Topics

معلم جنات


                بوقت نماز جمعہ روح کی اس آواز پر چونک پڑی۔ وہ تحکمانہ لہجے میں پکار رہی تھی۔ اے فرشتوں! اے جنات! آئو اور صف میں کھڑے ہو جائو۔ جمعے کی نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ میں جلدی سے اٹھی اور دوپٹہ لپیٹ کر جاء نماز پر کھڑی ہو گئی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ روح سفید ریشمی لباس میں تقدس کا مجمسہ بنی بڑے ادب سے سر پر دوپٹہ اوڑھے ماام کی جگہ کھڑی ہے۔ اس کے پیچھے ملائکہ کی صفیں ہیں۔ ملائکہ کے پیچھے جنات کی صفیں ہیں۔ میں بھی جلدی سے سب سے آخیر میں جا کر کھڑی ہو گئی۔ روح نے ایک نظر صفوں پر ڈالتے ہوئے کہا۔ اے فرشتوں اور جنات! اپنی اپنی صفیں درست کر لو، دیکھو درمیان میں جگہ باقی نہ رہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی آوارہ بادل تمہارے درمیان راہ پا کر داخل ہو جائے اور تمہارے ربط میں خلل آ جائے۔ تمام فرشتے اور جنات روح کی یہ بات سن کر صفوں میں ایک دوسرے سے قریب قریب ہو گئے۔ اس لمحے مجھے یوں لگا جیسے روح ایک استاد ہے، جو ننھے منے معصوم بچوں کو تعلیم دے رہی ہے اور اسی وقت روح نے نماز جمعہ کی نیت باندھی اور سب نے اس کے پیچھے باجماعت نماز ادا کی۔ نماز کے بعد روح نے تمام فرشتوں اور جنات کے ہاتھوں میں نہایت شفقت کے ساتھ مختلف رنگوں کے ہیرے جواہرات دیئے اور کہا جائو اور انہیں بوقت ضرورت خرچ کرو۔ میں پھر تم لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے علم کے خزانے لے کر آتی ہوں۔ چند جنات کے بچوں نے کہا کہ اے پیاری روح کیا ہم تمہارے ساتھ ان خزانوں کو حاصل کرنے نہیں جا سکتے۔ روح نے کہا کہ نہیں تم ابھی بہت چھوٹے ہو تمہیں اتنی سمجھ نہیں ہے اور پھر جہاں سے میں خزانے لاتی ہوں۔ یہ راستہ تو خفی کا راستہ ہے۔ جو تمہاری نظر سے اخفی ہے۔ سوائے میرے اور کوئی اس راستے پر قدم نہیں رکھ سکتا۔ تم سب جائو اور اپنے اپنے کاموں میں اسی طرح لگ جائو جس طرح تمہیں میں نے سکھایا ہے۔ یہ کہہ کر وہ جانے کے لئے داہنی جانب ایک پتلی سی صاف شفاف سڑک پر مڑی۔ میں نے سوچا۔ قبل اس کے کہ وہ میری نظر سے اوجھل ہو جائے۔ جلدی سے اسے پکڑلوں اور میں نہایت تیزی سے اس کی جانب لپکی۔ میری آہٹ سن کر وہ جاتے جاتے ٹھٹک گئی۔ اچھا تو یہ تم ہو کیاکہنا چاہتی ہو۔ میں نے خوشامدانہ انداز سے معذرت پیش کی کہ تمہارے کاموں میں دخل اندازی کر رہی ہوں۔ مگر کئی چیزیں ایسی ہیں۔ جو تمہارے سوا اور مجھے کوئی نہیں سمجھا سکتا۔ پیاری روح پہلے مجھے میرے تمام سوالوں کا جواب دے دو۔ پھر چلی جانا۔ اس نے مجھے غور سے دیکھا۔ پھر میرا ہاتھ دبا کر مسکرائی اور بڑے پیار سے کہا۔ آئو یہاں بیٹھ جاتے ہیں۔ جو کچھ پوچھنا ہے۔ پوچھ لو۔ ہم دونوں زمین پر بچھے ہوئے قالین پر بیٹھ گئے۔ میں نے ذرا پریشان ہوکر کہا۔ پیاری روح ابھی ابھی تم نے جمعہ کی نماز میں امامت کے فرائض انجام دیئے ہیں۔ تمہارے پیچھے فرشتوں اور جنات، مردوں اور عورتوں نے نماز پڑھی ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ تم عورت ہو کر کس طرح مردوں میں امامت کر سکتی ہو اور حیرانی اس بات کی ہے کہ تمہاری امامت کو فرشتوں اور جنات نے کس طرح قبول کر لیا۔ میرا پریشان چہرہ دیکھ کر وہ مسکرائی اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگی۔ نادان لڑکی! تم سے کس نے کہا کہ روح عورت ہے۔ روح اللہ تعالیٰ کا امر ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کا امر کائنات کے نظام میں کوئی کام کرنا چاہتا ہے۔ تو امر کی تجلی روح کی شکل اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق کام کرتی ہے۔ روح ایک مکمل فارمولا ہے۔ فارمولا علم شئے ہے اور روح اس فارمولے کی شکل یعنی شئے کی اصل ہے۔ روح کے اندر دونوں رخ موجود ہیں۔ ایک ظاہر کا رخ جو خود روشنی ہے۔ دوسرا باطن جو روشنی کا علم ہے۔ تخلیقی فارمولا ظاہر اور باطن دونوں رخ سے مل کر مکمل ہوتا ہے۔ انہیں دونوں رخوں کو مرد اور عورت کہا گیا ہے۔ اصل میں روح کے اندر علم الاسماء کے دیکھنے کے لئے دو شعور کام کرتے ہیں۔ ایک شعور کے ذریعے روح اللہ تعالیٰ کی ذات کی معرفت کے علوم حاصل کرتی ہے۔ مرد اس شعور کا نام ہے۔ جس شعور سے معرفت ذات حاصل ہوتی ہے اور عورت اس شعور کا نام ہے جس سے صفات کے علوم حاصل ہوتے ہیں۔ دنیا عالم مثال ہے۔ دنیا میں اسمائے الٰہیہ کے تمام فارمولے اپنی تخلیقی صورت میں موجود ہیں۔ تا کہ انسان شعوری طور پر ان کے علوم حاصل کرے۔ دنیا میں ہر شئے علم الٰہی کی ظاہری صورت ہے۔ ہر شئے کے باطن میں شئے کا علم ہے۔ جب کوئی بندہ اپنے ارادے سے اللہ تعالیٰ کے علوم سیکھتا ہے تو اس کی روح کو علم کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔ اگر روح کو معرفت ذات حاصل ہو جائے تو اس کا شمار مردوں میں ہوتا ہے اور اس پر وہ تمام قوانین عائد ہوتے ہیں جو مردوں کے لئے ہیں۔ ان قوانین کے علوم کی تجلیوں کو کلام پاک میں کٓھٰیٰعٓصٓ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ جب کوئی روح ان حروف نورانی کی تجلیوں کو دیکھ لیتی ہے اور ان کے علوم جان لیتی ہے۔ تو اسے ذات کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے اور اس کا وہ شعور غالب آ جاتا ہے جسے دنیا میں مردانہ شعور کہا گیا ہے۔ روح کا وہ شعور جس سے صفات کی معرفت کے علوم حاصل ہوتے ہیں۔ کلام پاک میں اس کے لئے حرف نورانی آلٓرٰ کی تجلیاں ہیں۔ جب یہ دونوں شعور قانون فطرت کے مطابق کسی روح کے اندر نشوونما پا جاتے ہیں تو وہ روح آدم کے فارمولا کی شکل بن جاتی ہے اور ایسی روح اپنے دونوں شعور کو اپنے ارادے کے ساتھ استعمال کرتی ہے۔ مگر روح کی شکل نہیں بدلتی۔ البتہ صفات بدل جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے علم الاسماء کی روشنیاں روح کے اندر روح کی صفات کے طور پر کام کرتی ہیں اور روح اپنے ارادے سے ان روشنیوں کو استعمال کرتی ہے۔ روح کی نظریں مسلسل میری آنکھوں پر تھیں۔ میں اس کی نظروں سے مسحور ہو کر دم بخود بیٹھی تھی۔ اس کا ہر لفظ میرے دل کی گہرائیوں میں اترتا محسوس ہوتا تھا۔ روح نے اپنی سرمگیں پلکیں جھپکائیں اور اس لمحے میں اس بے خودی کے عالم سے باہر آ گئی۔ میرے ذہن میں پھر ایک حرکت ہوئی اور میں نے تجسس میں روح کے پہلو میں تقریباً گھستے ہوئے کہا۔ پیاری روح مجھے بتائو۔ کیا فرشتے اور جنات بھی تم سے علم سیکھتے ہیں۔ میں تو سمجھی تھی کہ فرشتے انسان کو علم سکھاتے ہیں۔ وہ ہنسی اور پیار سے مجھے بچوں کی طرح پہلو میں لپٹاتے ہوئے کہا۔ کیا تم نے یہ شعر نہیں سنا:

فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا

مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

                میں نے کہا۔ ہاں سنا تو ہے۔ کہنے لگی۔ مادی طرز فکر رکھنے والا انسان فرشتے سے بہتر نہیں ہو سکتا بلکہ فرشتے سے بہتر وہ انسان ہوتا ہے۔ جو انبیاء علیہ السلام کی طرز فکر رکھنے والا ہے اور ان کے لائے ہوئے علوم کو سیکھ کر ان کے بتائے ہوئے راستوں پر چلنے والا ہے۔ آدم کو اللہ تعالیٰ نے اسمائے الٰہیہ کے کل علوم عطا فرمائے ہیں۔ مگر فرشتوں کو ان کے کام کے اعتبار سے ان کے فرائض کی حدود میں علوم دیئے گئے۔ جب کوئی بندہ آدم کی خلافت و نیابت کے اختیارات کو سمجھتے ہوئے اسمائے الٰہیہ کے علوم سیکھ لیتا ہے۔ تو ایسا بندہ اپنے فرشتوں سے افضل ہو جاتا ہے۔ ایسے بندے کے اندر روح کا شعور غالب آ جاتا ہے اور وہ روح کے شعور کے ذریعے فرشتوں پر فضیلت رکھتا ہے۔ میں جلدی سے بولی۔ مگر پیاری روح جنات تو بالکل شیطان ہوتے ہیں۔ ان پر کوئی کیسے قابو پا سکتا ہے اور وہ کیسے مطیع ہو جاتے ہیں۔ روح بولی۔ کیا تم نے نہیں سنا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جنات قرآن مجید کی تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ روح کہنے لگی۔ خیر اللہ ہے اور شر مخلوق ہے۔ جو کوئی بندہ اپنے نیک اعمال کے ساتھ اللہ کی روشنیاں اپنے اندر جذب کر لیتا ہے تو وہ مجسم نیکی بن جاتا ہے۔ اس کے اندر اسماء الٰہیہ کی روشنیاں کام کرنے لگتی ہیں۔ جن کی صفات اللہ کی صفات ہے اور اللہ اپنی صفات میں غالب اور قدرت رکھنے والا ہے۔ پس بندے کو بھی اس کی صفت قدرت کی روشنیاں حاصل ہو جاتی ہیں اور بندہ ہر قسم کے شر سے محفوظ ہو جاتا ہے اور اللہ کی دی ہوئی قدرت سے جنات پر بھی غلبہ پا جاتا ہے اور جو جنات اس کے مطیع و فرمانبردار بن جاتے ہیں۔ انہیں ان کے فرائض اور کاموں کے اعتبار سے روح انہیں علم سکھاتی ہے۔ یاد رکھو کہ آدم کی نیابت اور خلافت کے اختیارات آدم کا چھوڑا ہوا ورثہ ہیں۔ جب وراثت کے قانون کے مطابق کوئی بنی آدم اس ورثہ کو سنبھالنے کے قابل ہو جاتا ہے تو وراثت اسے مل جاتی ہے۔ ورثہ کو حاصل کرنے اور اسے قانون الٰہی کے مطابق استعمال کرنے کے لئے اس کے علوم قوانین کا سیکھنا ضروری ہے، پس جب کوئی بندہ علوم سیکھ لیتا ہے تو اسے آدم کی وراثت خلافت و نیابت کے اختیارات حاصل ہو جاتے ہیں، پھر وہ اپنے حاصل کردہ ورثہ کو اپنی اولاد میں منتقل کرتا ہے۔ چونکہ یہ روحانی علوم ہیں اور اللہ تعالیٰ کی پھونکی ہوئی روح کے علوم ہیں۔ اس لئے ان کی منتقلی بھی روحانی اولاد کے اندر ہی ہو سکتی ہے۔ میں نے روح کے ریشم میسے ملائم ہاتھوں پر اپنا ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ اچھی رح، کیا روح کی بھی اولادیں ہوتی ہیں؟ جیسی دنیا میں انسانوں کے اولاد ہوتی ہے؟ وہ مسکرائی اور میری پیشانی پر آتی ہوئی لٹ کو پیار سے پیچھے ہٹاتی ہوئی بولی۔ ہاں کیوں نہیں۔ روح کی بھی اولاد ہوتی ہے۔ اولاد کا اصل مفہوم تخلیق ہے۔ تخلیق ایک مکمل ضابطہ اور قانون ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی صفت رحیم ہے۔ روح کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رحیم کی تجلی پھونکی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہر تجلی اپنی صفت کے دائرے میں کام کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہر صفت لامحدود ہے۔ لہٰذا ہر تجلی صفت کی لامحدود دنیا کے اندر قدرت کی حدود میں کام کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آدم کو علم الاسماء کے علوم اپنی قدرت کی حد میں عطا فرمائے ہیں۔

                قدرت سے مراد اللہ تعالیٰ کی قادریت نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ کی تو ہر صفت لامحدود ہے۔ مراد یہ ہے کہ آدم کے اندر علم الاسماء سیکھنے کی جتنی صلاحیتیں تھیں ان کی حدود کے اندر انہیں علوم عطا کئے گئے۔ ان سے زیادہ علوم کی روشنیاں آدم برداشت نہیں کر سکتے تھے، پس یہی حد قدرت کی حد ہے، جس کا نام ازل اور ابد رکھا گیا ہے۔ تخلیقی قانون کے مطابق جس طرح ماں کے رحم سے اولاد جنم لیتی ہے۔ تخلیق کا یہ طریقہ مادیت کی حد میں ہے۔ تخلیق کا وہ طریقہ جس کو روح پھونکنے کا عمل کہتے ہیں۔ یہ عمل روحانی تخلیق ہے۔ یعنی جب کوئی روحانی انسان اپنے اندر سے علم الاسماء کی روشنیاں اپنے شاگرد کے اندر منتقل کرتا ہے تو یہ شاگرد اس کی روحانی اولاد کہلاتی ہے۔ روشنیوں کی منتقلی روح کے شعور کی منتقلی ہے۔ روح کا شعور اللہ تعالیٰ کی پھونکی ہوئی روح ہے۔ اس طرح روحانیت کے علوم کا رابطہ اللہ تعالیٰ سے جا ملتا ہے۔ اسی لئے روحانی ماں باپ کا درجہ صلبی ماں باپ سے بہت زیادہ ہے۔ ساری کائنات میں اللہ تعالیٰ کی پھونکی ہوئی ایک ہی روح کام کر رہی ہے۔ یہ پھونکی ہوئی روح وحدانیت کا شعور ہے۔ جو روح محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہے۔ باقی کائنات کی تمام روحیں روح محمدی کی تخلیق ہیں۔ حضور پاکﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا محبوب کہا ہے اور محبوب تو ایک ہی ہوتا ہے کہ عشق کی انتہا محبوبیت ہے۔ وحدانیت کا یہی شعور جب روح محمدیﷺ کے اندر سفر کرتا ہے تو وہ عشق کی گہرائیوں میں اپنی انتہا تک پہنچ جاتا ہے۔ یہی انتہا تحت الثریٰ ہے۔ جہاں اللہ کی نظر روح محمدیﷺ کے اندر ساری کائنات کا مشاہدہ کر لیتی ہے اور جب یہی شعور اپنی انتہائی گہرائیوں سے یعنی تحت الثریٰ سے واپس لوٹتا ہے۔ تو نظر محمدی صلی اللہ علیہ و سلم محبوبیت کی نظر سے اپنے اللہ کی جانب دیکھتی ہے اور عشق اپنی معراج کو پہنچ جاتا ہے۔ منتہائے نظر اپنے محبوب سے مقام محمود پر قابہ قوسین ہو جاتی ہے۔ روح دور خلائوں میں مسرت بھری نظروں سے دیکھتی ہوئی ایک آہ بھرتے ہوئے بولی۔ نادان لڑکی۔ محبوب تو ایک ہی ہوتا ہے۔ کائنات کی کوئی شئے اللہ تعالیٰ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پا سکتی۔ ہرگز بھی نہیں پا سکتی۔ ہاں البتہ محبوب کے دل میں عشق الٰہی کی شمع جب بھڑکتی ہے تو اس کے شعلے انسان کے خرمن دل پر گرتے ہیں۔ جہاں دل عشق الٰہی کی آگ سے شمع کی مانند سلگنے لگتا ہے اور ان سلگتے ہوئے دلوں کو محبوب کا دل اپنے دل میں رکھ لیتا ہے۔ جہاں دریائے وحدانیت کا نور اپنی موجوں سے ان سلگتے دلوں کی تپش کم کرتا رہتا ہے اور وہ دریائے وحدانیت کی لہروں میں محبوبیت کے ادراک کے ساتھ یہاں سے وہاں تک بہتے رہتے ہیں۔

                روح کی سحر انگیز باتیں سن کر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرا محبوب سامنے ہے۔ ایک لمحے کو تصور میں سوائے اللہ کے اور کچھ باقی نہ رہا۔ محبوبیت کے اسی جذبے میں، میں نے روح کے لب چوم لئے۔ تم سچ مچ بہت پیاری ہو، تم سچ مچ میری روحانی ماں ہو۔ جو مجھے ہر لمحے میرے محبوب میرے اللہ کے قریب لے جاتی ہو اور آہستہ آہستہ روح مجھ سے دور ہوتی چلی گئی۔

 

 

 

 


Roohein Bolti Hain

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی

                ‘‘زندگی جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’

                یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔                میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔

                میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔                روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔

                                     دعا گو:

                                                سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

                                                تاریخ: 01-09-94