Topics

صدقہ جاریہ


                شب کو دروازے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو سامنے ہی اولڈھم سے قاری بھائی اور صدیق بھائی موجود تھے۔ بہت دن بعد آئے تھے۔ دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ ابھی وہ آ کر بیٹھے ہی تھے کہ بریڈ فورڈ سے طارق بھائی، اخلاق بھائی، ارشاد، اشفاق، سہراب سارے عظیمیوں کی ٹولی آ گئی۔ صدیق بھائی چونکہ آج کل برمنگھم میں کام کر رہے ہیں اس وجہ سے ان کا چکر یہاں ایک ماہ میں لگتا ہے۔ قاری بھائی ہمیشہ صدیق بھائی کے ساتھ ہی آتے تھے کیونکہ وہ خود ڈرائیو نہیں کر سکتے بس یہی وجہ ہے کہ ان کا چکر بھی اب مہینے میں ایک بار ہی لگنے لگا ہے۔ اس دن سب بہت دنوں بعد ایک دوسرے سے ملے تو سب کے چہرے کھل اٹھے۔ عام طور سے جب بھی عظیمی برادری میرے گھر اکٹھا ہوتی ہے تو روحانیت پر سوال جواب شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ ہمارا کچھ ایسا ذہن بن گیا ہے کہ اب دنیاوی باتیں اتنی ہلکی لگتی ہیں کہ انہیں سننے اور کرنے میں وقت کا زیاں محسوس ہوتا ہے اور سب ہی ضروریات کے علاوہ زائد وقت ان سطحی باتوں میں گزارنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس دن بھی قاری بھائی نے سوال کیا کہ باجی صدقہ جاریہ کی روحانی تشریح بیان کریں کہ کس طرح صدقہ جاریہ کا ثواب آدمی کو مرنے کے بعد بھی پہنچتا رہتا ہے۔ اس وقت میری ناقص عقل میں جو کچھ آیا وہ میں نے اس طرح بیان کیا۔

