Topics

مصور الارحام


                جب میں نے اپنی ذات کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ وابستہ کر دیا۔ اس طرح کہ اس کی عظمت کے پردوں میں میرا ادنیٰ وجود خود اپنی نظروں سے پوشیدہ ہو گیا۔ تب اس نے اپنے کمالات کی سلیمانی انگشتری پہنا کر میرے وجود کے نقطے کو اپنی عظمت کے پردے پر ظاہر کر دیا۔ صحرائے اعظم میں ریت کے حقیر ذرے کی طرح میرے وجود کا کمترین نقطہ اس کے کمالات کے انمول خزانوں کے ساتھ خود انمول ہو گیا۔ میری ذات اس کی پہچان بن گئی۔ اس کے کمالات میرا خزانہ بن گئے۔ اس کی بینائی میری نظر بن گئی۔ مرکز نظر میری آنکھ ہو گئی، میں نے پہچان لیا۔ میرے وجود کا لطیف ترین مرکزی نقطہ میری آنکھ کی پتلی کا تل ہے۔ اس کے خزانوں کا جمال اسی مرکز پر جلوہ افروز ہوا۔ محبوب افق اعلیٰ پر رونق افروز ہوا۔ پہچانے جانے کا تفکر چھپے ہوئے خزانوں کو ظاہر کرتا گیا۔ افق اعلیٰ پر تجلیات کا ہجوم ہو گیا۔ اس کی رحمت کی سلیمانی انگشتری نے میرے وجود کے ہر ذرے کو آنکھ بنا دیا۔ لامحدودیت میں لامحدودیت کی نگاہ کام کرنے لگی۔ حقیقت الحقائق وہ ہے جو اس آنکھ کی پتلی کے تل میں ہے۔ روح اعظم کی آنکھ، تجلی کی آنکھ، آئینہ حق، عرق اعظم۔

                اللہ تعالیٰ کے خزانے اللہ تعالیٰ کے اسمائے الٰہیہ کا جمال ہیں۔ جمال کا دیکھنا ہی جمال کی تعریف ہے۔ سینہ بہ سینہ منتقل ہونے والے علوم مشاہداتی علوم ہیں۔ کتابوں میں پڑھ کر یہ علوم اس وجہ سے حاصل نہیں ہوتے کیونکہ الفاظ کے حروف انوار کے لئے پردہ بن جاتے ہیں۔ آدمی کی نظر پردے کو دیکھتی ہے، انوار کو نہیں دیکھتی۔ نظر جس چیز کو دیکھتی ہے اس کا عکس دماغ میں محفوظ ہو جاتا ہے۔ پھر یہی عکس بار بار دماغ کے پردے پر منعکس ہوتا رہتا ہے۔ یعنی نظر کا دیکھا ہوا یہ پہلا عکس یقین کی بنیاد ہے۔ یقین کی دو سمتیں ہیں۔ ایک سمت حقیقت ہے، دوسری سمت مفروضہ ہے لیکن چونکہ یہ دونوں سمتیں ایک ہی بنیاد پر کھڑی ہیں۔ اس وجہ سے حقیقت اور مفروضہ دونوں ہی یقین کے لباس میں دکھائی دیتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ نظر دھوکہ کھا جاتی ہے، مگر جیسے ہی یقین کے پردے میں حقیقت کی روشنی نظر آتی ہے۔ تمام مفروضہ نظریات ہلاک ہو جاتے ہیں۔ حقیقت کی یہی روشنی قلب کی آنکھ بن جاتی ہے۔ غیب کا ہر مشاہدہ یقین کی بنیاد پر انسان کے اندر کام کرنے والی صلاحیت بن کر ابھرتا ہے۔ حقیقت کی ہر روشنی روح کی فطرت ہے۔ غیب کے مشاہدے سے روحانی طرز فکر متحرک ہو جاتی ہے۔ تمام مفروضہ نظریات و صلاحیتیں روح کی فطرت سے جدا ہیں۔ یہ عالم ناسوت کی روشنیوں کا ردعمل ہے۔ جس کی وجہ سے عالم ناسوت کی روشنیوں کا ردعمل انسان کے حواس کے دائروں میں شدید ہو تو آدمی کے اندر سفلی تحریکات بیدار ہو جاتی ہیں اور وہ مرنے کے بعد اسفل میں جا گرتا ہے۔ یعنی انسانی نفس کی کمزوریاں حرکت میں آ جاتی ہیں۔ جن کا روح کی فطرت سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ روح اپنی ذات میں فطرتاً معصوم ہے۔ روح کی ذاتی حرکت ‘‘امر ربی’’ کی حرکت ہے۔ روح کا شعور ‘‘امر ربی’’ کا شعور ہے۔ غلطی کا مرتکب انسانی شعور و عقل بنتا ہے، روحانی شعور نہیں بنتا۔ روحانی شعور غیب کے انکشافات کرتا ہے۔

