سے چٹخ رہی ہے۔ تینوں دم بخود بیٹھے ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے اللہ کا زکر کرنے لگے۔ ابھی چند لمحے  بھی نہ گزرے تھے کہ زلزلے سے زمین لرزنے لگی۔ کچھ کہنے سننے کا وقت نہ تھا۔ خواب حقیقت کا روپ دھار رہے تھے۔ قاسم نے گھبرائی ہوئی آواز میں زرینہ اور عاقب کو  اپنے  سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔” اللہ بہت بڑا ہے۔ اللہ ہماری محبتوں کو ابدی بنانے والا ہے۔“ زرینہ اور عاقب دونوں ہی بلک پڑے۔

          قاسم بھی رو پڑا۔” یا اللہ ! ہمیں نہ بھولنا“ اور اسی وقت ایک زور دار جھٹکا لگا۔ بہت ہی زور دار طریقے سے زمین کے پھٹنے کی آواز ائی۔ جس نے تینوں کو الگ الگ اُچھال دیا۔ تینوں ایک دوسرے کو آوازیں دینے لگے۔ دوسرے لمحے سیلاب کا زبردست ریلا آیا۔ عاقب ایک ہی دھکے میں پھٹی ہوئی زمین کی  دراڑ میں جا پڑا۔ قاسم اور زرینہ سیلاب میں بہتے ہوئے دور نکل گئے۔ کسی کو کسی کی خبر نہ تھی۔ پانی میں بہتے ہوئے جب تک قاسم اور زرینہ کے حواس  قائم رہے وہ چند لمحے قیامت کی سختیوں سے نجات کی دعا دل ہی دل میں کرتے رہے۔  نارتھ پول ( قطب شمالی) کی برف سے پگھلا ہوا پانی بالکل یخ  بستہ تھا۔ جس میں چند لمحوں سے زیادہ حواس سلامت رہ ہی نہیں سکتے تھے۔آج زمین بھپری ہوئی تھی ، اس کا غضب زوروں پر تھا۔ اس کے غضب کی ہر حرکت پکار پکار کر کہہ رہی تھی ۔” اے آدم! تجھے تو زمین پر خلیفہ بنا کے بھیجا گیا تھا تاکہ تو میری بنجر زمین کو ہراکرا دے۔ میرے ویرانوں کو حسین وادیوں اور پُررونق بازاروں میں بدل دے۔ میری دھرتی پر رنگ رنگ کے پھول کھلا دے۔۔۔ مگر تونے  اپنے  مالک کی ایک نہ مانی۔۔۔ راکٹوں اور گولیوں سے بسی بسائی  دنیا کو اجاڑنے پر تُل گیا۔آج میں بھی تیرے ساتھ شامل ہو گئی۔ آ اور اُجاڑ لے، کتنا اُجاڑے گا۔ میں نے جس برف کو جوڑ کر  اپنے  اوپرجمع رکھا تھا تو نے اسی کو تتر بتر کر دیا۔ اب لے جو کچھ تو چاہتا تھا وہی ہوا۔ جس برف کو توڑ توڑ کے تونے پانی بنا دیا۔ اسی پانی میں اپنی پناہ کی تلاش کر۔ اے نادان! اے کم عقل! اے ظالم ! کیا تو اتنا بھی نہیں سمھتا کہ بچہ پانی میں پیدا ہوتا ہے مگر ساری زندگی تو زمین پر ہی گزارتا ہے۔ اللہ نے ہر شئے کو پانی سے پیدا کیا پھر ہر شئے کو زمین پر اتار دیا۔ اب بتا پانی میں تو کیسے زندہ رہے گا۔۔۔۔؟“