                کہ آدمی کا ہر عمل دو رخوں پر ہے۔ ایک رخ عمل کی حرکت ہے۔ جسے ہم ظاہری عمل کہتے ہیں، دوسرا رخ عمل کی نیت ہے جو عمل کا باطنی رخ ہے اور یہ باطنی رخ ہی عمل کی حرکت کا موجب بنتا ہے۔ اس باطنی رخ کے علوم کو کام کی حکمت کہا جاتا ہے۔ ظاہر محدودیت ہے مگر باطن لامحدودیت ہے اور غیب سے جو ظاہر کی آنکھ سے پس پردہ ہے۔ ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے جس طرح بغیر ہڈیوں کا ڈھانچہ جسم کا کمرہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح بغیر نیت کے کوئی عمل وجود عمل میں نہیں آ سکتا اور اللہ پاک فرماتے ہیں کہ تمہاری قربانی کا گوشت پوست اللہ کو نہیں پہنچتا بلکہ نیت پہنچتی ہے۔ نیت چونکہ عمل کا باطنی رخ ہے اور غیب ہے اور غیب لامحدودیت ہے۔ اس وجہ سے غیب میں جہاں تک بندے کی نیت پہنچتی ہے وہاں تک اس کا عمل بھی پہنچتا ہے۔ اس سے آگے نہیں پہنچتا۔ جیسے اللہ پاک نے قربانی کی مثال دی ہے اگر قربانی کرنے والے کی نیت یہ ہے کہ سب دوست احباب عزیز و اقارب مل بیٹھ کر کھائیں گے اور خوش ہوں گے تو قربانی کا عمل جب مکمل ہو جائے گا تو غیب میں اس کا ریکارڈ نہیں بنے گا، اس کا ریکارڈ صرف دنیا کی ھد تک ہی ہے۔ مگر جب اللہ کے حکم کی پیروی مقصد ہو گا تو اس عمل کا ریکارڈ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل پر قربانی کا عمل کرنا ہو گا۔ اب مرنے کے بعد بھی جب اللہ تعالیٰ کا قربانی کا حکم روح کو پہنچے گا تو مرنے کے بعد کی زندگی میں بھی روح اس حکم کی تعمیل میں عمل کرے گی اس طرح یہ عمل اس کا صدقہ جاریہ میں گنا جائے گا۔ اسی مناسبت سے ہر عمل جس کی نیت اللہ تعالیٰ کے حکم کی پیروی کرنا ہے تو یہ عمل لامحدودیت یا غیب میں ریکارڈ ہو جاتا ہے اور مرنے کے بعد کی زندگی میں بھی یہ عمل اپنے وقت پر دہرایا جاتا ہے یہی صدقہ جاری ہے۔ اگر نیت صرف نفسانی خواہش کا پورا کرنا ہے تو اس کی مثال یوں ہے کہ ایک آدمی کے ہاتھ میں کیمرہ ہے۔ وہ فوٹو کھینچتا ہے۔ جب فوٹو بن کر نکلتا ہے تو کاغذ پر نقش نہیں آتا بلکہ کاغذ کورا رہتا ہے یا کالا ہو جاتا ہے۔ یہ کیمرے کی خرابی مانی جاتی ہے۔ فوٹو کھینچنے کا عمل ظاہراً حرکت ہے۔ فوٹو کا تیار ہو کر نکلنا اس کا اجر یا نتیجہ ہے۔ ظاہری عمل کی حدود مادی دنیا ہے جہاں عمل کی حرکت وقوع پذیر ہوتی ہے۔ جیسے کیمرے سے فوٹو کھینچا گیا۔ مرنے کے بعد کی زندگی عالم اطراف کی زندگی ہے۔ جہاں فوٹو بن کر نکلتا ہے یعنی نتیجہ یا اجر۔ اللہ پاک نے اجر کی مدت بیان کی ہے جیسے قیامت تک، ابد تک، حشر میں دوبارہ زندہ اٹھائے جانے تک یعنی ہر عمل کا اجر عمل کرنے والے کی روحانی قوت اور ارادے پر منحصر ہے۔ اگر نیت صرف نفسانی خواہش کا پورا کرنا ہے تو جب بندہ آخرت میں اپنا اعمال نامہ دیکھے گا تو اس کو یہ تو معلوم ہو گا کہ میں نے یہ عمل کیا تھا۔ مگر آخرت میں اس عمل کا نتیجہ کورا کاغذ ہو گا۔ جیسے بیج بویا تھا۔ مگر ایک ماہ بعد جب دیکھا تو کونپل نہیں پھوٹی۔ اب وہ شخص آخرت دوبارہ بیج نہیں بو سکتا کیونکہ آخرت کی زندگی فصل کاٹنے کی زندگی ہے، موجودہ زندگی بیج بونے کی زندگی ہے۔ اب وہ سوائے افسوس رنج و غم کے کیا کر سکتا ہے یہی سزا و عذاب ہے اور جزا عمل کا صدقہ جاریہ ہے کہ وہ آخرت میں بھی بار بار اسی عمل کو دہرا کر خوش ہو گا اور دوسروں کو بھی خوش کرے گا۔

