Topics

شیطانی ہتھکنڈے


                خیال تھا۔ غیب کے اسرار سے پردے سرکانے سے لوگوں کے ذہنوں کے پردے ہٹیں گے۔ لوگوں کے اندر غیب میں جھانکنے کا شوق پیدا ہو گا۔ غیب کی دنیا کا تجسس دنیاوی آلودگیوں سے پاک کر کے باطن کو اللہ کی صفات سے روشن کر دے گا، مگر دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ لوگوں کے اندر شوق تو پیدا ہو چکا ہے۔ تجسس بھی ابھر آیا ہے، مگر پھر بھی کسر باقی ہے۔ ایک صاحبہ آئیں۔ جوش محبت میں گلے سے لگا کر بھینچا، فرط عقیدت میں ہاتھ کہنیوں تک چوم ڈالے۔ دل نے کہا۔ یا اللہ! ہم ایسی سچی عاشقی سے آج تک کیسے محروم رہے۔ بات آگے بڑھی ہم جانتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے خوب نوازا ہے۔ ہم نے شرماتے ہوئے نیچی نظریں کر کے آہستہ سے جواب دیا۔ بہن یہ تو اللہ کا فضل ہے، وہ قادر مطلق ہے۔ کہنے لگیں۔ خواہ کچھ بھی ہو۔ میرے دل میں بھی روحانیت سیکھنے کا بے حد شوق ہے۔ بڑی مشکل سے آج آپ تک پہنچی ہوں مجھے تو آپ ابھی سب کچھ دے دیں۔ ہمارے تو سر کے اوپر سے جیسے (اڑن طشتری) فلائنگ سا سر گزر گئی۔ جی کیا کہہ رہی ہو آپ۔ بولیں میں کچھ سننے کو تیار نہیں ہوں۔ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے ماتھے پر رکھا۔ آج تو آپ ہم پر ایسا دم ڈال دیجئے جیسا حضرت ابوالفیض سہروردیؒ صاحب نے حضور قلندر بابا اولیاءؒ پر ڈالا تھا۔ تین پھونکوں میں عرش معلیٰ سے تحت الثریٰ تک ساری سیر کرا دی تھی۔ اب ہم لاکھ کہہ رہے ہیں کہ اے میری اماں حوا کی ماں جائی۔ وہ پھونک مارنے والے حضرت ابوالفیضؒ تھے اور جن پر ماری گئی وہ حضور قلندر بابا اولیاءؒ تھے۔ جو اس پھونک سے پہلے نو برس حضرت بابا تاج الدین اولیاءؒ ناگپوری کی تربیت میں دن رات رہے۔ اس کے علاوہ جانے کب سے ان کی براہ راست تربیت ہوتی رہی۔ ان تین پھونکوں نے تو آپ کے اندرکن کا کام کیا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات میں کائنات کا علم اور کائنات کی جملہ صفات موجود تھیں۔ اللہ نے کن کہا تو کائنات کی صفات نے ایک قدم نیچے اتر کر اپنے علوم کا مظاہرہ کر دیا۔ کائنات اگر اللہ کے علم میں نہ ہوتی تو علم سے باہر کیسے آتی۔ اسی طرح اگر حضور قلندر بابا اولیاءؒ کے اندر عرش معلیٰ سے لے کر تحت الثریۃ تک کے انوار موجود نہ ہوتے تو وہ کیسے ان کا مشاہدہ کرتے۔ حضرت ابوالفیضؒ نے تین پھونکوں میں انہیں ان کے باطن میں دکھایا۔ ساری کائنات آدمی کے اندر ہی ہے۔ پہلے اپنے اندر غیب کے انوار و تجلیات تو جمع کر لو پھر جتنی پھونکیں کہو گی مار دیں گے۔ جانے انہیں ہماری بات کا یقین آیا بھی یا نہیں۔

                آج کے دور میں جس کی طرف نظر ڈالو پریشانیاں دکھائی دیتی ہیں سمجھ میں نہیں آتا پاکستان میں پریشانیوں کی یہ زرخیزیاں کہاں سے آ گئیں۔ جبکہ سندھ اور راوی کا پانی تو سوکھتا جا رہا ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ قوم نسلی طور پر کاشتکار ہے اور موجودہ دور کی بہترین فصل پریشانی ہے۔ سوچا دیکھیں اس زمین پر کیسے کیسے پھل لگتے ہیں۔ بہت اچھی، بہت ماڈرن، تن و توش میں نہایت تندرست دکھائی دینے والی جوان خاتون سے ملاقات ہوئی۔ بولیں میں سخت پریشان ہوں، اپنی زندگی سے عاجز ہوں، ڈپریشن تو کبھی ایسا بڑھ جاتا ہے کہ گلی میں ننگے پیر نکل جاتی ہوں۔ کوئی سامنے آئے تو غصے سے چیزیں دے مارتی ہوں۔ ہم نے بظاہر ان کے لباس کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا کہ مالی پریشانی تو نہیں ہو سکتی۔ جس کی فوراً ہی تصدیق بھی ہو گئی کہ مال و دولت کی کمی کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہو سکتا۔ تو پھر ضرور کوئی گھریلو پریشانی ہو گی۔ بولیں۔ قطعی نہیں۔ گھر میں بال بچے، ماں باپ، بہن بھائی سب ٹھیک ہیں۔ یا اللہ پھر کیا بات ہے۔ ہم نے ہتھیار ڈال دیئے۔ اب آپ ہی اپنے بارے میں کچھ فرما دیں پھر ایسی حالت کیوں ہے۔ بولیں اگر مجھے معلوم ہوتا تو آپ کے پاس کیوں آتی۔ بات بھی درست تھی۔ تمام حالات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد ہم صرف اس نتیجے پر پہنچے کہ ان محترمہ کے پاس دولت خوب ہے، گھر کا ہر کام نوکروں کے سپرد ہے۔ بال بچوں کے چھوٹے چھوٹے کام کرنے سے ایک ماں کو ایک بیوی کو ایک بیٹی کو جو خوشی ہوتی ہے، یہ ساری خوشیاں تو نوکر سمیٹ لے جاتے ہیں۔ اب کریں تو کیا کریں۔ سارا وقت سو کر گزار کر بھی نہیں جاتا۔ فضول گھومنے گھمانے میں ذہن اور خراب ہوتا ہے۔ روحانی خوشی سے خالی دماغ خود اپنے آپ پر بوجھ بن گیا ہے۔ اے میری پریشان بہن! اللہ نے تجھے مال فراوانی کے ساتھ دیا ہے، اس کی اس عطا پر شکر گزار ہو۔ بولیں شکر تو ہر وقت اٹھتے بیٹھتے کرتی ہوں۔ ہم نے کہا۔ وہ تو تیری زبان کا شکر ہے۔ جسم تو ظاہری خول ہے۔ تیرے شکر سے تیری روح خالی ہے۔ وگرنہ تیرا یہ حال نہ ہوتا۔ روحانی شکر یہ ہے کہ اس کی عطا کردہ نعمت کو اس کی مخلوق کے فائدے میں خرچ کرو۔ ہر انسان کو اللہ نے اپنی نعمتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ بندے کا اس نعمت کے ساتھ مخلوق خدا کے فائدے میں تصرف کرنا ہی اصل شکر ہے۔

                عورتوں کی عام پریشانی تعویذ گنڈا اور سفلی عملیات ہیں۔ کسی نے کسی رزق باندھا ہوا ہے، کسی نے رحم باندھ دیا ہے، کسی نے شوہر کو تعویذ کرا کے گھر سے بدظن کر دیا ہے۔ حتیٰ کہ شوہر کی بدچلنی بھی تعویذوں کا اثر بتایا جاتا ہے اور سارا شک قریب ترین رشتے داروں کو پہنچتا ہے۔ شک وسوسوں کی اس زنجیر میں گھر کا ہر فرد بندھ جاتا ہے۔ پھر پریشانی کا دور دورہ کیسے نہ ہو۔ اب غریبی میں اور آٹا گیلا ہوا۔ بال بچوں کی ضروریات تج کر کے ذہنی سکون حاصل کرنے کے لئے تعویذ خریدے جاتے ہیں۔ اے میری بھولی بھالی مائوں! بہنو اور بیٹیو! ذرا تو عقل سے کام لو۔ ذرا سوچو تو تم کون ہو؟ تم اللہ کی بہترین مخلوق ہو جس کو اللہ نے فرشتے اور جنات (ابلیس) دونوں کے سامنے پیش کیا۔ فرشتوں نے اللہ کے حکم پر تمہاری حاکمیت قبول کر لی اور ابلیس نے اللہ کا حکم رد کر کے تمہاری حاکمیت کا انکار کر دیا۔ اللہ نے فرشتوں کو تمہارا دوست بنا دیا اور ابلیس تمہارا کھلا دشمن قرار دے دیا گیا۔ فرشتے قوت رحمانی کے ساتھ تمہاری دوستی کا حق ادا کرتے ہیں اور تمہارے قلب و ذہن میں نور بھر کر غیب کی انسپائریشن کرتے ہیں۔ جبکہ ابلیس تمہارا کھلا دشمن ہے اپنے غلیظ ہتھکنڈوں کے ساتھ تمہارے اندر شک اور وسوسے انسپائر کرتارہتا ہے۔ نور قوت ایمان ہے اس سے یقین پیدا ہوتا ہے اور شیطانی وسوسے قوت ابلیس ہے۔ جو انسان کے اندر یقین کو کمزور بنا دیتی ہے۔ انسان فرشتوں اور ابلیس کے درمیان ہے۔ چاہے جس کی انسپائریشن قبول کرے دوست کی یا دشمن کی۔ یہ آج تمہیں کیا ہو گیا۔ تم سب کے سب دشمن کی بات قبول کرنے لگی ہو۔ کئی عورتیں بولیں۔ جادو، گنڈے، تعویذ کا ذکر تو قرآن میں ہے۔ حضور پاکﷺ پر بھی جادو کا اثر ہوا تھا۔ ہاں ہوا تھا اور ضرور ہوا تھا۔ مگر یہ تو سوچو۔ حضور پاکﷺ صاحب وحی ہیں۔ اللہ کا کلام ان پر نازل ہوا ہے یعنی وحی کے انوار آپ کے قلب کے اندر داخل ہوئے اور آپ کے حواس نے انہیں محسوس کیا۔ اللہ کے کلام میں اگر شر کے علوم کا ذکر ہے تو کلام الٰہی کی یہ روشنی بھی آپ کے قلب میں داخل ہوئی اور آپ کے حواس حمیدہ کو ان کے اثرات سے روشناس کرایا گیا تا کہ وحی کے نزول کا کوئی پہلو آپ کے مشاہدہ سے خالی نہ رہ جائے۔ کیونکہ اللہ خیر اور شر دونوں کا مالک ہے۔ بس اس نے اپنے محبوب کو خیر اور شر دونوں علوم کے بارے میں بتا دیا۔

                قوت شیطانی میں شر کی قوت موجود ہے جو عقل انسانی کو سلب کر لیتی ہے اور دل و دماغ کو کمزور بنا دیتی ہے اور اس سے جسم متاثر ہوتا ہے۔ آج قوم کی اکثریت ابلیس کی دوست بن کر اس کی قوت سے کام لے رہی ہے۔ پھر جہاں دشمن ہو وہاں دوست کا کیا کام۔ قوت ایمان و یقین کہاں سے آئے گا۔ یہی وجہ تو ہے کہ قلب پریشان ہیں۔ بس صرف اتنا سا کام کرو۔ اللہ نے فرشتوں کو تمہارا دوست بنایا ہے تو فرشتوں کی انسپائریشن قبول کرو تا کہ ذہن میں اچھے اچھے خیالات پیدا ہوں اور قلب میں ان خیالات کی روشنی داخل ہو اور شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اس کی انسپائریشن کو ہرگز بھی قبول نہ کرو۔ فوراً رد کر دو فوراً رد کر دو۔ فوراً رد کر دو۔ اگر ایک لمحے بھی شیطانی خیال تمہارے ذہن میں ٹھہر گیا تو اپنا اثر پھیلانا شروع کر دے گا۔ شیطان کی ذات شک و وسوسہ ہیں۔ رد کر دو گے تو اوپر سے خیال گزر جائے گا پھر کیسے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ فرشتے انسان کے دوست ہیں۔ وہ انسان کو خوشی کی لہریں منتقل کرتے ہیں ابلیس دشمن ہے۔ وہ رنج و غم کی لہریں منتقل کرتا ہے۔ خوشی اور غم دونوں اندرونی کیفیات کا نام ہے۔

 

 

 

 

 


 


Roohein Bolti Hain

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی

                ‘‘زندگی جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’

                یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔                میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔

                میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔                روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔

                                     دعا گو:

                                                سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

                                                تاریخ: 01-09-94