Topics

روزہ


                ابھی رمضان میں پورے آٹھ دن باقی تھے۔ مگر ہر لمحے رمضان کا تصور حواس پر انتظار کی کیفیت طاری رکھتا تھا۔ مگر اس انتظار میں بھی ایک لطیف کیف تھا۔ اسی کیف میں، میں سارا دن گھر کے کاموں میں مگن رہتی۔ سارے گھر کے پردے دھو ڈالے۔ سارے بستر چادریں رضائی کے غلاف سب کچھ دھو ڈالے، ایک دن تو سارے گھر کی جھاڑ پونچھ میں گزر گیا۔ حتیٰ کہ فرج کو بھی De-frostکر کے صاف کر ڈالا۔ سارا دن مزے مزے میں کام کرتی رہتی۔ تھکن کا ذرا بھی احساس نہ ہوتا۔ بچے کہتے۔ ممی اتنا کام کیوں کر رہی ہیں۔ آپ نے تو سارے گھر کی صفائی کا بیڑہ اٹھا لیا ہے۔ میں مسکرا کے کہتی۔ بیٹے رمضان شریف جو آ رہے ہیں۔ اسی پر ایک دن میرا بیٹا ہنس کے کہنے لگا۔ امی ایسا لگتا ہے جیسے رمضان شریف کوئی شہنشاہ ہے جو ہمارے گھر Visitکے لئے آ رہے ہیں۔ میں نے بھی خوشدلی سے جواب دیا۔ بیٹے! رمضان کا مہینہ تمام مہینوں کا بادشاہ ہی تو ہے۔ جبھی تو سب مہینوں سے مختلف ہے اور اس کی خوشی بھی سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ میرے ساتھ بچے بھی خوشی خوشی گھر کے کاموں میں شریک ہو جاتے۔ اسی طرح چاند رات آ گئی، روزے شروع ہو گئے۔ روز بروز روزوں میں میری کیفیت ہلکی پھلکی ہوتی چلی گئی۔ گھر کے کام کاج تو پہلے ہی کر چکی تھی۔ اب روزوں میں کافی فارغ وقت میسر آ جاتا۔ عبادت کا بھی بہت وقت ملتا۔ دن بھر میں دو تین دفعہ قرآن لے کر بیٹھ جاتی۔ ترجمے میں ایسا ذہن جذب ہوجاتا کہ معنی و مفہوم کے دفتر کھل جاتے۔ میرا جی چاہتا یہ سرور یہ کیفیات کبھی ختم نہ ہوں۔ پندرھواں روزہ تھا۔ آج کل سحری سے ایک گھنٹہ پہلے اٹھ جانا میرا معمول بن چکا تھا۔ اس دوران میں دو نفل پڑھ کر مراقبے میں بیٹھ جاتی اور سحری کے وقت تک اسی حالت میں رہتی۔ اس رات بھی ایسا ہی ہوا۔ میں جیسے ہی مراقبے میں بیٹھی۔ آنکھیں بند کرتے ہی خیال آیا۔ روزہ کیا ہے؟ روح روزے کو کن معنوں میں لیتی ہے۔ روزے کا حکم کیوں دیا گیا ہے؟ اصل بات تو یہ ہے کہ شریعت کے احکام کے مطابق روزے کے معنی و مفہوم میں اچھی طرح جانتی تھی۔ ظاہر ہے کہ وہ تو سبھی جانتے ہیں۔ بس اس وقت عقل کچھ روزے کی گہرائی میں جھانکنا چاہتی تھی۔ میرے ذہن میں روزے سے متعلق آیات آنے لگیں:

                ‘‘اے ایمان والو! تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں۔ جس طرح ان لوگوں پر فرض کئے گئے تھے۔ جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ تا کہ تم (روحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے) بچو۔’’

                میرا ذہن بار بار ان آیات کو دہرانے لگا۔ میں سوچنے لگی کہ ہر قوم اور ہر ملت کے لوگوں پر اللہ تعالیٰ نے روزے رکھنے کا حکم نوع انسانی کے آغاز سے ہی فرض قرار دیا ہے۔ جسم تو روزے میں کھانے پینے سے رک جاتا ہے۔ بھلا روح کیسے روزہ رکھتی ہے، کیا وہ بھی بھوکی رہتی ہے؟ میرے تو ذہن کی سوئی جیسے اسی خیال پر اٹک کر رہ گئی۔ روح کیسے روزہ رکھتی ہے؟ میں اندر ہی اندر روح سے مخاطب ہوئی۔ اچھی روح! مجھے معلوم ہے کہ تم میرے ذہن کے ہر خیال سے خواب اچھی طرح واقف ہو۔ مجھے روزے کی روحانی حقیقت سے آشنا کر دو تا کہ میں اللہ تعالیٰ کے امر کی حکمت سے واقف ہو جائوں۔ دوسرے ہی لمحے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میں ایک تاریک جگہ میں تیزی سے آگے بڑھتی جا رہی ہوں۔ باوجود تاریکی کے میرے رفتار نہایت ہی تیز ہے اور مجھے قطعی خوف بھی نہیں ہے۔ چند لمحوں بعد نظر کے سامنے روشنی آ گئی۔ پہلے تو یہ روشنی صبح کے اجالے کی مانند ملگجی سی لگی۔ پھر آہستہ آہستہ دن کے اجالے کی مانند بڑھتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ نگاہ کے سامنے نور کی جگمگاتی فضا آ گئی۔ مگر میں اسی تیزی سے آگے بڑھتی رہی۔ تھوڑی دیر کے بعد کیا دیکھتی ہوں کہ روح ایک ملکوتی اپسرا کے روپ میں سامنے کھڑی ہے۔ میرے بڑھتے قدم ایک دم رک گئے۔ روح کی ملکوتی مسکراہٹ نے میرے اندر نور بھر دیا۔ کہنے لگی تم یہاں کیا کر رہی ہو؟ میں نے کہا۔ روزے کے دن ہیں۔ میں تو یہ دیکھنے آئی ہوں کہ تم کیسے روزہ رکھتی ہو۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ کیا واقعی تم یہ دیکھنے آئی ہو۔ میں نے کہا۔ تو اور کیا۔ آخر اللہ تعالیٰ کے احکامات کی گہرائی میں اس کی حکمتوں کو پہچاننا بھی تو ضروری ہے۔ وہ کہنے لگی۔ اچھا پہلے یہ بتائو کہ تم روزے کے متعلق کیا جانتی ہو۔ میں نے کہا کہ روزے سے جسم کو بہت سے فائدے ہیں۔ پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ معدے کو دن بھر آرام مل جاتا ہے۔ پیٹ خالی ہوتا ہے تو ذہن بھی ہر وقت اللہ تعالیٰ کی جانب مبذول رہتا ہے۔ کہنے لگی۔ دراصل روزہ ایک ایسا پروگرام ہے جس میں شعوری حواس کی اسپیڈ کو اس قدر بڑھا دیا جاتا ہے کہ شعور لاشعور یا غیب کے اندر داخل ہو جاتا ہے۔ میں نے پوچھا۔ وہ کیسے۔ کہنے لگی۔ تم نے شب قدر کی سورۃ پڑھی ہے۔ تم جانتی ہو کہ اس کے اندر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ کہ شب قدر بہتر ہے ہزار مہینوں سے۔ ہزار مہینوں میں تیس ہزار دن اور تیس ہزار راتیں ہوتی ہیں۔ یعنی حواس کی اسپیڈ جب شب قدر میں ساٹھ ہزار گنا نارمل حواس سے زیادہ ہو جاتی ہے تو ملائیکہ اور روح القدر دکھائی دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ بات بتانا چاہتے ہیں کہ روزہ رکھنے سے حواس کی رفتار اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ غیب سامنے آ جاتا ہے۔ حواس کی رفتار جتنی زیادہ تیز ہو گی اتنی ہی بلندی پر نظر کے سامنے انوار و تجلیات آئیں گے۔ نظر جس طرح ظاہر میں دیکھتی ہے اسی طرح غیب میں دیکھتی ہے۔ مگر غیب میں دیکھنے کے لئے شعوری حواس کی رفتار لاشعور حواس کے برابر ہونی چاہئے۔ جب ہی شعور غیب کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔ میں نے کہا۔ وہ کس طرح۔ اگر میں تیز دوڑتی ہوں تو مجھےر استے کی کوئی چیز اچھی طرح دکھائی نہیں دیتی۔ راستے کے درخت، گھر سب کچھ بس چشم زدن سے اس طرح گزر جاتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا کیسے ہیں۔ کہنے لگی۔ یہی تو میں بھی کہہ رہی ہوں کہ شعور لاشعور دونوں کی رفتار برابر ہونی چاہئے۔ لاشعور راستہ ہے، شعور مسافر ہے۔ راستے کی ہر شئے بے حس و حرکت ہے۔ جبکہ مسافر دوڑ رہا ہے۔ دونوں کی رفتار برابر کب ہوئی۔ اب مجھے اپنی نادانی کا احساس ہوا۔ میں ایک دم بول پڑی۔ اچھی روح واقعی تم بالکل درست کہتی ہو۔ کہنے لگی یا تو تم بھی رک جائو جیسے راستے کی اشیاء ٹھہری ہوئی ہیں یا پھر راستے کی اشیاء بھی تمہارے ساتھ دوڑنے لگیں تب تم اچھی طرح انہیں دیکھنے لگو گی۔ کہنے لگی۔ غیب سارے کا سارا متحرک ہے۔ غیب کی حرکت اللہ تعالیٰ کے امر ‘‘کن’’ کی حرکت ہے۔ جو اللہ پاک کے ارادے سے عمل میں آئی ہے۔ جب بندے کے حواس کی رفتار امر کن کے برابر ہو جاتی ہے تو ہر شئے اس کی نظر کے مقابل آ جاتی ہے۔ میں نے روح سے پوچھا۔ ساری کائنات اللہ پاک کے کن کہنے سے وجود میں آئی ہے۔ پھر کائنات کی اشیاء میں گردشوں کی رفتار کیوں مختلف ہے۔ لاشعور میں حواس کیوں تیز رفتاری سے کام کرتے ہیں۔ جبکہ شعوری حواس مادیت میں سست رفتار ہیں۔ کہنے لگی۔ شعور مسافر ہے اور مسافر جب اپنے سفر کا آغاز کرتا ہے۔ تو وہ ایک ہی قدم سے شروع کرتا ہے۔ میلوں لمبے راستے پر سفر کا آغاز ایک قدم سے ہی کیا جاتا ہے۔ اسی طرح فرد کا شعور جب غیب میں کائنات کے سفر پر روانہ ہوتا ہے تو وہ بھی اپنے سفر کا آغاز ایک نقطے سے کرتا ہے۔ یہی نقطہ دنیا میں پیدا ہونے والا بچہ ہے۔ جیسے جیسے بچے کا شعور بڑھتا جاتا ہے۔ وہ دنیا میں ظاہری اشیاء کو بھی پہچانتا جاتا ہے اور شعور کی اندرونی سطح پر یعنی حواس کے دائروں میں کائناتی روشنیوں کا عکس بھی دیکھتا ہے۔ میں نے کہا۔ مگر روزہ کس طرح حواس کی رفتار کو بڑھاتا ہے؟ روح بولی۔ تمام حواس کا مجموعہ آنکھ ہے۔ حواس کی رفتار کو بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ دائرہ نگاہ میں وسعت پیدا ہو جانا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کن کہہ کر جو کچھ پیدا کیا ہے سب کچھ موجود ہے۔ کوئی شئے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ میں فوراً بول پڑی۔ مگر مجھے تو یہاں ہر چیز تلاش کرنی پڑتی ہے۔ وہ بولی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمہاری آنکھ کائنات کے دائرے میں بیک وقت دیکھ نہیں سکتی۔ جیسے جیسے تمہاری آنکھ کا دائرہ نگاہ بڑھتا جاتا ہے۔ ویسے ویسے تم اس دائرے کے اندر موجود اشیاء سے واقف ہوتی جاتی ہو۔ روح نہایت ہی مفکرانہ انداز میں کہنے لگی۔ جب آدمی کھانا کھاتا ہے تو کھانے کی مادی روشنیاں معدے کے اندر حل ہو کر خون میں شامل ہو جاتی ہیں اور دوران خون کے ذریعے یہ روشنیاں سارے بدن میں پھیل جاتی ہیں۔ جس سے ذہن اور عقل و شعور بھی متاثر ہوتے ہیں اور دماغ بوجھل ہو جاتا ہے۔ شعور و ذہن سست پڑتا جاتا ہے۔ کھانا کھانے کے بعد عموماً سستی کی وجہ سے نیند آنے لگتی ہے اور آدمی چاق و چوبند نہیں رہتا۔ جب آدمی روزہ رکھتا ہے تو دل میں یہ تصور ہوتا ہے کہ وہ اللہ پاک کے حکم کی تعمیل کر رہا ہے۔ چنانچہ کام کے آغاز سے پہلے ہی اس کے ذہن کا رابطہ اللہ تعالیٰ کے تصور سے قائم ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا معدہ بھی مادی روشنیاں یعنی کھانے سے خالی رہتا ہے۔ مادی روشنیاں کثیف اور بوجھل ہیں۔ جب معدہ خالی ہوتا ہے۔ تو اللہ کے تصور کے انوار معدے میں جذب ہونے لگتے ہیں۔ اس طرح خون کے اندر کثیف روشنیوں کی جگہ لطیف روشنیاں شامل ہونے لگتی ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے تصور کی نور کی رو ذہن سے قلب اور نفس یعنی شعور کی جانب بہنے لگتی ہے اور شعور نور کی توانائی سے تیز رفتار ہو جاتا ہے۔ یعنی قلب کی آنکھ اور شہود کی نگاہ بڑھ جاتی ہے اور وہ شہود کی آنکھ سے غیب میں مشاہدہ کرتا ہے۔ اپنے کلام میں روزے کے احکام کے متعلق اللہ پاک فرماتے ہیں۔

                ترجمہ:‘‘اور کھائو پیو۔ یہاں تک کہ تمہیں صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے۔ اس کے بعد صبح سے رات تک روزے کی تکمیل کرو۔’’ سورۃ بقرہ آیت نمبر187

                صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے سے مراد یہ ہے کہ شعوری حواس اور لاشعوری یا روحانی حواس میں واضح طور پر تمیز اور پہچان کرنا۔ پھر صبح سے رات تک روزے کی تکمیل کرنے سے مراد ہے۔ اپنے ارادے سے لاشعوری حواس کے اندر داخل ہونا۔ اللہ پاک اس آیت میں یہ فرما رہے ہیں کہ روزے کی حالت میں بندہ اپنے ارادے سے غیب میں داخل ہو سکتا ہے۔

                میں نہایت ہی انہماک سے روح کو دیکھ رہی تھی۔ اس کے ملکوتی حسن میں بار بار انوار کی جھلکیاں دکھائی دیتیں۔ میری آنکھوں روح کے جمال سے خیرہ ہونے لگیں۔ اس کے حسن کی روشنیاں میری آنکھوں میں جذب ہوتی محسوس ہوئیں۔ میں دم بخود اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتی رہی۔ کتنی ہی دیر اس طرح گزر گئی۔ اتنے میں روح کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ اے بنت رسولﷺ! روزے کی جزا خود ذات خالق ہے۔ اس کی آواز پر میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ ایک چکا چوند سی ہوئی اور میری نگاہ کے سامنے سے منظر ہی بدل گیا۔ کیا دیکھتی ہوں کہ دور بہت دور عرش بریں پر روح احسن الخالقین کا شاہکار بنی مسند خلافت پر جلوہ افروز ہے۔ یہ نور کا ایک عظیم الشان تخت ہے۔ اس کی نظریں خلاء میں اس طرح دیکھ رہی ہیں۔ جیسے اسے کسی کا انتظار ہے۔ اتنے میں اس کے لبوں پر عجیب سے الفاظ آ گئے۔ میں باوجود کوشش کے ان الفاظ کو سمجھ نہ سکی۔ بس مجھے اس کے صوتی اثرات نہایت ہی دلکش اور لطیف محسوس ہوئے۔ اس قدر دلکش کہ میرے اوپر جیسے وجد سا طاری ہو گیا۔ اس وجد کے ساتھ ہی ایک عجیب سی کیفیت مجھ پر طاری ہو گئی۔ مجھے یوں لگا۔ جیسے مجھے اپنے رب کی تلاش ہے۔ اپنے خالق کا انتظار ہے۔ مگر اس انتظار میں سرور و کیف تھا، انتظامیہ یہ اضطراب نہ تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ کتنی دیر میں روح صوت سرمدی کی آواز میں کیفیت سرور میں ڈوبی رہی۔ کہ ایک دم سے یہ آواز بند ہو گئی۔ میں نے استغراقی کیفیت میں روح کی جانب دیکھا۔ ایک نور کا بادل آہستہ آہستہ اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس بادل نے روح کو اپنے اندر ڈھانپ لیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے رب نے روح کو اپنی آغوش میں لے لیا ہے۔ ابدی تحفظ نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ عشق حقیقی کی لطافت میرے رگ و ریشے میں دوڑنے لگی۔ بے ساختہ میرے لبوں سے یہ الفاظ نکل گئے۔ بلاشبہ روزے کی جزا خود ذات باری تعالیٰ ہے۔ میرا جی چاہا۔ میں چیخ چیخ کر ساری دنیا کو یہ بات سنا دوں۔ روزے کی جزا خود محبوب ہے۔ میرا دل اندر اندر ہی پکار اٹھا۔ اے لوگو! روزے کے انوار اپنے قلب و نظر میں ذخیرہ کر لو۔ یہی نور تمہارے قلب میں نظر بن کر ظاہر ہو گا۔ ذرا دیکھ تو سہی۔ ہمارے رب نے ہمارے لئے کیسی کیسی نعمتیں رکھی ہیں۔ ہر نعمت سے بڑھ کر اس کا جمال و نور ہے۔ تمہارے قلب کا نور ہی جس کا ادراک کر سکتا ہے۔ کیفیات کی گہرائی میں میرے لبوں پر روح کا کلام آ گیا۔ میں خود اپنی شیریں سخنی پر حیران رہ گئی۔ اسی لمحے شعور کو جھٹکا لگا اور استغراقی کیفیت سے نکل آیا۔


 


Roohein Bolti Hain

سَیّدہ سَعیدہ خَاتون عَظیمی

                ‘‘زندگی جب زندگی سے گلے ملتی ہے تو ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔’’

                یوں تو ہر آدمی ‘‘جیتا مرتا ہے’’ مگر میں نے اس جملہ پر غور کیا تو شعور لرزنے لگا۔ غنودگی نے مجھے اپنی آغوش لے لیا۔ تیز کرنٹ کا جھٹکا لگا۔ یہ کرنٹ پیروں میں سے زمین میں ارتھ ہوا…………دھوئیں کی لاٹ کی طرح کوئی چیز اوپر اٹھی اور یہ دھواں خدوخال میں تبدیل ہو گیا۔مجھے حیرت ہوئی کہ یہ سعیدہ خاتون عظیمی تھی۔                میں نے اپنی روح کو اداس’ بے چین’ ضعیف و ناتواں اور ادھورا دیکھا تو دل ڈوبنے لگا۔ ڈوبتے دل میں ایک نقطہ نظر آیا۔ اس نقطہ میں حد و حساب سے زیادہ گہرائی میں مرشد کریم کی تصویر دیکھی۔ لاکھو ں کروڑوں میل کی مسافت طے کر کے اس تصویر تک رسائی ہوئی۔

                میری روح جو جنم جنم کی پیاسی تھی’ بے قراری کے عالم میں’ نقطہ میں بند اس تصویر سے گلے ملی تو اسے قرار آ گیا۔ سرمستی میں جھوم جھوم گئی۔ جمود ٹوٹا تو الفاظ کا سیل بے کراں بہہ نکلا اور روح کہانی صفحہ قرطاس پر مظہر بن گئی۔                روح کہانی کتاب’ واردات و کیفیات کے ان علوم پر مشتمل ہے جو مجھے مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی (باباجی) کی روح سے منتقل ہوئے۔ میں یہ علوم اپنی بہنوں کے سپرد کرتی ہوں تا کہ وہ توجہ کے ساتھ ان علوم کو اپنی اولاد میں منتقل کر دیں۔

                                     دعا گو:

                                                سیدہ سعیدہ خاتون عظیمی

                                                تاریخ: 01-09-94