Topics

(اٹھارویں قسط)

اوپر اُڑتے ہوئے اس نے مجھے دیکھا اور فوراً ہی نیچے آگیا۔ اس نے سختی سے مجھ سے یہاںآنے پر استفسار کیا۔ میں نے معافی مانگی اور فوراً باہر نکل آیا۔ مگر پھر اس کے بعد میرے اندر خود ان علوم کو جاننے کا شوق پیدا ہو گیا۔ باپ نے میری لگن دیکھ کر مجھے بھی اپنے ساتھ رکھنا شروع کر دیا۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ اُڑ کر پہنچنا میں نے اپنے باپ سے سیکھا ہے۔ میرا باپ اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ میں اکثر شوق میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پرواز کر لیتا ہوں۔ سحر جادو سے مجھے صرف پرواز کی حد تک ہی دلچسپی رہی اور کوئی علم جاننے کی میں نے کبھی کوشش نہیں کی۔ پرواز کے دوران دریا کے کنارے عورتوں کو دیکھ کر اس طرف نکل آیا۔

مجھے انہیں خوفزدہ کرنے اور یا نقصان پہنچانے کا قطعی ارادہ نہ تھا۔ میں معافی چاہتا ہوں۔ دراصل ہمارے یہاں آج بھی سحر  جادو کو ماننے والے موجود ہیں ان علوم کو بُرا نہیں سمجھا جاتا۔“ اتابک اپنا قصہ جاری رکھتے ہوئے بولا۔” رحمٰن بابا ملیدیا یا چند دن ہمارے  یہاں ٹھہرا۔ ہم نےآنے والے کو اللہ کا مہمان جان کر اپنی روایات کے مطابق اس کی دل و جان سے خاطر مدارت کی۔ جاتے وقت اس نے وہ تمام عملیات مجھے بتا دیئے جو پرواز کے  لئے ضروری تھے۔ مگر میرے ماں باپ نے مجھے سختی سے ان علوم کو حاصل کرنے سے روکا۔ ان کا کہنا تھا کہ روحانی علوم ان سے کہیں زیادہ بہتر ہیں اور ان کی وسعت کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی راضی و خوش رہتا ہے جب کہ استدارجی علوم میں محدویت ہے۔ محدودیت اللہ سے دوری ہے مجھے روحانی علوم  کی طرف اسی واقعہ نے راغب کیا۔

مصر میں آج بھی جادو اور سحر کو ماننے والے موجود ہیں۔ مگر اب پہلے کی طرح لوگوں میں ان علوم کو سیکھنے کا رحجان کم ہے۔ جس کی وجہ یہ نظر آتی   ہے کہ اب عام طور پر لوگ اس بات سے واقف ہو چکے ہیں کہ جادو اور سحر شیطانی ہتھکنڈے ہیں۔ جو ذہن میں رحمانی سوچ کے دریچے بند کر دیتے ہیں۔ وہاں رہتے ہوئے میری کوشش یہی رہی کہ میں لوگوں میں سحر جادو کی بجائے روحانی قوتوں کو اجاگر کرنے اور انہیں اپنے ارادے سے استعمال کرنے کی جانب متوجہ کروں۔ اس کے لئے میں نے آپ کے بتائے ہوئے ذکر و اشغال لوگوں کو سکھائے۔ ہمارا ایک گروپ بن گیا جو ہرروز رات کو آپ کے بتائے ہوئے اسباق و عبادت کرتا تھا اور اس میں انہیں خاطر خواہ کامیابی بھی ہوئی۔ رحمٰن بابا دراصل یہاں کے  مقامی لوگوں  کے ساتھ میں دوستی بڑھآنا چاہتا تھا۔ میں اپنی زندگی کا ملیڈیا والا واقعہ بھولا نہیں۔ مصر پہنچ کر بار بار میرے ذہن میں یہ خیال آتا کہ اگر ایک جادو گر ہوا میں اُڑ سکتا ہے تو روحانی علوم کا حامل کیوں نہیں اُڑ سکتا ۔ اہرام مصر کی ساخت میں ضرور کوئی ایسا راز چھپا ہوا ہے کہ اس کے اندر بیٹھ کر منتر پڑھنے سے آدمی کی صلاحیتیں ابھر آتی   ہیں۔

رحمٰن بابا آپ نے ایک دفعہ بتایا تھا کہ استد راجی علوم والے کی کار کر دگی کی حدود زمین سے پہلے آسمان کی سطح تک ہے۔