                ایک دن صبح صادق کے وقت آنکھ کھلی۔ آنکھ کھلتے ہی روح کے حواس شعوری حواس سے متصل ہو گئے۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے بطن سے ولادت ہو رہی ہے۔ یہ فکر شعوری حواس کے دائرے سے گزر کر روحانی حواس کے دائرے میں داخل ہو گئی۔ پھر میرے یہاں ولادت ہوئی اور دوسرے ہی لمحے ساری دنیا بلکہ سارا عالم سامنے آ گیا۔ اس لمحے یوں لگا جیسے ایک ساتھ بہت سے بچوں نے جنم لیا ہے۔ میری نظر اپنی تخلیق پر گئی۔ ممتا کی محبت پکار اٹھی یہ اولاد سعید ہے۔ اب نگاہ تمام بچوں پر گئی۔ ممتا پھر پکار اٹھی یہ سب سعید اولادیں ہیں۔ اسی لمحے شعور میں تجسس ابھرا۔ ممتا کی نظر کیا ہے اور کس طرح دیکھتی ہے؟ ذہن کا سوال جواب کا پیش رفت نکلا۔ میں نے دیکھا روح آسمان کی جانب بڑے انہماک سے دیکھ رہی ہے۔ میں نے بھی اس کی تقلید میں آسمان کی جانب نظر ڈالی۔ تمام آسمان خوبصورت رنگ برنگی تصاویر سے مزین تھا۔ دل نے کہا۔ یہ عالم مثال کا پردہ ہے۔ میں نے اب غور سے اس پرے کو دیکھا۔ تو یہ آسمان دکھائی دیا۔ ذہن یا عقل بولی۔ یہ پردہ ہی آسمان ہے۔ اس آسمان پر رنگین شعاعوں سے بہت واضح اور کوبصورت تصاویر بنتی جا رہی تھیں۔ روح کی نظر بہت دیر تک ان تصاویر کو دیکھتی رہی۔ جس طرح کیمرہ اپنے اندر تصویر محفوظ کر لیتا ہے۔ اسی طرح روح کی آنکھ نے بھی اپنے اندر آسمان پر نمودار ہونے والے عکس اتار لئے۔ آسمان پر عکس بدلتے جا رہے تھے۔ اب روح نے آسمان سے نظر ہٹائی اور نیچے زمین کی جانب نظر کی۔ نہایت ہی احتیاط سے نظر کی روشنی میں ایک انتہائی لطیف عکس جو ہو بہو آسمان کے عکس جیسا تھا، روشنی میں نیچے اترا۔ روح کی نظر زمین پر ایک عورت کے رحم پر تھی۔ نظر کی روشنی میں یہ لطیف ترین جلوہ یا عکس اتر کر رحم کے اندر سمٹ کر بیٹھ گیا۔ میرے لب فطرت کی معصومیت پر مسکرا اٹھے۔ اسی لمحے روح نے میری جانب دیکھا، کہنے لگی۔

