Topics

حیات ابدی


                وہ حسین ساعت جس میں روح کی آنکھ نئے عالم میں کھلے گی، نئے جہاں کے نظارے اس پابند زندگی کے اضمحلال کو آزادی کے کیف میں بدل دیں گے۔ دنیا کے کڑوے کسیلے ذائقے جس میں مٹی کا خمیر گھلا ہوا ہے۔ مٹی کے تعفن آمیز خمیر سے ہٹ کر جب اصل روشنیوں کا ذائقہ زبان چکھے گی تو کیسا مزہ آئے گا۔ آہا! میرے منہ میں میٹھا میٹھا پانی بھر آیا۔ اے زندگی! سچ سچ بتا تیرا کتنا سفر باقی ہے۔ اسی لمحے آنکھوں کے سامنے ایک سین آ گیا۔ جیسے میں کسی جگہ کھڑی ہوں۔ میری سہیلی آتی ہے۔ وہ ایک لباس مجھے دیتی ہے اور کہتی ہے یہ لباس پہن لو، سفر پر جانا ہے، گاڑی فلاں جگہ کھڑی ہے، تم فوراً تیار ہوک ر اس میں پہنچ جائو۔ میں سمجھی کہ سہیلی بھی میرے ساتھ جا رہی ہے۔ میں نے جلدی جلدی لباس تبدیل کی اور تیزی سے گاڑی کی جانب چل پڑی۔ گاڑی میں بیٹھنے لگی تو دیکھا کہ میرے سہیلی نہیں ہے بلکہ بہت سی عورتیں گاڑی میں ہیں۔ جو دیہاتی قسم کی ہیں۔ جیسے راجھستان کی مزدور عورتیں ہوتی ہیں۔ میرے بیٹھتے ہی گاڑی چل پڑی۔ میں نے گھبرا کے عورتوں سے کہا کہ ٹھہرو میرے سہیلی ابھی نہیں آئی۔ وہ بولیں وہ تو اس گاڑی سے نہیں جا رہی۔ میں سخت پریشان ہو گئی۔ گاڑی کیا تھی اچھا خاصا جیل خانہ تھا۔ چاروں طرف لوہے کی سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔ دروازہ بھی جانے کہاں غائب ہو گیا تھا۔ اب تو بس چاروں طرف لوہے کی موٹی موٹی سلاخیں نظر آ رہی تھیں۔ اس پر طرہ یہ کہ اس گاڑی کو دو بیل کھینچ رہے تھے۔ ایک مرد کوچوان اس جیل نما ڈبے سے باہر بیٹھا بیلوں کو ہانک رہا تھا جو سفید کپڑوں میں تھا۔ میں تو سمجھی تھی کہ موٹر کار ہو گی۔ یہ تو بیل گاڑی ہے۔ جانے کب تک تنہا سفر کرنا ہو گا۔ یہ اجنبی دیہاتی عورتیں، میرا ان کے ساتھ کیسے میل ہو گا۔ میرے حواس ابھی تک حیرت و پریشانی کے غلبے میں تھے۔ پھر مجھے یہ بھی تو پتہ نہیں تھا کہ کہاں جانا ہے۔ میں تو اسی اطمینان میں تھی کہ سہیلی ساتھ ہو گی۔ وہی رہنمائی کرے گی۔ اب کیا ہو گیا۔ میں نے ساتھی عورتوں سے پوچھا۔ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ وہ بولیں ہم سرحد پار جا رہے ہیں۔ تمام راستہ ریگستانی ہے۔ میں اندر ہی اندر خوف سے بل کھا کے رہ گئی۔ ریگستان کا سفر وہ بھی بیل گاڑی میں اور گاڑی بھی ایسی کہ جس کی سلاخوں سے سارا نہیں تو آدھا ریگستان تو ضرور اندر آ جائے گی۔ یہ دیہاتی عورتیں تو اس ماحول سے خوب آشنا ہیں، میرا کیا بنے گا؟ مگر یہ سارے اندیشے میں نے اندر ہی اندر ہضم کر لئے۔ ظاہر کرنے میں مجھے اپنی ہتک محسوس ہوئی۔ میں نے سوچا کہ اب تو بیل چل ہی پڑے ہیں خواہ کتنی ہی سست رفتاری سے چلیں اترنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اس سفر میں مجھے خود احتیاطی تدابیر پر غور کرنا ہے۔ ہم سفر ساتھیوں سے دوستی کرنی ہے۔ تا کہ سفر آرام سے گزرے۔ میں نے ذرا اطمینان محسوس کیا اور دوستی کی نگاہ ساتھیوں پر ڈالی۔ میری نظر کے اشارے پر ساری کی ساری میرے آس پاس آ بیٹھیں۔ ان میں سے ایک زیادہ صاف ستھری مانگ پٹی سے درست دکھائی دی۔ وہ اور قریب کھسک آئی اور مجھے سفر کے متعلق معلومات فراہم کرنے لگی۔ میں بظاہر ان لوگوں سے انہیں کے لیول پر بات کرتی رہی۔ ہنستی ہنساتی رہی مگر دل تنہا ہی رہا۔ بیل گاڑی کا ہر قدم جیسے میرے سینے کی زمین پر رینگتا رہا۔ بیلوں کے گھسیٹتے قدم قطرہ قطرہ میری جان کو نچوڑتے رہے۔ انتظار بھی بڑا جان لیوا ہوتا ہے۔ مجھے تو اپنی رہائی کا انتظار ہے۔ کب یہ سفر ختم ہو گا، کب میری جان چھوٹے گی اس انتظار سے۔ کس نے اس زندگی کو زندگی کا نام دیا ہے۔ کوئی میری نظر سے دیکھے کیا اس بند گاڑی میں سفر کرنا زندگی ہے۔ سفر بھی ریگستان کا جہاں حد نگاہ تک ریت کے لق و دق صحرا کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ باہر کی یکسانیت سے گھبرا کے میں نے گاڑی کے اندر دیکھا تمام عورتوں پر گہرہ نگاہ ڈالی۔ مجھے ان سب میں سے بھی کوئی دلچسپی محسوس نہیں ہوئی۔ میں نے سوچا یہ زندگی نہیں موت ہے۔میری آزادی کے لمحات کی موت جس میں لحظہ بہ لحظہ میرے دل کی امنگیں دم توڑتی جاتی ہیں۔ مایوسیوں کے غلبے میں میں نے گھبرا کے آنکھیں بند کر لیں۔ میری ساتھی عورتیں سمجھیں میں آرام کر رہی ہوں۔ وہ سب میرے آس پاس سے ذرا پرے ہٹ گئیں۔ میں نے سیٹ کی پشت پر سر کو ٹکا دیا اور ارد گرد کی دنیا سے غافل ہو کر تصور کی دنیا میں کھو گئی۔ تصور کی آنکھوں نے دیکھا۔ دور سرحد پار کی روشنیاں ٹمٹماتی دکھائی دے رہی ہیں۔ بیلوں کی رفتار ان روشنیوں کو دیکھ کر تیز ہو گئی۔ ان کے گلے میں بندھی گھنٹیاں بے ہنگم آواز کی بجائے خوبصورت سر میں بدل گئی ہر شئے جیسے سوتے سوتے جاگ اٹھی۔ یوں لگا جیسے مردہ جسم میں کسی نے روح پھونک دی۔ روشنیاں قریب ہوتی چلی گئیں، فاصلہ گھٹتا رہا۔ یہاں تک کہ بیل گاڑی سرحد لائن پر پہنچ گئی۔ بیلوں کے قدم رک گئے۔ گاڑی کا جنگلہ پچھلی سائیڈ سے پورا کا پورا نیچے چلا گیا اور گاڑی کھل گئی۔ مجھ میں مزید صبر کا یارا نہ رہا۔ میں ایک دم چھلانگ لگا کر گاڑی سے نیچے کود پڑی۔ کیا دیکھتی ہوں روح سامنے کھڑی ہے۔ بے اختیار خوشی میں، میں اس سے لپٹ گئی۔ تم اچھی نہیں ہو، مجھے کہاں اس بیل گاڑی میں پھنسا دیا تھا۔ اس کے تو تصور سے بھی میری جان نکلنے لگتی ہے۔ وہ ہنس پڑی سبز لباس میں ہنستا مکھڑا جیسے ہری بھری ڈالی پر گلاب کی کلی کھل گئی۔ وہ بولی۔ اب اسے بھول جائو۔ اس ریگستان سے تمہیں گزرنا ہی تھا۔ اس سفر میں تم نے دوری اور محرومی کو محسوس کیا۔ ساتھی سے دوری اور اس کی محبت سے محرومی کا ہر لمحہ موت ہے۔ موت کا لمحہ ایک ایسی بند ڈبیا ہے جس کے اندر لمحات کا ایک سلسلہ بند ہے۔ مگر ڈبیا بند ہونے کی وجہ سے یہ لمحات بھی بند رہتے ہیں۔

