Topics
آنند اولیا اللہ
کے متعلق اپنے عقائد میں مثبت تبدیلی کے متعلق بتا رہا تھا۔ اُس نے عاقب کو بتایا
کہ اُس کا مسلمان دوست اُس سے کہتا۔” آنند تم جانتے نہیں ہو کہ اولیا اللہ قبر کے
اندر مُردہ نہیں ہیں۔ وہ اپنی آتما کے
ساتھ زندہ ہیں اور قبر پرآنے والے کو دیکھتے اور سنتے ہیں۔“ میں اس کہتا کہ یار اپنا اپنا اعتقاد ہے۔
آدمی جیسا سوچے ویسا ہی ہو جاتا ہے۔ میں
تو جب بھی کسی قبر پر جاتا ہوں۔ سوائے ہڈیوں اورمٹی کے کوئی تصور نہیں بنا۔ ایک
دفعہ میری ماں فالج کے حملے سے سخت بیمار ہوگئیں۔ ان کا منہ ٹیڑا ہوگیا، جسم مفلوج
ہو گیا، ، وہ صحیح طرح سے بول بھی نہ سکتی تھیں۔ علاج معالجہ، دید، پندت سب کچھ
ہوا۔ مگر مرض میں ذرا بھی افاقہ نہیں ہوا۔ میرا دوست میری پریشانی کو اور ماں کی
حالت کو دیکھتے ہوئے کہنے لگا ۔ چل یار! خواجہ اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کے پاس چلیں
اور کوئی وقت ہوتا تو شاید میں اس کی دعوت کو ٹکھرا دیتا۔ مگر اس وقت اس کے ایک
بار کہنے پر ہی میرا دل امادہ ہو گیا۔ ماں کی
محبت اس کی زندگی کے لئے ہر ممکن
تدبیر آزمانے کو تیار ہوگیا۔ ہم دونوں اسی وقت اجمیر شریف کے لئے روانہ ہو گئے۔
دربار میں حاضری دی اور دو زانو ہو کر قبر مبارک کی پائنتی کی جانب بیٹھ گئے۔ میں
نے آنکھیں بند کیں دل تو پہلے ہی بھرا ہوا تھا آنکھیں
بھی بھر آئیں اور میں جی بھر کے رویا۔ اسی شدتِ گم میں نہ جانے کس طرح اور
کب حضرت خواجہ اجمیری رحمتہ اللہ علیہ میری بند آنکھوں کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ میں
ان کے قدموں میں سر رکھ کر بلک بلک کے رو رہا تھا اور اپنی ماں کی زندگی اور
تندرستی کی التجا کر رہا تھا۔ تھوری دیر بعد حضرت خواجہ غریب نواز ر حمتہ اللہ
علیہ نے میرے سر پر ہاتھ رکھا میں اس ہاتھ کی گرمی اور وزن کبھی نہیں بھولوں گا۔ اسی لمحے میرے دل سے آواز آئی خواجہ اجمیری رحمتہ اللہ علیہ آپ اپنی اتما
کےساتھ زندہ ہہیں۔ آپ کے ہاتھ سے نور کا دھارا نکل کر میرے سر میں سما گیا اور
پورا دماغ روشن ہو گیا۔ اب میں نے سر اُٹھایا اور آپ کی جانب دیکھا۔ آپ کے حسن و
جمال کے انوار سے میری آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ آپ نے مسکرا کے فرمایا۔”
میری قبر پر گردن کے پاس پھولوں کا ایک ہار پڑا ہے۔ اس ہار میں چمپا کا ایک پھول
ہے۔ اسے اُٹھا لے۔ اس پھول کو اپنی ماں کے پاس لے جاؤ اور اس پھول پر ایک سو
گیارہ مرتبہ حضرت خواجہ اجمیری پڑھ کر
پھونک کر اپنی ماں کو کھلا دے۔ اب جا بالک جا۔ آسمانوں اور زمینوں کا مالک تجھ پر
مہربان ہے۔“ آنند نے اپنی کہانی جاری رکھتے ہوئے کہا۔” جب میں قبر مبارک سے اُٹھا تو دل کی حالت ہی بدلی
ہوئی تھی۔ مجھ پر ایک جذب کا سا عالم طاری تھا۔ اسی کیفیت میں میں نے قبر پر
پڑے ہوئے ہار کے اندر سے چمپا کا پھول
اُٹھایا۔ جس کی نشاندہی حضرت خواجہ رھمتہ اللہ جی نے فرمائی تھی۔ وہ پھول آنکھوں سے لگا کر اپنی جیب میں
حفاظت سے رکھا اور اپنے دوست کو چلنے کا اشارہ کیا۔ وہ میری حالت دیکھ کر جان گیا
کہ حضرت غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ نے مجھ
غریب کو اپنے کرم سے نوازا ہے۔ وہ کچھ نہ بولا کیونکہ وہ اس دربار کے آداب سے واقف تھا۔ راستہ بھر میں اپنی
کیفیات میں آنکھیں بند کئے چپ چاپ بیٹھا رہا۔ دوست سے بات کرنے
کو زبان نہیں کھلتی تھی۔ البتہ دل حضرت خواجہ اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کے قدموں میں
جھکا ہوا مسلسل ماں کی زندگی کے لئے التجا کر رہا تھا اور ان کی عنایات کا
شکر ادا کر رہا تھا۔ گھر پہنچ کر ہدایت کے
مطابق میں نے ایک سو گیارہ مرتبہ یا حضرت خواجہ اجمیری رحمتہ اللہ علیہ پڑھ کر اس
پھول کے اوپر پھونک ماری اور تھوڑا تھوڑا کر کے اپنی ما ں کو کھلا دیا۔ میری ماں
نے مجھے اشارے سے پوچھا کیا اس کے اندر شکر ڈالی ہے؟ میں نے کہا ۔ہاں اور اس پھول کھاتے ہی ماں کو گہری نیند آگئی۔ میں ماں کے قریب ہی
بیٹھا رہا۔ میرا دوست بھی میرے ساتھ کمرے میں ایک طرف بیٹھا تھا۔ پورے چار گھنٹوں
کی گہری نیند کے بعد کمرے کے سکوت کو ماں کی آواز نے توڑا۔
” آنند بیٹے ذرا پانی تو لانا۔“ میں اور
میرا دوست اپنی اپنی کرسی پر نیم غنودگی کی حالت میں دراز تھے۔ مگر ماں کی آواز
اتنی صاف تھی کہ ہم دونوں اپنی جگہ سے اچھل کر کھڑے ہو گئے۔ میں بے ساختگی میں زور
سے بولا۔” ماں پانی چاہیئے ماں؟ دوست سے کہہ کر دروازے کی جانب بڑھا۔ آنند میں
پانی لاتا ہوں تو ماں کو دیکھ اور پھر سارے گھر نے دیکھ لیا کہ ماں پانی پیتے ہی
بستر سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ مسکرا مسکرا کے ہر ایک کو گلے سے لگایا اور بولی۔” میں
ایک دھند میں پھنس گئی تھی۔ نکلنے کا کوئی راستہ ہی نہ دکھائی
دیتا تھا۔ آخر ایک گھڑ سوار آیا۔ اس نے ایک دم مجھے اُٹھا کر اپنے گھوڑے پر
بٹھا لیا اور مجھے یہاں پہنچا دیا۔“ اس کے
معدے میں کئی دفعہ اجمیر شریف رحمتہ اللہ علیہ
گیا۔ ماں کو لے کر بھی گیا۔ مگر پھر ویسی
کیفیت جذب کبھی طاری نہیں ہوئی۔ اس دن سے مجھے بڑا شوق ہے۔ یہ جاننے کا کہ
مرنے کے بعد آتما کے اوپر کیا گزرتی ہے؟ وہاں میری ماں کی آتما دھند میں پھنس گئی
تھی اور یہاں اس کا جسم فالج زدہ چارپائی
پر پڑا تھا۔ جسم و جان کے ساتھ یہ کیسا تعلق ہے؟ یہ تعلق کس طرح درست رکھا
جا سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم اسے جاننے کی کوشش کریں تو ہم ضرور جان سکتے
ہیں اور اگر غلط نہیں ہوں تو تمہارے اندر بھی آتما کی کھوج نظر آتی ہے۔“
عاقب مسکرا دیا اور آنند کا ہاتھ اپنے
ہاتھ میں لے کر پیار سے سہلاتے ہوئے بولا۔” آنند بھیا! اس دنیا کے سارے انسان ایک
باپ آدم اور ایک ماں حوا کی اولاد ہیں اور آدم اور حوا کا خالق ایک پرور دگار ،
ایک اللہ ، ایک بھگوان ہے۔ وہ ذات واحدِ ہے۔اس کو سب الگ الگ نام سے پکارتے ہیں۔
ایک ذاتِ خالق کے بہت سے نام ہیں۔ جس کا جی
چاہتا ہے۔ جو نام اچھا لگتا ہے اسی نام سے اپنے رب کو پکارتا ہے۔ خالق کا
تخلیقی ذہن آدم و حوا میں منتقل ہوا اور آدم و حوا کا تخلیقی ذہن نوعِ انسانی میں
منتقل ہو رہا ہے۔ خالق کا تخلیقی ذہن خالق کی تخلیقی صفات جا مظاہرہ ہے۔ آدم و حوا اللہ کے حکم سے اللہ
تعالیٰ کی تخلیقی صفات کا مظاہرہ کرتے ہیں اور آدم و حوا کا وہ ازلی
شعور ہے جس کا تعلق براہ راست خالق سے ہے۔ پس تمام انسانوں کے اندر یہ ازلی شعور
موجود ہے۔ اس کے ذریعے کوئی آدمی اپنی آتما سے بھی واقفیت حاصل کرتا ہے اور آتما
کا اپنے خالق اور اپنے رب سے تعلق و رابطے سے بھی شناسائی حاصل کرتا ہے۔ جب آتما کی جانب سے ازلی شعور کی
اس ڈور میں حرکت آتی ہے تو دنیا میں رہتے
ہوئے آدمی کے اندر اپنی آتما کو جاننےاور
غیب میں رونما ہونے والے حقائق کو پہچاننے کا تقاضہ پیدا ہوتا ہے۔ یہی لگن آدمی کو
منزل پر پہنچاتی ہے۔ اس کے لئے رہنمائی کی
ضروت ہے۔“
پھر عاقب نے اسے رحمٰن بابا کے متعلق
بتایا اور کہا۔” رحمٰن بابا اس سلسلے میں تمہاری رہنمائی کریں گے۔ اگر کبھی تم اپنی آتما میں چھپی ہوئی
حقیقت کو جاننا چاہو تو ان سے رابطہ کر سکتے ہو۔“
راستے بھر ایسی ہی باتیں ہوتی رہیں۔
یہاں تک کہ وہ میرٹھ شیلا کے گھر پہنچ گئے۔ شیلا نے مصالحہ دوسہ، کئی قسم کی
سبزیاں، دال اور نہ جانے کیا کیا بنا کر رکھا تھا۔ کھانے پینے اور باتوں میں
آدھی رات ہو گئی۔ ہردیال اور شیلا نے عاقب سے پوچھا ۔” سادھو بابا سے تم
ملے۔ تم نے ان کو کیسا پایا؟“
عاقب نے کہا۔” سب ایک ہی بھگوان کے بندے
ہیں۔ سب اپنی عقل سےاللہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اپنی عقل سے تو آدمی اپنے
آپ کو بھی اچھی طرح نہیں سمجھ پاتا تو خالق کو کیسے جان سکتا ہے۔ خالق کو جاننے کے
لئے خالق سے رابطہ کی ضرورت ہے۔ خالق نور ہے۔ خالق کا نور روح کے ذریعے انسان کے
جسم سے گزرتا ہے ۔ آدمی کا جسم ایک چھلنی کی طرح ہے۔ اس چھلنی سے گزر کر اللہ کا
نور واپس روح میں منتقل ہو جاتا ہے جسم کا ہر مسام اللہ کے نور کو محسوس کرتا ہے
اور ان محسوسات کا اندراج روح کے اندر ہوتا ہے جسے حافظہ کہتے ہیں۔ اگر جسم کی
چھلنی کے سوراخ بند ہوں تو روشنی واپس روح کے حافظے میں نہیں پہنچتی۔ روشنی روح کی
صلاحیت ہے۔ روح کا ارادہ لا محدودیت میں
کام کرتا ہے۔ جب آدمی اپنے جسم کے مسامات
کو راکھ وغیرہ مَل کر ہر وقت بند رکھتا ہے تو مسامات سے روشنیاں باہر نہیں نکلتیں
اور اس طرح شعور کا رابطہ صرف جسم کے ساتھ قئم رہتا ہے یعنی مادی زون میں
وہ اپنے اندرآنے والی ہر روشنی کو مقید کر لیتا ہے۔ اس طرح آدمی کے سارے
اعمال مادی زون کی حد تک رہ جاتے ہیں اور روح کے شعور اور عالم نور میں نہیں
پہنچ پاتے۔“
ہردیال نے پوچھا۔” مگر سادھو بابا سے
بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ کسی کی بیماری دور ہو جاتی ہے، کسی کے کام میں
رکاوٹ دور ہو جاتی ہے، کسی کی ملازمت میں ترقی ہو جاتی ہے۔“
عاقب نے جواب ۔” میں اس سے انکار نہیں
کر رہا۔' مگر سارے کام دنیاوی ہیں اور حقیقت اس سے مختلف ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ
ہے کہ دنیاوی حد تک وہ لوگوں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں مگر روحانی صلحیتوں کو
پہچاننا اور کائناتی حقیقتوں کو سمجھنا ان کے لئے مشکل ہے۔“
پھر عاقب نے مزید کچھ کہنا مناسب نہ
سمجھا ۔ وہ جانتا تھا کہ بچپن کی طرزِ فکر ایک دن میں نہیں بدل سکتی۔ دوسری صبح وہ
آنند کے ساتھ کانپور واپس آگیا۔ راستے بھر اسے سمندگان کی یاد آتی
رہی اسے امید تھی کہ مولوی نصیر اللہ نے اچھی طرح رکھا ہوگا۔ وقت پر دانہ
پانی ضرور دیا ہوگا۔ وہ سیدھا مسجد میں پہنچا ، شام کا وقت تھا۔ مولوی صاحب اسے
دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور قبل اس کے کہ عاقب اپنے گھوڑے کی خیریت دریافت کرتا۔
مولوی صاحب خود ہی بول پڑے۔ عاقب میاں ! تمہارا گھوڑا تو بڑا ہی عقل مند ہے۔ ہم نے اس کا ہر طرح سے خیال رکھا۔ تمہیں فکر
کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جاؤ اپنے گھوڑے کو دیکھ آؤ۔ عاقب فوراً اُٹھ کھڑا ہوا۔
جیسے ہی سمندگان کے قریب آیا ۔ وہ خوشی میں گردن ہلا کے ہنہنانے لگا۔ عاقب نے اس
کے منہ پر اور اس کی پشت پر ہاتھ پھیر پھیر
کر اسے خوب پیا رکیا اور بولا۔” بس اب ہم صبح یہاں سے روانہ ہو جائیں گے۔
تمہیں زیادہ انتظار کی ضرورت نہیں ہے۔ رات اس نے مسجد میں گزاری۔ مولوی صاحب سے
عشاء کی نماز تک باتیں ہوتی رہیں۔ عاقب نے انہیں رحمٰن بابا کے متعلق سنایا اور
اپنے سفر کے لئے ان سے ضروری معلومات حاصل
کیں۔مولوی نصیر اللہ کہنے لگے۔” بہتر تو یہ ہے کہ تم یہاں سے سیدھے اجمیر شریف کے
لئے روانہ ہو جاؤ۔ سلطان الہند کی خدمت میں حاضری دو اس کے بعد گوا سے افریقہ کے
لئے بحری جہاز پکڑ لینا۔ اس طرح تم ہندوستان کے کافی شہروں کی سیر بھی کر لو گے۔“
عاقب کو مولوی صاحب کی رائے بالکل درست
معلوم ہوئی۔ اس نے خوش ہو کر کہا۔” مولوی صاحب آپ کے مفید مشورے کا شکریہ ۔ ان شاء
اللہ میں کل صبح ہی اجمیر شریف کے لئے روانہ ہو جاؤں گا۔ میرے لئے دعا کیجئے گا۔“
عشاء کی نماز اور اورادو اسباق سے فارغ ہو کر عاقب فوراً ہی سو گیا۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ سمندر پر
سفر کر رہا ہے۔ گھوڑا اسے اپنی پوری رفتار سے بھگائے لئے جا رہا ہے۔ مگر گھوڑے کی انتہائی رفتار کے باوجود بھی وہ گزر گاہ کی مختلف چیزیں
عمارتیں ، بازار ، درخت اور لوگوں کو دیکھتا جا رہا ہے۔ پھر اس نے دیکھا کہ وہ
بحری جہاز پر سفر کر رہا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک میں گھوم پھر کر لوگوں مل جل
رہا ہے۔ ملک ملک کی سیر کرنے کے بعد وہ پھر دوبارہ ہندوستان کی سرحد پر پہنچ جاتا ہے۔ جیسے ہی ہندوستان میں داخل ہوتا ہے،
خضر بابا سامنے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ خضر بابا ٹھہر جاتے ہیں اور اپنی
انگلی سے ایک جانب اشارہ کرتے ہیں۔ خضر بابا کی انگلی سے روشنی کی شعاع نکل
کر زمین پر پڑتی ہے۔ اس شعاع کی روشنی میں
ایک لڑکی
بیٹھی دکھائی دیتی ہے نہ جانے اس میں ایسی کیا بات تھی کہ
عاقب اسے دیکھتا ہی چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد عاقب کی نگاہ اس کے گلاب جیسے عارض پر
تل بن کر چپک گئی۔ گھبرا کے اس کی آنکھ
کھل گئی۔ آنکھ کھلنے کے ساتھ ہی وہ لڑکی اسی طرح کھلی آنکھوں کے سامنے دکھائی
دی۔ عاقب کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ کون ہو تم اور پھر وہ اپنی ہی آواز کے
ساتھ خواب کے لمحے سے باہر نکل آیا۔ خضر بابا کی روشنی اس کے سارے جسم میں کرنٹ بن کر دوڑنے لگی۔ وہ فوراً اُٹھ کر بیٹھ
گیا۔ خیالات تیزی سے اس کے دماغ میں آنے لگے۔ خضر بابا نے اس لڑکی کی شبیہ مجھے کیوں دکھائی۔ کیا مجھے دوبارہ
ہندوستان آنا پڑے گا۔ مجھے یہ لڑکی کہاں ملے گی۔
کیوں نہ میں خضر بابا سے اس کے متعلق مزید معلومات حاصل کر لوں۔ اس خیال کے
ساتھ ہی ذہن کی تیز چلتی گاڑی جیسے ایک دم سے رک گئی۔ اس نے آنکھیں
بند کیں اور خضر بابا کی جانب دھیان لگا دیا۔ کافی دیر ہوگئی۔ مگر اس کی
فکر اندھیرے میں اِدھر سے اُدھر گھومتی رہی تو اس نے یہ سوچ کر آنکھیں
کھول دیں کہ خضر بابا ضرور اپنی دنیا میں کہیں مصروف ہوں گے۔ جب ہی ان سے
رابطہ نہیں ہو پا رہا۔ خیر خود ہی اس کے اسرار عیاں ہو جائیں گے۔ اس کے ذہن میں
رحمٰن بابا کے الفاظ گونجے۔” بچے خواب وقت
کا لاشعوری لمحہ ہے۔ یہ ٹائم میں رونما
ہونے والی واردات ہے۔ وقت کی لہروں پر رونما ہونے والے یہی نقوش اسپین میں آ کر
مظہریت کا جامعہ پہن کر نظر کے سامنے ا
جاتے ہیں خواب اور بیداری حواس کے دو سمندر ہیں۔ یہ دو سمندر ساتھ ساتھ بہہ رہے
ہیں ان کا پانی اپنی اپنی حد میں بہتا رہتا ہے۔ دونوں سمندروں کی انفرادی آنا
انہیں ایک دوسرے کے اندر جزب ہونے سے باز رکھتی ہے انسان اللہ کی رحمت کی کشتی میں
سوار ہے۔ کشتی اسے دونوں سمندروں میں لئے پھرتی ہے۔ بندہ جب کشتی کو خود کنٹرول
کرنے کے قابل ہو جاتا ہے تو وہ دونوں حواس میں امر ربی کی تحریکات کا مشاہدہ کر
لیتا ہے۔ اللہ کی رحمت کی کشتی انسان کا ذاتی ارادہ ہے۔ جس کا استعمال اس پر امر
ربی کی سلاحیتیں منکشف کرتا ہے۔” رحمٰن بابا کے الفاظ کےساتھ ہی عاقب کو یقین ہو
گیا کہ رحمٰن بابا کے سونپے ہوئے کام میں اس
لڑکی کا رول ضرور ہے۔ اس کی
فکر کی گہرائی میں دور بہت دور ایک شمع جل
اُٹھی، برف کی سلوں کی تہہ میں دبے ہوئے
جذبات موم بن کر اہستہ آہستہ پگھلنے لگے۔ پگھلتے موم کا ہر قطرہ تل ابن کر عارض
گلفام پر ٹپکنے لگا، ایک انوکھی خوشی ،
ایک انجانی مسکان اکے روئیں روئیں کو جگانے لگی،
وہ اپنے ہی ادراک سے شرما گیا۔ صبح
ابھی وہ مولوی صاحب کے ساتھ ناشتہ کر ہی رہا تھا کہ آنند آگیا۔ عاقب نے اسے
اپنا پروگررام بتایا کہ وہ اجمیر شریف کے لئے
روانہ ہو رہا ہے تو آنند کہنے لگا۔” یہاں سے پہلے تم کو ٹرین سے دہلی جانا ہوگا پھر دہلی سے اجمیر شریف کی گاڑی تم
کو مل جائے گی۔“
عاقب
نے کہا۔” میں گاڑی سے نہیں بلکہ اپنے گھوڑے پر جاؤں گا۔“
آنند بولا۔” راستہ کافی لمبا ہے۔ گھو ڑے
کی دیکھ بھال صحیح طریقے سے ہونا مشکل ہے تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ گھوڑا
بیچ دو اور آرام سے سفر کرو۔“
عاقب نے فوراً کہا۔” نہیں نہیں یہ تو
میرے شیخ کا عطا کیا ہوا تحفہ ہے۔ میرے لئے مشکل نہیں آسانی کا باعث ہے۔“
وہ مولوی صاحب اور آنند سے گلے مل کر
رخصت ہوا۔ آنند نے کہا۔” دوبارہ تمہارا آنا ہو تو ضرور ملنا۔“
عاقب نے سمندگان کی پشت پر بیٹھتے ہوئے
دونوں کو دوبارہ خدا حافظ کہا اور روانہ ہو گیا۔ دوسرے دن اجمیر شریف پہنچ کر اس
نے حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ سلطان الہند کی درگاہ مبارک پر
حاضری دی۔ سفر کی آسانی کے لئے دعا کی اور اگلے سفر پر روانہ ہوا۔ اجمیر سے گوا
سفر کافی لمبا تھا۔ احمد آباد سے ہوتا ہوا وہ بمبئی پہنچ گیا۔ راستے میں کچھ ایسی
پریشانی نہیں ہوئی۔ مگر بمبئی پہنچ کر لوگوں کا اژدھام دیکھ کر وہ حیران رہ گیا۔
اس ہجوم میں سمندگان کے لئے تو چلنا بھی مشکل ہوگیا۔ پھر گاڑیوں کے دھوئیں نےساری
فضا کو ابر آلود بنا رکھا تھا۔ سمندگان نے
دو تین بار ہنہنا کے اپنی گردن ہلائی۔ عاقب سمجھ گیا کہ گھوڑا بھی اس کثیف فضا کے
خلاف احتجاج کر رہا ہے۔ یہاں کے لوگ اسے اجنبی نظروں سے گھورنے لگے۔ وہ جان گیا کہ
شہر کی مصروف زندگی میں لوگوں کو اتنی فرصت کہاں مل سکتی ہے کہ وہ اپنی ضروریات سے
ہٹ کر کسی اور طرف دھیان دے سکیں۔ اس مصروف ترین شاہراہ سے نکلتے ہوئے اسے تقریباً
دو گھنٹے لگ گئے۔ ایک گلی مُڑتے ہی بابو جی۔ بابو جی کی آواز نے اسے اپنی طرف
متوجہ کر لیا یہ کوئی دس بارہ سال کا لڑکا تھا۔ نیکر اور ٹی شرٹ پہنے ہوئے کسی
ہوٹل والے کا نوکر لگتا تھا۔ عاقب نے پوچھا تم کو کسی ایسی جگہ کا پتہ معلوم ہے
جہاں میں اپنے گھوڑے کے ساتھ رات گزار سکوں؟ وہ بولا۔” میں آپ کو ایک بہت
اچھی جگہ کا پتا بتا تا ہوں۔ آپ میرے ساتھ
چلئے۔ اسی گلی میں ایک چھوٹا سا ہوٹل
تھا۔جس میں عاقب کو رات گزارنے کا کمرہ مل گیا۔ گھوڑے کو اس لڑکے نے پیچھے صحن میں
باندھ دیا رات ہو چکی تھی۔ عاقب سخت تھکا ہوا تھا۔ کھانا کھاتے ہی سو گیا۔ رات کو
اس نے خواب میں دیکھا کہ رحمٰن بابا اس کمرے میں جہاں وہ سو رہا ہے آئے اور اس کے
اوپر اپنے کندھے سے شال اتار کر اوڑھا دی۔ رحمٰن بابا کی شال سے انرجی کرنٹ بن کر
عاقب کے اندر دوڑنے لگی۔ اس کا رُواں رُواں سوتے سے جاگ اُٹھا۔ آنکھ کھلی تو اسے
اپنے ارد گرد روشنی دکھائی دی۔ بے ساختہ اس کے منہ سے رحمٰن بابا کا نام
نکلا اور اس کے ساتھ ہی رحمٰن بابا کی بے پناہ محبت نے اسے بے چین کر دیا اسے یوں
لگا جیسے اس کا رواں رواں ایک دل ہے اور یہ دل رحمٰن بابا کو پکار رہا ہے۔ کچھ دیر
احساس کی گہرائی کی شدت میں رہنے کے بعد
عاقب کی عقل خود اپنی کیفات کی وجوہات تلاش کرنے لگی۔ اس کے ذہن نے کہا۔” رحمٰن
بابا کی روشنیاں میری ذات کی روشنیوں سے ملیں تو محبت کی کیفیت پیدا ہوئی۔ اس
کے دل نے عقل کی تائید کی۔ جب ایک ذات کی
روشنی دوسری ذات کی روشنی میں جذب ہوتی ہے تو
غالباًنے والی روشنیوں کے رنگوں سے مغلوب روشنیاں رنگین ہو جاتی ہیں۔ اس
نئے رنگ کو حواس کے دائرے جذب کر کے اس کی کیفیات کو محبت کی صورت میں اجاگر کرتے
ہیں۔ محبت کے یہ رنگ ذات کا جز بن جاتے ہیں اور ذات اسے اپنے سے کبھی جدا نہیں کرتی اس نے ایک لمبی سانس لی،
اسے اطمینان ہو گیا کہ رحمٰن بابا کی محبت
اس کی جان کا ایک حصہ ہے۔ جو اس سے کبھی
الگ نہیں ہو سکتا۔ صبح ہونے والی تھی۔ وہ نماز پڑھ کر اور ادو اسباق میں مصروف ہو
گیا۔ سورج طلوع ہونے کو تھا کہ ایک دم کمرے کا دروازہ زور زور سے دھڑ دھڑانے کی آواز آئی۔ ساتھ ہی اس لڑکے کے چلانے کی آواز
بھی آئی۔ ” بابو جی بابو جی۔ دروازہ کھولو۔“
عاقب گھبرا کے دروازے کی طرف بھاگا۔”
کیابات ہے بھئی؟۔ صبح صبح اتنی زور سے کیوں چلا رہے ہو؟“
وہ بولا۔” بابو جی ۔ آپ کا گھوڑا۔ کیا
ہوا میرے گھوڑے کو۔“ عاقب ایک دم بول پڑا۔
اس نے کہا۔” گھوڑے کی گردن سے خون بہہ رہا ہے۔“
عاقب اس سے زیادہ سن نہ سکا۔ چپل پہنی
اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ دوڑتا ہوا گھوڑے کے پاس پہنچا تو اس نے دیکھا سمندگان
چپ چاپ کھڑا ہے ۔ مگر اس کے گلے میں بندھی ہوئی رسی کی جگہ پر خون کا فوارہ نکل
رہا ہے۔ اتنا سارا خون دیکھ کر وہ گھبرا گیا۔ اوہ یہ کیا ہوا؟ اور پھر فوراً اپنی
ٹی شرٹ اتار کر زخم پر کس کے پکڑ لی۔ تاکہ
خون کا بہاؤ رک جائے اور لڑکے سے کہا۔” جاؤ جلدی سے کسی ڈاکٹر کو بلاؤ۔“
لڑکا ہوٹل کے مالک کو بلا لایا اس
نے لڑکے سے کہا۔” جا جلدی سے بدری چاچا کو
بُلا لا۔“
لڑکا گیا تو عاقب نے بتایا کہ۔” اس طرح
لڑکے نے مجھے آواز دی کیا آپ کو اس کے متعلق کچھ پتہ نہیں چلا کہ کس نے اسے زخمی
کیا؟۔“
ہوٹل کا مالک بولا۔” صاحب کچھ نہیں پتہ
چلا ورنہ پکڑا نہ جاتا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس تیز چاقو تھا۔ اندھرے میں رسی
کاٹنے کی جگہ گلے پر چھری چلا گئے۔ زخم گہرا معلوم ہوتا ہے۔ ورنہ اس قدر خون نہ
بہتا۔“
ایک لمحے کو عاقب کے ذہن میں وہ سین
گھوم گیا۔ جب چوری کرنے والوں کی نظر سے سمندگان غائب ہو گیا تھا۔ اس نے سمند گان
سے آہستہ سے کہا۔” سچ بتاؤ دوست کون تھے وہ لوگ جنہوں نے تمہیں اس بری طرح زخمی کر
دیا۔ تم غائب کیوں نہیں ہوگئے؟ عاقب اس کی آنکھوں میں اپنے سوال کا جواب تلاش کرنے
لگا۔ اسے یوں لگا جیسے سمندگان کہہ رہا ہے کہ اندھیرا تھا۔ صبح صادق کی خشک ہوائیں
مجھے میٹھی لوری سنانے لگیں۔ میں سو گیا۔ چاقو گلے پر چھبا تو میں نے نیند میں
گردن زور سے ہلائی ۔ جس کی وجہ سے چاقو
اور اندر چلا گیا۔ خون کا فوارہ اُبلا تو وہ بھاگ گئے۔“
اتنے میں بدری چاچا آگئے۔ کچھ سامان بھی
ان کے ساتھ تھا۔ ایک چھوٹا سا ٹین کا بکس
اور ایک چھوٹی بالٹی۔ جس میں کوئی
کالا سا مرہم نما چیز تھی۔ انہوں نے آتے ہی بکس زمین پر رکھا اور بولے۔” چوروں کا
کوئی دین ایمان نہیں ہے۔ جب چاہا جس کو چاہا لوٹ
لیتے ہیں۔ لوٹ نہ سکے تو برباد کر دیتے ہیں کہ دوسرے کے کام کا بھی نہ
رہے۔“ بدری چاچا کے ہاتھ زبان دونوں ایک
رفتار سے چل رہے تھے۔ انہوں نے مرہم گھوڑے کی گردن پر لگایا اور پٹی باندھ دی۔
ساتھ ساتھ مسلسل چوروں کو برا بھلا کہتے رہے۔ پھر عاقب سے بولے۔” برخودار۔ ہماری
مانو تو ایسا کرو کہ جب یہ ٹھیک ہو جائے تو اسے کسی ٹھکانے پر لگا دو۔ اتنا اچھا
گھوڑا رکھنا تو خود چوروں کو دعوت دینے والی بات ہے۔ تمہیں بار بار ایسے ہی حادثات سے گزرنا پڑے گا۔“
عاقب ایک لمحے کو سوچ میں پر گیا۔ دوسرے
لمحے اس کے ذہن میں رحمٰن بابا کی شبیہ ابھری۔ اس کا دل یہ سوچ کر مطمئن ہو گیا کہ
اس کے متعلق رحمٰن بابا ہی کچھ مشورہ دے
سکتے ہیں۔ وہ بدری چاچا سے بولا۔” چاچا آپ کا کہنا بالکل درست ہے میں اس بات پر غور کروں گا۔“ اس نے گھوڑے کے
چہرے اور پشت پر پیار سے ہاتھ پھیرے اور سمندگان سے بولا۔” دوست جلدی ٹھیک ہو جاؤ۔
سفر تو ہمیں کرنا ہی ہے۔ میں ابھی آتا
ہوں۔“
وہ کمرے میں آیا اور کپڑے بدلنے لگا کہ
دروازے کے قریب ہی ہوٹل کے مالک کے بات کرنے کی آواز آئی۔ وہ کسی آدمی سے کہہ رہا
تھا۔” کام تو پورا ہوا نہیں تم پیسے کاہے کے مانگ رہے ہو۔“
دوسرا آدمی بولا۔” ہم نے تو اپنی طرف سے
کام پورا کر دیا۔ وہ زخمی ہو گیا تو ہم کیا کریں۔“
زخمی کا لفظ سن کر عاقب کے کان کھڑے
ہوگئے، ضرور یہ سمندگان کی بات کر رہے ہیں۔ شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ میں ابھی تک
باہر ہی ہوں۔ مالک ذرا تیز ہو کر بولا۔ مگر جب گھوڑا میرے ہاتھ نہیں آیا تو میں
تمہیں رقم کیسے دے سکتا ہوں۔“
وہ آدمی بولا۔” میں تم سے کونسی گھوڑے
کی قیمت مانگ رہا ہوں۔ تم نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ کام ہو یا نہ ہو۔ ہزار روپیہ
تم کو ضرور مل جائیں گے۔ پھر اپنی بات سے کیوں مکر رہے ہو۔ تم کو دھندا کرنا نہیں
اتا۔ مجھ کو ناراض کر کے تم اپنا کام چلا
نہیں سکو گے۔“
ہوٹل کے مالک نے جیسے ہار مان کر کہا۔”
اچھا لے یہ ہزار روپیہ لے اور یہاں سے چلا جا۔ گھوڑے کا مالک آتا ہی ہوگا سامنے
وال کمرہ اسی کا ہے۔“
یہ گفتگو سن کر عاقب سُن سا ہو گیا۔ اب
اسے یہاں ایک پل ٹھہرنا مشکل لگنے لگا۔ اس نے
آنکھیں بند کیں اور رحمٰن بابا کو
پکارا۔ رحمٰن بابا ! اب میں کیا کروں سمندگان کافی زخمی ہے۔ اس کے لئے سفر کرنا
ٹھیک نہیں ہے۔ میں اسے ایسی حالت میں کہیں چھوڑ بھی نہیں سکتا۔ اس کی بند آنکھوں
کے سامنے رحمٰن بابا آگئے۔ کہنے لگے۔ تم سمندگان کے دونوں کانوں میں تین تین بار
یہ جملہ دہراؤ۔ سمندگان تمہیں رحمٰن بابا نے بلایا ہے۔ وہ خود ہی میرے پاس آجائے
گا۔ تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عاقب کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ ” شکریہ
رحمٰن بابا۔“
وہ اپنا بیگ اُٹھا کر نیچے آگیا۔
سمندگان کی لگام پکڑ کر اسے چلنے کا حکم دیا وہ لڑکا اس کے پیچھے پیچھے آگیا۔ کہنے
لگا۔” مالک کہتا ہے۔ ناشتہ تو کر کے جاؤ۔ “ عاقب نے کہا۔” اپنے مالک سے کہو۔ ہم
نے صبح اپنے کمرے میں ناشتہ کر لیا ہے اب
اور گنجائش نہیں ہے۔ اس کا اشارہ ہوٹل کے مالک اور گھوڑا چور کی گفتگو کی طرف تھا۔
مگر لڑکا بھلا کیا سمجھتا،۔ وہ واپس چلا گیا کہ بابو نے تو کمرے میں ناشتہ کر لیا
ہے۔
وہ بمبئی کی گنجان گلیوں سے گزرتا ہوا
ایک قدرے ویران جگہ پر آگیا۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔۔
وہاں کوئی نہ تھا۔ اس نے جلدی سے گھوڑے کے دونوں کانوں میں رحمٰن بابا کا کہا ہوا
جملہ دہرایا۔ سمندگان نے گردن جھکا کر تھوڑی سی آواز نکالی اور دیکھتے ہی دیکھتے
غائب ہو گیا۔
عاقب کو افسوس تو بہت ہوا مگر ساتھ
اطمینان بھی تھا کہ رحمٰن بابا کے یہاں اس کی دیکھ بھال اچھی ہو جائے گی۔ وہ اب
یہاں سے جلد ہی نکلنا چاہتا تھا۔ راستے میں ایک چنے کے ٹھیلے سے اس نے گرما گرم
چنے لئے اور اسی چنے والے سے اسٹیشن کا راستہ پوچھ کر اس کی جانب چل پڑا۔ اسٹیشن
سے اس نے گوا کی ٹرین پکڑ لی اور چار بجے تک وہ گوا پہنچ چکا تھا۔ اس نے سوچا آج
رات تو مجھے یہاں ہی گزارنی چاہیئے۔ وہ اِدھر اُدھر پھرتا رہا کہ رات ہونے سے پہلے
پہلے کہیں رہنے کا ٹھکانہ مل جائے۔ پیسے اس کے پاس بہت تھوڑے رہ گئے تھے۔ رحمٰن
بابا نے اسے ایک دست غیب کا عمل بتایا تھا۔ مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ بچے
پہلے محنت مزدوری ڈھونڈ لینا۔ خون پسینے کی کمائی
اللہ تعالیٰ کو خوش کرتی ہے۔ بہت ضرورت ہو تب ہی یہ عمل کرنا۔ اس نے سوچا۔
مجھے رات کو اگر کہیں سونے کی جگہ مل گئی تو صبح اُٹھ کر میں بندر گاہ پر کچھ کام
کر لوں گا۔ شاید جہاز والے مجھے کوئی کام دے دیں۔ گھومتا گھماتا وہ بندر گاہ پہنچ
گیا۔ وہاں کتنے ہی لوگ اپنے سامان کے ساتھ بیٹھے اور لیٹ نظر آئے۔ عاقب خوش ہو گیا
کہ رات گزارنے کا سامان تو ہوا۔ اس نے کچھ کھا پی کر فارغ ہو کر بحری جہاز کے
متعلق معلومات شروع کر دی۔ ایک شخص نے بتایا۔” کل شام ۵ بجے یہاں سے جہاز موز مبیق
کے لئے روانہ ہو رہا ہے۔ پہلے یہاں سے وہ مڈغا سکر جائے گا اور پھر موزمبیق جائے
گا۔“
عاقب نے سوچا قدرت نے اس کے لئے اچھا
موقع فراہم کر دیا ہے۔ اس شخص نے کہا۔” میں اس جہاز پر کام کرتا ہوں۔ اگر اس جہاز
پر جانا چاہتے ہیں تو آپ کے لئے ٹکٹ کا
بندوبست ہو جائے گا۔“
عاقب نے پوچھا۔” کیا وہاں مجھے کام مل
سکتا ہے۔ میرے پاس پیسے بہت ہی تھوڑے رہ گئے ہیں۔“
وہ کوئی بھلا آدمی تھا کہنے لگا۔” دوست
گھبراؤ نہیں کہاں سے آئے ہو؟“
عاقب نے اپنا مختصر سا حال بتایا اور
کہا کہ میں اپنے شیخ کے حکم پر دنیا کی سیر کرنے نکلا ہوں۔ وہ شخص نائیجیریا کا
تھا اس کا نام اسماعیل تھا۔ باتوں کے دوران اس نے بتایا کہ وہ اس شپ پر دس سال سے
کام کر رہا ہے۔ وہ اس شپ کا نیویگیٹر ہے اور کیپٹن سے کہہ کر کوئی آسان سا کام
اسے دلوا دے گا۔ اسماعیل نے اسے ٹکٹ دلوا
دی۔ وہ رات عاقب نے بندر گاہ کے ویٹنگ ہال میں گزار دی۔ کچھ سو کر کچھ جاگ کر یہ
رات گزر ہی گئی۔ صبح ابھی وہ ناشتے سے
فارغ ہو کر شہر میں گھومنے کے لئے ویٹنگ روم سے نکل ہی رہا تھا کہ دروازے میں
اسماعیل مل گیا۔ اسے دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا
اور کہنے لگا ” میں تمہیں ہی بلانے آرہا تھا۔ میں نے کیپٹن سے تمہارے لئے
بات کی تھی۔“وہ کہنے لگے۔” اسے یہاں لے
آؤ۔ اس وقت جہاز پر مال لوڈ ہو رہا ہے۔
انہیں کسی کام پر لگا دیتے ہیں۔“
عاقب دل ہی دل میں اللہ میاں کا شکر اور
رحمٰن بابا کی توجہ و مہربانی پر شکر ادا کرتا ہوا اسماعیل کے ساتھ چل پڑا۔
اسماعیل نے اسے کیپٹن سے ملایا۔ کیپٹن نے بھر پور نظر سے اس کا جائزہ لیا۔ جیسے
اسے اندر باہر سے جاننے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ ایک جہاندیدہ آدمی تھا۔ چند لمحے
گہری نظروں سے عاقب کو دیکھنے کے بعد کیپٹن مسکرا کے بولا۔” برخودار ماشاء اللہ تم
تو بڑے ہینڈسم اور صاف ستھرے آدمی معلوم
ہوتے ہو کہو ہم تمہارے کیا کام آسکتے ہیں؟“
عاقب نے کہا۔” یہ آپ کی عنایت ہے جو آپ
نے مجھے اچھا جانا۔ میں افریقہ جانا چاہتا ہوں اور اس کے لئے کچھ پیسے درکار
ہیں۔ اگر آپ کوئی کام دے دیں تو میرے لئے سفر کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔“
کیپٹن نے کہا۔” اس وقت جہاز پر مال لادا
جا رہا ہے۔ تم لسٹ کے مطابق اس کی دوبارہ چیکنگ کر دو۔“
کیپٹن نے اسماعیل کو کہا کہ وہ عاقب کو لے جائے۔ سارا دن جہاز چلنے تک عاقب کام
کرتا رہا۔ کئی چیزیں لسٹ میں شامل تھیں مگر سامان نہیں تھا۔ بالآخر شام چار بجے تک
سارا مال لوڈ کر دیا گیا۔ کیپٹن عاقب سے بہت خوش ہوا کہ اس نے بڑی محنت سے کام کیا
ہے۔ پانچ بجے جہاز چل پڑا۔ عاقب کو ایک برتھ مل گئی۔ وہ شخص تھکا ہوا تھا فوراً ہی
لیٹ کر سو گیا اور دو گھنٹے بعد کسی نے اسے ہلا کر جگا دیا۔ جہاز کا بیڑا تھا۔
کہنے لگا۔”صاحب نے آپ کے لئے کھانا بھیجا ہے۔“
عاقب
فوراً اُٹھ بیٹھا۔” کون صاحب؟“ کہنے لگا۔” کیپٹن صاحب نے بھیجا ہے۔“
” اوہ اچھا۔ انہیں ہمارا شکریہ کہہ دینا۔“
٭٭٭