Topics

(دوسری قسط)

شہاب ثاقب

شہاب ثاقب کی بارش دیکھ کر عاقب نے کہا۔” ابّا اس میں فکرمندی کی کیا بات ہے؟ اچھا تو ہے کہ زیادہ سے زیادہ شیاطین مارے جا رہے ہیں۔“

”بیتے! تم کو خبر بھی ہے کہ شیاطین کون ہیں؟“ قاسم نے بیٹے کا جواب دیا

”امی نے بتایا تھا کہ شیاطین ناری مخلوق ہیں اور جنات سے تعلق رکھتے ہیں“ عاقب نے کہا۔

”آج میں تمہیں شیاطین کی تخلیق کے کچھ اسرار بتاؤں گا جو میں نے  اپنے  بزرگوں سے بچپن میں سنے تھے۔“

قاسم کے سامنے عاقب اور زرینہ دونوں ہمہ تن گوش ہو کر بیٹھ گئے۔ قاسم نے کہنا شروع کیا۔” ہر مخلوق کا خالق  اللہ ہے اور اللہ ہر برائی  سے پاک ہے۔ اس کا جلال اس کے جبروت و دبدبے کی نشانی ہے۔اس کی ہیئت اس کی موجودگی کا نشان ہے۔ اس کی موجودگی رحمت ہے۔ زمین کے سلسلہ تکوینیات میں اللہ تعالیٰ کے تخلیقی ارادے کو وجودی مراحل سے گزارنے کا نام ہے۔ خالق اللہ  کے سوا اور کوئی نہیں ہے ہر شئے کی تخلیق اللہ ذاتِ واحد کے ارادے سے شروع ہوتی ہے۔ اللہ کے ارادے پر صفات   کی تجلیات و انوار اس تخلیقی خاکے میں رنگ بھرتے ہیں۔ صفات    کے انوار و رنگ جب ارادے کے خاکے میں منتقل ہو جاتے تو اللہ کا ارادہ نفخ روھ بن کر اس کے اندر سما جاتا ہے اور اللہ کے اردے کی حرکت اس وجود کو حرکت میں لے آتی   ہے۔زمین کا تکوینی سلسلہ وجود کی اس حرکت  کو کائنات کی حدود  میں جاری و ساری رکھتا ہے۔ سورہ رحمٰن میں اللہ تعالیٰ نے جنات کی پیدائش کا تذکرہ بیان کیا ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں۔” جن کو آگ  کے شعلے سے پیدا کیا۔“ شعلہ آگ اور ہوا دو عناصر سے بنتا ہے۔ آیت میں ہوا اور آگ کے ملنے کو لفظ مارج سے تعبیر کیا گیا ہے۔ تخلیقی قانون کے مطابق ہر شئے دو رخوں سے مل کر بنی ہے اس طرح آدم کے متعلق فرماتے ہیں کہ ”طین“ یعنی کیچڑ سے بنا ہے۔ کیچڑ مٹی اور پانی سے مل کر بنتی ہے۔ زمین کے سلسلہ تکوینی میں ہر شئے کا پہلے مادہ وجود میں آتا ہے اور پھر اس مادے سے صورتیں بنتی ہیں۔ تخلیق کے اس قانون کے تحت جنات کی تخلیق سے پہلےشعلہ مار آگ کا ایک عالم وجود میں آیا اور پھر اللہ تعالیٰ کے ارادے کے مطابق تکوینی پروگرام کے تحت اس عالم میں جنات کی تخلیق ہوئی۔اس عالم نار میں ہوا اور شعلے کے ملنے سے جن وجود میں آیا۔ یہی وجہ ہے کہ جنات میں قہر ، کبرو غرور ہوتا ہے۔ آدم کی پیدائش  کے بعد جنات کو  اپنے  قہر، کبر و غرور کے ظاہر کرنے کا یک بہانہ مل گیا اور حسد کی وجہ سے اللہ اور آدم دونوں کے دشمن قرار دیئے گئے۔ لیکن شیاطین کے لشکر کو قدرت رکھتے ہوئے بھی انسان روک نہیں رہا ہے بلکہ انہیں پال پوس کر قوی بناتا جا رہا ہے۔“ قاسم کی بات مکمل ہوئی تو عاقب نے سوال کیا۔” ابا انسان کس طرح شیاطین کو روک سکتا ہے؟“

قاسم نے کہا ۔”بیٹے اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے مگر تم آج کے معاشرے میں انسان کی طرز عمل کو دیکھ ہی رہے ہو تقریبا تمام آدمی شیطان کے طرز عمل کو  اپنائے ہوئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان نے  اپنے  گھر میں  اپنے  دشمن کو پناہ دے دی ہے دشمن کا کام اجاڑنا ہے بنانا نہیں۔ دن بدن دشمن قوی ہوتا جا رہا ہے اور انسان کمزور پڑتا جا رہا ہے اللہ تعالی نے آدم کو زمین پر خلیفہ بنا کر بھیجا ہے خلیفہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ زمین کی حفاظت کرے اور دشمن عناصر سے زمین کو پاک کرے ۔“