                میں مصور الارحام ہوں۔ میں رحموں میں تصویر بنانے والی ہوں۔ میری تصویر میں کوئی نقص نہیں ہے۔ تم نے دیکھا؟ میں نے کہا۔ ہاں! میں نے دیکھا۔ تم نے ہو بہو آسمان کی تصویر کے مطابق تصویر بنائی ہے۔ کہنے لگی۔ لوح محفوظ کی تمثالیں اس پردے پر اترتی ہیں، دراصل یہ تمثالیں پردے کے اندر اترتی ہیں۔ وہاں سے آہستہ آہستہ اس پردے پر ظاہر ہوتی جاتی ہیں۔ عالم مثال کے پردے پر تصویر کا ہر رنگ اسمائے الٰہیہ کی صفت ہے۔ کائنات کا ہر نقش اپنی ذات میں اسمائے الٰہیہ فطرت پر ہے۔ لوح محفوظ کی ہر تمثال اللہ تعالیٰ کی بہترین صناعی ہے۔ روح اللہ کے امر کو کائنات میں جاری و ساری رکھنے کے کام پر مقرر و مامور ہے۔ جس صناعی کو اپنے اسماء کے انوار سے مزین کر کے اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ خالقیت کی شان کر رہی ہے۔ اس صناعی کو ‘‘امر ربی’’ یا روح خالق کے حکم پر دہرا رہی ہے۔ ‘‘امر ربی’’ اللہ کا ارادہ ہے۔ روح اللہ کے ارادے پر کام کرتی ہے ۔ روح کی کارکردگی میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ میرے ذہن میں ایک دم سے سوال پیدا ہوا۔ پھر خرابی کہاں ہے؟ میرے کہنے سے پہلے ہی روح بولی۔ روح کا ہر کام اسمائے الٰہیہ کی فطرت پر ہے۔ میں اسمائے الٰہیہ کی فطرت کے مطابق مصور ہوں، جس طرح اسمائے الٰہیہ میرے افق پر تصویر کشی کرتے ہیں میں ہوبہو اسی طرح کرتی ہوں۔ اب اس نے مجھے دوبارہ وہی منظر دکھایا کہ آسمان پر ایک نہایت ہی حسین تصویر ہے۔ روح نظر بھر کر اس کو دیکھتی ہے۔ پھر زمین پر نظر کرتی ہے اور نظر کی روشنی میں یہ جلوہ آسمان سے زمین کی جانب اترتا چلا آتا ہے۔ زمین پر ایک عورت کے رحم میں سمٹ کر سما جاتا ہے۔ یہ حسین جلوہ ہو بہو آسمان کی تصویر جیسا تھا۔ میرے منہ سے بیساختہ نکلا۔ اے روح! تم بلاشبہ مصور الارحام ہو۔ اب میری نظر روح کی نگاہ کی روشنی میں اس عورت کے رحم پر تھی۔ اس رحم کی اندھیری کوٹھری میں ایک پائپ نما سوراخ کے ذریعے دھواں داخل ہونے لگا۔ رحم کی تصویر متاثر ہونے لگی۔ میں خوف اور رنج سے پریشان ہو کر چیخنے لگی۔ نہیں نہیں ایسا مت کرو۔ اندھیرے میں روشنی کی ضرورت ہے۔ کالے دھوئیں کی نہیں مگر یوں لگا جیسے اس عورت تک میری آواز ہی نہیں پہنچتی۔ روح بولی تم نے دیکھا۔ میں نے ٹھنڈا سانس بھر کر کہا۔ ہاں دیکھ لیا۔ میرے اندر بیزاری سی محسوس ہوئی۔ مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہ تھی کہ اس عورت کے ہاں ولادت ہو اور میں دیکھو کیونکہ دھوئیں کو دیکھ کر پہلے ہی جان چکی تھی کہ تصویر کے اصلی رنگ دھوئیں کی سیاہی کے پیچھے چھپ چکے ہیں مگر ‘‘امر ربی’’ کی ہر حرکت کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح جاری و ساری ہے۔ اسے کون روک سکتا ہے۔ زمین کی تخلیق دھوئیں کے خول میں کھڑی تھی۔ میں نے دیکھا روح کی نظروں میں ایک دم سے ممتا کی روشنی چمکی اور اس روشنی نے دھوئیں کے اس خول کا احاطہ کر لیا۔ روح کی توجہ مسلسل اپنی تصویر کی جانب تھی۔ میں نے روح کی روشنی میں اس کی توجہ کی جانب دیکھا۔ روح کی توجہ اور تحفظ کی فکر قطار اندر قطار فرشتوں کے روپ میں دخان کے اندر اترے چلے جا رہے تھے۔ ان فرشتوں نے اس تخلیق کو ہر طرف سے گھیر لیا تا کہ اس کی ہر حرکت کنٹرول میں رہے۔ روح بولی۔ جس طرح ذات خالق کی صفت خالقیت کا مظاہرہ روح کے ذریعے ہو رہا ہے۔ یعنی روح عالم مثال کے تمثل کو اللہ کے امر کے انوار سے سیراب کر کے جسم مثالی کی صورت میں ڈھالتی ہے۔ جسم مثالی روح کی تخلیق ہے۔ یہی جسم مثالی مادی صورت میں دنیا میں ظاہر ہوتا ہے۔ دنیا میں تخلیقی قانون کے مطابق مادی وجود عورت و مرد اس کا سبب بنتے ہیں۔ پس یہ مادی وجود جسم مثالی کے مادی جسم کی تخلیق میں روح کے شریک ہیں۔ اگر مرد و زن اپنی روح سے واقف ہوں اور اپنے اندر کام کرنے والے امر کی حرکات سے تعاون کریں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ان کی تخلیق میں کوئی نقص رہ جائے۔ ایسی صورت میں خلق کی کمزوری کے پس پردہ کوئی نہ کوئی حکمت سامنے آ جاتی ہے۔ جس سے دل پر سکون رہتا ہے اور اللہ پر یقین بھی پختہ رہتا ہے۔

                میں نے روح سے پوچھا۔ تو کیا صرف صلبی اولاد ہی کی تخلیق میں انسان کے ارادے کا دخل ہے یا روح کے اور بھی کاموں میں انسانی ارادہ شامل ہوتا ہے؟ روح بولی۔ انسان کے ذہن کا ہر خیال جسم مثالی کی ایک تصویر ہے۔ جو روح کے امر کی صورت ہے۔ انسانی ذہن کے اندر یہ روشنیاں تخلیقی مدارج سے گزرتی ہیں اور کسی نہ کسی صورت میں خواہ یہ صورت مادی ہو یا ماورائی ہو تخلیق ہو جاتی ہیں۔ مادی صورت کو انسان کی آنکھ دیکھ لیتی ہے یا ظاہری حواس کسی طرح پہچان لیتے ہیں، مگر ماورائی صورت کو انسان کے باطنی حواس پہچانتے ہیں اور ظاہری حواس ان سے بے خبر رہتے ہیں۔ مرنے کے بعد انسان اپنے ارادے کی تخلیق کردہ دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ اسی کو اعمال کا ریکارڈ کہتے ہیں۔ میرے ذہن پر خیال گزرا کہ جانے کتنے ہی خیالات اور اعمال ہم سے الٹے سیدھے ہوتے رہتے ہیں جن کی خبر بھی نہیں ہوتی یا ہم توجہ بھی نہیں دیتے۔ اس میں آدمی کا کیا قصور، یہ تو زندگی ہے بس گزر رہی ہے۔ روح فوراً بولی۔ وہ میرے ہر خیال سے واقف تھی۔ بولی، انسان تو ایک مشین ہے جو روح کے خیالات کی تصویر کی کاپی بنا رہی ہے۔ مشین درست ہو گی تو کاپی بھی صحیح بنے گی۔ ورنی جیسی بھی بنے گی اسی کو دیکھنی پڑے گی۔ نظر کی خاصیت ہے کہ وہ حسن و جمال کو پسند کرتی ہے۔ بدصورت شئے کو زیادہ دیر دیکھنے سے دماغ پر دبائو پڑتا ہے۔ یہی انسان کی سزا ہے۔ میری نظر دور افق پر جا پہنچی۔ ہری بھری جنتوں میں روح اپنے محبوب کے ساتھ تھی۔ دل پہچان گیا۔ اللہ کے ارادے کی تصویروں کا عکس روح کی آنکھ میں ہے۔ روح کی آنکھ کا عکس میرا تصور ہے، میرا تصور ہی میری جنت ہے، میرے تصور کی جنت کے ہر قدم پر محبوب کی ایک تصویر کھڑی تھی۔ میرے دل کی گہرائی سے صدا آئی۔ اے روح! تو مصور الارحام ہے۔ مجھے بھی مصوری کا یہ فن سکھا دے تا کہ میں بھی اپنے تصور کے اس جنت میں مظاہراتی رنگ بھر سکوں اور اپنے تمام حواس کے ساتھ محبوب کے قرب کا لطف اٹھا سکوں۔

 

 


Roohein Bolti Hain

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی

                ‘‘زندگی جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’

                یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔                میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔

                میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔                روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔

                                     دعا گو:

                                                سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

                                                تاریخ: 01-09-94