Topics
دوسرے شہروں سے لوگ یہاں آ کر بسنے لگے اور شہر کی رونق دو
بالا ہوگئی۔ ان دو سالوں میں عاقب اور گلبدن کے یہاں ننھے ننھے بچوں کا اضافہ ہو
گیا۔ بیٹے کا نام نجیب اور بیٹی کا نام سنبل رکھا گیا۔ رحمٰن بابا ہی نے دونوں
بچوں کے نام تجویز کیے تھے۔ صفدر اور شاہدہ بیگم کے یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے بیٹا
دیا جس کا نام رحمٰن بابا نے اویس رکھا۔ صفدر اور شاہدہ کے خط اکثر عاقب اور گلبدن
کے لئے آتے رہتے تھے۔ بستی والوں کے بھی
خطوط گلبدن کو ملتے خصوصاً قدرت اللہ ہمیشہ اپنی بیٹی کو تین چار ہفتے میں ضرور خط
لکھتے۔ گلبدن بھی بچوں کی نئی تصویریں بجھواتی رہتی تھی۔ غار والے جوان مسلسل
سیاحت میں تھے اور اپنی خیر خبر سے رحمٰن بابا اور عاقب کو آگاہ کرتے تھے۔
ان دو برسوں میں عاقب اور گلبدن نے اپنے اوپر خدمتِ خلق کو
اس طرح لازم کر لیا کہ یہ ان کی پہچان بن گئی۔ لوگ ان پر بھروسہ کرنے لگے۔ جب وہ
غیب کی اور روح کی باتیں کرتا تو لوگ اس کی باتیں توجہ سے سنتے۔ وہ جانتا تھا کہ
جب تک بصارت کے ساتھ بصیرت شامل نہ ہو، کوئی آدمی غیب میں داخل نہیں ہو سکتا۔
اگرچہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ بصیرت قلب
کی آنکھ ہے۔ جو روح کی نظر ہے جسم کی آنکھ کے لئے ہر ایک پردہ ہے۔ اس پردے کے
پیچھے جسم کی نظر کام نہیں کرتی۔ روح کی نظر جسم کے پردے میں سے گزر کر جسم کو
کنٹرول کرنے والی روشنیوں تک پہنچ جاتی ہے۔ غیب کا سارا نظام روشنیوں پر قائم ہے۔
کوئی شخص خواہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے ، قرآن پڑھتا ہے، نماز پڑھتا ہے، لیکن اگر غیب میں اس کا مشاہدہ نہیں ہے تو وہ روح اور اس کی
حرکات و سکنات سے واقف نہیں ہو سکتا۔ وہ لوگوں کو بتاتا کہ ” موجودہ زندگی پانی کے
بُلبُلے کی طرح ہے۔ طوفان کا ایک ریلا ہزاروں بُلبُلوں کو فنا کر دیتا ہے۔ موت کے پردے کے پیچھے زندگی کن طرزوں میں کام کر رہی ہے۔ اس
پر توجہ دو ، اپنے اندر روح کی قندیل جلا لو تاکہ عقل اندھیرے میں بھٹکتی نہ
پھرے۔“
لوگ ایسی باتیں سننے کے لئے ہر روز اس کے گرد جمع ہو جاتے ۔
سارے شہر کی فضا میں لطافت اور نورانیت پھیل چکی تھی۔ عاقب سوچتا سیلاب سے پہلے کے
انقرہ میں اور آج کے انقرہ میں زمین آسمان
کا فرق ہے۔ پہلے زندگی اندھیری راہ تھی۔ جس پر لوگ ایک دوسرے سے ٹکراتے لڑ کھڑاتے
یشتم پشتم چلے جاتے تھے۔ آج زندگی کی راہیں روشن
ہیں۔ روح کی قندیل سے منور ہیں جس پر لوگ نپے تلے قدموں سے وقار اور عزت کے
ساتھ چل رہے ہیں۔ روح کی روشنیوں اور
تائید غیبی کے ساتھ جب کوئی عمل کرتا ہے تو فتح و کامرانی اس کے قدم چومتی ہے۔
انقرہ آئے ہوئے عاقب اور گلبدن کو تقریباً تین سال ہو گئے۔
ان تین سالوں میں ان کی ملاقات نہ رحمٰن
بابا سے ہو سکی نہ قدرت اللہ سے اور نہ ہی غار والے جوانوں سے مل سکے۔ ایک
دن صبح اُٹھتے ہی گلبدن کہنے لگی۔” رات میں نے اپنے ابا کو خواب میں دیکھا ، وہ
افسردہ ہیں اور کہہ رہے ہیں میری
آنکھیں تم سب کو دیکھنے کے لئے
ترس رہی ہیں۔“
عاقب کہنے لگا۔” رات میں نے رحمٰن بابا کو خواب میں دیکھا۔
انہوں نے میرے ہاتھ میں ہوائی جہاز کے ٹکٹ
پکڑاتے ہوئے فرمایا۔” بہو اور بچوں کو لے کر ہمارے پاس پہنچو، تم سب کی یاد آرہی
ہے۔“
گلبدن کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگا۔ عاقب بھی بہت خوش تھا۔
کہنے لگا۔” اتنے دنوں سے رحمٰن بابا تو بہت ہی یادآنے لگے ہیں۔ ضرور وہ بھی ہمیں
اسی طرح یاد کرتے ہوں گے۔ میں آج ہی سیٹ بک کروا لیتا ہوں۔“
عاقب اور گلبدن نے ایک ہفتے کے اندر اندر اپنی تیاری مکمل