          اس ہلاکت آمیز طوفان میں صرف زمین  سے ہی پانی کے سوتے نہیں پھوٹ رہے تھے بلکہ آسمان کے بھی دہانے پوری طرح کھل چکے تھے۔ معلوم ہوتا تھا جیسے آسمان جالی دار ہو گیا ہے اور اس جالی سے کوئی مسلسل بالٹیاں بھر بھر کے پانی زمین پر پھینک رہا ہے۔آج زمین پر کام کرنے والے تمام عوامل نے ایک ساتھ مل کر زمین پر بسنے والی ہر شئے کو تہس نہس کرنے کی ٹھان لی تھی۔ طوفان میں پہاڑوں جیسی لہروں پر صرف انسان ، جانور اور درخت ہی نہیں بہے جا رہے تھے بلکہ اونچی اونچی بلڈنگیں اور شاندار محل بھی کھلونوں کی طرح بہے چلے جاتے تھے۔ منہ زور لہریں  اپنے  اندر بہنے والی ہر شئے کو اُٹھا اُٹھا کر پٹخ رہی تھیں۔ عمارتوں کے کانچ لوگوں کے بدنوں میں گڑ جاتے۔آج لہو ارزاں تھا،آج زمین خون کی پیاسی تھی۔ وہ  اپنے  سینے پر اگنے والی ہر شئے کو اکھاڑ کر پھینک رہی تھی۔ درختوں کی گڑوں لمبی اور گہری جڑیں گیلی مٹی سے ایسے آسانی سے اکھڑ  جاتیں جیسے وہ پانی پر دھرے ہیں۔آج کسی کو بچانے والا کوئی نہ تھا۔آج قدرت بھی صرف تماشائی  بن کر زمین کے آج ڑنے کا نظارہ کر رہی تھی۔ لوگ طوفان کے خوف سے اونچی اونچی چھتوں پر چڑھ گئے مگر لہروں  کے ایک ہی وار میں پوری عمارت اوندھی ہو جاتی ۔ بے بسی کی چیخیں موجوں کی چنگھاڑ میں جزب ہو جاتیں۔آج دل اور پتہ ایک بار ہی خون ہو بہہ چکا تھا۔ اب تو صرف بہکے بہکے دماغ اور بے نور  آنکھیں  تھیں جو پھٹ کر خوف سے  اپنے  ڈیلوں سے باہر نکل آئی  تھیں۔آج معصوم بچے ماں کی گرم آغوش کی بجائے برفانی اور یخ بستہ ہواؤں کی آغوش میں تھے۔ وہ ممتا جو  اپنے  بچے کے آنکھ  سے اوجھل ہونے پر دیوانہ وار اس  کی تلاش میں نکل آتی   تھی،آج کہاں چلی گئی؟ ان کھلی کلیوں کی طرح ننھے منے کومل سے وجود پکار پکار کر کہہ رہے تھے۔” ہم وہی ممتا کے چمن کی بکھری ہوئی پنکھڑیاں ہیں۔“آج وہ نرم ہاتھ، وہ گرم سانسیں کیا ہوئیں جو ہمیں زندگی کی حرارت بخشتی تھیں۔آج وہ نرم لب کہاں ہیں جو ہمیں چوم چوم کے زیست کا ابدی نغمی سناتے تھے۔ اے ماں!آج تمہارے سرمدی سُر بند ہوئے توآج ہم نے بھی  اپنے  کان بند کر  لئے ہیں۔ قیامت کی ہیبت ناک چیخیں تمہاری آواز کے سُروں کو تباہ نہیں کر سکیں۔ یہ سُر ہم نے اپنی روح میں دفن کر لئے ہیں۔

          زندگی کتنے رُخ بدلتی ہے، کیسے کیسے موڑ سے گزرتی ہے مگرآج جیسا خطرناک کھیل تو کبھی زندگی نے نہ کھیلا تھا۔آج جیسی ہیبت ناک راہ تو زندگی نے کبھی اختیار نہ کی تھی۔آج زندگی کی گاڑی کس انوکھے موڑ پر لے آئی  ہے جہاں پیروں تلے زمین ہل رہی ہے اوپر آسمان کی چھت بھی لپٹی جا رہی ہے۔ اب  تک زندگی کی گاڑی کا اسٹیرنگ  اپنے  ہاتھ میں تھا۔ اب گاڑی کو دھکوں سے بڑھا رہا ہےا۔۔۔ کہاں جاتا ہے۔۔۔ کہاں جارہے ہیں۔۔ بچھڑے ہوئے پھر ملیں گے بھی کہ نہیں۔۔ کس کو پتہ ہے۔آج تو ہر سو آہ میں تبدیل ہوتا جاتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو گلے سُر نکالنا ہی بھول گئے جائیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو ہونٹ مسکرآنا بھول جائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو نظر دیکھنے سے بیزار ہو جائے۔ اے ماں! اے فطرت ! پھر سے اپنی      بانہیں کھول دے۔ پھر ایک بار زمین پر پھول کھلا۔ پھر ایک بار ان ویرانوں میں نگمے چھیڑ۔ ان طوفانوں کے دھاروں کو بدل دے۔ تو فطرت ہے، تو بنانے والی ہے بگارنے والی نہیں ہے۔ بگارنے والا تو انسان ہے جوآج  اپنے  بگاڑ کی انتہا کو دیکھ رہا ہے۔ اسےآج سے زیادہ کبھی تیری حاجت نہیں  ہوئی۔آج تیرے سوا اور کوئی نہیں جو اس بگڑے کام کو سنوار دے۔ حسرِ نا مراد سسک رہی تھی مگر شایدآج اس کی سسکیاں سننے والا بھی کوئی نہ تھا۔ ناخدا نے پتوار ہاتھ سے چھوڑ دیئے تھے اورزندگی کی کشتی گرداب میں پھنسی تھی۔ احساس کے ہچکولے پہاڑ کی چوٹی سے گہری کھڈوں میں انسانیت کو دھکیل رہے تھے۔