                اے بنت رسولﷺ! موت کی بند ڈبیا میں اللہ تعالیٰ کے تصورات کا ایک سلسلہ بند ہے۔ اللہ کا ہر تصور ایک عالم ہے اور سلسلہ اس عالم میں انسان کی زندگی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تصور کے عالم میں صرف دو ہستیاں ہیں۔ ایک ذات واحد خود ذات باری تعالیٰ ہے اور دوسری ہستی وحدانیت کو پہچاننے والی ہستی ہے۔ وحدانیت کو دیکھنے اور پہچاننے والی ذات کا نام اللہ تعالیٰ نے آدم یا انسان رکھا ہے۔ مگر انسان جب تک موت کی دہلیز کو پار نہیں کرتا، اس بند ڈبیا کے اندر کے لمحات میں داخل نہیں ہوتا۔ میں نے روح کا ہاتھ چوم لیا اور خوشامدانہ انداز میں بولی۔ اچھی روح! تم تو میری God Motherہو، میری رہبر ہو۔ تم کو پتہ ہے اس بیل گاڑی کے سفر میں، میں اس فرمان کو بہت اچھی طرح جان اور پہچان چکی ہوں۔ موتو قبل ان تموتو بیل گاڑی کے سفر کے ہر لمحے مجھ پر موت وارد ہوتی رہی۔ محبوب سے دوری اس کی محبت سے محرومی کا احساس قطرہ قطرہ میری جان نکالتا رہا۔ مگر اس کے ملنے کی آس بیل بن کر میرے مردہ جسم کو اپنی جانب کھینچتی رہی۔ اے روح! میری ملن کی آس کے یل جیت گئے ہیں اور مایوسیوں کا ریگستان پار ہو چکا ہے۔ اب میں بند ڈبیہ کو کھولنا چاہتی ہوں۔ سرحد پار محبوب کے عالم تصورات میں داخل ہونا چاہتی ہوں۔ میرا لباس پھٹ گیا ہے، میں اس لباس میں کیسے اس کے سامنے جائوں گی۔ سفر کی تکان نے مجھے خستہ حال بنا رکھا ہے۔ میں اس خستگی کی حالت میں کیسے اس کا سامنا کر پائوں گی۔ میرا لباس بدل دو، میرا سنگھار کر دو، سرحد پار کا عالم میرے انتظار میں ہے۔ روح کے چہرے پر بزرگوں جیسی سنجیدگی آ گئی۔ اس نے میرے دونوں بازوئوں سے پکڑ کر مجھے اپنے بالکل عین مقابل کھڑا کیا اور بہت غور سے مجھے دیکھنے لگی۔ اس کی نظر کی روشنی سر سے پائوں تک میرے اندر داخل ہوتی محسوس ہوئی۔ مجھے محسوس ہوا روح میرے قول کی گہرائی اور سچائی کو جانچ رہی ہے۔ میں بالکل ساکت ہو کر کھڑی رہی تا کہ اس کے کام میں مخل نہ ہو سکوں۔ تھوڑی دیر بعد اس نے اپنی پلکیں جھپکائیں اور مسکرا کر بولی۔ آئو میرے ساتھ۔ میرا ہاتھ پکڑ کے سرحد کی جانب ذرا اور آگے بڑھی۔ یہاں ایک خوبصورت کمرے میں داخل ہوئی۔ یہ کمرہ ایک حمام تھا مگر اس میں نل یا شاور کی بجائے پانی کا چشمہ ابل رہا تھا۔ کھونٹی پر روح کی طرح کا بہت خوبصورت سبز لباس لٹک رہا تھا۔ وہ بولی تم نہا کر یہ لباس پہنچ کر تیار ہو جائو۔ یہ چشمہ آب حیات ہے اس چشمے میں نہا کر تم اب آئندہ لمحات میں زندگی کے تصور کو محسوس کرو گی۔ موت کا تصور تمہارے اندر سے ہمیشہ کے لئے نکل جائے گا۔ میں نے خوشی خوشی غسل کیا۔ تازہ دم ہو کر لباس پہن کر باہر آئی۔ روح میرے انتظار میں تھی۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ بولی اس لباس میں تمہارا حسن نکھر آیا ہے۔ اب وہ مجھے لے کر سرحد کے ایک عظیم الشان گیٹ سے اندر داخل ہوئی۔ یہ گیٹ دو عظیم الشان پہاڑوں کے درمیان پہاڑوں جتنی بلندی تک بنا ہوا تھا اور اس کی نقاشی کا کوئی جواب نہ تھا۔ گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہی ایک حسین راستہ ملا جو ہریالی اور پھولوں سے بھرا ہوا تھا اور اس راستے کے کنارے کنارے پانی کی خوبصورت نہر تھی۔ جس میں نہایت ہی حسین بلوریں جام تیر رہے تھے۔ جاتے ہی روح بولی۔ یہ نہر آب کوثر ہے، جام بھر کر آ کوثر پیو۔ اس کے پینے سے تمہارے اندر وہ حواس جاگ اٹھیں گے جن حواس کے ساتھ تم اللہ تعالیٰ کے عالم تصورات میں داخل ہو سکو گی اور اس عالم کی ہر شئے کو اللہ تعالیٰ کے ارادے اور مرضی کے مطابق جاننے اور پہچاننے لگو گی۔ میں نے روح کے کہنے کے مطابق نہر سے ایک جام بھرا اور آب کوثر پی گئی۔ ویسے بھی سخت پیاسی تھی۔ پورے سفر کے دوران کھانے کو میرا جی نہ چاہا تھا۔ میرا کھانا پینا تو محبوب کی محبت اور اس کا دیدار ہے۔ بیل گاڑی کے اس جیل خانے میں محبوب کی قربت اور دیدار دونوں سے ہی محروم تھی۔ میں نے تو اس سفر میں روزے کی نیت کر لی تھی۔ اب روزے کو افطار کرنے کا وقت آ گیا تھا۔ جیسے جیسے میں آب کوثر کا گھونٹ اپنے حلق سے اتارتی جاتی ایسا محسوس ہوتا جیسے ہر خیال کا مفہوم بدل گیا ہے۔ مجھے لگا جیسے آب کوثر کا ہر گھونٹ موت ہے۔ وہ لذت جس میں محبوب کے قرب کی تمنائیں گھلی ہوئی ہیں۔ آب کوثر کے ہر گھونٹ نے دل میں محبوب کی قربت کی امنگوں کے دریچے کھول دیئے۔ ہر گھونٹ پر مجھے یوں لگتا جیسے موت کی ڈبیہ آہستہ آہستہ کھلتی جا رہی ہے اور اس ڈبیا کے اندر سے محبوب کے تصورات کے لمحات کا سلسلہ باہر آتا جا رہا ہے۔ میری نگاہ نہر کے کنارے کنارے دور دور تک دیکھنے لگی۔ جہاں حسین موتیوں کے خیمے نصب تھے۔ خوشی میں، میں جام بھر بھر کر پیتی رہی اور بے ساختگی میں بار بار زبان سے یہ الفاظ نکلنے لگے۔ اے موت! تو واقعی بہت حسین ہے۔ میں نے تجھے آج سے پہلے کبھی نہیں جانا تھا، موت تو محبوب کی آغوش ہے۔ جہاں پہنچ کر زندگی کی ہر حرکت ٹھہر جاتی ہے۔ دل کی دھڑکن رک جاتی ہے، وقت کی رفتار تھم جاتی ہے، چلتے قدم رک جاتے ہیں، ریگستانی راستوں پر چلتے ہوئے بیلوں کے تھکے ہوئے قدم منزل مراد کو چھو لیتے ہیں۔ اے موت! تو محبوب کی دہلیز کا وہ حسین دروازہ ہے جس سے گزرے بغیر کوئی محبوب کے قدم نہیں چھو سکتا۔ میں نے خوشی میں جام کوثر کو چوم لیا۔ میرے وجود میں زندگی کی بھرپور خوشیاں دوڑنے لگیں۔ میں نے روح کا ہاتھ پکڑا اور بول اٹھی۔ چلو اس خیمے کے اندر چلتے ہیں۔ وہ مسکرائی اور میرے دوپٹے کا پلو چہرے پر گھونگھٹ کی طرح نیچا کر دیا۔ بولی اس خیمے میں جمال خداوندی کے جلوے ہیں۔ انہیں وہی آنکھ دیکھ سکتی ہے جو غیر کو دیکھنے سے پردہ کر لے۔ اس کی بات سن کر میں نے کچھ اور بھی اپنے گھونگھٹ کو نیچا کر لیا اور تمام چہرہ چھپا لیا۔ مجھے محبوب کے دیدار کے لئے ہر شرط گوارہ تھی۔ آ جا پیا! اب تو میں نے ہر شئے سے نظریں پھیر لی ہیں۔ روح میرا بازو تھام کر آہستہ آہستہ خیمے کی جانب بڑھنے لگی۔ جیسے کوئی دلہن کو سسرال رخصت کرتا ہے۔ سسرال ہی تو ابدی گھر ہے خیمے کا دروازہ کھلا۔ ہر طرف سے خوش آمدید کی صدائیں بلند ہوئیں، میں دروازے پر کھڑی تھی۔ روح نے میرا بازو تھام رکھا تھا۔ اتنے میں میرے سامنے ایک دنبہ لایا گیا۔ میرے ہاتھ میں ایک چھری دی گئی کہ اس دنبے کو ذبح کرو۔ یہ قربانی موت کے تصور کی قربانی ہے۔ اس قربانی کے بعد ہمیشہ کے لئے محبوب سے دوری کا تصور ختم ہو جائے گا اور اس قربانی کے بعد ہمیشہ کے لئے محبوب سے دوری کا تصور ختم ہو جائے گا اور اس قربانی کے بعد تم اس کے قرب کے محل میں داخل ہو جائو گی۔ میں نے دنبہ ذبح کیا۔ روح نے مجھے خیمے کی دہلیز کے اندر پہنچا دیا۔ خیمہ کا دروازہ موتیوں کی جھالروں سے دوبارہ بند ہو گیا۔ دل وقت کے اس لمحے میں پہنچ چکا تھا جہاں اس کے اور محبوب کے سوا اور کوئی نہ تھا۔

دل مرا کسی نے لیا نام بتائوں کس کا

میں ہوں یا آپ ہیں گھر میں کوئی آیا نہ گیا

 


Roohein Bolti Hain

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی

                ‘‘زندگی جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’

                یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔                میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔

                میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔                روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔

                                     دعا گو:

                                                سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

                                                تاریخ: 01-09-94