Topics

قائم الصلوٰۃ


                ایک مرتبہ فون پر میری سہیلی نے کہا کہ باجی آپ کی اور بابا جی خواجہ شمس الدین عظیمی کی تعلیمات پر غور کرنے سے دل کو بہت سکون ملتا ہے اور یہ بات ذہن میں آ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اپنی مخلوق پر نہایت ہی مہربان اور رحم کرنے والی ہے۔ اور انسان کو چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص مقصد کے لئے بنایا ہے اس لئے انسان کو ایسے راستے بھی دکھا دیئے ہیں جن کے ذریعے وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کر سکتا ہے۔ ہم مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد جنت ملے گی اور راحت و خوشیاں میسر آئیں گی۔ ان راحت و خوشیوں کو حاصل کرنے کے لئے عام طور سے نماز پڑھنے پر بہت زور دیا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ نماز کی پابندی ہی ایک ایسا عمل ہے جو آخرت کی خوشیاں دلا سکتا ہے۔ روحانی علوم کی بات جب چلتی ہے تو لوگ میرا مذاق اڑانے لگتے ہیں کہ تم روحانیت کو کیونکر سمجھ سکتی ہو۔ فی الواقع میرے پاس اتنا علم نہیں ہے کہ میں ان کا جواب دے سکوں۔ اگر آپ ان پر کچھ روشنی ڈالیں تو سب کے لئے فائدہ مند ہو گا۔ میں نے اس سے کہا کہ زندگی کے ہر عمل کے لئے اللہ تعالیٰ کے مخصوص قوانین ہیں۔ جن کی روشنی میں وہ عمل انجام کو پہنچتا ہے جیسے آپ مختلف کھانے پکاتے ہیں۔ جب کھیر پکاتے ہیں تو اسے سالن والے طریقے پر نہیں پکاتے۔ اس میں نمک، مرچ، ہلدی، دھنیا نہیں ڈالتے بلکہ دودھ شکر ڈال کر سالن سے علیحدہ ترکیب استعمال کی جاتی ہے۔ اسی طرح ہر کھانا اپنی مخصوص ترکیب سے بنتا ہے۔ زندگی کا ہر عمل بھی ایک مخصوص طرز پر ہے۔ روزی کمانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے الگ ضوابط اصول رکھے ہیں۔ اقرباء اور ضرورت مندوں کو مالی منفعت پہنچانے کے لئے علیحدہ قوانین بنائے گئے ہیں۔ ہر عمل اور ہر قانون قدرت کو جاننے اور سمجھنے کے لئے اس کے مکمل علوم جاننے کی ضرورت ہے۔ اس نے مجھ سے ملاقات کا وعدہ لیا اور یہ بات ختم ہو گئی۔ مگر میرا دماغ اس کی افہام و تفہیم میں چل پڑا کہ آخر مسلمانوں میں دین کی سمجھ کیوں نہیں ہے۔ جبکہ ان کے پاس کتاب المبین ہے۔ روحانیت تو روح کے علوم ہیں اور ہر انسان کے اندر روح موجود ہے اور کام کر رہی ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ صرف مسلمان ہی اپنی روح سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔ ہر شخص کے اندر روح متحرک ہے وہ جب بھی چاہے اپنی روح سے واقفیت حاصل کر سکتا ہے۔ ہر شخص یہ کیوں سمجھتا ہے کہ جو علم اس کے پاس ہے اس سے زیادہ کوئی اور جانتا ہی نہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں کہ اللہ کے علوم اس قدر ہیں کہ تمام درخت قلم بن جائیں اور تمام سمندر سیاہی بن جائیں بلکہ ان سے بھی کئی گناہ زیادہ آ جائیں تب بھی اللہ کے علوم ختم نہیں ہو سکتے۔ یہی بات تو حضرت خضر علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے واقعے میں بیان کی گئی ہے جس میں اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کو بھی جو علوم حاصل تھے ان کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے ایسے علوم ہیں جن سے اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام واقف نہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حضرت خضر علیہ السلام سے ملوایا۔ خود حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی دعائے ماثورہ کا ترجمہ یہ ہے:

