Topics

تقدیر اور تدبیر


                حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ‘‘میں نے اللہ تعالیٰ کو اپنی امیدوں کے ٹوٹنے سے پایا۔’’ جہاں آدمی کی ہر کوشش ہر امیدوار اور ارادہ ناکام ہو جاتا ہے۔ وہاں ذات باری تعالیٰ پر ایک ایسا یقین ہو جاتا ہے کہ غیب میں کوئی نہ کوئی ایسی طاقت ضرور موجود ہے جس کے سامنے ہماری ہر کوشش اور ہر ارادہ مفلوج ہے۔ ذات واحد پر کامل یقین ہی بندے کو اس کی امیدوں میں ناکامی پر صبر کی قوت بخشتا ہے۔ خالق کائنات نے کن کہہ کر کائنات کی تخلیق کر دی اور کائنات کی تمام مخلوق کو اس کی اپنی ذات کا شعور عطا کر دیا تا کہ ہر فرد اپنے شعور کے مطابق اپنی انفرادی حیثیت کو برقرار رکھنے میں قدرت کے سکھائے ہوئے اصولوں کے مطابق جدوجہد کرتا رہے مگر اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو خود مختار اور قادر مطلق نہیں بنایا۔ قادر مطلق صرف خالق کی ذات ہے۔ مخلوق ہر حال میں خالق کی محتاج ہے۔ بارش نہ برسے، سبزہ نہ اگے، اناج نہ پیدا ہو تو سب بھوکے مر جائیں۔ ہوا نہ چلے تو سانس لینا ناممکن ہو جائے۔ بھلا زندگی کی کونسی ایسی حرکت ہے جس میں مخلوق اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر کام کر سکتی ہے۔ زندگی بذات خود خالق کا عطا کردہ عطیہ ہے۔ جب زندگی ہی اپنی نہیں ہے تو اس کی کوئی حرکت بھی اپنی کیسے ہو سکتی ہے۔ مخلوق کی اس احتیاج کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انسان اور جنات کو اختیارات سونپے ہیں ان اختیارات کو انس و جن اپنے ارادے سے استعمال کر سکتے ہیں۔ اس طرح انس و جن کے اندر دو ارادے کام کر رہے ہیں۔ ایک تو خالق کا ارادہ ہے جس میں کسی قسم کا رد و بدل اور تغیر ناممکن ہے دوسرا انسان و جنات کا ذاتی ارادہ جس میں وہ اپنے اختیار کے مطابق رد و بدل کر سکتے ہیں۔

                خالق کا ارادہ اللہ تعالیٰ کا امر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روح کو ‘‘امر ربی’’ کہا ہے۔ اللہ کا امر اس کا حکم ‘‘کن’’ ہے جس پر کائنات کی تخلیق کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کن کہنے سے کائنات وجود میں آئی ہے۔ کائنات کے ذرے ذرے میں اور ہر فرد کے اندر اللہ تعالیٰ کے امر کن کی متعین و مخصوص مقداریں کام کر رہی ہیں۔ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:

                ‘‘ہم نے ہر شئے کو اس کی فطرت پر پیدا کیا ہے۔’’

                ہر شئے کے اندر کام کرنے والی فطرت اللہ کا ارادہ یا امر ہے۔ اللہ کی ہر صفت تغیر و تبدل سے پاک ہے۔ انسان کے اور جنات کے اندر کام کرنے والی فطرت اور امر الٰہی کا نقش تقدیر مبرم کہلاتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے ارادے کا وہ پہلا نقش ہے جو اللہ تعالیٰ کے ‘کن’ کہنے سے لوح محفوظ پر ظاہر ہوا۔ اس نقش میں تخلیق کی وہ تمام مصلحتیں اور حکمتیں موجود ہیں جن حکمتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کیا۔ یہ ایسے نقوش ہیں جو کائنات کی حرکت میں اولیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان ہی نقوش کی ثانوی حرکات مادی کائنات ہے۔ لوح محفوظ کی ان ہی تحریروں کے متعلق یہ رقم ہے کہ ‘‘لوح محفوظ کی یہی تحریریں تقدم مبرم کہلاتی ہیں۔’’ یعنی جہاں تک محتاج ہے وہ تقدیر مبرم ہے جیسے کھانا پینا، سونا، سانس لینا۔ ایسے تمام تقاضے جن کے لئے آدمی اللہ کا محتاج ہے کہ کھائے پئے بغیر سوئے بغیر اور سانس لئے بنا کسی طور گزارہ نہیں ہے۔ یہ محتاج تقدیر مبرم ہے کہ جس کی گرفت سے آدمی کسی طور پر چھوٹ نہیں سکتا۔ یہ ایسی فطرت ہے جو تخلیقی بنیاد پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی جنت میں کھانے پینے وغیرہ کا ذکر ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کو خالق کی حیثیت سے ماننا بھی تقدیر مبرم ہے کیونکہ خالق کے حکم کن کی بساط پر ہی زندگی کا کارواں رواں دواں ہے۔ مخلوق خالق کے حکم کو ماننے کے لئے مجبور ہے۔ مخلوق کا اللہ کے حکم کو مانے بغیر زندگی کی حرکت کا قائم رکھنا ہی ناممکن ہے۔ زندگی کا ہر وہ تقاضہ جس میں مخلوق خالق کی محتاج ہے تقدیر مبرم ہے۔ جس کی ہر تحریر اللہ تعالیٰ کا حکم و مصلحت ہے۔ مگر اسی کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے آدم کو اسمائے الٰہیہ کے علوم دے کر کائنات میں کام کرنے والی حکمتوں کے علوم بھی عطا کر دیئے ہیں۔ مثلاً خالق واحد پر ایمان لانے میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ خالق بے نیاز ہے مگر مخلوق محتاج ہے۔ خالق کی بے نیازی اس کی ذاتی صفت ہے۔ خالق کی ذات و صفات میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ اس کی صفات اس کی ذات کا جزو ہیں۔ اسی طرح محتاجی مخلوق کی ذات کا جز ہے۔ یہ مخلوق کی وہ صفت ہے جس صفت کے ساتھ ذات باری تعالیٰ نے ازل سے اسے پیدا کیا تھا۔ یعنی جس طرح بے نیازی ذات خالق کا ایک جزو ہے اسی طرح محتاجی مخلوق کی ذات کا ایک جزو ہے۔ ذات کبھی نہیں بدل سکتی۔ اسی طرح ذات کا کوئی بھی جزو یعنی صفت بھی نہیں بدل سکتی۔ مخلوق کا وجود خالق کا تخلیق کردہ ہے۔ خالق اپنی تخلیق پر قدرت رکھتا ہے۔ صفت خالقیت اور صفت قدرت دونوں قوتوں میں خالق اپنی مخلوق سے بزرگ ترین اور افضل ہے۔ خالق کا وجود مخلوق سے پہلے ثابت ہے مگر مخلوق خالق کے حکم پر وجود میں آئی ہے۔ مخلوق کی یہی سب سے بڑی محتاجی ہے کہ وہ اپنے وجود کے لئے ایک خالق کی محتاج ہے۔ مخلوق کا تخلیق کیا جانا ہی مخلوق کی محتاجی کی سب سے بڑی حکمت ہے جس میں خالق کی ذات قادر مطلق ہے۔ تقدیر مبرم کی ہر تحریر مطلیقیت سے عبارت ہے۔ اس کی مطلیقیت ہی اس کی ذات کو ساری کائنات کا حکمران بناتی ہے۔ حکمران کے آگے مخلوق کی حیثیت رعایا کی سی ہے کہ وہ حکمران کے مقرر کردہ قوانین سے کسی طور پر انحراف نہیں کر سکتی۔ یہی قوانین فطرت سنت الٰہیہ ہیں جن میں کوئی رد و بدل نہیں ہے اور جس کے لئے یہ کہا گیا ہے کہ قلم سب کچھ لکھ کر خشک ہو گیا۔ یہی عبارتیں اللہ تعالیٰ کے حکم کا پہلا نقش ہے جو لوح محفوظ کے پردے پر اللہ تعالیٰ کے کن کہنے سے وجود میں آتا ہے اور لوح محفوظ کے پردے امر ربی کی حیثیت سے زندگی کا اقدام کرتا ہے۔ لوح محفوظ کے نقش کا عکس درجہ بدرجہ کائنات میں نزول کرتا ہے۔ یہ نزولی حرکات امر ربی کی حرکات ہیں جو روح کے ذریعے عمل میں آتی ہیں۔ ان میں انسان اور جنات کا ارادہ شامل نہیں ہے بلکہ یہ حرکت اللہ کے امر کن کے ذریعے عمل میں آتی ہے یعنی روح اللہ تعالیٰ کے حکم یا امر پر حرکت کرتی ہے۔ اس میں انس و جن کا ارادہ شامل نہیں ہے کیونکہ انس و جن کو اپنی انفرادیت کا شعور عالم ناسوت یا مادی دنیا میں عطا کیا جاتا ہے۔ انفرادی شعور کے ساتھ ہی اختیارات بھی انہیں منتقل کئے جاتے ہیں۔ انفرادی شعور کی تخلیق امر ربی یا روح کی روشنی سے عمل میں آتی ہے۔ اسی طرح لوح محفوظ کے پہلے نورانی نقش سے انفرادی شعور یا دماغ فیڈ ہوتا ہے۔ لوح محفوظ کی نورانی تحریریں جن کو تقدیر مبرم کہا گیا ہے۔ ذہن کا وہ پہلا عکس بن جاتی ہیں جس عکس کو لاشعور یا واہمہ کہا جاتا ہے اور جن کی معنویت سے شعور غافل رہتا ہے۔ یہی تحریریں یا لوح محفوظ کے نقوش عکس کاپی ہوتے ہوئے شعور کے پردے یعنی ذہن میں ابھرتے ہیں اور پھر ذہن انہیں معنی پہناتا ہے تب خیال بنتے ہیں اور عملی زندگی کی حرکت شروع ہوتی ہے۔

                اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے آدم کو ساری کائنات کے علوم عطا کر دیئے اور ان علوم کو سکھانے کے بعد اس کے لئے ساری کائنات کس مسخر کر دیا۔ وہ اپنے ارادے و اختیار سے کائنات کی نعمتوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اس عطا کردہ اختیار کو اپنے ارادے سے استعمال کرنا تدبیر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اختیارات تقدیر معلق کہلاتے ہیں۔ تقدیر مبرم کی روشنی شعور کے پردے پر جن نقوش کی تخلیق کرتی ہے وہ تمام نقوش آدمی کے اندر تقاضہ پیدا کرتے ہیں جیسے بھوک کا تقاضہ۔ تقاضے کا مطلب یہ ہے کہ لوح محفوظ کے قانون کے مطابق تقاضہ تو بدل نہیں سکتا مگر انسان کو دیئے گئے اختیارات کے مطابق انسان اپنی مرضی سے کھانے کی مقداروں میں رد و بدل کر سکتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے انسان کی تقدیر میں صرف بھوک کا تقاضہ پیدا کر دیا جو انسان مٹا نہیں سکتا کہ انسان چاہے کہ بغیر کھائے ساری زندگی گزار دے۔ یہ ناممکن ہے مگر اس بات پر اسے اختیار دے دیا کہ تھوڑا کھائے۔ چاہے زیادہ کھائے۔ اسی اختیار کی وجہ سے اچھائی برائی اور خیر و شر کا قانون عمل میں آیا ہے اور تقاضے کو مٹانے کے لئے کوشش و تدبیر کے اصول وضع کئے گئے ہیں۔ جس حد تک بندے کا اختیار کام کرتا ہے یہ اختیارات تقدیر معلق ہیں جو انسان کے اعمال و افعال کا ریکارڈ ہے۔ مرنے کے بعد انسان و جنات کے تقدیر معلق کے ریکارڈ چیک کئے جائیں گے کہ اس نے اپنے اختیارات کو استعمال کر کے اپنے افعال میں کیا تدبیر و کوشش اختیار کی۔ جہاں تک بندے کا اختیار کام کرتا ہے اس کے ذہن کی ہر حرکت دو رخوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ ایک رخ میں نفع یا خیر ہے دوسرے رخ میں نقصان یا شر۔ اختیار ہوتا ہے دوراہے پر۔ جہاں ایک ہی راستہ ہو وہاں اختیار کا کیا سوال۔ نوع انسانی کو صحیح طریقے پر اپنے اختیارات استعمال کرنے کے لئے پیغمبروں کی دنیا میں آمد ہوئی جنہوں نے انسان کی ہر حرکت کے دونوں راستے انسان کو دکھا دیئے تا کہ انسان اپنی قوت تدبیر اور کوشش کو غلط استعمال نہ کر لے۔ تدبیر آدمی کے ارادہ اور اختیار کا نام ہے جو عقل و شعور کی روشنی ہے۔ عقل و شعور کو یقین سے قوت حاصل ہوتی ہے۔ یقین قلب کے اندر پڑنے والی لوح محفوظ کے عکس کی روشنی ہے۔ یہ نور شعور کو اس کے افعال کی حرکت کے لئے برقی قوت مہیا کرتا ہے۔ ہمارا جسمانی نظام اسی برقی قوت سے چلتا ہے۔ قلب میں جتنی زیادہ یقین کی روشنی ذخیرہ ہو گی شعور یا عقل اتنا ہی عملی راستوں کی گامزن ہو گی۔ شعور انفرادی تشخص ہے۔ انفرادی شعور کو غیب یا لاشعور میں بڑھنے کے لئے یقین کی انرجی کی ضرورت ہے۔ بغیر یقین کے ہر تدبیر ناکام رہ جاتی ہے جیسے گاڑی موجود ہے مگر پٹرول نہیں ہے۔ اب گاڑی کیسے چلے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے ساری کائنات بنائی ہے۔ انسان اللہ کی عطا کردہ نعمتوں سے اسی وقت فیضیاب ہو سکتا ہے جب اس کی ذات پر یقین و ایمان رکھے اور اپنے فعل کے روشن پہلو پر نظر رکھے۔

                آدمی جب عملی زندگی میں قدم بڑھاتا ہے اور حوادث کی زندگی سے دو چار ہوتا ہے تو سب سے پہلے اسے اس بات کا خیال آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہوتے ہوئے اور ہر شئے پر قدرت رکھتے ہوئے بھی اس کی مصیبتیں کیوں دور نہیں کر دیتا۔ اصل میں اللہ تعالیٰ نے آدم کو کائنات کا تخلیقی دماغ عطا کیا ہے۔ انسان کائنات میں اللہ کا نائب ہے اور زمین پر اس کے خلیفہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ شعوری طور پر اس بات کی آگاہی اسے اس دنیا میں ہوتی ہے۔ آگاہی یعنی علم کی تخلیقی صورت عمل ہے۔ کائنات اللہ تعالیٰ کی صفت خالقیت کا نتیجہ ہے۔ یہاں کی ہر شئے صفت خالقیت کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے۔ امر ربی یا روح کے اندر تخلیق شعور ہے جیسے عالم ناسوت میں آ کر اپنی ذات کا وقوف حاصل ہوتا ہے۔ امر ربی یا روح شعور یا مادی جسم کی تخلیق کر کے اس شعوری دماغ کے اندر اپنی تخلیقی صفات منتقل کرتی ہے۔ یہی وہ روشنیاں یا انوار ہیں جو لوح محفوظ کے خاکے سے منتقل ہوتے ہیں۔ اب جس طرح روح کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے تخلیقی علوم اور تخلیقی دماغ عطا ہوا ہے اور روح اس دماغ سے اور تخلیقی صلاحیتوں سے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ اختیارات کے مطابق اپنے ارادے سے اسے استعمال کرتا ہے یعنی روح اللہ تعالیٰ کے ارادے کا میڈیم ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ارادے کے مطابق کام کرتی ہے۔ اسی طرح روح کا تخلیق کردہ شعور اور شعور کا جسم یعنی مادی جسم بھی روح کا میڈیم ہے۔ روح اس میڈیم کو تخلیق کرنے کے بعد اسے اپنے اختیارات اور صلاحیتیں منتقل کرتی ہے۔ منتقلی کے بعد اور شعور کی خود اپنی ذات کی آگاہی کے بعد یہ بات ضروری ہے کہ شعور اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرے۔

                اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کائنات میں کوئی شئے بلا ارادہ نہیں ہے۔ ہر فعل کے پردے میں اللہ کا ارادہ کام کر رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ روح بھی اللہ تعالیٰ کے ارادے اور اذن پر شعوری جسم کی تخلیق کرتی ہے اور شعور کو اپنی صلاحیت اور انفرادیت کا شعور بھی ارادے و اذن ربی کے تحت منتقل کرتی ہے۔ لہٰذا شعور کی علمی و عملی استعداد کو پرکھنا بھی روح کے لئے ضروری ہے تا کہ وہ روح کے میڈیم کی حیثیت سے کام کرے اور جس کام کے لئے روح نے جسم کی تخلیق کی ہے اس جسم سے اپنی مرضی اور اللہ کی رضا کے مطابق کام لے سکے۔ یہی وجہ ہے کہ عملی زندگی کے ہر قدم پر انسان طرح طرح کی آزمائشوں سے دوچار ہوتا ہے۔ قدم قدم پر اسے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے لیکن اگر ہر قدم پر روح یا امر ربی اسے سہارا دیئے جائے اور شعور نگاہ میں غیب کی لہر حقیقت بے نقاب ہو جائے تو شعوری سکت عقل و شعور اور انفرادی تشخص زیر بحث نہیں آتا۔ یہ ایسی بات ہے جیسے ایک بچے کو ماں جنم دینے کے بعد پالتی ہے۔ آہستہ آہستہ اسے دنیا میں جینے کے لئے اپنی ضروریات کے حصول کے طریقے سمجھاتی ہے۔ جب بچہ یہ طریقے سیکھ لیتا ہے تو اسے عملی طور پر ان طریقوں سے کام لینے کے لئے اجازت دیتی ہے۔ بچہ خود کھاتا ہے، خود پیتا ہے۔ اب ماں کو اس کے منہ میں کھانا ڈالنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بچہ ماں کی صلاحیتوں کو قبول کر کے خود ان پر ماں کی طرح عمل کرنے لگتا ہے۔ اس میں جہاں ماں کی صفت خالقیت یعنی ممتا کو تسکین ملتی ہے وہاں بچہ کو بھی اپنی قوت ارادی پر یقین آ جاتا ہے اور وہ اپنے ذاتی تشخص سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ اسی ذاتی تشخص کا نام انسان ہے اور یہی انفرادی شعور و تفکر اللہ کا نائب اور خلیفہ ہے۔ جسے علوم و اختیارات سونپے گئے ہیں۔ فطرت ایک ماں کی طرح اس شعور کی نگہداشت کرتی ہے۔ کبھی پس پردہ اس کی مدد کرتی ہے اور کبھی کسی روپ میں ظاہر ہو کر اسے سہارا دیتی ہے۔ فطرت کا پس پردہ ہر عمل شعور کی ذات کے لئے تقدیر مبرم ہے اور اسباب و وسائل کی حدود میں مہیا ہونے والی ہر قدرت تقدیر معلق ہے۔ غیب میں ہوانے والی حرکات سے شعوری حواس ناواقف ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان پر شعور کا کوئی بس نہیں چلتا مگر ظاہر میں ہونے والے تمام واقعات شعوری حواس کی گرفت میں آ جاتے ہیں۔ اصل میں فطرت کی ذات ایک ہی ہے جو دونوں حواس کی پرورش کرتی ہے۔ ذات واحد ہے۔ البتہ حواس کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ حواس کا ظاہری رخ ہے تو دوسرا رخ باطن ہے۔ ظاہر باطن دونوں حواس امر ربی یا روح کے حواس ہیں۔ تقدیر مبرم سے روح کے باطنی حواس واقف و آشنا ہیں اور ان کی حکمتیں روح کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہیں جبکہ تقدیر معلق سے روح کے ظاہرہ حواس واقف و آشنا ہیں اور تدبیر کے ذریعے اپنے اعمال و افعال کے نیک و بد ہونے کی حکمت سے بھی واقف ہیں۔

 


Roohein Bolti Hain

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی

                ‘‘زندگی جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’

                یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔                میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔

                میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔                روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔

                                     دعا گو:

                                                سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

                                                تاریخ: 01-09-94