استدراجی ذہن شیطانی ذہن ہے۔ اور شیطان کا داخلہ آسمانوں میں ممنوع ہے۔ اس کے علاوہ استدراجی کمالات کو دوام حاصل نہیں۔ زمین کی کشش ِ ثقل کے زیرِ اثر لہروں کی تبدیلی سے جب فضا میں تبدیلی آتی   ہے تو استدراجی صلاحیتیں بھی ختم ہو جاتی ہیں۔ اس کے بر عکس روحانی آدمی کی صلاحیتوں میں فضا کی تبدیلی سے کوئی اثر نہیں پڑتا وہ اپنی صلاحیتوں کو اپنے ارادے کے ساتھ استعمال کرنے پر قدرت رکھتا ہے۔ میرے اندر یہ تقاضہ روز بروز بڑھتا ہی چلا گیا کہ میں اہرام مصر  کے اندر بیٹھ کر کچھ اسباق و ظائف  ایسے کروں  جس سے میرے اندر کی صلاحتیں بڑھیں۔ میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو اہرامِ مصر کی کھدآئی  میں کام کرتا تھا۔ اس نے مجھے اس کے اندر کے بہت سے اسرار بتائے۔ اس نے بتایا کہ وہ ابھی بھی ایک ٹیم کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ میں نے اس سے اچھی طرح دوستی کر لی۔ وہ بہت اچھا آدمی تھا۔ ہم جلد ہی ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل گئے۔ میں نے اسے اپنے ارادے سے آگاہ کیا کہ میرا منشاء کچھ عرصے کے لئے اہرامِ مصر کے اندر رہ کر اپنی روحانی صلاحیتوں کو بڑھآنا ہے۔ اس کے لئے مجھے تمہاری مد د درکار ہے۔ تم مجھے کوئی ایسا خفیہ راستہ بتا دو جس راستے سے میں اہرام مصر میں آ جا سکوں۔ میں یہاں رات کو روزانہ چند گھنٹے گزارنا چاہتا ہوں۔ میری بات سن کر پہلے تو وہ ہچکچایا مگر پھراس نے وعدہ کیا کہ وہ کل رات مجھ سے اس سلسلے میں ملاقات کرے گا۔ وعدے کے مطابق اس نے مجھے ایک خفیہ راستہ دکھایا۔ جو اہرامِ مصر کے اندورنی چیمبر میں نکلتا تھا۔ میں نے اپنے روحانی اسباق پڑھنے کے لئے جو جگہ منتخب کی وہ اہرامِ کی چھت کی تکون کے عین نیچے تھی۔ میں روزانہ آدھی رات سے فجر تک وہاں بیٹھ کر اسباق و وظائف کرتا  اس کے ساتھ ہی عصر سے مغرب تک ایک مسجد میں گزارتا اور وہیں روزہ افطار کرتا ۔

اہرامِ مصر میں ' میں نے چالیس دن کا چلہ کیا اور ان چالیس دنوں میں مسلسل روزے رکھے ۔ میری روحانی صلاحیتیں زبردست حد تک بیدار ہو گئیں۔ میری نظر آسمانوں میں دیکھنے لگی۔ چلے کے آخری دن مجھے ایک بزرگ  دکھائی  دیئے۔ انہوں نے میرے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔ ان کے ہاتھ سے نور کی تیز دھار نکل کر میرے سر میں داخل ہوگئی۔ مجھے سارے جسم میں ایک لطیف کرنٹ سرائیت کرتا محسوس ہوا میں نے  آنکھیں  کھول دیں تو وہی بزرگ سامنے کھڑے ہوئے  دکھائی  دیئے۔ کہنے لگے ” انبیا علیہ السلام کی قبروں پر حاضری دو۔“ یہ کہہ کر وہ غائب ہو گئے۔ میں چند دن بعد یروشلم آ گیا دوسرے دن میں نے روزہ افطار کیا اور قبرستان چلا گیا۔ وہاں میں نے بنی اسرائیل کے بہت سارے پیغمبروں کی قبریں دیکھیں۔ میں سوچنے لگا ۔ اگر میں ان قبروں پر صرف فاتحہ پرھ کر گزر جاؤں تو کچھ حاصل نہ ہوگا مجھے کسی پیغمبر کی قبر پر بیٹھ کر مراقبہ کرنا چاہیئے۔ تاکہ ان کی روح سے میرا رابطہ قائم ہو۔ اب میں  سوچ میں پڑ گیا کہ کس پیغمبر کی قبر مبارک پر بیٹھوں پیغمبر تو سارے ہی جلیل القدر ہیں۔