          عاقب زمین کی دراڑ  میں اس طرح گرا جیسے کسی نے ہاتھوں میں اُٹھا کر اسے اُچھال دیا۔ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔” یا اللہ!“ اور دوسرے ہی لمحے وہ زمین پر گر پڑا اور بے ہوش ہو گیا۔ کئی گھنٹوں بعد اسے ہوش آیا۔ اندھیرا گھپ تھا، ذہن نے سوال کیا۔” کیا میں مر چکا ہوں؟“ پھر اس نے لیٹے ہی لیٹے  اپنے  ہاتھ ہلائے۔ اسے محسوس ہوا کہ ہاتھوں کا لمس تو وہی ہے۔ اب کے سے اس نے اپنی آنکھیں  ٹٹولیں۔ شاید میں اندھا ہو گیا ہوں۔ مجھے کچھ  دکھائی  کیوں نہیں دیتا مگر اسے اپنی آنکھیں  بھی پہلے کی طرح ٹھیک لگیں۔ اب اس کے دل نے کہا۔” ہمت کرو اور دیکھو کہ تم کہاں ہو؟ وہ ہاتھ  سے زمین کو ٹٹولتا ہوا آہستہ آہستہ اُٹھ بیٹھا۔ میں کہاں ہوں؟ میں شاید زمین کے اندر ہوں مگر میں یہاں  کیسے آیا؟ امی اور ابو کہاں ہیں؟  ذہن  نے پھر یہی سوال دہرایا۔ امی اور ابو کہاں ہیں؟ اس نے ذہن پر زور دینا چاہا اور درد کی ایک ٹھیس اس کے سر میں اُٹھی۔ اس نے اندھیرے میں  اپنا  سر دونوں ہاتھوں سے تھام لیا اور آہستہ آہستہ سانس لینے لگا۔ درد تھم گیا اسے یاد آیا طوفان آیا تھا جس کی موجوں میں امی اور ابو تو بہہ نکلے تھے مگر میں۔۔۔ میں بھی تو وہیں تھا۔ میں یہاں کیسے آگیا؟ اس نے پھر یاد کرنے کی کوشش کی۔۔درد کی ٹیس نے دماغ کو ماؤف سا کر دیا۔ کچھ دیر بعد جیسے ہی سنبھلا۔ اس کے دل نے کہا۔ اب یہ سوچنا فضول ہے کہ یہاں کیسے آئے؟ اب تو یہ سوچنا ہے کہ یہاں سے کیسے نکلا جائے۔ ذہن پھر پریشان ہو گیا۔ کیسے نکلوں؟ کچھ نظر تو آ نہیں رہا۔ کہیں اور اِدھر اُدھر پھنس گیا تو کیا ہوگا؟ اب کے سے دل کی گہرائی  سے ایک آواز نکلی۔” یا اللہ!میرے حال پر رحم فرما میرے گناہ بخش دے اور مجھے راستہ دکھا۔“ گرم گرم آنسو اس کے چہرے کو بھگونے لگے۔ فطرت کی سوئی ہوئی ممتا جاگ اُٹھی۔ آنسوؤں  کا یک قطرہ زمین پر گرا اسی وقت آواز آئی۔” اندھیرا ہے قندیل جلا۔“ آواز اس کے بالکل قریب سے آرہی  تھی۔ وہ چونک اُٹھا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ یہ آواز یہ الفاظ میں پہلے بھی سُن چکا ہوں۔ اس نے جلدی سے بلند آواز سے کہا۔” بابا میرے پاس قندیل کہاں ہے جو جلاؤں؟۔ اس قیامت کے اندھیرے سے عاقب ہی مجھے نکال سکتے ہیں۔ للہ میری مدد کیجیے۔ مجھے یاد آیا میں نے عاقب کو خواب میں دیکھا تھا۔ لِلہ مدد کیجیے۔“

          اسی وقت ایک نورانی ہیولا بزرگ کی صورت میں ظاہر ہوا۔ بالکل اسی طرح جیسے اس نے خواب میں دیکھا تھا۔ عاقب نے دونوں ہاتھ جوڑ کر عرض کی ” بابا میں نہیں جانتا آپ کون ہیں مگر مجھے یہاں سے نکال دیجیے۔“

          نورانی روشنی میں عاقب کو ارد گرد کا ماحول روشن  دکھائی  دیا۔ وہ جان گیا کہ وہ زمین کی گہری کھڈ میں موجود ہے۔ نورانی بزرگ بولے۔” میں خضر ہوں۔ قیامت کے سیلاب اور زلزلے سے تمہیں بچانے کا حکم ملا تھا۔ میں نے تمہیں زمین کی گہرائی  میں ڈال دیا مگر یہاں ابھی کچھ عرصہ تمہیں رُکنا ہوگا۔ ابھی اوپر نہیں جا سکتے۔“

          عاقب سخت پریشان ہو گیا۔” کیا فرمایا عاقب نے؟ میں اوپر نہیں جا سکتا؟“ وہ گھبراہٹ میں ہکلانے لگا۔” میں۔۔۔ میں کیوں نہیں جا سکتا۔“

          بزرگ نرم لہجے میں بولے۔” بچے تم نہیں جانتے۔ زمین پر کیا قیامت گزر رہی ہے۔ تم اس ہولناکیوں کا مقابلہ نہیں کر پاؤ گے۔ قدرت تمہیں زندہ رکھنا چاہتی ہے۔“

          بزرگ کی آواز عاقب کے دماغ میں گونجنے لگی۔” قدرت تمہیں زندہ رکھنا  چاہتی ہے۔“ جیسے جیسے ان الفاظ کی تکرار ہوئی۔ ویسے ویسے  اپنے  اندر اسے ایک عجیب سی قوت محسوس ہوئی۔ ذہن نے نجانے کتنی بار اس جملے کو دہرایا کہ ”قدرت تمہیں زندہ رکھنا چاہتی ہے۔“ اور پھر لاشعوری طور پر اس کے لبوں سے یہ الفاظ نکلے۔” قدرت مجھے زندہ رکھنا چاہتی ہے۔“ اب اس کی حالت یک دم بدلی ہوئی تھی۔ اس کے اندر جینے کی امنگ اور زندگی کی صعوبتوں سے لڑنے کا عزم تھا۔ اُس نے کہا۔” خضر بابا۔ میں یہاں قیامت کے گزرنے کا انتظار کروں گا۔ مگر مجھے  کچھ تو بتائیے کہ میں یہاں کیا کروں؟“

          خضر بابا بولے ۔” تم آیت کریمہ کا ورد کرتے رہو۔“

          ”آیت کریمہ۔ “ اس کا دل بھر آیا۔ میری ماں بھی کثرت سے آیت کریمہ پڑھتی تھی۔”خضر بابا میرے امی ابو تو ٹھیک ہیں نا۔“

          خضر بابا نے کہا۔” وہ اپنی دنیا میں خوش ہیں اور بہت خوش ہیں۔ ان کی دعائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہیں گی۔ اچھا اب ہم چلتے ہیں۔ تم جب تک یہاں  رہو گے۔ نہ تمہیں بھوک لگے گی نہ پیاس۔ ہاں البتہ تم سوتے جاگتے رہو گے۔“

          یہ کہہ کر خضر بابا غائب ہو گئے۔ خضر بابا کے جاتے ہی پھر گھپ اندھیرا  چھا گیا۔ عاقب نے ایک گہرا سانس لیا اور تنہائی  میں  اپنے  رب کو پکارا۔ ” یا اللہ تو بہت بڑا ہے۔ سب کچھ تیرا ہی ہے جو کچھ کہ آسمانوں اور زمینوں میں ہے۔ مجھ پر  اپنا  رحم فرمانا۔ دنیا اور دنیا والوں کو اپنی حفاظت میں رکھنا۔ انہیں مایوسی اور غم سے نجات دینا۔ جس مقصد کے لئے تو نے مجھے زندگی  بخشی۔ اس کام کی انجام دہی کی مجھے توفیق دینا۔ یہ کہہ کر وہ اندھیرے میں ہی زمین پر سجدے میں جھک گیا۔ آنسوؤں کی برسات زمین کو بھگوتی رہی۔ کتنی دیر بعد جب دل ہلکا ہوا تو وہ اُٹھ بیٹھا اور آیت ِ کریمہ کا ورد کرنے لگا۔ ورد کرتے کرتے اسے نیند آگئی۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ ساری زمینوں اور سارے آسمانوں سے بھی بڑا ایک عالم ہے۔ یہ عالم بالکل تاریک ہے۔ مگر اس کی تاریکی میں ہوا کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ جیسے یہ ہوا کا عالم ہے۔ ہوا میں بے پناہ قوت ہے۔ اس قوت سے ھو ھو کی صدا بلند ہو رہی ہے۔ ہوا میں حرکت نہیں ہے۔ عالم بالکل ساکت ہے۔ مگر صدائے ھو اس عالم کی قوت و جبروت کا اعلان کر رہی ہے۔عاقب کے اندر اس عالم میں داخل ہونے کا شدید تقاضہ پیدا ہوتا ہے یہ تقاضے میں اللہ کی کھوج و جستجو شامل ہے تقاضے کی شدت اور جستجو شوق خداوندی اس عالم تاریخ میں ایک روشن راستہ بن کر نمودار ہوتا ہے اور اس راستے کا مسافر عاقب کی فکر جستجو عاقب کی صورت میں تلاش یار میں چل پڑتی ہے اس کے قدم مصدائے ھو پر اٹھتے جاتے ہیں ھو  کی ہر صدا پر وہ ایک لمحہ رک کر چاروں طرف نگاہ ڈالتا ہے یقینا وہ یہیں کہیں ہے وہ اللہ جس کی تلاش میں ازل سے سرگرداں ہوں مگر وہ کہیں  دکھائی  نہیں دیتا پھر صدائے ھو اس کے ہونے کا پتہ دیتی ہے پھر اس کی نگاہ بن کے حد نگاہ تک پھیل جاتی ہے صدائے ھو کے ساتھ جستجوئے یار کی یہ آنکھ مچولی جاری رہتی ہے ۔بس جاری رہتی ہے ۔یہاں تک کہ وقت تھم جاتا ہے جستجو خاموش ہو جاتی ہے فکر خود صدائے ھو کے اندر گم ہو جاتی ہے اور خود کو گم کر کے ھو بن جاتی ہے فکر نفس رحمانی کا چوغہ پہن کر ہوہیت خداوند ی کی  علمدار بن جاتی ہے ۔

عاقب کی آنکھ کھلی تو اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ ہزاروں برس اس عالم ہوئیت میں  اڑتا رہا ہے اگلے ہی لمحے اس اطلاع پر اس کے ذہن میں جرح  شروع کر دی۔ کیا تم اڑتے رہے ہو؟ تم ؟تم کون ہو؟ا نا خود اپنی      تلاش میں  اپنے  ہی اندر غوطہ زن ہو گئی اس کا ذہن خواب کو دہرانے لگا ۔”میں کیا ہوں ؟آج اس کی آنا سوالی بھی خود تھی اور جوابی بھی خود تھی زمین کی تہہ میں پرت  در پرت اندھیروں میں خود آنا کے سوا اور کون تھا جو  اپنا  پتہ دیتا دل نے کہا۔” آنا ذات کا تجسس ہے۔ جو ذات کی لا متناہی   پہنائیوں اولا محدود گہرائیوں میں ڈوب ڈوب کر ابھرتا رہتا ہے جو  ذات کا سمندر نہ ہوتا تو آنا کی مچھلی کہاں سے کہاں ہوتی ۔عقل نے دل کے دلائل کو تسلیم کر لیا ۔تم بحرِ  وحدانیت کی ایک مچھلی ہو۔ جس کا بحر سے ہٹ کر کوئی وجود نہیں ہے ۔“اس نے گہری گہری سانس لیں  اور آیت کریمہ کے ورد میں مشغول ہو گیا اس کے اندر گھڑی کی سوئیاں رک گئی تھیں ۔وقت ٹھہر گیا تھا۔ زمین کے اندر تہہ در تہہ  اندھیروں نے اس کے حواس کے جالوں کو چاروں طرف سے لپیٹ لیا تھا اس کی روح بارگاہِ   ایزدی میں سرنگوں ہو جاتی ۔” اے میرے رب !میرے اندھیرے میں  اپنے  نور کی کرن چمکا بے شک تو نور والا نور علیٰ نور  ہے۔“