عاقب نے پوچھا ۔”شیاطین نظر تو آتے نہیں انہیں کیسے مارا جا سکتا ہے؟“

 قاسم نے جواب دیا۔” بیٹے انسان کا جسم مٹی سے بناہے جسم عقل و شعور کا محل ہے مٹی رنگوں کا مجموعہ ہے اس میں روشنی کے لیے چھپنے کی صلاحیت ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ دیوار سے ٹکرا کر روشنی کی شعاع لوٹ جاتی ہے دیوار کے پار نہیں نکل جاتی یہی وجہ ہے کہ شیطان نے انسان کو  اپنا  آلہ کار بنا رکھا ہے آدمی کی عقل میں اپنی      روشنیاں داخل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ آدمی کی آ دمیت آگ کے شعلوں کی لپیٹ میں آکر یا تو جل کر فنا ہو جاتی ہے یا پھر شعلوں کو جلتا دیکھ کر خوفزدہ ہو کر چوہے کی مانند  اپنے  بل میں جا چھپتی ہے۔ بیٹا !یاد رکھو بزدل و ڈرپوک آدمی اللہ کو پسند نہیں۔“

 زرینہ بڑے انہماک سے  باپ   بیٹے کی گفتگو سن رہی تھی بزدل و ڈرپوک کے ذکر پر کہنے لگی ۔”مگر کیا کیا جائے آگ سے تو ڈر لگتا ہی ہے جلتی آگ میں کوئی کیسے کود سکتا ہے؟“

قاسم نے جواب دیا۔ ” زرینہ تم سمجھی نہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں آدمی کی عقل اس کا گھر ہے گھر میں اگر کوئی چنگاری آجائے تو وہ شعلہ بننے سے پہلے ہی بجھا دی جاتی ہے تاکہ گھر تباہ نہ ہو آدمی کی عقل میں جتنے فاصد خیالات آتے ہیں وہ شیطان کی چنگاری ہیں شیطان دشمن ہونے کے ناطے آدمی کا گھر تباہ کرنے کے لیے بار بار جلتی آگ اس میں ڈالتا ہے کائنات کی ہر شے میں اللہ تعالی نے نمود کی قوت رکھی ہے جب شیطان کی ڈالی ہوئی چنگاری زیادہ دیر آدمی کی عقل کی زمین پر پڑی رہتی ہے تو یہ چنگاری سے آگ اور آگ سے شعلہ بن جاتی ہے اور  اپنے  گھر کے ساتھ ساتھ ارد گرد کے گھروں کو بھی جلا دیتی ہے زرینہ کیا تم نہیں دیکھتیں فی ا لوقت یہی تو ہو رہا ہے ہر آدمی نے  اپنے  گھر کے دروازے شیطان کے لیے چوپٹ کھول رکھے ہیں شیطان کو آدمی دلیر بنا رہا ہے اس کی دلیری تو دیکھیے کہ دشمنی اور حسد میں وہ آسمانوں میں بھی انسان کو چین  سےرہنے نہیں دینا چاہتا اور انسان کے پیچھے لگ جاتا ہے کہ اسے آسمان میں داخل ہونے سے روک دے اگر زمین کی تکوینی نظام کی جانب سے آسمان کی سرحدوں کو نہایت ہی مضبوط و منظم سیکیورٹی کے ساتھ رکھا گیا ہے یہاں کی سیکورٹی فرشتوں کے سپرد ہے ہر فرشتوں کو یہ صلاحیت عطا کی گئی ہے کہ وہ نار کی چھوٹی سی چھوٹی مقدار کو بھی دیکھ لیتے ہیں یعنی باریک سی چنگاری بھی ان کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی پس فورا ہی وہ  اسے  مار دیتے ہیں ۔“

”ابا!  اگر فرشتے اسی طرح شیاطین کو مارتے رہے تو ایک دن ان کی نسل ہی تباہ ہو جائے گی پھر تو جن کا وجود ہی ختم ہو جائے گا۔“ عاقب نے پوچھا قاسم نے جواب دیا ۔”بیٹے! سب جن شیطان نہیں ہوتے وہ جن جو قرآن سن کر اللہ پر ایمان لے آئیں اور تابعدار و فرمانبردار ہو گئے وہ انسان کے ساتھ آسمان میں بھی داخل ہوتے ہیں شیاطین کی ابتدا ابلیس سے ہوئی ابلیس ایک جن تھا جو قوم جنات کا سردار تھا جب اللہ نے آدم کی تخلیق کی تو آدم کی علمی فوقیت کی بنا پر ابلیس کو سجدے کا حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کر! ابلیس نے سجدے سے انکار کر دیا اس انکار کے ساتھ ہی اس کی آدم سے دشمنی اور حسد کا بھید کھل گیا۔ جتنے بھی شیاطین ہیں تمام کی تمام ابلیس کی ذریت ہیں فرشتے ان تمام کو پہچانتے ہیں اور آسمانوں میں داخل نہیں ہونے دیتے یہاں تک کہ اگر آدمی شیطان کو  اپنا  دوست اور ہمدرد جان کر اس کی فکر کے مطابق عمل کرتا ہے تو ایسے آدمی کا بھی شیطان کے ساتھ ہی حشر ہوتا ہے اس کو اسی مقام پر رکھا جاتا ہے جو مقام شیطان کی پیدائش کا مقام ہے اس عالم کو جہنم کہا گیا ہے۔  بیٹا!  انسان جہنم میں نہیں بلکہ جنت میں پیدا ہوا ہے جنت نور کا عالم ہے دنیا میں انسان کا آنا جنت سے نقل مکانی ہے اس کا اصل ٹھکانہ جنت ہے جو عیش و آرام کی جگہ ہے مگر جب آدمی شیطان کی دوستی میں اس طرح اس کے ہمراہ ہوجاتا ہے کہ  اپنے  گھر کے بجائے شیطان کے گھر جانے کی تیاری پکڑ لیتا ہے تو اللہ اسے نہیں روکتا۔“