اس خیال سے وہ بزرگ ذہن میں آگئے۔ دل نے کہا ان کی طرف دھیان لگا تو وہ بتا دیں گے۔ میں نے دل کی بات مان کر ان بزرگ کی جانب توجہ کی تو اگلے لمحے ہی ان کا نورانی ہیولا بند آنکھوں کے سامنے آگیا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ مجھے کن پیغمبر کی قبر پر حاضری دینی ہے  وہ بولے۔” حضرت عزیز علیہ السلام کی“ یہ فرماتے ہی وہ پھر غائب ہوگئے۔ اب میں نے ایک روٹین بنا لی ۔ روزانہ رات دو بجے سے  لے کر صبح فجر تک میں حضرت عزیز علیہ السلام کی قبر  مبارک پر بیٹھ کر اور ادوو وظائف پڑھتا اور صاحب قبر کی جانب  توجہ کر کے بیٹھ جاتا۔ دس دن کے بعد  جب میں نے مراقبہ میں حضرت عزیز علیہ السلام کا تصور باندھا تو میری آنکھوں کے سامنے ایک پردہ ہٹا  اس پردے کے پیچھے مرصع تخت پر ایک نورانی بزرگ  دکھائی  دیئے میں نے سلام کیا ” السلام علیکم یا حضرت عزیز علیہ السلام۔ آپ علیہ السلام نے مجھے دیکھا اور مسکراتے ہوئے سلام  کا جواب دیا۔ میں نے دست بستہ عرض کی” حضرت آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کا ذکر قرآن میں فرمایا ہے مردہ جسم کے اندر جان کیسے آتی   ہے۔ آپ کی اپنی آنکھوں نے دیکھ لیا۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ مردہ جسم میں جان کیسے آتی   ہے؟“ حضرت عزیز علیہ السلام نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر کہنے لگے” مگر تم تو خود اس تجربے سے گزر چکے ہو“ میں نے آپ علیہ السلام چشمِ بینا کے آگے  سر تسلیم ِ خم کرتے ہوئے عرض کی۔” حضور آپ بجا فرماتے ہیں۔ مگر وہ تجربہ میرا ایسا ہی تھا جیسے گہری نیند سے آنکھ کھل گئی۔ اب میں آپ کی چشمِ بینا کے توسط سے مشاہدہ کرنا چاہتا ہوں۔“ آپ علیہ السلام نے مجھے اپنے قریبآنے کو کہا۔ میں آپ علیہ السلام کے قریب آگیا تو آپ علیہ السلام نے اپنے داہنے  ہاتھ سے میرے جسم کے گرد سات چکر بنائے۔ ہر چکر میں مجھے اپنے اندر ایک کرنٹ داخل ہوتا محسوس ہوا پھر آپ علیہ السلام نے فرمایا۔ ” کل پھر آنا“ میں ہر روز جاتا وہ روزانہ اسی طرح جسم کے گرد سات دائرے بناتے اور کرنٹ میرے اندر منتقل کرتے اکیس دن کے بعد آپ علیہ السلام نے میرے اندر کرنٹ منتقل کر کے فرمایا  آنکھیں  کھولو ۔ میں نے  آنکھیں  کھولیں۔ رات کے اندھیرے میں ایک بزرگ سامنے کھڑے  دکھائی  دیئے۔

رات کی سیاہی میں ان کے سفید کپڑے روشن روشن سے  لگے۔ میں سمجھا کہ میں  آنکھیں  کھول کر بھی مراقبہ میں ہی دیکھ رہا ہوں اور میرے سامنے کسی بزرگ کا نورانی ہیولا ہے کہ اتنے میں ان بزرگ نے میرے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا اور نہایت صاف مردانہ آواز میں بولے” السلام علیکم میں خضر ہوں۔“ حضرت عزیز علیہ السلام نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے۔ میں آواز سن کر گھبرا کے اُٹھ کھڑا ہوا۔ میرا دل زور سے دھڑکا۔ آپ خضر علیہ السلام ہیں؟ وہ کہنے لگے ۔” ہاں میں خضر ہوں۔ تم جو کچھ دیکھنا چاہتے ہو ۔ میں تمہیں اس مقام پر لے جاؤں گا۔ مگر تمہیں اپنی آنکھوں پر یہ پٹی باندھنی ہوگی۔ پھر جب تک میں نہ کہوں۔ تم اسے نہیں اتارو گے۔ میرا ذہن پوری طرح حضرت خضر علیہ السلام کی طرف متوجہ تھامیں نے ہاتھ باندھ کر کہا۔” آپ جیسا کہیں گے میں کرنے کو تیار ہوں۔ حضرت خضر علیہ السلام نے ہاتھ میری طرف بڑھایا۔ ایک پٹی کپڑے کی ان کے ہاتھ میں تھی۔ میں نے وہ اپنی آنکھوں پر باندھ باندھ لی۔ اب انہوں نے مجھے سیدھا کھڑا رہنے کو کہا اور پھر اپنے دونوں ہاتھ میرے دونوں کندھے پر رکھے اور زور سے دبایا ایک دم مجھے محسوس ہوا جیسے میرے قدم زمین سے اُٹھ گئے اور نہایت تیزی سے زمین سے اوپر اُٹھتا جا رہا ہوں۔ خوف کی لہر میرے سر سے پاؤں تک دوڑ گئی۔ میرا ذہن ہر قسم کے خیال سے پاک تھا۔ بس صرف کبھی سردی کی کبھی گرمی کی کوئی لہر  بدن  سے ٹکرا کر گزر جاتی کبھی نمی کا احساس ہوتا کچھ دیر کے بعد پھر دوبارہ حضرے خضر علیہ السلام کے دونوں ہاتھوں دباؤ مجھے اپنے کندھوں پر محسوس ہوا اور اسی وقت میرے پاؤں زمین پر ٹک گئے۔ حضرت خضر علیہ السلام کی آواز ائی۔ ” آنکھوں  سے پٹی اتار لو۔“ میں نے پٹی اتار دی ۔ میں کہاں ہوں؟ حیرت کے مارے میری آواز گلے میں جیسے پھنس کر رہ گئی۔

چاند کی طرح روشنی سے ساری  فضا منور تھی اور سامنے ہی شفاف چاندی کا دریا بہہ رہا تھا ۔ میری  آنکھیں  اس دریا پر اٹک گئیں۔ دریا کی لہروں سے روشنی شعاعیں میری آنکھوں کے اندر داخل ہونے لگیں۔ میں نے ایک گہرا سانس لیا۔ میرے اندر ہلکی ہلکی ٹھنڈک سی محسوس ہوئی پھر حواس بحال ہوگئے اور حیرت کی بجائے خوشی کا احساس ہونے لگے۔