کبھی کبھی گزشتہ دنوں کے خاکے اس کے ذہن پر ابھرتے ۔ماں  باپ   کی یادیں دل میں پھانس کی طرح چبھنے لگتیں۔ وہ گھبرا کے زور زور سے آیت  کریمہ کا ورد کرنے لگتا ۔” اے میرے رب!  تو ہزار ماؤں سے بھی بڑھ کر ہے ۔ہر ماں تجھ  ہی سے ممتا  حاصل  کر رہی ہے ۔میری حفاظت تیرے ہی سپرد ہے۔ مجھے اپنی      صفات   سے قوی بنا۔ اللہ  اپنے  بندوں پر بہت مہربان ہے ۔وہ دلوں کی پکار سننے والا ہے ۔عاقب کو دن بدن اس بات کا یقین ہوتا جاتا ۔جب بھی اس کا دل پریشان ہوتا ۔ خضر بابا کی آواز اس کے کانوں میں گونجتی۔” قدرت تمہیں زندہ رکھنا چاہتی ہے ۔“پھر اسے قدرت پر ماں  باپ سے بھی زیادہ پیار آتا میں ہر گھڑی ا  س کی حفاظت میں ہوں۔ ایک بار آیت کریمہ پڑھتے پڑھتے بجلی چمکی اور ایک لمحے کو سب کچھ روشن کر گئی۔ پھر یہ بجلی سر کے راستے سے عاقب کے بدن میں داخل ہو گئی ۔عجیب بات تھی۔ اس کا بدن ٹھوس مٹی کا نہیں پتلے  کاغذ کا معلوم ہوا ۔اس کے اندر سے روشنیاں جھلک رہی تھیں ۔گھپ اندھیرا ملگجے اجالے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ تھوڑی دیر کے لیے بعد  وہ دم بخود رہ گیا۔ جس کا ذہن  گھبرا کے سوال کرنے لگا۔” کیا میں مر چکا ہوں ؟“اسی وقت خضر بابا  اپنے  نورانی وجود کے ساتھ ظاہر ہوئے کہنے لگے ۔”بچے تم ابھی زندہ ہو ۔مگر زمین کے اندھیرے نے تمہارےرات کےحواس کو بیدار کر دیا ہے  ۔رات کے حواس جسمِ مثالی  کے حواس ہیں ۔جسمِ  مثالی روشنیوں کا جسم ہے۔ ہر عمل کی روشنی جسمِ مثالی میں جذب ہوتی جاتی ہے  اور جسم ِ مثالی  جب خوب روشن ہو جاتا ہے تو بدن سے اس کی روشنیاں خارج ہونے لگتی ہیں۔ آیت کریمہ کے نور نے تمہارے اندر اجالا بھر دیا۔ اب تمہاری رہائی  کا وقت قریب آگیا انتظار کرو ۔“

یہ کہہ کر خضر بابا پھرسے غائب ہو گئے عاقب  اپنے  ورد میں مشغول ہو گیا ۔بہت دیر پڑھنے کے بعد اسے نیند نے گھیر لیا۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ روشنی کا ایک عالم ہے جہاں زرینہ اور قاسم موجود ہیں دونوں بہت خوبصورت اور جوان حالت میں ہیں یہ دنیا کی طرح کا ایک عالم ہے  ییہاں خوبصورت گھر اور  سر سبز باغات ہیں ۔عاقب  دونوں سے بہت فاصلے پر کھڑا ہے مگر دونوں ایک دوسرے کو دیکھ  اور  سن سکتے ہیں۔ عاقب کو دیکھ کر زرینہ اور قاسم بہت ہی خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔عاقب بھی بہت خوش ہوتا ۔عاقب ان سے پوچھتا ہے۔” امی ابو عاقب کہاں ہیں ؟“زرینہ اور قاسم کہتے ہیں۔” بیٹے تم تو جانتے ہو کہ اللہ نے ہر شئے کو دو جسموں کے ساتھ بنایا ہے۔  تمہارا ایک  جسم مٹی کا  جسم ہے اور ایک جسم یہ خواب کا جسم ہے۔ جو روشنی سے بنا ہوا ہے۔ اسی طرح زمین کے بھی دو جسم ہیں۔ ایک جسم وہ مٹی کی زمین ہے جس پر تمہارا مٹی کا جسم بستا ہے۔ زمین کا ایک جسم روشنی کا بنا ہوا ہے ۔جس پر تمہارا خواب کا روشنی کا بنا ہوا جسم بستاہے ابھی تمہارا مٹی کے جسم کے ساتھ کام ختم نہیں ہوا ہے اور جب ختم ہو جائے گا تو تم بھی ہمارے پاس آ جاؤ گے۔ ہم خوش ہیں تم بھی خوش رہو۔ کیونکہ اللہ اپنے  بندوں کو خوش دیکھنا پسند کرتا ہے ۔خوشی اللہ تعالی کی نعمتوں کے شکر کا اظہار ہے۔ عاقب کی بولا ” امی ابو میں خوش ہوں بہت خوش۔“۔۔۔ اور اس کی آنکھ کھل گئی۔

