Topics

وراثت


                تنہائی میں بیٹھی اللہ تعالیٰ کے پیارے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات مبارک کے متعلق سوچنے لگی کہ اللہ میاں نے اپنے محبوبﷺ کے اندر کیسی کیسی روشنیاں بھر دی ہیں۔ نہ اس کی ابتداء ہے نہ اس کی انتہا ہے۔ جب ابتداء کا تصور کریں تو ذہن ایک نامعلوم سفر پر چلنا شروع کر دیتا ہے۔ جس کا تصور ازل کی حیثیت سے ذہن میں آتا تو ہے مگر اس کی حقیقت کا صحیح اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح ابد کا خیال بھی صرف تصور ہی کی حد تک محدود رہتا ہے۔ دل میں شدت سے یہ خواہش ابھرنے لگی۔ کاش میں ان ساری روشنیوں کو دیکھ سکوں جن کے علوم علم الاسماء کی شکل میں آدم کو ودیعت کئے گئے ہیں۔ اس خیال کے آتے ہی میری روح بالکل میرے سامنے کھڑی دکھائی دی۔ وہ گہرے گلابی لباس میں ملبوس تھی۔ کپڑوں کا عکس چہرے پر پڑنے سے اس کا چہرہ زندگی کی تازگی سے بھرپور دکھائی دیا۔ مجھے دیکھتے ہی بولی۔ تمہیں اسمائے الٰہیہ کے علوم سیکھنے کا بہت شوق ہے، میں نے ذرا افسردگی سے کہا۔ ہاں شوق تو بے حد ہے، مگر کوئی شخص سارے علوم کیسے سیکھ سکتا ہے۔ میرے خیال میں تو اسمائے الٰہیہ کے علوم جاننے کا خیال بھی دل میں نہ لانا چاہئے۔ پتہ نہیں میرے ذہن میں ایسی بات کیسے آ گئی۔ یہ سن کر روح کا گلابی چہرہ کچھ اور گلابی ہو گیا۔ وہ تڑخ کر بولی۔ کیوں یہ بات ناممکن کیسے ہے۔ کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں پڑھا۔

                ترجمہ:‘‘اور ہم نے آدم کو اسماء الٰہیہ کے کل علوم سکھا دیئے۔’’

                حضرت آدم علیہ السلام تمام بنی نوع انسانی کے نمائندے ہیں اور تمام بنی آدم کے باپ ہیں۔ کیا باپ کا ورثہ اس کی اولاد میں تقسیم نہیں ہوتا۔ آدم علیہ السلام کا ورثہ اسمائے الٰہیہ کے علوم ہیں اور اللہ تعالیٰ کے قانون وراثت کی رو سے آدم علیہ السلام کی تمام اولاد اس ورثے کی حقدار ہے اور تم دیکھ رہی ہو کہ جس کا جتنا مقدر ہے وہ اس ورثے سے اپنا حصہ حاصل کر رہا ہے۔ میں نے کہا۔ تم ٹھیک کہتی ہو، مگر جب بہت سی اولادیں ہوں تو ورثہ حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔ پھر یہ تقسیم شدہ حصہ کل کیسے ہو سکتا ہے۔ میری روہانسی صورت دیکھ کر وہ ہنس پڑی۔ بولی تم تو بالکل بائولی ہو۔ اتنی سی بات نہیں سمجھتی۔ وراثت کا قانون اللہ کا بنایا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وارثوں کے لئے مخصوص حصے مقرر فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہر قانون اپنی جگہ مکمل ہے۔ اس کا مقرر کردہ وہ حصہ جو اس نے وارث کے لئے وراثت کی تقسیم میں رکھا ہے۔ یہ حصہ وارث کے لئے وراثت کا مکمل حصہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے قانون کا ہر شعبہ ایک مکمل حیثیت رکھتا ہے، اسی شعبے سے باہر اس قانون کی حد نہیں ہے۔ جیسے وارث کے لئے مقرر کردہ حصے سے زیادہ لینا جائز نہیں ہے۔ یہ مقرر کردہ حصہ ہی اس کی مکمل حدود وراثت ہے۔ اس حد سے باہر اللہ تعالیٰ کی منع کردہ حدود ہیں۔ لہٰذا وارث کے لئے اس کا جائز حق ہی کل جائیداد ہے۔ وارث کے لئے یہ بات درست نہیں ہے کہ وہ اپنے باپ کے کل کو اپنا کل سمجھ لے جیسے اللہ تعالیٰ نے آدم کو اسمائے الٰہیہ کے کل علوم سکھا دیئے۔ کل سے مراد آدم کا کل ہے۔ اللہ کا کل نہیں ہے۔ آدم علیہ السلام کے اندر اسمائے الٰہیہ کے علوم سیکھنے کی جس قدر صلاحیت تھی۔ اس قدر علوم اللہ نے انہیں سکھا دیئے اور آدم کے ذہن میں علم الٰہی کی روشنیوں کو جذب کرنے کی جس قدر استعداد تھی، اتنی روشنیاں ان کے اندر بھر دیں۔ اس سے زیادہ روشنیاں ان کے مقدر سے زیادہ تھیں۔ جیسے گلاس میں پانی بھرنے کے بعد اگر مزید ڈالا جائے تو وہ ضائع ہو جاتا ہے۔ جب گلاس پورا بھرا ہوا ہو تو تم کیا کہو گی کہ مکمل بھرا ہوا ہے۔ اس کے اندر اور گنجائش نہیں ہے۔ اسی طرح کلھا سے مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اندر اور کوئی صفت نہیں ہے۔ سمندر سے جب بالٹی بھری جاتی ہے تو سمندر اسی طرح بھرا کا بھرا رہتا ہے۔ ہر انسان اپنی ذات میں ایک مکمل کائنات ہے۔ ہر انسان کی ذات کا نقطہ اللہ تعالیٰ کی تجلی ذات کا نقطہ ہے۔ اس نقطہ کے اندر اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی روشنیاں کام کر رہی ہیں۔ ان کے علوم اسمائے الٰہیہ کی شکل میں انسان کو دیئے گئے ہیں، اگر کوئی فرد اپنے نقطہ ذات کے اندر کام کرنے والی کل روشنیوں کے علوم حاصل کرے تو اسے کل اسمائے الٰہیہ کے علوم حاصل ہو جاتے ہیں۔ مگر یاد رکھ کہ تمہاری ذات کا یہ نقطہ اللہ تعالیٰ کی تجلی ذات کا نقطہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی وسعتوں میں لامحدود ہے۔ لامحدودیت کا ہر ذرہ اپنی وسعتوں میں لامحدود ہے۔ لامحدودیت کا ہر ذرہ اپنی حدود میں لامحدود ہی کہلائے گا۔ جیسے سمندر کے پانی کا ہر قطرہ پانی ہی کہلاتا ہے۔ سمندر سے ہر قطرہ کو ذات کا تصور پانی کی شکل میں ملا ہے۔ اسی طرح وحدانیت کا تصور کائنات کے ذرہ ذرہ میں کام کر رہا ہے۔ وحدانیت لامحدودیت ہے۔ لامحدودیت کسی شکل و صورت اور قانون میں نہیں آ سکتی۔ جب روح کے اندر لامحدودیت سے روشنیاں آتی ہیں، روح کی نظر ان روشنیوں کو اپنے تفکر کے سانچے (Dye) میں ڈھال کر دیکھتی ہے۔ روح کے اندر اللہ کا تفکر کام کر رہا ہے۔ اللہ کا تفکر لامحدود اور لامتناہی ہے چنانچہ روح کا تفکر بھی لامحدود ہے اور لامحدودیت کے علوم بھی لامحدود ہیں۔ ہر شئے کے نقطہ ذات کے اندر اللہ کا تفکر کام کر رہا ہے۔ اللہ اپنی ہر صفت میں یکتا اور واحد ہے۔ ہر فرد کے اندر اللہ کا تکفر بھی وحدانیت کی اسی صفت سے آراستہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فرد کا ایک اپنا ہی ذہن ہے۔ کسی کا ذہن مکمل طور پر کسی دوسرے سے نہیں ملتا اور آپس میں نظریات کے اختلاف اور مختلف الذہنی کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ مجھے ایسا لگا جیسے میرا ذہن آہستہ آہستہ کھلتا چلا جا رہا ہے۔ میں نے روح سے پوچھا۔ تم ہر سوال کا جواب کس طرح دیتی ہو اور پھر تعجب اس بات کا ہے کہ تم جواب بھی بالکل صحیح دیتی ہو۔ کیا تمہارا طریقہ تعلیم بھی دنیا کی طرح ہے؟ اس نے گہری نظر سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔

                 اللہ تعالیٰ اپنے کلام میں فرماتے ہیں کہ ‘‘اللہ کی سنت میں ابد تک کوئی تبدیلی نہیں ہے۔’’ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو قانون فطرت مادی دنیا میں رائم ہیں وہی قانون فطرت روشنی اور نور کے عالمین میں بھی جاری و ساری ہیں۔ جسے اللہ تعالیٰ نے غیب کی دنیا کہا ہے۔ مادی دنیا کی ہر شئے مادی خدوخال اور ظاہری شکل و صورت میں ہے اور روشنی یا نور کیہر شکل و صورت میں موجود ہے کیونکہ مادی جسم کی نظر مادے ہی دیکھ سکتی ہے اور روشنی یا نور کے جسم کی نظر روشنی اور نور میں ہی کام کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء الٰہیہ کے کل علوم اور قانون فطرت کے کل نکات قرآن مجید کے اندر محفوظ ہیں۔ یہ ام الکتاب ہے۔ جس کے اندر کائنات کے مکمل علوم ہیں۔ مادی دنیا میں اسی کے علوم تمہاری نظر کے سامنے کتاب کی صورت میں تحریر کی شکل میں موجود ہیں۔ تم اسے پڑھ کر اپنے شعور اور مادی دنیا میں کام کرنے والے قانون کے مطابق معنی اخذ کرتے ہو، اس کے رموز اور اللہ تعالیٰ کی حکمتیں سمجھنے کےلئے تمہیں کسی استاد کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے تا کہ وہ تمہارے ذہن کے مطابق تمہیں معرفت الٰہی کی باریکیاں سکھا سکے۔ روشنی یا غیب کی دنیا میں ہر شئے روشنی کے خدوخال اور صورت میں موجود ہے۔ کلام الٰہی کی تحریر بھی نور اور تجلیوں کی صورت میں موجود ہے جو لوح محفوظ کہلاتی ہے۔ لوح محفوظ کے تیس شعبے ہیں۔ ہر شعبہ اللہ تعالیٰ کے علم و قوانین کا ایک شعبہ ہے۔ جس کے اندر اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے کام کرتے ہیں۔ جب روح کی نظر اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق اور اس کے فضل کے ساتھ لوح محفوظ کے اندر کام کرتی ہے تو روح کی آنکھ نور اور تجلیوں کے اندر اللہ تعالیٰ کے کلام کی تحریر کو دیکھتی ہے اور روح کا شعور اس کے اندر کام کرتا ہے۔ جیسے تمہارا ذہن کلام پاک کی عبارت پڑھ کر اس کے معنی اخذ کرتا ہے۔ جب روح کا شعور کسی نکتے کو سمجھ نہ سکے تو اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے جن کو کتاب کا علم دیا گیا ہے اور جو غیب کی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے اذن پر خدمت خلق میں مصروف ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنا فرض سمجھتے ہوئے روح کے ذہن پر اپنا تصرف کرتے ہیں۔ جس سے روح کے شعور کو جلا ملتی ہے اور وہ کلام الٰہی کی حقیقتوں سے واقف ہو جاتی ہے۔ یہ کہہ کر روح نے میری آنکھوں میں بہت گھور کر دیکھا۔ اسی وقت اس کی غزالی آنکھوں سے روشنی کی دو لکیریں نکل کر میری آنکھوں کے اندر داخل ہو گئیں جس کے ادراک سے میری پلک جھپک گئی۔ دوسرے لمحے آنکھ کھولی تو نظر دور نورانی فضا میں جا پہنچی۔ میری روح وہاں کھڑی نظر آئی۔ سبز رنگ کے سرسراتے ہوئے ریشم کے لباس میں وہ جنت کی حور دکھائی دیتی تھی۔ ایک لمحے کو میری نظر اس کے جمال سے مبہوت ہو کر رہ گئی۔ دوسرے ہی لمحہ ذہن میں خالق کونین اللہ رب ذوالجلال و الاکرام کا خیال آیا۔ فکر وجدانی عرش کے حجابات طے کرتی ہوئی الوہیت کی فضائوں میں جا پہنچی۔ مجھے ایسا لگا جیسے میرے محبوب میرے رب کے ضیائے حسن کی ایک ایک کرن نے رنگین لبادہ اوڑھ لیا ہے اور نظر ان رنگین لبادوں کو اس کا جمال سمجھ کر اس کے رعب حسن سے مرعوب ہو جاتی ہے۔ میرے محبوب، میرے رب، میرے آقا کے حقیقی حسن و جمال تک تو تصور کی بھی رسائی نہیں ہو سکتی۔ نظر سے دیکھنا تو بڑی بات ہے۔ مجھے ایسا لگا جیسے تمام کائنات کے اندر پھیلی ہوئی تجلیات ربانی الوہیت کی فضائوں کی گہرائی میں سمٹتی جا رہی ہے۔ اب نظرکے سامنے اندھیرے کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔ اس اندھیرے نے کائنات کے وجود کو اپنی تاریکیوں میں گم کر دیا۔ میرے دل سے ایک گہری آہ نکلی۔ سب کچھ میرا رب ہی ہے، میرے رب کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے۔ کسی شئے کا وجود نہیں ہے، اسی لمحے لمحے نظر کے سامنے پہلے سے بھی زیادہ روشنی ہو گئی۔ روح کے چاروں طرف روشنیوں کا ہجوم تھا۔ انہیں روشنیوں میں حضور قلندر بابا اولیاءؒ چلتے ہوئے دکھائی دیئے۔ قلندر باباؒ روح کے قریب آئے۔ روح نے نہایت ہی ادب کے ساتھ انہیں سلام کیا۔ حضور قلندر باباؒ بہت خوش ہوئے گلے سے لگا کر بولے۔ آپ تو ہماری بہت پیاری بیٹی ہیں پھر روح کے سر پر بڑی محبت و شفقت کے ساتھ اپنا ہاتھ رکھا اور کچھ پڑھ کر سر پر پھونک ماری اور مسکرا کر بولے۔ اب آپ کی سمجھ میں اچھی طرح آ جائے گی۔ روح نے خوشی اور عقیدت کے مارے ان کے ہاتھ چوم لئے اور محبت سے مسرور ہوکر بولی۔ قلندر باباؒ آپ مجھے بہت ہی اچھے لگتے ہیں۔ قلندر باباؒ نے خوش ہو کر پیشانی چوم لی اور رخصت ہو گئے۔ مجھے روح کی تقدیر پر رشک آنے لگا۔ میں نے کہا اچھی روح تم کس قدر خوش نصیب ہو کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کی محبت حاصل ہے۔ وہ خوشی سے چہکتی ہوئی بولی۔ سچ مچ میں بہت خوش نصیب ہوں اور اس کے لئے ہر لمحہ اپنے پیارے رب اور اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا شکر ادا کرتی ہوں اور پیارے رسول پاکﷺ کے پیاروں کا شکر ادا کرتی ہوں۔ پھر وہ دور خلائوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔ سچ پوچھو تو یہ سب کچھ میرے اللہ کا فضل ہے۔ اسی کا فضل کبھی قلندر باباؒ کی شکل میں میرے سامنے آ جاتا ہے اور کبھی میرے پیارے بابا جی کا روپ دھار کر میرے وجود پر چھا جاتا ہے۔ یہ سب میرے رب ہی کے جلوے ہیں۔ جو کبھی کسی رنگ میں اور کبھی کسی رنگ میں نظر کے سامنے آجاتے ہیں۔ اس کے بدن سے نور کی شعاعیں پھوٹنے لگیں اور وہ آن کی آن میں میری نگاہ سے اوجھل ہو گئی۔

 

 


Roohein Bolti Hain

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی

                ‘‘زندگی جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’

                یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔                میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔

                میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔                روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔

                                     دعا گو:

                                                سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

                                                تاریخ: 01-09-94