اب حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا۔” اے بیٹے! سنو یہ چشمہ آبِ حیات کا ہے۔ یہ زمین جس پر تم کھڑے ہو تمہاری ہی زمین کا ایک حصہ ہے۔“

حضرت خضر علیہا السلام کے کہنے پر میں نے اپنے پاؤں کی طرف دیکھا۔ یہ زمین وہ زمین نہیں تھی جسے میں چھوڑ کر آیا تھا۔ وہ زمین تو مٹی کی تھی اور یہ زمین تو جیسے چاندی کے ذرات سے بنی ہوئی تھی۔ مگر اس پر کھڑے ہو کر ایسا لگ رہا تھا جیسے دبیز قالین پر کھڑے ہوں۔

میں نے  اپنے حواس کو یکجا کرتے ہوئے کہا۔ ” مگر حضرت یہ زمین ہماری زمین کا حصہ کیسے ہو سکتی ہے؟ ہماری زمین تو اس کے بالکل ہی مختلف ہے یہ زمین کس ملک کی ہے؟

 حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا۔ ” اس زمین پر دنیا والوں نے  قدم نہیں رکھا ہے۔ تم وہ پہلے شخص ہو جو اس جگہ لائے گئے ہو۔ یہ زمین دنیا والوں  کی پہنچ سے دور ہے اور سنو یہ جو آبِ حیات کا دریا ہے ۔ یہ دریا اللہ تعالیٰ کے نور کا دریا ہے۔ یہ حیات کا نور ہے۔ یہ نور زمین کی جوف میں داخل ہوتا ہے۔ پھر زمین اس کو اپنے ذرّے ذرّے میں تقسیم کرتی ہے اور ہر ذرّے کی کوکھ سے حیات کی نمود ہوتی ہے۔“ 

 پھر حضرت خضر علیہ السلام نے میرا ہاتھ مضبوطی کے ساتھ پکڑا اور دریا میں قدم رکھتے ہی یوں لگا جیسے دریا کا سارا پانی زمین کے اندر نہایت تیزی سے داخل ہو رہا ہے اور بالکل پاؤں کے پاس ہی وہ سوراخ ہے جہاں سے زمین کے اندر پانی داخل ہو رہا ہے اگلے  ہی لمحے ہم دونوں اس سوراخ سے پانی کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ زمین کے اندر داخل ہونے لگے۔ رفتار اتنی زیادہ تھی کہ یوں محسوس ہوا کہ جیسے کوئی زبردست قوت اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ چند لمحوں بعد ہم پھر زمین پر  کھڑے تھے۔ یہ بہت بڑا خلاء تھا۔ اس خلاء میں ہر طرف اسی طرح چاند جیسی روشنی پھیلی ہوئی تھی اور زمین بھی چاند کی طرح ہی تھی مگر اس کی زمینی گیلی اور سیلن کی سی بو تھی۔ اس زمین سے مختلف رنگوں کی بہت ہی لطیف روشنی کی لہریں سی اُٹھتیں اور خلا ء میں لہراتی ہوئی ا س خلا کی دیواروں میں جذب ہو جاتیں اس زمین پر مسلسل یہی عمل ہو رہا  تھا۔

حضر ت خضر علیہ السلام نے فرمایا: ” دیکھو بیٹے! یہ خلاء زمین کا جوف ہے۔ یہ رنگین لہریں سطح ز مین پر مٹی کے ذرات کو اپنے اوپر لپیٹ کر زمین کی مخلوق کے اجسام بناتی ہیں ۔ یہ ر نگین لہریں آبِ حیات کا جمال ہے جو مٹی کے پتلوں  میں حیات بن کر دوڑ رہا ہے۔ متی کے پتلوں میں زندگی اور حسن و رنگینی اس روشنی سے ہے۔ یہ لہریں کہیں نہیں ٹھہرتیں ۔ مسلسل حرکت  میں رہتی ہیں۔ جب یہ روشنی مٹی کے اجسام سے نکل جاتی ہے تو اجسام ساکت و جامد  رہ جاتے ہیں اور جب زمین کے جوف سے یہ روشنی کھینچ لی جائے گی تو زمین  بھی اپنے تمام بسنے والوں کے ساتھ مردہ ہو کر رہ جائے گی۔“

میں نے حضرت خضر علیہ  السلام سے پوچھا: ” کیا میں یہاں کی تھوڑی سی مٹی لے جا سکتا ہوں ؟“

حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا:” اے بیٹے اندر کی مٹی باہر آئے گی تو وہ بھی باہر جیسی ہو جائے گی۔“

میں یہ سن کر چپ ہو رہا۔ پھر حضرت خضر علیہ السلام نے مجھے آنکھوں پر پٹی باندھنے کے لئے کہا اور ہم واپس قبرستان لوٹ  آئے۔ دوسرے دن مراقبہ میں حضرت عزیرعلیہ السلام نے فرمایا :

جاؤ رحمٰن بابا تمہیں یاد  کر رہے ہیں۔“ پھر چند ہی دنوں میں ' میں یہاں آگیا۔“ رحمٰن بابا نے اتابک کو گلے سے لگایا اور بہت دعائیں دیں۔ پھر کہنے لگے۔

