Topics

مقام قرب


                بیٹھے ہوئے ایک دم سے ایسا محسوس ہوا جیسے میری نبضیں ڈوبی جا رہی ہیں۔ سارے بدن میں آہستہ آہستہ سرسراہٹ سی محسوس ہوئی۔ خیال آیا، میری جان نکل رہی ہے۔ میں نے سکون سے اپنا سر صوفے کی پشت سے ٹکا دیا اور ایک گہرا سانس لے کر اپنے رب کو یاد کرنے لگی۔

                اسی وقت یوں لگا جیسے میری روح میرے بدن سے نکل گئی ہو۔ روح تیزی سے چھت کی جانب اوپر اٹھ گئی۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میری ذات روح ہے اور میں چھت کی طرف اٹھ رہی ہوں۔ چھت پر پہنچ کر میں نے نیچے نظر ڈالی۔ میرا جسم صوفے پر اطمینان سے آنکھیں بند کئے بیٹھا تھا۔ مجھے جسم سے علیحدہ ہو کر بڑا سکون محسوس ہوا۔ مجھے چھت ایک ہلکے بادل کی طرح دکھائی دی اور میں اس بادل سے باہر نکل آئی۔ باہر آتے ہی ایسا لگا جیسے یہ ایک اندھیری سرنگ نما راستہ ہے۔ اس سرنگ کے دوسرے سرے پر مرکری رنگ کی بہت تیز روشنیاں ہیں۔ یہ روشنیاں گردش کرتی نظر آئیں۔ میں سرنگ میں بڑھتی چلی گئی۔ میرا جسم بڑا ہلکا پھلکا ہو رہا تھا اور ذہن میں یہی خیال تھا کہ میں مر چکی ہوں اور اس کے ساتھ ہی یہ تجسس بھی تھا کہ آئندہ میرا ٹھکانہ کہاں ہو گا، مگر ذہن پر قطعی خوف نہ تھا۔ بلکہ ایسا لگتا تھا کہ اب تو میں قید سے رہائی پا چکی ہوں۔

                سرنگ پار کرتے ہی میں روشنیوں کے اندر داخل ہو گئی۔ ان روشنیوں میں زبردست کشش تھی۔ مجھے ایسا لگا جیسے یہ روشنیاں کنویں کی طرح گہری ہیں۔ یہ روشنیاں مجھے اپنی طرف کھینچتی رہیں، میرے جسم و ذہن نے ذرہ برابر بھی مداخلت نہ کی۔ بلکہ مجھے یوں لگا جیسے ان روشنیوں میں میرے رب کی محبت کی کشش ہے اور اس کی محبت کی کشش مجھے اس کی جانب کھینچ رہی ہے اور یہ خیال آتے ہی مجھے خوشگوار خوشبوئوں کا احساس ہوا اور یہ روشنیاں میرے جسم سے لپٹی محسوس ہوئیں۔ جیسے میں نے ریشم کا لباس پہنچ لیا ہے۔ ریشم کی سرسراہٹ سے میرے روئیں روئیں میں ایک لطیف گدگداہٹ سی محسوس ہوئی اور ان روشنیوں کی محبت میرے اندر پیدا ہونے لگی۔ بہت ویران روشنیوں میں اڑنے کے بعد ایک سرسبز مقام آ گیا۔ میں اس زمین پر اتر آئی۔ سامنے ہی لکڑی کا بنا ہوا ایک جنگلہ تھا۔ اس جنگلے میں لکڑی کا ہی دروازہ تھا۔ جو جالی نما تھا۔ اس دروازے کے پاس جنگلے کے پار مجھے حضرت بابا تاج الدین رحمتہ اللہ علیہ کھڑے دکھائی دیئے۔ آپ بالکل نوجوان اور بہت خوبصورت تھے۔ مگر آپ کو میں دیکھتے ہی پہچان گئی۔ میرے دروازے کے قریب پہنچتے ہی آپ نے دروازہ کھولا اور خوشی سے مسکراتے ہوئے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اس خوبصورت وادی کے اندر داخل کر دیا۔

                میرے ذہن پر ابھی تجسس کا احساس باقی تھا۔ اسی احساس کے ساتھ میں نے چاروں طرف ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی۔ بابا تاج الدین مسکرائے اور فرمایا۔ اس وقت آپ جنت کی ایک وادی میں ہیں۔ اب میں نے اپنے اوپر نظر کی تو میرا پورا سراپا میری نگاہ میں آ گیا۔ میری نظر بغیر کسی آئینے کے اپنے آپ کو سر سے پائوں تک آگے پیچھے ہر طرف دیکھ رہی تھی۔ میرا سراپا ایک حور کا تھا۔ جس نے جنت کا حسین ریشمی لباس پہنا ہوا تھا۔ میرا ذہن بالکل خالی تھا۔ بس صرف خوشی اور تجسس کے ملے جلے جذبات تھے جو کسی نئے مقام پر جانے سے ہوتے ہیں۔

                بابا تاج الدینؒ میرا ہاتھ پکڑ کر آہستہ آہستہ آگے چلنے لگے۔ فرمایا۔ آپ کو دنیا چھوڑ کر کیسا محسوس ہوتا ہے؟ میں نے ایک گہرے سانس کے ساتھ جنت کی خوشبو کو اپنے سینے میں بھرتے ہوئے کہا۔ مجھے ایسا لگتا ہے جیسے پتھر کی بھاری سلیں میرے سینے سے ہٹا دی گئی ہیں اور اب میں آزادی کا سانس لے سکتی ہوں۔ ہی سن کر بابا تاج الدینؒ مسکرائے۔

                کہنے لگے۔ انسان مختلف حواسوں کا مجموعہ ہے انسان کے حواس میں اسمائے الٰہیہ کی روشنیاں داخل ہوتی ہیں اور حواس ان روشنیوں کو پہچانتے ہیں۔ حواس کے مختلف طبقے ہیں یا درجے ہیں۔ ہر درجے میں کیفیات اور محسوسات کا ایک نیا رنگ ہوتا ہے جب تک اسمائے الٰہیہ کی روشنی حواس کے اندر سفر کرتی رہتی ہے۔ آدمی اپنے آپ کو اس لمحے کی گرفت میں محسوس کرتا ہے۔ ہر لفظ کے اندر ایک لمحہ بند ہے اور اس لمحے کے اندر اسمائے الٰہیہ کی روشنیاں کام کر رہی ہیں۔ سب سے پہلے آدمی کے ذہن کے پردے پر اس لفظ کا عکس بنتا ہے۔ لفظ کی تحریر تجلی کی روشنی کی حرکت کو ظاہر کرتی ہے۔ ذہن کا پردہ حواس کا ایک درجہ ہے۔ اس درجے سے لفظ کی روشنی تحریر کے مطابق حرکت کرتی ہوئی مختلف درجوں میں سفر کرتی ہے اور جب تک روشنی حواس کے درجوں میں سفر کرتی رہتی ہے۔ اس وقت تک آدمی اس کی کیفیات کو محسوس کرتا رہتا ہے۔ جیسے تم نے موت کی کیفیات کو محسوس کیا اور موت کی روشنیوں کو دیکھا۔

                میں نے پوچھا۔ تو کیا موت کی کیفیات ہر انسان پر ایک جیسی ہوتی ہیں؟ آپ نے فرمایا۔ موت کا احساس ہر آدمی پر ایک جیسا نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے ہر آدمی کے شعور کے پردے پر الفاظ کا عکس پڑتا ہے اور لفظ کے اندر کام کرنے والی روشنی شعور کے پردے کو متحرک کر دیتی ہے۔ پردے کی حرکت فکر کے دائرے بناتی ہے۔ فکر کا ہر دائرہ حواس کی تعمیر کرتا ہے۔ ہر آدمی کے اندر شعور کی حرکت مختلف دائرے بناتی ہے۔ جس کی وجہ سے حواس مختلف ہوتے ہیں اور حواس کی تبدیلی کی وجہ سے کیفیات بھی بدل جاتی ہیں، مگر کیفیات بدلنے سے حقیقت نہیں بدل سکتی اور حقیقت اسم ہے۔ چنانچہ ہر آدمی جب موت کے لمحے سے گزرتا ہے۔ وہ یہ جانتا ہے کہ وہ اس وقت موت کے سفر میں ہے، مگر جس طرح ایک راستے سے دس مسافر گزرتے ہیں اور ہر کوئی راستے کی مختلف چیزوں پر نظر کرتا ہے۔ کسی کی نظر شئے پر پڑتی ہے اور اسی راستے پر دوسرا مسافر گزرتے ہوئے اس شئے کو نہیں دیکھتا جس کی وجہ سے اسے اس چیز کی موجودگی کا علم ہی نہیں ہوتا۔ بالکل اسی طرح ہر لفظ آدمی کے اندر مختلف احساس کی درجہ بندی کرتا ہے اور جب روشنی اس درجے میں سفر کرتی ہے تو اس لمحے کا احساس وہ اس درجے میں محسوس کرتا ہے۔ احساس کا درجہ یا احساس کے دائرے وہ راستہ ہے جس پر روشنی سفر کرتی ہے۔ روشنی علم کا وہ ذخیرہ ہے جو اسم یا لفظ کے اندر موجود ہے۔ شعور کے پردے پر اسم یا لفظ کے ڈسپلے ہوتے ہی علم کی روشنی احساس کے درجوں سے گزرنے لگتی ہے۔ اس طرح روشنی کی ایک گزرگاہ بن جاتی ہے اور یہی گزر گاہ فکر بن کر ذہن میں اس اسم یا لفظ کے مفہوم اور معنی کو داخل کر دیتی ہے۔ ہر آدمی کا شعور موت کو مختلف معنی پہناتا ہے۔ کوئی موت کو اللہ تعالیٰ سے ملنے کا ذریعہ سمجھتا ہے اور مرنے کی تمنا رکھتا ہے اور کوئی موت کو دنیا کی راحتوں سے محروم کرنے کا بہانہ جانتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ موت کے نام سے لرزتا ہے۔ موت کی تمنا یا موت کا خوف احساس کی حرکت کو تبدیل کر دیتا ہے۔ جس کو آدمی محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حواس کے ہر دائرے میں اس اسم کی روشنی فکر کے خاکے میں ڈھل کر ذہن کے پردے پر ابھرتی ہے۔ نظر اس تصویر کو دیکھ کر شئے کا مفہوم سمجھتی ہے۔ فکرمیں جتنی زیادہ وسعت ہو گی اتنی زیادہ علم کی روشنیاں اس کے اندر جذب ہوں گی اور فکر جتنی زیادہ کوتاہ ہو گی اتنی ہی کم روشنی اس میں سمائے گی۔ نظر روشنی میں ہی کام کرتی ہے چنانچہ آدمی کے شعور میں جتنی زیادہ علم کی روشنی ہوتی ہے اس کی نظرغیب میں اتنی ہی زیادہ کام کرتی ہے اور مرنے کے بعد وہ غیب کے ان مقامات میں بسیرا کرتا ہے۔

                ہم باتیں کرتے کرتے جانے کتنی دور نکل آئے۔ آبشار کے دلگداز نغمے نے مجھے چونکا دیا۔ کیا دیکھتی ہوں کہ سامنے ایک اونچی پہاڑی سے نور کا آبشار گر رہا ہے۔ اس کے گرنے کی آواز میں ایسے ساز تھے کہ دنیا کی کوئی دھن اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

                پہاڑی سے گرتے ہوئے نور کے پانی کی جو بدندیں بکھرتیں ان سے فضا میں خوبصورت خاکے بن جاتے۔ پہاڑی کی پشت سے آنے والی روشنی ان بوندوں میں رنگ بھر دیتی۔ ایسا لگتا جیسے رنگین موتیوں کے مختلف خاکے بن بن کر بکھرتے جا تے ہیں۔ ہر لمحے ایک نیا خاکہ بنتا طبیعت دیکھنے سے کسی طرح سیر نہ ہوتی۔

                بابا تاج الدینؒ نے فرمایا۔ اس پہاڑی کے پیچھے مقام قرب ہے۔ مقام قرب میں اسمائے الٰہیہ کی ہستیاں موجود ہیں۔ مقام قرب کی سیر کرنے کے لئے پہلے اس آبشار میں نہایا جاتا ہے۔ اس آبشار میں نہانے سے آدمی کے حواس کی رفتار اس حد تک پہنچ جاتی ہے جن حدود میں وہ اسمائے الٰہیہ کی ہستیوں کو اپنے حواس کے ذریعے سے دیکھ اور سن سکتا ہے اور ان کے کلام کو سمجھ سکتا ہے۔ جن کے حواس اس آبشار کی تیزی کو برداشت نہیں کر سکتے۔ وہ آبشار کے پانی میں بہہ کر مقام قرب سے دور جنت کی طرف چلے جاتے ہیں مگر جن کے حواس اس آبشار کی تیز رفتاری کو برداشت کر لیتے ہیں۔ آبشار میں نہانے سے ان کے اندر ایسی لطافت پیدا ہو جاتی ہے کہ آبشار کا نور انہیں بلندی کی جانب کھینچتا ہے اور وہ اس نور کے اندر سفر کرتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کا استقبال کرتی ہے اور بندہ اس کی رحمت کے سہارے اس کے قرب میں داخل ہو جاتا ہے۔ مقام قرب محبوبیت کا مقام ہے۔

                ہر بندے کے لئے مقام قرب پر محبوبیت کی ایک انوکھی شان ہے اور اللہ کی بے شمار شانیں ہیں۔ ہر شان میں اس کی محبوبیت کی فکر ایک نئے رنگ میں جلوہ گر ہے۔ اللہ کی ہر فکر لامحدودیت ہے۔ بندہ قرب محبوب کے احساس کو لامحدودیت کے دائرے میں محسوس کرتا ہے اور لامحدودیت کے دائرے کی ہر فکر اللہ کی فکر ہے اور اللہ کی ہر فکر میں اسمائے الٰہیہ کے جلوے ہیں۔ بندہ اللہ کی نظر سے اللہ کے جلووئوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔

                بابا تاج الدینؒ کی باتیں سن کر میرے دل میں بے پناہ شوق ہوا کہ میں بھی اس آبشار میں کود جائوں مگر پاس ادب سے چپ چاپ اپنے جذبات کو دبائے کھڑی رہی۔ بابا تاج الدینؒ نے میری طرف ایک نظر بھر کر دیکھا۔ پھر میرے قریب آئے اور کوئی اسم پڑھ کر میری پیشانی پر پھونک ماری، پھر نہایت شفقت کے ساتھ فرمایا۔ ہماری طرف سے آپ کو اس آبشار میں نہانے کی اجازت ہے۔ اتنا سنتے ہی میں نے خوشی سے اس آبشار میں چھلانگ لگا دی۔ اس کا پانی مجھے اوپر کھینچنے لگا۔ اور اسی لمحے میرے سارے بدن میں سنسناہٹ سی محسوس ہوئی اور میری آنکھ کھل گئی۔ آنکھ کھلتے ہی ایک لمحے کے لئے در و دیوار پر بے شمار جلوے رقصاں دکھائی دیئے۔

حریم ناز کے پردے اٹھے تو ہم نے یہ جانا

ہر اک پردے میں جلوہ ساز ہے وہ حسن جانانہ

صبا کہتی ہے مشت خاک کو اب دیکھ کر میری

رموز عاشقی سے آشنا کیونکر ہے بیگانہ

 

 

 


Roohein Bolti Hain

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی

                ‘‘زندگی جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’

                یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔                میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔

                میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔                روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔

                                     دعا گو:

                                                سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

                                                تاریخ: 01-09-94