                کچھ دیر بعد سب رخصت ہوئے مگر میں سوچنے لگی کہ اللہ تعالیٰ کے تفکر میں صدقہ جاریہ کیا ہے؟ میری ایک عادت ہے۔ میں تو اسے اچھی ہی کہوں گی کیونکہ اس عادت سے مجھے ہمیشہ بہت فائدہ ہوا ہے۔ وہ یہ ہے کہ جب بھی عالم کے کسی نقطے پر میرا ذہن ٹھہرا تو اس کے معنی و مفہوم ذہن میں آنے لگتے ہیں مگر اس معنی میں ذہن اگر کسی سٹیج پر اٹک جاتا ہے اور اس کے معنی و مفہوم سے ذہن کی تشنگی پوری طرح دور نہیں ہوتی تو پھر خواہ کتنی ہی مصرف رہوں گی۔ خواہ مجلس میں ہوں یا خلوت میں۔ جسم چاہے جس بھی مشغولیت میں ہو مگر دماغ کی سوئی اسی نقطے پر اٹکی رہتی ہے اور جس طرح کیل پر ضرب لگنے سے کیل گہرائی میں پہنچ جاتی ہے۔ اس طرح دماغ مسلسل اسی نقطے پر اپنا کام کئے جاتا ہے اور دماغ کی قوت تجسس گہرائی میں پہنچ کر علم کے اس نقطے سے گوہر معانی ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تب دل و دماغ دونوں مطمئن ہو جاتے ہیں اور دونوں کی کامیابی پر ہونٹ مسکرا کے گویا داد دیتے ہیں تو اس رات ایسی ہی بات ہوئی۔ سب تو چلے گئے میرے ذہن نے یہ بات پکڑ لی کہ اللہ پاک کے قوانین سنت پر تو اللہ پاک کے ‘‘کن’’ کہنے کے بعد سے عمل شروع ہوا۔ مگر نفاذ سے پہلے قوانین سنت کائنات بنانے والے کے تفکر میں موجود تھے۔ اللہ پاک کے تفکر میں کائنات کے علوم کی حکمتیں اور مشیت ایزدی کے اسرار ہیں۔ پس صدقہ جاریہ میں خالق کا تفکر علم کی کون سی حکمتوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ میرا ذہن اندر ہی اندر ایک وکیل کی طرح جرح کرنے لگا۔ خود سوال کرتا اور خود ہی جواب دیتا۔ ویسے مزا بہت آتا تھا۔ جب ذہن علم کے نقطے کی گہرائی میں جھانکنا شروع کر دیتا ہے جیسے کوئی صدیوں پرانے قلعے میں تنہا داخل ہو جائے۔ نپے تلے قدموں سے اندھیرے میں آنکھیں پھاڑے ہولے ہولے قدم رکھتا جائے کہ دیکھیں کیا سامنے آتا ہے۔ اتنے میں ایک دم سے روشنی کا جھماکا ہوا اور ایک چیخ سارے سکوت کو درہم برہم کر گئی۔ اللہ قسم ایسا ہی ہوا۔ رات آدھی ہو گئی تھی، ذہن کی سوئی اٹکی ہو تو نیند کہاں آتی ہے۔ کمرے میں اندھیرا اوپر سے آنکھیں بند۔ ایک دم سے روشنی کا جھماکا جو ہوا تو پٹ سے آنکھیں کھل گئیں۔ یوں لگا جیسے پورے کمرے میں ایک فلیش لائٹ چمکی۔ اب میری چیخ نہیں نکلے گی تو اور کیا ہو گا۔ وہ تو شکر کریں کمرے میں اکیلی تھی۔ کوئی دخل اندازی کرنے والا نہ تھا۔ ورنہ یہ کہانی آج پوری نہ ہوتی۔ روح بڑے زرق لباس میں سامنے کھڑی تھی۔ میری شیخ سن کر اس نے زور سے قہقہہ لگایا۔ میں نے شکایتاً کہا اس اندھیرے میں ایسے زرق برق کپڑے پہننے کی کیا ضرورت تھی۔ ڈرا یدا نا مجھے وہ ابھی تک ہنسے جا رہی تھی۔ ہنستے ہنستے بولی۔ اچھا تو تمہارا مطلب ہے تم سے پوچھ کر لباس پہنا کروں۔ میں نے جھوٹ موٹ خفگی سے کہا۔ چلو ہٹو۔ تم کون سی میرے کہنے میں ہو۔ مجھے ہر قدم پر تمہاری رہنمائی کی ضرورت رہتی ہے۔ وہ ہنس کر بالکل میرے پہلو میں آ گئی چلو غصہ تھوک دو۔ یہ بتائو کیا جاننا چاہتی ہو۔ اب اس کا موڈ بالکل سنجیدہ ہو گیا اور میں بھی پورے انہماک کے ساتھ اپنے سوال کی جانب متوجہ ہو گئی۔ میں نے سوال دہرایا۔ اے روح! میری عزیز ترین دوست۔ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ صدقہ جاریہ میں اللہ پاک کا کون سا تفکر کام کر رہا ہے؟ اس نے کہا۔ میرے قلب کے آئینے میں دیکھتی رہو۔ نظر بالکل نہ ہٹانا میں نے اس کے قلب پر اپنی نگاہیں جما دیں۔ سینے پر اس کا زرق برق لباس آئینے کی طرح چمک رہا تھا اس آئینے میں روح کے تفکر کے تمثلات فلم کی طرح چلنے لگے۔ دیکھا کہ ایک وسیع و عریض سمندر ہے، میں ساحل سمندر پر کھڑی ہوں، روح بھی میرے ساتھ ہے، میں روح کے سامنے بچے کی طرح ہوں، روح میرا ہاتھ پکڑ کر بڑے پیار سے سمندر کی جانب اشارہ کرکے کہتی ہے۔ یہ لامحدودیت ہے۔ اچھی طرح دیکھ لو۔ تمہیں اس کا کنارہ دکھائی دیتا ہے؟ میں نے کہا۔ نہیں۔ جہاں ہم کھڑی ہیں بس وہی کنارہ دکھائی دے رہا ہے۔ وہ بھی انتہا تک نہیں۔ باقی تو ہر طرف نور ہی نور ہے۔ ذہن میں یہ تصور تھا کہ اس بحر کا پانی نور ہے۔ یہ نور کا سمندر ہے۔ وہ بولی۔ لامحدودیت یہ ہے جیسے انسان کی آنکھ اور روح کی آنکھ احاطہ نہیں کر سکتی۔ اس وقت تم میرے دیکھنے کو دیکھ رہی ہو یعنی جو میں دیکھ رہی ہوں وہی تم بھی دیکھ رہی ہو۔ اب ہم اس سمندر کے اندر اترتے ہیں۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور سمندر میں اتر آئی۔ کافی دور جانے کے بعد کہنے لگی۔ اب چاروں طرف دیکھو۔ کیا نظر آ رہا ہے۔ میں نے کہا۔ میری آنکھوں سے تو وہ ساحل بھی اوجھل ہو گیا جہاں سے ہم چلے تھے۔ اب تو ہر طرف سوائے نور کے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ جیسے ہم نور کے سمندر کے بیچوں بیچ کھڑے ہیں۔ ہر طرف پانی ہی پانی ہے۔ یہی لامحدودیت ہے کہ جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ جس کو روح کی نظر بھی احاطہ نہیں کر سکتی۔ پھر روح نے مجھ سے سوال کیا۔ تم اس وقت کس طرح اس لامحدودیت میں دیکھ رہی ہو۔ اس کے اتنا کہنے پر میری نگاہ سمٹ کر روح کی آنکھ کی پتلی میں آ گئی۔ میں نے دیکھا میری ذات روح کی آنکھ کی پتلی کا تل ہے۔ اس تل کے اندر سے بینائی کا نور باہر نکل کر لامحدودیت میں پھیل رہا ہے۔ وہ بولی تم میری آنکھ کی پتلی کا تل ہو۔ جس کے اندر سے اللہ تعالیٰ کی بینائی کا نور گزر رہا ہے۔ یہ نور جب لامحدودیت میں تجلی ذات کی سطح سے ٹکراتا ہے تو تجلی ذات کی سطح آئینے کی طرح بینائی کے نور کو اپنی سطح پر منعکس کر دیتی ہے۔ یہ عکس اللہ تعالیٰ کے تفکر کا عکس ہے۔ جس میں اس کے علوم کے نقوش ہیں۔ تجلی ذات کا ہر نقش اللہ تعالیٰ کے ذاتی علوم ہیں۔ یہی نقوش اللہ تعالیٰ کے اسرار اور حکمتیں ہیں۔ جب روح کی نظر ان نقوش کو دیکھ لیتی ہے تو نظر کے نور میں یہ عکس نقش بن جاتا ہے۔ پھر روح کی نظر کے ذریعے کائنات کی حدود میں عکس در عکس یہ نور تخلیقی مدارج طے کر کے کائنات کی صورتوں میں ڈھلتا رہتا ہے۔ تجلی ذات کے نقوش یا علوم الٰہی کی تجلیات دیکھ کر شئے کی تخلیق کا راز بندہ جان لیتا ہے۔ روح نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ اب تم صدقہ جاریہ کی حقیقت کو تجلی ذات کے اندر اللہ تعالیٰ کے علوم کے نقوش میں تلاش کرو۔ تم جانتی ہو کہ اللہ پاک اپنی صفات میں قدیم ہے۔ اس کی صفات اس کی ذات سے متصل ہے اور تجلی ذات کے جو نقوش تم دیکھ رہی ہو یہ نقوش اس کی صفت علیم میں علم کائنات یا اسمائے الٰہیہ کے علوم کے نقوش ہیں۔ جو اس کے ذاتی علوم کی تجلیات ہیں مگر تم کو یاد ہے کہ تم ان علوم کے نقوش روح کے قلب میں دیکھ رہی ہو۔ مجھے اس وقت روح کا قلب لوح محفوظ کا عالم دکھائی دیا۔ بہت ہی وسیع عالم۔ وہ بولی ہم نے تمہارے لئے تمہارے قلب کو کھول دیا۔ میرے ذہن میں شرح صدر کے الفاظ آئے۔ مجھے محسوس ہوا۔ روح کی آنکھ کی پتلی کا تل (جو میری ذات ہے) پھیل گیا ہے اور اس کے اندر نہایت تیزی سے دھارے کی صورت میں نور ابل رہا ہے اور یہ نور پورے لوح محفوظ پر پھیل گیا۔ میرے ذہن میں وہی سوال تھا کہ صدقہ جاریہ میں اللہ پاک کا تفکر کیا ہے۔ نظر نے دیکھا تجلی ذات کے اندر علوم الٰہی کے تمام تمثلات لوح محفوظ کے عالم میں واجب کا لباس پہنے موجود ہیں۔ ذات باری تعالیٰ کے علوم کی تمام تجلیات لوح محفوظ کے عالم میں متشکل ہیں جبکہ تجلی ذات کے عالم میں یہ نقوش لطیف ترین تجلیات کی صورت میں ہیں۔ روح بولی تجلی ذات کے لطیف ترین جلوے اسمائے الٰہیہ کے جلوے ہیں۔ ان جلوئوں کو براہ راست صرف اللہ پاک کی نظر ہی دیکھ سکتی ہے۔ انسان اگر ان جلوئوں کو دیکھتا ہے تو روح کے قلب میں دیکھتا ہے یعنی روح کے دیکھنے کو دیکھتا ہے۔ روح اعظم تجلی ذات ہے۔ تجلی ذات کے دیکھنے کو بندہ دیکھتا ہے یعنی روح انسانی اور اللہ اور اسمائے الٰہیہ کے درمیان تجلی ذات حجاب ہے۔ روح آدم تجلی ذات کا شعور ہے۔ اس شعور نے یعنی روح اعظم نے ازل میں اللہ کا جلوہ دیکھا اور ان جلوئوں کو روح کے دل نے محفوظ کر لیا تا کہ روح بار بار ان جلوئوں سے روز اول کی طرح لطف اندوز ہو سکے۔ اسی بات کو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر مجھے تلاش کرنا ہے تو زمین آسمان میں تلاش نہ کر بلکہ مجھے مومن (عاشق اللہ) کے دل میں تلاش کر نحن اقرب الیہ من حبل الورید ایسے ہی مومن، متقی اور عاشق باری تعالیٰ کی تجلیات میں رہتا ہے۔ یہ آدم کے علم الاسماء ہونے کا صدقہ جاریہ ہے کہ اللہ پاک نے آدم کے سینے میں (روح اعظم) میں اپنے اسماء الٰہیہ کی تجلیات اتار دیں یعنی آدم کی روح اعظم وہ آئینہ ہے جس آئینے میں اللہ پاک کے اسمائے الٰہیہ کی تجلیات اپنا عکس ڈالتی ہیں اور روح کی نظر اس آئینے میں اللہ پاک کے جلوے دیکھ کر مسرور رہتی ہے۔ جب کوئی بندہ خالصتاً اللہ پاک کی رضا و خوشنودی اور اس کے عشق و لگن میں کام کرتا ہے تو ایسا کام روح اعظم کے آئینے میں عکس ریزہ ہوتا ہے۔ جب وہ آدمی مر جاتا ہے تو وہ اس حقیقت کو دیکھ لیتا ہے کہ اس کا کام لوح محفوظ کی تمثال ہے اور لوح محفوظ کی تمثال سارے عالمین میں دہرائی جاتی ہے۔ پس وہ اس نیک عمل کو بار بار سارے عالمین میں دیکھتا ہے جیسے سارے ملک کے ٹی وی سیٹ پر ایک ہی پروگرام چلتا ہے اور ہر عالم میں اس کی ستائش اور تعریف ہوتی ہے۔ یہی اللہ پاک کے تفکر میں صدقہ جاری ہے یعنی کسی بھی عمل کا لوح محفوظ کی تمثال بن جانا صدقہ جاریہ ہے۔ بندے کا کوئی عمل لوح محفوظ کی تمثال اس وقت بنتا ہے جب بندہ اس عمل میں ظاہری اور باطنی دونوں رخوں پر اللہ تعالیٰ کے امر کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ کے تفکر کے مطابق پوری پوری کوشش اور عمل کرتا ہے تب اس کی فرمانبرداری کی شرائط پوری ہو جاتی ہے۔


Roohein Bolti Hain

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی

                ‘‘زندگی جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’

                یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔                میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔

                میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔                روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔

                                     دعا گو:

                                                سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

                                                تاریخ: 01-09-94