” ہمارے شعور  و ذہن اور جسمانی تمام حرکات لاشعور کے تابع ہیں۔ لاشعور سے روح کا نور شعور  میں داخل ہوتا ہے اور اس نور کی قوت سے انفرادی شعور کی  مشین چلتی ہے۔ انفرادی شعور پھیل جاتا ہے ۔ اہرام  مصر کا تکون وہ مخصوص پیمائش ہے جس پیمائش پر وہ سینٹر پوائنٹ بنتا ہے جس نقطے سے نور کی شعاع شعور کے اندر داخل ہو رہی ہے۔ جب کوئی فرد اس مخصوص اینگل کی سیدھ میں بیٹھتا ہے تو اس کے شعور کو نور کی لہر فیڈ کرتی ہے اور دماغ کے تمام خلیئے چارج ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی باطنی صلاحیتیں ابھر آتی   ہیں۔ شعور جسمانی آنکھ کے حواس ہیں اور لاشعور روح کی نظر کے حواس ہیں۔ اہرام مصر کے تکون کا مرکزی نقطہ روح کی نگاہ کا وہ مخصوص اینگل ہے جس اینگل سے روح کی نگاہ مادی شعور کو دیکھتی ہے۔ جب کوئی فرد اپنے ارادے سے اہرام مصر کے تکون کے مخصوص اینگل کے نیچے بیٹھ کر مراقبہ کرتا ہے تو اسے بہت جلد یکسوئی حاصل ہو جاتی  ہے۔ روح کی نگاہ کی روشنی اور روح کا شعور اس پر غالب آجاتا ہے اور وہ روح کو دیکھنے لگتا ہے۔“

رحمٰن بابا کے اشارے پر مرزوق نے اپنی کہانی یوں شروع کی ۔ کہنے لگا۔

” رحمٰن بابا ! جب میں نے آپ کے حکم پر سفر کا قصد کیا تو رات کو سوتے وقت دعا مانگی کہ ” یا بارِ الہٰی! تو جانتا ہے کہ میری زندگی اور میری موت تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ جن امور کی انجام دہی کے لئے تو نے مجھے اتنی طویل مدت کے بعد دوبارہ دنیا میں اُٹھایا ہے۔ ان احکامات کی آئندہ زندگی میں بھی واضح طور پر نشاندہی فرما۔ بے شک تو ہی راستہ دکھانے والا ہے۔“ اسی رات میں نے خواب دیکھا۔۔۔

ایک بزرگ میرے سامنے کھڑے ہیں۔ ان کا جسم نورانی ہے۔ چہرے سے دھیمی دھیمی روشنی کی شعاعیں نکل رہی ہیں۔ ان کے  ہاتھ میں ایک روشن قندیل ہے۔ ان بزرگ نے میری طرف بھر پور نظروں سے دیکھا اور فرمایا:

”میں خضر وقت ہوں۔ قندیل کی روشنی میں چلا آ۔“ یہ کہہ کر وہ قندیل کو اپنے داہنے ہاتھ میں تھامے آگے   چلنے لگے۔ قندیل کی روشنی زمین پر اس طرح پرنے لگی جیسے  روشنی کا ایک راستہ ہے۔ بالکل سیدھا اور  پتلا سا۔ میں اس پر چلنے لگا۔ کچھ دور چلنے کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا۔ جیسے میں سمندر پر چل رہا ہوں ۔ مگر دیکھنے میں وہ قندیل کی روشنی کا راستہ ہی  دکھائی  دیا۔ اس پر چلتے چلتے ایک جگہ خضر بابا رُک گئے۔ قندیل اب بھی ان کے ہاتھ میں   تھی۔ میں نے دیکھا کہ قندیل کی روشنی کا وہ راستہ اب گم ہو چکا ہے۔ اس کے بجائے قندیل کی روشنی میرے سر پر اس طرح پڑ رہی ہے کہ میں روشنی کے دائرے میں ہوں ۔ مگر محسوس ہوتا ہے جیسے سمندر پر کھڑا ہوں۔

خضر بابا بولے۔” روشنی کا بہاؤ سمندر ہی ہے۔“  دوبارہ فرمایا۔” دیکھ لے روشنی کا بہاؤ سمندر ہی ہے۔“ آپ کے  دوبارہ کہنے پر مجھے محسوس ہوا جیسے قندیل کی روشنی میرے سر پر آبشار کی طرح بہتی ہوئی آرہی ہے اور روشنی کے اس بہاؤ میں میرا جسم بھی روشنی کی دھار بن کر سمندر کی روشنی میں بہتا جا رہا ہے۔

جیسے ہی اس خواب سے جاگا۔ میرے اندر سے آواز ائی۔” تمہارا راستہ سمندر میں ہے۔“

میں نے اسی وقت ارادہ کر لیاا کہ مجھے اپنا سفر بحری جہاز سے ہی کرنا چاہیئے۔ اپنی گزشتہ  زندگی میں میرا محبوب مشغلہ تیراکی اور غوطہ خوری رہ چکا ہے میں نے سوچا کہ مجھے باقاعدہ طور پر غوطہ خوری کی ٹریننگ لینی چاہیئے۔ اس ارادے کو لئے ہوئے میں چند ماہ تک یورپ کے مختلف ممالک کی سیر کرتا رہا اور پھر لیبیا کے شہر  بن غازی میں   میرا قیام ہوا۔ وہاں پر میں تقریباً ایک سال رہا اور تیراکی اور غوطہ خوری کی باقاعدہ ٹریننگ  حاصل کی۔ میں مشق کے لئے ہر روز سمندر میں تیراکی کرتا۔ سمندر کی گہرائی  میں   کئی کئی گھنٹے مچھلیوں کے ساتھ تیرتا رہتا۔ آکسیجن کا ذخیرہ میرے ساتھ ہوتا۔ رحمٰن بابا سمندر کے اندر کی دنیا اتنی خوبصورت ہے  یہ میں نے تب     جانا ۔ رنگا رنگ اور عجیب و غریب جانور چھوٹے چھوٹے بڑے بڑے ان کے درمیان تیرتے ہوئے لگتا جیسے میں بھی سمندر کی ایک مخلوق ہوں۔ مچھلیاں پیار سے میرے ارد گرد اجاتیں۔ شاید وہ روز بروز مجھے دیکھ کر مانوس ہوگئی تھیں۔ ایک دن ایسا ہوا کہ میں سمندر کی گہرائی  میں کم از کم پچیس فٹ نیچے چلا گیا۔ گہرائی  میں اندھیرے کی وجہ سے میں نے ٹارچ روشن کر رکھی تھی۔ اتنی گہرائی  میں تھوڑی ہی دیر تیرنے کے بعد مجھے پانی کا دباؤ محسوس ہوا۔ ابھی میں نے اوپر جانے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ ایک دم کسی بڑی  مچھلی نے پشت کی جانب سے مجھے دھکا دیا اور آن واحد میں آکسیجن کا سلینڈر کسی نے مجھ سے جدا کر دیا۔ میں نے گھبرا کر پیچھے  مڑ کر دیکھا تو ایک بڑ ی  سی مچھلی میرے بالکل  قریب اگئی تھی میں جلدی سے سطح پر   جانا چاہتا تھا۔ پوری تیزی کے ساتھ اوپر اُٹھنے لگا تو اسی تیزی کے ساتھ وہ میرے اس طرح  سامنے آگئی کہ اس نے میرا راستہ بالکل روک دیا اور اپنے پَر میرے قریب پھڑ پھڑا  کے گردن ہلا ہلا کر مجھ سے کچھ کہنے لگی۔ اس وقت میرے ذہن سے بالکل نکل گیا کہ سیلنڈر گر کر کھو چکا ہے۔ میرا ذہن پوری توجہ کے ساتھ مچھلی کی حرکات میں لگ گیا۔ وہ اپنے پورے وجود کو ہلا ہلا کر مجھ سے کچھ کہہ رہی تھی۔ میں نے بھر پور توجہ کے ساتھ اپنی نظریں اس کی چمکیلی آنکھوں میں گاڑ دیں۔ میرا  ذہن  اس کے خیالات کو پڑھنے لگا وہ کہہ رہی تھی ۔

” تم بھی کتنے عجیب ہو۔ سارا سمندر آکسیجن سے بھرا پڑا ہے اور تم اپنی آکسیجن الگ لیے پھرتے ہو۔ کیا تمہیں  اللہ سے زیادہ اپنے ذخیرے پر بھروسہ ہے؟“

میرا ذہن اپنے منہ پر لگے ماسک پر گیا۔ غیر ارادی طور پر میں نے وہ ماسک منہ سے ہٹا دیا۔ ویسے بھی آکسیجن کے ساتھ اس کا کنیکشن تو ٹوٹ چکا تھا۔ اب وہ جیسے خوش ہوگئی۔ اس کی آنکھوں کی چمک اور بڑھ گئی۔ اس نے گردن ہلا ہلا کر مجھے اپنے ساتھآنے کا مشورہ دیا۔ میں اس کے ساتھ تیرنے لگا۔ مجھے   محسوس ہوا کہ اب میرے حواس پر پانی کے دباؤ کا پریشر بھی بہت ہلکا ہو چکا ہے۔ پانی کی گہرائی  میں ویسے بھی وزن ہلکا ہو جاتا ہے۔ میں اپنے آپ کو انتہائی  ہلکا پھلکا محسوس  کرنے لگا۔ میرے اندر ہر قسم کا خوف نکل گیا۔ میں نے مچھلی کی دم پکڑ لی اور پانی کی گہرائی  میں اپنے آپ کو چھوڑ دیا۔ اس کی دم کے لمس سے مسلسل ایک لطیف کرنٹ میرے ہاتھوں میں جذب ہونے لگا۔ میرے روئیں روئیں میں خوشی کی کیفیات دوڑ گئیں۔ اچانک اسی لمحے میرے ذہن میں خضر بابا کی آواز گونجی۔ جو انہوں نے خواب میں مجھ سے کہا تھا دیکھ لے روشنی کا بہاؤ سمندر ہی ہے۔ اسی وقت میں نے دیکھا کی میں اور مچھلی روشنی کے ہالے میں بہے چلے جا رہے ہیں۔ میں نے گردن اُٹھا کر اوپر کی جانب دیکھا کہ روشنی کہاں سے آرہی ہے تو کیا دیکھتا ہوں کہ خضر بابا کی وہ قندیل ہمارے سروں سے کچھ فاصلے پر روشن ہے اور اس کی روشنی کے ہالے میں ہم بہے رہے ہیں۔ میں نے حیرانی سے  آنکھیں  پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی کہ کیا قندیل خضر بابا کے ہاتھ میں ہے۔ مگر وہاں تو صرف قندیل تھی۔ خضر بابا کہیں  دکھائی  نہیں دیئے۔ میرے اندر کے تجسس نے استفسار کیا۔ قندیل کیا ہے؟ میرے اندر چھپی ہوئی فطرت بولی۔ قندیل  روح ہے! قندیل کی روشنی اللہ کا نور ہے جو زمینوں اور آسمانوں کی ہر شئے کو توانآئی  بخش رہا ہے۔ قندیل کا نور تمہاری حیات ہے۔ حیات تو کائنات کے ذرّے ذرّے میں کام کر رہی ہے۔ پھر اپنی حیات کو سیلنڈر میں لئے لئے کیوں پھرتے ہو۔ میں نے اندر ہی اندر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور بے فکری سے مچھلی کے ساتھ ساتھ تیرتا چلا گیا۔

کچھ دیر بعد ہم سمندر کی  تہہ کے قریب پہنچ گئے۔ حیرانی یہ تھی کہ جیسے جیسے ہم نیچے جاتے اندھیرے کے بجائے روشنی بڑھتی جاتی۔ یوں لگا جیسے ہم رات سے دن کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ راہ میں پھیلی ہوئی ایک چٹان کے اندر بنے  ہوئے غار میں مچھلی داخل ہوگئی۔ میں بھی اس کی دم پکڑے ہوئے  غار  کے اندر داخل ہو گیا۔ یہ غار ایک بڑے کمرے جتنا وسیع تھا۔ جیسے ہی مچھلی وہاں پہنچی دس پندرہ چھوٹی چھوٹی مچھلیاں لپک کر اس کے ارد گرد آگئیں اور پیار سے اس سے چمٹنے لگیں۔ مجھے سمجھنے میں ذرا دیر نہیں لگی کہ یہ بڑی مچھلی ان سب مچھلیوں کی ماں ہے۔ میں نے سمندر کی تہہ پر نظر ڈالی۔ ریت کے ساتھ ساتھ موتی اور مونگے بھی چمکتے  دکھائی  دیئے۔ دولت کی چمک نے ایک لمحے کو میری  آنکھیں  خیرہ کر دیں۔ مگر دوسرے ہی لمحے اندر کی فطرت ماں کے روپ میں نصیحت کرنے لگی۔

” اے میرے بچے! کیا تم اب بھی نہیں سمجھے۔ موتی مونگوں سے کہیں زیادہ قیمتی دولت محبت ہے۔ ماں کی محبت، اولاد کی محبت، باپ کی محبت، دوست کی محبت، شیخ کی محبت اور ان سب محبتوں کو اللہ کی محبت نے احاطہ کیا ہوا ہے۔ پھر تم سچے خزانوں سے جھوٹے خزانوں کی طرف کیوں لپکتے ہو؟ “

میں نے مچھلی کی طرف دیکھا سارے بچے اس کے بدن سے چمٹے ہوئے تھے۔ ماں کا بڑا سا بدن ان کے لئے زمین کی طرح تھا جسے وہ محبت سے چھوتے ہوئے سر سے پاؤں تک آتے اور پھر ماں کے بازوؤں کے نیچے چھپ جاتے۔

میرے اندر کی آواز نے پھر مجھے مخاطب کیا۔” ماں زمین ہے۔ زمین ماں ہی تو ہے' جہاں تمہارا تخم بویا گیا' جہاں ہر مخلوق کا تخم بویا جاتا ہے' تخم نہیں بوئیں گے تو درخت کیسے لگے گا؟ درخت نہیں لگے گا تو پھل کہاں سے آئے گا؟ پھل نہیں ہوگا ' درخت نہیں ہوگا تو بنجر  زمین بانجھ عورت کی طرح اپنی اُجڑی قسمت کو روتی رہے گی۔ اے میرے بچے! اپنی ماں سے محبت کرو جس نے تمہیں تخم سے تناور درخت بنایا۔ اپنی زمین سے محبت کرو جس نے تمہیں اپنی دھرتی کی مضبوط پناہ گاہوں میں سلایا۔ اے میرے بچے! ماں ہر جگہ ہے۔ زمین ہر عالم میں ہے اور سب ماؤں سے بڑھ کر ماں نے کائنات کی ہر شئے کو اپنی ممتا کی محبت میں جکڑ رکھا ہے۔ اس سب سے عظیم ماں کی محبت وہ ہے جس نے تمام آسمانوں اور زمینوں کو اپنی مضبوط بانہوں میں پناہ دے رکھی ہے ۔ پھر تم اس سے نکل کر کہاں جاؤ گے؟ میں غار کی زمین پر اوندھے منہ لیٹ گیا۔ دل کا گداز اس خالق حقیقی کی ممتا سے لپٹنے لگا۔مجھے نہیں معلوم میں کتنی دیر اس عالم میں رہا۔ مچھلی نے میرے پاؤں پر اپنی دم ماری میں جان گیا میرے یہاں سے جانے کا وقت آگیا ہے۔ ننھے بچوں کو ماں نے پھر دوبارہ  زمین پر تھپک کر سلا دیا تھا۔ میں نے پیار سے انہیں دیکھا اور مچھلی کی دم پکڑ لی۔ وہ نہایت تیزی سے اوپر ہی اوپر سطح کی جانب بڑھتی گئی۔ بہت جلد ہم سطح سمندر پر پہنچ گئے۔ میں نے اس کی پشت تھپتھپا کر اس کا شکریہ ادا کیا۔ اس کی چمکیلی  آنکھیں  کہنے لگیں۔