                ‘‘اے اللہ۔ میں تیری جناب میں ہر ایک ایسے اسم کا واسطہ لاتا ہوں جو تیرے اسم مقدس ہیں۔ اور اس کو تو نے اپنے لئے مقرر فرمایا اس کو تو نے اپنی کتاب قرآن مجید میں نازل فرمایا ہے یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو اس کا علم دیا یا اپنے علم میں اس کا جاننا اپنے لئے مخصوص فرمایا۔’’

                اب آپ خود بتایئے کہ جب باعث تخلیق کائنات ﷺ محبوب خدا خود اس بات کا دعویٰ نہیں کرتے کہ آپﷺ کو جو علوم حاصل ہیں۔ ان کے علاوہ اور کوئی علوم ہی نہیں ہیں تو ایک عام انسان کا اپنے علم پر زعم کرنا اللہ تعالیٰ کے علوم کو محدود سمجھنے کے سوا اور کیا ہے۔ جب کوئی دوسرے کا مذاق اڑاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود اس سے زیادہ جانتا ہے۔ میرا دل دکھ سا گیا، رات ہو چلی تھی، میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اے میرے رب مجھے ان سوالوں کے ایسے جوابات عطا فرما جس پر شعور انسانی مطمئن ہو جائے کیونکہ لا علمی سے خوف، بے سکونی اور بے یقینی پیدا ہوتی ہے۔ ذات باری تعالیٰ نہایت ہی مہربان اور کریم ہستی ہے۔ میرے ذہن کے پردے پر یہ آیت ابھری:

                ‘‘جو ہماری راہیں تلاش کرتا ہے ہم اسے اپنی راہ دکھا دیتے ہیں۔’’

                میرا ذہن بار بار انہی الفاظ کو دہراتا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ سخت اندھیرا ہے اور میں اندھوں کی طرح ہاتھ سے ٹٹول کر بہت ہی سنبھل سنبھل کے قدم اٹھا رہی ہوں۔ دل میں مسلسل دھڑکا ہے کہ اس اندھیرے میں قدم ادھر ادھر نہ پڑ جائے اور ٹھوکر نہ کھا جائوں۔ ہر بار جب ذہن اس آیت کو دہراتا میرا ایک قدم اندھیرے میں آگے بڑھ جاتا۔ جانے کتنی بار آیت دہرائی اور جانے کتنے قدم اندھیرے میں اٹھائے میری تو تمام توجہ اس گھپ اندھیرے میں سے باہر نکلنے پر تھی۔ اچانک روشنی کا ایک جھماکہ ہوا میری آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ کیا دیکھتی ہوں کہ روح اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بقعہ نور بنی سامنے کھڑی ہے۔ میری جان میں جان آئی جیسے کسی اندھے کو آنکھیں مل جائیں۔ عدم تحفظ کا احساس یکسر ختم ہو گیا۔ خوف کی جگہ چہرے پر اطمینان کا رنگ آ گیا۔ میں نے خوش ہو کر کہا شکر ہے تم آگئیں ورنہ میں تو اس اندھیرے میں اپنے آپ کو اندھا سمجھنے لگی تھی۔ روح بولی۔ میری روشنی ہی تو تمہاری نظر ہے، میرا ارادہ ہی تو تمہاری حرکت ہے، تم میرا سایہ ہو، تم میرا لباس ہو۔ میرے بغیر تمہاری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ نہ ہی میرے بغیر تمہارا وجود ہے۔ میں نے سکون کا سانس لیتے ہوئے کہا۔ اے روح تیرے بغیر میں بھی اپنا وجود نہیں چاہتی۔ وہ خوش ہو گئی اور میرے اور قریب آ گئی۔ کہنے لگی۔ اب تم بتائو کس چیز میں الجھی ہوئی ہو۔ میں نے کہا۔ اچھی روح یہ بات سمجھا دو کہ شریعت کے احکامات کی روحانی نقطۂ نظر سے کس طرح تشریح کی جا سکتی ہے۔ وہ فوراً بولی شریعت کائناتی نظام میں کام کرنے والے قوانین ہیں اور روحانیت ان قوانین کی حکمتوں کو جاننا اور سمجھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسمائے الٰہیہ کے علوم عطا کئے ہیں۔ اسمائے الٰہیہ اللہ تعالیٰ کی تجلیات ہیں۔ یہ تجلیات ایک مربوط نظام کے تحت کائنات کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ کائناتی نظام کو اللہ تعالیٰ کے ارادے کے مطابق قائم رکھنے کے لئے اسمائے الٰہیہ کے جاری کردہ قوانین ازل سے ابد تک کی حدود میں کام کرتے ہیں تا کہ کائنات میں بسنے والی مخلوق اللہ تعالیٰ کے ارادے کے مطابق اپنی زندگی کی حرکت کو جاری رکھ سکے۔ قوانین پر پوری طرح اسی وقت عمل ہو سکتا ہے جب کہ ان قوانین کی حکمت عملی اور قانون جاری کرنے والے کے تفکر سے واقفیت ہو۔ اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ ایک پیالے میں زہریلا شربت ہے۔ ایک آدمی اس بات سے واقف ہے کہ شربت میں زہر کی کتنی مقدار ہے اور اس شربت کے پینے سے آدمی کو کیا نقصان پہنچے گا دوسرا آدمی شربت کے اندر کے زہر سے ناواقف ہے وہ تو صرف یہ جانتا ہے کہ شربت پینے والی چیز ہے وہ اپنے اس ناکافی علم کی بناء پر شربت پی لیتا ہے اور زہر سے نقصان اٹھاتا ہے مگر جو شخص شربت کی نوعیت سے واقف ہے وہ اسے زہر سمجھ کر چھوڑ دیتا ہے اور نقصان سے بچ جاتا ہے۔ اس مثال میں یہ بات قابل غور ہے کہ تھوڑا اور ناکافی و ادھورا علم انسان کے کام کو عمل کی انتہائی بلندی اور مرتبہ کمال تک نہیں پہنچاتا بلکہ راستے میں ہی چھوڑ دیتا ہے جبکہ انسان کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقام محمود یعنی انسانیت کی معراج منزل کمال مقرر کی۔ مقام محمود وہ حد ہے جس تک اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسمائے الٰہیہ کے علوم عطا فرمائے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی صفات و کمالات، شائر و عادات اور قوانین تجلیات کو اللہ تعالیٰ کے اسماء قرار دیا گیا ہے۔

                روح کی ہر بات نور بن کر میرے قلب میں سمائے جا رہی تھی۔ مجھے ہر بار یوں لگتا جیسے میری بینائی تیز ہوتی جا رہی ہے۔ میں نے روح سے پوچھا۔ اے میری معلم قائم الصلوٰۃ میں اللہ تعالیٰ کی کیا حکمتیں اور تفکر کام کر رہا ہے۔ یوں تو میرے بابا جی خواجہ شمس الدین عظیمی نے اپنی کتاب روحانی نماز میں اور بے شمار مضامین میں اس کی وضاحت کر دی ہے مگر آج جبکہ میرے دل میں یہ سوال اٹھا ہے اور تم میرے سامنے ہو، میں جاننا چاہتی ہوں کہ تم کس طرح اس قانون اور حکم الٰہی کا مفہوم بیان کرو گی۔ میرے اس سوال پر وہ ایک دم جوش میں آ گئی۔ اس کا نور ایک دم جیسے بھڑک اٹھا۔ ایک بجلی کوندی۔ روح کی آواز تحکمانا انداز میں بلند ہوئی۔ نادان لڑکی تم جاننا چاہتی ہو کہ قائم الصلوٰۃ کا دائرہ کیا ہے۔ میں نے اپنی قوتوں کو اور تمام حواس کو یکجا کرتے ہوئے ہمت کے ساتھ جواب دیا۔ ہاں میں قائم الصلوٰۃ کے تفکر کا دائرہ دیکھنا چاہتی ہوں۔ روح بولی۔ لو دیکھو۔ اتنا کہتے ہی روح کی تجلی میرے دل پر گری اور میری آنکھوں میں اس کی پوری پوری روشنی داخل ہو گئی۔ میری آنکھیں اور بھی زیادہ کھل گئیں۔ میں نے دیکھا روح سے بہت فاصلے پر ایک تجلی ہے۔ خیال آیا کہ یہی میرا رب ہے۔ اس تجلی سے نور روح کی آنکھوں میں داخل ہو رہا ہے اور روح پوری کی پوری اس تجلی کی روشنی میں ہے۔ پھر روح سے یہی نکل کر میری جانب آ رہا ہے۔ ایک لمحے کو میرے ذہن سے روح کی ذات اور خود میری اپنی ذات بھی نکل گئی اور میں بے ساختہ کہہ اٹھی۔ اے میرے رب آپ ہی ہمارے رب ہیں۔ اس اقرار کے ساتھ ہی میرے اندر عاجزی پیدا ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ روح نہایت ہی عقیدت بھری اور پیار بھری نظروں سے اپنے رب کو دیکھ رہی ہے اور میری قلب کی آنکھ اس کی محبت کے سرور سے نشیلی ہوتی جا رہی ہے۔ ٹکٹکی باندھے اپنے محبوب کو، اپنے رب کو دیکھ رہی ہے اور میرا دل نت نئے ارمانوں کی آماجگاہ بنتا جا رہا ہے۔ روح کی خاموش نگاہیں میرے دل میں عشق الٰہی کے طوفان منتقل کر رہی ہے۔ ہر آن میرا جی چاہتا ہے کہ روح کی آنکھوں میں سما جائوں جن نظروں سے وہ اپنے رب کو دیکھ رہی ہے۔ ہر آن میرا جی چاہتا میں روح کے دل میں داخل ہو جائوں جس دل سے وہ اللہ کے قریب ہے۔ مجھے یوں لگا جیسے میں آہستہ آہستہ روح کے اندر سماتی جا رہی ہوں۔ ہوا کی طرح میرا وجود بھی روح کے اندر سما گیا۔ اب روح کا تفکر میرا تفکر بن گیا، روح کی حرکت میری حرکت بن گئی، روح کی آنکھ میری نظر بن گئی۔ میں نے روح کے تفکر اور روح کی نظر سے اللہ کو دیکھا۔ یوں لگا جیسے روح کا ظاہر باطن سب کچھ تجلی ہے۔ اللہ کی تجلی کی روشنی ہی روح کے حواس ہیں جن کے ذریعے وہ اللہ کی تجلی کو دیکھ رہی ہے۔ روح کی آواز باطن میں گونجی۔ قائم الصلوٰۃ کی معراج مرتبہ احسان ہے۔ اللہ انسان کی نظر بن جاتا ہے۔ جس نظر سے وہ اللہ کو دیکھتا ہے۔ اللہ انسان کا دل، دماغ اور ہاتھ بن جاتا ہے جس سے وہ محسوس کرتا ہے اور سوچتا ہے۔ قائم الصلوٰۃ جب ہوتی ہے اللہ تعالیٰ سے حضوری مرتبہ یقین و احسان کو نہیں پایا وہ اپنی نمازوں کو ضائع کرنے والوں میں سے ہے۔ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

                ‘‘خرابی ہے ان نمازیوں کی جو اپنی نمازوں کی حفاظت نہیں کرتے۔’’

                میں نے کہا۔ اے روح نمازی جو نماز کو پابندی سے پڑھنے کا عادی ہو اس کی خرابی کیسے ہو گی۔ روح بولی، میری نظر کے ساتھ اپنی نظر ملائے جائو اور جہاں میں دیکھتی ہوں تم بھی وہاں میرے دیکھنے کو دیکھتی جائو تمہیں تمہارے سوال کا جواب مل جائے گا۔ میں نے روح کی نظر کی روشنی میں اپنی نظر ملائی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ لوگوں کی صفوں کی صفیں ہیں۔ بے شمار لوگ ہیں جو نماز پڑھ رہے ہیں۔ ان کے گوشت پوست کے جسم تو نماز کی حالت میں ہیں مگر ان کے جسم مثالی یا روشنیوں کے جسم عالم روشنی میں اس عالم میں بسنے والی اشیاء کے ساتھ مشغول ہیں۔ کوئی اپنے بچے سے کھیل رہا ہے، کوئی روپے گن رہا ہے، کوئی کسی اور طرح اس دنیا میں مشغول ہے غرضیکہ ان لاتعداد نمازیوں میں سے ایک بھی تو ایسا نہ تھا جس کے سامنے اللہ ہو بلکہ ہر ایک کے سامنے دنیا کی کوئی نہ کوئی شئے تھی۔ میرا دل کانپ اٹھا۔ یا اللہ یہ تو سراسر منافقت ہے۔ میں نے کانپتے دل کے ساتھ روح سے پوچھا:

                ‘‘اچھی روح تم تو میری رہبر ہو، میری محسن ہو، مجھے بتائو کہ نماز کی خرابی سے کس طرح بچا جا سکتا ہے۔’’

                بولی تم نے دیکھ لیا جب بندہ یہ دعویٰ کرے کہ میں اللہ کے لئے عبادت کر رہا ہوں اور اس کی آنکھوں کے سامنے اللہ کے بجائے غیر ہو۔ عبادت کا مطلب ہی اللہ کو دیکھنا اور اس سے ذہنی رابطہ قائم کرنا ہے۔ آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے اس کے ساتھ اس کا ذہنی و فکری رابطہ بھی قائم ہو جاتا ہے پس بندہ تو یہ بات علی الاعلان کہتا ہے کہ میں نماز پڑھتا ہوں اور اس کی آنکھ اور اس کا ذہن و دل دنیا میں لگا ہوتا ہے تو ایسا جھوٹ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے، اس جھوٹ سے بندے کے دل میں بے یقینی بڑھ جاتی ہے اور وہ اللہ سے دور ہو جاتا ہے۔ ایسے ناکارہ اعمال ضیاع عمری ہیں۔ کیا تم نہیں جانتیں کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری مخلوقات پر آدم کو فضیلت اسمائے الٰہیہ کے علوم کی بناء پر دی ہے اور یہی علوم آدم کی نیابت و خلافت کی بنیاد ہیں۔ ہر عمل اور ہر شئے سے پہلے اس کا علم ہے۔ علم نہیں ہے تو شئے کا تذکرہ اور وجود بھی نہیں ہے۔ قائم الصلوٰۃ کرنے کے لئے سب سے پہلے ان قوانین کا جاننا ضروری ہے جن کے ذریعے سے قائم الصلوٰۃ ہو سکے اور اللہ تعالیٰ سے حضوری میسر آ جائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ عبادت کے لائق صرف اللہ کی ذات ہے۔ قائم الصلوٰۃ کرنے کا پہلا اصول مراقبہ یا دھیان ہے۔ ہر پیغمبر جب اپنی قوم کے لئے معاشرتی زندگی کو اللہ تعالیٰ کی رضا و منشاء کے مطابق ڈھالنے کے لئے شریعت کے قوانین لے کر آئے تو سب سے پہلے خود اس پیغمبر نے اللہ تعالیٰ سے صلوٰۃ یعنی رابطہ قائم کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس سلسلے میں سورج، چاند، ستاروں پر غور کر کے اللہ کو تلاش کیا۔ جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ‘‘ہم نے ابراہیم کو آسمان و زمین کی بادشاہی دکھا دی۔’’ یعنی آسمان و زمین کے اندر جاری کردہ نظام قدرت دکھلا دیئے۔ یہی غور و فکر مراقبہ ہے۔ جس کے بعد قائم الصلوٰۃ ہوئی اور اللہ سے رابطہ قائم ہوا جس کے نتیجے میں آسمان و زمین کی بادشاہی دیکھنی نصیب ہوئی اور پھر آپ کو نبوت ملی اس کے بعد شریعت کے اصول و قوانین عطا کئے گئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے کو پڑھو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذہن ایک پیغمبر کا ذہن ہے جو ہمیشہ سے توحید پر قائم رہتا ہے اور پیغمبر مبعوث کئے جانے سے پہلے توحید پر قائم رہنے کے راستے تلاش کرتا ہے تا کہ دنیائی خرافات سچے راستے پر قائم رہنے میں رکاوٹ نہ بنے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اسی باطنی حقیقت و سچائی کو پہچاننے کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر بلایا فرماتے ہیں۔

                ‘‘اے موسیٰ! یہ وادی طور ہے، یہ پاک جگہ ہے۔ اپنی جوتیاں اتار کر ہمارے دربار میں حاضری دو۔’’

                یہاں مراقبے کا بنیادی اصول بتایا گیا ہے۔ جوتیوں سے مراد دنیاوی و مادی حواس ہیں کہ مادی حواس کو چھوڑ کر روحانی حواس میں داخل ہونا مراقبہ ہے۔ اسی کام کو مزید آگے بڑھانے کے لئے طور پر چالیس دن رات اللہ تعالیٰ کے ساتھ دھیان اور مراقبہ کی حالت میں رہنے کا حکم ہوا اور جب اس مراقبہ سے صلوٰۃ قائم ہو گئی تو بنی اسرائیل کے لئے شریعت کے قوانین و تختیاں نازل ہوئیں۔ حضور پاکﷺ نبوت سے پہلے غار حرا میں قیام کر کے تنہا رہے، رب سے دھیان لگاتے رہے آخر کار اس مراقبہ کے ذریعے آپﷺ کا رابطہ اللہ تعالیٰ سے ہو گیا اور آپﷺ رسول مبعوث ہوئے اور پھر شریعت محمدیﷺ کے قوانین و اصول عطا ہوئے۔

                اور میں سوچنے لگی کہ آج کا مسلمان نماز کی پابندی پر تو اتنا زور دیتا ہے مگر وہ اس بات کو قطعی نہیں جانتا کہ نماز کا حاصل کیا ہے۔ اگر پیغمبرﷺ نماز کی پابندی کرتے تھے یا رات رات بھر سجدے میں رہتے تھے یا قیام کی حالت میں رہتے تھے تو اس صلوٰۃ سے ان کا رابطہ اللہ کی ذات سے قائم رہتا تھا نہ کہ وہ صلوٰۃ کے اندر دنیاوی کاموں میں مشغول رہتے تھے۔ ہم نے اپنے پیغمبرﷺ کی پیروی تو کی مگر وہ عمل جس کے اندر سے علم نکال دیا جائے وہ جسم بغیر روح کے ہے کہ ہر عمل کی روح اس کا علم ہے اور قانون قدرت کے اعتبار سے ہر شئے دو رخوں پر ہے۔ عمل کا ایک رخ تو موجود ہے مگر دوسرا رخ نظر سے اوجھل ہے تو اس طرح ہماری نمازیں جسمانی حرکت کے سوا اور کچھ نہیں پس ایک مقررہ وقت کے بعد جب مادی جسم بے حرکت ہو جائے گا صلوٰۃ کے دوسرے رخ سے ناواقفیت کی بناء پر صلوٰۃ کا عمل بھی ساکت اور فنا ہو جائے گا۔ ایسی ہی خرابیوں سے اللہ انسان کو بچانا چاہتا ہے۔ کیونکہ آخرت کی دنیا روحانی دنیا ہے۔ آخرت کے عالم میں ہر شئے اپنے روحانی جسم کے ساتھ باقی رہے گی اور زندگی گزارے گی۔ اگر انسان اپنے کسی بھی عمل میں اس عمل کی روحانی قدروں سے واقف نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عمل صرف موجودہ زندگی اور موجودہ دنیا کے لئے کر رہا ہے چنانچہ اس زندگی میں وہ اس عمل کو کہاں ڈھونڈے گا جبکہ اس عمل کی روحانی تشکیل نہیں ہوئی جیسے ماں کے پیٹ میں حمل قرار پا جانے کے بعد صحیح فیڈنگ نہ ہونے کی بناء پر بچہ مکمل ہونے سے پہلے ہی ضائع ہو جائے۔ ماں کو یہ تو معلوم ہے کہ حمل قرار پا گیا مگر وہ بچے کو پا نہ سکی۔ جس کی وجہ سے وہ محرومی کا شکار ہو جاتی ہے بالکل اسی طرح انسان کے جس بھی عمل میں ظاہری اور باطنی دونوں قدریں شامل نہ ہوں وہ عمل بقا حاصل نہیں کر سکتا۔

 


Roohein Bolti Hain

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی

                ‘‘زندگی جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’

                یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔                میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔

                میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔                روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔

                                     دعا گو:

                                                سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

                                                تاریخ: 01-09-94