Topics

نقطۂ اِدراک


                کتنے دنوں سے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے میں اپنے بچپن کی جانب لوٹتی جا رہی ہوں۔ ایک عام آدمی کے لئے تو چونک جانے کا مقام ہے کہ عمر ہے کہ بڑھاپے کی جانب عازم سفر ہے اور فرمایا جا رہا ہے کہ بچپن میں لوٹ رہی ہوں۔ مگر غور تو کیجئے کہ انسان کیا ہے۔

                اللہ پاک فرماتے ہیں:

                ھل اتی علی الانسان حین من الدھر لم یکن شیأ مذکورا

                ‘‘کیا نہیں پہنچا انسان پر ایک ایسا وقت جو تھا شئے (تصور) کے بغیر تکرار کیا ہوا(بے ترتیب)’’ (سورہ دہر)

                یعنی انسان پر ایک وقت ایسا تھا جب وہ قابل تذکرہ نہ تھا اور اس کا کوئی وجود نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے لامحدودیت سے یعنی بغیر کسی اسباب و وسائل کے انسان کو وجود بخش دیا اور اس لامحدودیت کو وجود بخشنے والا اللہ اس کا امر ہے۔ دہرے سے مراد لاتناہیت کا وہ عالم ہے جس میں اللہ کا ارادہ اور ادراک موجود ہے۔ اس ‘‘دہر’’ یا لاتناہیت کے عالم کا ایک یونٹ ‘‘حین’’ ہے حین یعنی خلاء۔ اس خلاء کے اندر اللہ پاک نے تصورات داخل کر دیئے اور ان تصورات کی ترتیب آدم کہلائی۔ تصورات کو قرآن نے ‘‘ماء’’ کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ یعنی آدم مجموعہ ہے ادراک الٰہیہ کا۔ اللہ کا ہر ادراک اس کے تصورات کا مجموعہ ہے اور تصورات اللہ تعالیٰ کے اسمائے الٰہیہ کی تشکیل ہے۔ اسمائے الٰہیہ اللہ کی صفات ہیں۔ جن کے علوم آدم کو عطا کئے گئے ہیں۔ انسان اس تصورات کا محسوس کرنے والا ہے۔ آدمی کی ساری زندگی ان تصورات کی یعنی اسمائے الٰہیہ کی روشنیوں کی ادلی بدلی ہے۔ روشنیوں کی تبدیلی کی وجہ سے آدمی ہر لمحے نئے نئے احساسات و کیفیات میں مبتلا رہتا ہے۔ جیسا کہ سورہ دہر میں فرماتے ہیں:

                ترجمہ: ‘‘ہم نے بنایا آدمی بوند (نطفہ) سے پلٹتے رہے اس کو پھر کر دیا سنتا۔ دیکھتا۔’’

                یہاں نطفہ یعنی بوند یا ماء سے مراد تصورات ہیں پلٹتے رہے یعنی ان کی ترتیب قائم کی گئی جن سے حواس کی تعمیر ہو گئی۔