” دیکھ لے روشنی کا بہاؤ سمندر میں ہی ہے۔“ اس کی نظروں کے پیغام نے مجھے چونکا دیا۔ میرے بدن کو ایک جھٹکا سا لگا۔ پھر جو آنکھ کھولی تو سمندر کی لہروں پر دور دور تک مچھلی کا نام و نشان نہ تھا۔

”بن غازی میں ایک سال تک قیام کرنے کے بعد مسلسل بحری جہاز میں سفر کرتا رہا۔ کبھی کسی پورٹ  پر اتر جاتا اور ہفتوں وہاں کے سمندروں میں غوطہ خوری کرتا۔ سمندر کے اندر کی دنیا میں مجھے بڑی کشش محسوس ہوتی۔ مگر ایک بات کا مجھے بہت خیال رہتا

میں نہیں چاہتا تھا کہ لوگ میری اس صلاحیت سے واقف ہوں کہ میں بغیر آکسیجن کے سمندر کی گہرائی  میں تیر سکتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت مجھے کسی خاص کام کے لئے دی ہے جب کہ دنیا والے مجھے اپنے کاموں میں لگا دیں گے۔ جب بھی سمندر میں غوطہ لگاتا ہمیشہ آکسیجن کا سلینڈر اپنے پاس رکھتا اگر چہ وہ خالی ہوتا۔ تاکہ لوگ میری حقیقت کو پہچان نہ سکیں۔ ایک عجیب بات ہوئی کہ اپنی گزشتہ زندگی  کی یادداشت حافظہ پر جب بھی ابھرتی یہی یاد پڑتا جیسے میں نے اپنی گزشتہ ساری زندگی سمندر کی گہرائی  میں رہ کر گزاری ہے۔ جب جب میں سمندر کی تہہ میں جاتا میری نظر کے سامنے زندگی کا کوئی نہ کوئی سین آجاتا مگر وہ اس دنیا کی زندگی نہیں بلکہ کسی اور عالم کی زندگی ہوتی۔ مجھے یاد آجاتا کہ اس عالم میں میرے ساتھ یہ گزر چکا ہے۔ سمندر کی مخلوق سے قریب رہنے سے مجھے ان کے خیالات پڑھنے کی پریکٹس  بھی ہو گئی۔“

” رحمٰن بابا!  اب تو مجھے پورے یقین کے ساتھ اس بات کا علم ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سمندر کے اندر کچھ وقت گزارنے کی صلاحیت دے کر مجھے میری پانچ سو سال کی موت والی زندگی یاد دلانی چاہی کہ اس زندگی میں میرے ساتھ کیا ہوا تھا۔ رحمٰن بابا! آپ یقین کریں اب مجھے اس عالم کی ایک ایک بات یاد آگئی ہے۔ وہاں رکھ کر مجھے ایک خاص قسم کی ٹریننگ دی گئی تھی۔ وہ ایک پورا سیٹ آپ تھا جس پر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ اب میں جان گیا ہوں کہ مجھے دوبارہ دنیا میں اسی کام کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے۔“

”رحمٰن بابا! ان دنوں میں مراکوکی پورٹ کا بلانکا میں تھا کہ ایک رات خواب میں حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ ان کے ہاتھ میں روشن قندیل تھی۔ وہ قندیل کو میری آنکھوں کے سامنے کرتے ہوئے بولے۔” سمندر پار تمہارا انتظار ہو رہا ہے اور تم ابھی تک یہیں پر ہو۔“ میں نے پوچھا” سمندر پار کون سی جگہ؟“ کہنے لگے ” قندیل کی روشنی میں چلے انا“ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ اس دن میں تمام وقت سوچتا رہا کہ سمندر پار کون سی جگہ ہو سکتی ہے؟ رات مراقبہ کیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ” میرے ہاتھ میں خضر بابا والی روشن قندیل ہے۔ میں اس قندیل کو لے کر ساحل سمندر پر کھڑا ہوں۔ میری پشت پر میرا وہ کمرہ ہے جہاں میں ان  دنوں مقیم تھا۔ ساحل پر قندیل کی روشنی ایک نہایت روشن پتلی سی سڑک کی مانند ہے۔ میرے ذہن میں یہی  ہے کہ یہ راستہ ہے ۔ میں بسم اللہ پڑھ کر اس راستے پر قدم رکھ دیتا ہوں۔

٭٭٭


Qandeel

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی