Topics

براق


                بازار میں شاپنگ کرتے ہوئے تصویروں کی ایک دکان کے آگے سے گذر ہوا۔ دیواروں پر بڑی خوبصورت فریموں میں تصویریں آویزاں تھیں۔ ایک تصویر پر نظر جیسے ٹھہر کر رہ گئی۔ بڑی سی آبنوسی فریم میں سفید براق سا گھوڑا اپنی اگلی دو ٹانگیں اٹھائے بڑی شان سے کھڑا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے ابھی قلانچیں بھرنے ہی والا ہے۔ اس کے چہرے پر عجیب تمکنت تھی اور بڑی بڑی سیاہ آنکھیں تو بولتی دکھائی دیتی تھیں۔ میں ٹکٹکی باندھے اسے دیکھنے لگی۔ ایک لمحے کو ان آنکھوں کی گہرائی میں ایک غبار سا دکھائی دیا۔ اس غبار میں سچ مچ ایک جیتا جگتا گھوڑا نظر آیا۔ ہو بہو تصویر جیسا۔ میں نے گھبرا کے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اسی لمحے دکان والا میری طرف مخاطب ہوا۔ تصویر تو مجھے لینی نہیں تھی دکان دار سے اس کی خوبصورتی کی تعریف کر کے آئندہ دکان پر آنے کا وعدہ کر کے آگے بڑھ گئی۔ دو دن گزر گئے۔ نظروں میں جیسے وہ تصویر نقش ہو گئی تھی۔ حالانکہ مجھے کبھی گھوڑوں سے اس قدر دلچسپی نہیں رہی۔ مجھے توغزالی آنکھوں والے اور سڈول جسم والے ہرن پسند ہیں۔ ان کی چیتے جیسی کھال تو مجھے اس قدر پسند ہے کہ میں ہمیشہ سوچتی ہوں کہ اگر کبھی مجھے موقع ملے تو خوب سارے ہرن پالوں گی۔ مگر جانے اس سفید گھوڑے میں کیا بات تھی کہ اس کی تصویر دو دن سے ایک پل بھی میری نگاہوں سے غائب نہ ہو سکی۔ دوسری رات عشاء کی نماز اور مراقبہ سے فارغ ہو کر لیٹی تو جلد ہی نیند کی آغوش میں پہنچ گئی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ ایک بہت بڑا سا دریا ہے۔ میں اس دریا کے کنارے کھڑی ہوں۔ مجھے ایسا لگا جیسے یہ دریائے نیل ہے۔ دریا بہت گہرا تھا، مگر میری نظریں اس دیرا کی گہرائی دیکھ سکتی تھیں۔ جیسے جیسے نظر دریا کے اندر سفر کرتی جاتی تھی مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے میں ادراک کے سمندر میں سفر کر رہی ہوں۔ یہاں تک کہ نظر دریا کی تہہ تک پہنچ گئی۔ میرے سامنے نور کا ایک راستہ تھا۔ میں نے سوچا دریا کی تہہ میں نور کا یہ راستہ کہاں جا رہا ہے۔ اور اس راستے پر کون آتا جاتا ہو گا۔ اسی وقت ایک سفید گھوڑے پر حضور موسیٰ علیہ السلام اس راستے پر آگے آگے جاتے دکھائی دیئے۔ آپ کے ہاتھ میں ایک نہایت ہی روشن عصا تھا۔ آپ کے پیچھے آپ کی قوم کچھ گھوڑوں پر سوار اور کچھ پیدل چلی جا رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ یہ راستہ وہ ہے جو دریائے نیل میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا پانی پر مار کر معجزاتی طور پر بنایا تھا۔

                کائناتی ادراک کے اندر کائنات کی ہر شئے کا شعور موجود ہے۔ دریائے نیل کی گہرائی میں کائناتی شعور کی سطح پر دریائے نیل کے ادراک میں نور کا یہ راستہ اب بھی موجود ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرے اندر کائناتی پروگرام کام کر رہا ہے اور میں دریائے نیل کی ہر لہر اور پانی کی ہر گہرائی پر پانی کے ذہن کو سمجھ رہی ہوں اور پانی بھی میرے ذہن کو سمجھ رہا ہے۔ مجھے بڑی خوشی سی ہوئی کہ اب مجھے دریا کی گہرائی میں تاریکی کی وجہ سے کوئی دقت نہ ہو گی۔ پانی کی لہریں خود مجھے راستہ بتائیں گی اور میری نظر پھر گہرائی میں دیکھنے لگی۔ اب کے سے نور کے اس راستے پر اس طرح کے سفید براق گھوڑے پر میری روح بیٹھی دکھائی دی۔ ایک لمحے کو میں ٹھٹھک کر رہ گئی۔ یہ تو وہی گھوڑا ہے، وہ تصویر والا۔ روح اس پر بیٹھ کر کہاں جا رہی ہے۔ گھوڑے کی تیز رفتاری دیکھ کر میں لپک کر اس کے راستے پر آ گئی تا کہ نظر سے اوجھل ہونے سے پہلے روح کے ساتھ ہو لوں۔ مجھے دیکھ کر روح نے گھوڑے کو رکنے کا حکم دیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے پیچھے مجھے بٹھا لیا اور پھر گھوڑے کو تھپتھپایا تو وہ چلنے لگا۔ اب روح میری طرف گردن موڑ کر کہنے لگی۔ ارے تم یہاں کیا کر رہی ہو۔ اس کی نظروں میں استعجاب کے ساتھ ساتھ خوشی کی روشنی تھی۔ میں نے کہا۔ یہی سوال تو میں تم سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ اس راستے سے کہاں جا رہی ہو۔ وہ کہنے لگی کہ تمہیں پتہ ہے کہ یہ کون سا راستہ ہے؟ میں نے کہا۔ یہ تو وہی راستہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دریائے نیل پر ان کی معجزاتی عصا کے پانی میں مارنے سے پیدا ہوا تھا۔ دریا کا پانی دونوں اطراف میں کھڑا ہو گیا تھا اور درمیان میں خشک راہ نکل آئی تھی۔ روح کہنے لگی۔ یہ نور کی وہ رو ہے جو عصا کے اندر سے نکل کر دریائے نیل کی گہرائیوں میں پیوست ہو گئی۔

                تمہیں کلام پاک میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وہ ذکر ضرور یاد ہو گا جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عصا اور یدبیضا کے معجزے دیئے جانے کا ذکر فرمایا ہے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی بیوی کے ساتھ مدین سے واپس مصر جا رہے تھے۔ سرد اور اندھیری رات میں دور انہیں آگ دکھائی دی۔ انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا تم سب یہیں ٹھہرو۔ میں آگ لے کر آتا ہوں تا کہ راستے میں تاریکی دور ہو جائے اور اندھیرے میں بھٹکنے سے بچے رہیں۔ جیسے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام آگ کے قریب پہنچے۔ ندا آئی کہ اے موسی! یہ مقدس وادی طویٰ ہے۔ اپنے جوتے اتار کر یہاں آئو دراصل وہ آگ نہیں بلکہ تجلی تھی۔ اسی تجلی کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کے اندر اور آپ کے ہاتھ کے اندر منتقل فرما دیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عصا زمین پر ڈالنے سے تجلی کے اثر سے زندہ سانپ بن گیا اور ہاتھ کو بغل میں ڈال کر نکالنے سے ہاتھ مثل چاند کے نورانی ہو گیا۔ تجلی کے اندر اللہ تعالیٰ کا تفکر کام کر رہا ہے۔ تجلی کے نور میں اللہ تعالیٰ کے تفکر کی اشکال روح کی نظر سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ تجلی کی ہر رو اللہ تعالیٰ کا ایک امر ہے۔ عالم امر سے یہ تجلی دنیا یا عالم ناسوت میں آتی ہیں۔ جہاں تجلی کے اندر اللہ تعالیٰ کے تفکر کی اشکال ظاہری صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ عالم ظاہر میں ایک مدت معینہ تک اپنے امر کا مظاہرہ کرنے کے بعد پھر تجلی کی روشنی واپس عالم امر میں لوٹ جاتی ہے۔ عالم ظاہر میں ظاہر کی نظر یا شعور تجلی کے ساتھ ساتھ عالم امر کی جانب سفر کرتا ہے۔ تجلی کی رو شعور کے لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سفر کرنے کا راستہ ہے۔ اسی راستے پر چل کر شعور اللہ تعالیٰ کے امر کی وہ مخصوص تجلی کا مشاہدہ کرتا ہے جس کے اندر اللہ تعالیٰ کا تفکر کام کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے تفکر کے تمام جلوے اس کی نظر میں آ جاتے ہیں۔

                میں نے بڑی بے تابی کے ساتھ پوچھا تو کیا واقعی تم اللہ تعالیٰ کے جلوئوں کا مشاہدہ کرو گی اور اس کے ساتھ میں نے بڑے پیار سے سفید گھوڑے کی پیٹھ کو تھپتھپایا۔ اچھے گھوڑے مجھے بھی اپنے رب کے پاس لے چلو۔ روح نے بہت محبت کے ساتھ مجھے دیکھا اور کہنے لگی تم ہمارے ساتھ آخیر تک سفر کرو گی، فکر نہ کرو۔ میں نے خوشی سے روح کے بال چوم لئے۔ نور کا یہ راستہ بہت لمبا تھا۔ رستے کے دونوں اطراف میں نور کی نہریں بہہ رہی تھیں۔ ہر نہر میں مختلف رنگ جھلکتے دکھائی دیتے تھے۔ کہیں چشمے ابل رہے تھے۔ کہیں رنگین آبشاریں تھیں۔ نہروں کے کنارے نور کے درخت تھے جن کے اندر رنگین روشنیوں کے پھل اور پھول لگے تھے، ہر قدم پر ایک نیا منظر دیکھنے میں آتا تھا، جگہ جگہ لوگ اپنے چاہنے والوں کے ساتھ پکنک منا رہے تھے، حسین حوریں نہروں میں نہا رہی تھیں۔ نور کے پانی میں بھیگا ہوا حسن ساغر جمال کی دو آتشتہ شراب دکھائی دیتا تھا۔ جنہیں دیکھ کر نگاہیں مخمور ہوئی جاتی تھیں۔ میں نے نشے میں ڈوبی آواز کے ساتھ روح سے کہا۔ اچھی روح کیا ہم تھوڑی دیر یہاں دریا کے کنارے ٹھہر سکتے ہیں۔ میں دریا کا پانی چکھنا چاہتی ہوں۔ وہ ہنس دی۔ کیوں نہیں تمہاری ہر خواہش میری ہی تمنا ہے۔ مگر میرا کیا ہے۔ میں تو یہاں جب چاہے آ جا سکتی ہوں۔ فکر تو مجھے تمہاری ہے تم نے اگر اس نور کی نہر کا پانی چکھ لیا تو دنیا تمہارے لئے ویران ہو جائے گی اور ابھی دنیا میں تمہارا کچھ دن اور رہنا ضروری ہے۔ مگر میں دیکھتی ہوں کہ تمہاری تشنگی اب حد سے گزر چکی ہے۔ اور یہ بات اللہ تعالیٰ کی شان کریمی کے خلاف ہے کہ دریا کے کنارے وہ کسی کو پیاسا دیکھ سکے۔

                روح کی یہ باتیں سن کر میرا دل ایک انجانے خوف سے لرز کر رہ گیا۔ بار بار دل سے صدا آنے لگی۔ میرا کیا بنے گا۔ اتنے میں ایک حسین ترین سفید گھوڑا دریا کے کنارے رک گیا۔ روح نے مسکرا کے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے گھوڑے سے نیچے اتارا۔ میں نے چاروں طرف نظر بھر کر دیکھا۔ ایسا حسین منظر تو خیال میں بھی نہیں آ سکتا۔ میرا دل اس کی لطافت میں ڈوبتا چلا گیا اور میں اس میں اس طرح کھو گئی کہ تمام خدشے ذہن سے قطعی طور پر مٹ گئے۔ ہم دونوں دریا کے پانی میں اتر آئے اور بچوں کی طرح اس میں کھیلنے لگے۔ دریا کا پانی ذائقے میں دنیا کے تمام پانیوں سے مختلف تھا۔ اس کی شیرینی میرے رگ و پے میں سرائیت کر گئی۔ اس کے نور سے میرا سارا وجود روشن ہو گیا۔ اس کی حلاوت و سرور میں میرے بدن کا ایک ایک روں ڈوبتا محسوس ہونے لگا۔ میں نے سکون کے ساتھ اپنے آپ کو دریا کی لہروں کے حوالے کر دیا۔ دریا کی ہر لہر سے میرے دل میں گدگدی ہونے لگی۔ میرا جی چاہا کاش کہ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان لہروں پر بہتی رہوں۔ اسی لمحے روح نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے دریا سے باہر کھینچ یا۔ بس اب آگے چلنا ہے۔ ہم پھر سفید گھوڑے پر بیٹھ گئے۔ نہر کا پانی پینے سے میرا بدن بہت ہی ہلکا پھلکا محسوس ہوتا تھا اور گھوڑے میں بھی بجلی بھر گئی تھی۔ برق رفتاری کے ساتھ ہم اس نور کے راستے کے کنارے پر پہنچ گئے۔ سامنے ایک سفید جگمگاتا ہوا محل تھا جیسے دریا کے نور سے بنا ہے۔ اس محل کی شعاعیں راستے پر دور دور تک پہنچ رہی تھیں۔ ہم محل کے دروازے پر رک گئے۔ ایک خوبصورت نوجوان جو یہاں کا دربان معلوم ہوتا تھا نہایت تعظیم کے ساتھ آگے بڑھ کر اس نے ہمارے قدم لئے اور اندر ہمارے آنے کی اطلاع دی۔ ہم اندر پہنچے تو ایک بہت ہی خوبصورت مسند پر حضرت موسیٰ علیہ السلام بیٹھے تھے۔ ہم نے رکوع کے بل جھک کر انہیں آداب کہا اور آپ کی اجازت سے آپ کے قریب بیٹھ گئے۔ ہمیں دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام بے حد خوش ہوئے۔ آپ کے پاس ہی آپ کا عصائے مبارک رکھا تھا۔ آپ نے وہ میں دکھایا ایسا لگا جیسے تجلی کی ایم بیم (Beam) ہے۔ میں نے ہاتھ میں لیا تو اس کی روشنیاں میرے ہاتھ کے ذریعے جسم میں سرائیت کرتی محسوس ہوئیں۔ بس زیادہ دیر تک اسے پکڑ نہ سکی۔ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا ہاتھ بغل سے نکالا۔ اس قدر حسین اور روشن ہاتھ کبھی کسی شاعر کے تخیل میں بھی نہیں آ سکتا۔ بے ساختہ میں نے جھک کر اسے چوم لیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت خوش ہوئے اور اسی خوشی کے جذبے کے ساتھ میرا ہاتھ پکڑا اور مسند سے اٹھ کر کھڑے ہوئے۔ ہم محؒ کے اندر گھومنے لگے۔ چند ایک کمرے دکھانے کے بعد آپ نے مجھے ایک کمرہ دکھایا۔ اور فرمایا۔ تم جب بھی یہاں آنا چاہو اس کمرے میں ٹھہر سکتی ہو۔

                اس کے بعد ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اجازت مانگی اور آپ کی اجازت و دعائوں کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوئے۔ دوسرے ہی لمحے میری آنکھ کھلی تو اپنے آپ کو بستر پر پایا۔ طبیعت میں جاگنے کے بعد کی کسلمندی کی بجائے رگ رگ میں نور کی لطافت محسوس ہونے لگی۔ مجھے یقین نہ آیا کہ یہ سب کچھ خواب تھا۔ میں سوچنے لگی اللہ کے امر کی روشنی جب روح کے اندر منتقل ہو جاتی ہے تو روح کی نظر لوح محفوظ کے پردے پر اللہ تعالیٰ کے تفکر کی تصویروں کا مشاہدہ کرتی ہے۔ تفکر کی یہی تصویریں عالم تمثال کے پردے پر اپنا مظاہرہ کرتی ہیں۔ جب شعور عالم رویا میں داخل ہو جاتا ہے تو عالم تمثال میں ہونے والے مظاہرات کو خواب میں دیکھتا ہے اور جب خواب کی دنیا شعور کی سطح پر روشن ہو جاتی ہے تو بندہ اس حقیقت کو پا لیتا ہے کہ ساری کائنات انسان کے اندر ہے باہر کچھ بھی نہیں ہے۔ اسی دن میں بازار سے اس سفید گھوڑے کی تصویر خرید لائی۔ مجھے ایسا لگا کہ یہی میرے خواب کا گھوڑا ہے۔


 


Roohein Bolti Hain

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی

                ‘‘زندگی جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’

                یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔                میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔

                میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔                روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔

                                     دعا گو:

                                                سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

                                                تاریخ: 01-09-94