کر لی۔ ان کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ مگر ملنے جلنے والے سارے ہی افسردہ
تھے کہ ان کے جانے سے رونق ختم ہو جائے گی۔ روزانہ ان کے دوست آتے اور جلد لوٹآنے کی ہدایت کرتے۔ انہیں خود
پتہ نہ تھا کہ ان کے اتنے سارے چاہنے والے ہیں۔ آخری رات تو تقریباً ایک بج گیا جب
اپنے مخلص دوستوں سے انہیں فراغت ملی۔ گلبدن عاقب سے کہنے لگی۔
” عاقب میں تو ان سب کی محبت و خلوص دیکھ کر بہت ہی متاثر ہوئی ہوں۔ بھلا تین سالوں میں
اتنے لوگ ہمارے دوست بن گئے اور پھر یہ کہ اتنے قریب ہو چکے ہیں کہ ہم پر اپنی جان
نچھاور کرنے سے بھی انہیں دریغ نہیں ہے۔ یہ اللہ پاک کا کتنا بڑا کرم ہماری جانوں
پر ہے۔“
عاقب بولا۔” گلبدن ! سچ تو یہ ہے کہ زندگی کا ہر لمحہ ہمیں
کوئی نہ کوئی درس ضرور سکھا جاتا ہے۔ ایک
لمحہ وہ تھا جب خضر بابا مجھے حکم دیتے تھے قندیل جلا۔ میں سوچ میں پڑ جاتا تھا۔
کیا کروں کون سی قندیل جالؤں؟ کیسے خضر بابا
کے حکم کی تعمیل ہو۔ آج مجھے خضر بابا کے الفاظ میں چھپی ہوئی حکمتوں کا
اندازہ ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کے
پتلے میں اپنی روح پھونکی ہے۔ روح اللہ کا نور ہے ، آدم کا پتلا مٹی کا شعور اور قالب ہے۔ مٹی کا قالب و شعور خلاء ہے۔ جب
توجہ اور نظر خلاء سے گزر کر نور پر مرکوز ہو جاتی ہے تو روح سامنے اجاتی ہے، نگاہ
قلب کھل جاتی ہے۔ قندیل روشن ہو جاتی ہے۔ روح کی نظر نور میں جو کچھ دیکھتی
ہے قلب کی نگاہ کے ذریعے روحانی مشاہدات و کیفیات شعور میں ریکارڈ ہو جاتے ہیں اور
آدمی کو روح اور روح کے اندر کام کرنے
والے نور سے آگاہی ہو جاتی ہے۔
محبت نگاہِ کی قوت ِ کشش ہے جو شئے کی روشنیوں کو جذب کر کے
ان کی ماہیت بدل دیتی ہے، ان کا رخ پلٹ دیتی ہے، جیسے اگر کوئی کسی سے نفرت کرتا
ہے مگر دوسرا فرد اس کے ساتھ محبت اور سچے خلوص کے ساتھ برتاؤ رکھے تو اس فرد کی
نفرت انسیت میں تبدیل ہو جائے گی۔ خضر بابا نے ہمیں اپنے اندر اللہ پاک کی محبت کی
قندیل جلانے کا حکم دیا۔ آج یہ قندیل ہم نے جلا لی تو پروانے اس کے ارد گرد جمع
ہونے لگے۔ فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے شمع کی فطرت میں جلنا ہے اور پروانوں کی
فطرت میں شمع کی روشنی پر نثار ہونا ہے۔ گلبدن میری جان! وہ پیار سے گلبدن کو
بھینچتے ہوئے جذبات سے بھری ہوئی آواز میں بولا۔” روح قندیل ہے، روح کی جان قندیل
کا نور ہے۔ روح کی جان جب عشق ِ خدا وند میں جل کر سوختہ ہو جاتی ہے تو نور قندیل سے باہر
دوڑنے لگتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے
اپنے کلام میں فرمایا ہے کہ مومنوں کی روح کا نور ان کے دائیں جانب آگے آگے دوڑے
گا اور اس نور کی روشنی میں مومن اپنی راہ پائیں گے اور دوزخی اس نور کی تمنا کریں
گے۔“ جب کوئی آدمی مٹی کے پتلے کی بجائے روح کی قندیل بن جاتا ہے تو اس کے اندر سے
نکلنے والے نور پر لوگ پروانہ وار نثار ہونے لگتے ہیں ۔ جیسے میں تم پر نثار ہوں
اور دونوں قہقہ مار کے ہنس پڑے۔
اگلے دن وہ سفر پر روانہ ہوگئے۔ چھوٹے بچوں کے ساتھ سفر
لمبا تھا۔ نجیب صرف دو سال کا تھا اور سنبل ایک سال کی تھی۔ مگر سفر میں بچوں نے
زرا تنگ نہ کیا۔ جہاز کھٹمنڈو پہنچ گیا۔ رحمٰن بابا کے پاس پہنچنے کا باقی سفر گاڑی کا تھا۔ ایئر پورٹ سے باہر
نکلے تو ایک ہجوم انہیں خوش امدید کہنے کے لئے جمع تھا۔ رحمٰن بابا اور قدرت اللہ
سب سے پہلے دوڑ کر ان کی جانب لپکے اور گلاب کے پھولوں کی مہک نے فضا کو لطافت و
سرور سے بھر دیا۔
رحمٰن بابا اور قدرت اللہ نے نجیب اور سنبل کو گود میں
اُٹھاتے ہوئے خوشی سے کہا۔” ہم نے سوچا ہمارے ننھے منے مہمان اتنے لمبے سفر سے تھک
نہ جائیں اس لیے ہم نے کھٹمنڈو میں ہی ان کے استقبال کا بندوبست کر لیا وہاں چل کر
تم اور لوگوں سے بھی ملو گے۔“
تھوڑی دیر میں یہ
سب لوگ ایک بہت بڑے مکان پر رکے جیسے ہی
گاڑی رکی مکان کے اندر سے غار والے جوان، صفدر اور شاہدہ اپنے بیٹے اویس کے ساتھ
باہر آگئے۔ سب ہنس ہنس کے ایک دوسرے کے ساتھ گلے ملنے لگے۔ اتنے میں پیچھے کسی کی
آواز آئی۔
” خوچہ عاقب بھائی
ام بھی ادھر ہیں۔“ عاقب نے چونک کر
مڑ کر دیکھا۔” ارے زمان خان تم کہاں چھپے ہوئے تھے؟“ یہ کہہ کر اس نے نہایت
ہی گرم جوشی سے اسے گلے لگا لیا۔ صفدر علی خوشی سے لہراتی ہوئی آواز میں بولے۔”
ارے بھئی زمان خان اب مہمانوں کو اندر بھی لے چلو بھابھی بھی تھک جائیں گی۔“
اندر سے مکان بڑا اور خوبصورت تھا۔ ہال بہت ہی بڑا تھا۔ سارے آرام سے سما گئے نجیب اویس کے ساتھ
کھیلنے لگا مگر قدرت اللہ نے سنبل کو گود
سے نا اتارا۔ گلبدن اپنے باپ کے قریب بیٹھ گئی۔ قدرت اللہ بار بار کبھی
گلبدن کو دیکھتے کبھی سنبل کو۔ کہنے لگے۔
” سنبل کو دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے میں اپنی بیٹی کا
بچپن دیکھ رہا ہوں۔ گلبدن بھی بالکل ایسی ہی تھی۔“
شاہدہ بیگم گلبدن سے کہنے لگیں۔” یہ مکان صفدر نے رحمٰن
بابا کے کہنے پر ابھی پندرہ دن ہوئے خریدا
ہے رحمٰن بابا نے فرمایا تھا کہ بہت بڑا
سا مکان خریدو۔ یہاں بہت سارے مہمان آنے والے ہیں۔ جب رحمٰن بابا نے یہ بات
صفدر سے کہی تو اس وقت تک نہ تمہارے آنے کی خبر تھی نہ ہی غار والوں کا کوئی پتہ
تھا۔ پندرہ دن پہلے جب یہ مکان لیا تو رحمٰن بابا نے یہ کہہ کر جلدی جدلی
صفآئی کروآئی اور اسے خوب سجانے کا حکم دیا۔ ہم نے ایک مرتبہ
پوچھا بھی کہ یہاں کون آرہا ہے؟ تو انہوں نے بس اتنا فرمایا کہ وقت آنے پر تم جان
لو گے۔ پرسوں غار والے جوان تشریف لائے تب
رحمٰن بابا نے بتایا کہ عاقب اور گلبدن بھی بچوں کے ساتھ آرہ ہیں۔ سردار قدرت اللہ
اور بستی والے کل آئے تھے۔“
پھر وہ گلبدن کو اپنے ساتھ چمٹاتے ہوئے بولی۔” گلبدن مجھے
یوں لگ رہا ہے جیسے میں خواب دیکھ رہی ہوں یقین نہیں آرہا کہ سچ مچ تم یہاں ہو۔“
دو دن سب کے آپس میں ملنے ملانے میں گزر گئے۔ تیسرے دن
رحمٰن بابا نے سب کو طلب کیا۔ عاقب اور گلبدن سے ترکی کے حالات پوچھے۔ اور انقرہ
میں ان کے روز و شب کی مصروفیات کے متعلق تفصیلی گفتگو کی۔ غار والے جوانوں سے ایک
ایک کر کے سب کی روداد سنی۔ پھر رحمٰن بابا نے غاروالوں سے سوال کیا۔” تم نے پانچ سوسال پہلے دنیا والو
ں کے عقائد میں اور آج کے لوگوں کے عقائد میں کیا فرق پایا؟“
مقسطین بولا۔” میں کافستان سے ہوتا ہوا تاجکستان کی طرف
روانہ ہوا۔ کافرستان میں قیام تقریباً دو
ماہ کا تھا۔ کافرستان میں یونانی نسل کے باشندے ہیں۔ قبلِ مسیح کے زمانے کا ایک
بہت مشہور بادشاہ جو سکندر اعظم کے نام سے پہچآنا جاتا ہے۔ فتحِ دنیا کے ارادے سے
یونان سے چلا تھا۔ جہل میں بادشاہ پورس کے ساتھ ا س کی جنگ ہوئی تھی۔ بادشاہ پورس
اس لڑآئی میں ہار گیا۔ اس کے بعد سکندر
اعظم تو واپس یونان لوٹ گیا۔ مگر اس کے بہت سے ساتھی کافرستان میں بس گئے۔ آج بھی
کافرستان میں انہی یونانی باشندوں کی نسل موجود ہے۔
کافرستان چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھری ہوئی ایک حسین وادی
ہے۔ یہ لوگ عجیب و غریب عقائد رکھتے ہیں ان کی معاشرتی زندگی میں گھوڑے اور خچر کا
بہت دخل ہے۔ کیونکہ پہاڑی علاقوں میں سواری اور بار برادری کے لئے گھوڑے اور خچر
ہی استعمال ہوتے ہیں۔ شاید اسی اہمیت کو مدِ نظر رکھ کر یہاں کے لوگ
گھوڑے کی پوجا کرتے ہیں۔ یہ لوگ گھروں میں دیواروں پرگھوڑے کا سر لٹکا کر رکھتے ہیں اور اسے پرستش کا درجہ دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ لکڑی کے مجسمے بنا کر انہیں پوجتے ہیں۔“
مقسطین اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا۔” رحمٰن بابا
پانچ سو سال پہلے بھی لوگ حقیقی خالق کو ماننے کی بجائے اس کی پیدا کی ہوئی اشیاء
کو خدا کا درجہ دیتے تھے۔ آج بھی صورتِ
حال یہ دیکھی کہ اللہ تعالیٰ کی بجائے مخلوق کی پوجا کی جا رہی ہے۔ تو پھر پانچ سو
سال پہلے کے لوگوں اور آج کے لوگوں کے عقائد میں فرق تو کچھ نہیں ہوا۔ میں دو
مہینے دن رات ان کے ساتھ رہ کر ان کے عقائد اور طرز فکر تبدیل کرنے کی کوشش کرتا
رہا۔ مگر چند لوگوں کے سوا اور کوئی میری بات
سمجھ نہ سکا یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
اس کے بعد تاجکستان گیا یہاں افغانی اور منگولی نسل کے لوگ آباد ہیں۔ ازبکستان اور تاجکستان ان تمام
علاقوں میں مسلم، عیسآئی اور بدھ مذہب کو
ماننے والے لوگ ہیں۔ پانچ سو سال پہلے یہاں کافی اولیاء اللہ کا گزر رہ چکا ہے۔ یہاں
اسلام ولیوں اور صوفیوں کے ذریعے پھیلایا گیا ۔ مگر گزشتہ ستر سال سے جمہوری دور
ہونے کی بنا پر اسلام کا صرف نام ہی رہ گیا ہے اور اس کی صحیح تعلیمات سے لوگ
نابلد ہیں۔
یہ تین سال میں نے انہی ملکوں میں گزارے۔ لوگوں کے قریب
رہنے سے ان کے عقائد و ایمان اور طرزِ فکر کا اندازہ ہوا۔ جس سے میرے یقین میں یہ
بات آگئی کہ عقیدہ ' ایمان اور طرز فکر کی بنیاد
تو حید پر ہے۔ توحید مرکزی نقطہ فکر ہے۔ اگر کسی بندے کا یا کسی قوم کا
مرکزی نقطہ فکر اللہ تعالیٰ کے نور سے روشن ہو جاتا ہے تو نور کی روشنی اس کے
عقیدے' ایمان اور طرزِ فکر سب کو تقویت پہنچاتی ہے۔ اس کے لئے صراطِ مستقیم پر
چلنے کے مواقع اور وسائل قدرت فراہم کر دیتی ہے۔ مگر صورت حال اگر اس کے برعکس ہو
کہ کسی فرد یا قوم کے بنیادی نقطہ فکر میں
اللہ تعالیٰ کی بجائے غیر اللہ کا تصور پیدا
ہو جائے تو آدمی کے مرکزی نقطہ فکر میں
نور کی بجائے مادی روشنیوں کا ذخیرہ ہونے لگتا ہے اور آدمی اللہ کے تصور کو
بھی کسی نہ کسی مادی صورت میں دیکھتا ہے ۔ ہر مادی صورت مخلوق ہے۔ اللہ تعالیٰ
مخلوق سے ہٹ کر ہے۔ اس کی ہر صفت مخلوق سے الٹ ہے۔ جس کی وجہ سے غیر اللہ کے تصور
و عقیدے سے زندگی کا پیٹرن ہی الٹا ہو جاتا ہے اور طرزِ فکر یکسر بدل جاتی ہے۔“
پھر رحمٰن بابا سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔؛” رحمٰن بابا ان تین سالوں کے تجربے سے میں تو
اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جب سے آدم و حوا اس دنیا میں آئے ہیں۔ ان کے ایمان و
عقائد کا ایک ہی پیٹرن ہے یا تو وہ اللہ تعالیٰ
کی وحدانیت کو تسلیم کرتے ہیں اور
یا پھر وہ اللہ کو نہیں مانتے۔ ہر دور اور ہر زمانے میں انسان ان دو
پیٹریوں پر چل رہا ہے۔وحدانیت کی پٹڑی پر چل کر وہ اللہ سے ملاقات کرتا ہے اور
وحدانیت سے منکر ہو کر اللہ سے دور چلا جاتا ہے۔ جب سے دنیا بسی ہے ان ہی دو
راستوں پر بنی نوع آدم سفر کر رہی ہے۔ مشکل تو یہ ہے کہ جو جس راستے پر چل رہا ہے
۔ اس راستے کے متعلق اچھی طرح سے کھوج لگاتے ہوئے بھی ڈرتا ہے۔ یہی صورت حال میں
نے وہاں مسلمانوں کی دیکھی وہ ایک اللہ کو مانتے ضرور ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی
صفات آگہی حاصل کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ
کہیں اللہ کا حکم و ارادہ ہمارے نفس کی
خواہشات میں حائل نہ ہو جائے۔ رحمٰن بابا آپ ہی بتایئے کیا ایسے شخص کو آپ وحدانیت
و توحید کا ماننے والا کہہ سکتے ہیں جو اپنے نفس کی خواہشات کو احکامِ خدا وندی پر
ترجیح دے۔“
رحمٰن بابا بڑے غور سے مقسطین کی بات سُن رہے تھے وہ فرمانے
لگے۔” میرے بچے! تم بالکل درست کہتے ہو مسلمان گو بظاہر بت پرستی نہیں کرتا۔ مگر
اس نے ہوائے نفس کے بے شمار بت تراشے ہوئے ہیں جنہیں قرآن نے طاغوت کہا ہے۔ آخرت
میں جب مسلمانوں کے ایمان کا حساب و کتاب ہوگا۔ تب ہر مسلمان اپنے ایمان کی تصویر
اپنے سامنے دیکھ لے گا۔ اگر وہ حشر میں اپنے رب کا دیدار کرتا ہے تو وہ سچا موحد
ہے اور اگر اس کی آنکھوں کے سامنے طاغوتی بت ہوں گے تو وہ اللہ کا دیدار نہ کر سکے
گا۔ میرے بچو! یہی سب سے بڑا ظلم ہے انسان کا اپنے نفس پر کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے
اندر اپنے نور کو دیکھنے کا وصف پیدا کیا
ہے اور وہ اس وصف کو استعمال نہیں کرتا ۔ یاد رکھو! اللہ والوں کو اللہ نے یہی ذمہ
داری سونپی ہے کہ وہ لوگوں کی توجہ ان کے اندر کام کرنے والی روحانی صلاحیتوں کی
جانب دلائیں تا کہ زیادہ سے زیادہ بندے دنیا و آخرت میں کامیاب زندگی گزاریں۔“
جذبیر رحمٰن بابا کا اشارہ دیکھ کر سنبھل کر بیٹھ گیا اور
کہنے لگا ۔
” یہاں سے میرا سفر چین کی جانب تھا۔ چین کی جو ہسٹری مجھے
ملی ہے وہ یہ ہے کہ ہزاروں سال پہلے شاہی خاندان کے بارہ بھائی تھے۔ جو منگولیا سے آ کر چین میں آباد ہوگئے۔ طولائی خاندان' چغتائی خاندان' قبلائی خاندان یہ سب انہیں بھائیوں کی اولادیں ہیں۔ ان
کا مذہب کنفیوشس تھا۔ حضرت قازان نے انہیں
مسلمان کیا۔ آج بھی چین میں کنفیوشس مذہب پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں عیسائیت
اور اسلام کو ماننے والے بھی ہیں۔ سب اپنے اپنے عقیدے پر قائم ہیں۔ مگر میں نے ان
کے درمیان رہ کر ایک بات خاص طور پر نوٹ
کی ہے کہ پانچ سو سال پہلے آدمی اپنے عقائد پر اندھا یقین رکھتا تھا۔ اس کا یقین
اپنے عقیدے پر اتنا پختہ ہوتا تھا کہ کوئی دلیل اس کے ایمان کو منتزلزل نہیں کر سکتی مگر سائنسی اور علمی ترقی کی وجہ
سے عقل اتنی بڑھ گئی ہے کہ کوئی بات تسلیم کرنے عقل سلائل طلب کرتی ہے۔ آج کی عقل
ہر شئے کے اندر اچھائی اور برائی دونوں
پہلوؤں کی جانب نظر کرتی ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اگر انہیں بات کے
روشن رخ کی جانب توجہ دلائی جائے تو عقل
اس کو تسلیم کرنے پر رضا مند ہو جاتی ہے اور آدمی اپنا نظریہ بدل دیتا ہے۔ چین میں
میرا قیام دو سال تک رہا۔ اس دوران لوگوں کے سامنے نظریہ توحید کو پیش کرنے میں
مجھے تھوڑی بہت کامیابی ضرور ہوئی ہے۔ چین سے روانہ ہو کر منگولیا میں ایک برس تک
قیام رہا۔ منگولین طولآئی خاندان سے تعلق
رکھتے ہیں۔ ان کامذہب عجیب ہے۔ یہ نیلے آسمان کی پوجا کرتے ہیں۔ یہ لوگ کھلے آسمان
کے نیچے یوگا کی پوزیشن میں آسن پر بیٹھ جاتے ہیں اور نیلے آسمان کا تصور باندھ
لیتے ہیں۔ یہی ان کی عبادت ہے جب ان کے خاندان کا بڑا مر جاتا ہے تو یہ اسے قبر
میں دفن نہیں کرتے بلکہ ایک چبوترے پر اسے رکھ دیتے ہیں۔“
جذبیر اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا۔” رحمٰن بابا یہاں
میری دوستی ایک منگول فیملی سے ہو گئی۔ یہ
میاں بیوی جوان تھے۔ بڑے ہنس مکھ اور ملنسار تھے۔ ہم جلد ہی آپس میں گھل مل گئے۔
ایک مرتبہ مذہب پر بات چل نکلی تو انہوں نے بتایا کہ ہم تو نیلے آسمان کو خدا سمجھتے ہیں جس کا وسعت اور بلندی میں کوئی ہمسر
نہیں ہے۔ ہم تصور میں اس نیلے آسمان سے
اپنا دھیان لگاتے ہیں اور اپنی حاجتیں بیان کرتے اور نیلا آسمان ہماری تمام حاجتوں
کو پورا کرتا ہے۔ اس لئے کہ وہ سب سے زیادہ وسیع ہے اور سب سے زیادہ بلند ہے۔
جذبیر کہنے لگا۔ یہ بات سن کر میں نے انہیں سمجھایا کہ نیلا آسمان ایک پردہ ہے۔ اس
پردے کے پیچھے حق موجود ہے۔ جو اصل خالق ہے۔ جب تم تصور میں اس ہستی سے رابطہ قائم
کرتے ہو جو تمہاری ضروریات کا کفیل ہے تو دراصل تمہاری فریاد خالق تک ہی پہنچتی
ہے۔ وہ اپنے کمالِ ربانی اور فعل رحمی کے ساتھ تمہاری خواہشات و تقاضے پورے کرتا ہے۔ تم نیلے آسمان کے تصور
کی بجائے اللہ کا تصور کرو۔ وہ اللہ جو تمہارے قریب تر ہے۔ اگر تم اللہ کا تصور
کرو گے اور ایک خالق پر ایمان لاؤ گے تو وہ پہلے سے زیادہ تمہاری بات سنے گا۔
رحمٰن بابا آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ انہوں نے میرے ساتھ کئی مرتبہ اسی طرح
اللہ کے تصور میں مراقبہ کیا اور پھر آپ کی دعاؤں سے نیلے آسمان سے ان کا ذہن ہٹ
گیا اور ہماری دوستی خوب پکی ہوگئی پھر وہ اپنے دوستوں میں بھی اس کا تذکرہ کرنے
لگے۔“
یہ سارا واقعہ سن کر رحمٰن بابا نے فرمایا۔” انسان ان گنت
تقاضوں کا مجموعہ ہے۔ ہر لمحے کوئی نہ کوئی خیال تقاضہ بن کر اس کے اوپر وارد ہوتا
ہے۔ روح اپنے اندر پیدا ہونے والے تقاضوں سے بھی واقف ہے اور اس بات سے بھی آشنا
ہے کہ اللہ کے سوا یہ تقاضے اور کوئی پورا نہیں کر سکتا۔ روح کی فکر کی روشنی جب
شعور میں داخل ہوتی ہے تو شعوری حواس اس کی جستجو میں متحرک ہو جاتے ہیں۔ نظر جس
پر ٹھہر جاتی ہے۔ فکر کی تصویر اسی پردے پر منعکس ہو جاتی ہے۔ توحیدی نقطہ نظر ہر شئے میں اللہ کے جلوے بکھیر دیتا ہے۔
اللہ ہی ظاہر ہے اللہ ہی باطن ہے۔ خرابی وہاں آتی ہے جب بندہ پردے کو اللہ سمجھ لیتا ہے۔ پردے
پر ظاہر ہونے والی حقیقت اسے دکھائی نہیں دیتی۔“
رحمٰن بابا اتابک کی طرف مڑے۔” ہاں بھئی تم سناؤ۔ تم نے
کہاں کہاں کا سفر کیا؟“
اتابک کے چہرے پر نورانی مسکراہٹ پھیل گئی۔ جس نے اس کے سرخ
و سفید رنگ کو اور زیادہ روشن بنا دیا وہ بولا۔ ”رحمٰن بابا میری منزل عراق تھی ۔
عراق ہمیشہ سے پیغمبروں کی سر زمین رہی ہے۔ یہاں ہمیشہ وحدانیت کا چرچا رہا ہے
مقام اُر Ur کے
بادشاہ حمورابی نے معاشرتی قوانین اور
نظام کی داغ بیل ڈالی۔ مگر یہ نظام وہی تھے جو پیغمبروں کے لائے ہوئے آسمانی صحائف
میں سے تھے۔ عراق میں رہ کر مجھے اس بات کا مشاہدہ اور تجربہ ہوا کہ جو قوم ایک
خالق کی پرستش کرتی ہے۔ اس قوم پر اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں اور برکتیں نازل کرتا
ہے عراق میں ایک سال رہنے کے بعد میں ایران گیا۔ ایران میں ساڑھے تین ہزار سال سے
بادشاہت چلی آرہی تھی۔ جس کا گزشتہ صدی میں خاتمہ ہوا۔ پہلے ان کامذہب زرتشت تھا۔
جو کہ آتش پرست ہیں بعد میں مسلمان ہوئے
آتش پرستی میں نیکی اور بدی ان کا عقیدہ تھا۔ نیکی کے تصور کو وہ یزدان کہتے تھے اور بدی کے تصور کو اہرمن
کہا جاتا تھا۔ جو اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمانی اور صفتِ قہاری کا تصور ہے۔ زرتشت ان
دونوں قوتوں کو خدا کا درجہ دیتے اور اپنی
عباد گاہوں میں ہر وقت آگ جلائے رکھتے۔ حضور پاکﷺ کی امد کے بعد یہاں اسلام کا
چرچا ہوا اور آج ایران ایک اسلامی ملک ہے۔ توھید پرست ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے
عقائد ایک اللہ پر بہت مضبوط ہیں۔ مگر معاشرتی طرزوں کی تبدیلیوں نے چودہ سو سال
میں اسلام کے حقیقی اصولوں کو بہت حد تک بدل دیا ہے۔ پانچ سو سال پہلے مسلمان اور
آج کے مسلمان میں نمایاں فرق دکھائی دیتا ہے۔
رحمٰن بابا میرا باپ اپنے علاقے کا سردار تھا۔ اس کے ایک
اشارے پر علاقے کا ہر فرد اپنی جان قربان
کرنے کو تیار رہتا تھا ۔ میری ماں اس علاقے کی ملکہ تھی اور اعتبار سے ہم بچوں کے
لئے ہر قسم کی سہولتوں اور آسائشوں کی فراوانی تھی۔ مگر ہمارے ماں باپ نے ہمیں عام بچوں کی طرح پالا۔ ہمیں
عام لوگوں سے میل جول رکھنے پر کبھی منع
نہیں کیا۔ اس طرح ہمارے اندر ضرورت مندوں کے لئے ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہو
گیا۔ خود میرے ماں باپ ہر روز شام کو کہیں نہ کہیں لوگوں کے مجمع میں جا بیٹھتے ان
کے ساتھ کھاتے پیتے اور دوستوں کی طرح ہنستے بولتے اس طرح سردار اور ماتحت کے درمیان محبت و اخوت اور
بھائی چارے کا رشتہ استوار ہو گیا۔
اس اٹوٹ رشتے کی بنیاد پر امیری غریبی کی حدِ فاصل مٹ گئی۔
دونوں طبقات اپنی اپنی جگہ مطمئن اور خوش
باش زندگی گزارنے لگے۔ خوشی اور اطمینان ِ قلب زندگی کو روحانی راستوں پر ڈال دیتے
ہیں۔ جس میں ہر کام آدمی اپنے رب کی خوشی کے لئے کرتا ہے۔ اپنے رب کی خوشوندی حاصل
کرنے کی نیت ہر لمحے قلب میں سکون اور خوشیوں کی لہریں منتقل کرتی رہتی ہے اور دب
بہ دب بندے کی خوشیوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ رحمٰن بابا! میری ماں کہا کرتی
تھی۔” بیٹا خوشی جنت کا شعور ہے۔ جنت نور کا عالم ہے۔ جس میں بسنے والے نور میں
اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کا مشاہدہ
کرتے ہیں۔ نور ان کے حواس بن جاتا ہے۔ نور کے حواس روح کے حواس ہیں۔ پس جب بندہ
دنیا میں خوش رہتا ہے اور اپنے ارد گرد جنت کا ماحول بنا لیتا ہے تو وہ اللہ کے
نور کے غلاف میں بند ہو جاتا ہے اور اس کے اندر
روحانی حواس متحرک ہو جاتے ہیں اور وہ اپنے پاسآنے والی ہر اطلاع اور سوچ
کو روحانی فکر کے مطابق معنی پہناتا ہے۔ روح اپنے رب سے قریب ہے۔ آدمی روحانی فکر
کے ذریعے اپنے رب کی قربت محسوس کرتا ہے۔
ہمارے علاقے میں کچھ ایسا ہی ماحول تھا۔ ہر شخص جب اللہ کا ذکر کرتا تھا تو یوں محسوس ہوتا تھا جیسے وہ اپنے سامنے
موجود ہستی کا تذکرہ کر رہا ہے۔ مگر آج کے دور میں ماحول اس طرح بدل گیا ہے کہ جب لوگ اللہ تعالیٰ کا تذکرہ کرتے ہیں تو
اللہ تعالیٰ دل و ذہن سے بہت دور
دکھائی دیتے ہیں ۔ قربت اور دوری
کی فکر نے لوگوں کے حواس میں تبدیلی پیدا کر دی ہے۔ لوگ اللہ کو غائب جان کر ہر
کام میں اپنے ذاتی ارادے کو فوقیت دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے ہر عمل میں نفس کی
کمزوریوں کی جھلکیاں ملتی ہیں۔ جب کہ انسانی نفس تمام مخلوقات کے نفس پر قوت ، دب
دبے اور علم و ہنر میں فضیلت رکھتا ہے۔ ایران کے بعد مجھے مصر جانے کا اتفاق ہوا۔
مصر کا جو نقشہ میرے ذہن میں تھا آج مصر اس سے مختلف دکھائی
دیا۔
علاقے کا سردار ہونے کے ناطے میرے والد کے پاس دوسرے قبیلوں
اور علاقوں کے سردار بھی آتے رہتے تھے۔ جو
اپنے اپنے ہنر و کمال کا مظاہرہ کرتے تھے۔ اس طرح تجاری تعلقات بھی قائم ہو جاتے۔
ایک مرتبہ بڑا عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ اس وقت میری عمر تقریباً انیس برس کی
تھی۔ قبیلے کی ایک لڑکی مجھے اچھی لگتی تھی گو میں نے کبھی اس سے اپنی چاہت
کا اظہار نہیں کیا مگر چھپ چھپ کر دیکھنا
میرا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ جب بھی اس کی نظریں میری نظروں سے ملتیں۔ یہی پیغام ادھر
سے بھی ملتا محسوس ہوتا۔
اس شام ایسا ہوا کہ اپنی محبوبہ کو دیکھنے کے لئے ارادتاً
دریا کے کنارے نکل کھڑا ہوا۔ دریا کے کنارے کھجور اور ناریل کے درخت تھے۔ روزانہ
شام کو عورتیں اور لڑکیاں دریا پر آتیں' پانی بھرتیں اور کھجور و ناریل توڑ کر
اپنے گھروں کو لے جاتیں۔ ناریل توڑنے کے لئے وہاں چند لڑکے مقرر تھے۔ جو درختوں پر
چڑھ کر ان کی ان میں ناریل توڑ کر نیچے پھینک دیتے۔ میں درختوں کی آڑ میں
چھپا لڑکوں کی چہٹکلوں سے لطف اندوز ہو
رہا تھا ۔ مجھے معلوم تھا اگر میں ان کے سامنے چلا گیا تو سب شرما کر تتر بتر ہو
جائیں گی۔ اتنے میں ایک درخت جس پر بہت سارے ناریل لگے تھے مگر اس درخت پر ابھی
کوئی توڑنے والا چڑھا نہ تھا کہ اچانک نہایت تیزی سے ایک کے بعد ایک اس درخت سے
ناریل گرنے لگے۔ سب کی توجہ اس طرف مبذول ہو گئی۔ میں بھی حیرانی سے ادھر دیکھنے
لگا۔
دیکھتے ہی دیکھتے درخت کے پاس ایک آدمی نمودار ہوا جس نے
مصری لباس پہنا ہوا تھا۔ وہ ایسا جیسے زمین پر اگ آیا۔ میرے ساتھ ساتھ تمام عورتوں
پر بھی حیرانی طاری ہوگئی ایک عورت گھبرا کے بولی۔” کون ہو تم؟ میں صورتحال بھانپ
کر تیزی سے درخت کی اوٹ سے باہر نکل آیا اور عوروتوں کو ہاتھ کے اشارے سے تسلی
دیتے ہوئے اس شخص کی جانب متوجہ ہوا میں نے مسکراتے ہوئے اسےسلام کیا اور مصافحے
کے لئے ہاتھ بڑھاتے ہوئے اپنا تعارف کرایا۔ اس نے مسکراتے ہوئے اپنا نام ملیڈیا
بتایا۔ اس نے کہا میرا تعلق مصر سے ہے۔ یہ
سن کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ اتنی دور سے یہ شخص یہاں کس طرح پہنچا۔ اس کی سواری
کہاں ہے؟ اس کے چہرے پر سفر کے آثار بھی نہیں ہیں۔ یہ اچانک کہاں سے نمودار ہو گیا
ہے۔ میں نے اپنی حیرانی دور کرنے کے لئے اس سے پوچھا تم یہاں کیسے آئے؟ وہ مسکرا
کے بولا۔ سحر اور جادو کے زور پر۔ پھر اس
نے ایک نظر درخت میں لگے ناریل کو دیکھا۔ وہ ناریل درخت سے نیچے ٹوٹ کر اس کے
ہاتھوں میں آگیا۔ بولا۔ ایسے۔ میں نے عورتوں کے درمیان اس سے زیادہ باتیں کرنا مناسب نہیں جانا۔
مبادا عورتیں ڈر جائیں۔ وہ حیران نگاہوں سے اسے گھور رہی تھیں۔ میں نے اس کا
ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے ساتھ گھر چلنے کی دعوت دی۔ عورتوں کو کہہ دیا کہ تم اپنا کام کرو۔ گھر آکر
اسے اپنے باپ سے ملوایا۔ خاطر مدارات کی
اور اسے مہمان خانے میں ٹھہرایا۔ رات کو میں اور میرا باپ اس کے پا س جا بیٹھے اور
اس سے جادو اور سحر کے ان علوم کے متعلق دریافت کرنے لگے جن کی اس نے نشاندہی کی
تھی۔ اس نے بتایا جیسا کہ قرآن میں بیان کیا جا چکا ہے کہ مصر پر فرعونوں کی بادشاہت
تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں
مصر پر فرعون حکومت کرتے تھے۔ فرعون صرف مصر کا بادشاہ ہی نہیں بلکہ اپنے آپ کو خدا کا درجہ دیتا تھا۔
فرعونوں کے زمانے میں سحر اور جادو کے علوم زوروں پر تھے۔ حضرت موسی ٰ علیہ السلام
نے آ کر سحر، جادو اور معجزات کے فرق کو ظاہر کیا اور استدارجی علوم اور روحانی
علوم کی علیحدہ علیحدہ نشاندہی کی۔ مدتیں گزرنے کے بعد آج بھی سحر و جادو کے علوم
وہاں پر موجود ہیں۔ ملیدیا نے بتایا کہ اس کے باپ کو جادو اور سحر کے علوم جاننے
کا بڑا شوق تھا وہ رات کو قبرستان میں جا کر چلے کرتا۔ آدھی رات کو اہرام مصر کے
اندر داخل ہو کر عملیات پڑھتا۔ اس نے اہرام مصر میں جانے کے لئے خفیہ راستہ بنا
رکھا تھا۔ ایک رات تجسس کے مارے میں بھی اس کے پیچھے پیچھے اس خفیہ راستے سے اہرام
مصر کے اندر جا پہنچا۔ میں چھپ کر اپنے باپ کو دیکھ رہا تھا وہ کوئی منتر پڑھ رہا
تھا۔ منتر پڑھتے پڑھتے وہ زمین سے اوپر اُٹھنے لگا اور پھر اس نے فضا میں چاروں طر
ف چکر لگائے۔
٭٭٭