Topics

لمحۂ سکوت


یہ کیسی لگی آگ مرے خانۂ دل میں

جاں پِسنے لگی میری تمنائوں کی سِل میں

                محسوس ہوا جیسے سینے میں آتش فشاں پہاڑ پھٹ گیا، جسم کے اندر شعلے بھڑکنے لگے ہیں۔ آگ کی تپش دل تک پہنچ گئی۔ اضطراری کیفیت میں کئی بار میں نے سینے پر ہاتھ پھیرا کہ دل کی جلن میں کچھ تو کمی ہو جائے، مگر دل کی آگ تدبیر سے نہیں تقدیر سے بجھتی ہے۔ میں نے تدبیر کی پتوار ہاتھ سے رکھ دی اور جلتی نیا کو تقدیر کی لہروں پر چھوڑ دیا۔ دل نے آواز دی۔ ارے پاگل یہ تو عشق کی آگ ہے، عشق کی آگ بجھی تو تمنائوں کا عالم سرد پڑ جائے گا، یخ بستہ زمین گل و گلزار کو ترسے گی۔ دل کی حسرت آنسو بن کر آنکھوں سے ابل پڑی۔ اے دل! تو ہی بتا۔ تو کس کی آگ میں جلتا ہے۔ ڈبڈبائی آنکھیں دور خلائوں میں جا لگیں۔ روح سفید لباس میں پاکیزگی کا نمونہ دکھائی دی۔ بدن اجڑا اجڑا سا، زلفیں بکھری بکھری سی، نہ آنکھوں میں کاجل، نہ ہونٹوں پر سرخی۔ حسین مکھڑے پر اداسیوں کی سرمئی گھٹائیں۔ وہ خود اپنے آپ سے روٹھی روٹھی نظر آئی۔ اسے اس حالت میں دیکھ کر میرے لبوں سے بے ساختہ ایک آہ نکل گئی۔ اس آواز پر اس نے چونک کر میری جانب دیکھا اور پھر فوراً ہی اپنی نگاہیں خلائوں میں ٹکا دیں۔ میں اس کے درد کو سمجھتے ہوئے آہستہ آہستہ اس کے قریب گئی اور ہمدردی کے طور پر اس کی پشت پر ہاتھ رکھا۔ اچھی روح! میرا سینہ تمہارے غم کی آگ میں جلتا ہے۔ کیا اب بھی میں تمہارے رازوں میں شرکت کرنے کی مجاز نہیں ہوں۔ اس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے میری جانب دیکھا۔ اس کے آنسو میری آنکھوں میں سما گئے۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور زمین پر بیٹھ گئی۔ میں بھی اس کے برابر میں چپ چاپ بیٹھ گئی۔ فرط غم نے اس کی قوت گویائی جیسے چھین لی تھی۔ خالی نظریں خلاء کی گہرائی میں اترنے لگیں۔ میں بھی ٹھنڈا سانس بھر ک اسی جانب دیکھنے لگی۔ نور کے بادل کی دبیز تہوں کے اندر دور خلائوں کی گہرائی میں ایک منظر دکھائی دیا۔

                ایک کمرہ ہے جس میں مرشد کریم گائو تکیے کے سہارے نیم دراز ہیں۔ کچھ لوگ ان کے ساتھ محو گفتگو ہیں۔ روح مرشد سے ملنے کمرے تک آتی ہے۔ ایک لمحے دروازے میں کھڑے ہو کر مرشد کی تنہائی کا انتظار کرتی ہے۔ پھر یہ سوچ کر واپس لوٹ جاتی ہے کہ جب تک مرشد مصروف ہیں میں شاور لے کر آتی ہوں تا کہ خدمت اقدس کے لئے اپنی جان کو پاک کر لوں۔ روح مرشد کے کمرے کے برابر والے کمرے میں داخل ہو گئی اور شاور کھول دیا۔ ابھی اس کا پورا جسم پانی میں بھیگنے بھی نہ پایا تھا کہ شاور رک گیا۔ شاور کے ساتھ ہی اس کا جسم جس انداز میں تھا اس کا دل، دماغ، آنکھیں سب کچھ چلتے چلتے رک گئیں۔ یوں لگا جیسے وقت کی حرکت رک گئی ہے۔ زمانہ چلتے چلتے ایک دم سے ٹھہر گیا ہے۔ زندگی کو موت کے لمحے نے نگل لیا ہے۔ کمرے میں اندھیرا چھا گیا۔ دوسرے ہی لمحے وقت کی گھڑی پھر سے چل پڑی۔ شاور سے پانی بہنے لگا اور مردہ جسم میں دوبارہ حرکت آ گئی۔ آنکھ کھلتے ہی دماغ میں پہلا خیال یہ آیا کہ یہ سب کچھ میرے ارادے سے باہر کی چیز ہے۔ یہ شاور جس میں زندگی کا چشمہ ہے جو اسٹریم آف لائف ہے۔ اس کا بند ہونا میری قدرت سے باہر اور میرے ارادے سے بعید ہے۔ پھر خیال آیا کون جانتا ہے، مجھے اس حالت میں کتنی دیر ہو چکی ہے۔ کتنی دیر میں ساکت میں قائم رہی ہوں۔ دوسرے کمرے میں جانے کب سے میرا انتظار کیا جا رہا ہو گا۔ مجھے تو وقت کا کوئی اندازہ ہی نہیں ہے۔ اندازہ ہو بھی کیسے سکتا ہے جبکہ میرے اندر سے تمام حواس ہی نکالے جا چکے تھے اور بے ساختہ دل میں یہ خواہش ابھری کاش اس لمحے کو کوئی نہ پہچان سکے۔ میری تاخیر کو کوئی نہ جان سکے۔ روح نہایت ہی سرعت سے شاور سے فارغ ہو کر مرشد کے پاس جا بیٹھی۔ اس نے دیکھا وہ اب بھی اسی طرح مصروف ہیں۔ مرشد نے اسے ایک نظر دیکھا اور وہ جان گئی کہ شاور میں اس کے ساتھ کیا بیتی۔ اس کی خبر کسی کو بھی نہیں ہے۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا اور باتوں میں مگن ہو گئی۔

                خلا کا منظر آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ نور کے بادل گھنے ہو گئے۔ میں نے اندر ہی اندر گہرا سانس لیتے ہوئے روح کی جانب دیکھا۔ میرا سارا وجود روح کی کسک میں مبتلا تھا۔ عشق کے شعلوں نے اندر باہر دونوں کو گھیرا تھا۔ دل نے کہا اے روح سچ بتا۔ تو کس کے عشق میں مبتلا ہے، کون ہے جس نے تیرے خرمن دل میں آگ لگا رکھی ہے؟ روح دل کی آواز پر چونک اٹھی۔ جیسے کسی نے اس کا چور پکڑ لیا ہے۔ اس نے غور سے میری جانب دیکھا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں اور بول اٹھی۔ اے روح! سچ بتا کون ہے جس نے تجھے اپنی آگ میں جلا رکھا ہے؟ میرے سوال پر اس کی آنکھوں سے وحشت برسنے لگی جیسے وہ اس راز کو بتانا نہیں چاہتی، مگر اس کا چھپانا بھی اس کے لئے مشکل ہے۔ یہ جان کر میں نے پھر زور زور سے اس سے سوال کیا۔ اچھی روح! سچ سچ بتا، تیرا محبوب کون ہے؟ میرے اصرار نے ا کی بار اس پر تازیانے کا کام کیا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کرتے ہوئے بلند آواز سے بول پڑی۔ تم جاننا چاہتی ہو میرا محبوب کون ہے۔ تم جاننا چاہتی ہو میں کس کے عشق کی آگ میں جل رہی ہوں۔ وہ بیخودی میں ایک سانس میں بولے جارہی تھی۔ لو دیکھ لو کون ہے، محبوب میرا۔ لو دیکھ لو کس کے عشق کی ڈور مجھے اپنی جانب کھینچے لئے جا رہی ہے۔ اس کی آنکھوں سے نور کی شعاعیں نکلنے لگیں۔ میں نے دیکھا۔ اس نور میں اس کا رب اس کا ولی اپنی بانہیں پھیلائے۔ روح کو دعوت نظارہ دے رہا ہے۔ ولی اور روح کے درمیان نور کا ایک بادل ہے۔ روح کی نگاہیں مسلسل ولی پر تھیں۔ وہ اسی اضطراری کیفیت میں بولے چلی گئی۔ مرشد سمجھتا ہے میں اس کے عشق میں مبتلا ہوں، شوہر سمجھتا ہے میں اس سے پیار کرتی ہوں، بچے سمجھتے ہیں ہم ماں کی جان ہیں۔ وہ تقریباً رو پڑی۔ اب میں کس کس کو سمجھائوں کون ہے محبوب میرا۔ اے میرے رب! تو ہی بتا کب تیری نظریں مجھ پر سے ہٹیں اور کب تو میری آنکھوں سے اوجھل ہوا۔ تو تو وہ محبوب ہے جو میرے اندر ہے۔ میری جان بن کر میری روح میں سمایا ہوا ہے۔ تیرے بغیر میرا وجود ہی نہیں ہے، مجھے دنیا سے کیا کام ہے۔ وہ جوش جنون میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ میں نے دیکھا وہی اس کا رب ہاتھوں کے اشاروں سے اسے آہستہ آہستہ اپنی جانب بلا رہا ہے۔ مگر نور کا بادل دونوں کے درمیان حائل ہے۔ روح قرب خداوندی کے لئے مچل پڑی۔ اس نے اپنی دونوں بانہیں اپنے رب کی جانب پھیلا دیں۔ روح ایک ایک کر کے کائنات کی ہر شئے اور ہر مخلوق کا نام لے کر یہی کہتی ہے کہ تو ہی میرا سب کچھ ہے۔ تو ہی میری کائنات ہے اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے ولی کا چہرہ ایک آئینہ ہے۔ جب روح کائنات کی کسی شئے کا نام لیتی ہے تو آئینہ میں اس کا چہرہ ابھر آتا ہے۔ جیسے اس کا ولی، اس کا رب کائنات کی اشیاء کے ماسک پہن کر آئینے میں جلوہ گر ہو رہا ہے۔ جب کائنات کی تمام اشیاء کتم ہوگئیں تو روح نے بھرپور عزم کے ساتھ ایک قدم ولی کی جانب بڑھایا اور ارادے کی تمام تر قوتوں کے ساتھ بول اٹھی۔ اے میرے محبوب! تو ہی میری کائنات ہے، تیری ہی آگ میں میرا تن من جل رہا ہے۔ آج میں جان چکی ہوں کہ تیرے میرے درمیان یہ بادل کیا ہے۔ یہ حجاب خود میرا اپنا وجود ہے۔ روح کی آواز سارے عالم میں گونج اٹھی۔ کائنات کی ہر شئے کے لب پر یہی صدا تھی۔ ولی تیرے اور میرے درمیان میرا اپنا وجود ہی حجاب ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


 


Roohein Bolti Hain

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی

                ‘‘زندگی جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’

                یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔                میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔

                میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔                روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔

                                     دعا گو:

                                                سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

                                                تاریخ: 01-09-94