رات گہری ہو چکی تھی تینوں کے ذہن میں ایک ہی خیال تھا کہ شیطان سے جنگ کی کیا تدابیر کی جائیں ؟اسی خیال نے تینوں کو نیند کی وادی میں پہنچا دیا۔ عاقب نے خواب میں دیکھا کہ شام کا وقت ہے وہ ایک گھنے جنگل میں سرگرداں پھر رہا ہے جیسے کسی کی تلاش ہے جنگل د رندوں اور حشرات الارض سے  بھرا پڑا ہے شیروں کی دھاڑ ہاتھیوں کی چنگارڑاور گیڈروں کی کان پڑی آواز سنائی  نہیں دیتی وہ دھڑکتے دل سے پھونک پھونک کر قدم رکھتے چونکنے حواس کے ساتھ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے چلا جا رہا ہے۔ درختوں کی شاخوں پر سانپ جھول رہے ہیں۔ عاقب کو دیکھ کر لہراتے ہوئے اس کی طرف لپکتے ہیں۔وہ یا اللہ  مدد کہتے ہوئے ایک جست مار کر ان کی زد سے بچ جاتا ہے جتنا وہ خوف کھاتا ہے اتنا ہی درند چرند اور زہریلے جانور  اس کی طرف لپکتے ہیں کبھی کوئی شیر دھاڑتا ہوا سامنے آ جاتا ہے اور وہ خوف سے منجمد ہو کر دل ہی دل میں یا اللہ مدد کی گردان شروع کر دیتا ہے اور کبھی خوفناک ریچھ  اپنے  دونوں پاؤں پہ کھڑا اس کی جانب خون خوار نظروں سے گھورنے لگتا ہے اسی خوف دہشت کے عالم میں اسے ایک پر وقار آواز سنائی  دی۔

” اندھیرا ہے قندیل جلا۔“   اس تحکمانہ آواز نے عاقب کی ساری توجہ اپنی      جانب کھینچ لی ۔ وہ سب کچھ بھول کر وہیں جم کر کھڑا ہو گیا اور دیوانہ وار ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ جب اسے اوپر نیچے چاروں طرف کوئی  دکھائی  نہ دیا تو اس نے اوپر نگاہ ڈالی۔ اوپر آسمان کی طرف فضا میں سے روشنی کا نورانی ھیو لا  دکھائی  دیا ۔ یہ ایک بزرگ کی صورت تھی۔ عاقب کی نظر پڑتے  ہی ان بزرگ نے دوبارہ  اپنے  الفاظ دہرائے ۔”اندھیرا ہے قندیل جلا ۔“ عاقب بے بسی کے ساتھ بولا ۔”بابا مدد کرو۔“ بزرگ نے پھر فرمایا ۔”اندھیرا ہے قندیل جلا۔“ اب کے بزرگ کے دہن مبارک سے کلام کا نور ایک شعا ع کی صورت میں عاقب کے پاس آیا اور اس کی آنکھوں میں داخل ہو گیا ۔اسی لمحے عاقب کے ہونٹوں پر بزرگ کے الفاظ جاری ہو گئے۔” اندھیرا ہے قندیل جلا ،اندھیرا ہے قندیل جلا“ اور انہی الفاظ کو دہراتے دہراتے اس کی آنکھ کھل گئی جب وہ نیند سے جاگا تو اس کی زبان پہ یہی الفاظ تھے ۔

پوری طرح ہوش میں آنے کے بعد ارادتا ً اس نے یہی الفاظ زبان سے دہرائے ۔”اندھیرا ہے، قندیل جلا“  اب اس کا شعور ان الفاظ کے معنی تلاش کرنے لگا عقل معنی مفہوم کے سمندر میں غوطہ زن ہو گئی کہ شاید کوئی گوہر معنی اس کے ہاتھ لگ جائے ۔فجر کا وقت تھا دل نے کہا نور اًعلی نور اللہ کی ذات ہے۔ اس سے  اپنے  گھر کے لیے اجالا مانگ لے ۔وہ اٹھا وضو کر کے بارگاہ خداوندی میں سجدہ ریز ہو گیا۔آج اس کے دل میں روشنی کی تمنا شمع کے شعلے سے تیز  دکھائی  دی۔

ہر قسم کے علوم سے بھر پور یہ زمانہ اپنی      تیز رفتاری سے دوڑ رہا تھا۔ عقل درماندہ مسافر کی طرح علم کے کبھی اس راستے پر قدم رکھتی کبھی اس راہ کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر اندھا دھند چل پڑتی۔ زمانے کی تیز رفتاری عقلوں کو پیچھے چھوڑنے لگی۔ وہ زمین جس پر آہستہ آہستہ تبدیلی آتی   تھی' کھیتی دھیرے دھیرے سورج کی روشنی میں پکتی تھی اب کیمیکل کی مدد سے دوسرے مہینے پک کر تیار ہو جاتی۔کیمیکل کی مانگ زیادہ بڑھ گئی تو کیمیکل کی تیاری بھی تیز ہو گئی۔  کیمیکل کی تیاری تیز ہوئی تو کیمیکل کے فاضل مادے کا نکاس بھی زیادہ ہونے لگا۔ سمندر تیزابوں سے بھرنے لگے۔ زمین کی تہوں میں تیزابیت بڑھنے لگی۔ ان میں اگنے والی غذاؤں پر پلنے والے انسان زہریلے ناگوں کی طرح خونخوار ہو گئے۔ ایک دوسرے کی بات برداشت کرنے کی ان میں سکت نہ رہی۔ غیض و غضب' کبر و غرور ، حسد ۔ جلن بشری عادت و جبلت بن گئی۔ عجیب عجیب سی بیماریاں سر اٹھانے لگیں۔ یہ لوگ ذمہ داریوں کو بوجھ سمجھ کر اس سے منہ موڑنے لگے۔ مہنگائی  نے وسائل میں اور کمی کر دی۔ مائیں سال دو سال جب تک بچہ  ماں کا دودھ پیتا اس وقت تک تو اس کی کسی نہ کسی طرح پرورش کرتیں پھر اس کے بعد انہیں سڑکوں پر آوارہ چھوڑ دیتیں۔ اب لختِ جگر کے لئے قربانی و ایثار کرنے والی ممتا دم توڑ چکی تھی۔ فنائیت کا اژدھا آہستا آہستہ چلتا ہوا بشریت کے نشان نگلتا  چلا  جا رہا تھا۔ دن بدن  بشری شعور اسفل کے گڑھے میں دھنستا جاتا۔ قاسم اور زرینہ کتنی کتنی دیر چپ چاپ ایک دوسرے کا منہ تکتے بیٹھے رہتے۔ بڑھاپے نے دونوں کی صحتوں کو کمزور کر دیا تھا۔ ماحول کے زہریلے اثرات انہیں تیزی کے ساتھ بڑھاپے کی جانب گھسیٹ رہے تھے۔ نہ ہی زرینہ ذہنی طور پر اتنی کمزور تھی نہ قاسم  اپنے  ارادے و عزم کا کچا تھا۔ مگر تیزی سے بدلتی دنیا سے اب ان کا اعتبار اٹھتا جاتا تھا۔ وہ شکر کرتے کہ ان کے ایک ہی اولاد ہے مگر اولاد ایک ہو یا دس ہوں، وہ ماں  باپ   کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے۔ وہ خوب جانتے تھے کہ نفسا نفسی کے اس دور میں عاقب کو سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں بچا سکتا۔ ہر وقت اس  کی دعائیں محور بن کر عاقب کے گرد گھومتی رہتیں۔” یا اللہ بچے کو انسانیت کے درجے سے نہ گرنے دینا۔“

جس طرح ہر آدمی کی زندگی کا پروگرام ایک ریکارڈ کی صورت میں لوح محفوظ میں درج ہے اسی طرح ہر زمین کا پروگرام بھی لوح محفوظ میں ریکارڈ ہے۔ زمین کے پروگرام میں زمین پر واقع ہونے والی سب سے بڑی  تبدیلی قیامت ہے۔ قیامت فنا کا وہ لمحہ ہے جو زمین پر ہونے والی ہزاروں سال کی تعمیرات کو  اپنے  اندر سمیٹ لیتا ہے۔ قدرت کا تکوینی سلسلہ اللہ تعالی کے امر ِ کن کی حرکات کو کائنات کے دائرے میں جاری و ساری ہے رکھتا ہے۔ امر کن اللہ کا ایک حکم ہے اس حکم کی تکمیل کا دائرہ فیکون ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کن  پر کائنات کی ہر شئے وجود میں آ کر اپنی      صلاحیتوں اور کمال کا مظاہرہ کرتی ہے اور جب یہ مظاہرہ پورا ہو جاتا ہے تو وعااسی نقطے میں ڈوب جاتی ہے جہاں سے چلی تھی۔ زمین بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کن سے وجود میں آ کر  اپنے  اندر کے خزانوں کو ظاہر کرتی ہے۔ جب تک مظاہرے کا عمل جاری رہتا ہے فیکون کا عمل جاری رہتا ہے۔ جب فیکون کی حرکت رک جاتی ہے تو کُن سے فیکون تک کی حرکت کا ایک دائرہ مکمل ہو جاتا ہے اور پھر اس کے بعد کن کی ایک دوسری حرکت کا آغاز ہوتا ہے ۔ دھرتی  کی دگرگوں حالت کو دیکھتے ہوئے زرینہ اور قاسم نے عاقب کو اچھی طرح سمجھا دیا کہ” دیکھو بیٹا! زندگی اور موت ، عروج و زوال ، فنا اور بقا ، تعمیر اور تخریب یہ سب کائناتی نظام کا ایک حصہ ہیں۔ انسان وہ ہے جو قدرت ِ خداوندی کے اشاروں کو پہچان کر  اپنے  نفس کو اس کی رضا میں ڈھال لیتا ہے۔ نفس جب اللہ کے ارادے کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے تو اسے ابدی راحتیں نصیب ہو جاتی ہیں۔ وہ راحتیں جو ازل میں انسان کا مقدر بن  چکی ہیں۔ پھر قیامت بھی گزر جائے گی تب بھی نفس کی حالت نہیں بدلتی۔

عاقب اب اٹھارہ برس کا ہو  چکا تھا۔ زرینہ اور قاسم نے حیوانیت کے ماحول میں رہتے ہوئے اس کے انسانیت کے جامے  کی بھرپور حفاظت کی۔ وہ ایک مضبوط کردار کا خوبصورت نوجوان تھا۔ جس کی شخصیت میں بلا کی کشش تھی۔ ہر شخص نظر بھر کے دیکھنے پر مجبور ہو جاتا مگر اس خدا داد خوبی پر بہت سے ہم عمر اس  سے جلنے لگے تھے جس کی وجہ سے کالج میں اسے خاصی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ ان جاہلوں سے الجھنا اپنی      جان  کو کھونا ہے۔ ذرا سی بات پر مرنے مارنے پر تل جائیں گے کیا فائدہ۔ ہر مسئلہ کا حل کسی کی جان لینا اور اپنی      جان دینا ہی تو نہیں ہوتا۔ اس کی ماں کا کہنا تھا۔ ” بیٹے! مرنے کے بعد تو آنکھ از خود پردے کے پیچھے دیکھنے لگتی ہے کمال تو یہ ہے کہ اس دنیا میں رہتے ہوئے مرنے کے بعد کے عالم کا مشاہدہ کی جائے اور اگلے جہان سے انسیت پیدا کی جائے تاکہ وہاں کی طرزِ زندگی سے شناسائی  ہو۔ پس اگلے جہان سے واقف ہونے کے لئے جان کی حفاظت بھی ضروری ہے۔“ذہنی دباؤ اور نفسانفسی کے اس دور میں ماں کی نصیحتیں اس کے لئے موسیٰ کا عصا بن جاتیں۔ وہ جب بھی ان نصحیتوں پر عمل کرتا دریائے نیل کی طرح اس انسانی جنگل  میں اسے راستہ مل جاتا۔ ممتا کے بنائے ہوئے راستے پر چل کر وہ زمانے بھر کی مصیبتوں اور مایوسیوں سے بچ جاتا ۔ قدرت کانٹوں کے درمیان سے اسے بچ کر نکلنا سکھا رہی تھی۔

ایک صبح عاقب کی آنکھ کھلی۔ اسے ماں  باپ   کے دھیرے دھیرے باتیں کرنے کی آواز آئی۔ وہ جلدی سے اٹھ بیٹھا۔ اس کے ذہن میں خواب کے مناظر تیزی سے گھومنے لگے۔ یہ کیسا خواب میں نے دیکھا ہے۔ امی ابو تو جاگ ہی گئے ہیں انہیں سنا دوں۔ شاید وہ اس کے کچھ معنی نکال سکیں۔ یہ سوچ کر وہ امی ابو کے کمرے میں آگیا۔ ماں بولی ۔” بیٹا بہت جلدی اُٹھ بیٹھے ابھی تو فجر میں کچھ دیر باقی ہے۔“

عاقب ماں کے پہلو میں بیٹھتے ہوئے بولا۔” امی خواب دیکھ رہا تھا آنکھ کھل گئی۔ عجیب سا  خواب ہے سوچا آپ سے اس کی تعبیر پوچھ لوں آپ دونوں کی آواز سن کر  چلا آیا۔“

ماں نے اسے پیار کے ساتھ  اپنے  قریب کرتے ہوئے کہا۔” تم نے اچھا کیا بیٹے جو چلے آئے،آج تمہاری آنکھ جلدی کھل گئی تھی۔ کیا خواب دیکھا ہے میرے بیٹے نے؟“

