Topics

(گیارہویں قسط)

عاقب سوچنے لگا۔ امرِ ربی روح یا انسان پر اللہ تعالیٰ کا امر اُترتا ہے۔ اس حکم پر انسان اپنے اپنے اختلافات اور رسوم و رواج کی مختلف قسمیں اس وجہ سے ہیں کہ انسان لامحدودیت میں روح پر نازل شدہ امر کو محدود دنیا  میں عملی جامہ پہناتا ہے۔ محدود و عقل دراصل روح یا امرِ ربی کی عقل کا ایک جز ہے۔ جو روح کی نگاہ کا ایک زاویہ اور حواس اور فکر کی ایک یونٹ ہے۔ روح کُل ہے تو مادّی نفس روح کا جز ہے۔ پس ہر جز اپنے ہی زاویہ نگاہ اور فکر کا مظاہرہ  کرتاہے۔ جب جز کو کل سے وابستہ کر دیا جاتا ہے تو پھر امرِ ربی کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ جب جز کُل سے وابستہ نہیں ہوتا تو آدمی پر اس کے مقصد اور امرِ ربی الہٰی کی حکمت و منشا واضح نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے اس کے اندر تشنگی باقی رہتی ہے اور وہ اس کام کی حرکت کو بُرا جانتا ہے اور اس کو اپنے یا دوسرے کے کام میں خامی  دکھائی  دیتی ہے۔ قدرت نے انسان پر عائد شدہ ذمہ داریوں اور بشری طرز زندگی کے امور پر اپنی منشاء و ارادے کا اظہار قرآن میں واضح طور پر بیان کر دیا ہے۔ آدم کے بیٹے ہابیل اور قابیل تھے قصے میں لاش کو دفن کرنے کا طریقہ بتایا گیا کہ ایک کوے نے چونچ سے زمین کھودی تو اس عمل سے آدم کے بیٹے  ذہن  میں اپنے بھائی  کی لاش کو زمین پر دفن کرنے کا خیال آیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ لاش زمین میں دفن کرنے کا طریقہ سب سے زیادہ احسن و مسنون ہے اور امرِ  الہٰی کے عین مطابق ہے۔ مخلوق کا ذہن جب فطرت سے ہم اہنگ ہو جاتا ہے تو اللہ کا امر اس کے ارادے کی حرکت بن جاتا ہے اور امر کی حکمتیں ذہن پر واضح ہو جاتی ہیں۔

          برازیل کے جنگلات میں بسنے والے انسان بھی قحشی اور جنگلی جانوروں سے کم نہ تھے ۔ ان کے قلب لطیف جذبات سے یکسر خالی تھے۔ ان کی زندگی جنگل میں بند تھی اور ان کے حواس پر جنگل کی روح چھائی  ہوئی تھی ۔ جسے وہ ہرحال میں خوش رکھنا چاہتے تھے۔ کسی وقت شکار نہ ملتا ۔ یا پسند یدہ شکار ہاتھ سے نکل جاتا تو سب کے ذہن میں یہ بات آجاتی کہ آج جنگل کی روح کو اس نے ناراض کیا ہے کوئی بچہ یا جوان مر جاتا تو بھی  ان کا ذہن  اسی طرف جاتا۔ وہ جنگل کی روح کو دیوتا یا خدا مانتے اور اسے خوش رکھنا  اپنا فرض سمجھتے ۔ جنگل کی روح کو خوش کرنے کے طریقے بھی بڑے وحشیانہ اور عجیب و غریب تھے۔ وہ لوگ اپنے برہنہ جسموں کو طرح طرح کے رنگو ں سے پینٹ کرتے۔ یہ رنگ بھی انہیں  درختوں سے حاصل ہوتے۔ پھر وہ پرندوں کے خوبصرت پروں اور جانوروں کی مختلف ہڈیوں سے اپنے جسموں کو سجاتے اور مختلف جری بوٹیوں سے نکالے ہوئے عرق کی شراب پیتے۔ جس سے ان کے اوپر نشہ سا چھا جاتا۔ پھر وہ الاؤ جلا کر اس کے ارد گرد ڈانس کرتے اور خوب شور مچاتے ان کا کہنا تھ کہ جب جنگل میں دور دور تک ان کی آواز پہنچتی ہے تو جنگل کی روح ان سے خوش  ہوتی ہے۔

          ان کے ان نظریات کو جان کر عاقب سوچنے لگا۔ کائنات کے ذرّے ذرّے میں فطرت کام کر رہی ہے۔ فطرت تو اللہ  کے نور کی صفت ہے جو بدل نہیں سکتی۔ اس کے ذہن میں اپنے ابو کی آواز گونجی۔ایک مرتبہ انہوں نے کہا تھا۔” بیٹا اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ آسمانوں اور زمینوں کی ہر شئے اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر رہی ہے۔ یعنی ہر شئے کے اندر ایک ایسا شعور و عقل موجو د ہے جو اپنے خالق کو پہچانتی ہے۔ اپنے رب کی پہچان کے ساتھ ساتھ اس عقل کے اندر اپنے رب کی عظمت و جبروت کے اعتراف و اقرار کرنے کا تقاضہ بھی موجود ہے۔ اسی تقاضے  کےتحت آسمانوں اور زمینوں کی ہر شئے اللہ تعالیٰ  کی تسبیح کر رہی ہے۔ یہ فطری تقاضہ جب مادّی عقل میں منتقل ہوتا ہے تو اپنے اظہار پرستش کے لئے معبود کی تلاش و جستجو کرتا ہے۔ روح کے تقاضے کو روح کا ذہن ہی صحیح معنی پہنا سکتا ہے۔ مگر عام طور سے ہوتا یہ ہے کہ روح کا تقاضہ جب  مادّی شعور میں منتقل ہوتا ہے تو آدمی اس تقاضے کو مادّیت سے منسوب کر دیتا ہے اور اس کی تکمیل کے لئے مادّی وسائل و ذرائع استعمال کرتا ہے تاکہ مادّی عمل مطمئن ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ مادّی عقل کے اطمینان کی خاطر  لوگوں نے ایک اللہ کو چھوڑ کر کائنات کی مختلف چیزوں کو خدا کا درجہ دے دیا۔ بیٹا یاد رکھنا۔ روح کا تقاضہ اللہ تعالی کے امر کی روشنیوں کو جذب کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔  روح اللہ کے ارادے میں اپنے ارادے کو شامل کر دیتی ہے۔ تب ہی کام انجام پاتا ہے۔ اسی اصول کے تحت جب آدمی اپنی روح کے ارادے میں اپنا ارادہ شامل کرتا ہے تب کام کی تکمیل  منشائے الہٰی کے مطابق ہوتی ہے۔ ورنہ عمل صرف جسمانی حرکت بن کر رہ جاتا ہے۔ بعض وقت نیک اعمال بھی صرف جسمانی وظیفہ بن کر رہ جاتے ہیں۔ ان کے اندر سے روح کے ارادے کی روشنی نکل جاتی ہے۔ صرف مادّی عقل کی روشنی میں یہ اعمال عمل میں  آتے ہیں۔ ایسے اعمال میں نماز، روزہ ، حج، زکوٰۃ ، خیرات ، صدقہ، ایثار ، قربانی سارے ہی وہ احکامات ہیں جو نوع انسانی کو دوسری مخلوقات سے ممتاز کرتے ہیں۔ بیٹا! یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا کہ اللہ لامحدود ہے اللہ کا امر لامحدود ہے۔ امرِ ربی ' روح یا انسان پر اللہ کے امر کا نزول ہوتا ہے تاکہ روح لامحدودیت کو پہچان کر اللہ تعالیٰ کے حکم کو کائنات کی لامحدود وسعتوں میں پھیلائے۔ آدمی جب اللہ کے حکم کو صرف جسمانی حرکت تک محدود کر لیتا ہے اور اس حرکت کے پسِ پردہ روح  کی حرکات کا مشاہدہ نہیں کرتا تو جسم اور روح کی حرکات کے درمیان خلاء  آجاتا ہے۔ اس خلاء میں مادّی روشنیاں اگر غالب آگئیں تو آدمی کے اعمال میں نفسانی خواہشات اور ہوائے نفس کے تقاضوں کا غلبہ ہو جاتا ہے اور پھر روح کی روشنیاں اس خلاء سے لوٹ جاتی ہیں۔ شعور لامحدود وستعوں میں اسی وقت داخل ہوتا ہے جب مادّی روشنیوں میں روح کا نور شامل ہو جاتا ہے اور مادّی روشنیوں اپنی کثافت کو کھو کر نور انیت میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ سوائے نفس کے تقاضے روح کے نور کو رد کر کے اپنے گرد مادّی روشنیوں کا کثیف جال بُن  لیتے ہیں۔ پھر آدمی کی تمام حرکات اس جال کے اندر محدود ہو جاتی ہیں۔“

          عاقب سوچنے لگا ابو نے صحیح کہا تھا۔ روح امرِ ربی ہے اور  امرِ ربی کے کسی بھی تقاضے کو ہم صرف جسم کی حد تک کیسے محدود کر سکتے  ہیں۔ اصل تو یہ ہے کہ جسم کی ہر حرکت ہمیں روح کی حرکات کی جانب متوجہ کر رہی ہے۔ اس کا جی چاہا ۔ کچھ عرصے جنگل میں رہ کر اپنی روح کے تقاضوں اور جسمانی حرکات  پر غورو فکر کرے تاکہ روح اور جسم کے درمیان ایسا تعلق قائم ہو جائے جس ربط کے ذریعے روحانی مشاہدات ہوتے رہیں اور روح کی غیب میں حرکات و سکنات کا مشاہدہ ہوتا رہے۔ اس خیال نے اس کے اندر ایک جوش و ولولہ پیدا کر دیا۔ وہ بستی کے سردار کے پاس پہنچا اور اسے اشاروں سے بتایا کہ وہ یہاں مزید کچھ دن رہنا چاہتا ہے۔ مگر وہ بستی کی بجائے جنگل میں رہ کر  عبادت کرنا چاہتا ہے۔ سردار نے اپنے دوآدمیوں کو عاقب کے ساتھ بھیج دیا اور وہ اسے جنگل میں ایک محفوظ جگہ پر چھوڑ آئے۔ جہاں درندوں کا گزر نہیں تھا۔ درخت کے نیچے سوکھی پتیاں اور سوکھی گھاس کو پھیلا کر عاقب نے اپنے لئے بچھونا بنا لیا۔ جنگل میں مراقبہ کرنے کا لطف ہی کچھ اور تھا۔ چڑیوں کی سریلی آوازیں فضا میں فطرت کا ترنم بن کر ابھرتی رہیں۔ دو تین دن میں ہی عاقب کو یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ جنگل کی ہر شئے کو جانتا ہے۔ پیڑ، پودے، جانور، پرندے سب کے ساتھ اس کا ذہنی  تعلق ہے۔ درختوں اور جنگلی بوٹیوں نے اپنے اندر چھپی حکمتوں کے راز اس پر کھول دیئے۔ چند  ہی دنوں میں وہ جنگل کی روح سے واقف ہو گیا۔ وہ روح جس کے اندر جنگل کی تمام حکمتیں چھپی ہوئی تھیں۔ وہ حیران تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جنگل کے درختوں میں کھانے پینے کا سارا سامان جمع کر رکھا ہے۔ کتنے درخت ہیں جو پانی کے چشمے اپنے اندر چھپائے ہوئے ہیں۔ تاکہ اس کی مخلوق جنگل میں بھی پیاسی نہ رہنے پائے۔ کتنے درخت ہیں جو لذیز پھلوں سے آراستہ ہیں۔ تاکہ مخلوق کی بھوک کا انتظام ہو سکے۔ اسے رحمٰن بابا کی بات  یاد آگئی۔ وہ کہتے تھے ۔” بچے اللہ تعالیٰ رب ہے۔ اس کی ربوبیت کا نظام پوری کائنات میں پھیلا ہوا ہے۔ کائنات کا کوئی چپہ ایسا نہیں ہے۔ جہاں اللہ کی مخلوق اللہ کے رزق سے محروم رہ جائے۔

           ایک دن صبح کی ملگجی  روشنی میں وہ مراقبہ کر رہا تھا کہ ایک منظر اُس کی نگاہوں کے سامنے آگیا کہ وہ زخمی حالت میں کسی پہاڑی علاقے میں موجود ہے۔ وہ بے ہوش ہے اور ایک لڑکی اس کی تیمار داری کر رہی ہے اس کی ریشمی زلفیں اس کے رخساروں پر لہرا رہی ہیں۔ اتنے میں اس نے اپنے سر کو جھٹکا دیا۔ لیکن رخسار کا سیاہ تل زلفوں کے ریشمی نقاب سے جھانکنے لگا۔ عاقب کا دل زور سے دھڑک اُٹھا۔ اس نے گھبرا کے  آنکھیں  کھول دیں۔ اس کے بعد اس  سے بیٹھا نہ گیا۔ اس کے ذہن میں بہت سے سوالات آرہے تھے۔ وہ کون  سا پہاڑی علاقہ ہے۔ میں کیسے زخمی ہو گیا۔ وہ لڑکی کہاں سے آئی۔ وغیرہ وغیرہ  اس نے اسی وقت اپنے کپڑے جھاڑے اور بستی کی جانب روانہ ہو گیا۔

          ان آدمیوں نے جو اسے یہاں چھوڑنے  آئے تھے۔ درختوں پر نشان لگا دیئے تھے۔ تاکہ عاقب کو واپسی میں دقت نہ ہو۔ کچھ ہی دیر میں ان نشانات کی مدد سے عاقب بستی پہنچ گیا۔ سارے لوگ اس کے گرد جمع  ہو کر ڈانس کرنے لگے اور خوشی کا اظہار کرنے لگے۔ عاقب کو یہ سمجھتے ہوئے کچھ دیر نہ لگی کہ یہ لوگ اسے مذہبی پیشوا کا درجہ دے رہے ہیں۔ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی سفارش جنگل کی روح سے کرنے گیا تھا اور جنگل کی روح کو منانے اور خوش کرنے کے لئے گیا تھا۔ عاقب نے ان چہروں کی طرف غور سے دیکھا ۔ وہ جان گیا کہ یہ سب جنگل کی روح کے تصور میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ان کی ساری ضروریات ِ زندگی جنگل سے پوری ہو رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے زہنوں میں جنگل سے زیادہ اور کسی چیز کی اہمیت و عظمت نہیں سما سکتی۔ اس نے اشارے سے انہیں کہا کہ جنگل کی روح تم سب سے بہت خوش ہے اور وہ تم سے کبھی بھی ناراض نہیں ہوگی۔ پھر وہ انہیں خوشیوں کے جشن مناتا ہوا چھوڑ کر بستی سےآگے بڑھ گیا۔

           اب کے اس کا پڑاؤ پیرو میں تھا۔ اس نے دیکھا کہ پیرو میں بیس ہزار  فٹ کی بلندی پر پہاڑوں پر لوگ رہتے ہیں۔ اونچے اونچے پہاڑوں پر چھوٹی چھوتی سی بستیاں لوگوں نے  آباد کر لی ہیں۔ ایک پہاڑ کی چوٹی پر پانچ سو پچاس سیڑھیاں چڑھ کر بستی تھی۔ اس چھوٹی سی بستی میں اون کی  ٹوپیوں بُننے کی انڈسٹری تھی۔ گھر گھر عورتیں اون کی ٹوپیاں بُنتی   دکھائی  دیں۔ سردی کی وجہ سے انہیں اس کی ضرورت تھی وہاں کے رواج کے مطابق شادی شدہ لڑکے اور لڑکیاں سُرخ رنگ کی ٹوپی پہنتے اور غیر شادی شدہ لڑکے اور لڑکیاں لال ٹوپی میں سفید رنگ پٹی والی ٹوپی پہنتے۔ یہ لوگ بھیڑیں پالتے اور کھیتی باڑی کرتے تھے۔ اس کے علاوہ تمام پہاڑی علاقوں کے لوگ یہاں پر کوکو کے پتے کھاتے  دکھائی  دیئے اور ان پتوں کو پیس کر منہ پر بھی ان کا لیپ لگاتے نظر آئے۔ عاقب کو بھی ایک آدمی نے کوکو کے پتے چبانے کو دیئے۔ اس نے بتایا کہ پہاڑ کی اونچائی  پر ہوا کے دباؤ کی وجہ سے سانس لینے میں دقت پیش آتی   ہے۔ کوکو کے پتے چبا کر  اور منہ پر ان کا لیپ لگانے سے سانس کا سسٹم درست رہتا ہے۔ اس معلومات پر عاقب کو اپنی ماں کی ایک بات یاد آگئی۔ وہ ہمیشہ کہا کرتی تھی ۔” بیٹا!انسان تو خود چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا ہے۔  اگر آدمی اپنے اندر   کی کتاب کو پڑھنا سیکھ لے تو باہر کی تمام کتابیں بھی وہ آسانی سے پڑھ لے   گا۔ کیونکہ باہر کی تمام کتابیں بھی اس کے اندر انسائیکلو پیڈیا میں درج ہیں۔

          عاقب کو ملک در ملک گھومتے ہوئے ڈیڑھ سال گزر گئے۔ وہ وینیزویلا میں تھا کہ ایک رات کے پچھلے پہر نیند سے اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔ اسی وقت خضر بابا کمرے میں  دکھائی  دیئے۔ ان کی روشنی سے کمرہ روشن ہو گیا۔ عاقب خضر بابا کہتے ہوئے ایک دم سے بستر پر  اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ خضر بابا کے ہاتھ میں ایک قندیل تھی۔ یہ قندیل انہوں نے عاقب کی طرف بڑھائی۔ عاقب نے اس قندیل کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ خضر بابا بولے۔” تجھے اس قندیل کی روشنی میں چلنا ہے۔ عاقب بالکل بے حس و حرکت بیٹھا تھا۔ اس کے تمام حواس خضر بابا کی جانب متوجہ تھے اب خضر بابا آگے  بڑھ کر عاقب کے بالکل قریب آگئے۔ انہوں نے عاقب کی پیشانی پر پھونک ماری۔ عاقب کو یہ پھونک اپنے سینے میں اترتی محسوس ہوئی۔ اس کی  آنکھیں  کھلی ہوئی تھیں اور وہ خضر بابا کو دیکھ رہا تھا مگر اس کے ساتھ ہی وہ خضر بابا کی پھونک کو بھی اپنے اندر داخل ہوتا  ہوا دیکھ رہا تھا۔ پیشانی سے خضر  بابا کی  پھونک کی روشنی دماغ میں داخل ہوئے۔ اس کا دماغ روشن ہو گیا۔ پھر یہ روشنی اس کے سینے میں داخل ہوگئی۔ وہ اسے اپنے اندر جاتا ہوا دیکھ رہا  تھا۔ جب یہ روشنی اس کے اندر پورے جسم میں داخل ہو گئی تو اسے اپنے اندر ناف سے سینے تک وہی قندیل  دکھائی  دی جو خضر بابا نے ابھی اس کے ہاتھ میں دی تھی۔ اس کی نظر اپنے ہاتھ کی طرف گئی ۔ تو ہاتھ میں ابھی تک قندیل  موجود تھی۔ اسی  لمحے خضر  بابا آنکھوں سے اوجھل ہو گئے اور کمرے میں پہلے کی طرح اندھیرا چھا گیا۔ عاقب نے اپنے ہاتھ کی طرف   دیکھا۔ جس میں قندیل تھی۔ وہ قندیل بھی غائب تھی۔ اس نے مزید یقین کے لئے اپنے دونوں ہاتھ ملے۔ مگر قندیل نہیں تھی۔ اب اس نے  آنکھیں  بند کر کے اپنی توجہ اپنے اندر کی۔ تو اندر اسے قندیل جلتی ہوئی  دکھائی  دی۔ اسے اپنے اندر خضر بابا کی آواز سنائی  دی۔” بچے! جس قندیل کو قدرت جلائے اسے کوئی بجھا نہیں سکتا۔ اس کی حفاظت کر۔ عاقب کا سر سجدے میں جھک گیا۔” یا اللہ میری مدد کرنا۔ خضر بابا میری رہنمائی  کرنا۔“

          وہ بستر سے اُٹھا اور وضو کر کے نماز پڑھی اور مراقبہ میں بیٹھ گیا۔ اس نے دیکھا کہ خضر بابا ہاتھ میں قندیل لئے ایک سیدھے راستے پر جا رہے ہیں۔ خضر بابا نے ایک نظر مُڑ کر عاقب کی طرف دیکھا اور پھر آگے  چلنے لگے۔ عاقب خضر بابا کی آنکھ کا اشارہ سمجھ گیا اور خضر بابا کے پیچھے چلنے لگا۔ بہت دور جا کر خضر بابا ایک مقام پر رک گئے۔ انہوں نے کھڑے ہو کر سامنے دیکھا۔ ان کے سامنے ایک بستی تھی۔ اب دوبارہ خضر بابا نے مڑ کر عاقب کی طرف دیکھا۔ عاقب جان گیا کہ خضر بابا چاہتے ہیں کہ عاقب اس بستی میں داخل ہو جائے۔ اس نے ایک قدم آگے  بڑھایا اور اگلے ہی لمحے وہ اس بستی کے اندر تھا۔ وہ فوراً پہچان گیا کہ یہ انڈیا ہے۔ اس کے بعد مراقبہ  کا سارا منظر آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔

          صبح ہوتے ہی وہ سارا دن انڈیا کے سفر کی معلومات اکٹھی کرتا رہا کہ اس کے لئے انڈیا جانے کا کون سا روٹ زیادہ مناسب رہے گا۔ اسے وینیز ویلا سے مصر کی فلائٹ مل گئی۔ جو اگلے دن جانے والی تھی۔اسے رحمٰن بابا یاد آگئے۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا تھا کہ” دنیا کی ہر شئے ایک بند دروازہ ہے۔ جب اس بند دروازے کو کھولو گے تو اس کے اندر تمہیں پورا عالم  دکھائی  دے گا۔ ایسا ہی ایک دروازہ اہرامِ مصر ہے۔ بچے تو نے تصویر میں ضرور پیرامڈ دیکھے ہوں گے۔ پیرامڈ کی ساخت ٹرائی  اینگل یا مثلث کی ہے۔ اس دنیا  کے

تمام نقش و نگار حرکت کی لہروں کی مخصوص ترتیب سے وجود میں آئے ہیں۔ اس مخصوص ترتیب کو نقش کی صورت میں قائم رکھنے والی انرجی اللہ کا نور ہے۔ جو روح کے ذریعے اس مخصوص نقش کو فیڈ کرتا ہے۔ نقش شئے کا شعور یا جسم ہے اور روشنی شئے کی روح ہے۔ جسم اور مادی شعور محدود ہے۔ مگر مادی شعور جسم کو فیڈ کرنے والی روشنی لامحدود ہے۔ جس کا سورس اللہ ہے۔ اللہ تعالی ٰ کا نور روح کے ذریعے ساری کائنات میں پھیلتا ہے پھر زمین پر مادی شعور سے گزرتا ہوا دوبارہ روح کے اندر جزب ہو جاتا ہے۔ مادی شعور کے اندر مسلسل نور کی شعاع نزول کر رہی ہے۔ جو شعور کو غیب کی اطلاعات مہیا کرتی ہے۔ پیرامڈحرکت کی لہروں کی وہ مخصوص ترتیب ہے جو ترتیب انفرادی شعور یا مادی شعور کی ہے۔ جس کی زندگی اور بقا اور  روشنی  و نور پر ہے۔ پیرامڈانفرادی شعور کی فیدنگ کے اس سسٹم کا نام ہے ۔ پیرامڈکا سینٹر وہ مخصوص اینگل ہے جس مقام سے نور کی شعاع شعور کے اندر جزب ہو رہی ہے ۔ اگر تمہیں کبھی موقع ملے تو پیرامڈمیں جا کر اس سسٹم کا تجربہ کرنا۔“

          عاقب کو جیسے ہی پتہ چلا کہ اگلے دن جہاز مصر جا رہا ہے۔ اس نے رحمٰن بابا کی دعا سمجھ کر فوراً قبول کر لیا اور مصر کی فلائٹ لے لی۔ مصر میں کچھ دن رہ کر وہ پیرامڈکی حقیقت کو پہچاننا چاہتا تھا۔ اسے پیرامڈکے اندر سیر کرنے کے مواقع مل گئے اور پیرامڈکے سینٹر میں وہ مخصوص مقام بھی مل گئے۔ جس مقام پر بیٹھ کر مراقبہ کرنے سے شعور کی انرجی چارج ہوتی ہے۔ مراقبہ کے لئے جیسے ہی اس نے  آنکھیں  بند کیں۔ اس نے دیکھا کہ آسمان سے نور کا ایک دھارا نکل کر اس کے تالو کے اندر جذب ہو رہا ہے اور جسم کے اندر سے گزرتا ہوا پاؤں کے ذریعے خارج ہو رہا ہے۔ مگر جب یہ نور پاؤں سے خارج ہوتا  ہے تو اس نور کے اندر بہت ہی لطیف نورانی عکس نکل کر نور کے ساتھ ساتھ اوپر آسمان کی جانب جاتے جا رہے ہیں۔ ایک عکس نکلتا ہے تو فوراً ہی اس کے بعد دوسرا آجاتا ہے۔ اس نے غور سے ان نورانی ہیولوں کو دیکھا۔ ہر ہیولا خود عاقب کی اپنی صورت تھا۔ وہ جان گیا کہ نور کا دھارا  اللہ تعالیٰ کے امرِ کن کی تجلی ہے۔ جس نور کے اندر ازل سے ابد تک کا زمانہ موجود ہے۔ جب یہ نور شعور سے گزرتا ہے تو شعور اپنی سکت کے مطابق اسے لمحات میں تقسیم کر دیتا ہے۔ شعور کی سکت اس کے انفرادی حواس کی رینج ہے۔ شعور کے اندر نزول کرنے والے نور کے دھارے کے اندر ساری کائنات موجود ہے۔ انفرادی ذہن ان روشنیوں کے لئے اسکرین کا کام کرتا ہے اور نور کے اندر موجود تصویروں کو ذہن  کے اسکرین پر ایک ایک کر کے پھیلاتا جاتا ہے۔ ہر تصویر کائنات کی کوئی نہ کوئی شئے ہے۔

          دماغ کا یہی تصویر خانہ آدمی کے حافظے کا ریکارڈ ہے۔ ان تصویروں کے اندر روشنی کی صورت میں لمحات بند ہیں۔ جب یہ تصویریں نور کی روشنی میں دیکھی جاتی ہیں تو آدمی اپنے آپ کو نور کے عالم میں موجود پاتا ہے اور جب یہ تصویریں مادی روشنی میں  دیکھی جاتی ہیں تو آدمی اپنے آپ کو مادی دنیا میں دیکھتا ہے۔ عاقب اپنے اندر داخل ہوتی ہوئی نور کی شعاع کو دیکھنے لگا جو اس کے سر میں داخل ہو رہی تھی۔ اوپر سےآنے والے نور میں اسے کوئی نقش  دکھائی  نہ دیا۔ وہ صرف نور کا ایک دھارا تھا جو اس کے سر کے اندر داخل ہو رہا تھا۔ مگر جب  یہ دھارا عاقب کے جسم سے گزر کر پاؤں کے کے ذریعے نکلتا  دکھائی  دیا تو نور کے اس دھارے کا رخ  بدل گیا۔ اس کی حرکت نزول کی بجائے صعودی ہو گئی اور اس صعودی حرکت میں نور کے اندر عاقب کو نورانی ہیولے  دکھائی  دیئے۔ عاقب نے اپنی نگاہِ تفکر ایک ہیولے پر مرکوز کر دی۔ وہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ نزولی حالت میں نور کے اندر اسے نورانی ہیولے کیوں  دکھائی  نہیں دیتے۔ نور کے  جسم میں داخل ہونے کے بعد یہ ہیولے کس طرح پیدا ہو رہے ہیں۔ بلا شبہ ایک لمحے کا تفکر صد سالہ عبادت سے بہتر ہے۔ کیونکہ فکر کی روشنی شئے کی گہرائی  میں کام کرنے والی حقیقت کو اُجاگر کر دیتی ہے۔  اس نے دیکھا کہ وہ مراقبہ میں نور کے دھارے کو جس جسم کے سر میں داخل ہوتا ہوا دیکھ رہا ہے۔ وہ اس کا روشنیوں کا بنا ہوا جسم مثالی ہے۔ جسم مثالی کا دماغ نور کی مقداروں کو اس کی فطرت کے مطابق توڑتا ہے۔ قدرت نے ہر شئے کو مقداروں میں بنایا ہے۔ جسمِ مثالی کا دماغ اپنے اندر منتقل ہونے والے نور کو قدرت کی متعین کردہ مقداروں میں توڑتا ہے اور پھر یہ متعین مقداریں جسمِ مثالی کے حواس کے دائروں سے گزر کر جسم مثالی کی نگاہ کے سامنے آجاتی ہیں۔ جسمِ مثالی کی نگاہ ٹائم میں دیکھتی ہے۔ ٹائم میں ہونے والی تمام تخلیقات جسمِ مثالی کے ذریعے سے عمل میں آتی   ہیں۔ نور کا شعور روح کا شعور ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے اسمائے الہٰیہ کا شعور ہے۔ جسمِ مثالی کا شعور کائناتی شعور ہے۔ جب روح کا شعور کائناتی شعور سے ملتا ہے تو نسمہ کا شعور تخلیق ہوتا ہے۔ نسمہ کی شعوری تخلیق جسمِ مثالی ہے۔ جب جسم مثالی کا شعور زمین کے شعور سے گلے ملتا ہے تو مادی شعور جنم لیتا ہے۔ تمام مادی اجسام اسی ترکیب سے وجود میں آئے ہیں۔ عاقب کے سینے میں قندیل کی روشنی  آہستہ آہستہ تیز ہونے لگی۔

          مصر میں تین دن گزارنے کے بعد ہی اسے دہلی کی فلائٹ مل گئی۔ دہلی میں پہنچتے ہی اسے شیلا اور آنند یا د آگئے۔ اس نے میرٹھ کی ٹرین پکری اور شیلا کے گھر پہنچ گیا۔ شام کا وقت تھا۔ دروازے پر دستک دی تو ہردیال نے دروازہ کھولا۔ ایک لمحے کو وہ حیرت سے عاقب کو دیکھتا رہا۔ پھر زور سے شیلا کو آواز لگائی۔” ارے بھئی شیلا۔ دیکھ تو ذرا کون آیا ہے۔“

          شیلا نے وہیں سے آواز دی۔” کون آیا ہے۔“

          اور پھر وہ سامنے کمرے سے باہر آگئی۔ عاقب کو دیکھتے ہی خوشی سے اس کا چہرہ کھل گیا۔” ارے بھائی  صاحب آپ ہیں۔“

          کمرے میں بیٹھتے ہی شیلا بولی۔” آپ کے لئے ایک سرپرائز ہے۔“ اور یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئی۔ چند منٹ بعد وہ اپنی گود میں ایک چھوٹا سا بچہ اُٹھائے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی۔” عاقب بھیا یہ آپ کی دعاؤں کا پھل ہے۔“

          عاقب نے اسے گود میں لے کر خوب پیار کیا۔  شیلا بولی ” ہمارے شنکر کو دیکھ کر تمام لوگ آپ کو پوچھتے ہیں۔ کیونکہ میں نے سب کو بتایا تھا کہ آپ کے دیئے گئے وظیفے سے یہ پیدا ہوا ہے۔ میری سہیلیاں آپ کو پوچھتی ہیں۔“ ہر دیال نے آنند کو بھی فون کر دیا کہ وہ یہاں آجائے۔

          اگلے روز سارا دن عورتوں کا تانتا بندھا رہا۔ سب کو اس سے یہ آس اور یقین تھا۔ کہ جس طرح عاقب کی دعا سے شیلا کی گود  ہری ہوئی ہے۔ اسی طرح ان سب کے مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ عاقب نے سب کو یقین دلایا کہ سب کی سننے والی ایک ہی ہستی ہے۔ تم سچی نیت کے ساتھ اس کو پکارو گے تو وہ ضرور تمہاری سنے گا۔ دو دن بعد آنند بھی آگیا۔ ان دو دنوں میں یوں لگتا تھا کہ جیسے سارے میرٹھ میں عاقب کا نام مشہور ہو چکا ہے۔ نہ جانے کہاں کہاں سے بے اولاد عورتیں آتی   رہیں۔ عاقب انہیں تسلی دیتا رہا۔ رحمٰن بابا کی بات ہمیشہ اس کے ذہن میں رہی۔ وہ کہتے تھے کہ کائنات کی بنیاد یقین پر ہے۔ ارادے کی قوت کو یقین کہتے ہیں۔ جب کسی کام کے ارادے میں یقین شامل ہو جاتا ہے تو وہ کام ضرور پورا ہوتا ہے۔ یاد رکھوایک حاجت مند اسی لئے حاجت مند ہے کہ اس کے پاس یقین کی قوت کی کمی ہے۔ وہ اپنی حاجت روائی  کے لئے تمہارے پاس آتا ہے ۔ پس سب سے پہلے اس کے یقین کو بحال کرنے کی کوشش کرو۔ تاکہ اس کام میں فرد کا ارادہ اللہ تعالیٰ کے ارادے کے ساتھ وابستہ ہو جائے۔ کیونکہ کام اسی وقت پورا ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالی ٰ کا ارادہ اس کام میں شامل ہو جاتا ہے۔

          آنند سے ملاقات کے بعد عاقب نے ڈیرہ دون  جانے کا ارادہ کر لیا۔ دراصل اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو ڈیرہ دون سے اپنی بیوی کو لے کر آیا تھا۔ ان کی شادی کو تقریباً پندرہ سال ہو چکے تھے اور ابھی تک وہ بے اولاد تھے۔ وہ شخص مسلمان تھا۔ باتوں باتوں میں اس نے عاقب کو اس بات کی پیشکش کی کہ ڈیرہ دون میں اس کے پاس بہت بڑی زمینیں  ہیں۔ اگر وہ وہاں آجائے تو اس کی رہائش کا علیحدہ انتظام ہو سکتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کی دعاؤں سے فیض یاب ہوں۔ عاقب نے مراقبہ کیا تو اسے رحمٰن بابا کی جانب سے ڈیرہدون جانے کی اجازت مل گئی۔ وہ صفدر علی کے ساتھ ڈیرہ دون آگیا۔ ڈیرہ دون مسوری کے پاس ایک پہاڑی علاقہ ہے۔  بہت خوبصورت علاقہ ہے۔ صفدر علی ڈیرہ دون کا پرآنا زمیندار تھا۔ اس کے آباو اجداد کئی صدیوں سے یہاں رہتے چلے آئے تھے۔ شہر میں اسے عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اس نے عاقب کے لئے اپنی بڑی سی حویلی کا ایک الگ حصہ رہائش کے لئے مقرر کر دیا تاکہ لوگوں کو اس سے ملنے میں کوئی دقت نہ ہو۔ عاقب یہ تو جانتا تھا کہ اس کا دوبارہ ہندوستان بھیجا   جانا کسی خاص مقصد کے لئے ہے۔ مگر کس لئے ہے۔ اسے معلوم نہ تھا۔ صفدر علی سے ملاقات اور ڈیرہ دون میں رہنے کا اتنا اچھا انتظام تو اس کے خیال میں بھی نہ آیا تھا۔ اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ جس نے رحمٰن بابا کے وسیلے سے اسے سفر میں ہر طرح کی آسانیاں دیں۔

          اسے اپنی ماں کی بات یاد آگئی۔ وہ کہا کرتی تھی ۔” بیٹا! نہ گزرے ہوئے کل پر ہمارا کچھ اختیار ہے نہآنے والے کل پر ہمارا بس چلتا ہے۔ اگر کچھ اختیار میں ہے تو صرف اتنا کہ موجودہ لمحے میں جو کچھ ہمارے پاس ہے۔ اسے اللہ کی رضا سمجھ کر قبول کر لیں اور اسی میں اپنی تدبیر استعمال کریں۔ تاکہ اس لمحے کے مضراثرات سے ہم محفوظ رہ سکیں۔

          ڈیرہ دون میں رہتے ہوئے عاقب کو تقریباً بیس دن ہو گئے۔ ان بیس دنوں میں وہ ہر وقت لوگوں میں گھرا رہا۔ یوں لگتا تھا جیسے ایک دم سے اس کے اندر بے پناہ کشش پیدا ہو گئی ہے۔ جو لوگوں کو اس کی طرف کھینچ رہی ہے۔ عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ تھی۔ بے اولاد عورتیں دور دور سے اس کے پاس آنے لگیں۔ دن نہایت تیزی سے گزرتے رہے۔ تین ماہ کیسے گزر گئے ۔ پتہ ہی نہ لگا۔ ان تین مہینوں میں بے ثمر نخلِ امید پر اُمید کے شگوفے اور بوٹے ابھر آئے۔ اب پھر وہ عورتیں چڑھاوے اور نیازیں لے کرآنے لگیں۔ جہاں ہر وقت عورتوں کا آنا   جانا ہو۔ وہاں مرد ویسے ہی چوکنا ہو جاتے ہیں۔ پھر اس پر سونے پر سہاگہ یہ کہ عاقب کی مردانہ وجاہت اور جوانمردی مردوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بن گئی۔ ایک دن شام کے وقت دو جوان لڑکیاں روتی پیٹتی چلی آئیں۔ غم کی وجہ سے انہیں اپنے تن بدن کا ہوش نہ تھا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ وہ دونوں بہنیں ایک ہی گھر میں بیاہی گئی ہیں اور ان پر ان کے گھر والے مار پیٹ اور تشدد کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی اوڑھنیاں سرکا لیں کہ زخموں کے نشان دکھا سکیں۔ عاقب نے ان کی اوڑھنیاں ان کے سروں پر ڈالین۔ انہیں تسلی دی کہ وہ ان کے لئے دعا کرے گا۔ دن میں دو چار ایسی لڑکیاں ضرور آتی   تھیں جو بظاہر اپنی مصیبتوں کا رونا رو کر عاقب کو انسانیت کی بلندی سے اسفل میں گرانا چاہتیں۔ عاقب نے چند ایک بار لڑکیوں سے پوچھا بھی کہ تمہیں کس نے بھیجا ہے۔ مگر کسی نے بھی کچھ نہ بتایا۔ عاقب کو ان لڑکیوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی وہ جانتا تھا کہ یہ سب نفسیاتی بیمار ہیں۔ وہ یہ بھی جان رہا تھا کہ ان لڑکیوں کو بے حیائیوں پر اکسانے والا ضرور کوئی اور ہے۔ اس نے صفدر علی سے بات کی کہ اتنے دنوں سے روزانہ ایسی لڑکیاں آرہی ہیں۔ جنہیں کسی طرح شریف لڑکیوں کے زمرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے الٹے سیدھے مسئلوں کے پیچھے ان کا جھوٹ اور ان کا بیمار  ذہن  مجھے  دکھائی  دیتا ہے۔ میرا کام لوگوں کے مسائل کو حل کرنا ہے۔ مگر روز روز ایسی لڑکیوں کا آنا ضرورت مند لوگوں کے اندر میری جانب سے بے یقینی پیدا کر دے گا۔ صفدر علی نہایت ہی شریف اور رحم دل شخص تھا۔ اس نے عاقب سے کہا۔” عاقب بھائی  پورے پندرہ برس بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں اور آپ کے قدموں کی برکت سے میرے یہاں امید کی شمع روشن  کر دی ہے۔ ماشاء اللہ میری بیوی اُمید سے ہے۔ آپ نہیں جانتے کہ  یہ میرے اور میری بیوی کے لئے کتنی بڑی  نعمت ہے۔ آج ہمیں جنت کی خوشیوں کا صحیح اندازہ ہوا ہے۔ پتہ کرنے کو میں سب کچھ پتاکرا سکتا ہوں۔ مگر اللہ نے آپ کو مرشد کے طفیل بڑی قوتیں دی ہیں۔ اگر آپ چاہیں ۔ تو ان لڑکیوں کو اس طرح تندرست کر دیں کہ پھر وہ کسی کے ہتھکنڈوں میں نہ پھنسیں۔“

          عاقب نے کہا۔” صفدر بھائی۔ اللہ تعالی آپ کو نیک اور فرمانبردار اولادیں نصیب کرے۔ میری خود یہی خواہش ہے کہ سو سائٹی کو ایسے ناسوروں سے پاک کر دوں۔ جو معصوم لڑکیوں کو خراب کر کے ان کی بربادی کا تماشہ دیکھتے ہیں۔ مگر اس کے لئے مجھے آپ کے تعاون کی ضرورت ہے۔ آپ مجھ پر بھروسہ کریں۔“ صفدر علی نے عقیدت و محبت سے اسے گلے لگایا اور کہنے لگا۔” عاقب بھائی! میں تو آپ کا بے دام غلام بن گیا ہوں۔ بس میرے لئے دعا کریں کہ اللہ پاک خیریت سے مجھے اولاد  نصیب   کر دے۔“ اس رات عاقب نے نماز پڑھ کر مراقبے میں رحمٰن بابا سے اس کام کے لئے رہنمائی  چاہی اس نے مراقبے میں دیکھا کہ بہت خوبصورت پہاڑی  علاقہ ہے۔ بالکل ڈیرہ دون کی طرح۔ مگر مراقبے میں وہ جگہ ڈیرہ دون سے الگ لگ رہی تھی۔ پہاڑی کے دامن میں ایک تالاب ہے۔ اس تالاب کے کنارے رحمٰن بابا بیٹھے  ہیں اور ہاتھ ڈال کر تالاب سے مچھلیاں پکڑ رہے ہیں۔ ہر مرتبہ وہ پانی سے باہر جب ہاتھ نکالتے تو ان کے ہاتھ ایک مچھلی ہوتی۔ اس مچھلی کو وہ ہتھیلی پر رکھ کر دیکھتے تو وہ مچھلی سخت بیمار اور بدصورت نظر آتی۔ لیکن جب وہ اپنے  دونوں ہاتھوں سے مچھلی کو چھپا لیتے اور پھر ہاتھ کھولتے تو مچھلی بہت خوبصورت اور تندرست نظرآنے لگتی ہے اور پھر پھدک کر تالاب میں چلی جاتی ہے۔ اسی طرح وہ تالاب سے ایک ایک مچھلی نکالتے جاتے ہیں اور اسے دونوں ہاتھوں میں دبا کر جب تالاب میں چھوڑتے ہیں تو وہ بالکل بھلی چنگی ہو جاتی ہے۔ مگر ایک حیرت انگیز بات یہ تھی کہ جب وہ مچھلی کو ہاتھوں میں دبا کر تالاب میں چھوڑتے تو رحمٰن بابا کی جگہ وہ لڑکی  دکھائی  دینے لگتی۔ جس کے گلاب جیسے عارض پر سیاہ تل اس کی پہچان بن گیا تھا۔ سیاہ تل نے اس کا دل دھڑکا دیا۔ اس نے گھبرا کے  آنکھیں  کھول دیں۔ اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ سوچا جو کچھ ہو گا۔ اللہ کی رضا اور مرشد کی مرضی سے ہوگا۔ ان شاء اللہ۔

          دوسرے دن ایک جوان آدمی آیا جس کے ساتھ پانچ جوان لڑکیاں تھیں۔ جو لہنگا اور چولی پہنے ہوئے تھیں۔ ان کی سج دھج دعوتِ نظارہ دینے والی تھی۔ جوان نے عاقب کو بڑے ادب سے جھک کر پرنام کیا۔ اور لڑکیوں کو بھی پرنام کرنے کا اشارہ کیا۔ پھر بولا۔” مہاراج سارے شہر میں آپ کے نام کی دھوم مچی ہے۔ میں یہ داسیاں آپ کی خدمت کے لئے لایا ہوں انہیں قبول فرما لیجیئے۔ عاقب نے گہری نظر سے جوان کو دیکھا۔ اسے اس کے اندر شیطان  دکھائی  دیا۔

         

 


Qandeel

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی