Topics

لوح محفوظ


                میں نے آنکھ جو کھولی تو دیکھا کہ فضا میں میری روح کھڑی ہے’ اس کے سامنے لوح محفوظ ایک تختی کی طرح رکھی ہے اور وہ اس تختی پر کچھ لکھ رہی ہے۔ مجھے بڑا تعجب ہوا کہ روح کا ہاتھ لوح محفوظ تک کس طرح پہنچ گیا اور اس پر لکھنے کی اجازت روح کو کیسے مل گئی اس تجسس نے مجھے اس کے قریب کر دیا۔ میں نے اپنے دل کی حیرانی سے مجبور ہو کر بغیر کسی تمہید کے اس سے سوال کر ڈالا۔ آخر تم لوح محفوظ تک کیسے پہنچ گئیں اور اس پر لکھنے کی اجازت تمہیں مل کیسے گئی۔ اس سوال کے ساتھ ہی جب میں نے لوح محفوظ کو قریب سے دیکھا تو اور زیادہ حیرت میں پڑ گئی کیونکہ لوح محفوظ ایک کورے کاغذ کی طرح صاف شفاف تھی اور اس تختی پر سوائے اس عبارت کے جو روح نے میرے سامنے اپنے ہاتھ سے لکھی تھی اور کچھ تحریر نہ تھا۔ روح میری حیرت سے پھٹی ہوئی نظروں کا مفہوم جان گئی۔ مسکرا کر بولی۔

                اسی لوح کی طرف دیکھتی رہو، تمہیں تمہارے سوال کا جواب مل جائے گا۔

                یہ سن کر میں نے اپنی نظریں لوح پر گاڑ دیں۔ اس پارے کی رح چمکتی ہوئی صاف شفاف لوح پر جیسے ایک فلم سی چلنے لگی۔ میں دیکھتی ہوں کہ میری روح ایک لق و دق صحرا میں بیٹھی ہوئی ہے وہ شیخ کے عشق میں سرتا پا ڈوبی ہوئی ہے اسے اپنے گرد و پیش کا کچھ ہوش نہیں ہے، اس کی حالت عجیب مستانوں جیسی ہے۔ شراب شیخ کا نشہ اس کے روئیں روئیں سے رنگ بن بن کر پھوٹ رہا ہے اس کی سرخی مائل سنہری زلفیں فضا میں لہرا رہی ہیں، اس کے رخسار شیخ کے عشق کی آگ میں دہک رہے ہیں۔ اس کی کشادہ پیشانی پر شیخ کی مہر محبت دمک رہی ہے مجھے اس پر ترس آنے لگا۔ آہ کیا یہ چاند ستاروں کو شرمانے والا حسن اسی لق و دق صحرا میں کملانے کے لئے ہے۔ میرے اس خیال کے آتے ہی روح نے ایک نگاہ غلط انداز میری جانب ڈالی جیسے کہہ رہی ہو کہ میں نے تمہارا ذہن پڑھ لیا ہے اور پھر دوبارہ اپنی سرمگیں نگاہیں فضائوں میں پھیلا دیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی غزالی آنکھوں سے نور کی دو تجلیاں نکلیں اور صحرا میں دور میری حد نگاہ پر نرگس اور لالے کے پھول کھلتے دکھائی دیئے۔ آن کی آن میں یہ سارا بیابان لہلہاتا گلزار بن گیا۔ میں نے پھول کی جانب دیکھا تو ہر ہر پھول میں شیخ کا چہرہ نظر آیا۔ میرے دل میں ورد کی ایک لہر سی اٹھی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے حیرت کی جگہ اب سوز عشق میرے دل میں سما گیا ہے۔ میں نے اس کی کسک کو سینے میں دباتے ہوئے روح سے کہا۔

                کیا ہو گیا ہے تم کو۔ بھلا شیخ سے اتنا عشق کرنے کی تمہیں کیا ضرورت ہے۔ میں تو اگر عشق کرتی تو اپنی ماں سے کرتی، اپنے بچوں سے کرتی، اپنے شوہر سے کرتی۔ جن کے ساتھ میرا برسوں کا تعلق ہے اور شیخ کو تو تم صرف چند دنوں سے ہی جانتی ہو۔ اس نے اپنی یاس بھری نظریں میری جانب اٹھائیں اور درد بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگی۔ جانتی ہو شیخ سے محبت کیوں ضروری ہے؟ شیخ کا عشق انسان کے ارادے میں کشش پیدا کرتا ہے۔

                اللہ تعالیٰ کی روشنیاں دو رخوں پر کام کرتی ہیں۔ ایک رخ کشش ہے اور دوسرا رخ گریز ہے۔ شیخ کا عشق سالک کے دل کے کنوئیں میں بھرتا جاتا ہے۔ جیسے جیسے یہ کنواں شیخ کی روشنیوں سے بھرتا جاتا ہے ویسے ویسے انسان کے ارادے میں کشش اور تقویت بڑھتی جاتی ہے۔ انسان کا ارادہ اس کے دل میں پیدا ہوتا ہے، جب دل کا کنواں شراب شیخ سے لبریز ہو جاتا ہے تو اس کے ارادے میں اتنی کشش پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ شیخ کے اندر موجود علوم معرفت کی روشنیوں کو اپنے ارادے کی کشش سے، اپنے شعور کی سطح پر کھینچ لاتا ہے اور شیخ کے سینے سے علوم معرفت کی روشنیاں سالک کے شعور میں جذب ہونے لگتی ہیں اور اس پر اللہ تعالیٰ کی معرفت کے دروازے کھلنے لگتے ہیں۔ اس کے دل کی نظر سے لاعلمی کے پردے ہٹنے لگتے ہیں اس کی نظر لوح محفوظ پر پڑنے لگتی ہے۔ جہاں کل کائنات اللہ تعالیٰ کے علم کے عکس کی صورت میں موجود ہے۔ میں نے روح سے پوچھا۔ عشق کا مل کب ہوتا ہے۔ اس نے اپنی ملکوتی مسکراہٹ کے ساتھ صحرا میں پھیلے ہوئے لالہ موگل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

                ‘‘ان سے پوچھو اس کا جواب تمہیں یہ پھول دیں گے۔’’

                میں نے پھولوں سے پوچھا۔ اے بہاروں کی خوشبو سے مدمست پھولو! کیا تم عشق کامل کی تعریف کر سکتے ہو؟ میری آواز سن کر پھولوں کی ہر ہر پنکھڑی جھوم اٹھی۔ ہم خود شیخ ہیں۔ ساری فضا ان کی آواز سے گونج اٹھی۔ پھولوں کی ہر ہر پنکھڑی پر شیخ کی تصویر نقش تھی۔ میں نے گبھرا کے روح کی جانب دیکھا اس کی آنکھوں کی پتلیوں میں شیخ کا عکس تھا۔ میرے دیکھتے دیکھتے اس کی آنکھوں سے نور کے دو قطرے پٹکے ان قطروں میں شیخ کا عکس ورد بن کر جھلکنے لگا۔ اس نے ورد میں ڈوبی ہوئی آواز سے کہا۔ شیخ کا تصور میرے تفکر کا سانچہ (DYE) بن چکا ہے۔ اس کے عشق کی کشش نے میرے دل کو اپنی روشنیوں سے بھر دیا ہے۔ جب کبھی میں اپنی نظر کسی شئے کی طرف اٹھاتی ہوں تو ہر شئے پر نظر کی روشنی کے ساتھ ساتھ تفکر کا نقش بھی بنتا چلا جاتا ہے۔ میری نظر ہر شئے میں اپنے شیخ کا جلوہ دیکھتی ہے اور جب تفکر ایک نفس واحدہ کا نقش بن جاتا ہے۔ دل میں مرشد حقیقی کا عشق کامل ہو جاتا ہے۔ عشق حقیقی کی کشش آہستہ آہستہ قرب خداوندی کی طرف کھینچتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ خداوند قدوس روح کو لوح محفوظ تک پہنچا دیتا ہے، اس کے سامنے اس کی لوح تقدیر کورے کاغذ کی طرح کھول کر رکھ دی جاتی ہے۔ روح اللہ تعالیٰ کے اذن سے اس پر اپنے ارادے کی تحریر لکھتی ہے۔ اسی لمحہ لوح محفوظ پر دیکھتی ہوں کہ روح کے سامنے اس کی لوح تقدیر ایک صاف شفاف آئینے کی مانند کھلی ہوتی ہے۔

                اتنے میں ہاتف غیبی کی آواز آئی۔ اے روح تمہیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجازت دی جاتی ہے کہ تم اپنے ارادے سے اپنی لوح پر جس کا نام لکھنا چاہو لکھ سکتی ہو۔ روح نے حکم پاتے ہی لوح پر کچھ تحریر کیا اور میں نے دیکھا کہ روح نے اپنی لوح پر شیخ کا نام لکھا ہے۔ دوبارہ پھر غیبی آواز میری سماعت سے ٹکرائی۔ اے روح! اچھی طرح سوچ لو۔ اس لئے کہ ایک بار تمہاری لوح پرمہر لگ گئی، تو پھر اس کی تحریر بدلی نہ جا سکے گی۔ یہی اللہ کا قانون ہے۔ روح نے کہا۔ اے بار الٰہی! میں نے اچھی طرح سوچ سمجھ کر ہی یہ نام لکھا ہے۔ آواز آئی۔ ہم تمہیں تین دن کی مہلت دیتے ہیں تا کہ تم اچھی طرح سوچ لو۔ ابھی وقت ہے تم اپنے فیصلے پر نظر ثانی کر سکتی ہو۔ اپنی لوح کی تحریر مٹا سکتی ہو۔ اگر مہر لگ گئی تو تم ابد تک اس تحریر کو مٹا نہیں سکو گی۔ روح نے فوراً نہایت ہی بے باکی سے جواب دیا۔

                اے میرے رب! آپ تین دن کی بات کرتے ہیں اور میں تین سو برس سے یہ فیصلہ کر چکی ہوں۔ کیا تین سو برس کا نقش تین دن میں مٹ سکتا ہے۔ اس لمحے ایک ملائم آواز آئی۔ نہیں تین سو برس کا نقش تین دن میں نہیں مٹ سکتا۔ تو بس اب فیصلہ ہو چکا اور روح کی لوح تقدیر پر مہر لگا دی گئی۔

                میں نے غور سے دیکھا تو اس مہر پر محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لکھا ہوا پایا۔ روح جذبہ تشکر کے ساتھ رحمت اللعالمین کے قدموں میں جھک گئی۔ یہ دیکھ کر میں نے سکون کے ساتھ آنکھیں بند کیں اور دل ہی دل میں شکر کے چند کلمات دہرائے۔ دوسرے لمحے آنکھیں کھولیں تو روح کو اپنے قریب کھڑا پایا وہ بہت مسرور تھی۔ جیسے قارون کا خزانہ اس کے ہاتھ لگ گیا ہو۔

                میں نے حیرت سے اس سے سوال کیا۔ پیاری روح! ایک بات میری عقل میں نہیں آتی۔ وہ یہ کہ اللہ پاک تو کہتے ہیں کہ لوح محفوظ کی تحریر تو لکھنے والا میں ہوں۔ جو کچھ کائنات میں عملی طور ہو رہا ہے وہ سب میرے ارادے سے ہو رہا ہے، پھر تمہاری لوح پر اللہ تعالیٰ کی تحریر کیوں نظر نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ نے تو پہلے ہی سے ہر ایک کی تقدیر اس پر لکھ رکھی ہے۔

                روح بولی۔ پیاری لڑکی! تم اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرو۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو تم نہ سمجھ سکو۔ بے شک کائنات کا پورا پروگرام لوح محفوظ پر درج ہے۔ لوح محفوظ کے اس پروگرام میں ذرے ذرے کی تقدیر لکھی جا چکی ہے، مگر لوح محفوظ کا یہ ریکارڈ اللہ تعالیٰ کے علم کائنات کا عکس ہے، وہ علیم ہونے کی وجہ سے کائنات کے عملی طور پر وجود میں آنے سے پہلے ہی مخلوق کی تقدیر لکھنے پر قادر ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ اپنے علم کے مطابق تخلیقی صورت میں دنیا میں پیدا کرتے ہیں تو اس دنیا میں انسان کو بااختیار بنا کر بھیجا جاتا ہے تا کہ وہ اپنے ارادے کے ساتھ اپنے کاموں میں سعی کر سکے اور اپنے ارادے کو مضبوط بنا سکے تا کہ ارادے کی کشش اللہ تعالیٰ کے تفکر کی روشنیوں کو جذب کر سکے اور انسان کا ہر کام رضائے الٰہی کے ساتھ انجام پا سکے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے استاد شاگرد کا امتحان لیتا ہے۔ اس کو حل کرنے کے لئے سوال دیتا ہے، مگر جواب نہیں بتاتا۔ حالانکہ استاد سوال کے جواب سے پہلے سے واقف ہوتا ہے۔ اگر استاد سوال کرنے سے پہلے جواب سے شاگرد کو آگاہ کر دے تو شاگرد کیسے سیکھ پائے گا اور سیکھنے کا تجسس اس کے اندر کیسے پیدا ہو گا۔ ارادے کا تجسس ہی کشش بن کر سوال کے جواب کو ڈھونڈ نکالتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ علم الاسماء کی تعلیم دینے کے لئے انسان کی نظر سے اس کی تقدیر کے لکھے کو پوشیدہ رکھتے ہیں تا کہ وہ خود اللہ تعالیٰ کی رضا کو تلاش کرے اور اس کی تلاش میں اس کی جانب قدم بڑھائے اس طرح یہ دو ریکارڈ بن گئے۔ ایک تو لوح محفوظ کا وہ ریکارڈ جس کے اندر انسان کے ثابتے میں اللہ تعالیٰ کی لکھی ہوئی تحریر تقدیر ہے۔ دوسرے انسان کے ذاتی ارادے کا ریکارڈ حشر میں حساب کتاب کے دن اللہ تعالیٰ انسان کے ان ہی دونوں ریکارڈوں کا حساب لیں گے۔

                میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ریکارڈ اور انسان کے ارادے کے ذاتی ریکارڈ میں فرق تو ہو نہیں سکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا علم ہر شئے پر احاطہ کئے ہوئے ہے۔ پھر حساب کتاب لینے کا کیا جواز ہے۔ روح نے پیار بھرے انداز میں کہا۔ نادان لڑکی! تم اللہ تعالیٰ کی حکمت کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ریکارڈ میں بے شک ہر انسان کے اچھے برے کو تحریر کر رکھا ہے، یہ اس کا علم ہے۔ وہ اپنے علم میں کامل ہے۔ وہ ہر خیر و شر کا مالک ہے کیونکہ وہ اپنے علم میں آئی ہوئی ہر شئے کا مالک ہے، مگر اس نے خیر کو اپنے لئے اور مخلوق کے لئے پسند فرمایا ہے اور شر کو ناپسند قرار دیا ہے۔ اگر انسان سے اس کے اعمال کا حساب نہ لیا جائے تو اس پر اللہ تعالیٰ کی پسندیدگی کا اظہار کیسے ہو گا اور اسے بااختیار مخلوق بنانے کا کیا فائدہ ہو گا۔ اسے دوسری مخلوق کی طرح خیر و شر میں تمیز کیسے ہو گی؟ پھر وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو کیسے سمجھ پائے گا۔ اس کی مرضی، اس کی رضا، اس کے ذہن کو کیسے سمجھ پائے گا، وہ نیابت اور خلافت کی ذمہ داریاں کیسے سنبھالے گا۔ میری سمجھ میں روح کی تمام باتیں اچھی طرح سے آ گئیں۔ میں نے اطمینان کا ایک گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔ تم سچ مچ بہت اچھی ہو، مگر سب سے اچھے تو میرے شیخ ہیں۔ تم سے بھی اچھے۔ یہ سن کر روح نے بے اختیار ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ اس کے دانت سچے موتیوں کی طرح چمک اٹھے۔ خوشی سے اس کا حسین چہرہ دمک اٹھا اور وہ ہنستی ہوئی آن کی آن میں میری نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ فضا میں اس کی مترنم ہنسی کا ساز کتنی ہی دیر تک گونجتا رہا۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہوائوں نے جنگ و رباب پر عشق کے نغمے چھیڑ دیئے ہیں۔

ذرے ذرے کے لبوں پر ہے کہانی دل کی

ایسی بکھری ہے حقیقیت مرے افسانے کی

 


Roohein Bolti Hain

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی

                ‘‘زندگی جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’

                یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔                میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔

                میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔                روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔

                                     دعا گو:

                                                سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

                                                تاریخ: 01-09-94