عاقب خلاء میں دیکھتے ہوئے سوچنے کے سے انداز میں بولا۔” میں نے دیکھا  کہ آسمان سے ایک سیاہ آندھی اُٹھی اور اس آندھی نے ساری زمین کو اپنی      لپیٹ میں  لے لیا۔ ہوا کی طرح یہ سیاہ آندھی زمین میں ہر طرف چھا گئی۔ اس سیاہ اندھیرے میں آگ کے شعلے میزائل کی طرح اِدھر اُدھر اُڑ رہے ہیں۔ جہاں یہ میزائل گرتے ہیں اندھیرے میں ہی ایک گہرے دھوئیں کی لہر اُٹھتی   دکھائی  دیتی ہے۔ لوگ حیراں اور خوفزدہ ہیں اور اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں مگر اندھیرے میں ایک دوسرے سے ٹکرا کے گرتے  جاتے ہیں۔ ہر طرف چیخوں کے سوا کچھ سنائی  نہیں دیتا۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں اندھیرے میں دیکھ سکتا ہوں۔ اندھیرے اور آگ کے شعلوں کے اندر ہونے والی ہولناکیوں کو میری نظر دیکھ رہی تھی۔ اسی اندھیرے میں دنیا کی ایک بڑی طاقت کے ملک کی سرحد  دکھائی  دی۔ اس سرحد کے اندر سے ایک بہت بڑا میزائل نکلا جو کچھ دور تو سیدھا چلتا رہا پھر اندھیرے میں  ہی ایک لہر اس میزائل سے ٹکرائی  اور اس نے اس کا رخ ہی بدل دیا۔ چند لمحوں بعد ایک انتہائی  زور دار دھماکہ ہوا اور اسی وقت زلزلہ آگیا۔ ساتھ ہی پانی کا سیلاب بھی نہایت  تیز رفتاری سے ساری زمین پر بہتا  دکھائی  دیا۔ سیلاب سے  بچنے کے لئے میں پاس ہی ایک ٹیلے پر چڑھ جاتا ہوں اور دیوانہ وار آپ دونوں کو پکارتا ہوں۔ آپ دونوں کہیں نظر نہیں  آتے میں اس ٹیلے پر آپ دونوں کی تلاش میں اِدھر اُدھر دوڑتا ہوں۔ ساتھ ساتھ آوازیں بھی دیتا جاتا ہوں۔ اتنے  میں   سیلاب میں بہتے ہوئے آپ دونوں ٹیلے کی طرف آجاتے ہیں۔ میں آپ دونوں کو ٹیلے پر کھینچ لیتا ہوں۔ امی ابو آپ دونوں مجھ سے چمٹ جاتے ہیں اور امی آپ بہت جلدی جلدی کہتی ہیں  کہ دیکھو بیٹا! تمہیں اس دور میں بہت کام کرنا ہیں۔ قدرت تم سے کام لینا چاہتی ہے۔ اسی وقت زلزلہ کا ایک زور دار جھٹکا لگا ہم تینوں اس جھٹکے سے الگ الگ جا پڑے ۔ زمین پر گرتے ہی زمین کا فرش جہاں  میں گرا تھا دو ٹکڑے ہو گیا اور میں اندر گرنے لگا۔عین اسی لمحے گرتے وقت میں نے دیکھا کہ سیلاب کی ایک بہت بڑی اور اونچی لہر آئی  اور آپ دونوں کو آنا فآنا بہا کر لے گئی۔ امی آپ مجھے پکار کر کہتی  جا رہی تھیں کہ قدرت تم سے کام لینا چاہتی ہے۔ مجھ پر ایک ہیبت طاری تھی دماغ ماؤف تھا زمین کی دراز میں نرم مٹی پر گرا۔ مجھے کوئی چوٹ نہیں آئی  مگر خوف اور جان بچانے کی فکر میرے اوپر مسلط ہو گئی۔ خوف  نے کچھ دیر کے لئے  میرے تمام  اعضاء کو منجمد کر دیا ۔ میرے تمام حواس سلب کر لئے اسی لمحے  امی کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔”  قدرت تم سے کام لینا چاہتی ہے۔“ اس آواز نے میرے مُردہ حواس میں جان ڈال دی۔ میں نے پہلے ارد گرد نظر ڈالی۔ وہ ایک گہرا اندھیرے میں ڈوبا غار تھا۔ میں آہستہ سے اُٹھ بیٹھا۔ اب مجھے باہر کا شور سنائی  دیا۔ لوگوں کی چیخ و پکار ، پانی کے بپھرے ہوئے تیور کے تھپیڑوں کی آوازیں۔ غیر ارادی طور پر میں نے  اپنے  دونوں ہاتھ خاک پر رکھ دیئے اور دل کی گہرائیوں سے نکلتی ہوئی روح کی آواز زبان پر آگئی۔ اے” میرے رب! میرے لئے اس غار سے راستہ نکال اور میری رہنمائی  فرما۔“ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ غار کی داہنی  جانب سے روشنی کی ایک تیز شعاع آئی  اور اس شعاع نے مجھے آہستہ آہستہ مقناطیس کی طرح کھینچتے ہوئے اس غار سے باہر نکال دیا مگر باہر امی ابو اب میں کیا بتاؤں کہ باہر  کیسا منظر تھا۔ ایک اجڑا ہوا، جلا ہوا، راکھ کا ڈھیڑ اور جلتے کوئلوں کے ڈھیروں اور گڑھوں اور کھڈوں سے ملا جلا ایک ویرانہ تھا۔ جہاں انسانیت درد و کرب سے سسک رہی تھی۔اس ہولناک منظر کے دباؤ سے میری آنکھ کھل گئی۔“

          زرینہ نے ایک ٹھنڈا سانس لیا اور روح کے کرب کو  اپنے  اندر دباتے ہوئے بولی۔” اللہ کے بھید اللہ ہی جانتا ہے بیٹے۔آج میں نے اور تمہارے ابو نے بھی اسی سے ملتا جلتا خواب دیکھا ہے۔“

          قاسم چپ چاپ گہری سوچوں میں گم  سم تھا۔ عاقب نے کہا۔” امی آپ   اپنا  خواب سنائیں کیا دیکھا؟“

          زرینہ نے کہا” میں نے دیکھا کہ آسمان ایک نیلی چادر ہے جس پر چاند، سورج اور ستارے بہت سی گیندوں کی صورت میں رکھے ہوئے  ہیں۔ اس چادر کو ہر کونے سے ایک ایک فرشتے نے تھام رکھا ہے۔ اتنے میں ایک گرجدار آواز گونجتی ہے جو سارے آسمان میں پھیل جاتی ہے۔ یہ آواز سنتے ہی چاروں فرشتے پوری طرح متوجہ ہو جاتے  ہیں  اور بیک آواز بہت ہی زور دار آواز میں ” یارحمٰن“ کا نعرہ مارتے ہیں۔ ان کی آواز سے سارا آسمان لرز جاتا ہے۔ اب چاروں فرشتے ایک آوا زسے یہ کہتے ہوئے  اپنے  ہاتھوں میں چادر پکڑے ہوئے کراس کی سی پوزیشن میں آگے  بڑھتے ہیں۔ یعنی داہنے کونے والا فرشتہ  اپنے  سامنے کی سمت میں کھڑے ہونے والے بائیں فرشتے کی جانب بڑھتا ہے۔ اسی طرح بائیں سمت کا فرشتہ سامنے سمت کے داہنی جانب والے فرشتے کی جانب ہاتھوں میں  اپنے   اپنے  کونے پکڑے آگے  بڑھتے ہیں اور سب بیک آواز میں یہ پڑھتے جاتے ہیں ۔ رب المشرقین و رب المغربین۔ آسمان کی چادر کے سمٹنے سے اس کے اوپر رکھے چاند ، سورج، ستاروں کی گیندیں ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرانے لگتی ہیں ۔ ان کے اوپر بسنے والی مخلوق پریشان و ہراساں ہونے لگتی ہے اور پھر کچھ ہی دیر میں چاند، سورج، ستارے ایک دوسرے سے ٹکراتے  ہیں۔ زلزلے اور طوفان میں تمام مخلوق گھر جاتی ہے۔ ہر طرف آہ و بکا ، رنج و کرب اور شور و غوغا ہے۔ میں گھبرا کے عاقب اور قاسم کو آواز دیتی ہوں ۔ تم دونوں ملتے ہو مگر پھر اگلے ہی لمحے ایک زور دار دھماکہ ہوتا ہے اور جب میرے حواس بحال ہوتے ہیں تو نہ وہاں قاسم ہوتے ہیں نہ ہی عاقب ہوتا ہے۔ میں ہچکیوں میں یا رحمٰن یا رحمٰن کہتی ہوئی سیلاب کے اندر بہی چلی جاتی ہوں پھر اس کے بعد دہشت  میں میری آنکھ کھل گئی۔“

قاسم نے کہا۔” میں نے بھی اسی طرح کا خواب آج رات دیکھا ہے ۔ میں نے  دیکھا کہ میں  اپنے  گھر کے صحن میں کھڑا ہوں۔ آسمان کی طرف دیکھتا ہوں تو آسمان پر ایک کھڑکی کھلتی ہے۔ اس کھڑکی سے جوق در جوق فرشتے نکل کر آسمان کے کناروں پر پھیلتے جا رہے ہیں۔ مجھے خیال آتا ہے قیامت آنے والی ہے۔ تمام فرشتے آپس میں ایک دوسرے کو ہدایات دیتے  دکھائی  دیتے ہیں۔ میرے دیکھتے دیکھتے ہی تمام چاند، سورج، اور ستارے بے نور ہو گئے۔ آسمان پر ان کی جگہ صرف سیاہ دھبے رہ گئے۔ میرا دل خوف و دہشت سے بھر گیا۔ خیال آیا ان تمام فرشتوں نے چاند ، سورج اور ستاروں کے اندر سے نور کھینچ لیا ہے۔ یہ سب مر گئے ہیں۔ اند ر اندر دل لرزنے لگا۔ سیاروں پر  موت طاری ہوگئی اب میرا کیا ہوگا۔؟ اسی وقت زور کے زلزلے کے جھٹکے نے مجھے بُری طرح ہلا دیا۔ میں نے زور زور سے تم دونوں کو آوازیں دیں اور گھر کے اندر دیوانہ وار بھاگا کہ تم دونوں کو ساتھ لے لوں۔ اندر کمرے میں گیا تو زلزلے کی وجہ سے گھر کا نقشہ ہی ٹیڑھا ہوگیا ۔ لگتا تھا  کہ اب گرا اور جب گرا ۔ اندر زرینہ ایک کونے میں دبکی بیٹھی تھی  یا اللہ یا للہ کر رہی تھی ۔ میں نے اس کا  ہاتھ پکڑا اور گھبرا کر پوچھا۔ عاقب کہاں ہے؟ اتنے میں عاقب گھبرایا ہوا امی ابو پکارتا ہوا اندر آیا ۔ ہم   تینوں ابھی باہر نکل رہے تھے کہ ایک اور جھٹکا آیا۔ زمین اس طرح ہلی جیسے پانی کی لہروں پر کشتی ہچکولے کھاتی ہے۔ زلزلے کے مسلسل جھٹکے زمین کو ڈول رہے تھے اور زمین کے اوپر ہر شئے تہس نہس ہورہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے زمین غیض و غضب میں ہے اور وہ  اپنے  اوپر  موجود ہر شئے کو مٹا کر ہی دم لے گی۔ ہم تینوں کو جدا ہوتے کچھ دیر نہیں لگی۔ ہمارے پاؤں  کے تلے سے زمین سرکتی جارہی تھی۔ زمین  اپنے   اندر    کے خزانے اگل رہی تھی ۔ آگ کے دریا بہنے لگے ساتھ ہی پانی کا سیلاب بھی چلا آیا۔ ہر طرف سے عمارتیں گرنے کے دھمکاکے کے سنائی  دیئے۔ گیس کی وجہ سے ہماری طرف پوری پوری بلڈنگیں اڑنے لگیں۔ زمین پر بسنے والی مخلوق ریت کے ذروں کی طرح بے بس تھی۔  آنکھیں   اپنے   حلقوں  سے خوف کی وجہ سے باہر آگئیں دماغ نے  کام کرنا چھوڑ دیا۔ سب کے سب انسان حیوان پاگلوں کی طرح زمین کے  جھٹکوں کے ساتھ حرکت کر رہے تھے۔ کچھ نہ پوچھو کیا حشر تھا۔  بچاؤ کی کوئی صورت  دکھائی  نہ دیتی تھی۔ نہ ہی ذہن کام کرتا کہ کوئی تدبیر   کرے۔ سب ہی اس وقت   زمین   کے رحم و کرم پر تھے۔ زمین نے اپنی      تباہی و بربادی کا فیصلہ کر لیا تھا اب زمین پر بسنے والی مخلوق لاچار تھی۔ زمین کے سوا ان کا ٹھکانہ ہی کہاں تھا۔ زمین غیض و غضب میں کچھ کو آگ کے بہتے دریاؤں میں پھینک رہی تھی کچھ کو پانی کے منہ زور سیلاب میں دھکیل رہی تھی۔ کچھ کو ملبوں کے نیچے کچل رہی تھی۔ اب چیخ و پکار ، آہ و بکا، رحم و کرم کی درخواست کسی چیز کا وقت نہ تھا۔ یہ لمحہ تو بس قیامت کا تھا جو  طوفانوں ، زلزلوں، آتش فشانی لاوے کی تباہ کاریوں کا دن تھا۔ پاؤں تلے سے زمین ہی کھینچ لی جائے تو مخلوق کہاں کھڑی رہ سکتی ہے۔ نہ پناہ لینے کی کوئی جگہ نہ تباہی سے بچنے کا کوئی سامان۔ میں نے بے بس و عاجز ہو کر  اپنے  آپ کو فطرت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ میں نے دیکھا میں ایک منہ زور سیلاب میں بہا چلا جا رہا ہوں ایک منزل نامعلوم کی طرف۔ اسی حیرت میں  آنکھ کھل گئی۔“

          یوں لگا جیسے تینوں خواب سناتے سناتے اس ہولناک لمحے میں داخل ہو گئے۔ تینوں اپنی      کیفیات کے مدّو جزر کو کم کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ جڑ گئے۔ ایک دوسرے کے جسموں کے دباؤ نے اندر کے طوفانوں کو تھما دیا۔ تینوں کچھ کہے  سنے بغیر چپ چاپ اٹھ کھڑے ہوئے اور فجر کی نماز کی تیاری میں لگ گئے۔ سچ تو یہ ہے جب زمین پاؤں تلے سے سرک جائے تو اللہ کے سوا اور کہاں پناہ مل سکتی ہے۔ ان خوابوں نے تینوں کے یقین کو اور بڑھا دیا۔ زرینہ اور قاسم نے عاقب کو اچھی طرح سمجھا دیا کہ دیکھو بیٹے کائنات اللہ تعالی کا ملک ہے۔ ملک کا نظام قوانین اور اصول پر چلتا ہے۔ قوانین اور اصول حکومت کے سربراہ بناتے ہیں  اور رعایا ان پر عمل کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو قوانین بنائے ہیں وہ اللہ کی سنت کے قوانین ہیں جو کبھی نہیں بدلتے۔ ہر دور میں اس عملدر آمد ہوتا رہتا ہے۔ مرحلہ قیامت میں جو اصول اور اللہ تعالیٰ کی سنت کام کر رہی ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کے واقعے میں ان کا تفصیلی ذکر قرآن میں آیا ہے۔ ایک بات یاد رکھو قیامت اسی وقت آتی   ہے جب زمین پر بسنے والے اللہ کی نعمتوں سے روگردانی کرتے ہیں ۔ قیامت اس وقت آتی   ہے جب زمین   پربسنے والی نسلِ انسانی کا شعور بالغ ہو جاتا ہے اس کی عقل اچھے اور برے کی تمیز کرنے کے قابل ہو جاتی ہے مگر انسان  اپنے  عقلی دلائل کو فطرت کے دلائل پر حاوی کر دیتا ہے۔ وہ فطرت کے اصولوں کی جگہ اپنی      محدود و عقل کے تراشیدہ اصولوں کو وضع کر کے ان پر عمل کرتا ہے اور فطرت کے اصولوں  کو جاننے کی زحمت  بھی گوارہ نہیں  کرتا۔ قیامت اس وقت آتی   ہے جب نسلِ انسانی اپنی      انا کو اللہ کی انا کے مقابل لے آتی   ہے اور ہر چیز کا سورس اللہ کی بجائے خود اپنی      ذات کو گردانتی ہے۔ بیٹا ! جب کوئی شخص قانون کو  اپنے  ہاتھ میں لے لیتا ہے اور حکومت کے نافذ کردہ قوانین کی بجائے اپنی      مصحلتوں کے استدلال کو قانون کی حیثیت دیتا ہے تب اس کا فیصلہ اس کی ذاتی انا کے دائرے میں ہوتا ہے۔ اللہ لا محدود ہے اور انسان کی ذاتی انا محدود ہے۔ لامحدود دائرہ ہے اور محدودیت نقطہ۔ بیٹا ! قیامت اس وقت آتی   ہے جب نسلِ انسانی کی نظر اللہ کی بجائے خود اپنی      ذات پر ٹک جاتی ہے۔ خوب یاد رکھو کہ حکومت کے قوانین کو توڑنے والا اس دنیا میں مجرم قرار دیا جاتا ہے۔ زمانہ کی روش خواہ کتنی ہی خراب ہو، اپنی      طرزِ فکر کو درست رکھنا ۔ تم اللہ کی مدد سے ضرور کامیاب ہو گے۔“

٭٭٭


Qandeel

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی