Topics

کوشش نفس


                میں نے دیکھا کہ گھر میں ہر طرف میری روح چل رہی ہے۔ بڑی آزادی سے گھر میں ادھر ادھر گھوم پھر رہی ہے۔ یہ دیکھ کر میں نے روح سے پوچھا۔ تم یہاں بڑے آرام سے چل پھر رہی ہو۔ روح نے بہت اطمینان سے جواب دیا۔ میں تمہاری بہت شکر گزار ہوں کہ تم نے مجھے آزاد رکھا ہوا ہے۔ میں نے کہا تو کیا لوگ تم کو قید بھی کر لیتے ہیں۔ روح کہنے لگی۔ یہ سچ ہے کہ میں آزاد رہتی ہوں اور قید میں نہیں رہ سکتی۔ لوگ مجھ پر ایسی فکروں کا بار ڈال دیتے ہیں جن کے بوجھ تلے میں جکڑ کر رہ جاتی ہوں اور آزادی کا سانس نہیں لے سکتی۔ روح نے میرا ہاتھ پکڑا اور کہنے لگی۔ تم اس طرح سمجھو گی۔ آئو میں تمہیں دکھاتی ہوں۔ ہم آن کی آن میں گھر سے نکل کر ایک نورانی فضا میں آ گئے۔ ہر طرف نور ہی نور تھا۔ روح نے کہا۔ اپنی طرف دیکھو۔ تمہیں کس نے سنبھالا ہوا ہے۔ میں نے اپنے سراپے پر نظر ڈالی میرے اطراف میں نور ہی نور تھا اور اس نے مجھے ہر طرف سے تھام رکھا تھا۔ مجھے اپنے گرنے کا قطعی خوف نہ تھا۔ اس نور کے اندر مجھے پوری طرح تحفظ حاصل تھا۔ روح نے کہا۔ یہ اللہ کا نور ہے۔ تم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کی روشنیوں نے تمہیں کتنی اچھی طرح سنبھالا ہوا ہے۔ تم نہیں گر سکتیں۔ تمہیں اللہ تعالیٰ کی پوری حفاظت حاصل ہے۔ میں نے حیرانی سے روح کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ واقعی میں اس نور کے اندر بہت حفاظت سے ہوں۔ مگر اور سب کہاں ہیں۔ روح نے ہاتھ سے اشارہ کیا اور میرے سامنے ساری کائنات آ گئی۔ کائنات کی ہر شئے علیحدہ علیحدہ ایک دوسرے سے مناسب فاصلے پر اس نور کے اندر موجود تھی اور اس نور نے ہر شئے کو چاروں طرف گھیر رکھا تھا۔ روح نے کہا۔ دیکھا تم نے کائنات کا ہر ذرہ اللہ تعالیٰ کے نور میں موجود ہے۔ یہ نور تجلی ذات کا نور ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ نے وحدانیت کا نور کہا ہے اور کائنات اللہ تعالیٰ کی ہستی سے اس نور کے ذریعے سے متعارف ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اس نور نے کائنات کی ہر شئے کو سنبھالا ہوا ہے۔ روح کہنے لگی پھر تم کیوں فکر کرتی ہو۔ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے سب کی بال بچوں کی۔ گھر بار کی تمام ذمہ داریاں انسان پر عائد کی ہیں۔ جن کی وجہ سے آدمی فکر مند رہتا ہے۔ کہنے لگی۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی بھی نفس پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے۔ میں نے کہا۔ ہاں یہ تو ٹھیک ہے۔ مگر کوشش کا حکم بھی تو اللہ نے دیا ہے۔ انسان اسی حکم پر دنیا میں کوشش کرتا ہے اور اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتا ہے۔ روح نے کہا یہ درست ہے کہ انسان کو اس کے کاموں میں کوشش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مگر انسان کی کوئی کوشش بھی اس قابل نہیں ہے کہ اس کام کے نتیجے کو انسان قریب لا سکے۔ میں نے ذرا تعجب سے روح کی جانب دیکھا۔ شاید وہ میری حیران اور سوالیہ نگاہوں کا مفہوم جان گئی۔ ایک جانب اشارہ کر کے کہنے لگی کہ ادھر دیکھو۔ میں نے جو اس جانب دیکھا تو بے شمار لنگڑے، لولے اور گنجے جسم موجود تھے جو بالکل ٹرانسپیرنٹ اور لجلحے سے تھے۔ روح نے کہا جانتی ہو یہ کیا ہے ۔ یہ تمام دنیا والوں کی کوششیں ہیں جو اپنے کاموں میں کرتے ہیں۔ میں نے کہا یہ کوشش تو ساری اپاہج ہیں۔ یہ کیسے مکمل ہونگی اور یہ اپاہج کیسے ہوجاتی ہیں۔ کیا ہر ایک کی کوشش اسی طرح لنگڑی لولی ہوتی ہے۔ روح بولی۔ ہر انسان کی کوشش اسی طرح اپاہج اور نامکمل ہے۔ جب انسان اپنے کاموں میں کوشش کرتا ہے اور اگر اس کوشش کو اس قابل سمجھ لیتا ہے کہ یہ کوشش اس کے مقاصد اور انجام کو قریب لے آئے گی یعنی اس کوشش سے اسے اس کا مقصد حاصل ہو جائے گا۔ تو ایسی کوششیں تو تم اپنے سامنے دیکھ رہی ہو۔ یہ اپاہج بن کر اللہ تعالیٰ کے بے نیازی کے فرش پر پڑی ہیں۔ کیونکہ ہر کوشش اس طرح اپاہج اور کمزور ہے اور یہ کمزور جسم جن میں کھڑے ہونے کی بھی سکت نہیں ہے۔ اس نور کی فضا میں کس طرح دو قدم چل کر اپنی مطلوبہ شئے تک پہنچ سکتے ہیں۔ تم ہی بتائو۔ میں نے کہا۔ واقعی ایسا ناممکن ہے۔ کیونکہ اس نورانی فضا میں ہر شئے نور کے غلاف میں لپٹی ہوئی ایک دوسرے سے متعین فاصلے پر رکھی ہوئی ہے۔ یہ کوششیں جن میں کھڑے ہونے کی جان نہیں ہے۔ چلنا تو دور کی بات ہے کس طرح اپنے مقاصد کو حاصل کر سکتی ہیں۔ میں نے روح سے پوچھا۔ پھر تم ہی بتائو کیاکیا جائے۔ روح نے کہا۔ کہ کوشش کو ترک نہ کرے اس لئے کہ اس کا حکم اللہ کی جانب سے ہے۔ بندے پر اپنے مالک کا حکم ماننا لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق انسان کو اپنے کام میں مکمل کوشش کرنی چاہئے اور اپنی بہترین صلاحیتوں کو استعمال کرنا چاہئے۔ مگر اس کا بار اپنے کندھوں پر نہ ڈالے۔ میں نے روح سے کہا کہ بار کندھوں پر ڈالنے سے تمہاری کیا مراد ہے۔ کہنے لگی جب کام و عمل پورا ہو جائے تو نتیجہ اللہ پر چھوڑ دے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ضرور کرے۔ مگر اپنی کوشش کو اس قابل نہ سمجھے کہ اس کی بدولت آپ کا مقصد حل ہو جائے گا۔ بلکہ اللہ پر بھروسہ کر کے اس کی رضا پر فعل کے انجام کو چھوڑ دینا چاہئے۔ جب بندہ اللہ پر مکمل بھروسہ کر لیتا ہے تو اس کی سعی اللہ تعالیٰ کے عرفانی نور میں پنپنا شروع کر دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا نور ایسی کوششوں کو پروان چڑھاتا ہے جس کی وجہ سے کمزور اجسام میں زندگی توانائی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ آن کی آن میں اپنی منزل مراد کو پہنچ جاتے ہیں۔ اس طرح آدمی کی خواہش پوری ہو جاتی ہے۔ جن کاموں میں انسان اپنی ذات پر بھروسہ کر لیتا ہے۔ ایسی فکر کا بوجھ روح کو اٹھانا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ آزادی کے ساتھ سفر نہیں کر سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ بے سکونی اور پریشانی کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہر شخص کو چاہئے کہ اپنے کاموں پر اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ اس کی تکمیل کی امید اور دعا کرے۔ تا کہ اس کے افعال میں نور شامل ہو جائے اور روح اپنی زندگی کے سفر میں لطیف افکار کے ساتھ آزادی سے چل پھر سکے۔

                میں نے روح کا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔ روح نے خوش ہو کر کہا۔ تمہیں ایک بات بتائوں۔ میں نے خوش ہو کر کہا۔ ہاں ہاں۔ ضرور بتائو۔ روح نے کہا۔ جو لوگ اللہ کے شکر گزار ہیں۔ ان لوگوں کے اوپر رحمتوں اور انعامات کا نزول ہوتا ہے۔ آل دائود سے اللہ تعالیٰ نے کہا تھا۔ اے دائود کی آل اولاد۔ تم شکر کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لو۔ اس لئے کہ اللہ کا شکر کرنے والے بندے بہت کم ہیں۔

 

 

 

 

 

 


Roohein Bolti Hain

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی

                ‘‘زندگی جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’

                یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔                میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔

                میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔                روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔

                                     دعا گو:

                                                سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

                                                تاریخ: 01-09-94