اب گھپ اندھیروں نے ملگجے  اجالے کا لباس پہن لیا تھا۔ اس نے اوپر نظر کی اونچی اونچی زمین کی دیواروں کے سوا کچھ  دکھائی  نہ دیا ۔وہ سوچنے لگا ۔”جانے یہاں سے کس طرح باہر نکلوں گا؟  ضرور خضر بابا میری مدد کریں گے ۔جس طرح انہوں نے مجھے اندر ڈالا ہے۔ اسی طرح باہر بھی نکالیں گے۔ ورنہ خود سے تو یہاں سے نکلنا ممکن نہیں لگتا۔ کچھ دیر انہی خیالوں میں گزر گئی۔ وہ آیت کریمہ کا ورد برابر کرتا رہا۔ مگر نہ جانےآج کیا بات تھی کہ جب سے ادھر بابا نے رہائی  کا مژدہ سنایا تھا۔ اس وقت سے ورد کے  دوران بھی اسکا ذہن رہائی  کے خیال سے خالی نہیں ہو رہا تھا ۔انتظار اس کی سوئی ہوئی زندگی کو جھنجوڑ رہا تھا ۔قدر ت بڑی مہربان ہے وہ کسی پر اتنا بوجھ نہیں ڈالتی کہ وہ سہار نہ سکے ۔جلدہی خضر بابا آگئے ان کا نورانی سراپا  اور زیادہ نورانی ہو گیا تھا۔ آتے ہی وہ کہنے لگے۔” بچے اب تمہاری رہائی  کا وقت آگیا ہے ۔“

 عاقب  کو اپنی  رگوں میں خون جمتا محسوس ہوا ۔اس کے دل نے جیسے دھڑکنا بند کر دیا ۔الہی  کیا ہونے والا ہے؟ قیامت اآچکی یا قیامت ابآنے والی ہے؟  خضر بابانے یہ کہہ کر اس کی حیرانی کو توڑ دیا ۔ بچے  آنکھیں  بند کر لو۔“ عاقب نےآنکھیں بند کر لیں ۔اسے محسوس ہوا جیسے خضر بابا نے اسے اپنے سینے سے چمٹا لیا ہے اور اوپر کی جانب اسے لے کر اڑ رہے ہیں۔ حیرت اس بات کی تھی کہ خضر بابا کا اسےسینہ  ٹھنڈے پانی کی سطح جیسا لگا ۔جیسے وہ دریا کے پانی پر لیٹا ہے۔ آدمی کتنا ہی بہادر بننے کی کوشش کرے مگر جب خرقِ عادت چیزیں رونما ہوتی ہیں ۔تو اس پر  تھوڑا بہت خوف ضرور طاری ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ اس وقت عاقب کو درپیش تھا ۔خضر بابا کا لمس اس  کے لیے اتنا انوکھا تھا کہ اس کا دل بہت ہی اندیشوں سے بیٹھا جا رہا تھا ۔نہ جانے اوپر جا کر مجھے کن حالات سے گزرنا پڑے۔ نہ جانے سیلاب نے زمین پر کسی کو زندہ چھوڑا بھی ہے یا نہیں اور اگر زمین پر مادی انسانوں کو بجائے خضر بابا جیسے روشنیوں کے انسان بستے ہوں تو ان کے بیچ میں یہ کیسی زندگی گزاروں گا؟ اب  تو وہاں امی بھی نہیں ہے ۔ابو بھی نہیں ہے۔ اس وقت اسے شدت سےامی ابو اسے یادآنے لگے ۔اگلے لمحے  خضر بابا کی  بانہیں  اس پر ڈھیلی ہو گئیں۔ اس کے پاؤں زمین تے ٹکرائے ۔ جیسے پانی کی سطح سے وہ ساحل پر آگیا ہے۔  اس کے کانوں میں خضر بابا کی آواز آئی  ۔”بچے   آنکھیں  کھول دو۔“ عاقب نے  آواز سنتے ہی  آنکھیں  کھول دیں اور عاقب نے اپنے  سامنے نظر ڈالی ۔ اس کے منہ سے بے ساختہ ایک زوردار چیخ نکلی اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔”خضر بابا! خضر بابا! یہ کیا ہو گیا ۔دنیا تو بالکل ہی تباہ ہو گئی  ہے۔اب کیا ہوگا ؟“

خضر بابا نے کہا۔ ” بچے اب تمہارا کام شروع ہونے والا ہے۔ یہ دنیا انسان کے لیے تجربہ گاہ ہے جہاں وہ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا سیکھتا ہے۔ وہ دنیا میں تعمیرات کرتا ہے ۔یہاں تک کہ اس کے لیے زمین تنگ پڑ جاتی ہے اور جب اس پر زمین تنگ پڑ جاتی ہے تو اللہ زمین کو ہموار میدان بنا کر انسان کے ہاتھوں میں دے دیتا ہے تاکہ انسان از سرِنو  اپنی صلاحیتوں   کا  استعمال کرے۔ بچے! اس دھرتی پر قیامت آتی   رہے گی۔ اجڑنے کے بعد پھر انسان اس کی نوک پلک کو سنوار دے گا ۔ وہ پھر اجڑ جائے گی ۔بچے یاد رکھو!  بننے کے لیے بگڑنا ضروری ہے۔ بگڑے گا نہیں تو سنورے گا کیسے  ہر شے کی تقدیر میں لکھنے والے نے بگڑنا بھی لکھا ہے اور سنورنا بھی۔ تمہارا دل بگڑنے اور سنورنے سے اکتآنا نہیں چاہیے۔ یاد رکھو !تم قدرت کی نظر میں ہو۔“ یہ کہتے ہو ئے خضر بابا غائب ہو گئے ۔عاقب ملبے کے ڈھیر پہ بیٹھ کے دل کی بھڑاس نکالنے لگا۔ دیر تک رونے کے بعد اس کا دل ہلکا ہوا تو وہ اٹھا اور چل پھر کر ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لینے لگا ۔زلزلے کی وجہ سے زمین پر بڑی بڑی دراڑیں پڑ چکی تھیں۔ ان دراڑوں میں پوری پوری عمارتیں گری ہوئی تھیں۔ ہوا اور  بارش کے طوفان نے کوئی چیز بھی سلامت نہ چھوڑی تھی ۔ایسا لگ رہا تھا جیسے زمین بہت دنوں تک ان طوفانوں کے تھپیڑے سہتی رہی ہے۔ ابھی تک اسے کوئی شخص بھی  دکھائی  نہ دیا تھا۔ دن کا وقت تھا۔ وہ اس امید پر ادھر ادھر گھومتا رہا کہ شاید کوئی بندہ بشرنظر آجائے ۔مگر اپنے سوا زندگی نام کی کوئی شے ا سے  دکھائی  نہ دی ۔حتی کہ کوئی پیڑ پودا تک نہ تھا ۔  دن تیزی سے گزر رہا تھا۔ اس نے سوچا اندھیرا ہونے سے پہلے مجھے کھانے کی کوئی چیزضرور تلاش ضرور کرنی چاہیے اور سونے کے لیے کوئی چھپڑ بھی ہونا چاہیے ۔کھانے کی تلاش میں وہ مکانوں کے ملبوں کو کرید تارہا۔ جگہ جگہ لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ لاشیں بھی آدھی گل سڑ گئی تھیں۔ وہ سوچنے لگا ۔اتنے دن ہو چکے ہیں اس تباہی  کو لاشیں بھی گلنے لگی ہیں۔ اتنی دیر میں کھانے کی کوئی چیز کیسے مل سکتی ہے ۔تھوڑی دیر کے لیے اس پر مایوسی چھا گئی ۔ملبے کے ڈھیر پر بیٹھ کر ا س نے  آنکھیں  بند کر لیں اوراپنا   دھیان اللہ کی طرف لگایا ۔ اے  یا اللہ!  اس ویران تباہ حال زمین پر میں اکیلا کیسے رہ سکتا ہوں ۔ اگر توانائی  نہ  ملی تو میں بھی ختم ہو جاؤں گا۔ تو نے مجھے جس کام کے لیے زندہ رکھا ہے ۔اس کام کی طرف مجھے راستہ دکھا۔“ دعا مانگنے کے بعد اسے اپنے  اندر زبردست قوت محسوس ہوئی ۔ دل پر مایوسی کا غلبہ ختم ہوا ۔اس کے ذہن میں خیال آیا۔ میں جانے کتنے دنوں تک زمین کے اندر بھی تو بغیر کھائے پیئے  زندہ رہ کر آیا ہوں۔ اب بھی بغیر کھائے پیے جی سکتا ہوں۔ مجھے لوگوں کو تلاش کرنا چاہیے ۔آخر میری طرح کوئی تو کہیں نہ کہیں زندہ بچا ہی ہوگا وہ اللہ کا نام لے کر چل پڑا ۔

 

                                      ٭٭٭


Qandeel

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی