Topics
کئی دکانوں کے بورڈ پر اسے کھٹمنڈو لکھا دکھائی
دیا۔ وہ حیران رہ گیا کہ چند گھنٹوں میں وہ انقرہ (ترکی) سے کھٹمنڈو کیسے
پہنچ گیا اور اسے تھکن کا کوئی احساس بھی نہ تھا۔ اب اس کے دل
پر رحمٰن بابا کی کرامات کا رعب سا پرنے لگا وہ سوچنے لگا رحمٰن بابا کوئی
بہت ہی بڑے بزرگ ہیں۔ پہاڑوں میں رہتے ہوئے بھی وہ اتنی اتنی دور تک دیکھ سکتے
ہیں۔ اسے اپنے ابو کی بات یاد آئی۔ وہ کہتے تھے کہ” بیٹا ! روح کی آنکھ آسمانوں
اور زمینوں میں ہر طرف دیکھ سکتی ہے اور روح کی آنکھ ہر شئے کے ظاہر اور باطن
دونوں کو یکساں طور پر دیکھتی ہے۔ اللہ کے وہ بندے جو روح کی آنکھ سے دنیا کو
دیکھتے ہیں۔ وہ جب دنیا کی کسی شئے یا کسی فرد کو دیکتے ہیں تو ان کی نظر اس شئے
یا اس فرد کے دل تک پہنچ جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ پھر اپنے تصرف اور ارتکاز
توجہ سے فرد کے خیال میں اپنے خیال کی روشنی شامل کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ فرد کا
خیال روحانی بندے کی روشنیوں سے لبریز ہو جاتا ہے اور وہ روحانی بندے کے خیال کو
اپنا خیال سمجھ لیتا ہے اور اس پر عمل پیرا ہو جاتا ہے۔ اس وقت تو ابو کی بات عاقب
کو اتنی اچھی طرح سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ مگر اب اس کی سمجھ میں یہ بات آگئی تھی کہ
ساری دنیا میں خیالات کی ترسیل کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے۔ ایک کا خیال دوسرے کے
دماغ میں دھل کر جب باہر نکلتا ہے تو وہ اسے اپنی ہی تخلیق سمجھتا ہے۔ جیسے سیپی
میں بارش کا قطرہ جب گہر بنتا ہے تو سیپی اسے اپنی تخلیق سمجھتی ہے اور قطرے کا
نشان تک چھپا لیتی ہے۔ حقیقت مجاز کے پردوں میں چھپ کر کام کر رہی ہے۔
گھوڑا قراقرم کے پہاڑی سلسے میں داخل ہو چکاتھا۔ سرد ہواؤں
کے تھپیڑوں نے اس کے دورانِ خون کو اور
تیز کر دیا۔ خون کی لالی چہرے سے جھلکنے لگی۔ اس نے جیب سے شہد کی بوتل
نکالی اور تھوڑا سا شہد کھایا۔ پھر گھوڑے کی گردن پر تھپتھپا کے کہنے لگا ۔ ” یار ذرا جلدی سے رحمٰن بابا کے
پاس لے چلو نا۔ سردی لگ رہی ہے۔ “ گھوڑے نے اس طرح گردن ہلائی جیسے سب کچھ سمجھ گیا۔ گھوڑا پہاڑی راستے میں
اونچائی کی طرف چلتا رہا اور کوئی ایک
گھنٹے کے بعد ایک مقام پر ٹھہر گیا۔
عاقب نے گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھے بیٹھے اِدھر اُدھر نظر
دوڑائی۔ وہ جان گیا کہ اس کی منزل آگئی ہے اسے سوائے پتھریلے پہاڑؤں کے کچھ دکھائی
نہ دیا تو وہ گھوڑے سے اتر آیا۔ اتر کے اسی سیدھ میں کچھ آگے
بڑھا تو راستہ اس قدر پتلا تھا کہ وہ جان گیا کہ اتنے پتلے راستے پر گھورے
کا چلنا مشکل تھا۔ یہ پتلا راستہ جا کر دائیں طرف کو مُڑ گیا۔ جیسے ہی وہ دائیں
جانب مُڑا۔ اسے کچھ فاصلے پر غار کے دہانے پر ایک بزرگ کھڑے دکھائی
دیئے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ رحمٰن بابا نے زور سے پکارا۔” آؤ آؤ
عاقب بیٹے۔“
عاقب نے بھی بیک وقت آواز دی۔” السلام علیکم رحمٰن بابا۔“
اور تیزی سے دوڑ کر رحمٰن بابا کے پاس پہنچ گیا۔
رحمٰن بابا نے اپنی بانہیں پھیلا دیں اور عاقب کو اپنے سینے
سے لگا لیا۔ ایک مدت بعد پدرانہ محبت کا لطف عاقب کو ماضی میں لے گیا۔ اس کی آنکھوں کا سیلاب امنڈ آیا۔
تھوری دیر رونے کے بعد وہ سنبھل گیا۔ رحمٰن بابا اسے غار کے اندر لے آئے۔ غار میں داخل ہوتے ہی اسے
محسوس ہوا کہ غار تو بہت وسیع ہے۔ اندر ہی اندر نہ جانے کہاں تک اس کا پھیلاؤ تھا۔
یہ بڑا سا کمرہ اچھا خاصہ ایک ہال تھا۔ جس پر گرم نمدے کا فرش تھا اور اس نمدے پر
بہت سی بھیڑ کی کھالیں جگہ جگہ بچھی تھیں۔ رحمٰن بابا نے نہایت ہی شفقت سے عاقب کو
ایک سفید ملائم سی کھال پر بٹھایا اور خود
اس کے سامنے بیٹھ گئے۔ عاقب کا ذہن اس وقت بالکل خالی تھا اسے یوں لگ رہا تھا جیسے
وہ خواب دیکھ رہا ہے وہ بس چپ چاپ رحمٰن بابا کا مسکراتا نورانی چہرہ تکے جا رہا
تھا۔ رحمٰن بابا نے مٹی کی ایک چھوٹی سی مٹکی سے سلوری گلاس میں دودھ انڈیلا اور
عاقب کو دیا۔ کہنے لگے۔” بیٹے! اسے پی لو۔ تم اتنے لمبے سفر سے ضرور تھک گئے
ہوگے۔“ عاقب نے ایک گھونٹ ٹھنڈا شریں دودھ پیا۔ اس کے زہنی ٹھہراؤ میں کچھ
حرکت پیدا ہوئی ۔ وہ لمبا سانس لیتے ہوئے
بولا۔” رحمٰن بابا! آپ کا گھوڑا تو ہوائی
جہاز سے بھی اچھا ہے۔ بغیر تھکے ہوئے اتنی جلدی یہاں پر پہنچ جانا آپ کی کرامات ہی کہی جا سکتی ہیں۔ پھر یہ کہ ایک جگہ بھی کسی سے راستہ
پوچھنا نہیں پڑا۔ وہاں بیٹھا یہاں اتر آیا۔ نہ تھکن کا خیال آیا ۔ نہ بھوک پیاس
لگی۔“
رحمٰن بابا مسکرائے۔” بیٹے اللہ کی راہ کا ہر قدم اللہ اسان
کر دیتا ہے۔ اللہ کے ذہن میں مشکل اور ناممکن لفظ نہیں ہے۔ یہ الفاظ تو انسان کے
کمزور ارادے کی تخلیق ہیں۔ جب انسان کی نظر اپنے نفس کی کمزوری پر ہوتی ہے تو اسے
کام مشکل نظر آتا ہے۔ مگر جب آدمی کی نظر اپنے نفس سے ہٹ کر اللہ پر ہوتی ہے تو اس
کی فکر اور سوچ اللہ کے ارادے کے مطابق ہوتی ہے اور اس کا ہر کام آسان ہو جاتا
ہے۔“
عاقب نے پوچھا۔” رحمٰن بابا! میرے لئے کیا حکم ہے؟“
رحمٰن بابا بولے۔” ابھی تم تھوڑی دیر سو جاؤ۔ جب اُٹھو گے
تو پھر بات کریں گے۔“ یہ کہہ کر رحمٰن بابا نے عاقب کو نمدے کا ایک چھوٹا سا کمبل
اوڑھا دیا۔ جس کے دوسرے رُخ پر بھیڑ کی کھالیں سلی ہوئی تھیں۔ نرم گرم بستر میں
لیٹتے ہی عاقب غافل ہو گیا۔ اس نے ایک
عجیب سا خواب دیکھا اس نے دیکھا۔
” کھلے آسمان کے نیچے عدالت لگی ہوئی ہے۔ بینچوں پر بہت سے
لوگ بیٹھے ہیں۔ سامنے ایک بڑا سا منبر ہے۔ جس پر بہت سی فائلیں رکھی ہیں۔ میز پر سامنے کی طرف بڑی سی کرسی ہے جس پر
ایک باعرب ہستی جج کی صورت میں بیٹھے ہیں۔ میز کے دوسری طرف جج کے سامنے والی کرسی
پر عاقب بیٹھا ہے۔ جج کے داہنی جانب کرسی پر رحمٰن بابا تشریف رکھتے ہیں۔ جج اور
رحمٰن بابا دونوں کی نظر عاقب پر ہے۔ جج پوچھتا ہے۔” تمہارا نا کیا ہے؟“
عاقب نے جواب دیا۔” مجھے عاقب کہتے
ہیں۔“
جج
رحمٰن بابا کی طرف اشارہ کر کے کہتے ہیں۔”یہ کون ہیں؟“
عاقب کہتا ہے ۔” یہ رحمٰن بابا ہیں۔“
اب جج آسمان پر سورج کی طرف اشارہ کر کے
کہتے ہیں۔” یہ کیا ہے؟“ عاقب کو سورج میں رحمٰن بابا کی شبیہ دکھائی
دیتی ہے وہ کہتا ہے ” یہ رحمٰن بابا ہیں۔“
پھر جج چاند کی طرف اشارہ کر کے پوچھتا
ہے ۔” یہ کیا ہے؟“ عاقب کو چاند میں بھی رحمٰن بابا نظر آتے ہیں۔ غرض کہ جج ستارے،
آسمان دنیا کی ہر شئے کی طرف اشارہ کر کے پوچھتے ہیں کہ یہ کیا ہے اور عاقب کو ہر
شئے میں رحمٰن بابا دکھائی دیتے ہیں ۔وہ ہر ایک کو رحمٰن بابا کہتا ہے۔
آخر میں جج عاقب کے سینے کی طرف اشارہ کر کے پوچھتا ہے۔ ” یہ کون ہے؟“ عاقب ایک
لمحے سر جھکا کے اپنے سینے کی طرف دیکھتا ہے۔ سینے پر اسے چکور آئینہ فٹ دکھائی
دیتا ہے اور اس آئینے میں رحمٰن بابا کا عکس دکھائی
فیتا ہے۔ وہ کہتا ہے ۔ رحمٰن بابا ہیں۔ اب جج کہتا ہے جب سب کچھ رحمٰن بابا
ہے پھر تم کون ہو؟“ عاقب ایک لمحے کو اپنے
ذہن پر زور ڈالتا ہے میں کون ہوں؟ میں،
میں میں اور پھر جیسے وہ اپنےآپ کو پہچان لیتا ہے میں رحمٰن بابا ہوں۔ اسی وقت
رحمٰن بابا ایک رنگین روشنی کے ہیولے کی صورت میں اہستہ اہستہ اس کے قریب آتے ہیں اور اس کے اندر سما جاتے ہیں۔ اس کے
بعد اس کی آنکھ کھ جاتی ہے۔“
آنکھ کھلی تو رحمٰن بابا اس کے برابر
میں بیٹھے اسے دیکھ رہے تھے۔ اس نے سلام کیا اور جلدی سے اُٹھ بیٹھا رحمٰن بابا
بولے۔ فجر کا وقت ہوا چاہتا ہے کہو آرام کی نیند آئی؟“ عاقب نے کہا۔” حضور نیند تو
ایسی اچھی آئی کہ مجھے پتہ ہی نہ چلا کہ
میں اتنا لمبا سویا اور ایک عجیب خواب بھی دیکھا اجازت ہو تو عرض کروں۔“
رحمٰن بابا نے مسکرا کے کہا۔” ضرور کہو۔
شاید ہم اس کی کچھ تعبیر بتا دیں۔“
عاقب نے پورا خواب انہیں سنایا۔ رحمٰن
بابا بولے۔” جب تم آئینہ میں اپنا عکس دیکھتے ہو تو تمہاری پوری توجہ اپنے عکس پر
ہوتی ہے۔ پھر تم اپنے عکس کو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہو تمہاری ساری دلچسپی کا
مرکز امہارا اپنا عکس ہے۔ ائینے کی طرف خیال بھی نہیں جاتا۔ آئینہ موجود ہوتے ہوئے بھی تمہارا ذہن آئینے کی نفی
کر دیتا ہے۔ یعنی ذہن اپنی تمام روشنیاں آئینے سے ہٹا کر صرف تمہارے
عکس میں جمع کر دیتا ہے۔ جب قلب کی نگاہ
ایک نقطہ فکر پر مرکوز ہو جاتی ہے تو یہ نقطہ نور
کا نقطہ بن جاتا ہے۔ نور کا ہر نقطہ پوری کائنات ہے۔ خواب میں تم نے قدرت
کے اسی اصول کا مشاہدہ کیا ہے۔ خواب کے حوالے سے تمہاری روح کی فکر اور قلب کی
نگاہ کا مرکز رحمٰن بابا کی ذات ہے۔ روح کی فکر کا ہر نقطہ نور کا نقطہ ہے۔ قلب کی
نگاہ اس نقطے میں کائنات دیکھ رہی ہے۔ سو بیٹے! قلب کی نظر تمہارے خوب کے جسم کی
آنکھ ہے۔ یہ آنکھ روح کی فکر کی روشنی میں دیکھتی ہے۔ اس طرح روح کی فکر اور قلب
کی نظر دونوں بیک وقت کام کرتی ہیں۔ فکر کی روشنی میں اپنے مرکز سے پھیلاؤ یعنی
گریز کی فطرت کام کر رہی ہے اور نظر کی روشنی میں مرکز پر سمٹنے یعنی کشش کی فطرت
کام کر رہی ہے۔نظر اپنی فطرت کے مطابق فکر کی روشنی میں مرکزِ نگاہ پر سمٹتی ہے۔
روح کی فکر اس روشنی کو اپنی فطرت کے مطابق
پھیلنے پر مجبور کرتی ہے۔ اس طرح نظر کی روشنی فکر کے نور کے ایک ذرّے یا مرکز سے دائروں میں
پھیلتی ہے۔ نظر کی روشنی کا ہر پھیلاؤ کائنات کا ایک ڈائی مینشن ہے۔ نظر جب روح کی فکر کی روشنیوں کو
پوری طرح جذب کر لیتی ہے تو فکر کی روشنی نگاہ کی روشنی پر غالب آ جاتی ہے۔ اسی کو
ذہن کی مرکزیت کہتے ہیں۔ پھر نگاہ کی
روشنی کے ہر پھیلاؤ میں کائناتی ڈائی
مینشن کے اوپر ذہن کی مرکزیت کی تصویر چھپتی چلی جاتی ہے۔ یہاں تک
کہ تمام کائناتی ڈائی مینشن اس تصویر کے
پسِ پردہ چھپ جاتے ہیں۔ جیسے سورج کی روشنی چاند ستاروں کو چھپا لیتی ہے یاد رکھو!
نظر کی ازلی مرکزیت اللہ ہے جس پر وہ پیدا کی گئی ہے۔“
رحمٰن بابا اور عاقب صبح کی نماز و اشغال سے فارغ ہوئے تو صبح پوری
طرح روشن ہو چکی تھی۔ رحمٰن بابا بولے۔” کل تو تم آتے ہی سو گئے تھے آؤ ہم تم کو
اپنی جنت دکھاتے ہیں۔“ رحمٰن بابا نے خود
بھی گرم شال اوڑھی اور عاقب کو بھی دی کہ باہر سردی ہے ۔ غار سے باہر پہاڑ کو
اونچے ا نیچے پتھروں سے صاف کر کے ہموار زمین بنی ہوئی تھی اور اس زمین پر مکئی
اور گیہوں بوئے ہوئے تھے۔ عاقب نے پوچھا۔” حضور یہ سب کام آپ نے کئے ہیں؟“
رحمٰن بابا بولے۔” اللہ کا ایک بندہ
یہاں آتا ہےوہ بکریوں کی بھی دیکھ بھال
کرتا ہے اور یہ دانے بھی بو جاتا ہے۔ کبھی کبھی
میں بھی اس کے ساتھ لگ جاتا ہوں۔“
عاقب نے پوچھا۔” آپ کے پاس بکریاں بھی ہیں؟“
وہ بولے۔” ہاں بہت ساری ہیں۔ آؤ دکھاتے
ہیں۔“ یہ کہہ کر رحمٰن بابا اسی پتلے سے راستے پر ہولئے۔ جس پر چل کر عاقب غار میں
پہنچا تھا۔ دونوں چلتے ہوئے اس مقام پر آگئے جہاں گھوڑے نے عاقب کو اُتارا تھا۔ اس
جگہ سے ذرا فاصلے پر گھوڑا کھڑا تھا۔ یہاں پہاڑ پر خوب بڑے بڑے گھنے درخت تھے۔ بہت
ہریالی تھی۔ اسی ہریالی میں بہت ساری بھیڑیں اور بکریاں آزادی کے ساتھ چر رہی
تھیں۔ مخملیں
سبزے پر سفید سفید بھیڑیں سبزے کا ہی حصہ لگ رہی تھین۔ عاقب کا دل خوشی سے کھل
اُٹھا۔
”رحمٰن بابا یہ تو سچ مچ جنت ہے۔“
رحمٰن بابا نے مسکرا کے کہا۔” بچے اسی
لئے تو تمہیں ہم کھینچ رہے تھے۔“
عاقب بولا۔” رحمٰن بابا طوفان نے دنیا
کو تہس نہس کر دیا ہے۔ مگر یہاں تو طوفان
کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔“ رحمٰن بابا بولے۔” اللہ اپنے
بندوں پر بہت زیادہ مہربان ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے رکھتا ہے جسے چاہتا ہے ختم کر دیتا
ہے بندوں سے دنیا کی رونق ہے۔ بندے ختم ہو گئے تو دنیا بھی ختم ہو جائے گی۔ وہ کسی
کو مارتا ہے کسی کو جلاتا ہے قدرت کے کاموں میں انسان اس کا معاون ہے۔ اللہ اپنے
بندوں سے دنیاوی امور کی خدمات لیتا ہے۔ دیئے سے دیا جلتا ہے اللہ کے خدمت گار
دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے اپنی جگہ کام کرنے والے چھوڑ جاتے ہیں۔ تاکہ قدرت کا
کاروبار چلتا رہے۔“
عاقب نے کہا۔” رحمٰن بابا ! جن لوگوں سے
نکال کر آپ نے یہاں مجھے بلایا ہے۔ وہ تو انسان کہلانے کے بھی مستحق نہیں ہیں۔
طوفان نے انہیں کیا سے کیا بنا دیا ہے۔ رحمٰن بابا ! کیا وسائل کی کمی انسان کو
حیوان بنا دیتی ہے؟“
رحمٰن بابا بولے۔” بیٹے! جو وسائل کو
زندگی کا سورس سمجھتے ہیں۔ وہی لوگ وسائل کی کمی کی وجہ سے خراب ہوتے ہیں۔ جو اللہ
کو زندگی عطا کرنے والا جانتے ہیں۔ ان کی نظر اللہ پر ہوتی ہے۔ ان کے لئے وسائل
مہیا کرنے کی ذمہ داری اللہ پر ہوتی ہے اور اللہ اپنی ذمہ داری نبھآنا خوب جانتا
ہے۔ بیٹے! یہ تو ایسا ہی ہے جیسے آپ پیاسے ہوں اور سمندر کو چھوڑ کر سمندر سے نکلی
ہوئی ایک بوند کی طرف جائیں۔ سعی لا حاصل اسی کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ہر ایت
قدرت کا قانون ہے۔ سورہ البقرہ کی آیت ۱۵۵ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ” اور ہم
کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میوؤں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں
گے۔ تو صبر کرنے والوں کو ( اللہ کی خوشوندی کی) بشارت سنا دو۔“
عاقب نے کہا” مگر رحمٰن بابا اللہ
تعالیٰ کے مقابلے میں بندہ تو کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ پھر اللہ اسے کیوں آزماتے ہیں۔
اللہ میاں بندوں کی کمزوری سے واقف ہوتے ہوئے بھی اسے اس کشمکش سے گزارتے ہیں۔“
رحمٰن بابا نے پوچھا۔” جب تم مڈل کلاس
میں تھے۔ تمہارا ٹیچر کتنا پڑھا ہوا تھا؟“ عاقب نے جواب دیا۔” وہ بی-ایڈ تھے۔“
رحمٰن بابا بولے۔” مڈل کے امتحان کے
پیپر میں تمہارے ٹیچر نے بی اے کے سوال رکھے تھے یا مڈل کلاس کے؟“
عاقب نے حیران کر کہا۔” مڈل کے“ وہ سوچ
رہا تھا کہ یہ کیسا عجیب سوال ہے۔ ٹیچر میری قابلیت کا امتحان لے تو میری قابلیت
کے دائرے میں ہی تو سوال کرے گا۔“ رحمٰن بابا نے شاید اس کا ذہن پڑھ لیا۔ فوراً
بولے۔” یہی تو میں تم سے کہتا ہوں۔ ٹیچر تمہاری قابلیت کا امتحان لے گا تو تمہاری
قابلیت کے دائرے میں ہی تو سوال کرے گا۔“
عاقب اپنے دل کی بات رحمٰن بابا کی زبان
سے سن کر چونک گیا۔ رحمٰن بابا پھر بولے۔” بچے! اللہ نے انسان کو اپنا نائب بنایا
ہے اور زمین پر اپنے خلیفہ کی حیثیت سے اس کا تقرر کیا ہے۔ انسان کے لئے نیابے و
خلافت ایک علمی کورس ہے۔ جس کورس کی تکمیل کے لئے انسان کو دنیا میں بھیجا گیا ہے۔
اللہ کی آزمائشیں اسی کورس کے ٹیسٹ پیپرز ہیں۔ دنیا میں جب بندہ یہ امتحان پاس کر
لیتا ہے تو آخرت میں اس کی علمی قابلیت اور صلاحیتوں کے مطابق اللہ تعالی اس کورس
کا سر ٹیفکیٹ دیتے ہیں۔ قرآن میں جہاں بھی
آزمائش کا ذکر آیا ہے۔ جان لینا چاہیئے کہ انسان کی آزمائش نیابت و خلافت کی فکر
کے دائرے میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہر فکر قدرت کا نظام ہے جو کبھی نہیں بدلتا۔ دنیا
میں لوگ آتے رہیں گے مٹتے رہیں گے۔ مگر
اللہ کی فکر کی روشنی اسی طرح قائم رہے گی۔ ہر دور میں جب بھی انسان دنیا میں آئے
گا وہ اللہ تعالیٰ کی نیابت و خلافت کی فکر کی روشنی میں آئے گا۔ دنیا میں انسان
کو اس فکر کی روشنی سے مسلسل فیڈنگ ملتی رہتی ہے۔ یہی فیڈنگ بندے کو دوسری مخلوقات
سے ممتاز کرتی ہے۔ اسی نور کی قوت سے کوئی آدمی شیر، ہاتھی ، وہیل مچھلی، ریچھ،
سانپ، چیتا اور ایسے ہی بے شمار درندوں اور موذی جانوروں کو قابو کر لیتا ہے۔ جو
آدمی کے اپنے وزن وحجم سے کئی گنا بڑے اور
خونخوار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی فکر کی روشنی جسمانی و روحانی دونوں سطح پر آدمی
کی نشونما کر رہی ہے۔ جس طرح جسمانی طور پر آدمی اپنے سے کئی گنا بڑے اجسام کو
قابو میں کر لیتا ہے۔ اسی طرح روحانی طور
پر بھی انسان اپنی روحانی صلاحیتوں سے باخبر ہو کر انہیں دوسری مخلوقات کی نسبت
زیادہ سے زیادہ استعمال میں لانے کی صلاحیت رکھتا ہے تاکہ مرنے کے بعد اللہ کے
نائب و خلیفہ کی صورت میں اسے کسی اور پلانٹ پر اتارا جائے اور وہاں پر اس سے اللہ تعالیٰ کی خلافت
کی ذمہ داریوں کے فرائض کے کام لئے جائیں۔“
عاقب نے سوال کیا۔” رحمٰن بابا! جو لوگ
اللہ کی آزمائشوں کے تیسٹ میں فیل ہو جاتے ہیں؟“
رحمٰن بابا نے سوال پر سوال کیا۔” جو
لوگ امٹھان میں فیل ہو جاتے ہیں۔ وہ کہاں جاتے ہیں؟“
عاقب بولا۔” وہ اسی کلاس میں رہ جاتے
ہیں۔“
رحمٰن بابا نے جواب دیا۔” پس اللہ کے
امتحان میں فیل ہونے والے بھی اسی حالت میں رہ جائیں گے اللہ میاں کہتے ہیں۔ تم جس
حالت میں مرو گے اسی حالت میں اُٹھائے جاؤ گے۔ مرنے کے بعد بھی ان کے حواس میں
کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ یہاں کنفیوز اور پریشان ہوں گے تو وہاں بھی اسی طرح رہیں
گے اور تم جانتے ہو کہ کنفیوز و پریشان کمزور ہوتا ہے خود مغلوب ہونے والا دوسروں
کو کیسے زیر کرے گا۔ پس ایسے انسانوں کا درجہ جانوروں کے درجے میں شمار ہوتا ہے اور جانور اللہ کے نائب اور
زمین پر اللہ کے خلیفہ نہیں ہیں۔ انسان
اپنے درجے سے گر کر اللہ تعالیٰ کے خصوصی انعام کو کھو دیتا ہے۔ جو بھاری نقصان ہے
اس نقصان سے جو دنیا میں وسائل کی کمی کی وجہ سے اُٹھاتا ہے۔ “ رحمٰن بابا نے گہرا
سانس لیا اور واقب کے شانے پر تھپکی دیتے ہوئے فرمایا۔” بیٹے! اللہ بہت رحیم و
کریم ہے۔ وہ اپنے کمزور بندوں کی اصلاح کے لئے اپنے بندے بھیجتا رہتا ہے۔ تا قیامت
دنیا میں ایسے بندے پیدا ہوتے رہیں گے جو نسلِ انسانی کو تباہی کے گھڑھوں سے
نکالنے میں ان کی مدد کریں گے۔“
رحمٰن بابا نے کچھ دیر پہاڑ پر ارد گرد
کے حصے کی سیر کرآئی جہاں انہوں نے کاشت
کاری کی ہوئی تھی اور جہاں انہوں نے بھیڑ بکریوں کے لئے چراہ گاہ بنائی ہوئی تھی۔ اس چراہ گاہ میں اُن کی بھیڑ بکریاں
چر رہی تھیں۔ رحمٰن بابا نے پوچھا۔” تمہیں دودھ دوہنا آتا ہے؟“
عاقب کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ” آج تک تو یہ کام کیا نہیں۔ مگر اب
کر لوں گا اگر اللہ چاہے تو۔“ رحمٰن بابا
بولے۔” زمان خان آتا ہی ہوگا۔ وہ تمہیں دودھ
نکالنا سکھا دے گا۔ آج سے تم اس کے ساتھ مل کر بکریوں اور کھیتی کی دیکھ
بھال کرنا۔“
دونوں غار میں ابھی پہنچے ہی تھے کہ
زمان خان آگیا۔ زمان خان گورا چٹا مضبوط آدمی تھا۔ رحمٰن بابا نے عاقب کا تعارف
کرا کے کہا۔” اب یہ تمہارے ساتھ کام کریں گے۔“
زمان خان خوشدلی سے بولا۔” ضرور ضرور ہم
اس کو بانسری ب جانا بھی سکھائے گا۔ آؤ
پہلے تم ناشتہ تو کر لو۔“ یہ کر اس نے ایک
پوٹلی آگے بڑھائی۔” دیکھو آج ہم بابا کے
لئے مکئی کی روٹی اور مکھن لایا ہے۔“ رحمٰن بابا مسکرائے۔” بھئی زمان خان روزانہ
صبح صبح ہمیں مزے دار ناشتہ کراتے ہیں۔“ زمان خان فرش پر پوٹلی کھولتے ہوئے بولا۔”
ارے ہمارے پاس کیا ہے؟۔ یہ مکئی بھی رحمٰن بابا کی ہے۔ مکھن بھی ان کی بکریوں کا
ہے۔ ہم تو بس اِدھر روٹی پکا کر لے آتا ۔“
تینوں نے مکئی کی گرم گرم روٹی مکھن کے ساتھ
کھائی۔ دودھ پیا اور عاقب زمان خان کے ساتھ بکریوں کے پاس آگیا۔ دودھ نکالنے کے
بعد زمان خان نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر
اپنی بانسری نکالی اور اسے بجانے لگا۔ پوری فضا جیسے وجد میں آگئی۔ بانسری کے سُر
الگ ہو کر فضا میں رقصاں ہوگئے۔ عاقب نے
آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے ذہن کے
پردے پر موسیقی کی روح رقصاں تھی۔ سُر تھمے تو عاقب کی محویت بھی ٹوٹ گئی۔ اُس نے
کہا۔” زمان خان۔ دودھ نکالنا تو ایک دفعہ ہی دیکھنے سے آگیا۔ مگر بانسری بجانے کے
لئے تم سے روز سبق لینا پڑے گا۔“
زمان خان اپنی تعریف سن کر کھل اُٹھا
اور فوراً بولا۔ ” سارا قبیلہ ہماری بانسری کی تعریف کرتا ۔ ہم تم کو روز سکھائے
گا۔ تم ہمارا بھائی ہے۔“
عاقب روزانہ صبح صبح اُٹھ کر نماز وغیرہ
سے فارغ ہو کر ناشتہ کرتے ہی زمان خان کے ساتھ باہر کام میں لگ جاتا۔ کام تو اتنا
خاص نہ تھا۔ بس دونوں بیٹھے بانسری بجاتے۔
گھنٹوں اسی میں گزر جاتے۔ بھیڑ بکریاں عاقب سے اب مانوس ہو چکی تھیں۔ جب تک وہ
بانسری بجاتا رہتا بھیڑ بکریاں اس کے آس پاس منڈلاتی رہتیں۔ وہ انہیں پیار کرتا۔ ان
سے باتیں کرتا۔ اسے اپنی ماں کی بات یاد آتی
وہ کہا کرتی تھی۔” بیٹا! آسمانی کتابوں میں بعض پیغمبروں کی زندگی کے حالات
میں بکریاں چرانے کا ذکر ملتا ہے۔ ایک دن عاقب کو خضر بابا یا د آگئے۔ ان کی آواز
ذہن میں گونجی۔” اندھیرا ہے، قندیل جلا۔؛ اس نے دل میں سوچا۔ خضر ابا نے میرے لئے
اندھیرا دور کرنے کا انتظام کر دیا ہے۔ دل ہی دل میں وہ خضر بابا کا شکریہ ادا
کرنے لگا۔
رات کو رحمٰن بابا کے بتائے ہوئے وظائف
کی ادائیگی کے بعد جب وہ سونے کے لئے لیٹا تو خضر بابا کا خیال ذہن میں
آگیا۔ نہ جانے انہیں غیب کے کیا کیا امور انجام دینے ہوتے ہیں۔ روشنی کا ہلک پھلکا
جسم آن کی آن میں آسمان سے زمین پر اور زمین سے آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔ کتنا مزا ہے۔ روشنیوں کا عالم
کیسا لگتا ہے۔ کیا میرے امی ابو جاتے ہی وہاں کے ماحول میں سیٹ ہو گئے۔ طوفان میں
بستی کی بستیاں تباہ ہوگئیں۔ اتنے سارے لوگ وہاں پہنچتے ہی کس طرح بس گئے۔ ضرور
وہاں کا انتظام بہت ہی اچھا ہوگا۔ ابو کہتے
تھے مرنے کے بعد کے عالم میں انسان کے ساتھ ملائکہ بھی کام کرتے ہیں۔
ملائیکہ کیسے ہوتے ہیں۔ روشنی کے جسم کے ساتھ تو آدمی روشنی اور نور کی مخلوق دیکھ
سکتا ہے۔ جسم کے ساتھ کیا کرے۔ انہی خیالات کو لے کر اسے نیند اگئی۔ اس نے
خواب دیکھا۔
” وہ عالمِ ملکوت میں فرشتوں کے درمیان
موجود ہے۔ عالمِ ملکوت میں ہر طرف نور پھیلا پوا ہے۔بےشمار فرشتے تتلیوں کی
طرح اُڑ رہے
ہیں۔ ان کے جسم نہایت ہی لطیف ہیں۔ جو فضا میں پھیلے ہوئے نور میں اس طرح چمکتے
ہیں جیسے ہیرا روشنی میں جگمگاتا ہے۔ عاقب فرشتوں کی حرکات و سکنات کو دیکھنے لگا۔
اتنے میں ایک فرشتہ آسمان سے اڑتا ہوا اس کی طرف آیا۔ ادب سے جھک کر
سلام کیا۔ کہنے لگا، میرا نام رضائل ہے۔ خضر بابا نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے۔
فرشتہ عاقب کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ عاقب نے دیکھا کہ فرشتہ کے سر پر نور کی ایک
دھار مسلسل آ رہی ہے جو فرشتے کے اندر بھی داخل ہو رہی ہے اور باہر سے بھی فرشتے
کا سارا جسم اس روشنی کے دائرے میں ہے۔ عاقب اس جستجو کے ساتھ کہ یہ روشنی کہاں سے
آرہی ہے روشنی کی شعاع کے ساتھ ساتھ اوپر دیکھنے لگا۔ اس کی نگاہ شعاع کے اندر سفر
کرنے لگی۔ حدِ ناگاہ پر اسے خضر بابا کھڑے
دکھائی دیئے۔ یہ روشنی ان کی
پیشانی سے نکل کر نیچے آرہی تھی اور رضائل کے سر سے گزر کر اس کے قلب سے نکل رہی
تھی۔ فرشتے کے قلب سے نکل کر روشنی کی یہ شعاع عاقب کے قلب میں داخل ہوگئی۔ عاقب
کو محسوس ہوا اس کا دل ایک کنواں ہے۔ یہ کنواں روشنی کی دھار سے بھرتا جا رہا ہے۔
کچھ دیر بعد عاقب کو اس کنوئیں کی سطح پر آئینے کی طرح روشنیاں چمکتی دکھائی
دیں۔ چمک دیکھتے ہی عاقب جان گیا کہ کنواں بھر چکا ہے۔ اسی وقت فرشتے سے
روشنی آنی بند ہو گئی اور اب اوپر سے بھی روشنی کا بہاؤ بند ہو گیا۔
فرشتہ عاقب کے سامنے ادب سے جھکا اور
آنا ًفاناً اڑتا ہوا فضا میں غائب ہو گیا۔ عاقب نے گہری سانس لی۔ اس نے محسوس کیا۔
فضا کی روشنیاں سانس کے ساتھ اس کے اندر داخل ہو ری ہیں۔ اس روشنی نے قلب میں داخل
ہو کر قلب کے کنوئیں کی روشنی کو متحرک کر دیا۔ جیسے تیز ہوا کا جھونکا دریا میں
لہریں پیدا کر دیتا ہے۔ جیسے ہی قلب کی روشنیوں میں ارتعاش ہوا۔ ایک لمحے کو جلترنگ کی سی آواز آئی اور قلب کی روشنیوں کی سطح پر جو آئینے کی
مانند تھی۔ خضر بابا کا عکس نمودار ہوا۔ خضر بابا کہنے لگے ۔” دل اندھا کنواں ہے۔ جس کی گہرائی اللہ ہے۔ اپنے دل میں اتر جا، اللہ مل جائے
گا۔“
خضر بابا کے ان الفاظ کے ساتھ ہی عاقب
کی آنکھ کھل گئی۔ اس کے ذہن پر اب بھی خضر بابا کا عکس چھایا ہوا تھا۔ وہ ہڑ بڑا
کے اُٹھ بیٹھا۔ پاس ہی رحمٰن بابا بیٹھے اس کی طرف غور سے دیکھ رہے تھے۔ بولے۔”
بچے! سن دل اندھا کنواں ہے جس کی گہرائی
اللہ ہے۔ اپنے دل میں اتر جا۔ اللہ مل جائے گا۔“ رحمٰن بابا کی آواز نے
عاقب کے روئیں روئیں میں کرنٹ دوڑا دیا۔ وہ پوری طرح ہوش میں آگیا۔ حیرت سے بولا۔”
ابھی خواب میں خضر بابا یہی تو کہہ رہے تھے۔ آپ کو کیسے پتہ چل گیا؟“ رحمٰن بابا
کا چہرہ دھندلے اندھیرے میں چاند کی طرح چمک اُٹھا۔ انہوں نے شفقت سے اُسے دیکھا
اور عاقب کے سر اور پشت پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرنے لگے۔ عاقب کو اپنے بدن میں
کرنٹ دوڑتا محسوس ہوا۔
رحمٰن بابا کے ساتھ غار میں رہتے ہوئے
عاقب کو تین سال کا عرصہ گزر گیا۔ نہ جانے رحمٰن بابا کی کشش تھی یا ان کی تربیت
کا غلبہ کہ کبھی ایک مرتبہ بھی عاقب کے ذہن میں پہاڑ سے نیچے اترنے کا خیال آیا۔
اس کی زندگی بہت محدود تھی۔ شروع رات اور شروع دن کا بیشتر حصہ اوررا وظائف، روحانی
اسباق و عبادت میں گزر جاتا۔ دن بکریاں
چرانے اور ضرورت کے مطابق کھیتی باڑی کرنے میں گزر جاتا۔ شروع شروع میں زمان خان
دودھ نکالنے اور روٹی پکانے کا کام کرتا
تھا۔ مگر پھر یہ کام بھی عاقب نے اپنے ذمے لے لئے۔ وہ رحمٰن بابا کے آرام کا پورا
پورا خیال رکھتا۔ یہ مختصر سا طرز عمل مسلسل دھارے کی طرح زندگی کے دریا میں
گرتا چلاجا رہا تھا۔ دھارے کی قوت، عشق
کے اٹوٹ بندھن میں حیات کو جکڑے جا رہی تھی۔ عشق تو زندگی کی بناید ہے۔ عشق تو
اللہ کی صفت ہے۔ عشق لامحدود ہے۔ جب زندگی لامحدودیت میں اپنا راستہ ڈھونڈتی ہے تو
اس کی ہر حرکت امر ہو جاتی ہے۔ جب امر ربی اپنی احتیاج کو پہچان لیتا ہے تو وہ رہبر حق سے کبھی منہ نہیں موڑتا اور
ساقی اپنے رند کو کبھی تشنہ نہیں رکھتا۔ عاقب کے یہ تین سال بھی جنت کی ہوا کے
جھونکے کی طرح آن کی آن میں گزر گئے۔ جن کی خوشبو مشکِ جان بن گئی۔ ان تین سالوں
میں سوائے زمان خان کے اور کوئی اس طرف نہیں آیا۔ نہ رحمٰن بابا کبھی پہاڑ سے نیچے
اترے۔ بہت پہلے زمان خان سے عاقب نے پوچھا بھی تھا کہ تم رحمٰن بابا کو کیسے جانتے
ہو؟“
وہ سنتے ہی بولا۔” ام رحمٰن بابا کو
نہیں جانتا۔ رحمٰن بابا ام کو جانتا ہے۔ تم کو سب کچھ پتہ چل جائے گا۔“ زمان خان
کے متعلق بس اتنا ہی عاقب کو پتہ تھا کہ وہ چھوٹے سے قبیلے کا ایک فرد ہے۔ اکیلا
رہتا ہے۔ اس کے سوا نہ اُس نے کبھی بتایا نہ اس نے کبھی پوچھا۔ عاقب تو جب سے
طوفان سے بچ کر نکلا تھا۔ بس ایک یہی دھن اس کے اوپر سوار تھی کہ اس کی پیدائش کے
وقت ماں نے جو وعدہ اللہ سے کیا تھا۔ اسے پورا کردے۔خضر بابا اور رحمٰن بابا نے جس
مقصد ِ حیات کی نشان دہی کی ہے۔ اس کی زمہ داریوں سے منشاء الہٰیہ کے مطابق سبکدوش
ہو۔ اس نے ہمیشہ اپنے ابو کے اس قول کو ذہن میں رکھا کہ” اللہ کی معبودیت مقامِ
بندگی میں ظاہر ہوتی ہے۔“ ابو کے اس قول نے اس کی آنا کو کبھی سرکشی پر ابھرنے نہ
دیا۔ اس کی امی کہا کرتی تھیں۔” بیٹا! کائنات کا خالق اور مالک صبحانہ تعالیٰ ہے۔ سارا کار خانہ حیات اس کی
قدرت و احاطہ حکم و ارادے کے اندر ہے۔ بندہ اللہ کے ارادے کا پابند ہے۔ نہ کہ اللہ
بندے کے ارادے کا۔ اپنی آنا کو اللہ کی آنا کے مقابل کبھی نہ کرنا۔ ورنہ تمہاری
نگاہ اپنے نقطے پر مرکوز ہو کر رہ جائے گی اور قدرت کا دائرہ جس نے تمہارے نقطے کا
احاطہ کر رکھا ہے۔ تمہاری نگاہ سے چھپ جائے گا۔“ جب بھی ماں باپ کی نصیحتیں اسے
یاد آتیں، اسے یوں لگتا جیسے وہ کہیں دور
نہیں گئے۔ خود اسی کے اندر کہیں چھپ کر بیٹھ گئے ہیں۔ پردے کے اندر پردے کے باہر ۔
اندھیرا اجالا۔ زندگی موت۔ فنا بقا۔ سب
حقیقت کے روپ
ہیں۔ ایک حقیقت جو ہر گھڑی نت نئے روپ میں سامنے آرہی ہے۔ اس کی فکر حقیقت کے
سمندر کی گہرائی میں ڈوب جاتی۔ جس کے نکالنے
کے لئے اسے رحمٰن بابا اور خضر بابا جیسے رہنماؤں کی ضرورت تھی۔
ایک دن علی الصبح جب وہ سو کر اُٹھا تو
رحمٰن بابا کہنے لگے۔” عاقب تم کو پتہ ہے کہ تمہیں رہتے ہوئے تین سال کا عرصہ گزر
چکا ہے۔ “ عاقب نے مسکرا کے کہا۔” تین سال تو کیا آپ کے قدموں میں تو میں ساری
زندگی بتا سکتا ہوں۔ آپ نے مجھے فطرت سے قریب کر دیا ہے۔“ رحمٰن بابا نے پیار سے
اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
کہنے لگے ” بیٹے! کائنات کی ہر شئے اللہ کے حکم کی پابند ہے۔
اللہ کا ارادہ فطرت بن کر ہر شئے کے اندر کام کر رہا ہے۔ تم نے ان تین سالوں میں
فطرت کا مطالعہ کیا۔ اب فطرت تم پر مزید
اپنے اسرار کھولنا چاہتی ہے۔ آسام کی پہاڑیوں کے کسی غار میں گزشتہ پانچ سو سال سے
اللہ کے کچھ نیک بندے سوئے ہوئے ہیں۔“
انہیں پانچ سو سال پہلے ایک بزرگ جو
اپنے دور کے ابدال تھے۔ انہوں نے ان نوجوانوں کو یہ کہہ کر سلایا تھا کہ فلاں دور
میں جب تمہیں اللہ کے مشن کے لئے بلایا جائے گا تو تم جاگ جاؤ گے۔ ان بزرگ کا نام
حضرت ابو المغیث بن رزاق ہے۔ ان بزرگ کے ساتھ میرا روحانی رابطہ ہے۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ان نوجوانوں کو جگا کر اللہ کے
مشن کے لئے ان سے کام لیا جائے۔ اس کام کے لئے تم کو چنا گیا ہے۔ تم ان بندوں سے
ملو گے۔ یہ پانچ نوجوان ہیں جن کے نام یہ ہیں۔ مقسطین، جذبیر ، اتابک، مرزوق،
ثقلین۔ ابھی ان کے جاگنے میں تقریباً تین سال کا عرصہ باقی ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ
ان تین سالوں میں تم دنیا کی سیاحت کرو۔ ملک ملک گھوم کر لوگوں کے رہن سہن کے ساتھ
ساتھ ان کے ذہن اور ان کی طرزِ فکر کا مشاہدہ کرو تاکہ جب تم ان پانچ نوجوانو سے
ملو ۔ تو انہیں دنیا کی صحیح حالت دکھلا سکو۔ کیونکہ جب وہ اٹھیں گے تو پانچ سو
سال پہلے کی دنیا کا نقشہ ان کے ذہن میں ہوگا۔“
عاقب نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے جواب
دیا۔” رحمٰن بابا! آپ کے قدموں سے تو ایک لمحے کو بھی جدا ہونے کو دل نہیں چاہتا۔
مگر حکمِ خداوندی اور حکم مرشد سے انکار
کی کسے مجال ہو سکتی ہے۔ آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ جس وقت حکم کریں گے چل پڑوں گا۔“
رحمٰن بابا نے کہا۔” آج کا دن ہمارے ساتھ اور گزار لو پھر
کل صبح نکل جانا۔ ہمارا گھوڑا ” سمندگان“ جو تمہیں یہاں
لے کر آیا تھا۔ سفر میں تمہارے ساتھ رہ گا۔ آج اپنی تیاری کر لو۔ اللہ ہر قدم پر
تمہارا حامی مدد گار ہے۔ عاقب نے اُٹھ کر نماز اور معمول کے
وظائف و اسباق ادا کئے۔ ناشتے کے لئے دودھ اور
گندم سے دلیہ بنایا۔ اتنے میں زمان خان بھی آگیا۔ سب نے ناشتہ کیا۔ رحمٰن بابا نے
بتایا۔” عاقب کل صبح یہاں سے رخصت ہو جائے گا۔“