                پس انسان کی ساری زندگی حواس کی ادلی بدلی کا نام ہے۔ کبھی اس پر خوشی کی کیفیات طاری ہو جاتی ہیں اور کبھی غمی کی۔ انسان کا مزاج انہی موڈ پر چلتا رہتا ہے۔ ان دنوں میری بھی کچھ ایسی ہی حالت رہی۔ ہر لمحے یوں محسوس ہوتا جیسے میں وقت میں پیچھے کی جانب لوٹ رہی ہوں جیسے فلم کی ریل کوئی الٹی چلا دے۔ مجھ پر وہی احساسات طاری ہونے لگتے۔ جیسے دس گیارہ برس کی عمر میں تھے۔ بچپن کا وہ زمانہ ہر وقت میری آنکھوں کے سامنے تصویر بن کر ذہن کے اسکرین پر ٹھہرا ہوا محسوس ہوتا۔ بچپن کا وہ دور بھی عجیب تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا جیسے میرے اور اللہ کے درمیان ایک ململ کا پردہ حائل ہے۔ صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی ہیں، والا معاملہ تھا۔ قرب خداوندی کی کشش دل و دماغ کو اس طرح جانب کھینچتی کہ جنون کی حد تک میرے دل میں یہ شوق پیدا ہوتا کہ کسی طرح اس پردے کو درمیان سے ہٹا دوں اور غیب کے اس پار پہنچ کر اس حقیقت سے ہم آغوش ہو جائوں جو میرے انتظار میں ہے اور میں اٹھتے بیٹھتے اپنے مرنے کی دعائیں کرتی۔ بلکہ کتنی بار عشق خداوندی کی کشش سے مجبور ہو کر خود کشی کا ارادہ کر بیٹھتی۔ مگر پھر خیال آتا کہ میری ماں مجھ سے بے پناہ محبت رکھتی ہے۔ وہ میری جدائی برداشت نہ کر پائے گی اور میں اسی خیال کے ساتھ ہی اللہ میاں سے باتیں کرتی۔ جیسے کہ کچھ اور انتظار کرنا ہو گا۔ میں ہمیشہ کے لئے غیب کے پاس نہیں جا سکتی مگر کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ مجھے چند لمحوں میں غیب کی سیر کروا کے مجھے واپس دنیا میں بھیج دیں اور میں دوسروں کو یہ بات بتائوں کہ پردے کے پار اللہ پاک اپنی کن شانوں میں جلوہ گر ہے۔ اس جنوں نے ان دنوں غیب کے دروازے مجھ پر کھول دیئے۔ کیا کیا نشانیاں دکھائیں کہ پردے سے پار اللہ سے ملنے کا شوق اس کا عشق بن کر بڑھتا ہی رہا۔ یہ ساری دنیا اللہ کے رشتے سے مجھے اچھی لگنے لگی کہ ہر شئے میں اس کے جلوئوں کا عکس نظر آیا۔ مگر ایک کسک پھر بھی باقی رہی اور اسی کسک نے روحانی علوم کے دروازے مجھ پر کھول دیئے۔ آج بھی میں سوچتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دنیا میں ہر نعمت سے نوازا۔ میرا ہر شوق، ہر تمنا پوری کی، مگر بچپن کی وہ کسک اب بھی پھانس بن کر میری روح میں پیوست ہے جس کی مسلسل ٹیس مجھے ہر وقت اکساتی رہتی ہے کہ جلد از جلد اپنے اور محبوب کے درمیان اس پردے کو چاک کر دوں اور غیب کے اندر حقیقت کی دنیا میں اپنا ابدی ٹھکانہ پا لوں۔

                ان ہی کیفیات میں ایک دن یوں لگا جیسے میں مرتی جا رہی ہوں۔ میری جان میرے اندر سے قطرہ قطرہ بن کر باہر نکلتی جا رہی ہے۔ میری قوت برداشت جواب دینے لگی، میرے حواس سوچنے سمجھنے سے معذور ہو گئے۔ بس یوں محسوس ہوتا رہا جیسے میرے اندر کا ہر لمحہ مرتا جا رہا ہے۔ ادراک کے جس لمحے کو میرے حواس نے چھوا تھا وہ لمحہ حواس کی گرفت سے چھوٹتا جا رہا ہے۔ میری زندگی کے بیشمار لمحات سمٹ کر ادراک کے اس ایک لمحے میں داخل ہو رہے ہیں۔ میری زندگی جو لمحات کا مجموعہ ہے سمٹ کر ایک لمحہ بن گئی ہے۔ میری حیات کا سفر چلتے چلتے جیسے اچانک ٹھہر گیا۔ میرے حواس فنا ہو رہے ہیں۔ دل تڑپ اٹھا۔ آنکھیں بے قراری سے چھلک اٹھیں اور روح دیوانہ وار ادراک کے اس لمحے میں جا پہنچی جو اپنی تب و تاب دکھانے کے بعد پردہ غیب میں جا چھپا تھا اور پھر پرانے لمحات کی موت نے ایک نئے لمحے کو جنم دے د یا۔               

                میں نے دیکھا روح پر وحشت دیوانگی طاری ہے۔ یہ وحشت دیوانگی مجنونانہ تھی، خبطی پن نہ تھا۔ اس کے سرخ انار چہرے سے ایک انوکھا عزم جھلک رہا تھا۔ اس کی سرخی مائل سنہری زلفوں سے مشک کی خوشبوئیں لہریں بن بن کر نکل رہی تھیں، اس کا بدن صنوبر کا ایک مضبوط درخت بنا کھڑا تھا جسے ہوا کا کوئی جھونکا نہ ہلا سکے۔ اس نے رعونت کے ساتھ اپنے سر کو ایک جھٹکا دیا۔ ایک زور دار چیخ ماری اور نظر کے سامنے پڑے ہوئے پردہ غیب کو ہٹا ڈالا۔ نظر دم بخود تھی کہ پردہ غیب سے کیا ظہور ہونے والا ہے۔ نظر نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی اسکرین ہے۔ یہ اسکرین حجاب محمود ہے، اس اسکرین پر ایک روشن نقطہ ہے۔ یہ روشن نقطہ کتاب المبین ہے۔ روح اس اسکرین کے عین نیچے جا بیٹھی۔ اس کی حالت بالکل مجنوں جیسی تھی۔ اس پاگل کو اپنے تن بدن کا بھی ہوش نہ تھا۔ اس نے اپنی آنکھیں اس اسکرین کے روشن نقطے پر ثبت کر دیں اور گھنٹیوں جیسی گونجتی آواز میں بولی۔ کیا آپ میرے رب نہیں ہیں؟…………اس کی آواز لاتناہیت میں پھیل گئی۔ یہ روشن نقطہ اس کی آواز کی لہروں کو اپنے اندر جذب کرتا چلا گیا اور پہلے سے بھی زیادہ روشن ہو گیا۔ اس کی روشنی اسپاٹ لائٹ کی طرح سیدھی روح پر پڑی۔ آواز آئی۔ بلاشبہ میں ہی تمہارا رب ہوں۔ یہ سن کر روح کی حالت بدل گئی۔ کہاں وہ وحشت کہاں راحت، کہاں وہ جنون کہاں یہ سکون، کہاں یہ اضطراری کہاں یہ بردباری۔ اس نے خود سپردگی کے انداز میں اپنے آپ کو اپنے رب کے حضور جھکا دیا۔ آج اسے کوئی غم نہ تھا، کوئی دکھ نہ تھا۔ آج اس کے اور اس کے رب کے سوا کوئی نہ تھا۔ وہ پہچان گئی کہ صرف اس کا رب اسی کا کفیل ہے۔ وہ ہے اور میں ہوں اور بس۔ اس نے سجدے سے سر اٹھایا۔ کتاب المبین سے ایک ایک شعاع نکل کر اس کے اوپر اسپاٹ لائٹ کی طرح اترتی رہی۔ ہر شعاع اسمائے الٰہیہ کا ادراک تھا۔ اللہ اس سے خوش تھا اور وہ اللہ کی خوشی سے خوش تھی۔ اللہ اس کا کفیل اور محافظ ہے۔ جانتی تو وہ پہلے بھی تھی مگر جاننے اور حواس کے دائرے میں محسوس کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ جاننا پردے کے پیچھے کا ادراک ہے اور محسوس کرنا پردے کے باہر کی کیفیات ہیں۔ جاننا علم ہے اور مشاہدہ حواس ہیں۔ آنکھ جب دیکھ لیتی ہے تو اس کے یقین کو کوئی چیز متزلزل نہیں کر سکتی۔ روح جان گئی۔ اس کا رب اس سے بے پناہ محبت کرتا ہے، اس کا رب اس سے خوش ہے۔ اس نے سوچا۔ مالک جب خوش ہوتا ہے تو اپنی خوشی کا اظہار اپنی رعایا سے کرتا ہے۔ میں اپنے مالک کی بندی ہوں، اپنے آقا کی لونڈی ہوں۔ آج اس کی رحمتوں کا مجھ سے زیادہ اور کون طلب گار ہو سکتا ہے۔ اس نے بڑی معصومیت سے کہا۔ اے میرے رب! تو میرا رب ہے، میرا محافظ ہے۔ مگر میں کیا ہوں؟ اے میرے رب! آج اگر مجھے تیری رحمتوں پر ناز نہ ہوتا تو میں ہرگز بھی ایسا سوال نہ کرتی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پردہ مبین سے نور کا ایک بادل جھومتا ہوا آیا اور روح کو چاروں طرف سے ڈھانپ لیا۔ رحمتوں کی بارش برسنے لگی۔ بادل سے آواز آئی۔ اے روح! تمنائوں کی وابستگی تم سے ہے۔ روح کے حواس کی آخری حدود تک یہ آواز یہ سرگوشی گونج اٹھی۔ اس نے معصومیت سے پوچھا۔ تمنا کیا ہے؟ آواز آئی تمنا میری کائنات ہے۔ روح نے نور کے بادل میں چاروں طرف دیکھا۔ یہ بادل کالی کملی کی طرح اس کے اطراف لپٹا ہوا تھا۔ اس نور کا ہر ذرہ ایک کائنات تھی۔ وہ جان گئی کالی کملی کا ہر بال اس کے رب کی ایک کائنات ہے۔ جن عالمین میں اس کی تمنائوں کے جہان آباد ہیں۔ اس کے رب کی تمنا اس کا تفکر ہے۔ جس تفکر کے ساتھ اس نے روح کو پیدا کیا ہے۔ اللہ اور روح کا رشتہ تفکر کے تار کے ساتھ وابستہ ہے۔ اسے کالی کملی کا ہر تار اللہ کے تفکر کی ایک ڈور نظر آئی۔ جس نے روح کو اپنے ساتھ باندھ لیا۔ نور کے بادل سے آواز آئی۔ اے روح، اب بتائو۔ تہارا تمہارے رب کے ساتھ کیا رشتہ ہے؟ روح نے اپنی ذات پر نظر ڈالی۔ اس کی ذات کا رواں رواں اس کے رب کے تفکر کے تاروں سے بندھا دکھائی دیا۔ وہ جان گئی اپنے رب کے امر کے بغیر وہ جنبش بھی نہیں کر سکتی۔ اس نے یہ راز پہچان کر مسکرا کے کہا۔ تو ہی میری جان ہے، جس نے مجھے زندگی کی حرکت بخشی ہے۔ بادل سے آواز آئی۔ اے روح! زندگی کیا ہے۔ روح نے اپنے روئیں روئیں سے بندھے ان نور کے تاروں کو دیکھتے ہوئے کہا۔ اے میرے رب! حیات ان تاروں کا ہلنا ہے جو تار میرے ذات سے بندھے ہوئے ہیں۔ ندا آئی۔ یہ تار کب ہلتے ہیں؟ روح نے اطمینان کا سانس لیتے ہوئے کہا۔ اے میرے رب! یہ تار تیرے ارادے پر ہلتے ہیں اور تیرا ارادہ ہی تیرا امر ہے۔ تو قادر مطلق ہے۔ میں تیری قدرت کے دائرے میں ہوں۔ یہ کہہ کر روح نے اللہ اکبر کہہ کرسجدے میں سر جھکا دیا۔

                کتاب المبین کی روشنیاں شعور میں جذب ہونے لگیں۔ روح آسمان سے زمین تک تمام عالمین میں سجدے کی حالت میں تھی۔ کتاب المبین سے چلنے والی شعاع نے ازل ابد میں اپنا دائرہ مکمل کر لیا۔

               

 

 

 


Roohein Bolti Hain

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی

                ‘‘زندگی جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’

                یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔                میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔

                میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔                روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔

                                     دعا گو:

                                                سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

                                                تاریخ: 01-09-94